دو بزرگوں کے دو واقعات

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
دو بزرگوں کے دو واقعات
سید سلمان گیلانی لاہورپاکستان.
1۔حضرت سید عطاءالمنعم خلف الرشید حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری نوراللہ مرقدہ کو حاجی دین محمد مرحوم بادامی باغ والوں نے یہ واقعہ سنایا اور انہوں نے خود میرے والد مرحوم سید امین گیلانی سے بیان کیا وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں شیخ التفسیر قطب الاقطاب حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس سرہ کے ساتھ ٹرین میں حضرت خلیفہ غلام محمد دین پوری رحمةاللہ علیہ سے ملاقات کے لئیے گیا.
جب ہم رات کی گاڑی میں سوار ہوئے لگے تو چونکہ میں نے کھانا نہیں کھایا ہوا تھا اس لئیے میں نےحضرت کو ڈبے میں سوار کروا کے اطمنان سے ان کو سِیٹ پر بٹھا کے پلیٹ فارم سے گرما گرم اُبلے ہوئےکچھ انڈے خرید لئیے تاکہ مناسب موقع ملتے ہی جب حضرت استراحت فرما رہے ہونگے چُپکے سے پیٹ میں انڈیل لونگا. حضرت کو چونکہ راستے میں کھانا پینا پسند نہ تھا اس لئیے مجھےحجاب تھا مبادیٰ کہ حضرت کو میرا راستے میں کھانا گراں گزرے.کچھ وقت گزر جانے کے بعد حضرت آرام کی غرض سےلیٹ گئے,کہتے ہیں تھوڑی دیر گزرنے کے بعد مجھے گمان ہوا کہ حضرت سو گئے ہیں تو میں نے انڈے نکالنے کے لئیے جیب میں ہاتھ ڈالا, ابھی ہاتھ جیب میں گیا ہی تھا کہ حضرت نے آواز دی اور کچھ گفتگو فرمانے لگے. الغرض جب میں بھوک مٹانے کےلئیے انڈے باہر نکالنا چاہوں توحضرت یا تو کچھ بات چیت شروع فرما دیتے یا بلند آواز سے ذکر اللہ میں مشغول ہوجاتے اور یوں باور کرواتے کہ وہ جاگ رہے ہیں. حتّٰی کہ میں نے فیصلہ کر لیا اب انڈے نہیں کھانے,چاہے جتنا مرضی بھوک تنگ کر لے اب پروا نہیں. میں یہ تہیہ کر کے سو گیا.صبح بیدار ہوئے نماز فجر کے بعد جب حضرت اورادو وظائف میں مصروف تھے اسوقت میری آنتیں پہلے سے ہی قل ہواللہ پڑھ رہی تھیں گاڑی صبح جب خانپور اسٹیشن پہنچی تو خوشی ہوئ کہ اب جاتے ہی ناشتہ ملے گا مگر جب اسٹیشن سے اترے تو پتہ چلا کہ دین پور شریف تو یہاں سے تین میل دور ہے. حضرت نے فرمایا کہ حاجی صاحب میری عادت ہے مرشد کی خانقاہ تک میں پیدل ہی جاتا ہوں لہذا پیدل ہی چلیں گے, کہتے ہیں مجھے بھوک نے پہلے ہی ستا رکھا تھا اب تین میل پیدل بھی چلنا پٰڑا. راستے میں حضرت سے چند قدم پیچھے دانستہ رہتا کہ جب موقع ملے دو تین انڈے نکال کر کھا سکوں. حیرت ہے کہ جب بھی میں انڈہ نکال کر دونوں ہاتھ پیچھے کر کے اسے چیھلنا چاہتا تو حضرت آواز دے دیتے, "جی حاجی صاحب" تیز چلئیے نا پیچھے رہ گئے. ساتھ مل جائیے. کہتےہیں میں نے تین بارجب انڈہ چھیل کر مُنہ میں ڈالنا ہی چاہا تو حضرت رح نِیم مُڑ کر آواز دیتے حاجی صاحب تیز چلئیے بھائ, کہتے ہیں ہر بار عجلت میں انڈہ پھینکنا پڑا اور حضرت کے ساتھ جلدی سے برابر ہو کر چلنا پڑا. جب خانقاہ کے قریب پہنچے توحالانکہ حضرت دینپوری رح کو ہمارے آنے کی خبر نہ تھی ہمارے حضرت لاہوری رح کے استقبال کی خاطر کچھ آدمی موجود تھے جنہوں نے بتایا کہ حضرت دین پوری رح نے بھیجا ہے کہ مولانا احمد علی لاہوری آرہے ہیں انہیں ادب سے یہاں خانقاہ تک پہنچاو. وہاں پہنچے تو حضرت اقدس دین پوری خانقاہ کے باہر تشریف فرما تھے, بڑی محبت سے ہمارے ساتھ مصافحہ و معانقہ فرمایا اورحُجرہ میں لے گئے. حجرہ میں دونوں بزرگ مراقبہ میں مشغول ہو گئے آدھ گھنٹہ یہی کیفیت رہی. پھر حضرت دین پوری رح نے فرمایا آپ یہیں تشریف رکھیں میں ناشتہ بھجواتا ہوں. یہ کر وہ تشریف لے گئے اور اب حضرت لاہوری رح میری طرف متوجہ ہوئے , مسکراتے ہوئے فرمایا کیوں حاجی صاحب بہت بھوک لگی ہوئ تھی؟ پھر اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر وہ تینوں انڈے جو میں نے عُجلت اور ندامت سے رستے میں پھینک دئیے تھے میری طرف بڑھا دئیے اور فرمایا رستے میں کھانے پینے سے صبر بہتر تھا. لیجئے اب کھا لیجئیے.

