شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
تعارف
یہ قرآن کریم کی سب سے لمبی سورت ہے، اس کی آیات ۶۷ تا ۷۳ میں اس گائے کا واقعہ مذکور ہے جسے ذبح کرنے کا حکم بنی اسرائیل کو دیا گیا تھا، اس لئے اس سورت کا نام سورة البقرۃ ہے، کیونکہ بقرہ عربی میں گائے کو کہتے ہیں، سورت کا آغاز اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کے بیان سے ہوا ہے، اسی ضمن میں انسانوں کی تین قسمیں یعنی، مومن، کافر اور منافق بیان کی گئی ہیں، پھر حضرت آدمؑ کی تخلیق کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے، تاکہ انسان کو اپنی پیدائش کا مقصد معلوم ہو، اس کے بعد آیات کے ایک طویل سلسلہ میں بنیادی طور پر خطاب یہودیوں سے ہے جو بڑی تعداد میں مدینہ منورہ کے آس پاس آباد تھے ان پر اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں نازل فرمائیں اور جس طرح انہوں نے ناشکری اور نافرمانی سے کام لیا اس کا مفصل بیان ہے، پہلے پارہ کے تقریباً آخر میں حضرت ابراہیمؑ کا تذکرہ ہے، اس لئے کہ انہیں نہ صرف یہودی اور عیسائی بلکہ عرب کے بت پرست بھی اپنا پیشوا مانتے تھے، ان سب کو یاد دلایا گیا کہ وہ خالص توحید کے قائل تھے اور انہوں نے کبھی کسی قسم کی شرک کو گوارہ نہیں کیا، اسی ضمن میں بیت اللہ کی تعمیر اور اسے قبلہ بنانے کا موضوع زیر بحث آیا ہے، دوسرے پارہ کے شروع میں اس کے مفصل احکام بیان کرنے کے بعد اس سورت میں مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق بہت سے احکام بیان فرمائے گئے ہیں جن میں عبادت سے لے کر معاشرت، خاندانی امور اور حکمرانی سے متعلق بہت سے مسائل داخل ہیں۔
یہ سورت مدنی ہے اور اس میں ۲۸۶ آیتیں اور ۴۰ رکوع ہیں
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
آیت ۱
ترجمہ
الم
تفسیر
مختلف سورتوں کے شروع میں یہ حروف اسی طرح الگ الگ نازل ہوئے تھے، ان کو حروف مقطعات کہتے ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ ان کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا ایک راز ہے جس کی تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں اور عقیدے یا عمل کا کوئی مسئلہ ان کے سمجھنے پر موقوف نہیں۔
آیت ۲
ترجمہ
یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں یہ ہدایت ہے ان کے ڈر رکھنے والوں کے لئے
تفسیر
یعنی اس کتاب کی ہر بات کسی شک و شبہ کے بغیر درست ہے، انسان کی لکھی ہوئی کسی کتاب کو سوفیصد شک سے بالاتر نہیں سمجھاجا سکتا، کیونکہ انسان کتنا ہی بڑا عالم ہو اس کا علم محدود ہوتا ہے اور اکثر اس کی کتاب اس کے ذاتی گمان پر مبنی ہوتی ہے، لیکن چونکہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی ہے جس کا علم لامحدود بھی ہے اور سو فیصد یقینی بھی، اس لئے اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، کسی کو شک ہو تو یہ اس کی ناسمجھی کی وجہ سے ہو گا کتاب کی کوئی بات شبہ والی نہیں۔
اگرچہ قرآن کریم نے صحیح راستہ ہر ایک کو دکھایا ہے خواہ وہ مومن ہو یا کافر اس لئے اس معنی کے لحاظ سے اس کی ہدایت سب کے لئے ہے لیکن نتیجے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس ہدایت کا فائدہ انہی پہنچتا ہے جو اس کی بات کو مان کر اس کے تمام احکام اور تعلیمات پر عمل کریں، اس لئے فرمایا گیا کہ ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لئے جو بے دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں، پرہیز گاری اور ڈر رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھے کہ اسے ایک دن اللہ کے حضور اپنے تمام اعمال کا جواب دینا ہے لہذا مجھے کوئی کام ایسا نہ کرنا چاہئے جو اس کی ناراضی کا باعث ہو اسی خوف اور دھیان کا نام تقویٰ ہے۔ ‘‘ بے دیکھی چیزوں‘‘ کے لئے قرآن کریم نے‘‘ غیب‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتیں، نہ ہاتھ سے چھو کر یا ناک سے سونگھ کر انہیں محسوس کیا جا سکتا ہے، بلکہ وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعے معلوم ہوتی ہیں، یعنی یا تو قرآن کریم میں ان کا ذکر ہے یا آنحضرتﷺ نے وحی کے ذریعے وہ باتیں معلوم کر کے ہمیں بتائی ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کی صفات، جنت و دوزخ کے حالات، فرشتے وغیرہ، اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے ان متقی بندوں کی تعریف کی جا رہی ہے جو غیب کی چیزوں کو بغیر دیکھے صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے ارشادات پر یقین کر کے دل سے مانتے ہیں جو انہوں نے آنکھوں سے نہیں دیکھیں، یہ دنیا چونکہ امتحان کی جگہ ہے، اس لئے اگر یہ چیزیں آنکھوں سے نظر آ جاتیں اور پھر کوئی شخص ان پر ایمان لاتا تو کوئی امتحان نہ ہوتا، اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو انسان کی نگاہ سے پوشیدہ رکھا ہے لیکن ان کے وجود کے بیشمار دلائل مہیا فرما دئے ہیں کہ جب کوئی شخص ذرا انصاف سے غور کرے گا تو ان باتوں پر ایمان لے آئے گا اور امتحان میں کامیاب ہو گا۔ قرآن کریم نے بھی وہ دلائل بیان فرمائے ہیں جو انشاء اللہ آگے آتے رہیں گے ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ قرآن کریم کو حق طلبی کے جذبے سے غیر جانبدار ہو کر پڑھا جائے اور یہ خیال دل میں رکھا جائے کہ یہ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ اس میں لاپروائی برتی جائے۔ یہ انسان کی ہمیشہ کی زندگی کی بہتری اور تباہی کا معاملہ ہے۔ لہٰذا یہ ڈر دل میں ہونا چاہیے کہ کہیں میری نفسانی خواہشات قرآن کریم کے دلائل ٹھیک ٹھیک سمجھنے میں رکاوٹ نہ بن جائیں اس لئے مجھے اس کی دی ہوئی ہدایت کو تلاش حق کے جذبے سے پڑھنا چاہیے، اور پہلے سے دل میں جمے ہوئے خیالات سے ذہن کو خالی کر کے پڑھنا چاہیے تاکہ مجھے واقعی ہدایت نصیب ہو۔ ‘‘ یہ ہدایت ہے ڈرنے والوں کے لئے‘‘ کا ایک مطلب یہ بھی ہے۔
آیت ۳
ترجمہ
جو بے دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے (اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔
تفسیر
جو لوگ قرآن کریم کی ہادیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں یہاں ان کی صفات بیان فرمائی گئ ہیں ان میں سے سب سے پہلی صفت تو یہ ہے کہ وہ‘‘ غیب‘‘ یا ان دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں۔ جس کی تفصیل پیچھے گزر چکی۔ اس میں تمام ایمانیات داخل ہو گئے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا، یا جو کچھ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا اس سب پر ایمان لاتے ہیں۔ دوسری چیز نماز قائم کرنا بیان کی گئی ہے جو بدنی عبادتوں میں سب سے اہم ہے اور تیسری چیز اپنے مال میں سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا جس میں زکوٰۃ و صدقات آ جاتے ہیں جو مالی عبادت ہے۔
آیت ۴
ترجمہ
اور جو اس (وحی) پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں
تفسیر
یعنی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کے جو وحی حضور اکرمﷺ پر اتاری گئی وہ بھی بالکل سچی ہے اور جو آپ سے پہلے انبیائے کرامؑ مثلاً حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰؑ وغیرہ پر نازل کی گئی تھی وہ بھی بالکل سچی تھی اگرچہ بعد میں لوگوں نے اسے ٹھیک ٹھیک محفوظ نہ رکھا بلکہ اس میں تحریف کر دی۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کر دیا گیا کہ وحی کا سلسلہ حضور اکرمﷺ پر ختم ہو گیا، آپﷺ کے بعد کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہو گا جس پر وحی آئے یا اسے پیغمبر بنایا جائے، کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے صرف آنحضرتﷺ پر نازل ہونے والی وحی اور آپ سے پہلے کے انبیاءؑ پر نازل ہونے والی وحی کا ذکر فرمایا ہے آپ کے بعد کی کسی وحی کا ذکر نہیں فرمایا۔ اگر آپ کے بعد بھی کوئی نیا پیغمبر آنے والا ہوتا یا اس کی وحی پر ایمان لانا ضروری ہوتا تو اس کو بھی یہاں بیان فرمایا جاتا جیسا کہ پچھلے پیغمبروں سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ آپ حضرات کے بعد حضور نبی کریمﷺ تشریف لانے والے ہیں آپ کو ان پر بھی ایمان رکھنا ہو گا۔ (دیکھئے قرآن کریم سورة آل عمران آیت ۸۱)
آخرت سے مراد وہ زندگی ہے جو مرنے کے بعد حاصل ہو گی اور جو ہمیشہ کے لئے ہو گی اور اس میں ہر بندے کو دنیا میں کئے ہوئے اعمال کا حساب دینا ہو گا اور اسی کی بنیاد پر یہ فیصلہ ہو گا کہ وہ جنت میں جائے گا یا جہنم میں، اگرچہ یہ آخرت بھی غیب یعنی ان دیکھی چیزوں میں شامل ہے جس پر ایمان لانے کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا تھا، لیکن آخر میں اسے علیحدہ کر کے خصوصی اہمیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت کا عقیدہ ہی در حقیقت انسان کی سوچ اور اس کی عملی زندگی کو صحیح راستے پر رکھتا ہے جو انسان یہ یقین رکھتا ہو کہ ایک دن مجھے اللہ کے سامنے پیش ہو کر اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہے وہ کسی گناہ یا جرم کا ارتکاب پر کبھی ڈھٹائی کے ساتھ آمادہ نہیں ہو گا۔
آیت ۵، ۶
ترجمہ
یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے پروردگار کی طرف سے صحیح راستے پر ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔
بیشک وہ لوگ جنہوں نے کفر اپنا لیا ہے ان کے حق میں دونوں باتیں برابر ہیں، چاہے آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے
تفسیر
یہاں ان کافروں کا ذکر ہو رہا ہے جنہوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ چاہے کتنے واضح اور روشن دلائل ان کے سامنے آ جائیں وہ کبھی آنحضرتﷺ کی دعوت پر ایمان نہیں لائیں گے، حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کفر پر اڑ گئے ہیں۔‘‘ ترجمے میں‘‘ کفر اپنا لیا ہے‘‘ کے الفاظ اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔
‘‘ ڈرانا‘‘ انذار کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ قرآن کریم نے انبیائے کرامؑ کی دعوت کو بکثرت‘‘ ڈرانے‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ کیونکہ انبیاء کرامؑ لوگوں کو کفر اور بداعمالیوں کے برے انجام سے ڈراتے ہیں، لیکن جن لوگوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ کوئی بات ماننی نہیں ہے، ان کو برے انجام سے ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
آیت ۷
ترجمہ
اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لئے زبردست عذاب ہے۔
تفسیر
اس آیت میں یہ واضح فرمایا گیا ہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی بڑی خطرناک چیز ہے، اگر کوئی شخص نا واقفیت یا غفلت وغیرہ کی وجہ سے کسی غلطی کا ارتکاب کرے تو اس کی اصلاح کی امید ہو سکتی ہے، لیکن جو شخص غلطی پر اڑ جائے اور تہیہ کر لے کہ کسی بھی حالت میں بات نہیں ماننا ہے، تو اس کی ضد کا آخری انجام یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے جس کے بعد اس سے حق کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس حالت سے محفوظ رکھے، لہذا اس پر شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ جب خود اللہ تعالیٰ نے ان کے دل پر مہر لگا دی تو معذور ہو گئے اس لئے کہ یہ مہر لگانا خود انہی کی ضد اور تہیہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ حق بات نہیں ماننی۔
آیت ۸
ترجمہ
کچھ لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لے آئے، حالانکہ وہ (حقیقت میں) مومن نہیں ہیں
تفسیر
سورت کے شروع میں مومنوں کے اوصاف اور ان کا انجام خیر بیان فرمایا گیا، پھر ان لوگوں کا ذکر ہوا جو کھلے کافر ہیں، اب یہاں سے ایک تیسرے گروہ کا بیان ہو رہا ہے جسے منافق کہا جاتا ہے یہ لوگ ظاہر میں تو اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے مگر دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
آیت ۹
ترجمہ
وہ اللہ کو اور ان لوگوں کو جو (واقعی) ایمان لا چکے ہیں دھوکا دیتے ہیں اور (حقیقت تو یہ ہے کہ) وہ اپنے سوا کسی اور کو دھوکا نہیں دے رہے لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے
تفسیر
یعنی بظاہر تو وہ اللہ اور مسلمانوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں، کیونکہ اس دھوکے کا انجام خود ان کے حق میں برا ہو گا، وہ سمجھ رہے ہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے وہ کفر کے دنیوی انجام سے بچ گئے، حالانکہ آخرت میں ان کو جو عذاب ہو گا وہ دنیا کے عذاب سے زیادہ سنگین ہے۔
آیت ۱۰
ترجمہ
ان کے دلوں میں روگ ہے چنانچہ اللہ نے ان کے روگ میں اور اضافہ کر دیا ہے اور ان کے لئے دردناک سزا تیار ہے، کیونکہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے
تفسیر
یہ وہی بات ہے جو پیچھے آیت نمبر ۷ میں کہی گئی تھی۔ یعنی شروع میں انہوں نے اپنے اختیار سے اس گمراہی کو اپنایا اور اس پر اڑ گئے، یہ ان کے دل کی بیماری تھی، پھر ان کی ضد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا کہ اب انہیں واقعی ایمان لانے کی توفیق نہیں ہو گی۔
آیت ۱۱ ۔ ۱۴
ترجمہ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم زمین میں فساد نہ مچاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔
یاد رکھو یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم بھی اسی طرح ایمان لے آؤ جیسے دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم بھی اسی طرح ایمان لائیں جیسے بیوقوف لوگ ایمان لائے ہیں؟ خوب اچھی طرح سن لو کہ یہی لوگ بیوقوف ہیں لیکن وہ یہ بات نہیں جانتے
اور جب یہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لا چکے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب یہ اپنے شیطانوں کے پاس تنہائی میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو مذاق کر رہے تھے
تفسیر
’’اپنے شیطانوں‘‘ سے مراد وہ سردار ہیں جو ان منافقین کی سازشوں میں ان کے سربراہ اور رہنما کی حیثیت رکھتے تھے۔
آیت ۱۵
ترجمہ
اللہ ان سے مذاق (کا معاملہ) کرتا ہے اور انہیں ایسی ڈھیل دیتا ہے کہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں
تفسیر
یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی رسی دراز کر رکھی ہے کہ ان کے دوغلے پن کی فوری سزا دنیا میں انہیں نہیں مل رہی ہے، جس سے وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہماری تدبیر کارگر ہو گئی، چنانچہ وہ اپنی اس گمراہی میں اور پختہ ہوتے جا رہے ہیں، آخرت میں انہیں ایک دم پکڑ لیا جائے گا، چونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ عمل ان کے مذاق کا نتیجہ تھا اسے یہاں اللہ ان سے مذاق کرتا ہے کے عنوان سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔
آیت ۱۶، ۱۷
ترجمہ
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے لہٰذا نہ ان کی تجارت میں نفع ہوا اور نہ انہیں صحیح راستہ نصیب ہوا۔
ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک آگ روشن کی پھر جب اس (آگ نے) اس کے ماحول کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نور سلب کر لیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا
تفسیر
یہاں سے ان منافقوں کی مثال دی جا رہی ہے جو اسلام کے واضح دلائل سامنے آنے کے باوجود نفاق کی گمراہی میں پھنسے رہے، اسلام کے واضح دلائل کو آگ کی روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح اس روشنی سے ماحول کی چیزیں صاف نظر آنے لگتی ہیں اسی طرح اسلام کے دلائل سے حقیقت ان پر واضح ہو گئی، لیکن پھر ضد اور عناد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ روشنی ان سے سلب کر لی اور وہ دیکھنے کی قوت سے محروم ہو گئے۔
آیت ۱۸
ترجمہ
وہ بہرے ہیں گونگے ہیں، اندھے ہیں چنانچہ اب وہ واپس نہیں آئیں گے۔۱
یا پھر ان (مناففوں) کی مثال ایسی ہے ۲ جیسے آسمان سے برستی ایک بارش ہو، جس میں اندھیریاں بھی ہوں اور گرج بھی اور چمک بھی۔ وہ کڑکوں کی آواز پر موت کے خوف سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں دے لیتے ہیں۔ اور اللہ نے کافروں کو گھیرے میں لے رکھا ہے
تفسیر
۱۔ منافقوں کی پہلی مثال تو ان منافقین سے متعلق تھی جو اسلام کے واضح دلائل سامنے آنے کے باوجود خوب سوچ سمجھ کر کفر اور نفاق کا راستہ اختیار کئے ہوئے تھے، اب منافقین کے اس گروہ کی مثال دی جا رہی ہے جو اسلام لانے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھا، جب اسلام کی حقانیت کے دلائل سامنے آئے تو ان کے دل میں اسلام کی طرف جھکاؤ پیدا ہوتا اور وہ اسلام کی طرف بڑھنے لگتے، لیکن جب اسلامی احکام کی ذمہ داریاں اور حلال و حرام کی باتیں سامنے آتیں تو وہ اپنی خود غرضی کی وجہ سے رک جاتے، یہاں اسلام کو ایک برستی ہوئی بارش سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس میں کفر و شرک کی خرابیوں کا جو بیان ہے اسے اندھیریوں سے اور اس میں کفر و شرک پر عذاب کی جو دھمکیاں دی گئی ہیں انہیں گرج سے تشبیہ دی گئی ہے۔ نیز قرآن کریم میں حق کے جو دلائل اور حق کو تھامنے والوں کے لئے جنت کے جو وعدے کئے گئے ہیں، انہیں بجلی کی روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے، جب یہ روشنی ان منافقین کے سامنے چمکتی ہے تو وہ چل پڑتے ہیں مگر کچھ دیر میں ان کی خواہشات کی ظلمت ان پر چھا جاتی ہے تو کھڑے رہ جاتے ہیں۔
۲۔ یعنی جب قرآن کریم کفر اور فسق پر عذاب کی وعیدیں سناتا ہے تو یہ اپنے کان بند کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم عذاب سے محفوظ ہو گئے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمام کافروں کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور وہ اس سے بچ کر نہیں جا سکتے۔
آیت ۲۰ ۔ ۲۲
ترجمہ
ایسا لگتا ہے کہ بجلی ان کی آنکھوں کو اچک لے جائے گی جب بھی ان کے لئے روشنی کر دیتی ہے وہ اس (روشنی) میں چل پڑتے ہیں اور جب وہ ان پر اندھیرا کر دیتی ہے تو وہ کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے سننے اور دیکھنے کی طاقتیں چھین لیتا، بیشک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
اے لوگو اپنے اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے گزرے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ۔
(وہ پروردگار) جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا، اور آسمان کو چھت اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے تمہارے رزق کے طور پر پھل نکالے، لہذا اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ جبکہ تم (یہ سب باتیں) جانتے ہو۔
تفسیر
ان دو آیتوں (آیت نمبر ۲۱ اور ۲۲) میں اسلام کے بنیادی عقیدے توحید کی دعوت دی گئی ہے اور مختصر انداز میں اس کی دلیل بھی بیان کر دی گئی ہے اہل عرب یہ مانتے تھے کہ ساری کائنات کو پیدا کرنا، زمین و آسمان کی تخلیق اور آسمان سے بارش برسانا اور اس سے پیداوار اگانا، یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے ہیں، اس کے باوجود یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے کام بتوں کے سپرد کر رکھے ہیں اور وہ بت اپنے کاموں میں براہ راست فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لہذا وہ ان بتوں کی عبادت اس لئے کرتے تھے کہ وہ ان کی مدد کریں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہر چیز پیدا کرنے والے ہم ہیں اور ہمیں کائنات چلانے کے لئے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں تو عبادت کسی اور کی کرنا کتنے بڑے ظلم کی بات ہے۔
آیت ۲۳، ۲۴
ترجمہ
اور اگر تم اس (قرآن) کے بارے میں ذرا بھی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ پر اتارا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔ اور اگر سچے ہو تو اللہ کے سوا اپنے تمام مدد گاروں کو بلا لو۔
پھر بھی اگر تم یہ کام نہ کر سکو اور یقیناً کبھی نہیں کر سکو گے تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے وہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
تفسیر
پچھلی آیات میں توحید کا بیان تھا اب اسلام کے دوسرے اہم عقیدے یعنی آنحضرتﷺ کی رسالت کا بیان ہے اور عرب کے جو لوگ قرآن پر ایمان لانے کے بجائے یہ الزام لگاتے تھے کہ آنحضرتﷺ شاعر ہیں اور انہوں نے اپنی طرف سے یہ کلام بنا لیا ہے، انہیں زبردست چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر ایسا کلام کوئی انسان بنا سکتا ہے تو تم بڑے فصیح و بلیغ ہو، تم سب مل کر قرآن جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا کر لے آؤ، ساتھ ہی قرآن نے دعوی کیا ہے کہ تم سب مل کر بھی ایسا نہیں کر سکو گے اور واقعہ یہی ہے کہ اہل عرب جو اپنی زبان و ادب پر ناز کرتے تھے ان سب کو اس چیلنج کے بعد سانپ سونگھ گیا اور کوئی شخص یہ چیلنج قبول کرنے کے لئے آگے نہ بڑھا بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں نے اس خدائی کلام کے آگے گھٹنے ٹیک دئے اور اس طرح آنحضرتﷺ کی رسالت اور قرآن کریم کی سچائی روز روشن کی طرح ثابت اور واضح ہو گئی۔
