حضرت لقمان

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت لقمان کے بارے میں راجح بات یہی ہے کہ وہ نبی نہیں، بلکہ ایک دانشمند شخص تھے، وہ کس زمانے میں تھے؟ اور کس علاقے کے باشندے تھے، اس کے بارے میں بھی روایات بہت مختلف ہیں، جن سے کوئی حتمی نتیجہ نکالنا مشکل ہے، بعض روایات میں ہے کہ وہ یمن کے باشندے تھے اور حضرت ہودؑ کے جو ساتھی عذاب سے بچ گئے تھے، ان میں یہ بھی شامل تھے، اور بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ حبشہ سے تعلق رکھتے تھے، لیکن قرآن کریم نے ان کا جس غرض سے تذکرہ فرمایا ہے، وہ ان تفصیلات کے جاننے پر موقوف نہیں ہے، یہ بات واضح ہے کہ عرب کے لوگ ان کو عظیم دانشور سمجھتے تھے، اور ان کی حکمت کی باتیں ان کے درمیان مشہور تھیں، جاہلیت کے زمانے کے کئی شعراء نے ان کا تذکرہ کیا ہے، لہذا ان کی باتیں بجا طور پر ان اہل عرب کے سامنے حجت کے طور پر پیش کی جا سکتی تھیں۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ابن جریر ،ابن کثیر ،سہیلی جیسے مؤرخین کی یہ رائے ہے کہ لقمان حکیم افریقی النسل تھے اور عرب میں ایک غلام کی حیثیت سے آئے ۔نسب نامہ اس طرح بیان کیا جاتاہے۔
لقمان بن عنقا بن سندون یا لقمان بن ثار بن سندون۔
اور یہ بھی لکھتے ہیں کہ وہ سوڈان کے نوبی قبیلہ سے تھے اور پستہ قد، بھاری بدن، سیاہ رنگ ، ہونٹ موٹے ،ہاتھ پیر بھدے تھے مگر نہایت نیک ،زاہد وعابد ،صاحب حکمت آدمی تھے ۔اللہ تعالیٰ نے انھیں علم وحکمت عطا کا ذخیرہ عطا فرمایا تھا اور بعض مؤرخین یہ بھی لکھے ہیں کہ وہ حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانے میں عدالت کے قاضی تھے ۔
" حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے فرماتے ہیں لقمان حبشی غلام تھے اور نجاری کا پشہ کرتے تھے۔
مشہور مؤرخ محمد بن اسحق کہتےہیں کہ لقمان حکیم عرب کے مشہور قبیلہ عاد سے یعنی عرب با ئدہ کی نسل سے تھے اور غلام نہ تھے بلکہ بادشاہ تھے۔ (ہدایت کے چراغ ۔ج:۲ ص: ۱۷۶)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مفتی تقی عثمانی صاحب سورہ لقمان کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ حضرت لقمان اہل عرب ایک بڑے عقل مند اور دانشور کی حیثیت سے مشہور تھے، ان کی حکیمانہ باتوں کو اہل عرب بڑا وزن دیتے تھے، یہاں تک کہ شاعروں نے اپنے اشعار میں ان کا ایک حکیم کی حیثیت سے تذکرہ کیا ہے، قرآن کریم نے اس سورت میں واضح فرمایا ہے کہ لقمان جیسے حکیم اور دانشور جن کی عقل و حکمت کا تم بھی لوہا مانتے ہو وہ بھی توحید کے قائل تھے، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی شریک ماننے کو ظلم عظیم قرار دیا تھا، اور اپنے بیٹے کو وصیت کی تھی کہ تم کبھی شرک مت کرنا، اس ضمن میں اس سورت نے ان کی اور بھی کئی قیمتی نصیحتیں ذکر فرمائی ہیں، جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کی تھیں
 
Top