سیدنا حضرت خواجہ معین الدین حسن سجزی اجمیری

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سیدنا حضرت خواجہ معین الدین حسن سجزی اجمیری
  • خواجۂ خواجگان ِ ہند ،مدار خانوادۂ چشتیاں ،سر چشمۂ ہدایت ہندوستان ،شیخ الاسلام والمسلمین حضرت سیدنا معین الدین چشتی اجمیری ،سلطان الہند!کسے معلوم ہے آپ کی مقدس وپاکیزہ شخصیت کیا تھی ؟ اور دین اسلام کو آپ کی ذت اقدس سے کتنی رونق ملی اور کتنا پھیلاؤ اس ملک میں آپ سے حاصل ہوا۔ سنئے ! جواب میر خورد صاحب سیر الاولیاء کی زبان قلم سے سنئے ،یہ کتاب فاری زبان میں ہے ،حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علیہ الرحمہ نے تاریخ دوت وعزیمت میں اس کی عبارت کا اردو تر جمہ فرمایا ہے ۔ ملاحظہ فر مایئے ، فرماتے ہیں :
  • ملک ہندوستان کے آخری مشرقی کنارے تک کفر وشرک کی بستی تھی ،اہل تمرد انا ربکم الاعلی کی صدا لگارہے تھے ،اور خدا کی خدائی میں دوسری ہستیوں کو شریک کرتے تھے اینٹ پتھر ، درخت ، جانور ،گائے وگوبر کو سجدہ کرتے تھے ، کفر کی ظلمت سے ان کے دل تاریک اور مقفل تھے۔
  • ہمہ غافل از حکم دین وشریعت ۔
  • ہمہ بے خبر از خدا وپیمبر
  • نہ ہر گز کسے دیدہ ہنجار قبلہ
  • نہ ہر گز شنیدہ کسے اللہ اکبر
  • سب دین وشریعت کے حکم سے غافل تھے ،خدا وپیمبر ے بے خبر تھے ، نہ کسی نے کبھی قبلہ کی سمت پہچا نی ،نہ کسی نے اللہ اکبر کی صدا سنی۔
  • اس آفتاب اہل یقین یعنی حضرت خواجہ معین الدین کے قدم مبارک کا اس ملک میں پہنچنا تھا کہ یہاں کی ظلمت نور اسلام سے بدل گئی ۔ان کی کوشش وتا ثیر سے ایساا ہوا کہ کہ جہاں شعائر شرک تھے وہاں مسجد ومحراب ومنبر نظر آنے لگے ، جو فضا شرک کی صداؤں سے تھرا رہی تھی ،وہ نعرۂ اللہ اکبر سے گو نجنے لگی ۔
  • اس ملک میں جس کو دوت اسلام ملی اور قیامت تک جو بھی ہ اس دولت سےمشرف ہو گا، نہ صرف وہ بلکہ اس کی اولاد در اولاد ، نسل در نسل سب ان کے نامۂ اعمال میں ہوں گے ،اور اس میں قیامت تک جو اضافہ ہوتا رہےگا اور دائرہ اسلام وسیع ہو تا ہے گا ،قیامت تک اس کا ثواب شیخ الاسلام معین الدین حسن سنجزی کی رو ح کو پہنچتا ہے گا۔( تاریخ دعوت وعزیمت ۔ج:۳)
  • حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ کی ولادت با سعادت ۵۳۷؁ھ میں سجتان میں ہو ئی ،اسی کی طرف نسبت کر کے انھیں " سجزی" لکھا اور بولاا گیا ، مگر کا تبوں نےاسے غلط فہمی سے " سنجری " کردیا ،سنجر صحیح نہیں ہے ،سجزی درست ہے ۔
  • حضرت عمر پندرہ سال کی ہو ئی تو والد محترم کا انتقال ہو گیا ، ترکے میں انھیں اک باغ ملا ،ایک مدت تک یہی باغ حصول معاش کا ذریعہ رہا ،ایکروز ایک مجذوب بزرگ حضرت ابراہیم قندوزی آئے ،حضرت خواجہ نے ان کی خدمت میں انگور کے خوشے پیش کئے، لیکن انہوں نے انگور نہیں کھایا اور کھلی کے ایک ٹکڑے کو دانتوں سے چبا کر خواجہ صاحب کے منہ میں دیا ، کھلی کا کھانا تھا کہ حضرت کا دل نور الہی سے رو شن ہو گیا ، علائق دنیا چھوڑ کر طلب خدا میں اٹھ کھڑے ہو ئے ، بخار اوسمر قند پہنچے ، جہاں کلام مجید حفظ کیا ،اور علوم ظاہری کی تعلیم میں مشگول رہے ( بزم صوفیہ )