آیت ۲۵
ترجمہ
اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کئے ہیں ان کو خوشخبری دے دو کہ ان کے لئے ایسے باغات (تیار) ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جب کبھی ان کو ان (باغات) میں سے کوئی پھل رزق کے طور پر دیا جائے گا تو وہ کہیں گے‘‘ یہ تو وہی ہے جو ہمیں پہلے بھی دیا گیا تھا‘‘ اور انہیں وہ رزق ایسا ہی دیا جائے گا جو دیکھنے میں ملتا جلتا ہو گا اور ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان (باغات) میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
تفسیر
یہ اسلام کے تیسرے عقیدے یعنی آخرت پر ایمان کا بیان ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ مرنے کے بعد ایک اور زندگی آنے والی ہے جس میں ہر انسان کو اپنے تمام اعمال کا جواب دینا ہو گا اگر ایمان کے ساتھ نیک عمل کئے ہوں گے تو وہ جنت نصیب ہو گی جس کی ایک جھلک اس آیت میں دکھائی گئی ہے۔
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جنت میں جب اہل جنت کو پھل دیا جائے گا تو وہ کہیں گے یہ وہی ہے جو ہمیں اس سے پہلے کھانے کو دیا گیا، اس کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ جنت میں وقفہ وقفہ سے ایسے پھل دئے جائیں گے جو دیکھنے میں بالکل ملتے جلتے ہوں گے، مگر لذت اور ذائقے میں ہر پھل نیا ہو گا اور دوسرا مطلب یہ بھی ممکن ہے کہ جنت کے پھل دیکھنے میں دنیا کے پھلوں کی طرح ہوں گے اس لئے انہیں دیکھ کر جنتی یہ کہیں گے کہ یہ تو وہی پھل ہیں جو ہمیں پہلے یعنی دنیا میں ملے تھے، لیکن جنت میں ان کی لذت اور خصوصیات دنیا کے پھلوں سے کہیں زیادہ ہوں گی۔
آیت ۲۶
ترجمہ
بیشک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ (کسی بات کو واضح کرنے کے لئے) کوئی بھی مثال دے، چاہے وہ مچھر (جیسی معمولی چیز) کی ہو، یا کسی ایسی چیز کی جو مچھر سے بھی زیادہ (معمولی) ہو اب جو لوگ مومن ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ایک حق بات ہے جو ان کے پروردگار کی طرف سے آئی ہے۔ البتہ جو لوگ کافر ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ بھلا اس (حقیر) مثال سے اللہ کا کیا مطلب ہے؟ (اس طرح) اللہ اس مثال سے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے (مگر) وہ گمراہ انہی کو کرتا ہے جو نافرمان ہیں۔
تفسیر
بعض کافروں نے قرآن کریم پر یہ اعتراض کیا تھا کہ اس میں کچھ مثالیں مکھی، مچھر، مکڑی وغیرہ کی دی گئی ہیں، اگر یہ واقعی خدا کا کلام ہوتا تو اس میں ایسی حقیر چیزوں کا ذکر نہ ہوتا، ظاہر ہے کہ یہ اعتراض بڑا بے تکا اعتراض تھا کیونکہ مثال ہمیشہ مضمون کی مناسبت سے دی جاتی ہے اگر کسی حقیر و ذلیل کی مثال دینی ہو تو ایسی ہی کسی چیز سے دی جائے گی جو حقیر و ذلیل ہو، یہ کسی کلام کا عیب تو کیا ہوتا اس کی فصاحت و بلاغت کی دلیل ہے مگر یہ بات انہی کی سمجھ میں آتی ہے جو طالب حق ہوں اور حق پر ایمان لا چکے ہوں لیکن جنہوں نے کفر کی قسم کھا رکھی ہے انہیں تو ہر بات پر ہر حالت میں اعتراض کرنا ہے اس لئے ایسی بے تکی باتیں کہتے ہیں۔
قرآن کریم کی یہی آیتیں جو طالب حق کو ہدایت بخشتی ہیں ایسے لوگوں کے لئے مزید گمراہی کا سبب بن جاتی ہیں جنہوں نے ضد اور ہٹ دھرمی پر کمر باندھ کر یہ طے کر لیا ہے کہ حق بات ماننی نہیں ہے کیونکہ وہ ہر نئی آیت کا انکار کرتے ہیں اور ہر آیت کا انکار ایک مستقل گمراہی ہے۔
آیت ۲۷
ترجمہ
وہ جو اللہ سے کئے ہوئے عہد ۱ کو پختہ کرنے کے بعد بھی توڑ دیتے ہیں اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے ۲ انہیں کاٹ ڈالتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے ہیں ایسے ہی لوگ بڑا نقصان اٹھانے والے ہیں۔
تفسیر
۱۔ عہد سے مراد اکثر مفسرین نے وہ عہد الست لیا ہے جس کا ذکر سورة اعراف (۷ ۱۷۲) میں ہے، یعنی اللہ تعالیٰ انسانوں کو پیدا کرنے سے بہت پہلے آنے والی تمام روحوں کو جمع کر کے ان سے پوچھا تھا کہ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں، سب نے اللہ تعالیٰ کے پروردگار ہونے کا اقرار کر کے یہ عہد کیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں گے، پھر اس آیت میں عہد کو پختہ کرنے سے مراد بظاہر یہ ہے کہ ہر دور میں اللہ تعالیٰ کے رسول آتے رہے جو اس عہد کو یاد دلا کر اللہ تعالیٰ کے خالق و مالک ہونے پر دلائل قائم کرتے رہے۔
اس عہد کی ایک اور تشریح بھی ممکن ہے اور وہ یہ کہ اس سے مراد وہ عملی اور خاموش عہد (tacit covenant) ہے جو ہر انسان پیدا ہوتے ہی اپنے خالق و مالک سے کرتا ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے ہر شخص جو کسی ملک میں پیدا ہوتا ہے وہ اس ملک کا شہری ہونے کے ناطے یہ خاموش عہد کرتا ہے کہ وہ اس ملک کے قوانین کا پابند ہو گا خواہ زبان سے اس نے کچھ نہ کہا ہو لیکن اس کا کسی ملک میں پیدا ہونا ہی اس عہد کے قائم مقام ہے، اسی طرح کائنات میں جو شخص بھی پیدا ہوتا ہے وہ خود بخود اس عہد کا پابند ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی ہدایات کے مطابق زندگی گزارے گا۔ اس عہد کے لئے زبان سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ غالباً اسی وجہ سے اگلی آیت میں باری تعالیٰ نے فوراً یہ ارشاد فرمایا کہ‘‘ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کا طرز عمل آخر کیسے اختیار کر لیتے ہو، حالانکہ تم بے جان تھے، اسی نے تمہیں زندگی بخشی‘‘ یعنی اگر ذرا غور کرو تو تنہا یہ بات کہ کسی نے تمہیں پیدا کیا ہے، تمہاری طرف سے یہ عہد و پیمان ہے کہ تمہارے لئے ان کی نعمتوں کا اعتراف اور اس کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنا لازمی ہو گا۔ ورنہ یہ کونسی عقل اور کونسا انصاف ہے کہ پیدا تو اللہ تعالیٰ کرے، اور فرمانبرداری اس کے بجائے کی اور کی کی جائے، پھر اس خاموش عہد کو مزید پختہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے ذریعے متواتر تمہیں اس عہد کی یاد دہانی کراتا رہا ہے اور ان پیغمبروں نے وہ مضبوط دلائل تمہارے سامنے پیش کئے ہیں جن سے یہ عہد مزید پختہ ہو گیا ہے کہ انسان کو ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنی ہے۔
۲۔ اس سے مراد رشتہ داروں کے وہ حقوق پامال کرنا ہے جنہیں صلہ رحمی کہا جاتا ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کی تین صفات بیان کی گئی ہیں، ایک یہ کہ وہ اللہ سے کیا ہوا عہد توڑتے ہیں دوسرے یہ کہ وہ رشتہ داروں کے حقوق پامال کرتے ہیں اور تیسرے یہ کہ زمین میں فساد مچاتے ہیں، ان میں سے پہلی چیز اللہ تعالیٰ کے حقوق سے متعلق ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں وہ عقیدہ رکھتا ہے جو رکھنا چاہئے اور نہ اس کی وہ عبادت کرتا ہے جو ان پر فرض ہے، دوسری اور تیسری چیز کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اللہ تعالیٰ نے مختلف رشتوں کے جو حقوق مقرر فرمائے ہیں، ان کی ٹھیک ٹھیک ادائیگی سے ہی ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے، اگر ان رشتوں کو کاٹ کر باپ، بیٹے، بھائی بھائی، شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے حقوق پامال کرنا شروع کر دیں تو وہ خاندانی نظام تباہ ہو جاتا ہے جس پر ایک صحت مند تمدن کی بنیاد قائم ہوتی ہے، لہذا اس کا لازمی نتیجہ زمین میں فساد کی صورت میں نکلتا ہے اسی لئے قرآن کریم نے رشتوں کو کاٹنے اور زمین میں فساد مچانے کو سورة محمد (۲۶ ۲۲) میں بھی ایک ساتھ ملا کر ذکر فرمایا ہے . آیت فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض وتقطعوا ارحامکم۔
آیت ۲۸
ترجمہ
تم اللہ کے ساتھ کفر کا طرز عمل آخر کیسے اختیار کر لیتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اسی نے تمہیں زندگی بخشی پھر وہی تمہیں موت دے گا پھر وہی تم کو (دوبارہ) زندہ کرے گا اور پھر تم اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے
تفسیر
آیت ۲۹
ترجمہ
وہی ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے تمہارے لئے پیدا کیا پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا، چنانچہ ان کو سات آسمانوں کی شکل میں ٹھیک ٹھیک بنا دیا، اور وہ ہر چیز کا پورا علم رکھنے والا ہے۔
تفسیر
۲۶ انسان کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ وہ کائنات کی جتنی چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے سب اللہ تعالیٰ کی عطا فرمائی ہوئی ہیں، ان میں سے ہر چیز اس کی توحید کی گواہی دے رہی ہے اس کے باوجود اس کے ساتھ کفر کارویہ اختیار کرنا کتنی بڑی ناشکری ہے، اسی آیت سے فقہاء نے یہ اصول بھی مستنبط کیا ہے کہ دنیا کی ہر چیز اصل میں حلال ہے اور جب تک کسی چیز کی حرمت پر کوئی دلیل نہ ہو اس وقت تک اس کو حلال ہی سمجھا جائے گا۔
آیت ۳۰
ترجمہ
اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں وہ کہنے لگے۔ کیا آپ زمین میں ایسی مخلوق پیدا کریں گے جو اس میں فساد مچائے اور خون خرابہ کرے حالانکہ ہم آپ کی تسبیح اور حمد و تقدیس میں لگے ہوئے ہیں اللہ نے کہا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
تفسیر
۲۷ آیت نمبر ۲۲ میں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت واجب ہونے کی نہایت مختصر اور سادہ مگر مضبوط دلیل یہ دی گئی تھی کہ جس نے تمہیں وہی عبادت کا مستحق ہے۔ آیت نمبر ۲۸ میں کافروں کے کفر پر تعجب کا اظہار بھی اسی بنا پر کیا گیا تھا۔ اب انسان کی پیدائش کا پورا واقعہ بیان کر کے اس دلیل کو مزید پختہ کیا جا رہا ہے آیت میں خلیفہ سے مراد انسان ہے اور اس کے خلیفہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ زمین میں اللہ تعالیٰ کے احکام پر خود بھی عمل کرے اور اپنی طاقت کے مطابق دوسروں سے بھی عمل کروانے کی کوشش کرے۔
۲۸ فرشتوں کے اس سوال کا منشاء خدا نخواستہ کوئی اعتراض کرنا نہیں تھا بلکہ وہ حیرت کر رہے تھے کہ ایک ایسی مخلوق کو پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے جو نیکی کے ساتھ بدی کی صلاحیت بھی رکھتی ہو گی جس کے نتیجے میں زمین پر فساد پھیلنے کا امکان ہو گا،، مفسرین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ انسان سے پہلے زمین پر جنات پیدا کیا گئے تھے اور انہوں نے آپس میں لڑ لڑ کر ایک دوسرے کو ختم کر ڈالا تھا، فرشتوں نے سوچا کہ شاید انسان کا انجام بھی ایسا ہی ہو۔
آیت ۳۱
ترجمہ
اور آدم کو (اللہ نے) سارے نام سکھا دیئے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور (ان سے) کہا اگر تم سچے ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتلاؤ۔
تفسیر
۲۹ ناموں سے مراد کائنات میں پائی جانے والی چیزوں کے نام ان کی خاصیتیں اور انسان کو پیش آنے والی مختلف کیفیات کا علم ہے مثلاً بھوک، پیاس، صحت اور بیماری وغیرہ، اگرچہ آدمؑ کو ان چیزوں کی تعلیم دیتے وقت فرشتے بھی موجود تھے، لیکن چونکہ ان کی فطرت میں ان چیزوں کی پوری سمجھ نہیں تھی اس لئے جب ان کا امتحان لیا گیا تو وہ جواب نہیں دے سکے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے عملی طور پر انہیں باور کرا دیا کہ جو کام اس نئی مخلوق سے لینا مقصود ہے وہ فرشتے انجام نہیں دے سکتے۔
آیت ۳۲
ترجمہ
وہ بول اٹھے آپ ہی کی ذات پاک ہے جو کچھ علم آپ نے ہمیں دیا ہے اس کے سوا ہم کچھ نہیں جانتے حقیقت میں علم و حکمت کے مالک تو صرف آپ ہیں
تفسیر
۳۰ بظاہر ان الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام صرف حضرت آدمؑ کو سکھائے گئے تھے اور فرشتے اس تعلیم میں شریک نہیں تھے، اس صورت میں اس سے ناموں کے بارے میں پوچھنا یہ بتانے کے لئے تھا کہ تم میں وہ صلاحیت نہیں رکھی گئی جو آدمؑ کی تخلیق سے مقصود ہے، دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ آدمؑ کو سکھاتے وقت فرشتے موجود تھے، لیکن چونکہ ان میں ان باتوں کو سمجھنے یا یاد رکھنے کی صلاحیت نہیں تھی اس لئے وہ امتحان کے وقت جواب نے دے سکے، اس صورت میں ان کے جواب کا حاصل یہ ہو گا کہ ہمیں وہی علم حاصل ہو سکتا ہے جو آپ ہمیں دینا چاہیں اور اس کی صلاحیت ہمارے اندر پیدا کر دیں۔
آیت ۳۳
ترجمہ
اللہ نے کہا آدم تم ان کو ان چیزوں کے نام بتادو چنانچہ جب اس نے ان کے نام ان کو بتا دیئے تو اللہ نے (فرشتوں سے) کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کے بھید جانتا ہوں؟ اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو مجھے اس سب کا علم ہے
تفسیر
آیت ۳۴
ترجمہ
اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو چنانچہ سب نے سجد کیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے انکار کیا اور متکبرانہ رویہ اختیار کیا اور کافروں میں شامل ہو گیا،
تفسیر
۳۱ فرشتوں کے سامنے آدمؑ کی عظمت کا علمی مظاہرہ اور ان کا امتحان لینے کے لئے انہیں آدمؑ کو سجدہ کرنے حکم دیا گیا یہ سجدہ عبادت کا نہیں تعظیم کا سجدہ تھا جو بعض پچھلی شریعتوں میں جائز تھا بعد میں تعظیم کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنے کی سختی سے ممانعت کر دی گئی تاکہ شرک کا کوئی شائبہ بھی پیدا نہ ہو، یہ سجدہ کروانا اس بات کا بھی مظاہرہ تھا کہ فرشتوں کو اس بات کی تلقین کی جا رہی ہے کہ کائنات میں جو چیزیں ان کے اختیار میں دی گئی ہیں وہ انسان کے لئے مسخر کر دی جائیں تاکہ یہ دیکھا جائے کہ وہ ان کو صحیح استعمال کرتا ہے یا غلط۔
۳۲ اگرچہ براہ راست سجدے کا حکم فرشتوں کو دیا گیا تھا مگر اس میں تمام جاندار مخلوقات بھی شامل تھیں لہذا ابلیس جو جنات میں سے تھا اس پر بھی اس حکم کی تعمیل لازم تھی لیکن جیسا کہ خود قرآن کریم نے دوسری جگہ بیان فرمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے کہنے لگا کہ مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے افضل ہوں میں اسے کیوں سجدہ کروں (اعراف ۷ ۲۲) اس واقعہ سے دو سبق ملتے ہیں ایک یہ کہ اپنے آپ کو بذات خود دوسروں سے بڑا سمجھنا اور اپنی بڑائی بگھارنا کتنا بڑا گناہ ہے اور دوسرا سبق یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی واضح حکم آ جائے تو بندے کا کام یہ ہے کہ اس حکم کو دل وجان سے بجا لائے، چاہے اس کی حکمت اور فائدہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے
آیت ۳۵
ترجمہ
اور ہم نے کہا آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں سے جہاں سے چاہو جی بھر کے کھاؤ مگر اس درخت کے پاس بھی مت جانا ورنہ تم ظالموں میں شمار ہو گے
تفسیر
۳۳ یہ کونسا درخت تھا؟ قرآن کریم نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی نہ اس کے جاننے کی ضرورت ہے اتنا جان لینا کافی ہے کہ جنت کے درختوں میں ایک درخت ایسا تھا جس کا پھل کھانے سے انہیں روک دیا گیا تھا، بعض روایات میں ہے کہ یہ گندم کا درخت تھا بعض میں انگور کا ذکر ہے مگر کوئی روایت ایسی نہیں جس پر پورا بھروسہ کیا جا سکے۔
آیت ۳۶
ترجمہ
پھر ہوا یہ کہ شیطان نے ان دونوں کو وہاں سے ڈگمگا دیا ۱ اور جس (عیش) میں وہ تھے اس سے انہیں نکال کر رہا اور ہم نے (آدم، ان کی بیوی اور ابلیس سے) کہا اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے، اور تمہارے لئے ایک مدت تک زمین میں ٹھہرنا اور کسی قدر فائدہ اٹھانا (طے کر دیا گیا) ہے ۲
تفسیر
۱۔ یعنی شیطان نے انہیں بہکا کر اس درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کر دیا اور بہانہ یہ بنایا کہ یوں تو یہ درخت بڑا مفید ہے کیونکہ اس کو کھانے سے ابدی زندگی حاصل ہو جاتی ہے، لیکن شروع میں آپ کو اس لئے منع کیا گیا تھا کہ آپ کی جسمانی کیفیت اس کو برداشت نہ کر سکتی تھی اب چونکہ آپ جنت کے ماحول کے عادی ہو گئے ہیں اور آپ کے قوی مضبوط ہو چکے ہیں اس لئے اب وہ ممانعت باقی نہیں رہی۔ اس واقعے کی مزید تفصیل کے لئے دیکھئے سورة اعراف (۷: ۱۹ تا ۲۳) اور سورة طہ (۲۰: ۱۲۰)
۲۔ مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کے نتیجے میں آدمؑ اور ان کی اہلیہ کو جنت سے اور شیطان کو آسمانوں سے نیچے زمین پر اترنے کا حکم دے دیا گیا، ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا کہ انسان اور شیطان کے درمیان رہتی دنیا تک دشمنی قائم رہے گی اور زمین کا یہ قیام ایک معین مدت تک ہو گا جس میں کچھ دنیوی فائدے اٹھانے کے بعد سب کو بالآخر اللہ تعالیٰ کے پاس دوبارہ پیش ہونا ہو گا۔
آیت ۳۷
ترجمہ
پھر آدم نے اپنے پروردگار سے (توبہ کے) کچھ الفاظ سیکھ لیے (جن کے ذریعے انہوں نے توبہ مانگی) چنانچہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی بیشک وہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے
تفسیر
جب آدمؑ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ پریشان ہو گئے لیکن سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے کن الفاظ میں معافی مانگیں، اس لئے زبان سے کچھ نکل نہیں رہا تھا، اللہ تعالیٰ نے جو دلوں کے حال سے بھی خوب واقف ہے اور رحیم و کریم بھی ہے ان کی اس کیفیت کے پیش نظر خود ہی ان کو توبہ کے الفاظ سکھائے جو سورة اعراف میں مذکور ہیں قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (آیت نمبر ۲۳) اے ہمارے پروردگار ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم برباد ہو جائیں گے۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے زمین پر بھیجنے سے پہلے انسان کو یہ تعلیم دے دی کہ جب کبھی نفسانی خواہشات یا شیطان کے بہکاوے میں آ کر اس سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اسے فوراً اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنی چاہئے اور اگرچہ توبہ کے لئے کوئی خاص الفاظ لازمی نہیں ہیں بلکہ ہر وہ جملہ جس میں اپنے کئے پر ندامت اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا ارادہ شامل ہو، اس کے ذریعہ توبہ ممکن ہے لیکن چونکہ یہ الفاظ خود اللہ تعالیٰ کے سکھائے ہوئے ہیں اس لئے ان الفاظ میں توبہ کرنے سے قبولیت کی زیادہ امید ہے۔
یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جیسا کہ پیچھے آیٰت ۳۰ سے واضح ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے شروع ہی سے آدمؑ کو زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجنے کے لئے پیدا فرمایا تھا لیکن زمین پر بھیجنے سے پہلے انہیں جنت میں رکھنے اور اس کے بعد کے واقعات کا تکوینی مقصد بظاہر یہ تھا کہ ایک طرف حضرت آدمؑ جنت کی نعمتوں کا خود تجربہ کر کے دیکھ لیں کہ ان کی اصل منزل کیا ہے اور زمین پر پہنچنے کے بعد اس منزل کے حصول میں کس قسم کی رکاوٹیں پیش آ سکتی ہیں اور ان سے نجات پانے کا کیا طریقہ ہو گا؟ چونکہ فرشتوں کے مقابلے میں انسان کا امتیاز ہی یہ تھا کہ اس میں اچھائی اور برائی دونوں کی صلاحیت رکھی گئی تھی اس لئے ضروری تھا کہ اسے زمین پر بھیجنے سے پہلے ایسے تجربے سے گزارا جائے پیغمبر چونکہ معصوم ہوتے ہیں اور ان سے کوئی بڑا گناہ سرزد نہیں ہو سکتا اس لئے حضرت آدمؑ کی یہ غلطی در حقیقت اجتہادی غلطی (Bonafide Mistake تھی یعنی سوچ کی یہ غلطی کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو شیطان کے بہکانے سے ایک خاص وقت تک محدود سمجھ لیا، ورنہ اللہ تعالیٰ کی کھلی نافرمانی کا ہرگز ان سے تصور نہیں کیا جا سکتا تاہم چونکہ یہ قصور بھی ایک پیغمبر کے شایان شان نہ تھا اس لئے اسے بعض آیات میں گناہ یا حکم عدولی سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس پر توبہ کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ ساتھ ہی زیر نظر آیت میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی اور اس طرح اس عیسائی عقیدہ کی تردید فرما دی گئی جس کا کہنا یہ ہے کہ آدمؑ کا یہ گناہ ہمیشہ کے لئے انسان کی سرشت میں داخل ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں ہر بچہ ماں کے پیٹ سے گناہگار پیدا ہوتا ہے اور اس مشکل کے حل کے لئے اللہ تعالیٰ کو اپنا بیٹا دنیا میں بھیج کر اسے قربان کرنا پڑا تاکہ وہ ساری دنیا کے لئے کفارہ بن سکے، قرآن کریم نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان فرما دیا کے اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی تھی اس لئے نہ وہ گناہ باقی رہا تھا نہ اس کے اولاد آدم کی طرف منتقل ہونے کا سوال ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قانون عدل میں ایک شخص کے گناہ کا بوجھ دوسرے کے سر پر نہیں ڈالا جاتا۔
آیت ۳۸
ترجمہ