2۔حافظ عبیداللہ صاحب شکر گڑھ (اُس وقت ضلع سیالکوٹ کی تحصیل تھی) میں بہ حیثیت امام و خطیب رہائش پذیر تھے. یہ حضرت مولانا عبداللہ جامعہ رشیدیہ ساہیوال (منٹگمری) والوں کے فرزند ارجمند تھے.ان سے ان کے ایک دوست نے یہ واقعہ بیان کیا کہ ان کےایک عزیز کسی اللہ والے کی تلاش میں تھے جس اللہ والے کی شہرت سنتے اس سے ملنے چلے جاتے اور ہر جگہ سے مایوس ہوتے آخر میں نے پوچھا کہ تماری نظر میں اللہ والے کا کیا معیار ہے اور تمیارے پاس ولایت پرکھنے کا کیا پیمانہ ہے اس نے کہا کوئ کرامت نظر آئے کوئ مافوق العقل واقعہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھوں.
وہ بتاتے ہیں کہ شکرگڑھ میں حضرت اقدس شاہ عبدالقادر رائے پوری قدس سرہ تشریف لائے میں نےاس دوست سے کہا تم بھی چلو. بولا ہاں مگر میں ان کو تب اللہ والا مانوں گا اگر وہ ان دنوں بے موسمے کیلے کھلا دیں. میں نے بڑا سمجھایا بھلا یہ کیا ضد ہے. کیلوں کا موسم ہی نہیں تو کیسے کہاں سے کھلا دیں؟ مگر اس نے اپنی شرط یہی رکھی.
خیر جب وہ صاحب ان کو لے کر حضرت کی قیامگاہ پر آئے اورحضرت سے مل کر ایک کونے میں جا کر بیٹھے تو اچانک ایک اور صاحب ہاتھ میں تازہ اور پُختہ کیلوں کا لُنگر ہاتھ میں لئیے داخل ہوئے, حضرت رائے پوری رح کی خدمت میں جب یہ تحفہ پیش کیا تو حضرت نے فرمایا بھئ میں نے یہ کیلے کیا کرنے ہیں یہ کیلے وہ جو نکڑ میں دوست ہیں انہیں دے دو اور اس دوست سے فرمایا میاں جی بھر کر کیلے کھاو تمہیں کیلے کھانے کا بڑا شوق ہے نا: ہاں سنو جو باقی بچ جائیں وہ گھر بھی ساتھ لے جانا.
یہ کرامت دیکھ کر اس نے سرِ ندامت بھی جُھکا دیا اور سرِ عقیدت بھی خَم کر دیا.
پھر حضرت اقدس کے دستِ حق پرست پر بیعت ہو کر ان کے ارادت مندوں میں شامل ہو گیا.
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو.
یدِ بیضاء لئیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں.
اللہ حافظ.

23/مئ/ 2021
 
Top