تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میرا باپ میرا سارا مال خرچ کر دیتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد کو بلایا۔ جب والد کو معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی شکایت کی ہے تو انہیں بہت رنج ہوا۔ راستے میں چلتے ہوئے انہوں ن ے دل میں کچھ اشعار کہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پہلے مجھے وہ اشعار سنایئے جو آپ نے راستے میں کہے ہیں۔ وہ مخلص صحابی تھے، سمجھ گئے کہ وہ اشعار جو ابھی تک میرے کانوں نے بھی نہیں سنے، وہ بھی اللہ تعالی نے سن لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر بھی کردی ہے۔ انہوں نے وہ اشعار سنانے شروع کیے۔ خلاصہ کچھ یوں ہے: ”میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور تمہاری ہر ذمہ داری اٹھائی، تمہارا سب کچھ میری کمائی سے تھا۔ جب کسی رات تم بیمار ہوجاتے تو میں بیداری میں رات گزارا دیتا۔ میرا دل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا، حالانکہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔ جب تو اس عمر کو پہنچ گیا تو پھر تم نے میرا بدلہ سخت روئی اور سخت گوئی سے دیا۔ جیسا کہ تم مجھ پر احسان و انعام کررہے ہو۔ کم از کم اتنا ہی حق مجھے دے دیتے جتنا ایک شریف پڑوسی دیتا ہے۔ کم از کم مجھے پڑوسی کا حق ہی دیا ہوتا……“ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اشعار سنے تو بیٹے سے فرمایا کہ ”تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے……“
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
بے شک جن نے اپنی جوانی اپنی خوشیاں اولاد کی خوشیوں کے لئے قر بان کردی ہوں انہیں پیسے مانگنے کا موقع نہیں دینا چاہے بلکہ خود ان کی جیب میں ڈالدے جائییں ۔۔ باپ مانگتےاچھا نہیں لگتے
باپ دیتے ہوئے اچھا لگتے ہیں میرے والد رحمۃ اللہ جب میرے پاس آتے تو کھلے پیسے اسوقت پانچ کا نوٹ چلتا تھا وہ کافی سارے انکی جیب میں ڈالدیتا وہ کہنے لگے بیٹا مجھے حاجت نہیں ہے تو میں نے عرض کی آپ کے جو پوتے ہین جب آپ کے پاس آئیں تو آپ انہیں ایک ایکیہ نوٹ دیدیں گے تو زیادہ آپکے پاس بیٹھیں گے انہیں پتہ ہوگا دادا ابو کے پاس جانے سے پیسے ملتے ہیں
 

طارق فاروق

وفقہ اللہ
رکن
ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میرا باپ میرا سارا مال خرچ کر دیتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے والد کو بلایا۔ جب والد کو معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی شکایت کی ہے تو انہیں بہت رنج ہوا۔ راستے میں چلتے ہوئے انہوں ن ے دل میں کچھ اشعار کہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پہلے مجھے وہ اشعار سنایئے جو آپ نے راستے میں کہے ہیں۔ وہ مخلص صحابی تھے، سمجھ گئے کہ وہ اشعار جو ابھی تک میرے کانوں نے بھی نہیں سنے، وہ بھی اللہ تعالی نے سن لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر بھی کردی ہے۔ انہوں نے وہ اشعار سنانے شروع کیے۔ خلاصہ کچھ یوں ہے: ”میں نے تجھے بچپن میں غذا دی اور تمہاری ہر ذمہ داری اٹھائی، تمہارا سب کچھ میری کمائی سے تھا۔ جب کسی رات تم بیمار ہوجاتے تو میں بیداری میں رات گزارا دیتا۔ میرا دل تمہاری ہلاکت سے ڈرتا رہا، حالانکہ میں جانتا تھا کہ موت کا ایک دن مقرر ہے۔ جب تو اس عمر کو پہنچ گیا تو پھر تم نے میرا بدلہ سخت روئی اور سخت گوئی سے دیا۔ جیسا کہ تم مجھ پر احسان و انعام کررہے ہو۔ کم از کم اتنا ہی حق مجھے دے دیتے جتنا ایک شریف پڑوسی دیتا ہے۔ کم از کم مجھے پڑوسی کا حق ہی دیا ہوتا……“ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اشعار سنے تو بیٹے سے فرمایا کہ ”تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے……“
اس حدیث کا حوالہ نمبر دے دیں پلیز
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اس حدیث کا حوالہ نمبر دے دیں پلیز
جہاں سے یہ روایت لی گئی ہے وہاں پردرج ذیل حوالہ موجود تھا
رواه الطبراني و البيهقي دیکھئے تفسیر قرطبی

امام طبرانی نے المعجم الصغير ( رقم : 947 ) والأوسط (رقم الحديث 6570 )، والبيهقي نے اپنی کتاب دلائل النبوة ص 305 )
 
Last edited:
Top