ہم نے کہا اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ پھر اگر میری طرف سے کوئی ہدایت تمہیں پہنچے تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے ان کو نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہوں گے
تفسیر
آیت ۳۹
ترجمہ
اور جو لوگ کفر کا ارتکاب کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے وہ دوزخ والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے
تفسیر
آیت ۴۰
ترجمہ
اے بنی اسرائیل میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی اور تم مجھے سے کیا ہوا عہد پورا کرو تاکہ میں بھی تم سے کیا ہوا عہد پورا کروں، اور تم (کسی اور سے نہیں، بلکہ) صرف مجھی سے ڈرو (۳۷)
تفسیر
ف ۳۷ اسرائیل حضرت یعقوبؑ کا دوسرا نام ہے ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے، تمام تر یہودی اور اکثر عیسائی اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے، مدینہ منورہ میں یہودیوں کی اچھی خاصی تعداد آباد تھی اور رسول اکرمﷺ نے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد نہ صرف ان کو اسلام کی دعوت دی تھی بلکہ ان سے امن کا معاہدہ بھی فرمایا تھا، لہذا اس مدنی سورت میں زیرنظر آیت سے آیت نمبر ۱۴۳ تک مسلسل بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے، جس میں انہیں اسلام کی دعوت بھی دی گئی ہے اور ان کو نصیحت کرنے کے ساتھ ان کی بد عنوانیوں پر متنبہ بھی کیا گیا ہے، شروع میں ان کو یاد دلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کیسے کیسے انعامات فرمائے تھے، اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہو کر اس عہد کو پورا کرتے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا تھا کہ وہ تورات پر ٹھیک ٹھیک عمل کریں گے اور اللہ کے بھیجے ہوئے ہر نبی پر ایمان لائیں گے، لیکن انہوں نے تورات پر عمل کرنے کے بجائے اس کو من مانی تاویلیں شروع کر دیں اور اس کے احکام کو بدل ڈالا، چونکہ اس طرز عمل کی وجہ یہ بھی تھی کہ حق کو قبول کرنے کی صورت میں انہیں اپنے ہم مذہب لوگوں کا ڈر تھا کہ وہ کہیں ان سے بد ظن نہ ہو جائیں اس لئے اس آیت میں اور اس کے بعد والی آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ مخلوق سے ڈرنے کے بجائے انہیں اللہ سے ڈرنا چاہئے اور اللہ کے سوا کسی کا خوف دل میں نہیں رکھنا چاہئے۔
آیت ۴۱
ترجمہ
اور جو کلام میں نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ جبکہ وہ اس کتاب (یعنی تورات) کی تصدیق بھی کر رہا ہے جو تمہارے پاس ہے اور تم ہی سب سے پہلے اس کے منکر نہ بن جاؤ اور میری آیتوں کو معمولی سی قیمت لے کر نہ بیچو اور (کسی اور کے بجائے) صرف میرا خوف دل میں رکھو۔
تفسیر
بنی اسرائیل کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ قرآن کریم وہی دعوت لے کر آیا ہے جو تورات اور انجیل کی دعوت تھی اور جن آسمانی کتابوں پر وہ ایمان رکھتے ہیں قرآن کریم انہیں جھٹلانے کے بجائے دو طرح سے ان کی تصدیق کرتا ہے ایک اس لحاظ سے کہ وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ کتابیں اللہ ہی کی نازل کی ہوئی تھیں (یہ اور بات ہے کہ بعد کے لوگوں نے ان میں کافی رد و بدل کر ڈالا جس کی حقیقت قرآن نے واضح فرمائی) اور دوسرے قرآن اس حیثیت سے ان کتابوں کی تصدیق کرتا ہے کہ ان کتابوں میں آخری نبی کی تشریف آوری کی جو پیشین گوئیاں کی گئی تھیں قرآن کریم نے انہیں سچا کر دکھایا اس کا تقاضا یہ تھا کہ بنی اسرائیل عرب کے بت پرستوں سے پہلے اس پر ایمان لاتے، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ جس تیز رفتاری سے بت پرست اسلام لا رہے ہیں اس رفتار سے یہودی ایمان نہیں لا رہے ہیں اور اس طرح گویا بنی اسرائیل قرآن کی تکذیب کرنے میں پیش پیش ہیں اس لئے کہا گیا کہ تم ہی سب سے پہلے اس کے منکر نہ بن جاؤ، بعض یہودیوں کا طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ رشوت لے کر تورات کی تشریح عام لوگوں کی خواہشات کے مطابق کر دیا کرتے تھے اور بعض اوقات اس کے احکام کو چھپا لیتے تھے ان کے اس طرز عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا میری آیتوں کو معمولی سی قیمت لے کر نہ بیچو اور حق کو باطل کے ساتھ گڈمڈ نہ کرو اور نہ حق بات کو چھپاؤ۔
آیت ۴۲
ترجمہ
اور حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو، اور نہ حق بات کو چھپاؤ جبکہ (اصل حقیقت) تم اچھی طرح جانتے ہو
اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو
تفسیر
رکوع کا ذکر خاص طور پر اس لئے کیا گیا کہ یہودیوں کی نماز میں رکوع نہیں ہوتا تھا۔
آیت ۴۴ ۔ ۴۹
ترجمہ
کیا تم (دوسرے) لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو! کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں
اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو نماز بھاری ضرور معلوم ہوتی ہے مگر ان لوگوں کو نہیں جو خشوع (یعنی دھیان اور عاجزی) سے پڑھتے ہیں
جو اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اور ان کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے
اے بنی اسرائیل میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی اور یہ بات (یاد کرو) کہ میں نے تم کو سارے جہانوں پر فضیلت دی تھی
اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شخص بھی کسی کے کچھ کام نہیں آئے گا نہ کسی سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی نہ کسی سے کسی قسم کا فدیہ لیا جائے گا اور نہ ان کو کوئی مدد پہنچے گی
اور وہ (وقت یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی جو تمہیں بڑا عذاب دیتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس ساری صورت حال میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارا بڑا امتحان تھا۔
تفسیر
فرعون مصر کا بادشاہ تھا جہاں بنی اسرائیل بڑی تعداد میں آباد تھے، اور فرعون کی غلامی میں دن گزار رہے تھے، فرعون کے سامنے کسی نجومی نے یہ پیشین گوئی کر دی کہ اس سال بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہو گا جو اس کی بادشاہی کا خاتمہ کر دے گا، یہ سن کر اس نے یہ حکم دے دیا کے اسرائیلیوں میں جو کوئی بچہ پیدا ہو اسے قتل کر دیا جائے، البتہ لڑکیوں کو زندہ رکھا جائے تاکہ ان سے خدمت لی جا سکے، اس طرح بہت سے نو زائیدہ بچے قتل کئے گئے، اگرچہ حضرت موسیٰؑ اسی سال پیدا ہوئے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو محفوظ رکھا، اس کا مفصل واقعہ سورة طہ اور سورة القصص میں خود قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے۔
آیت ۵۰
ترجمہ
اور (یاد کرو) جب ہم نے تمہاری خاطر سمندر کو پھاڑ ڈالا تھا چنانچہ تم سب کو بچا لیا تھا اور فرعون کے لوگوں کو (سمندر میں) غرق کر ڈالا تھا اور تم یہ سارا نظام دیکھ رہے تھے
تفسیر
اس کا واقعہ بھی مذکورہ بالا دو سورتوں میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔
آیت ۵۱
ترجمہ
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ ٹھہرایا تھا پھر تم نے ان کے پیچھے (اپنی جانوں پر) ظلم کر کے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔
تفسیر
حضرت موسیٰؑ سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ کوہ طور پر آ کر چالیس دن اعتکاف کریں تو انہیں تورات عطا کی جائے گی، چنانچہ حضرت موسیٰؑ کوہ طور پر تشریف لے گئے، ان کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سامری جادوگر نے ایک گائے کا بچھڑا بنایا اور بنی اسرائیل کو اسے اپنا معبود قرار دینے اور اس کی عبادت کرنے پر آمادہ کر لیا اور اس طرح وہ شرک میں مبتلا ہو گئے، حضرت موسیٰؑ کو اطلاع ہوئی وہ گھبرا کر واپس تشریف لائے اور بنی اسرائیل کو توبہ کی تلقین فرمائی، اس توبہ کا ایک حصہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل میں سے جو لوگ اس شرک میں ملوث نہیں ہوئے تھے وہ ملوث ہونے والوں کو قتل کریں، چنانچہ ان کی ایک بڑی تعداد قتل کی گئی اور اس طرح ان کی توبہ قبول ہوئی۔ یہ واقعات انشاء اللہ تفصیل سے سورہ اعراف اور سورة طہ میں آئیں گے۔
آیت ۵۲ ۔ ۵۶
ترجمہ
پھر اس سب کے بعد ہم نے تم کو معاف کر دیا تاکہ تم شکر ادا کرو
اور (یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، اور حق و باطل میں تمیز کا معیار (بخشا) تاکہ تم راہ راست پر آؤ۔
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ‘‘ اے میری قوم! حقیقت میں تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر خود اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے لہٰذا اب اپنے خالق سے توبہ کرو اور اپنے آپ کو قتل کرو تمہارے خالق کے نزدیک یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اس طرح اللہ نے تمہاری توبہ قبول کر لی۔ بیشک وہی ہے جو اتنا معاف کرنے والا، اتنا رحم کرنے والا ہے
اور جب تم نے کہا تھا اے موسیٰ ہم اس وقت تک ہرگز تمہارا یقین نہیں کریں گے جب تک اللہ کو ہم خود کھلی آنکھوں نہ دیکھ لیں‘‘
نتیجہ یہ ہوا کہ کڑکے نے تمہیں اس طرح آپکڑا کہ تم دیکھتے رہ گئے پھر ہم نے تمہیں تمہارے مرنے کے بعد دوسری زندگی دی تاکہ تم شکر گزار بنو۔
تفسیر
جب حضرت موسیٰؑ کوہ طور سے تورات لے کر تشریف لائے تو بنی اسرائیل نے ان سے کہا کہ ہمیں کیسے یقین آئے کہ واقعی اللہ نے ہمیں اس کتاب پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے، شروع میں ان پر حجت تمام کرنے کے لئے انہیں اللہ تعالیٰ نے براہ راست خطاب فرما کر تورات پر عمل کا حکم دیا مگر وہ کہنے لگے کہ جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے نہ دیکھ لیں گے ہمیں یقین نہ آئے گا، ان کے اس گستاخانہ طرز عمل پر ایک بجلی کے کڑکے نے انہیں آ گھیرا اور وہ بعض روایات کے مطابق مر گئے اور بعض روایات کے مطابق بے ہوش ہو گئے پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندگی دی۔ اس واقعے کی تفصیل بھی انشاء اللہ سورة اعراف میں آئے گی۔
آیت ۵۷
ترجمہ
اور ہم نے تم کو بادل کا سایہ عطا کیا اور تم پر من و سلویٰ نازل کیا (اور کہا کہ) جو پاکیزہ رزق ہم نے تمہیں بخشا ہے (شوق سے) کھاؤ اور یہ (نافرمانیاں کر کے) انہوں نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ہی ظلم کرتے رہے
تفسیر
جیسا کے سورة آل عمران میں آئے گا، بنی اسرائیل نے جہاد کے ایک حکم کی نافرمانی کی تھی جس کی پاداش میں انہیں صحرائے سینا میں مقید کر دیا گیا تھا، لیکن اس سزا یابی کے دوران بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں جن نعمتوں سے نوازا یہاں ان کا ذکر ہو رہا ہے، صحرا میں چونکہ کوئی چھت ان کے سروں پر نہیں تھی اس لئے ان کو دھوپ کی تمازت سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے غیب سے یہ انتظام فرمایا کہ ایک بادل ان پر مسلسل سایہ کئے رہتا تھا اسی صحرا میں جہاں کوئی غذا دستیاب نہیں تھی اللہ تعالیٰ نے غیب سے من و سلویٰ کی شکل میں انہیں بہترین خوراک مہیا فرمائی، بعض روایات کے مطابق من سے مراد ترنجبین ہے جو اس علاقے میں افراط سے پیدا کر دی گئی تھی اور سلویٰ سے مراد بٹیریں ہیں جو بنی اسرائیل کی قیام گاہوں کے آس پاس کثرت سے منڈلاتی رہتیں اور کوئی انہیں پکڑنا چاہتا تو وہ بالکل مزاحمت نہیں کرتی تھیں، بنی اسرائیل نے ان تمام نعمتوں کی بری طرح ناقدری کی اور اس طرح خود اپنی جانوں پر ظلم کیا۔
آیت ۵۸، ۵۹
ترجمہ
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے کہا تھا کہ‘‘ اس بستی میں داخل ہو جاؤ اور اس جہاں سے چاہو جی بھر کر کھاؤ اور (بستی کے) دروازے میں جھکے سروں سے داخل ہونا اور یہ کہتے جانا کہ (یا اللہ) ہم آپ کی بخشش کے طلب گار ہیں (اس طرح) ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ (ثواب) بھی دیں گے۔
مگر ہوا یہ کہ جو بات ان سے کہی گئی تھی ظالموں نے اسے بدل کر ایک اور بات بنا لی نتیجہ یہ کہ جو نافرمانیاں وہ کرتے آ رہے تھے ہم نے ان کی سزا میں ان ظالموں پر آسمان سے عذاب نازل کیا
تفسیر
اسی صحرا میں رہتے ہوئے جب مدت گزر گئی اور بنی اسرائیل من و سلویٰ سے بھی اکتا گئے تو انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر گزارہ نہیں کر سکتے، ہم زمین کی ترکاریاں وغیرہ کھانا چاہتے ہیں، ان کا یہ مطالبہ آگے آیت نمبر ۶۱ میں آ رہا ہے، اس موقع پر ان کی یہ خواہش بھی پوری کی گئی اور یہ اعلان فرمایا گیا کہ اب تمہیں صحرا کی خاک چھاننے سے نجات دی جاتی ہے، سامنے ایک شہر ہے اس میں چلے جاؤ؛ لیکن اپنے گناہوں پر ندامت کے اظہار کے طور پر سر جھکائے ہوئے اور معافی مانگتے ہوئے شہر میں داخل ہو، وہاں اپنی رغبت کے مطابق جو حلال غذا چاہو کھاس کو گے، لیکن ان ظالموں نے پھر ضد کا مظاہرہ کیا، شہر میں داخل ہوتے ہوئے سر تو کیا جھکاتے سینے تان تان کر داخل ہوئے اور معافی مانگنے کے لئے انہیں جو الفاظ کہنے کی تلقین کی گئی تھی ان کا مذاق بنا کر ان سے ملتے جلتے ایسے نعرے لگاتے ہوئے داخل ہوئے جس کا مقصد مسخرہ پن کے سوا کچھ نہ تھا، جو لفظ انہیں معافی مانگنے کے لئے سکھایا گیا تھا وہ تھا "حطۃ" (یا اللہ ہمارے گناہ بخش دے) انہوں نے اسے بدل کر جس لفظ کے نعرے لگائے تھے وہ تھا "حنطۃ" یعنی گندم۔
آیت ۶۰
ترجمہ
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مارو‘‘ چنانچہ اس (پتھر) سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ہر ایک قبیلے نے اپنے پانی لینے کی جگہ معلوم کر لی (ہم نے کہا) اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ، اور زمین میں فساد مچاتے مت پھرنا۔
تفسیر
یہ واقعہ بھی اس وقت کا ہے جب بنی اسرائیل میدان تیہ (صحرائے سینا) میں محصور تھے وہاں پانی کا کوئی چشمہ نہیں تھا، اللہ تعالیٰ نے ایک معجزہ کے طور پر بارہ چشمے پیدا فرما دئے، حضرت یعقوب (اسرائیل)ؑ کے بارہ بیٹے تھے ہر بیٹے کی اولاد ایک مستقل قبیلہ بن گئی اور اس طرح بنی اسرائیل بارہ قبیلوں میں تقسیم ہو گئے، اللہ تعالیٰ نے ہر قبیلے کے لئے الگ چشمہ جاری فرما دیا تاکہ کوئی الجھن پیش نہ آئے۔
آیت ۶۱
ترجمہ
اور (وہ وقت بھی) جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ہم ایک ہی کھانے پر صبر نہیں کر سکتے لہذا اپنے پروردگار سے مانگیے کہ وہ ہمارے لئے کچھ وہ چیزیں پیدا کرے جو زمین اگایا کرتی ہے یعنی زمین کی ترکاریاں، اس کی ککڑیاں، اس کا گندم، اس کی دالیں اور اس کی پیاز۔ موسیٰ نے کہا‘‘ جو (غذا) بہتر تھی کیا تم اس کو ایسی چیزوں سے بدلنا چاہتے ہو جو گھٹیا درجے کی ہیں؟ (خیر!) ایک شہر میں جا اترو۔ تو وہاں تمہیں وہ چیزیں مل جائیں گی جو تم نے مانگی ہیں اور ان (یہودیوں پر ذلت اور بیکسی کا ٹھپہ لگا دیا گیا، اور وہ اللہ تعالیٰ کا غضب لے کر لوٹے۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کر دیتے تھے۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ بے حد زیادتیاں کرتے تھے۔
تفسیر
یہ وہی واقعہ ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔
آیت ۶۲
ترجمہ
حق تو یہ ہے کہ جو لوگ بھی خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہودی یا نصرانی یا صابی، اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئیں گے اور نیک عمل کریں گے وہ اللہ کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہوں گے اور ان کو نہ کوئی خوف ہو گا نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہوں گے۔
تفسیر
بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور ان کی نافرمانیوں کے تذکرے کے بیچ میں یہ آیت کریمہ بنی اسرائیل کے ایک باطل گھمنڈ کی تردید کے لئے آئی ہے، ان کا عقیدہ یہ تھا کہ صرف انہی کی نسل اللہ کے منتخب اور لاڈلے بندوں پر مشتمل ہے، ان کے خاندان سے باہر کا کوئی آدمی اللہ کے انعامات کا مستحق نہیں ہے، (آج بھی یہودیوں کا یہی عقیدہ ہے، اسی لئے یہودی مذہب ایک نسل پرست مذہب ہے اور اس نسل کے باہر کا کوئی شخص یہودی مذہب اختیار کرنا بھی چاہے تو اختیار کر ہی نہیں سکتا، یا ان کے حقوق کا مستحق نہیں ہو سکتا جو ایک نسلی یہودی کو حاصل ہیں) اس آیت نے واضح فرمایا کہ حق کسی ایک نسل میں محدود نہیں ہے، اصل اہمیت ایمان اور نیک عمل کو حاصل ہے، جو شخص بھی اللہ اور آخرت پر ایمان لانے اور عمل صالح کی بنیادی شرطیں پوری کر دے گا خواہ وہ پہلے کسی بھی مذہب یا نسل سے تعلق رکھتا ہو اللہ کے نزدیک اجر کا مستحق ہو گا، یہودیوں اور نصرانیوں کے علاوہ عرب میں کچھ ستارہ پرست لوگ رہتے تھے جنہیں صابی کہا جاتا تھا اس لئے ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اللہ پر ایمان لانے میں اس کے تمام رسولوں پر ایمان لانا بھی داخل ہے، لہذا نجات پانے کے لئے رسول اکرمﷺ پر ایمان لانا بھی ضروری ہے، چنانچہ پیچھے آیت ۴۰۔ ۴۱ میں اسی لئے تمام بنی اسرائیل کو آنحضرتﷺ پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔ مزید دیکھئے قرآن کریم کی آیات ۵ ۶۵ تا ۶۸، ۷ ۱۵۵ تا ۱۵۷۔
آیت ۶۳
ترجمہ
اور وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے (تورات پر عمل کرنے کا) عہد لیا تھا، اور کوہ طور کو تمہارے اوپر اٹھا کھڑا کیا تھا۔ (کہ) جو (کتاب) ہم نے تمہیں دی ہے اس کو مضبوطی سے تھامو اور اس میں جو کچھ (لکھا) ہے اس کو یاد رکھو، تاکہ تمہیں تقویٰ حاصل ہو
تفسیر
جب حضرت موسیٰؑ تورات لے کر آئے تو بنی اسرائیل نے دیکھا کہ اس کے بعض احکام بہت سخت ہیں، اس لئے اس سے بچنے کے بہانے تلاش کرنے شروع کر دئے، پہلے تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے خود کہے کہ تورات پر عمل کرنا ضروری ہے، مطالبہ اگرچہ نامعقول تھا مگر ان پر حجت تمام کرنے کے لئے ان میں سے ستر آدمی منتخب کر کے حضرت موسیٰؑ کے ساتھ کوہ طور پر بھیجے گئے (اعراف، ۷ ۱۵۵) جن کو اللہ تعالیٰ نے براہ راست تورات پر عمل کا حکم دیا، مگر جب یہ واپس لوٹے تو انہوں نے اپنی قوم کے سامنے تصدیق تو کی کہ اللہ تعالیٰ نے تورات پر عمل کا حکم دیا ہے، لیکن ایک بات اپنی طرف سے بڑھا دی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جتنا تم سے ہو سکے اتنا عمل کر لینا، لیکن جو نہ ہو سکے وہ ہم معاف کر دیں گے، چنانچہ تورات کے جس حکم میں بھی انہیں کچھ مشکل نظر آتی وہ یہ بہانہ تراش لیتے کہ یہ حکم بھی اسی چھوٹ میں داخل ہے، اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے کوہ طور ان کے سروں پر بلند کر دیا کہ تورات کے تمام احکام کو تسلیم کرو، جب انہیں یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں پہاڑ ان پر گرانہ دیا جائے تب ان لوگوں نے تورات کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کا عہد کیا۔ اس آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے کوہ طور کو ان کے سروں پر بلند کرنے کی یہ صورت بھی ممکن ہے کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا کر ان کے سروں پر معلق کر دیا گیا ہو، جیسا کہ حافظ ابن جریر ؒ نے متعدد تابعین سے نقل کیا ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے یہ کچھ بھی بعید نہیں ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی اور ایسی صورت پیدا فرما دی گئی ہو کہ ان لوگوں کو ایسا محسوس ہوا ہو کہ پہاڑ ان پر آگرے گا مثلاً کوئی زلزلہ آ گیا ہو جس سے انہیں ایسا لگا کہ پہاڑ گرنے والا ہے چنانچہ سورة اعراف (آیت ۱۷۱) میں اس واقعے کے بارے میں الفاظ یہ ہیں واذنتقنا الجبل فوقھم کانہ ظلۃ وظنوا انہ واقع بھم اس میں لفظ‘‘ نتق‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی لغت میں زور زور سے ہلانے کے آتے ہیں (دیکھئے قاموس اور مفردات القرآن) لہٰذا آیت کا یہ ترجمہ بھی ممکن ہے کہ‘‘ جب ہم نے پہاڑ کو ان کے اوپر زور سے اس طرح ہلایا کہ ان کو گمان ہوا کہ وہ ان پر گر پڑے گا یہاں یہ بات واضح رہے کہ کسی شخص کو ایمان قبول کرنے پر تو زبردستی مجبور نہیں کیا جا سکتا لیکن جب ایک شخص ایمان لے آئے تو اسے نافرمانی پر سزا بھی دی جا سکتی ہے اور ڈرا دھمکا کر حکم ماننے پر آمادہ بھی کیا جا سکتا ہے بنی اسرائیل چونکہ ایمان پہلے ہی لا چکے تھے اس لئے ان کو اللہ کے عذاب سے ڈرا کر فرمانبرداری پر آمادہ کیا گیا۔
آیت ۶۴، ۶۵
ترجمہ
اس سب کے باوجود تم دوبارہ (راہ راست سے) پھر گئے چنانچہ اگر اللہ کا فضل اور رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم ضرور سخت نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہو جاتے۔
اور تم اپنے لوگوں کو اچھی طرح جانتے ہو جو سنیچر (سبت) کے معاملے میں حد سے گزر گئے تھے چنانچہ ہم نے ان سے کہا تھا کہ تم دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ۔
تفسیر