  • پھر خواجہ صاحب سمر قبد سے نکل کر عراق کی جانب روانہ ہو ئے ، قصبہ ہارون میں حضرت شیخ عثمان ہا رونی قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور ان سے شرف بیعت حاصل کیا ، بیعت کے وقت مرشد نے مرید سے وضو کرایا ۔ دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دیا ، پھر فرمایا کہ قبلہ رو ہو کر سورہ بقرہ پڑھو، اس کے بعد اکیس مرتبہ درود شریف پڑھویا ، پھر ساٹھ مرتبہ سبحان اللہ ،اس کے بعد آسمان کی طرف اپنا چہرٔہ مبارک اٹھایا ۔اور مرید کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :ترا بخدا رساندم ومقبول حضر او گردانیدم ( بزم صوفیہ ) تجھ کو میں خدا تک پہنچادیا اور ان کے دربار کا مقبول بنا دیا ۔
  • پھر عرصہ تک مرشد گرامی کی خدمت میں ہے ، بیعت کے بعد خواجہ عثمان ہارونی قدس سرہ کے ساتھ مکہ کا سفر کیا ، خاجہ صاحب فرماتے ہیں :
  • پھر خانہ کعبہ کی زیارت کی ،اس جگہ بھی خواجہ صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے خدا کے سپرد کیا ،اور خانہ کعبہ کے پر نالے ( میزا رحمت) کے نیچے اس درویش کے بارے میں مناجات کی ،تو آواز آئی کہ میں نے معین الدین کو قبول کیا ، جب وہاں سے لوٹ کر ہم رسول خدا کی زیارت کے لیے آئے،تو فرمایا سلام کرو میں نے سلام کا ،آواز آئی وعلیکم السلام ! جب یہ آواز آئی تو خواجہ صاحب ن ےفرمایا کہ تمہارا کام مکمل ہو گیا ۔
  • مدینہ منورہ میں میں بارگاہ رسالت سے حضرت خواجہ صاحب کو ہندوستان جانے کی بشارت ملی ۔
  • حضرت خواجہ صاحب نے ایک عرصہ تک سیر وسیاحت کی ۔اسی دوران سیدنا عبد القادر جیلانی کی خدمت میں بھی پہنچے ،اور ستاون روز ان کی خدمت میں ھاضر رہ کر فیوض وبرکات حاصل کئے ( بزم صوفیہ)
  • حضرت خواجہ ساحب مختلف بزرگوں کے پاس تشریف لے جاتے رہے ، ریاضات ومجاہدات میں مشغول رہے ،اکثر عشاء کے وجو سے فجر کی نماز پڑھتے ر،پھر اس سیر وسیاحت کے دوران ہندوستان آنے کا قصد کیا تو پہلے لاہور تشریف لائے ،اور حضرت شیخ ابو الحسن ہجوریؒ کے آستان مبارک پر قیام فرمایا ، پھروہاں سے ہلی تشریف لائے دہلی سے اجمیر کا رخ فرمایا
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
  • بزم صوفیہ کے مصنف سد صباح الدین عبد الرحمن لکھتے ہیں :
"سیر العارفین کے مؤلف کا بیان ہے کہ حضرت خواجہ دہلی میں لوگوں کے ہجوم سے گھبرا گئے ،تو اجمیر تشریف لائے ،اس زمانے میں اجمیر اور دہلی کاا حکمراں چو ہان خاندان کا مشہورراجہ رائے پتھورا تھا، اسکے مقربین نے خواجہ صاحب کے قیام میں بڑی مزاحت کی،اور جب انھوں نے حضرت خواجہ کی عظمت وکرامت کے مقابلے میں اپنے آپ کو بے بس اور لا چار پایا تو ہندو جو گیوں کو خواجہ صاحب کو مغلوب کر نے کے لیے مامور کیا، ان میں تذکرہ نگار نمایاں طور پر جو گی جے پال کا ذکر کرتے ہیں ،جس سے حضرت خواجہ صاحب کے بڑے معرکے ہو ئے ، لیکن حضرت خواجہ صاحب اپنی رو حانی قوت سے اس پر غالب رہے، اس نے متاثر ہو کر حضرت خوجہ صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا، انھوں نے اس کا اسلامی نام عبد اللہ رکھا اور خلافت بھی مرحمت فرمائی"
حضرت خواجہ کے رُشد وہدایت کا سلسلہ برابر جاری رہا، سیر الاولیا میں ہے:
"ایک مسلمان حضرت شیخ معین الدین قدس اللہ سرہ العزیز سے تعلق رکھنے والا رائے پتھورا کے دربار میں تھا، اس نے اس مسلمان کو بہت تکلیف دینی شروع کی،اس نے حضرت خواجہ صاحب کی خدمت میں فریاد کی"
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پتھورا کے ملازمن بھی مشرف باسلام ہو نے لگے تھے ،حضرت خواجہ صاحب کے اثرات بڑھے تو راجہ کی طرف سے ان کو اجمیر سے نکال دینے کی دھمکی ملی ، لیکن حضرت خواجہ نے اس دھمکی پر صرف یہ ارشاد فرمایا:
" پتھورا را زندہ بہ مسلماناں دادیم ( پتھورا کو زندہ ہم نے مسلمانوں کے ہاتھ میں دیا )
چناچہ یہ پیشین گوئی صحیح ثابت ہو ئی ، شہاب الدین غوری نے پتھورا کے خلاف ۵۸۸ھ میں جنگ کی تو پتھورا گرفتار ہو کر مارا گیا۔
شہاب الدین غوری کی فتح کے بعد مسلمانوں کے سیاسی اقتدار اور حضرت خواجہ کے فیوض وبرکات سے ہندوستان اسلام کے نور سے منور ہو گیا ،اسی لیےان کا لقب "وارث النبی فی الہند:" ہے ۔
حضرت خواجہ صاحب تبلیغ اسلام کرتے رہے ،اور جب دہلی سے اجمیر جارہے تے ،تو راستہ میں سات سو ہندوؤں کو مسلمان کیا۔ خزینۃ الاسفیاء میں ہے
" چھوٹےبڑے ہزاروں ہزار افراد، اس محبوب کردگار کی خدمت میں حاضر ہو تے اور مشرف باسلام ہوتے، اور حضرت کی ارادت کا شرف حاصل کرتے، یہاں تک کہ اسلام کا چراغ ہندوستان میں اس خاندان عالیشان ( مشائخ چشت ) کے طفیل خوف روشن ہوا"
حضرت خواجہ تمام عمر عشق الہی میں وارفتہ وبے خود رہے ،اور محبت رسول میں سر شار رہے ،اکثر جب رسول اللہ ﷺ کا ذکر آتا تو رونے لگتے ۔حضرت خواجہ کے ملفوطات دلیل العارفین میں ہے ،فرمایا کہ اس شخص پر افسوس ہے ، جو قیامت کے دن آپ سے شرمندہ ہوگا، وہ کہاں جائے گا ،یہ فرما رہے تھے اور زار زار رو رہے تھے۔ ( مجلس دوم)
حضرت خواجہ رات کو بہت کم سوتے ،اور با العموم عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کرتے ، کلام پاک ایک بار دن میں اور ایک بار رات میں ختم کرتے ،مجاہدہ کے ابتدائی دور میں جب کسی شہر میں وارد ہو تے ،تو قبرستان میں قیام فرماتے ،مگر جب لوگوں کو ان کی خبر ہو جاتی تو وہاں توقف نہ کرتے اور چپ چاپ روانہ ہو جاتے ( بزم صوفیہ)
وفات : وفات کے سسلے میں تذکرہنگاروں نے مختلف سنین کا نام لیا ہے ،بزم سوفیہ میں ۶۲۷ھ کو ترجیح دی ہے ،اور اجمیر میں انکی آمد غالبا ۵۸۸ھ میں ہو ئی ،اس کا مطلب یہ ہوا کہ اجمیر میں آپ کا قیام ۳۹/ سال رہا۔
سیر الاقطاب میں ہے ہ وفات کے دن عشاء کی نماز پڑھ کر آپ نے اپنے حجرہ کا دروازہ بند کر لیا حجرہ کے باہر خانقاہ کے رہنے والوں کے کانوں میں ایسی آواز آتی رہی جیسے کوئی پاؤں وجد کی حالت میں پٹکتا ہو ان کو خیال ہوا کہ خواجہ صاحب پر وجد کا عالم طاری ہے ،اخر شب میں آواز بند ہو گئی ،فجر کی نماز کا وقت ہوا تو دروازہ پر دستک دی گئی لیکن اندر سے کوئی آواز نہ آئی ،جب دروازہکسی طرح کھولا گیا تو لوگوں نے دیکھا کہ اللہ کے حبیب اللہ کی محبت میں جاں بحق ہو چکے ہیں ۔( بزم صوفیہ)
شیخ عبد الحق محدث دہلوی " اخبار الاخیار " میں فرماتے ہیں :
مشہور ہے کہ خواجہ اجمیری کی وفات کے بعد آپ کی پیشانی پر یہ نقش ظاہر ہو ا" حبیب اللہ مات فی حب اللہ ( اللہ کا حبیب ، اللہ کی محبت میں دنیا سے گیا۔ ( تہجد گزار بندے)
 
Top