حنین کی جنگ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حنین کی جنگ کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ جب آنحضرتﷺ نے مکہ مکرمہ فتح کر لیا تو آپ کو یہ اطلاع ملی کہ عرب کا ایک مشہور قبیلہ بنو ہوازن اپنے سردار مالک بن عوف کی سر کردگی میں آپ پر حملہ کرنے کے لیے ایک بڑ لشکر جمع کر رہا ہے۔ ہوازن ایک بڑا قبیلہ تھا جس کی کئی شاخیں تھیں، اور طائف کا قبیلہ ثقیف بھی اسی کا ایک حصہ تھا۔ آنحصرتﷺ نے اپنے جاسوس بھیج کر خبر کی تصدیق فرمائی۔ اور معلوم ہوا کہ خبر صحیح ہے، اور وہ لوگ بڑے جوش و خروش سے تیار میں مصروف ہیں۔ ہوازن کے لوگوں کی تعداد حافظ ابن حجرؒ کے بیان کے مطابق چوبیس ہزار سے اٹھائیس ہزار تک تھی، چنانچہ آپ چودہ ہزار صحابہ کرام پر مشتمل ایک لشکر لے کر روانہ ہوئے اور یہ جنگ حنین کے مقام پر لڑی گئی جو مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیان مکہ مکرمہ سے تقریباً دس میل کے فاصلے پر واقع ایک دادی کا نام ہے۔ چونکہ مسلمانوں کی تعداد اس موقع پر چودہ ہزار تھی، جبکہ اس سے پہلے اتنی بڑی تعداد کسی باقاعدہ جنگ میں نہیں ہوئی تھی، اور ہمیشہ مسلمان اپنی کم تعداد کے باوجود تح پاتے اآئے تھے، اس لیے بعض مسلمانوں کے منہ سے یہ نکل گیا کہ آج تو ہماری تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ہم کسی سے مغلوب ہو ہی نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کے بجائے اپنی تعداد پر اتنا بھروسہ کریں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ جس وقت مسلمان ایک تنگ گھاٹی سے گذر رہے تھے، ہواز کے تیر اندازوں نے اچانک ان پر اس زور کا حملہ کیا کہ بہت سے مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ میدان جنگ سے پیچھے ہٹ گئے۔ اس موقع پر حضرت رسول کریمﷺ اپنے چند جانباز صحابہ کے ساتھ ثابت قدم رہے اور آپ نے حضرت عباسؓ کو حکم دیا کہ وہ پیچھے ہٹنے والوں کو آواز دے کر بلائیں۔ حضرت عباسؓ کی آواز بہت تیز تھی، وہ ایک بجلی کی طرح مسلمانوں کے لشکر میں پھیل گئی۔ اور جو لوگ میدان چھوڑ چکے تھے، وہ نئے ولولے کے ساتھ واپسا آئے اور کچھ ہی دیر میں جنگ کا پانسہ پلٹ گیا۔ ہوازن کے ستر سردار مارے گئے۔ مالک بن عورف اپنے اہل و عیال اور مال و دولت کو چھوڑ کر فرار ہوا، اور طائف کے قلعے میں جا کر پناہ لی۔ چھ ہزار افراد جنگی قیدی بنائے گئے اور بڑی تعداد میں مویشی اور چار ہزار اوقیہ چاندی مال غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ لگی۔
 
Top