سنیچر (ہفتہ) کو عربی اور عبرانی زبان میں سبت کہتے ہیں، یہودیوں کے لئے اسے ایک مقدس دن قرار دیا گیا تھا، جس میں ان کے لئے معاشی سرگرمیاں ممنوع تھیں، جن یہودیوں کا یہاں ذکر ہے وہ (غالباً حضرت داؤدؑ کے زمانے میں) کسی سمندر کے کنارے رہتے تھے اور مچھلیاں پکڑا کرتے تھے، سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑنا ان کے لئے ناجائز تھا مگر شروع میں انہوں نے کچھ حیلے کر کے اس حکم کی خلاف ورزی کرنی چاہی اور پھر کھلم کھلا مچھلیاں پکڑنی شروع کر دیں، کچھ نیک لوگوں نے انہیں سمجھایا مگر باز نہ آئے، بالآخر ان پر عذاب آیا اور ان کی صورتیں مسخ کر کے انہیں بندر بنا دیا گیا۔ (اس واقعہ کی تفصیل اعراف، ۷ ۱۶۳ تا ۱۶۶)۔ میں آنے والی ہے۔
آیت ۶۶، ۶۷
ترجمہ
پھر ہم نے اس واقعے کو اس زمانے کے اور اس کے بعد کے لوگوں کے لئے عبرت اور ڈرنے والوں کے لئے نصیحت کا سامان بنا دیا
اور (وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرو۔ وہ کہنے لگے کہ کیا آپ ہمارا مذاق بناتے ہیں موسیٰ نے کہا میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں (ایسے) نادانوں میں شامل ہوں (جو مذاق میں جھوٹ بولیں)
تفسیر
جیسا کہ نیچے آیت ۷۲ میں آ رہا ہے، یہ حکم ایک مقتول کا قاتل دریافت کرنے کے لئے دیا گیا تھا اس لئے بنی اسرائیل نے کو مذاق سمجھا کہ گائے ذبح کرنے سے قاتل کیسے معلوم ہو گا؟
آیت ۶۸ ۔ ۷۱
ترجمہ
انہوں نے کہا کہ آپ ہماری خاطر اپنے رب سے درخواست کیجئے کہ ہمیں صاف صاف بتائے کہ وہ گائے کیسی ہو؟ اس نے کہا اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہو کہ نہ بہت بوڑھی ہو بہ بالکل بچی (بلکہ) ان دونوں کے بیچ بیچ میں ہو۔ بس اب جو حکم تمہیں دیا گیا ہے اس پر عمل کر لو۔
کہنے لگے آپ ہماری خاطر اپنے رب سے درخواست کیجئے کہ ہمیں صاف صاف بتائے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟ موسیٰ نے کہا اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسے تیز زرد رنگ کی گائے ہو جو دیکھنے والوں کا دل خوش کر دے۔
انہوں نے (پھر) کہا کہ آپ ہماری خاطر اپنے رب سے درخواست کیجئے کہ ہمیں صاف صاف بتائے کہ وہ گائے کیسی ہو؟ اس گائے نے تو ہمیں شبہ میں ڈال دیا ہے اور اللہ نے چاہا تو ہم ضرور اس کا پتہ لگا لیں گے۔
موسیٰ نے کہا اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہو جو کام میں جت کر زمین نہ گا ہتی ہو، اور نہ کھیتی کو پانی دیتی ہو، پوری طرح صحیح سالم ہو جس میں کوئی داغ نہ ہو۔ انہوں نے کہا ہاں! اب آپ ٹھیک ٹھیک پتہ لے کر آئے۔ اس کے بعد انہوں نے اسے ذبح کیا، جبکہ لگتا نہیں تھا کہ وہ کر پائیں گے۔
تفسیر
مطلب یہ ہے کہ شروع میں جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا تو کسی خاص قسم کی گائے نہیں بتائی گئی تھی چنانچہ وہ کوئی بھی گائے ذبح کر دیتے تو حکم پورا ہو جاتا لیکن انہوں نے خواہ مخواہ کھود کرید شروع کر دی جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے بھی نت نئی شرطیں عائد فرما لیں اور ایسی گائے تلاش کرنا مشکل ہو گیا جو ان شرطوں کو پورا کرتی ہو۔ یہاں تک کہ ایک مرحلے میں ایسا محسوس ہونے لگا کہ شاید وہ ایسی گائے تلاش کر کے ذبح کرنے کے قابل نہ ہوں۔ اس واقعے میں سبق یہ دیا گیا ہے کہ بلا وجہ غیر ضروری کھوج میں پڑنا ٹھیک نہیں جو بات جتنی سادہ ہو اس پر اتنی ہی سادگی عمل کر لینا چاہیے۔
آیت ۷۲، ۷۳
ترجمہ
اور (یاد کرو) جب تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، اور اس کے بعد اس کا الزام ایک دوسرے پر ڈال رہے تھے، اور اللہ کو وہ راز نکال باہر کرنا تھا جو تم چھپائے ہوئے تھے۔
چنانچہ ہم نے کہا کہ اس (مقتول) کو اس (گائے) کے ایک حصے سے مارو۔ اسی طرح اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے، اور تمہیں (اپنی قدرت کی) نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔
تفسیر
اس واقعہ کی تفصیل تاریخی روایات میں یہ آئی ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے اپنے ایک بھائی کو اس کی میراث حاصل کرنے کی خاطر قتل کیا اور اس کی لاش سڑک پر ڈال دی، پھر خود ہی حضرت موسیٰؑ کے پاس شکایت لے کر پہنچ گیا کہ قاتل کو پکڑ کر سزا دی جائے، اس موقع پر حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں گائے ذبح کرنے کو کہا، جس کا واقعہ اوپر گذرا۔ جب گائے ذبح ہو گئی تو آپ نے فرمایا کہ گائے کا کوئی عضو اٹھا کر مقتول کی لاش پر مارو تو وہ زندہ ہو کر قاتل کا نام بتادے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس طرح قاتل کا پول کھل گیا اور وہ پکڑا گیا، قاتل کی دریافت کے لئے یہ طریقہ اختیار کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مردوں کو زندہ کرنے کی خدائی طاقت کا عملی مظاہرہ کر کے ان لوگوں کی زبانیں بند کر دیں گئیں جو دوسری زندگی کو نا ممکن سمجھتے تھے۔ غالباً اس واقعے کے بعد ہی بنی اسرائیل میں یہ طریقہ جاری ہوا کہ جب کوئی شخص مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چل رہا ہو تو ایک گائے ذبح کر کے اس پر اپنے ہاتھ دھوئیں اور قسم کھائیں کہ ہم نے اسے قتل نہیں کیا جس کا ذکر بائبل کی کتاب استثناء ۱۲-۱ تا ۸ میں آیا ہے۔
آیت ۷۴
ترجمہ
اس سب کے بعد تمہارے دل پھر سخت ہو گئے، یہاں تک کہ وہ ایسے ہو گئے جیسے پتھر! بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی زیادہ۔ (کیونکہ) پتھروں میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے نہریں پھوٹ بہتی ہیں، اور انہی میں سے کچھ وہ ہوتے ہیں جو خود پھٹ پڑتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، اور انہی میں وہ (پتھر) بھی ہیں جو اللہ کے خوف سے لڑھک جاتے ہیں۔ اور (اس کے برخلاف) جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ اس سے بیخبر نہیں ہے۔
تفسیر
یعنی بعض مرتبہ تو پتھروں سے چشمے نکل آتے ہیں جیسا کہ بنی اسرائیل خود دیکھ چکے تھے کہ کس طرح ایک سنگلاخ چٹان سے پانی کے چشمے بہہ پڑے تھے (دیکھئے پیچھے آیت نمبر ۶۰) اور بعض اوقات بھاری مقدار میں تو پانی نہیں نکلتا مگر پتھر شق ہو کر تھوڑا بہت پانی نکال دیتا ہے اور کچھ پتھر اللہ کے خوف سے لڑھک بھی پڑتے ہیں مگر ان کے دل ایسے سخت ہیں کہ ذرا نہیں پسیجتے۔ کسی زمانے میں یہ بات کچھ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ پتھر جیسی بے جان چیز میں خوف کا کیا تصور ہو سکتا ہے؟ لیکن قرآن کریم نے کئی جگہوں پر یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ جن چیزوں کو ہم بظاہر بے جان یا بے شعور سمجھتے ہیں ان میں بھی کچھ نہ کچھ شعور موجود ہوتا ہے مثلاً دیکھئے سورة بنی اسرائیل (۲۷: ۳۳) اور سورة احزاب (۲۷: ۳۳) لہذا اگر اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ کچھ پتھر اللہ کے خوف سے لڑھک جاتے ہیں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے آج تو سائنس بھی رفتہ رفتہ اس نتیجے پر پہنچ رہی ہے کہ جمادات میں بھی نمو اور شعور کی کچھ نہ کچھ صلاحیت موجود ہوتی ہے۔
آیت ۷۵، ۷۶
ترجمہ
(مسلمانو!) کیا اب بھی تمہیں یہ لالچ ہے کہ یہ لوگ تمہارے کہنے سے ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کے لوگ اللہ کا کلام سنتے تھے، پھر اس کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد بھی جانتے بوجھتے اس میں تحریف کر ڈالتے تھے۔
اور جب یہ لوگ ان (مسلمانوں) سے ملتے ہیں جو پہلے ایمان لا چکے ہیں تو (زبان سے) کہہ دیتے ہیں کہ ہم (بھی) ایمان لے آئے ہیں، اور جب یہ ایک دوسرے کے ساتھ تنہائی میں جاتے ہیں تو (آپس میں ایک دوسرے سے) کہتے ہیں کہ کیا تم ان (مسلمانوں) کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ یہ (مسلمان) تمہارے پروردگار کے پاس جا کر انہیں تمہارے خلاف دلیل کے طور پر پیش کریں؟ کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں؟
تفسیر
تورات میں آخر زمانے میں آنے والے نبی کی جو پیشین گوئیاں موجود تھیں وہ تمام تر نبی کریمﷺ پر صادق آتی تھیں، بعض منافق یہودی جو مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے یہ پیشین گوئیاں مسلمانوں کو سنا دیتے تھے اس پر دوسرے یہودی تنہائی میں ان کو ملامت کرتے تھے کہ مسلمان ان پیشین گوئیاں کو جان لیں گے تو قیامت میں ہمارے خلاف استعمال کریں گے اور ہمارے پاس ان کا کوئی جواب نہ ہو گا، ظاہر ہے کہ یہ انتہائی بے وقوفی کی بات تھی، کیونکہ اگر مسلمانوں سے یہ پیشین گوئیاں چھپا بھی لی جائیں تو اللہ سے تو نہیں چھپ سکتیں۔
آیت ۷۷ ۔ ۷۹
ترجمہ
کیا یہ لوگ (جو ایسی باتیں کرتے ہیں) یہ نہیں جانتے کہ اللہ کو ان ساری باتوں کا خوب علم ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں؟
اور ان میں سے کچھ لوگ ان پڑھ ہیں جو کتاب (تورات) کا علم تو رکھتے نہیں، البتہ کچھ آرزوئیں پکائے بیٹھے ہیں، اور ان کا کام بس یہ ہے کہ وہم و گمان باندھتے رہتے ہیں۔
لہذا تباہی ہے ان لوگوں کی جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر (لوگوں سے) کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے ذریعے تھوڑی سی آمدنی کما لیں۔ پس تباہی ہے ان لوگوں پر اس تحریر کی وجہ سے بھی جو ان کے ہاتھوں نے لکھی، اور تباہی ہے ان پر اس آمدنی کی وجہ سے بھی جو وہ کماتے ہیں۔
تفسیر
یہاں قرآن کریم نے ترتیب یہ رکھی ہے کہ پہلے ان یہودی علماء کا ذکر فرمایا ہے جو تورات میں جان بوجھ کر رد و بدل کرتے تھے پھران ان پڑھ یہودیوں کا جنہیں تورات کا علم تو تھا نہیں مگر انہیں مذکورہ بالا علماء نے ان جھوٹی آرزوؤں میں مبتلا کر رکھا تھا کہ سارے یہودی اللہ کے لاڈلے ہیں اور وہ بہر صورت جنت میں جائیں گے، ان کا ساراعلم اسی قسم کے گمانوں پر مشتمل تھا، چونکہ ان کے اس گمان کی بنیادی وجہ علماء کی تحریفات تھیں اس لئے آٰت نمبر ۹۶ میں ان کی تباہی کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔
آیت ۸۰، ۸۱
ترجمہ
اور یہودیوں نے کہا ہے کہ ہمیں گنتی کے چند دنوں کے علاوہ آگ ہرگز نہیں چھوئے گی۔ آپ ان سے کہیے کہ کیا تم نے اللہ کی طرف سے کوئی عہد لے رکھا ہے جس کی بنا پر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا، یا تم اللہ کے ذمے وہ بات لگا رہے ہو جس کا تمہیں کچھ پتہ نہیں؟
(آگ تمہیں) کیوں نہیں (چھوئے گی)؟ جو لوگ بھی بدی کماتے ہیں اور ان کی بدی انہیں گھیر لیتی ہے تو ایسے لوگ ہی دوزخ کے باسی ہیں۔ وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
تفسیر
بدی کے گھیرے میں لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی ایسے گناہ ارتکاب کریں جس کے بعد کوئی نیک عمل آخرت میں کار آمد نہ ہو، اور وہ گناہ کفر اور شرک ہے۔
آیت ۸۲ ۔ ۸۵
ترجمہ
اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں تو وہ جنت کے باسی ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے پکا عہد لیا تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے، اور والدین سے اچھا سلوک کرو گے، اور رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں اور مسکینوں سے بھی۔ اور لوگوں سے بھلی بات کہنا، اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا۔ (مگر) پھر تم میں سے تھوڑے سے لوگوں کے سوا باقی سب (اس عہد سے) منہ موڑ کر پھر گئے۔
اور (یاد کرو) جب ہم نے تم سے پکا عہد لیا تھا کہ تم ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اور اپنے آدمیوں کو اپنے گھروں سے نہیں نکالو گے، پھر تم نے اقرار کیا تھا اور تم خود اس کے گواہ ہو۔
اس کے بعد (آج) تم ہی وہ لوگ ہو کہ اپنے ہی آدمیوں کو قتل کرتے ہو، اور اپنے ہی میں سے کچھ لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کرتے ہو، اور ان کے خلاف گناہ اور زیادتی کا ارتکاب کر کے (ان کے دشمنوں کی) مدد کرتے ہو، اور اگر وہ (دشمنوں کے) قیدی بن کر تمہارے پاس آ جاتے ہیں تو تم ان کو فدیہ دے کر چھڑا لیتے ہو، حالانکہ ان کو (گھر سے) نکالنا ہی تمہارے لیے حرام تھا۔ تو کیا تم کتاب (تورات) کے کچھ حصے پر تو ایمان رکھتے ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو؟ اب بتاؤ کہ جو شخص ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیوی زندگی میں اس کی رسوائی ہو؟ اور قیامت کے دن ایسے لوگوں کو سخت ترین عذاب کی طرف بھیج دیا جائے گا۔ اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔
تفسیر
اس کا پس منظر یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں یہودیوں کے دو قبیلے آباد تھے، بنو قریظہ اور بنو نضیر، دوسری طرف بت پرستوں کے بھی دو قبیلے تھے اوس اور خزرج، قریظہ کی دوستی اوس قبیلے سے تھی، اور بنو نضیر کی خزرج سے، جب اوس و خزرج میں لڑائی ہوئی تو قریظہ اوس کا ساتھ دیتے اور بنو نضیر خزرج کا، نتیجہ یہ کہ یہودیوں کے دونوں قبیلے بالواسطہ ایک دوسرے کے مدمقابل آ جاتے اور ان لڑائیوں میں جہاں اوس اور خزرج کے آدمی مارے جاتے وہاں قریظہ اور نضیر کے یہودی بھی قتل ہوتے یا اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور ہوتے، اس طرح اگرچہ بنو قریظہ اور بنو نضیر دونوں قبیلے یہودی تھے مگر وہ ایک دوسرے کے دشمنوں کی امداد کر کے آپس میں ایک دوسرے کے قتل اور خانماں بربادی میں حصہ دار ہوتے تھے، ہاں اگر کوئی یہودی دشمن کے ہاتھوں قید ہو جاتا تو وہ سب مل کر اس کا فدیہ ادا کرتے اور اسے چھڑا لیتے جس کی وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ ہمیں تورات نے حکم دیا ہے کہ اگر کوئی یہودی دشمن کی قید میں چلا جائے تو اسے چھڑائیں، قرآن کریم فرماتا ہے کہ جس تورات نے یہ حکم دیا ہے اسی نے یہ حکم بھی تو دیا تھا کہ نہ ایک دوسرے کو قتل کرنا نہ ایک دوسرے کو گھر سے نکالنا، ان احکام کو تو تم نے چھوڑ دیا اور صرف فدیہ کے حکم پر عمل کر لیا۔
آیت ۸۶، ۸۷
ترجمہ
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیوی زندگی کو آخرت کے بدلے خرید لیا ہے، لہذا نہ ان کے عذاب میں کوئی تخفیف ہو گی اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، اور اس کے بعد پے درپے رسول بھیجے۔ اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کی۔ پھر یہ آخر کیا معاملہ ہے کہ جب کبھی کوئی رسول تمہارے پاس کوئی ایسی بات لے کر آیا جو تمہاری نفسانی خواہشات کو پسند نہیں تھی تو تم اکڑ گئے؟ چنانچہ بعض (انبیاء) کو تم نے جھٹلایا، اور بعض کو قتل کرتے رہے۔
تفسیر
۵۹ ‘‘ روح القدس‘‘ کے لفظی معنی ہیں مقدس روح اور قرآن کریم میں یہ لقب حضرت جبرئیلؑ کے لئے استعمال کیا گیا ہے (دیکھئے سورة نحل آیت ۱۰۲: ۱۶) حضرت عیسیٰؑ کو جب جبرئیلؑ کی یہ تائید حاصل تھی کہ وہ ان دشمنوں سے ان کی حفاظت کے لئے ان کے ساتھ رہتے تھے
آیت ۸۸
ترجمہ
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف میں ہیں۔ نہیں! بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر پھٹکار ڈال رکھی ہے اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔
تفسیر
ان کے اس جملے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی شیخی بگھارتے تھے کہ ہمارے دلوں پر ایک حفاظتی غلاف ہے جس کی وجہ سے کوئی غلط بات ہمارے دلوں میں گھر نہیں کر سکتی اور یہ مطلب بھی ممکن ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنے آپ سے مایوس کرنے کے لئے طنزاً یہ کہتے تھے کہ آپ تو بس یہ سمجھ لو کہ ہمارے دلوں پر غلاف چڑھا ہوا ہے اور ہمیں اسلام کی دعوت دینے کی فکر میں نہ پڑو۔
آیت ۸۹
ترجمہ
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب آئی (یعنی قرآن) جو اس (تورات) کی تصدیق بھی کرتی ہے جو پہلے سے ان کے پاس ہے (تو ان کا طرز عمل دیکھو) باوجودیکہ یہ خود شروع میں کافروں (یعنی بت پرستوں) کے خلاف (اس کتاب کے حوالے سے) اللہ سے فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ مگر جب وہ چیز ان کے پاس آ گئی جسے انہوں نے پہچان بھی لیا، تو اس کا انکار کر بیٹھے۔ پس چھٹکار ہے اللہ کی ایسے کافروں پر۔
تفسیر
جب یہودیوں کی بت پرستوں سے جنگ ہوتی یا بحث و مباحثہ ہوتا تو وہ یہ دعائیں مانگا کرتے تھے کہ یا اللہ! آپ نے تورات میں جس آخری نبی کی خبر دی ہے اسے جلدی بھیج دیجئے تاکہ ہم ان کے ساتھ مل کر بت پرستوں پر فتح حاصل کریں، مگر جب وہ نبی (حضرت محمدﷺ تشریف لے آئے تو وہ حسد میں مبتلا ہو گئے کہ انہیں بنی اسرائیل کے بجائے بنی اسماعیل میں کیوں بھیجا گیا؟ چنانچہ یہ جان لینے کے باوجود کہ آنحضرتﷺ پر وہ ساری علامتیں صادق آتی ہیں جو تورات میں نبی آخرالزماں کی بیان کی گئی ہیں انہوں نے آپ کو ماننے سے سے انکار کر دیا۔
آیت ۹۰
ترجمہ
بری ہے وہ قیمت جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا ہے، کہ یہ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کا صرف اس جلن کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ اللہ اپنے فضل کا کوئی حصہ (یعنی وحی) اپنے بندوں میں سے جس پر چاہ رہا ہے (کیوں) اتار رہا ہے؟ چنانچہ یہ (اپنی اس جلن کی وجہ سے) غضب بالائے غضب لے کر لوٹے ہیں۔ اور کافر لوگ ذلت آمیز سزا کے مستحق ہیں۔
تفسیر
یعنی ایک غضب کے مستحق تو وہ اپنے کفر کی وجہ سے تھے دوسرا غضب ان پر حسد اور ضد کی وجہ سے ہوا۔
آیت ۹۱ ۔ ۹۳
ترجمہ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو کلام اتارا ہے اس پر ایمان لے آؤ، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو (صرف) اسی کلام پر ایمان رکھیں گے جو ہم پر نازل کیا گیا، (یعنی تورات) اور وہ اس کے سوا (دوسری آسمانی کتابوں) کا انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہ بھی حق ہیں (اور) جو کتاب ان کے پاس ہے وہ اس کی تصدیق بھی کرتی ہیں۔ (اے پیغمبر) تم ان سے کہو کہ اگر تم واقعی (تورات) پر ایمان رکھتے تھے تو اللہ کے نبیوں کو پہلے زمانے میں کیوں قتل کرتے رہے؟
اور خود موسیٰ تمہارے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے، پھر تم نے ان کے پیٹھ پیچھے یہ ستم ڈھایا کہ گائے کے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔
اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا اور تمہارے اوپر طور کو بلند کر دیا (اور یہ کہا کہ) جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اس کو مضبوطی سے تھامو اور (جو کچھ کہا جائے اسے ہوش سے) سنو۔ کہنے لگے ہم نے (پہلے بھی) سن لیا تھا، مگر عمل نہیں کیا تھا (اب بھی ایسا ہی کریں گے) اور (در اصل) ان کے کفر کی نحوست سے ان کے دلوں میں بچھڑا بسا ہوا تھا۔ آپ (ان سے) کہیے کہ اگر تم مومن ہو تو کتنی بری ہیں وہ باتیں جو تمہارا ایمان تمہیں تلقین کر رہا ہے۔
تفسیر
اس واقعے کی تفصیل اسی سورت میں پیچھے آیت نمبر ۶۳ کے حاشیہ میں گذر چکی اور بچھڑے کا واقعہ آیت ۵۳ کے تحت۔
آیت ۹۴، ۹۵
ترجمہ
آپ (ان سے) کہیے کہ اگر اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے مخصوص ہے (جیسا کہ تمہارا کہنا ہے) تو موت کی تمنا تو کر کے دکھاؤ، اگر واقعی سچے ہو۔
اور (ہم بتائے دیتے ہیں کہ) انہوں نے اپنے جو کرتوت آگے بھیج رکھے ہیں، ان کی وجہ سے یہ کبھی ایسی تمنا نہیں کریں گے۔ اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
تفسیر
یہ بھی قرآن کریم کی طرف سے ایک چیلنج تھا جسے قبول کر لینا ان کے لئے کچھ بھی مشکل نہ تھا وہ بآسانی کم از کم زبان سے علی الاعلان موت کی تمنا کر کے دکھا سکتے تھے لیکن چونکہ وہ جانتے تھے تھے کہ یہ خدائی چیلنج ہے اس لئے ایسی تمنا کا اظہار انہیں فوراً قبر میں پہنچا دے گا اس لئے کسی نے ایسی جرات نہیں کی۔
آیت ۹۶، ۹۷
ترجمہ
(بلکہ) یقیناً تم ان لوگوں کو پاؤ گے کہ انہیں زندہ رہنے کی حرص دوسرے تمام انسانوں سے زیادہ ہے، یہاں تک کہ مشرکین سے بھی زیادہ۔ ان میں کا ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ ایک ہزار سال عمر پائے، حالانکہ کسی کا بڑی عمر پا لینا اسے عذاب سے دور نہیں کر سکتا۔ اور یہ جو عمل بھی کرتے ہیں اللہ اسے اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔
(اے پیغمبر) کہہ دو کہ اگر کوئی شخص جبرئیل کا دشمن ہے تو (ہوا کرے) انہوں نے تو یہ کلام اللہ کی اجازت سے تمہارے دل پر اتارا ہے جو اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کر رہا ہے، اور ایمان والوں کے لیے مجسم ہدایت اور خوشخبری ہے۔
تفسیر
بعض یہودیوں نے آنحضرتﷺ سے کہا تھا کہ آپ کہ پاس جبرئیلؑ وحی لاتے ہیں وہ چونکہ ہمارے لئے بڑے سخت احکام لایا کرتے تھے اس لئے ہم انہیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں، اگر کوئی اور فرشتہ وحی لا رہا ہو تو ہم کچھ غور کر سکتے تھے، یہ آیت اس کے جواب میں نازل ہوئی ہے اور جواب کا حاصل یہ ہے کہ جبرئیلؑ تو محض پیغام پہچانے والے ہیں، جو کچھ لاتے ہیں اللہ کے حکم سے لاتے ہیں، لہذا نہ ان سے دشمنی کی کوئی معقول وجہ ہے اور نہ اس کی و جہ سے اللہ کے کلام کو رد کرنے کا کوئی معنی ہے۔
تعارف
یہ قرآن کریم کی سب سے لمبی سورت ہے، اس کی آیات ۶۷ تا ۷۳ میں اس گائے کا واقعہ مذکور ہے جسے ذبح کرنے کا حکم بنی اسرائیل کو دیا گیا تھا، اس لئے اس سورت کا نام سورة البقرۃ ہے، کیونکہ بقرہ عربی میں گائے کو کہتے ہیں، سورت کا آغاز اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کے بیان سے ہوا ہے، اسی ضمن میں انسانوں کی تین قسمیں یعنی، مومن، کافر اور منافق بیان کی گئی ہیں، پھر حضرت آدمؑ کی تخلیق کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے، تاکہ انسان کو اپنی پیدائش کا مقصد معلوم ہو، اس کے بعد آیات کے ایک طویل سلسلہ میں بنیادی طور پر خطاب یہودیوں سے ہے جو بڑی تعداد میں مدینہ منورہ کے آس پاس آباد تھے ان پر اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں نازل فرمائیں اور جس طرح انہوں نے ناشکری اور نافرمانی سے کام لیا اس کا مفصل بیان ہے، پہلے پارہ کے تقریباً آخر میں حضرت ابراہیمؑ کا تذکرہ ہے، اس لئے کہ انہیں نہ صرف یہودی اور عیسائی بلکہ عرب کے بت پرست بھی اپنا پیشوا مانتے تھے، ان سب کو یاد دلایا گیا کہ وہ خالص توحید کے قائل تھے اور انہوں نے کبھی کسی قسم کی شرک کو گوارہ نہیں کیا، اسی ضمن میں بیت اللہ کی تعمیر اور اسے قبلہ بنانے کا موضوع زیر بحث آیا ہے، دوسرے پارہ کے شروع میں اس کے مفصل احکام بیان کرنے کے بعد اس سورت میں مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق بہت سے احکام بیان فرمائے گئے ہیں جن میں عبادت سے لے کر معاشرت، خاندانی امور اور حکمرانی سے متعلق بہت سے مسائل داخل ہیں۔
یہ سورت مدنی ہے اور اس میں ۲۸۶ آیتیں اور ۴۰ رکوع ہیں
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
آیت ۱
ترجمہ
الم
تفسیر
مختلف سورتوں کے شروع میں یہ حروف اسی طرح الگ الگ نازل ہوئے تھے، ان کو حروف مقطعات کہتے ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ ان کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا ایک راز ہے جس کی تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں اور عقیدے یا عمل کا کوئی مسئلہ ان کے سمجھنے پر موقوف نہیں۔
آیت ۲
ترجمہ
یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں یہ ہدایت ہے ان کے ڈر رکھنے والوں کے لئے
تفسیر
یعنی اس کتاب کی ہر بات کسی شک و شبہ کے بغیر درست ہے، انسان کی لکھی ہوئی کسی کتاب کو سوفیصد شک سے بالاتر نہیں سمجھاجا سکتا، کیونکہ انسان کتنا ہی بڑا عالم ہو اس کا علم محدود ہوتا ہے اور اکثر اس کی کتاب اس کے ذاتی گمان پر مبنی ہوتی ہے، لیکن چونکہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی ہے جس کا علم لامحدود بھی ہے اور سو فیصد یقینی بھی، اس لئے اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، کسی کو شک ہو تو یہ اس کی ناسمجھی کی وجہ سے ہو گا کتاب کی کوئی بات شبہ والی نہیں۔
اگرچہ قرآن کریم نے صحیح راستہ ہر ایک کو دکھایا ہے خواہ وہ مومن ہو یا کافر اس لئے اس معنی کے لحاظ سے اس کی ہدایت سب کے لئے ہے لیکن نتیجے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس ہدایت کا فائدہ انہی پہنچتا ہے جو اس کی بات کو مان کر اس کے تمام احکام اور تعلیمات پر عمل کریں، اس لئے فرمایا گیا کہ ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لئے جو بے دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں، پرہیز گاری اور ڈر رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھے کہ اسے ایک دن اللہ کے حضور اپنے تمام اعمال کا جواب دینا ہے لہذا مجھے کوئی کام ایسا نہ کرنا چاہئے جو اس کی ناراضی کا باعث ہو اسی خوف اور دھیان کا نام تقویٰ ہے۔ ‘‘ بے دیکھی چیزوں‘‘ کے لئے قرآن کریم نے‘‘ غیب‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتیں، نہ ہاتھ سے چھو کر یا ناک سے سونگھ کر انہیں محسوس کیا جا سکتا ہے، بلکہ وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعے معلوم ہوتی ہیں، یعنی یا تو قرآن کریم میں ان کا ذکر ہے یا آنحضرتﷺ نے وحی کے ذریعے وہ باتیں معلوم کر کے ہمیں بتائی ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کی صفات، جنت و دوزخ کے حالات، فرشتے وغیرہ، اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے ان متقی بندوں کی تعریف کی جا رہی ہے جو غیب کی چیزوں کو بغیر دیکھے صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے ارشادات پر یقین کر کے دل سے مانتے ہیں جو انہوں نے آنکھوں سے نہیں دیکھیں، یہ دنیا چونکہ امتحان کی جگہ ہے، اس لئے اگر یہ چیزیں آنکھوں سے نظر آ جاتیں اور پھر کوئی شخص ان پر ایمان لاتا تو کوئی امتحان نہ ہوتا، اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو انسان کی نگاہ سے پوشیدہ رکھا ہے لیکن ان کے وجود کے بیشمار دلائل مہیا فرما دئے ہیں کہ جب کوئی شخص ذرا انصاف سے غور کرے گا تو ان باتوں پر ایمان لے آئے گا اور امتحان میں کامیاب ہو گا۔ قرآن کریم نے بھی وہ دلائل بیان فرمائے ہیں جو انشاء اللہ آگے آتے رہیں گے ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ قرآن کریم کو حق طلبی کے جذبے سے غیر جانبدار ہو کر پڑھا جائے اور یہ خیال دل میں رکھا جائے کہ یہ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ اس میں لاپروائی برتی جائے۔ یہ انسان کی ہمیشہ کی زندگی کی بہتری اور تباہی کا معاملہ ہے۔ لہٰذا یہ ڈر دل میں ہونا چاہیے کہ کہیں میری نفسانی خواہشات قرآن کریم کے دلائل ٹھیک ٹھیک سمجھنے میں رکاوٹ نہ بن جائیں اس لئے مجھے اس کی دی ہوئی ہدایت کو تلاش حق کے جذبے سے پڑھنا چاہیے، اور پہلے سے دل میں جمے ہوئے خیالات سے ذہن کو خالی کر کے پڑھنا چاہیے تاکہ مجھے واقعی ہدایت نصیب ہو۔ ‘‘ یہ ہدایت ہے ڈرنے والوں کے لئے‘‘ کا ایک مطلب یہ بھی ہے۔
آیت ۳
ترجمہ
جو بے دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے (اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔
تفسیر
جو لوگ قرآن کریم کی ہادیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں یہاں ان کی صفات بیان فرمائی گئ ہیں ان میں سے سب سے پہلی صفت تو یہ ہے کہ وہ‘‘ غیب‘‘ یا ان دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں۔ جس کی تفصیل پیچھے گزر چکی۔ اس میں تمام ایمانیات داخل ہو گئے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا، یا جو کچھ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا اس سب پر ایمان لاتے ہیں۔ دوسری چیز نماز قائم کرنا بیان کی گئی ہے جو بدنی عبادتوں میں سب سے اہم ہے اور تیسری چیز اپنے مال میں سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا جس میں زکوٰۃ و صدقات آ جاتے ہیں جو مالی عبادت ہے۔
آیت ۴
ترجمہ
اور جو اس (وحی) پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں
تفسیر
یعنی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کے جو وحی حضور اکرمﷺ پر اتاری گئی وہ بھی بالکل سچی ہے اور جو آپ سے پہلے انبیائے کرامؑ مثلاً حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰؑ وغیرہ پر نازل کی گئی تھی وہ بھی بالکل سچی تھی اگرچہ بعد میں لوگوں نے اسے ٹھیک ٹھیک محفوظ نہ رکھا بلکہ اس میں تحریف کر دی۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کر دیا گیا کہ وحی کا سلسلہ حضور اکرمﷺ پر ختم ہو گیا، آپﷺ کے بعد کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہو گا جس پر وحی آئے یا اسے پیغمبر بنایا جائے، کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے صرف آنحضرتﷺ پر نازل ہونے والی وحی اور آپ سے پہلے کے انبیاءؑ پر نازل ہونے والی وحی کا ذکر فرمایا ہے آپ کے بعد کی کسی وحی کا ذکر نہیں فرمایا۔ اگر آپ کے بعد بھی کوئی نیا پیغمبر آنے والا ہوتا یا اس کی وحی پر ایمان لانا ضروری ہوتا تو اس کو بھی یہاں بیان فرمایا جاتا جیسا کہ پچھلے پیغمبروں سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ آپ حضرات کے بعد حضور نبی کریمﷺ تشریف لانے والے ہیں آپ کو ان پر بھی ایمان رکھنا ہو گا۔ (دیکھئے قرآن کریم سورة آل عمران آیت ۸۱)
آخرت سے مراد وہ زندگی ہے جو مرنے کے بعد حاصل ہو گی اور جو ہمیشہ کے لئے ہو گی اور اس میں ہر بندے کو دنیا میں کئے ہوئے اعمال کا حساب دینا ہو گا اور اسی کی بنیاد پر یہ فیصلہ ہو گا کہ وہ جنت میں جائے گا یا جہنم میں، اگرچہ یہ آخرت بھی غیب یعنی ان دیکھی چیزوں میں شامل ہے جس پر ایمان لانے کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا تھا، لیکن آخر میں اسے علیحدہ کر کے خصوصی اہمیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت کا عقیدہ ہی در حقیقت انسان کی سوچ اور اس کی عملی زندگی کو صحیح راستے پر رکھتا ہے جو انسان یہ یقین رکھتا ہو کہ ایک دن مجھے اللہ کے سامنے پیش ہو کر اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہے وہ کسی گناہ یا جرم کا ارتکاب پر کبھی ڈھٹائی کے ساتھ آمادہ نہیں ہو گا۔
آیت ۵، ۶
ترجمہ
یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے پروردگار کی طرف سے صحیح راستے پر ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔
بیشک وہ لوگ جنہوں نے کفر اپنا لیا ہے ان کے حق میں دونوں باتیں برابر ہیں، چاہے آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے
تفسیر
یہاں ان کافروں کا ذکر ہو رہا ہے جنہوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ چاہے کتنے واضح اور روشن دلائل ان کے سامنے آ جائیں وہ کبھی آنحضرتﷺ کی دعوت پر ایمان نہیں لائیں گے، حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کفر پر اڑ گئے ہیں۔‘‘ ترجمے میں‘‘ کفر اپنا لیا ہے‘‘ کے الفاظ اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔
‘‘ ڈرانا‘‘ انذار کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ قرآن کریم نے انبیائے کرامؑ کی دعوت کو بکثرت‘‘ ڈرانے‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ کیونکہ انبیاء کرامؑ لوگوں کو کفر اور بداعمالیوں کے برے انجام سے ڈراتے ہیں، لیکن جن لوگوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ کوئی بات ماننی نہیں ہے، ان کو برے انجام سے ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
آیت ۷
ترجمہ
اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لئے زبردست عذاب ہے۔
تفسیر
اس آیت میں یہ واضح فرمایا گیا ہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی بڑی خطرناک چیز ہے، اگر کوئی شخص نا واقفیت یا غفلت وغیرہ کی وجہ سے کسی غلطی کا ارتکاب کرے تو اس کی اصلاح کی امید ہو سکتی ہے، لیکن جو شخص غلطی پر اڑ جائے اور تہیہ کر لے کہ کسی بھی حالت میں بات نہیں ماننا ہے، تو اس کی ضد کا آخری انجام یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے جس کے بعد اس سے حق کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس حالت سے محفوظ رکھے، لہذا اس پر شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ جب خود اللہ تعالیٰ نے ان کے دل پر مہر لگا دی تو معذور ہو گئے اس لئے کہ یہ مہر لگانا خود انہی کی ضد اور تہیہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ حق بات نہیں ماننی۔
آیت ۸
ترجمہ
کچھ لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لے آئے، حالانکہ وہ (حقیقت میں) مومن نہیں ہیں
تفسیر
سورت کے شروع میں مومنوں کے اوصاف اور ان کا انجام خیر بیان فرمایا گیا، پھر ان لوگوں کا ذکر ہوا جو کھلے کافر ہیں، اب یہاں سے ایک تیسرے گروہ کا بیان ہو رہا ہے جسے منافق کہا جاتا ہے یہ لوگ ظاہر میں تو اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے مگر دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
آیت ۹
ترجمہ
وہ اللہ کو اور ان لوگوں کو جو (واقعی) ایمان لا چکے ہیں دھوکا دیتے ہیں اور (حقیقت تو یہ ہے کہ) وہ اپنے سوا کسی اور کو دھوکا نہیں دے رہے لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے
تفسیر
یعنی بظاہر تو وہ اللہ اور مسلمانوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں، کیونکہ اس دھوکے کا انجام خود ان کے حق میں برا ہو گا، وہ سمجھ رہے ہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے وہ کفر کے دنیوی انجام سے بچ گئے، حالانکہ آخرت میں ان کو جو عذاب ہو گا وہ دنیا کے عذاب سے زیادہ سنگین ہے۔
آیت ۱۰
ترجمہ
ان کے دلوں میں روگ ہے چنانچہ اللہ نے ان کے روگ میں اور اضافہ کر دیا ہے اور ان کے لئے دردناک سزا تیار ہے، کیونکہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے
تفسیر
یہ وہی بات ہے جو پیچھے آیت نمبر ۷ میں کہی گئی تھی۔ یعنی شروع میں انہوں نے اپنے اختیار سے اس گمراہی کو اپنایا اور اس پر اڑ گئے، یہ ان کے دل کی بیماری تھی، پھر ان کی ضد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا کہ اب انہیں واقعی ایمان لانے کی توفیق نہیں ہو گی۔
آیت ۱۱ ۔ ۱۴
ترجمہ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم زمین میں فساد نہ مچاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔
یاد رکھو یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم بھی اسی طرح ایمان لے آؤ جیسے دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم بھی اسی طرح ایمان لائیں جیسے بیوقوف لوگ ایمان لائے ہیں؟ خوب اچھی طرح سن لو کہ یہی لوگ بیوقوف ہیں لیکن وہ یہ بات نہیں جانتے
اور جب یہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لا چکے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب یہ اپنے شیطانوں کے پاس تنہائی میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو مذاق کر رہے تھے
تفسیر
’’اپنے شیطانوں‘‘ سے مراد وہ سردار ہیں جو ان منافقین کی سازشوں میں ان کے سربراہ اور رہنما کی حیثیت رکھتے تھے۔
آیت ۱۵
ترجمہ
اللہ ان سے مذاق (کا معاملہ) کرتا ہے اور انہیں ایسی ڈھیل دیتا ہے کہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں
تفسیر
یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی رسی دراز کر رکھی ہے کہ ان کے دوغلے پن کی فوری سزا دنیا میں انہیں نہیں مل رہی ہے، جس سے وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہماری تدبیر کارگر ہو گئی، چنانچہ وہ اپنی اس گمراہی میں اور پختہ ہوتے جا رہے ہیں، آخرت میں انہیں ایک دم پکڑ لیا جائے گا، چونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ عمل ان کے مذاق کا نتیجہ تھا اسے یہاں اللہ ان سے مذاق کرتا ہے کے عنوان سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔
آیت ۱۶، ۱۷
ترجمہ
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے لہٰذا نہ ان کی تجارت میں نفع ہوا اور نہ انہیں صحیح راستہ نصیب ہوا۔
ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک آگ روشن کی پھر جب اس (آگ نے) اس کے ماحول کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نور سلب کر لیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا
تفسیر
یہاں سے ان منافقوں کی مثال دی جا رہی ہے جو اسلام کے واضح دلائل سامنے آنے کے باوجود نفاق کی گمراہی میں پھنسے رہے، اسلام کے واضح دلائل کو آگ کی روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح اس روشنی سے ماحول کی چیزیں صاف نظر آنے لگتی ہیں اسی طرح اسلام کے دلائل سے حقیقت ان پر واضح ہو گئی، لیکن پھر ضد اور عناد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ روشنی ان سے سلب کر لی اور وہ دیکھنے کی قوت سے محروم ہو گئے۔
آیت ۱۸
ترجمہ
وہ بہرے ہیں گونگے ہیں، اندھے ہیں چنانچہ اب وہ واپس نہیں آئیں گے۔۱
یا پھر ان (مناففوں) کی مثال ایسی ہے ۲ جیسے آسمان سے برستی ایک بارش ہو، جس میں اندھیریاں بھی ہوں اور گرج بھی اور چمک بھی۔ وہ کڑکوں کی آواز پر موت کے خوف سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں دے لیتے ہیں۔ اور اللہ نے کافروں کو گھیرے میں لے رکھا ہے
تفسیر
۱۔ منافقوں کی پہلی مثال تو ان منافقین سے متعلق تھی جو اسلام کے واضح دلائل سامنے آنے کے باوجود خوب سوچ سمجھ کر کفر اور نفاق کا راستہ اختیار کئے ہوئے تھے، اب منافقین کے اس گروہ کی مثال دی جا رہی ہے جو اسلام لانے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھا، جب اسلام کی حقانیت کے دلائل سامنے آئے تو ان کے دل میں اسلام کی طرف جھکاؤ پیدا ہوتا اور وہ اسلام کی طرف بڑھنے لگتے، لیکن جب اسلامی احکام کی ذمہ داریاں اور حلال و حرام کی باتیں سامنے آتیں تو وہ اپنی خود غرضی کی وجہ سے رک جاتے، یہاں اسلام کو ایک برستی ہوئی بارش سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس میں کفر و شرک کی خرابیوں کا جو بیان ہے اسے اندھیریوں سے اور اس میں کفر و شرک پر عذاب کی جو دھمکیاں دی گئی ہیں انہیں گرج سے تشبیہ دی گئی ہے۔ نیز قرآن کریم میں حق کے جو دلائل اور حق کو تھامنے والوں کے لئے جنت کے جو وعدے کئے گئے ہیں، انہیں بجلی کی روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے، جب یہ روشنی ان منافقین کے سامنے چمکتی ہے تو وہ چل پڑتے ہیں مگر کچھ دیر میں ان کی خواہشات کی ظلمت ان پر چھا جاتی ہے تو کھڑے رہ جاتے ہیں۔
۲۔ یعنی جب قرآن کریم کفر اور فسق پر عذاب کی وعیدیں سناتا ہے تو یہ اپنے کان بند کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم عذاب سے محفوظ ہو گئے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمام کافروں کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور وہ اس سے بچ کر نہیں جا سکتے۔
آیت ۲۰ ۔ ۲۲
ترجمہ
ایسا لگتا ہے کہ بجلی ان کی آنکھوں کو اچک لے جائے گی جب بھی ان کے لئے روشنی کر دیتی ہے وہ اس (روشنی) میں چل پڑتے ہیں اور جب وہ ان پر اندھیرا کر دیتی ہے تو وہ کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے سننے اور دیکھنے کی طاقتیں چھین لیتا، بیشک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
اے لوگو اپنے اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے گزرے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ۔
(وہ پروردگار) جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا، اور آسمان کو چھت اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے تمہارے رزق کے طور پر پھل نکالے، لہذا اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ جبکہ تم (یہ سب باتیں) جانتے ہو۔
تفسیر
ان دو آیتوں (آیت نمبر ۲۱ اور ۲۲) میں اسلام کے بنیادی عقیدے توحید کی دعوت دی گئی ہے اور مختصر انداز میں اس کی دلیل بھی بیان کر دی گئی ہے اہل عرب یہ مانتے تھے کہ ساری کائنات کو پیدا کرنا، زمین و آسمان کی تخلیق اور آسمان سے بارش برسانا اور اس سے پیداوار اگانا، یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے ہیں، اس کے باوجود یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے کام بتوں کے سپرد کر رکھے ہیں اور وہ بت اپنے کاموں میں براہ راست فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لہذا وہ ان بتوں کی عبادت اس لئے کرتے تھے کہ وہ ان کی مدد کریں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہر چیز پیدا کرنے والے ہم ہیں اور ہمیں کائنات چلانے کے لئے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں تو عبادت کسی اور کی کرنا کتنے بڑے ظلم کی بات ہے۔
آیت ۲۳، ۲۴
ترجمہ
اور اگر تم اس (قرآن) کے بارے میں ذرا بھی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ پر اتارا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔ اور اگر سچے ہو تو اللہ کے سوا اپنے تمام مدد گاروں کو بلا لو۔
پھر بھی اگر تم یہ کام نہ کر سکو اور یقیناً کبھی نہیں کر سکو گے تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے وہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
تفسیر
پچھلی آیات میں توحید کا بیان تھا اب اسلام کے دوسرے اہم عقیدے یعنی آنحضرتﷺ کی رسالت کا بیان ہے اور عرب کے جو لوگ قرآن پر ایمان لانے کے بجائے یہ الزام لگاتے تھے کہ آنحضرتﷺ شاعر ہیں اور انہوں نے اپنی طرف سے یہ کلام بنا لیا ہے، انہیں زبردست چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر ایسا کلام کوئی انسان بنا سکتا ہے تو تم بڑے فصیح و بلیغ ہو، تم سب مل کر قرآن جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا کر لے آؤ، ساتھ ہی قرآن نے دعوی کیا ہے کہ تم سب مل کر بھی ایسا نہیں کر سکو گے اور واقعہ یہی ہے کہ اہل عرب جو اپنی زبان و ادب پر ناز کرتے تھے ان سب کو اس چیلنج کے بعد سانپ سونگھ گیا اور کوئی شخص یہ چیلنج قبول کرنے کے لئے آگے نہ بڑھا بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں نے اس خدائی کلام کے آگے گھٹنے ٹیک دئے اور اس طرح آنحضرتﷺ کی رسالت اور قرآن کریم کی سچائی روز روشن کی طرح ثابت اور واضح ہو گئی۔
آیت ۲۵
ترجمہ
اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کئے ہیں ان کو خوشخبری دے دو کہ ان کے لئے ایسے باغات (تیار) ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جب کبھی ان کو ان (باغات) میں سے کوئی پھل رزق کے طور پر دیا جائے گا تو وہ کہیں گے‘‘ یہ تو وہی ہے جو ہمیں پہلے بھی دیا گیا تھا‘‘ اور انہیں وہ رزق ایسا ہی دیا جائے گا جو دیکھنے میں ملتا جلتا ہو گا اور ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان (باغات) میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
تفسیر
یہ اسلام کے تیسرے عقیدے یعنی آخرت پر ایمان کا بیان ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ مرنے کے بعد ایک اور زندگی آنے والی ہے جس میں ہر انسان کو اپنے تمام اعمال کا جواب دینا ہو گا اگر ایمان کے ساتھ نیک عمل کئے ہوں گے تو وہ جنت نصیب ہو گی جس کی ایک جھلک اس آیت میں دکھائی گئی ہے۔
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جنت میں جب اہل جنت کو پھل دیا جائے گا تو وہ کہیں گے یہ وہی ہے جو ہمیں اس سے پہلے کھانے کو دیا گیا، اس کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ جنت میں وقفہ وقفہ سے ایسے پھل دئے جائیں گے جو دیکھنے میں بالکل ملتے جلتے ہوں گے، مگر لذت اور ذائقے میں ہر پھل نیا ہو گا اور دوسرا مطلب یہ بھی ممکن ہے کہ جنت کے پھل دیکھنے میں دنیا کے پھلوں کی طرح ہوں گے اس لئے انہیں دیکھ کر جنتی یہ کہیں گے کہ یہ تو وہی پھل ہیں جو ہمیں پہلے یعنی دنیا میں ملے تھے، لیکن جنت میں ان کی لذت اور خصوصیات دنیا کے پھلوں سے کہیں زیادہ ہوں گی۔
آیت ۲۶
ترجمہ
بیشک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ (کسی بات کو واضح کرنے کے لئے) کوئی بھی مثال دے، چاہے وہ مچھر (جیسی معمولی چیز) کی ہو، یا کسی ایسی چیز کی جو مچھر سے بھی زیادہ (معمولی) ہو اب جو لوگ مومن ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ایک حق بات ہے جو ان کے پروردگار کی طرف سے آئی ہے۔ البتہ جو لوگ کافر ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ بھلا اس (حقیر) مثال سے اللہ کا کیا مطلب ہے؟ (اس طرح) اللہ اس مثال سے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے (مگر) وہ گمراہ انہی کو کرتا ہے جو نافرمان ہیں۔
تفسیر
بعض کافروں نے قرآن کریم پر یہ اعتراض کیا تھا کہ اس میں کچھ مثالیں مکھی، مچھر، مکڑی وغیرہ کی دی گئی ہیں، اگر یہ واقعی خدا کا کلام ہوتا تو اس میں ایسی حقیر چیزوں کا ذکر نہ ہوتا، ظاہر ہے کہ یہ اعتراض بڑا بے تکا اعتراض تھا کیونکہ مثال ہمیشہ مضمون کی مناسبت سے دی جاتی ہے اگر کسی حقیر و ذلیل کی مثال دینی ہو تو ایسی ہی کسی چیز سے دی جائے گی جو حقیر و ذلیل ہو، یہ کسی کلام کا عیب تو کیا ہوتا اس کی فصاحت و بلاغت کی دلیل ہے مگر یہ بات انہی کی سمجھ میں آتی ہے جو طالب حق ہوں اور حق پر ایمان لا چکے ہوں لیکن جنہوں نے کفر کی قسم کھا رکھی ہے انہیں تو ہر بات پر ہر حالت میں اعتراض کرنا ہے اس لئے ایسی بے تکی باتیں کہتے ہیں۔
قرآن کریم کی یہی آیتیں جو طالب حق کو ہدایت بخشتی ہیں ایسے لوگوں کے لئے مزید گمراہی کا سبب بن جاتی ہیں جنہوں نے ضد اور ہٹ دھرمی پر کمر باندھ کر یہ طے کر لیا ہے کہ حق بات ماننی نہیں ہے کیونکہ وہ ہر نئی آیت کا انکار کرتے ہیں اور ہر آیت کا انکار ایک مستقل گمراہی ہے۔
آیت ۲۷
ترجمہ
وہ جو اللہ سے کئے ہوئے عہد ۱ کو پختہ کرنے کے بعد بھی توڑ دیتے ہیں اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے ۲ انہیں کاٹ ڈالتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے ہیں ایسے ہی لوگ بڑا نقصان اٹھانے والے ہیں۔
تفسیر
۱۔ عہد سے مراد اکثر مفسرین نے وہ عہد الست لیا ہے جس کا ذکر سورة اعراف (۷ ۱۷۲) میں ہے، یعنی اللہ تعالیٰ انسانوں کو پیدا کرنے سے بہت پہلے آنے والی تمام روحوں کو جمع کر کے ان سے پوچھا تھا کہ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں، سب نے اللہ تعالیٰ کے پروردگار ہونے کا اقرار کر کے یہ عہد کیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں گے، پھر اس آیت میں عہد کو پختہ کرنے سے مراد بظاہر یہ ہے کہ ہر دور میں اللہ تعالیٰ کے رسول آتے رہے جو اس عہد کو یاد دلا کر اللہ تعالیٰ کے خالق و مالک ہونے پر دلائل قائم کرتے رہے۔
اس عہد کی ایک اور تشریح بھی ممکن ہے اور وہ یہ کہ اس سے مراد وہ عملی اور خاموش عہد (tacit covenant) ہے جو ہر انسان پیدا ہوتے ہی اپنے خالق و مالک سے کرتا ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے ہر شخص جو کسی ملک میں پیدا ہوتا ہے وہ اس ملک کا شہری ہونے کے ناطے یہ خاموش عہد کرتا ہے کہ وہ اس ملک کے قوانین کا پابند ہو گا خواہ زبان سے اس نے کچھ نہ کہا ہو لیکن اس کا کسی ملک میں پیدا ہونا ہی اس عہد کے قائم مقام ہے، اسی طرح کائنات میں جو شخص بھی پیدا ہوتا ہے وہ خود بخود اس عہد کا پابند ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی ہدایات کے مطابق زندگی گزارے گا۔ اس عہد کے لئے زبان سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ غالباً اسی وجہ سے اگلی آیت میں باری تعالیٰ نے فوراً یہ ارشاد فرمایا کہ‘‘ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کا طرز عمل آخر کیسے اختیار کر لیتے ہو، حالانکہ تم بے جان تھے، اسی نے تمہیں زندگی بخشی‘‘ یعنی اگر ذرا غور کرو تو تنہا یہ بات کہ کسی نے تمہیں پیدا کیا ہے، تمہاری طرف سے یہ عہد و پیمان ہے کہ تمہارے لئے ان کی نعمتوں کا اعتراف اور اس کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنا لازمی ہو گا۔ ورنہ یہ کونسی عقل اور کونسا انصاف ہے کہ پیدا تو اللہ تعالیٰ کرے، اور فرمانبرداری اس کے بجائے کی اور کی کی جائے، پھر اس خاموش عہد کو مزید پختہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے ذریعے متواتر تمہیں اس عہد کی یاد دہانی کراتا رہا ہے اور ان پیغمبروں نے وہ مضبوط دلائل تمہارے سامنے پیش کئے ہیں جن سے یہ عہد مزید پختہ ہو گیا ہے کہ انسان کو ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنی ہے۔
۲۔ اس سے مراد رشتہ داروں کے وہ حقوق پامال کرنا ہے جنہیں صلہ رحمی کہا جاتا ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کی تین صفات بیان کی گئی ہیں، ایک یہ کہ وہ اللہ سے کیا ہوا عہد توڑتے ہیں دوسرے یہ کہ وہ رشتہ داروں کے حقوق پامال کرتے ہیں اور تیسرے یہ کہ زمین میں فساد مچاتے ہیں، ان میں سے پہلی چیز اللہ تعالیٰ کے حقوق سے متعلق ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں وہ عقیدہ رکھتا ہے جو رکھنا چاہئے اور نہ اس کی وہ عبادت کرتا ہے جو ان پر فرض ہے، دوسری اور تیسری چیز کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اللہ تعالیٰ نے مختلف رشتوں کے جو حقوق مقرر فرمائے ہیں، ان کی ٹھیک ٹھیک ادائیگی سے ہی ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے، اگر ان رشتوں کو کاٹ کر باپ، بیٹے، بھائی بھائی، شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے حقوق پامال کرنا شروع کر دیں تو وہ خاندانی نظام تباہ ہو جاتا ہے جس پر ایک صحت مند تمدن کی بنیاد قائم ہوتی ہے، لہذا اس کا لازمی نتیجہ زمین میں فساد کی صورت میں نکلتا ہے اسی لئے قرآن کریم نے رشتوں کو کاٹنے اور زمین میں فساد مچانے کو سورة محمد (۲۶ ۲۲) میں بھی ایک ساتھ ملا کر ذکر فرمایا ہے . آیت فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض وتقطعوا ارحامکم۔
آیت ۲۸
ترجمہ
تم اللہ کے ساتھ کفر کا طرز عمل آخر کیسے اختیار کر لیتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اسی نے تمہیں زندگی بخشی پھر وہی تمہیں موت دے گا پھر وہی تم کو (دوبارہ) زندہ کرے گا اور پھر تم اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے
تفسیر
آیت ۲۹
ترجمہ
وہی ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے تمہارے لئے پیدا کیا پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا، چنانچہ ان کو سات آسمانوں کی شکل میں ٹھیک ٹھیک بنا دیا، اور وہ ہر چیز کا پورا علم رکھنے والا ہے۔
تفسیر
۲۶ انسان کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ وہ کائنات کی جتنی چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے سب اللہ تعالیٰ کی عطا فرمائی ہوئی ہیں، ان میں سے ہر چیز اس کی توحید کی گواہی دے رہی ہے اس کے باوجود اس کے ساتھ کفر کارویہ اختیار کرنا کتنی بڑی ناشکری ہے، اسی آیت سے فقہاء نے یہ اصول بھی مستنبط کیا ہے کہ دنیا کی ہر چیز اصل میں حلال ہے اور جب تک کسی چیز کی حرمت پر کوئی دلیل نہ ہو اس وقت تک اس کو حلال ہی سمجھا جائے گا۔
آیت ۳۰
ترجمہ
اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں وہ کہنے لگے۔ کیا آپ زمین میں ایسی مخلوق پیدا کریں گے جو اس میں فساد مچائے اور خون خرابہ کرے حالانکہ ہم آپ کی تسبیح اور حمد و تقدیس میں لگے ہوئے ہیں اللہ نے کہا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
تفسیر
۲۷ آیت نمبر ۲۲ میں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت واجب ہونے کی نہایت مختصر اور سادہ مگر مضبوط دلیل یہ دی گئی تھی کہ جس نے تمہیں وہی عبادت کا مستحق ہے۔ آیت نمبر ۲۸ میں کافروں کے کفر پر تعجب کا اظہار بھی اسی بنا پر کیا گیا تھا۔ اب انسان کی پیدائش کا پورا واقعہ بیان کر کے اس دلیل کو مزید پختہ کیا جا رہا ہے آیت میں خلیفہ سے مراد انسان ہے اور اس کے خلیفہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ زمین میں اللہ تعالیٰ کے احکام پر خود بھی عمل کرے اور اپنی طاقت کے مطابق دوسروں سے بھی عمل کروانے کی کوشش کرے۔
۲۸ فرشتوں کے اس سوال کا منشاء خدا نخواستہ کوئی اعتراض کرنا نہیں تھا بلکہ وہ حیرت کر رہے تھے کہ ایک ایسی مخلوق کو پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے جو نیکی کے ساتھ بدی کی صلاحیت بھی رکھتی ہو گی جس کے نتیجے میں زمین پر فساد پھیلنے کا امکان ہو گا،، مفسرین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ انسان سے پہلے زمین پر جنات پیدا کیا گئے تھے اور انہوں نے آپس میں لڑ لڑ کر ایک دوسرے کو ختم کر ڈالا تھا، فرشتوں نے سوچا کہ شاید انسان کا انجام بھی ایسا ہی ہو۔
آیت ۳۱
ترجمہ
اور آدم کو (اللہ نے) سارے نام سکھا دیئے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور (ان سے) کہا اگر تم سچے ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتلاؤ۔
تفسیر
۲۹ ناموں سے مراد کائنات میں پائی جانے والی چیزوں کے نام ان کی خاصیتیں اور انسان کو پیش آنے والی مختلف کیفیات کا علم ہے مثلاً بھوک، پیاس، صحت اور بیماری وغیرہ، اگرچہ آدمؑ کو ان چیزوں کی تعلیم دیتے وقت فرشتے بھی موجود تھے، لیکن چونکہ ان کی فطرت میں ان چیزوں کی پوری سمجھ نہیں تھی اس لئے جب ان کا امتحان لیا گیا تو وہ جواب نہیں دے سکے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے عملی طور پر انہیں باور کرا دیا کہ جو کام اس نئی مخلوق سے لینا مقصود ہے وہ فرشتے انجام نہیں دے سکتے۔
آیت ۳۲
ترجمہ
وہ بول اٹھے آپ ہی کی ذات پاک ہے جو کچھ علم آپ نے ہمیں دیا ہے اس کے سوا ہم کچھ نہیں جانتے حقیقت میں علم و حکمت کے مالک تو صرف آپ ہیں
تفسیر
۳۰ بظاہر ان الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام صرف حضرت آدمؑ کو سکھائے گئے تھے اور فرشتے اس تعلیم میں شریک نہیں تھے، اس صورت میں اس سے ناموں کے بارے میں پوچھنا یہ بتانے کے لئے تھا کہ تم میں وہ صلاحیت نہیں رکھی گئی جو آدمؑ کی تخلیق سے مقصود ہے، دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ آدمؑ کو سکھاتے وقت فرشتے موجود تھے، لیکن چونکہ ان میں ان باتوں کو سمجھنے یا یاد رکھنے کی صلاحیت نہیں تھی اس لئے وہ امتحان کے وقت جواب نے دے سکے، اس صورت میں ان کے جواب کا حاصل یہ ہو گا کہ ہمیں وہی علم حاصل ہو سکتا ہے جو آپ ہمیں دینا چاہیں اور اس کی صلاحیت ہمارے اندر پیدا کر دیں۔
آیت ۳۳
ترجمہ
اللہ نے کہا آدم تم ان کو ان چیزوں کے نام بتادو چنانچہ جب اس نے ان کے نام ان کو بتا دیئے تو اللہ نے (فرشتوں سے) کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کے بھید جانتا ہوں؟ اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو مجھے اس سب کا علم ہے
تفسیر
آیت ۳۴
ترجمہ
اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو چنانچہ سب نے سجد کیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے انکار کیا اور متکبرانہ رویہ اختیار کیا اور کافروں میں شامل ہو گیا،
تفسیر
۳۱ فرشتوں کے سامنے آدمؑ کی عظمت کا علمی مظاہرہ اور ان کا امتحان لینے کے لئے انہیں آدمؑ کو سجدہ کرنے حکم دیا گیا یہ سجدہ عبادت کا نہیں تعظیم کا سجدہ تھا جو بعض پچھلی شریعتوں میں جائز تھا بعد میں تعظیم کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنے کی سختی سے ممانعت کر دی گئی تاکہ شرک کا کوئی شائبہ بھی پیدا نہ ہو، یہ سجدہ کروانا اس بات کا بھی مظاہرہ تھا کہ فرشتوں کو اس بات کی تلقین کی جا رہی ہے کہ کائنات میں جو چیزیں ان کے اختیار میں دی گئی ہیں وہ انسان کے لئے مسخر کر دی جائیں تاکہ یہ دیکھا جائے کہ وہ ان کو صحیح استعمال کرتا ہے یا غلط۔
۳۲ اگرچہ براہ راست سجدے کا حکم فرشتوں کو دیا گیا تھا مگر اس میں تمام جاندار مخلوقات بھی شامل تھیں لہذا ابلیس جو جنات میں سے تھا اس پر بھی اس حکم کی تعمیل لازم تھی لیکن جیسا کہ خود قرآن کریم نے دوسری جگہ بیان فرمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے کہنے لگا کہ مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے افضل ہوں میں اسے کیوں سجدہ کروں (اعراف ۷ ۲۲) اس واقعہ سے دو سبق ملتے ہیں ایک یہ کہ اپنے آپ کو بذات خود دوسروں سے بڑا سمجھنا اور اپنی بڑائی بگھارنا کتنا بڑا گناہ ہے اور دوسرا سبق یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی واضح حکم آ جائے تو بندے کا کام یہ ہے کہ اس حکم کو دل وجان سے بجا لائے، چاہے اس کی حکمت اور فائدہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے
آیت ۳۵
ترجمہ
اور ہم نے کہا آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں سے جہاں سے چاہو جی بھر کے کھاؤ مگر اس درخت کے پاس بھی مت جانا ورنہ تم ظالموں میں شمار ہو گے
تفسیر
۳۳ یہ کونسا درخت تھا؟ قرآن کریم نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی نہ اس کے جاننے کی ضرورت ہے اتنا جان لینا کافی ہے کہ جنت کے درختوں میں ایک درخت ایسا تھا جس کا پھل کھانے سے انہیں روک دیا گیا تھا، بعض روایات میں ہے کہ یہ گندم کا درخت تھا بعض میں انگور کا ذکر ہے مگر کوئی روایت ایسی نہیں جس پر پورا بھروسہ کیا جا سکے۔
آیت ۳۶
ترجمہ
پھر ہوا یہ کہ شیطان نے ان دونوں کو وہاں سے ڈگمگا دیا ۱ اور جس (عیش) میں وہ تھے اس سے انہیں نکال کر رہا اور ہم نے (آدم، ان کی بیوی اور ابلیس سے) کہا اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے، اور تمہارے لئے ایک مدت تک زمین میں ٹھہرنا اور کسی قدر فائدہ اٹھانا (طے کر دیا گیا) ہے ۲
تفسیر
۱۔ یعنی شیطان نے انہیں بہکا کر اس درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کر دیا اور بہانہ یہ بنایا کہ یوں تو یہ درخت بڑا مفید ہے کیونکہ اس کو کھانے سے ابدی زندگی حاصل ہو جاتی ہے، لیکن شروع میں آپ کو اس لئے منع کیا گیا تھا کہ آپ کی جسمانی کیفیت اس کو برداشت نہ کر سکتی تھی اب چونکہ آپ جنت کے ماحول کے عادی ہو گئے ہیں اور آپ کے قوی مضبوط ہو چکے ہیں اس لئے اب وہ ممانعت باقی نہیں رہی۔ اس واقعے کی مزید تفصیل کے لئے دیکھئے سورة اعراف (۷: ۱۹ تا ۲۳) اور سورة طہ (۲۰: ۱۲۰)
۲۔ مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کے نتیجے میں آدمؑ اور ان کی اہلیہ کو جنت سے اور شیطان کو آسمانوں سے نیچے زمین پر اترنے کا حکم دے دیا گیا، ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا کہ انسان اور شیطان کے درمیان رہتی دنیا تک دشمنی قائم رہے گی اور زمین کا یہ قیام ایک معین مدت تک ہو گا جس میں کچھ دنیوی فائدے اٹھانے کے بعد سب کو بالآخر اللہ تعالیٰ کے پاس دوبارہ پیش ہونا ہو گا۔
آیت ۳۷
ترجمہ
پھر آدم نے اپنے پروردگار سے (توبہ کے) کچھ الفاظ سیکھ لیے (جن کے ذریعے انہوں نے توبہ مانگی) چنانچہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی بیشک وہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے
تفسیر
جب آدمؑ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ پریشان ہو گئے لیکن سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے کن الفاظ میں معافی مانگیں، اس لئے زبان سے کچھ نکل نہیں رہا تھا، اللہ تعالیٰ نے جو دلوں کے حال سے بھی خوب واقف ہے اور رحیم و کریم بھی ہے ان کی اس کیفیت کے پیش نظر خود ہی ان کو توبہ کے الفاظ سکھائے جو سورة اعراف میں مذکور ہیں قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (آیت نمبر ۲۳) اے ہمارے پروردگار ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم برباد ہو جائیں گے۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے زمین پر بھیجنے سے پہلے انسان کو یہ تعلیم دے دی کہ جب کبھی نفسانی خواہشات یا شیطان کے بہکاوے میں آ کر اس سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اسے فوراً اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنی چاہئے اور اگرچہ توبہ کے لئے کوئی خاص الفاظ لازمی نہیں ہیں بلکہ ہر وہ جملہ جس میں اپنے کئے پر ندامت اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا ارادہ شامل ہو، اس کے ذریعہ توبہ ممکن ہے لیکن چونکہ یہ الفاظ خود اللہ تعالیٰ کے سکھائے ہوئے ہیں اس لئے ان الفاظ میں توبہ کرنے سے قبولیت کی زیادہ امید ہے۔
یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جیسا کہ پیچھے آیٰت ۳۰ سے واضح ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے شروع ہی سے آدمؑ کو زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجنے کے لئے پیدا فرمایا تھا لیکن زمین پر بھیجنے سے پہلے انہیں جنت میں رکھنے اور اس کے بعد کے واقعات کا تکوینی مقصد بظاہر یہ تھا کہ ایک طرف حضرت آدمؑ جنت کی نعمتوں کا خود تجربہ کر کے دیکھ لیں کہ ان کی اصل منزل کیا ہے اور زمین پر پہنچنے کے بعد اس منزل کے حصول میں کس قسم کی رکاوٹیں پیش آ سکتی ہیں اور ان سے نجات پانے کا کیا طریقہ ہو گا؟ چونکہ فرشتوں کے مقابلے میں انسان کا امتیاز ہی یہ تھا کہ اس میں اچھائی اور برائی دونوں کی صلاحیت رکھی گئی تھی اس لئے ضروری تھا کہ اسے زمین پر بھیجنے سے پہلے ایسے تجربے سے گزارا جائے پیغمبر چونکہ معصوم ہوتے ہیں اور ان سے کوئی بڑا گناہ سرزد نہیں ہو سکتا اس لئے حضرت آدمؑ کی یہ غلطی در حقیقت اجتہادی غلطی (Bonafide Mistake تھی یعنی سوچ کی یہ غلطی کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو شیطان کے بہکانے سے ایک خاص وقت تک محدود سمجھ لیا، ورنہ اللہ تعالیٰ کی کھلی نافرمانی کا ہرگز ان سے تصور نہیں کیا جا سکتا تاہم چونکہ یہ قصور بھی ایک پیغمبر کے شایان شان نہ تھا اس لئے اسے بعض آیات میں گناہ یا حکم عدولی سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس پر توبہ کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ ساتھ ہی زیر نظر آیت میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی اور اس طرح اس عیسائی عقیدہ کی تردید فرما دی گئی جس کا کہنا یہ ہے کہ آدمؑ کا یہ گناہ ہمیشہ کے لئے انسان کی سرشت میں داخل ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں ہر بچہ ماں کے پیٹ سے گناہگار پیدا ہوتا ہے اور اس مشکل کے حل کے لئے اللہ تعالیٰ کو اپنا بیٹا دنیا میں بھیج کر اسے قربان کرنا پڑا تاکہ وہ ساری دنیا کے لئے کفارہ بن سکے، قرآن کریم نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان فرما دیا کے اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی تھی اس لئے نہ وہ گناہ باقی رہا تھا نہ اس کے اولاد آدم کی طرف منتقل ہونے کا سوال ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قانون عدل میں ایک شخص کے گناہ کا بوجھ دوسرے کے سر پر نہیں ڈالا جاتا۔
آیت ۳۸
ترجمہ
ہم نے کہا اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ پھر اگر میری طرف سے کوئی ہدایت تمہیں پہنچے تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے ان کو نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہوں گے
تفسیر
آیت ۳۹
ترجمہ
اور جو لوگ کفر کا ارتکاب کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے وہ دوزخ والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے
تفسیر
آیت ۴۰
ترجمہ
اے بنی اسرائیل میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی اور تم مجھے سے کیا ہوا عہد پورا کرو تاکہ میں بھی تم سے کیا ہوا عہد پورا کروں، اور تم (کسی اور سے نہیں، بلکہ) صرف مجھی سے ڈرو (۳۷)
تفسیر
ف ۳۷ اسرائیل حضرت یعقوبؑ کا دوسرا نام ہے ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے، تمام تر یہودی اور اکثر عیسائی اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے، مدینہ منورہ میں یہودیوں کی اچھی خاصی تعداد آباد تھی اور رسول اکرمﷺ نے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد نہ صرف ان کو اسلام کی دعوت دی تھی بلکہ ان سے امن کا معاہدہ بھی فرمایا تھا، لہذا اس مدنی سورت میں زیرنظر آیت سے آیت نمبر ۱۴۳ تک مسلسل بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے، جس میں انہیں اسلام کی دعوت بھی دی گئی ہے اور ان کو نصیحت کرنے کے ساتھ ان کی بد عنوانیوں پر متنبہ بھی کیا گیا ہے، شروع میں ان کو یاد دلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کیسے کیسے انعامات فرمائے تھے، اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہو کر اس عہد کو پورا کرتے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا تھا کہ وہ تورات پر ٹھیک ٹھیک عمل کریں گے اور اللہ کے بھیجے ہوئے ہر نبی پر ایمان لائیں گے، لیکن انہوں نے تورات پر عمل کرنے کے بجائے اس کو من مانی تاویلیں شروع کر دیں اور اس کے احکام کو بدل ڈالا، چونکہ اس طرز عمل کی وجہ یہ بھی تھی کہ حق کو قبول کرنے کی صورت میں انہیں اپنے ہم مذہب لوگوں کا ڈر تھا کہ وہ کہیں ان سے بد ظن نہ ہو جائیں اس لئے اس آیت میں اور اس کے بعد والی آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ مخلوق سے ڈرنے کے بجائے انہیں اللہ سے ڈرنا چاہئے اور اللہ کے سوا کسی کا خوف دل میں نہیں رکھنا چاہئے۔
آیت ۴۱
ترجمہ
اور جو کلام میں نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ جبکہ وہ اس کتاب (یعنی تورات) کی تصدیق بھی کر رہا ہے جو تمہارے پاس ہے اور تم ہی سب سے پہلے اس کے منکر نہ بن جاؤ اور میری آیتوں کو معمولی سی قیمت لے کر نہ بیچو اور (کسی اور کے بجائے) صرف میرا خوف دل میں رکھو۔
تفسیر
بنی اسرائیل کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ قرآن کریم وہی دعوت لے کر آیا ہے جو تورات اور انجیل کی دعوت تھی اور جن آسمانی کتابوں پر وہ ایمان رکھتے ہیں قرآن کریم انہیں جھٹلانے کے بجائے دو طرح سے ان کی تصدیق کرتا ہے ایک اس لحاظ سے کہ وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ کتابیں اللہ ہی کی نازل کی ہوئی تھیں (یہ اور بات ہے کہ بعد کے لوگوں نے ان میں کافی رد و بدل کر ڈالا جس کی حقیقت قرآن نے واضح فرمائی) اور دوسرے قرآن اس حیثیت سے ان کتابوں کی تصدیق کرتا ہے کہ ان کتابوں میں آخری نبی کی تشریف آوری کی جو پیشین گوئیاں کی گئی تھیں قرآن کریم نے انہیں سچا کر دکھایا اس کا تقاضا یہ تھا کہ بنی اسرائیل عرب کے بت پرستوں سے پہلے اس پر ایمان لاتے، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ جس تیز رفتاری سے بت پرست اسلام لا رہے ہیں اس رفتار سے یہودی ایمان نہیں لا رہے ہیں اور اس طرح گویا بنی اسرائیل قرآن کی تکذیب کرنے میں پیش پیش ہیں اس لئے کہا گیا کہ تم ہی سب سے پہلے اس کے منکر نہ بن جاؤ، بعض یہودیوں کا طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ رشوت لے کر تورات کی تشریح عام لوگوں کی خواہشات کے مطابق کر دیا کرتے تھے اور بعض اوقات اس کے احکام کو چھپا لیتے تھے ان کے اس طرز عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا میری آیتوں کو معمولی سی قیمت لے کر نہ بیچو اور حق کو باطل کے ساتھ گڈمڈ نہ کرو اور نہ حق بات کو چھپاؤ۔
آیت ۴۲
ترجمہ
اور حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو، اور نہ حق بات کو چھپاؤ جبکہ (اصل حقیقت) تم اچھی طرح جانتے ہو
اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو
تفسیر
رکوع کا ذکر خاص طور پر اس لئے کیا گیا کہ یہودیوں کی نماز میں رکوع نہیں ہوتا تھا۔
آیت ۴۴ ۔ ۴۹
ترجمہ
کیا تم (دوسرے) لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو! کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں
اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو نماز بھاری ضرور معلوم ہوتی ہے مگر ان لوگوں کو نہیں جو خشوع (یعنی دھیان اور عاجزی) سے پڑھتے ہیں
جو اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اور ان کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے
اے بنی اسرائیل میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی اور یہ بات (یاد کرو) کہ میں نے تم کو سارے جہانوں پر فضیلت دی تھی
اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شخص بھی کسی کے کچھ کام نہیں آئے گا نہ کسی سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی نہ کسی سے کسی قسم کا فدیہ لیا جائے گا اور نہ ان کو کوئی مدد پہنچے گی
اور وہ (وقت یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی جو تمہیں بڑا عذاب دیتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس ساری صورت حال میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارا بڑا امتحان تھا۔
تفسیر
فرعون مصر کا بادشاہ تھا جہاں بنی اسرائیل بڑی تعداد میں آباد تھے، اور فرعون کی غلامی میں دن گزار رہے تھے، فرعون کے سامنے کسی نجومی نے یہ پیشین گوئی کر دی کہ اس سال بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہو گا جو اس کی بادشاہی کا خاتمہ کر دے گا، یہ سن کر اس نے یہ حکم دے دیا کے اسرائیلیوں میں جو کوئی بچہ پیدا ہو اسے قتل کر دیا جائے، البتہ لڑکیوں کو زندہ رکھا جائے تاکہ ان سے خدمت لی جا سکے، اس طرح بہت سے نو زائیدہ بچے قتل کئے گئے، اگرچہ حضرت موسیٰؑ اسی سال پیدا ہوئے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو محفوظ رکھا، اس کا مفصل واقعہ سورة طہ اور سورة القصص میں خود قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے۔
آیت ۵۰
ترجمہ
اور (یاد کرو) جب ہم نے تمہاری خاطر سمندر کو پھاڑ ڈالا تھا چنانچہ تم سب کو بچا لیا تھا اور فرعون کے لوگوں کو (سمندر میں) غرق کر ڈالا تھا اور تم یہ سارا نظام دیکھ رہے تھے
تفسیر
اس کا واقعہ بھی مذکورہ بالا دو سورتوں میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔
آیت ۵۱
ترجمہ
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ ٹھہرایا تھا پھر تم نے ان کے پیچھے (اپنی جانوں پر) ظلم کر کے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔
تفسیر
حضرت موسیٰؑ سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ کوہ طور پر آ کر چالیس دن اعتکاف کریں تو انہیں تورات عطا کی جائے گی، چنانچہ حضرت موسیٰؑ کوہ طور پر تشریف لے گئے، ان کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سامری جادوگر نے ایک گائے کا بچھڑا بنایا اور بنی اسرائیل کو اسے اپنا معبود قرار دینے اور اس کی عبادت کرنے پر آمادہ کر لیا اور اس طرح وہ شرک میں مبتلا ہو گئے، حضرت موسیٰؑ کو اطلاع ہوئی وہ گھبرا کر واپس تشریف لائے اور بنی اسرائیل کو توبہ کی تلقین فرمائی، اس توبہ کا ایک حصہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل میں سے جو لوگ اس شرک میں ملوث نہیں ہوئے تھے وہ ملوث ہونے والوں کو قتل کریں، چنانچہ ان کی ایک بڑی تعداد قتل کی گئی اور اس طرح ان کی توبہ قبول ہوئی۔ یہ واقعات انشاء اللہ تفصیل سے سورہ اعراف اور سورة طہ میں آئیں گے۔
آیت ۵۲ ۔ ۵۶
ترجمہ
پھر اس سب کے بعد ہم نے تم کو معاف کر دیا تاکہ تم شکر ادا کرو
اور (یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، اور حق و باطل میں تمیز کا معیار (بخشا) تاکہ تم راہ راست پر آؤ۔
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ‘‘ اے میری قوم! حقیقت میں تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر خود اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے لہٰذا اب اپنے خالق سے توبہ کرو اور اپنے آپ کو قتل کرو تمہارے خالق کے نزدیک یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اس طرح اللہ نے تمہاری توبہ قبول کر لی۔ بیشک وہی ہے جو اتنا معاف کرنے والا، اتنا رحم کرنے والا ہے
اور جب تم نے کہا تھا اے موسیٰ ہم اس وقت تک ہرگز تمہارا یقین نہیں کریں گے جب تک اللہ کو ہم خود کھلی آنکھوں نہ دیکھ لیں‘‘
نتیجہ یہ ہوا کہ کڑکے نے تمہیں اس طرح آپکڑا کہ تم دیکھتے رہ گئے پھر ہم نے تمہیں تمہارے مرنے کے بعد دوسری زندگی دی تاکہ تم شکر گزار بنو۔
تفسیر
جب حضرت موسیٰؑ کوہ طور سے تورات لے کر تشریف لائے تو بنی اسرائیل نے ان سے کہا کہ ہمیں کیسے یقین آئے کہ واقعی اللہ نے ہمیں اس کتاب پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے، شروع میں ان پر حجت تمام کرنے کے لئے انہیں اللہ تعالیٰ نے براہ راست خطاب فرما کر تورات پر عمل کا حکم دیا مگر وہ کہنے لگے کہ جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے نہ دیکھ لیں گے ہمیں یقین نہ آئے گا، ان کے اس گستاخانہ طرز عمل پر ایک بجلی کے کڑکے نے انہیں آ گھیرا اور وہ بعض روایات کے مطابق مر گئے اور بعض روایات کے مطابق بے ہوش ہو گئے پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندگی دی۔ اس واقعے کی تفصیل بھی انشاء اللہ سورة اعراف میں آئے گی۔
آیت ۵۷
ترجمہ
اور ہم نے تم کو بادل کا سایہ عطا کیا اور تم پر من و سلویٰ نازل کیا (اور کہا کہ) جو پاکیزہ رزق ہم نے تمہیں بخشا ہے (شوق سے) کھاؤ اور یہ (نافرمانیاں کر کے) انہوں نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ہی ظلم کرتے رہے
تفسیر
جیسا کے سورة آل عمران میں آئے گا، بنی اسرائیل نے جہاد کے ایک حکم کی نافرمانی کی تھی جس کی پاداش میں انہیں صحرائے سینا میں مقید کر دیا گیا تھا، لیکن اس سزا یابی کے دوران بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں جن نعمتوں سے نوازا یہاں ان کا ذکر ہو رہا ہے، صحرا میں چونکہ کوئی چھت ان کے سروں پر نہیں تھی اس لئے ان کو دھوپ کی تمازت سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے غیب سے یہ انتظام فرمایا کہ ایک بادل ان پر مسلسل سایہ کئے رہتا تھا اسی صحرا میں جہاں کوئی غذا دستیاب نہیں تھی اللہ تعالیٰ نے غیب سے من و سلویٰ کی شکل میں انہیں بہترین خوراک مہیا فرمائی، بعض روایات کے مطابق من سے مراد ترنجبین ہے جو اس علاقے میں افراط سے پیدا کر دی گئی تھی اور سلویٰ سے مراد بٹیریں ہیں جو بنی اسرائیل کی قیام گاہوں کے آس پاس کثرت سے منڈلاتی رہتیں اور کوئی انہیں پکڑنا چاہتا تو وہ بالکل مزاحمت نہیں کرتی تھیں، بنی اسرائیل نے ان تمام نعمتوں کی بری طرح ناقدری کی اور اس طرح خود اپنی جانوں پر ظلم کیا۔
آیت ۵۸، ۵۹
ترجمہ
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے کہا تھا کہ‘‘ اس بستی میں داخل ہو جاؤ اور اس جہاں سے چاہو جی بھر کر کھاؤ اور (بستی کے) دروازے میں جھکے سروں سے داخل ہونا اور یہ کہتے جانا کہ (یا اللہ) ہم آپ کی بخشش کے طلب گار ہیں (اس طرح) ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ (ثواب) بھی دیں گے۔
مگر ہوا یہ کہ جو بات ان سے کہی گئی تھی ظالموں نے اسے بدل کر ایک اور بات بنا لی نتیجہ یہ کہ جو نافرمانیاں وہ کرتے آ رہے تھے ہم نے ان کی سزا میں ان ظالموں پر آسمان سے عذاب نازل کیا
تفسیر
اسی صحرا میں رہتے ہوئے جب مدت گزر گئی اور بنی اسرائیل من و سلویٰ سے بھی اکتا گئے تو انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر گزارہ نہیں کر سکتے، ہم زمین کی ترکاریاں وغیرہ کھانا چاہتے ہیں، ان کا یہ مطالبہ آگے آیت نمبر ۶۱ میں آ رہا ہے، اس موقع پر ان کی یہ خواہش بھی پوری کی گئی اور یہ اعلان فرمایا گیا کہ اب تمہیں صحرا کی خاک چھاننے سے نجات دی جاتی ہے، سامنے ایک شہر ہے اس میں چلے جاؤ؛ لیکن اپنے گناہوں پر ندامت کے اظہار کے طور پر سر جھکائے ہوئے اور معافی مانگتے ہوئے شہر میں داخل ہو، وہاں اپنی رغبت کے مطابق جو حلال غذا چاہو کھاس کو گے، لیکن ان ظالموں نے پھر ضد کا مظاہرہ کیا، شہر میں داخل ہوتے ہوئے سر تو کیا جھکاتے سینے تان تان کر داخل ہوئے اور معافی مانگنے کے لئے انہیں جو الفاظ کہنے کی تلقین کی گئی تھی ان کا مذاق بنا کر ان سے ملتے جلتے ایسے نعرے لگاتے ہوئے داخل ہوئے جس کا مقصد مسخرہ پن کے سوا کچھ نہ تھا، جو لفظ انہیں معافی مانگنے کے لئے سکھایا گیا تھا وہ تھا "حطۃ" (یا اللہ ہمارے گناہ بخش دے) انہوں نے اسے بدل کر جس لفظ کے نعرے لگائے تھے وہ تھا "حنطۃ" یعنی گندم۔
آیت ۶۰
ترجمہ
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مارو‘‘ چنانچہ اس (پتھر) سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ہر ایک قبیلے نے اپنے پانی لینے کی جگہ معلوم کر لی (ہم نے کہا) اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ، اور زمین میں فساد مچاتے مت پھرنا۔
تفسیر
یہ واقعہ بھی اس وقت کا ہے جب بنی اسرائیل میدان تیہ (صحرائے سینا) میں محصور تھے وہاں پانی کا کوئی چشمہ نہیں تھا، اللہ تعالیٰ نے ایک معجزہ کے طور پر بارہ چشمے پیدا فرما دئے، حضرت یعقوب (اسرائیل)ؑ کے بارہ بیٹے تھے ہر بیٹے کی اولاد ایک مستقل قبیلہ بن گئی اور اس طرح بنی اسرائیل بارہ قبیلوں میں تقسیم ہو گئے، اللہ تعالیٰ نے ہر قبیلے کے لئے الگ چشمہ جاری فرما دیا تاکہ کوئی الجھن پیش نہ آئے۔
آیت ۶۱
ترجمہ
اور (وہ وقت بھی) جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ہم ایک ہی کھانے پر صبر نہیں کر سکتے لہذا اپنے پروردگار سے مانگیے کہ وہ ہمارے لئے کچھ وہ چیزیں پیدا کرے جو زمین اگایا کرتی ہے یعنی زمین کی ترکاریاں، اس کی ککڑیاں، اس کا گندم، اس کی دالیں اور اس کی پیاز۔ موسیٰ نے کہا‘‘ جو (غذا) بہتر تھی کیا تم اس کو ایسی چیزوں سے بدلنا چاہتے ہو جو گھٹیا درجے کی ہیں؟ (خیر!) ایک شہر میں جا اترو۔ تو وہاں تمہیں وہ چیزیں مل جائیں گی جو تم نے مانگی ہیں اور ان (یہودیوں پر ذلت اور بیکسی کا ٹھپہ لگا دیا گیا، اور وہ اللہ تعالیٰ کا غضب لے کر لوٹے۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کر دیتے تھے۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ بے حد زیادتیاں کرتے تھے۔
تفسیر
یہ وہی واقعہ ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔
آیت ۶۲
ترجمہ
حق تو یہ ہے کہ جو لوگ بھی خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہودی یا نصرانی یا صابی، اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئیں گے اور نیک عمل کریں گے وہ اللہ کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہوں گے اور ان کو نہ کوئی خوف ہو گا نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہوں گے۔
تفسیر
بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور ان کی نافرمانیوں کے تذکرے کے بیچ میں یہ آیت کریمہ بنی اسرائیل کے ایک باطل گھمنڈ کی تردید کے لئے آئی ہے، ان کا عقیدہ یہ تھا کہ صرف انہی کی نسل اللہ کے منتخب اور لاڈلے بندوں پر مشتمل ہے، ان کے خاندان سے باہر کا کوئی آدمی اللہ کے انعامات کا مستحق نہیں ہے، (آج بھی یہودیوں کا یہی عقیدہ ہے، اسی لئے یہودی مذہب ایک نسل پرست مذہب ہے اور اس نسل کے باہر کا کوئی شخص یہودی مذہب اختیار کرنا بھی چاہے تو اختیار کر ہی نہیں سکتا، یا ان کے حقوق کا مستحق نہیں ہو سکتا جو ایک نسلی یہودی کو حاصل ہیں) اس آیت نے واضح فرمایا کہ حق کسی ایک نسل میں محدود نہیں ہے، اصل اہمیت ایمان اور نیک عمل کو حاصل ہے، جو شخص بھی اللہ اور آخرت پر ایمان لانے اور عمل صالح کی بنیادی شرطیں پوری کر دے گا خواہ وہ پہلے کسی بھی مذہب یا نسل سے تعلق رکھتا ہو اللہ کے نزدیک اجر کا مستحق ہو گا، یہودیوں اور نصرانیوں کے علاوہ عرب میں کچھ ستارہ پرست لوگ رہتے تھے جنہیں صابی کہا جاتا تھا اس لئے ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اللہ پر ایمان لانے میں اس کے تمام رسولوں پر ایمان لانا بھی داخل ہے، لہذا نجات پانے کے لئے رسول اکرمﷺ پر ایمان لانا بھی ضروری ہے، چنانچہ پیچھے آیت ۴۰۔ ۴۱ میں اسی لئے تمام بنی اسرائیل کو آنحضرتﷺ پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔ مزید دیکھئے قرآن کریم کی آیات ۵ ۶۵ تا ۶۸، ۷ ۱۵۵ تا ۱۵۷۔
آیت ۶۳
ترجمہ
اور وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے (تورات پر عمل کرنے کا) عہد لیا تھا، اور کوہ طور کو تمہارے اوپر اٹھا کھڑا کیا تھا۔ (کہ) جو (کتاب) ہم نے تمہیں دی ہے اس کو مضبوطی سے تھامو اور اس میں جو کچھ (لکھا) ہے اس کو یاد رکھو، تاکہ تمہیں تقویٰ حاصل ہو
تفسیر
جب حضرت موسیٰؑ تورات لے کر آئے تو بنی اسرائیل نے دیکھا کہ اس کے بعض احکام بہت سخت ہیں، اس لئے اس سے بچنے کے بہانے تلاش کرنے شروع کر دئے، پہلے تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے خود کہے کہ تورات پر عمل کرنا ضروری ہے، مطالبہ اگرچہ نامعقول تھا مگر ان پر حجت تمام کرنے کے لئے ان میں سے ستر آدمی منتخب کر کے حضرت موسیٰؑ کے ساتھ کوہ طور پر بھیجے گئے (اعراف، ۷ ۱۵۵) جن کو اللہ تعالیٰ نے براہ راست تورات پر عمل کا حکم دیا، مگر جب یہ واپس لوٹے تو انہوں نے اپنی قوم کے سامنے تصدیق تو کی کہ اللہ تعالیٰ نے تورات پر عمل کا حکم دیا ہے، لیکن ایک بات اپنی طرف سے بڑھا دی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جتنا تم سے ہو سکے اتنا عمل کر لینا، لیکن جو نہ ہو سکے وہ ہم معاف کر دیں گے، چنانچہ تورات کے جس حکم میں بھی انہیں کچھ مشکل نظر آتی وہ یہ بہانہ تراش لیتے کہ یہ حکم بھی اسی چھوٹ میں داخل ہے، اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے کوہ طور ان کے سروں پر بلند کر دیا کہ تورات کے تمام احکام کو تسلیم کرو، جب انہیں یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں پہاڑ ان پر گرانہ دیا جائے تب ان لوگوں نے تورات کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کا عہد کیا۔ اس آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے کوہ طور کو ان کے سروں پر بلند کرنے کی یہ صورت بھی ممکن ہے کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا کر ان کے سروں پر معلق کر دیا گیا ہو، جیسا کہ حافظ ابن جریر ؒ نے متعدد تابعین سے نقل کیا ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے یہ کچھ بھی بعید نہیں ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی اور ایسی صورت پیدا فرما دی گئی ہو کہ ان لوگوں کو ایسا محسوس ہوا ہو کہ پہاڑ ان پر آگرے گا مثلاً کوئی زلزلہ آ گیا ہو جس سے انہیں ایسا لگا کہ پہاڑ گرنے والا ہے چنانچہ سورة اعراف (آیت ۱۷۱) میں اس واقعے کے بارے میں الفاظ یہ ہیں واذنتقنا الجبل فوقھم کانہ ظلۃ وظنوا انہ واقع بھم اس میں لفظ‘‘ نتق‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی لغت میں زور زور سے ہلانے کے آتے ہیں (دیکھئے قاموس اور مفردات القرآن) لہٰذا آیت کا یہ ترجمہ بھی ممکن ہے کہ‘‘ جب ہم نے پہاڑ کو ان کے اوپر زور سے اس طرح ہلایا کہ ان کو گمان ہوا کہ وہ ان پر گر پڑے گا یہاں یہ بات واضح رہے کہ کسی شخص کو ایمان قبول کرنے پر تو زبردستی مجبور نہیں کیا جا سکتا لیکن جب ایک شخص ایمان لے آئے تو اسے نافرمانی پر سزا بھی دی جا سکتی ہے اور ڈرا دھمکا کر حکم ماننے پر آمادہ بھی کیا جا سکتا ہے بنی اسرائیل چونکہ ایمان پہلے ہی لا چکے تھے اس لئے ان کو اللہ کے عذاب سے ڈرا کر فرمانبرداری پر آمادہ کیا گیا۔
آیت ۶۴، ۶۵
ترجمہ
اس سب کے باوجود تم دوبارہ (راہ راست سے) پھر گئے چنانچہ اگر اللہ کا فضل اور رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم ضرور سخت نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہو جاتے۔
اور تم اپنے لوگوں کو اچھی طرح جانتے ہو جو سنیچر (سبت) کے معاملے میں حد سے گزر گئے تھے چنانچہ ہم نے ان سے کہا تھا کہ تم دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ۔
تفسیر
سنیچر (ہفتہ) کو عربی اور عبرانی زبان میں سبت کہتے ہیں، یہودیوں کے لئے اسے ایک مقدس دن قرار دیا گیا تھا، جس میں ان کے لئے معاشی سرگرمیاں ممنوع تھیں، جن یہودیوں کا یہاں ذکر ہے وہ (غالباً حضرت داؤدؑ کے زمانے میں) کسی سمندر کے کنارے رہتے تھے اور مچھلیاں پکڑا کرتے تھے، سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑنا ان کے لئے ناجائز تھا مگر شروع میں انہوں نے کچھ حیلے کر کے اس حکم کی خلاف ورزی کرنی چاہی اور پھر کھلم کھلا مچھلیاں پکڑنی شروع کر دیں، کچھ نیک لوگوں نے انہیں سمجھایا مگر باز نہ آئے، بالآخر ان پر عذاب آیا اور ان کی صورتیں مسخ کر کے انہیں بندر بنا دیا گیا۔ (اس واقعہ کی تفصیل اعراف، ۷ ۱۶۳ تا ۱۶۶)۔ میں آنے والی ہے۔
آیت ۶۶، ۶۷
ترجمہ
پھر ہم نے اس واقعے کو اس زمانے کے اور اس کے بعد کے لوگوں کے لئے عبرت اور ڈرنے والوں کے لئے نصیحت کا سامان بنا دیا
اور (وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرو۔ وہ کہنے لگے کہ کیا آپ ہمارا مذاق بناتے ہیں موسیٰ نے کہا میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں (ایسے) نادانوں میں شامل ہوں (جو مذاق میں جھوٹ بولیں)
تفسیر
جیسا کہ نیچے آیت ۷۲ میں آ رہا ہے، یہ حکم ایک مقتول کا قاتل دریافت کرنے کے لئے دیا گیا تھا اس لئے بنی اسرائیل نے کو مذاق سمجھا کہ گائے ذبح کرنے سے قاتل کیسے معلوم ہو گا؟
آیت ۶۸ ۔ ۷۱
ترجمہ
انہوں نے کہا کہ آپ ہماری خاطر اپنے رب سے درخواست کیجئے کہ ہمیں صاف صاف بتائے کہ وہ گائے کیسی ہو؟ اس نے کہا اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہو کہ نہ بہت بوڑھی ہو بہ بالکل بچی (بلکہ) ان دونوں کے بیچ بیچ میں ہو۔ بس اب جو حکم تمہیں دیا گیا ہے اس پر عمل کر لو۔
کہنے لگے آپ ہماری خاطر اپنے رب سے درخواست کیجئے کہ ہمیں صاف صاف بتائے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟ موسیٰ نے کہا اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسے تیز زرد رنگ کی گائے ہو جو دیکھنے والوں کا دل خوش کر دے۔
انہوں نے (پھر) کہا کہ آپ ہماری خاطر اپنے رب سے درخواست کیجئے کہ ہمیں صاف صاف بتائے کہ وہ گائے کیسی ہو؟ اس گائے نے تو ہمیں شبہ میں ڈال دیا ہے اور اللہ نے چاہا تو ہم ضرور اس کا پتہ لگا لیں گے۔
موسیٰ نے کہا اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہو جو کام میں جت کر زمین نہ گا ہتی ہو، اور نہ کھیتی کو پانی دیتی ہو، پوری طرح صحیح سالم ہو جس میں کوئی داغ نہ ہو۔ انہوں نے کہا ہاں! اب آپ ٹھیک ٹھیک پتہ لے کر آئے۔ اس کے بعد انہوں نے اسے ذبح کیا، جبکہ لگتا نہیں تھا کہ وہ کر پائیں گے۔
تفسیر
مطلب یہ ہے کہ شروع میں جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا تو کسی خاص قسم کی گائے نہیں بتائی گئی تھی چنانچہ وہ کوئی بھی گائے ذبح کر دیتے تو حکم پورا ہو جاتا لیکن انہوں نے خواہ مخواہ کھود کرید شروع کر دی جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے بھی نت نئی شرطیں عائد فرما لیں اور ایسی گائے تلاش کرنا مشکل ہو گیا جو ان شرطوں کو پورا کرتی ہو۔ یہاں تک کہ ایک مرحلے میں ایسا محسوس ہونے لگا کہ شاید وہ ایسی گائے تلاش کر کے ذبح کرنے کے قابل نہ ہوں۔ اس واقعے میں سبق یہ دیا گیا ہے کہ بلا وجہ غیر ضروری کھوج میں پڑنا ٹھیک نہیں جو بات جتنی سادہ ہو اس پر اتنی ہی سادگی عمل کر لینا چاہیے۔
آیت ۷۲، ۷۳
ترجمہ
اور (یاد کرو) جب تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، اور اس کے بعد اس کا الزام ایک دوسرے پر ڈال رہے تھے، اور اللہ کو وہ راز نکال باہر کرنا تھا جو تم چھپائے ہوئے تھے۔
چنانچہ ہم نے کہا کہ اس (مقتول) کو اس (گائے) کے ایک حصے سے مارو۔ اسی طرح اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے، اور تمہیں (اپنی قدرت کی) نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔
تفسیر
اس واقعہ کی تفصیل تاریخی روایات میں یہ آئی ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے اپنے ایک بھائی کو اس کی میراث حاصل کرنے کی خاطر قتل کیا اور اس کی لاش سڑک پر ڈال دی، پھر خود ہی حضرت موسیٰؑ کے پاس شکایت لے کر پہنچ گیا کہ قاتل کو پکڑ کر سزا دی جائے، اس موقع پر حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں گائے ذبح کرنے کو کہا، جس کا واقعہ اوپر گذرا۔ جب گائے ذبح ہو گئی تو آپ نے فرمایا کہ گائے کا کوئی عضو اٹھا کر مقتول کی لاش پر مارو تو وہ زندہ ہو کر قاتل کا نام بتادے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس طرح قاتل کا پول کھل گیا اور وہ پکڑا گیا، قاتل کی دریافت کے لئے یہ طریقہ اختیار کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مردوں کو زندہ کرنے کی خدائی طاقت کا عملی مظاہرہ کر کے ان لوگوں کی زبانیں بند کر دیں گئیں جو دوسری زندگی کو نا ممکن سمجھتے تھے۔ غالباً اس واقعے کے بعد ہی بنی اسرائیل میں یہ طریقہ جاری ہوا کہ جب کوئی شخص مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چل رہا ہو تو ایک گائے ذبح کر کے اس پر اپنے ہاتھ دھوئیں اور قسم کھائیں کہ ہم نے اسے قتل نہیں کیا جس کا ذکر بائبل کی کتاب استثناء ۱۲-۱ تا ۸ میں آیا ہے۔
آیت ۷۴
ترجمہ
اس سب کے بعد تمہارے دل پھر سخت ہو گئے، یہاں تک کہ وہ ایسے ہو گئے جیسے پتھر! بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی زیادہ۔ (کیونکہ) پتھروں میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے نہریں پھوٹ بہتی ہیں، اور انہی میں سے کچھ وہ ہوتے ہیں جو خود پھٹ پڑتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، اور انہی میں وہ (پتھر) بھی ہیں جو اللہ کے خوف سے لڑھک جاتے ہیں۔ اور (اس کے برخلاف) جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ اس سے بیخبر نہیں ہے۔
تفسیر
یعنی بعض مرتبہ تو پتھروں سے چشمے نکل آتے ہیں جیسا کہ بنی اسرائیل خود دیکھ چکے تھے کہ کس طرح ایک سنگلاخ چٹان سے پانی کے چشمے بہہ پڑے تھے (دیکھئے پیچھے آیت نمبر ۶۰) اور بعض اوقات بھاری مقدار میں تو پانی نہیں نکلتا مگر پتھر شق ہو کر تھوڑا بہت پانی نکال دیتا ہے اور کچھ پتھر اللہ کے خوف سے لڑھک بھی پڑتے ہیں مگر ان کے دل ایسے سخت ہیں کہ ذرا نہیں پسیجتے۔ کسی زمانے میں یہ بات کچھ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ پتھر جیسی بے جان چیز میں خوف کا کیا تصور ہو سکتا ہے؟ لیکن قرآن کریم نے کئی جگہوں پر یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ جن چیزوں کو ہم بظاہر بے جان یا بے شعور سمجھتے ہیں ان میں بھی کچھ نہ کچھ شعور موجود ہوتا ہے مثلاً دیکھئے سورة بنی اسرائیل (۲۷: ۳۳) اور سورة احزاب (۲۷: ۳۳) لہذا اگر اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ کچھ پتھر اللہ کے خوف سے لڑھک جاتے ہیں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے آج تو سائنس بھی رفتہ رفتہ اس نتیجے پر پہنچ رہی ہے کہ جمادات میں بھی نمو اور شعور کی کچھ نہ کچھ صلاحیت موجود ہوتی ہے۔
آیت ۷۵، ۷۶
ترجمہ
(مسلمانو!) کیا اب بھی تمہیں یہ لالچ ہے کہ یہ لوگ تمہارے کہنے سے ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کے لوگ اللہ کا کلام سنتے تھے، پھر اس کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد بھی جانتے بوجھتے اس میں تحریف کر ڈالتے تھے۔
اور جب یہ لوگ ان (مسلمانوں) سے ملتے ہیں جو پہلے ایمان لا چکے ہیں تو (زبان سے) کہہ دیتے ہیں کہ ہم (بھی) ایمان لے آئے ہیں، اور جب یہ ایک دوسرے کے ساتھ تنہائی میں جاتے ہیں تو (آپس میں ایک دوسرے سے) کہتے ہیں کہ کیا تم ان (مسلمانوں) کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ یہ (مسلمان) تمہارے پروردگار کے پاس جا کر انہیں تمہارے خلاف دلیل کے طور پر پیش کریں؟ کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں؟
تفسیر
تورات میں آخر زمانے میں آنے والے نبی کی جو پیشین گوئیاں موجود تھیں وہ تمام تر نبی کریمﷺ پر صادق آتی تھیں، بعض منافق یہودی جو مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے یہ پیشین گوئیاں مسلمانوں کو سنا دیتے تھے اس پر دوسرے یہودی تنہائی میں ان کو ملامت کرتے تھے کہ مسلمان ان پیشین گوئیاں کو جان لیں گے تو قیامت میں ہمارے خلاف استعمال کریں گے اور ہمارے پاس ان کا کوئی جواب نہ ہو گا، ظاہر ہے کہ یہ انتہائی بے وقوفی کی بات تھی، کیونکہ اگر مسلمانوں سے یہ پیشین گوئیاں چھپا بھی لی جائیں تو اللہ سے تو نہیں چھپ سکتیں۔
آیت ۷۷ ۔ ۷۹
ترجمہ
کیا یہ لوگ (جو ایسی باتیں کرتے ہیں) یہ نہیں جانتے کہ اللہ کو ان ساری باتوں کا خوب علم ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں؟
اور ان میں سے کچھ لوگ ان پڑھ ہیں جو کتاب (تورات) کا علم تو رکھتے نہیں، البتہ کچھ آرزوئیں پکائے بیٹھے ہیں، اور ان کا کام بس یہ ہے کہ وہم و گمان باندھتے رہتے ہیں۔
لہذا تباہی ہے ان لوگوں کی جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر (لوگوں سے) کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے ذریعے تھوڑی سی آمدنی کما لیں۔ پس تباہی ہے ان لوگوں پر اس تحریر کی وجہ سے بھی جو ان کے ہاتھوں نے لکھی، اور تباہی ہے ان پر اس آمدنی کی وجہ سے بھی جو وہ کماتے ہیں۔
تفسیر
یہاں قرآن کریم نے ترتیب یہ رکھی ہے کہ پہلے ان یہودی علماء کا ذکر فرمایا ہے جو تورات میں جان بوجھ کر رد و بدل کرتے تھے پھران ان پڑھ یہودیوں کا جنہیں تورات کا علم تو تھا نہیں مگر انہیں مذکورہ بالا علماء نے ان جھوٹی آرزوؤں میں مبتلا کر رکھا تھا کہ سارے یہودی اللہ کے لاڈلے ہیں اور وہ بہر صورت جنت میں جائیں گے، ان کا ساراعلم اسی قسم کے گمانوں پر مشتمل تھا، چونکہ ان کے اس گمان کی بنیادی وجہ علماء کی تحریفات تھیں اس لئے آٰت نمبر ۹۶ میں ان کی تباہی کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔
آیت ۸۰، ۸۱
ترجمہ
اور یہودیوں نے کہا ہے کہ ہمیں گنتی کے چند دنوں کے علاوہ آگ ہرگز نہیں چھوئے گی۔ آپ ان سے کہیے کہ کیا تم نے اللہ کی طرف سے کوئی عہد لے رکھا ہے جس کی بنا پر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا، یا تم اللہ کے ذمے وہ بات لگا رہے ہو جس کا تمہیں کچھ پتہ نہیں؟
(آگ تمہیں) کیوں نہیں (چھوئے گی)؟ جو لوگ بھی بدی کماتے ہیں اور ان کی بدی انہیں گھیر لیتی ہے تو ایسے لوگ ہی دوزخ کے باسی ہیں۔ وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔
تفسیر
بدی کے گھیرے میں لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی ایسے گناہ ارتکاب کریں جس کے بعد کوئی نیک عمل آخرت میں کار آمد نہ ہو، اور وہ گناہ کفر اور شرک ہے۔
آیت ۸۲ ۔ ۸۵
ترجمہ
اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں تو وہ جنت کے باسی ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے پکا عہد لیا تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے، اور والدین سے اچھا سلوک کرو گے، اور رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں اور مسکینوں سے بھی۔ اور لوگوں سے بھلی بات کہنا، اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا۔ (مگر) پھر تم میں سے تھوڑے سے لوگوں کے سوا باقی سب (اس عہد سے) منہ موڑ کر پھر گئے۔
اور (یاد کرو) جب ہم نے تم سے پکا عہد لیا تھا کہ تم ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اور اپنے آدمیوں کو اپنے گھروں سے نہیں نکالو گے، پھر تم نے اقرار کیا تھا اور تم خود اس کے گواہ ہو۔
اس کے بعد (آج) تم ہی وہ لوگ ہو کہ اپنے ہی آدمیوں کو قتل کرتے ہو، اور اپنے ہی میں سے کچھ لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کرتے ہو، اور ان کے خلاف گناہ اور زیادتی کا ارتکاب کر کے (ان کے دشمنوں کی) مدد کرتے ہو، اور اگر وہ (دشمنوں کے) قیدی بن کر تمہارے پاس آ جاتے ہیں تو تم ان کو فدیہ دے کر چھڑا لیتے ہو، حالانکہ ان کو (گھر سے) نکالنا ہی تمہارے لیے حرام تھا۔ تو کیا تم کتاب (تورات) کے کچھ حصے پر تو ایمان رکھتے ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو؟ اب بتاؤ کہ جو شخص ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیوی زندگی میں اس کی رسوائی ہو؟ اور قیامت کے دن ایسے لوگوں کو سخت ترین عذاب کی طرف بھیج دیا جائے گا۔ اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔
تفسیر
اس کا پس منظر یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں یہودیوں کے دو قبیلے آباد تھے، بنو قریظہ اور بنو نضیر، دوسری طرف بت پرستوں کے بھی دو قبیلے تھے اوس اور خزرج، قریظہ کی دوستی اوس قبیلے سے تھی، اور بنو نضیر کی خزرج سے، جب اوس و خزرج میں لڑائی ہوئی تو قریظہ اوس کا ساتھ دیتے اور بنو نضیر خزرج کا، نتیجہ یہ کہ یہودیوں کے دونوں قبیلے بالواسطہ ایک دوسرے کے مدمقابل آ جاتے اور ان لڑائیوں میں جہاں اوس اور خزرج کے آدمی مارے جاتے وہاں قریظہ اور نضیر کے یہودی بھی قتل ہوتے یا اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور ہوتے، اس طرح اگرچہ بنو قریظہ اور بنو نضیر دونوں قبیلے یہودی تھے مگر وہ ایک دوسرے کے دشمنوں کی امداد کر کے آپس میں ایک دوسرے کے قتل اور خانماں بربادی میں حصہ دار ہوتے تھے، ہاں اگر کوئی یہودی دشمن کے ہاتھوں قید ہو جاتا تو وہ سب مل کر اس کا فدیہ ادا کرتے اور اسے چھڑا لیتے جس کی وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ ہمیں تورات نے حکم دیا ہے کہ اگر کوئی یہودی دشمن کی قید میں چلا جائے تو اسے چھڑائیں، قرآن کریم فرماتا ہے کہ جس تورات نے یہ حکم دیا ہے اسی نے یہ حکم بھی تو دیا تھا کہ نہ ایک دوسرے کو قتل کرنا نہ ایک دوسرے کو گھر سے نکالنا، ان احکام کو تو تم نے چھوڑ دیا اور صرف فدیہ کے حکم پر عمل کر لیا۔
آیت ۸۶، ۸۷
ترجمہ
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیوی زندگی کو آخرت کے بدلے خرید لیا ہے، لہذا نہ ان کے عذاب میں کوئی تخفیف ہو گی اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، اور اس کے بعد پے درپے رسول بھیجے۔ اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کی۔ پھر یہ آخر کیا معاملہ ہے کہ جب کبھی کوئی رسول تمہارے پاس کوئی ایسی بات لے کر آیا جو تمہاری نفسانی خواہشات کو پسند نہیں تھی تو تم اکڑ گئے؟ چنانچہ بعض (انبیاء) کو تم نے جھٹلایا، اور بعض کو قتل کرتے رہے۔
تفسیر
۵۹ ‘‘ روح القدس‘‘ کے لفظی معنی ہیں مقدس روح اور قرآن کریم میں یہ لقب حضرت جبرئیلؑ کے لئے استعمال کیا گیا ہے (دیکھئے سورة نحل آیت ۱۰۲: ۱۶) حضرت عیسیٰؑ کو جب جبرئیلؑ کی یہ تائید حاصل تھی کہ وہ ان دشمنوں سے ان کی حفاظت کے لئے ان کے ساتھ رہتے تھے
آیت ۸۸
ترجمہ
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف میں ہیں۔ نہیں! بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر پھٹکار ڈال رکھی ہے اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔
تفسیر
ان کے اس جملے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی شیخی بگھارتے تھے کہ ہمارے دلوں پر ایک حفاظتی غلاف ہے جس کی وجہ سے کوئی غلط بات ہمارے دلوں میں گھر نہیں کر سکتی اور یہ مطلب بھی ممکن ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنے آپ سے مایوس کرنے کے لئے طنزاً یہ کہتے تھے کہ آپ تو بس یہ سمجھ لو کہ ہمارے دلوں پر غلاف چڑھا ہوا ہے اور ہمیں اسلام کی دعوت دینے کی فکر میں نہ پڑو۔
آیت ۸۹
ترجمہ
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب آئی (یعنی قرآن) جو اس (تورات) کی تصدیق بھی کرتی ہے جو پہلے سے ان کے پاس ہے (تو ان کا طرز عمل دیکھو) باوجودیکہ یہ خود شروع میں کافروں (یعنی بت پرستوں) کے خلاف (اس کتاب کے حوالے سے) اللہ سے فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ مگر جب وہ چیز ان کے پاس آ گئی جسے انہوں نے پہچان بھی لیا، تو اس کا انکار کر بیٹھے۔ پس چھٹکار ہے اللہ کی ایسے کافروں پر۔
تفسیر
جب یہودیوں کی بت پرستوں سے جنگ ہوتی یا بحث و مباحثہ ہوتا تو وہ یہ دعائیں مانگا کرتے تھے کہ یا اللہ! آپ نے تورات میں جس آخری نبی کی خبر دی ہے اسے جلدی بھیج دیجئے تاکہ ہم ان کے ساتھ مل کر بت پرستوں پر فتح حاصل کریں، مگر جب وہ نبی (حضرت محمدﷺ تشریف لے آئے تو وہ حسد میں مبتلا ہو گئے کہ انہیں بنی اسرائیل کے بجائے بنی اسماعیل میں کیوں بھیجا گیا؟ چنانچہ یہ جان لینے کے باوجود کہ آنحضرتﷺ پر وہ ساری علامتیں صادق آتی ہیں جو تورات میں نبی آخرالزماں کی بیان کی گئی ہیں انہوں نے آپ کو ماننے سے سے انکار کر دیا۔
آیت ۹۰
ترجمہ
بری ہے وہ قیمت جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا ہے، کہ یہ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کا صرف اس جلن کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ اللہ اپنے فضل کا کوئی حصہ (یعنی وحی) اپنے بندوں میں سے جس پر چاہ رہا ہے (کیوں) اتار رہا ہے؟ چنانچہ یہ (اپنی اس جلن کی وجہ سے) غضب بالائے غضب لے کر لوٹے ہیں۔ اور کافر لوگ ذلت آمیز سزا کے مستحق ہیں۔
تفسیر
یعنی ایک غضب کے مستحق تو وہ اپنے کفر کی وجہ سے تھے دوسرا غضب ان پر حسد اور ضد کی وجہ سے ہوا۔
آیت ۹۱ ۔ ۹۳
ترجمہ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو کلام اتارا ہے اس پر ایمان لے آؤ، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو (صرف) اسی کلام پر ایمان رکھیں گے جو ہم پر نازل کیا گیا، (یعنی تورات) اور وہ اس کے سوا (دوسری آسمانی کتابوں) کا انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہ بھی حق ہیں (اور) جو کتاب ان کے پاس ہے وہ اس کی تصدیق بھی کرتی ہیں۔ (اے پیغمبر) تم ان سے کہو کہ اگر تم واقعی (تورات) پر ایمان رکھتے تھے تو اللہ کے نبیوں کو پہلے زمانے میں کیوں قتل کرتے رہے؟
اور خود موسیٰ تمہارے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے، پھر تم نے ان کے پیٹھ پیچھے یہ ستم ڈھایا کہ گائے کے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔
اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا اور تمہارے اوپر طور کو بلند کر دیا (اور یہ کہا کہ) جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اس کو مضبوطی سے تھامو اور (جو کچھ کہا جائے اسے ہوش سے) سنو۔ کہنے لگے ہم نے (پہلے بھی) سن لیا تھا، مگر عمل نہیں کیا تھا (اب بھی ایسا ہی کریں گے) اور (در اصل) ان کے کفر کی نحوست سے ان کے دلوں میں بچھڑا بسا ہوا تھا۔ آپ (ان سے) کہیے کہ اگر تم مومن ہو تو کتنی بری ہیں وہ باتیں جو تمہارا ایمان تمہیں تلقین کر رہا ہے۔
تفسیر
اس واقعے کی تفصیل اسی سورت میں پیچھے آیت نمبر ۶۳ کے حاشیہ میں گذر چکی اور بچھڑے کا واقعہ آیت ۵۳ کے تحت۔
آیت ۹۴، ۹۵
ترجمہ
آپ (ان سے) کہیے کہ اگر اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے مخصوص ہے (جیسا کہ تمہارا کہنا ہے) تو موت کی تمنا تو کر کے دکھاؤ، اگر واقعی سچے ہو۔
اور (ہم بتائے دیتے ہیں کہ) انہوں نے اپنے جو کرتوت آگے بھیج رکھے ہیں، ان کی وجہ سے یہ کبھی ایسی تمنا نہیں کریں گے۔ اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
تفسیر
یہ بھی قرآن کریم کی طرف سے ایک چیلنج تھا جسے قبول کر لینا ان کے لئے کچھ بھی مشکل نہ تھا وہ بآسانی کم از کم زبان سے علی الاعلان موت کی تمنا کر کے دکھا سکتے تھے لیکن چونکہ وہ جانتے تھے تھے کہ یہ خدائی چیلنج ہے اس لئے ایسی تمنا کا اظہار انہیں فوراً قبر میں پہنچا دے گا اس لئے کسی نے ایسی جرات نہیں کی۔
آیت ۹۶، ۹۷
ترجمہ
(بلکہ) یقیناً تم ان لوگوں کو پاؤ گے کہ انہیں زندہ رہنے کی حرص دوسرے تمام انسانوں سے زیادہ ہے، یہاں تک کہ مشرکین سے بھی زیادہ۔ ان میں کا ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ ایک ہزار سال عمر پائے، حالانکہ کسی کا بڑی عمر پا لینا اسے عذاب سے دور نہیں کر سکتا۔ اور یہ جو عمل بھی کرتے ہیں اللہ اسے اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔
(اے پیغمبر) کہہ دو کہ اگر کوئی شخص جبرئیل کا دشمن ہے تو (ہوا کرے) انہوں نے تو یہ کلام اللہ کی اجازت سے تمہارے دل پر اتارا ہے جو اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کر رہا ہے، اور ایمان والوں کے لیے مجسم ہدایت اور خوشخبری ہے۔
تفسیر
بعض یہودیوں نے آنحضرتﷺ سے کہا تھا کہ آپ کہ پاس جبرئیلؑ وحی لاتے ہیں وہ چونکہ ہمارے لئے بڑے سخت احکام لایا کرتے تھے اس لئے ہم انہیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں، اگر کوئی اور فرشتہ وحی لا رہا ہو تو ہم کچھ غور کر سکتے تھے، یہ آیت اس کے جواب میں نازل ہوئی ہے اور جواب کا حاصل یہ ہے کہ جبرئیلؑ تو محض پیغام پہچانے والے ہیں، جو کچھ لاتے ہیں اللہ کے حکم سے لاتے ہیں، لہذا نہ ان سے دشمنی کی کوئی معقول وجہ ہے اور نہ اس کی و جہ سے اللہ کے کلام کو رد کرنے کا کوئی معنی ہے۔
Last edited: