سورۃ البقرہ مفتی تقی عثمانی تفسیر آسان قرآن

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

تعارف
یہ قرآن کریم کی سب سے لمبی سورت ہے، اس کی آیات ۶۷ تا ۷۳ میں اس گائے کا واقعہ مذکور ہے جسے ذبح کرنے کا حکم بنی اسرائیل کو دیا گیا تھا، اس لئے اس سورت کا نام سورة البقرۃ ہے، کیونکہ بقرہ عربی میں گائے کو کہتے ہیں، سورت کا آغاز اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کے بیان سے ہوا ہے، اسی ضمن میں انسانوں کی تین قسمیں یعنی، مومن، کافر اور منافق بیان کی گئی ہیں، پھر حضرت آدمؑ کی تخلیق کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے، تاکہ انسان کو اپنی پیدائش کا مقصد معلوم ہو، اس کے بعد آیات کے ایک طویل سلسلہ میں بنیادی طور پر خطاب یہودیوں سے ہے جو بڑی تعداد میں مدینہ منورہ کے آس پاس آباد تھے ان پر اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں نازل فرمائیں اور جس طرح انہوں نے ناشکری اور نافرمانی سے کام لیا اس کا مفصل بیان ہے، پہلے پارہ کے تقریباً آخر میں حضرت ابراہیمؑ کا تذکرہ ہے، اس لئے کہ انہیں نہ صرف یہودی اور عیسائی بلکہ عرب کے بت پرست بھی اپنا پیشوا مانتے تھے، ان سب کو یاد دلایا گیا کہ وہ خالص توحید کے قائل تھے اور انہوں نے کبھی کسی قسم کی شرک کو گوارہ نہیں کیا، اسی ضمن میں بیت اللہ کی تعمیر اور اسے قبلہ بنانے کا موضوع زیر بحث آیا ہے، دوسرے پارہ کے شروع میں اس کے مفصل احکام بیان کرنے کے بعد اس سورت میں مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق بہت سے احکام بیان فرمائے گئے ہیں جن میں عبادت سے لے کر معاشرت، خاندانی امور اور حکمرانی سے متعلق بہت سے مسائل داخل ہیں۔
یہ سورت مدنی ہے اور اس میں ۲۸۶ آیتیں اور ۴۰ رکوع ہیں

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
آیت ۱
ترجمہ
الم
تفسیر
مختلف سورتوں کے شروع میں یہ حروف اسی طرح الگ الگ نازل ہوئے تھے، ان کو حروف مقطعات کہتے ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ ان کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا ایک راز ہے جس کی تحقیق میں پڑنے کی ضرورت نہیں اور عقیدے یا عمل کا کوئی مسئلہ ان کے سمجھنے پر موقوف نہیں۔
آیت ۲
ترجمہ
یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں یہ ہدایت ہے ان کے ڈر رکھنے والوں کے لئے
تفسیر

یعنی اس کتاب کی ہر بات کسی شک و شبہ کے بغیر درست ہے، انسان کی لکھی ہوئی کسی کتاب کو سوفیصد شک سے بالاتر نہیں سمجھاجا سکتا، کیونکہ انسان کتنا ہی بڑا عالم ہو اس کا علم محدود ہوتا ہے اور اکثر اس کی کتاب اس کے ذاتی گمان پر مبنی ہوتی ہے، لیکن چونکہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی ہے جس کا علم لامحدود بھی ہے اور سو فیصد یقینی بھی، اس لئے اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، کسی کو شک ہو تو یہ اس کی ناسمجھی کی وجہ سے ہو گا کتاب کی کوئی بات شبہ والی نہیں۔
اگرچہ قرآن کریم نے صحیح راستہ ہر ایک کو دکھایا ہے خواہ وہ مومن ہو یا کافر اس لئے اس معنی کے لحاظ سے اس کی ہدایت سب کے لئے ہے لیکن نتیجے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس ہدایت کا فائدہ انہی پہنچتا ہے جو اس کی بات کو مان کر اس کے تمام احکام اور تعلیمات پر عمل کریں، اس لئے فرمایا گیا کہ ہدایت ہے پرہیزگاروں کے لئے جو بے دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں، پرہیز گاری اور ڈر رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھے کہ اسے ایک دن اللہ کے حضور اپنے تمام اعمال کا جواب دینا ہے لہذا مجھے کوئی کام ایسا نہ کرنا چاہئے جو اس کی ناراضی کا باعث ہو اسی خوف اور دھیان کا نام تقویٰ ہے۔ ‘‘ بے دیکھی چیزوں‘‘ کے لئے قرآن کریم نے‘‘ غیب‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جو آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتیں، نہ ہاتھ سے چھو کر یا ناک سے سونگھ کر انہیں محسوس کیا جا سکتا ہے، بلکہ وہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی وحی کے ذریعے معلوم ہوتی ہیں، یعنی یا تو قرآن کریم میں ان کا ذکر ہے یا آنحضرتﷺ نے وحی کے ذریعے وہ باتیں معلوم کر کے ہمیں بتائی ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ کی صفات، جنت و دوزخ کے حالات، فرشتے وغیرہ، اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے ان متقی بندوں کی تعریف کی جا رہی ہے جو غیب کی چیزوں کو بغیر دیکھے صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے ارشادات پر یقین کر کے دل سے مانتے ہیں جو انہوں نے آنکھوں سے نہیں دیکھیں، یہ دنیا چونکہ امتحان کی جگہ ہے، اس لئے اگر یہ چیزیں آنکھوں سے نظر آ جاتیں اور پھر کوئی شخص ان پر ایمان لاتا تو کوئی امتحان نہ ہوتا، اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو انسان کی نگاہ سے پوشیدہ رکھا ہے لیکن ان کے وجود کے بیشمار دلائل مہیا فرما دئے ہیں کہ جب کوئی شخص ذرا انصاف سے غور کرے گا تو ان باتوں پر ایمان لے آئے گا اور امتحان میں کامیاب ہو گا۔ قرآن کریم نے بھی وہ دلائل بیان فرمائے ہیں جو انشاء اللہ آگے آتے رہیں گے ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ قرآن کریم کو حق طلبی کے جذبے سے غیر جانبدار ہو کر پڑھا جائے اور یہ خیال دل میں رکھا جائے کہ یہ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ اس میں لاپروائی برتی جائے۔ یہ انسان کی ہمیشہ کی زندگی کی بہتری اور تباہی کا معاملہ ہے۔ لہٰذا یہ ڈر دل میں ہونا چاہیے کہ کہیں میری نفسانی خواہشات قرآن کریم کے دلائل ٹھیک ٹھیک سمجھنے میں رکاوٹ نہ بن جائیں اس لئے مجھے اس کی دی ہوئی ہدایت کو تلاش حق کے جذبے سے پڑھنا چاہیے، اور پہلے سے دل میں جمے ہوئے خیالات سے ذہن کو خالی کر کے پڑھنا چاہیے تاکہ مجھے واقعی ہدایت نصیب ہو۔ ‘‘ یہ ہدایت ہے ڈرنے والوں کے لئے‘‘ کا ایک مطلب یہ بھی ہے۔
آیت ۳
ترجمہ
جو بے دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا اس میں سے (اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔
تفسیر
جو لوگ قرآن کریم کی ہادیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں یہاں ان کی صفات بیان فرمائی گئ ہیں ان میں سے سب سے پہلی صفت تو یہ ہے کہ وہ‘‘ غیب‘‘ یا ان دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں۔ جس کی تفصیل پیچھے گزر چکی۔ اس میں تمام ایمانیات داخل ہو گئے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا، یا جو کچھ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا اس سب پر ایمان لاتے ہیں۔ دوسری چیز نماز قائم کرنا بیان کی گئی ہے جو بدنی عبادتوں میں سب سے اہم ہے اور تیسری چیز اپنے مال میں سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا جس میں زکوٰۃ و صدقات آ جاتے ہیں جو مالی عبادت ہے۔
آیت ۴
ترجمہ
اور جو اس (وحی) پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں
تفسیر
یعنی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کے جو وحی حضور اکرمﷺ پر اتاری گئی وہ بھی بالکل سچی ہے اور جو آپ سے پہلے انبیائے کرامؑ مثلاً حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰؑ وغیرہ پر نازل کی گئی تھی وہ بھی بالکل سچی تھی اگرچہ بعد میں لوگوں نے اسے ٹھیک ٹھیک محفوظ نہ رکھا بلکہ اس میں تحریف کر دی۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کر دیا گیا کہ وحی کا سلسلہ حضور اکرمﷺ پر ختم ہو گیا، آپﷺ کے بعد کوئی ایسا شخص پیدا نہیں ہو گا جس پر وحی آئے یا اسے پیغمبر بنایا جائے، کیونکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے صرف آنحضرتﷺ پر نازل ہونے والی وحی اور آپ سے پہلے کے انبیاءؑ پر نازل ہونے والی وحی کا ذکر فرمایا ہے آپ کے بعد کی کسی وحی کا ذکر نہیں فرمایا۔ اگر آپ کے بعد بھی کوئی نیا پیغمبر آنے والا ہوتا یا اس کی وحی پر ایمان لانا ضروری ہوتا تو اس کو بھی یہاں بیان فرمایا جاتا جیسا کہ پچھلے پیغمبروں سے یہ عہد لیا گیا تھا کہ آپ حضرات کے بعد حضور نبی کریمﷺ تشریف لانے والے ہیں آپ کو ان پر بھی ایمان رکھنا ہو گا۔ (دیکھئے قرآن کریم سورة آل عمران آیت ۸۱)
آخرت سے مراد وہ زندگی ہے جو مرنے کے بعد حاصل ہو گی اور جو ہمیشہ کے لئے ہو گی اور اس میں ہر بندے کو دنیا میں کئے ہوئے اعمال کا حساب دینا ہو گا اور اسی کی بنیاد پر یہ فیصلہ ہو گا کہ وہ جنت میں جائے گا یا جہنم میں، اگرچہ یہ آخرت بھی غیب یعنی ان دیکھی چیزوں میں شامل ہے جس پر ایمان لانے کا ذکر سب سے پہلے کیا گیا تھا، لیکن آخر میں اسے علیحدہ کر کے خصوصی اہمیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت کا عقیدہ ہی در حقیقت انسان کی سوچ اور اس کی عملی زندگی کو صحیح راستے پر رکھتا ہے جو انسان یہ یقین رکھتا ہو کہ ایک دن مجھے اللہ کے سامنے پیش ہو کر اپنے ہر عمل کا جواب دینا ہے وہ کسی گناہ یا جرم کا ارتکاب پر کبھی ڈھٹائی کے ساتھ آمادہ نہیں ہو گا۔
آیت ۵، ۶
ترجمہ
یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے پروردگار کی طرف سے صحیح راستے پر ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔
بیشک وہ لوگ جنہوں نے کفر اپنا لیا ہے ان کے حق میں دونوں باتیں برابر ہیں، چاہے آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے
تفسیر
یہاں ان کافروں کا ذکر ہو رہا ہے جنہوں نے یہ طے کر لیا تھا کہ چاہے کتنے واضح اور روشن دلائل ان کے سامنے آ جائیں وہ کبھی آنحضرتﷺ کی دعوت پر ایمان نہیں لائیں گے، حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو کفر پر اڑ گئے ہیں۔‘‘ ترجمے میں‘‘ کفر اپنا لیا ہے‘‘ کے الفاظ اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لئے استعمال کئے گئے ہیں۔
‘‘ ڈرانا‘‘ انذار کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ قرآن کریم نے انبیائے کرامؑ کی دعوت کو بکثرت‘‘ ڈرانے‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ کیونکہ انبیاء کرامؑ لوگوں کو کفر اور بداعمالیوں کے برے انجام سے ڈراتے ہیں، لیکن جن لوگوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ کوئی بات ماننی نہیں ہے، ان کو برے انجام سے ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔
آیت ۷
ترجمہ
اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لئے زبردست عذاب ہے۔
تفسیر
اس آیت میں یہ واضح فرمایا گیا ہے کہ ضد اور ہٹ دھرمی بڑی خطرناک چیز ہے، اگر کوئی شخص نا واقفیت یا غفلت وغیرہ کی وجہ سے کسی غلطی کا ارتکاب کرے تو اس کی اصلاح کی امید ہو سکتی ہے، لیکن جو شخص غلطی پر اڑ جائے اور تہیہ کر لے کہ کسی بھی حالت میں بات نہیں ماننا ہے، تو اس کی ضد کا آخری انجام یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے دل پر مہر لگا دی جاتی ہے جس کے بعد اس سے حق کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس حالت سے محفوظ رکھے، لہذا اس پر شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ جب خود اللہ تعالیٰ نے ان کے دل پر مہر لگا دی تو معذور ہو گئے اس لئے کہ یہ مہر لگانا خود انہی کی ضد اور تہیہ کرنے کا نتیجہ ہے کہ حق بات نہیں ماننی۔
آیت ۸
ترجمہ
کچھ لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لے آئے، حالانکہ وہ (حقیقت میں) مومن نہیں ہیں
تفسیر
سورت کے شروع میں مومنوں کے اوصاف اور ان کا انجام خیر بیان فرمایا گیا، پھر ان لوگوں کا ذکر ہوا جو کھلے کافر ہیں، اب یہاں سے ایک تیسرے گروہ کا بیان ہو رہا ہے جسے منافق کہا جاتا ہے یہ لوگ ظاہر میں تو اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے مگر دل سے مسلمان نہیں ہوئے تھے۔
آیت ۹
ترجمہ
وہ اللہ کو اور ان لوگوں کو جو (واقعی) ایمان لا چکے ہیں دھوکا دیتے ہیں اور (حقیقت تو یہ ہے کہ) وہ اپنے سوا کسی اور کو دھوکا نہیں دے رہے لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے
تفسیر
یعنی بظاہر تو وہ اللہ اور مسلمانوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں، کیونکہ اس دھوکے کا انجام خود ان کے حق میں برا ہو گا، وہ سمجھ رہے ہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے وہ کفر کے دنیوی انجام سے بچ گئے، حالانکہ آخرت میں ان کو جو عذاب ہو گا وہ دنیا کے عذاب سے زیادہ سنگین ہے۔
آیت ۱۰
ترجمہ
ان کے دلوں میں روگ ہے چنانچہ اللہ نے ان کے روگ میں اور اضافہ کر دیا ہے اور ان کے لئے دردناک سزا تیار ہے، کیونکہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے
تفسیر
یہ وہی بات ہے جو پیچھے آیت نمبر ۷ میں کہی گئی تھی۔ یعنی شروع میں انہوں نے اپنے اختیار سے اس گمراہی کو اپنایا اور اس پر اڑ گئے، یہ ان کے دل کی بیماری تھی، پھر ان کی ضد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کی بیماری کو اور بڑھا دیا کہ اب انہیں واقعی ایمان لانے کی توفیق نہیں ہو گی۔
آیت ۱۱ ۔ ۱۴
ترجمہ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم زمین میں فساد نہ مچاؤ تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔
یاد رکھو یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں لیکن انہیں اس بات کا احساس نہیں ہے
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم بھی اسی طرح ایمان لے آؤ جیسے دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ کیا ہم بھی اسی طرح ایمان لائیں جیسے بیوقوف لوگ ایمان لائے ہیں؟ خوب اچھی طرح سن لو کہ یہی لوگ بیوقوف ہیں لیکن وہ یہ بات نہیں جانتے
اور جب یہ ان لوگوں سے ملتے ہیں جو ایمان لا چکے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے اور جب یہ اپنے شیطانوں کے پاس تنہائی میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو مذاق کر رہے تھے
تفسیر
’’اپنے شیطانوں‘‘ سے مراد وہ سردار ہیں جو ان منافقین کی سازشوں میں ان کے سربراہ اور رہنما کی حیثیت رکھتے تھے۔
آیت ۱۵
ترجمہ
اللہ ان سے مذاق (کا معاملہ) کرتا ہے اور انہیں ایسی ڈھیل دیتا ہے کہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں
تفسیر
یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی رسی دراز کر رکھی ہے کہ ان کے دوغلے پن کی فوری سزا دنیا میں انہیں نہیں مل رہی ہے، جس سے وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہماری تدبیر کارگر ہو گئی، چنانچہ وہ اپنی اس گمراہی میں اور پختہ ہوتے جا رہے ہیں، آخرت میں انہیں ایک دم پکڑ لیا جائے گا، چونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ عمل ان کے مذاق کا نتیجہ تھا اسے یہاں اللہ ان سے مذاق کرتا ہے کے عنوان سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔
آیت ۱۶، ۱۷
ترجمہ
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے لہٰذا نہ ان کی تجارت میں نفع ہوا اور نہ انہیں صحیح راستہ نصیب ہوا۔
ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے ایک آگ روشن کی پھر جب اس (آگ نے) اس کے ماحول کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نور سلب کر لیا اور انہیں اندھیروں میں چھوڑ دیا کہ انہیں کچھ سجھائی نہیں دیتا
تفسیر
یہاں سے ان منافقوں کی مثال دی جا رہی ہے جو اسلام کے واضح دلائل سامنے آنے کے باوجود نفاق کی گمراہی میں پھنسے رہے، اسلام کے واضح دلائل کو آگ کی روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح اس روشنی سے ماحول کی چیزیں صاف نظر آنے لگتی ہیں اسی طرح اسلام کے دلائل سے حقیقت ان پر واضح ہو گئی، لیکن پھر ضد اور عناد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ روشنی ان سے سلب کر لی اور وہ دیکھنے کی قوت سے محروم ہو گئے۔
آیت ۱۸
ترجمہ
وہ بہرے ہیں گونگے ہیں، اندھے ہیں چنانچہ اب وہ واپس نہیں آئیں گے۔۱
یا پھر ان (مناففوں) کی مثال ایسی ہے ۲ جیسے آسمان سے برستی ایک بارش ہو، جس میں اندھیریاں بھی ہوں اور گرج بھی اور چمک بھی۔ وہ کڑکوں کی آواز پر موت کے خوف سے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں دے لیتے ہیں۔ اور اللہ نے کافروں کو گھیرے میں لے رکھا ہے
تفسیر
۱۔ منافقوں کی پہلی مثال تو ان منافقین سے متعلق تھی جو اسلام کے واضح دلائل سامنے آنے کے باوجود خوب سوچ سمجھ کر کفر اور نفاق کا راستہ اختیار کئے ہوئے تھے، اب منافقین کے اس گروہ کی مثال دی جا رہی ہے جو اسلام لانے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھا، جب اسلام کی حقانیت کے دلائل سامنے آئے تو ان کے دل میں اسلام کی طرف جھکاؤ پیدا ہوتا اور وہ اسلام کی طرف بڑھنے لگتے، لیکن جب اسلامی احکام کی ذمہ داریاں اور حلال و حرام کی باتیں سامنے آتیں تو وہ اپنی خود غرضی کی وجہ سے رک جاتے، یہاں اسلام کو ایک برستی ہوئی بارش سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس میں کفر و شرک کی خرابیوں کا جو بیان ہے اسے اندھیریوں سے اور اس میں کفر و شرک پر عذاب کی جو دھمکیاں دی گئی ہیں انہیں گرج سے تشبیہ دی گئی ہے۔ نیز قرآن کریم میں حق کے جو دلائل اور حق کو تھامنے والوں کے لئے جنت کے جو وعدے کئے گئے ہیں، انہیں بجلی کی روشنی سے تشبیہ دی گئی ہے، جب یہ روشنی ان منافقین کے سامنے چمکتی ہے تو وہ چل پڑتے ہیں مگر کچھ دیر میں ان کی خواہشات کی ظلمت ان پر چھا جاتی ہے تو کھڑے رہ جاتے ہیں۔
۲۔ یعنی جب قرآن کریم کفر اور فسق پر عذاب کی وعیدیں سناتا ہے تو یہ اپنے کان بند کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم عذاب سے محفوظ ہو گئے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمام کافروں کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور وہ اس سے بچ کر نہیں جا سکتے۔
آیت ۲۰ ۔ ۲۲
ترجمہ
ایسا لگتا ہے کہ بجلی ان کی آنکھوں کو اچک لے جائے گی جب بھی ان کے لئے روشنی کر دیتی ہے وہ اس (روشنی) میں چل پڑتے ہیں اور جب وہ ان پر اندھیرا کر دیتی ہے تو وہ کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے سننے اور دیکھنے کی طاقتیں چھین لیتا، بیشک اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے
اے لوگو اپنے اس پروردگار کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے گزرے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ۔
(وہ پروردگار) جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا بنایا، اور آسمان کو چھت اور آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعے تمہارے رزق کے طور پر پھل نکالے، لہذا اللہ کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ جبکہ تم (یہ سب باتیں) جانتے ہو۔
تفسیر
ان دو آیتوں (آیت نمبر ۲۱ اور ۲۲) میں اسلام کے بنیادی عقیدے توحید کی دعوت دی گئی ہے اور مختصر انداز میں اس کی دلیل بھی بیان کر دی گئی ہے اہل عرب یہ مانتے تھے کہ ساری کائنات کو پیدا کرنا، زمین و آسمان کی تخلیق اور آسمان سے بارش برسانا اور اس سے پیداوار اگانا، یہ سب کام اللہ تعالیٰ کے ہیں، اس کے باوجود یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے کام بتوں کے سپرد کر رکھے ہیں اور وہ بت اپنے کاموں میں براہ راست فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، لہذا وہ ان بتوں کی عبادت اس لئے کرتے تھے کہ وہ ان کی مدد کریں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہر چیز پیدا کرنے والے ہم ہیں اور ہمیں کائنات چلانے کے لئے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں تو عبادت کسی اور کی کرنا کتنے بڑے ظلم کی بات ہے۔
آیت ۲۳، ۲۴
ترجمہ
اور اگر تم اس (قرآن) کے بارے میں ذرا بھی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ پر اتارا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ۔ اور اگر سچے ہو تو اللہ کے سوا اپنے تمام مدد گاروں کو بلا لو۔
پھر بھی اگر تم یہ کام نہ کر سکو اور یقیناً کبھی نہیں کر سکو گے تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے وہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔
تفسیر
پچھلی آیات میں توحید کا بیان تھا اب اسلام کے دوسرے اہم عقیدے یعنی آنحضرتﷺ کی رسالت کا بیان ہے اور عرب کے جو لوگ قرآن پر ایمان لانے کے بجائے یہ الزام لگاتے تھے کہ آنحضرتﷺ شاعر ہیں اور انہوں نے اپنی طرف سے یہ کلام بنا لیا ہے، انہیں زبردست چیلنج دیا گیا ہے کہ اگر ایسا کلام کوئی انسان بنا سکتا ہے تو تم بڑے فصیح و بلیغ ہو، تم سب مل کر قرآن جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا کر لے آؤ، ساتھ ہی قرآن نے دعوی کیا ہے کہ تم سب مل کر بھی ایسا نہیں کر سکو گے اور واقعہ یہی ہے کہ اہل عرب جو اپنی زبان و ادب پر ناز کرتے تھے ان سب کو اس چیلنج کے بعد سانپ سونگھ گیا اور کوئی شخص یہ چیلنج قبول کرنے کے لئے آگے نہ بڑھا بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں نے اس خدائی کلام کے آگے گھٹنے ٹیک دئے اور اس طرح آنحضرتﷺ کی رسالت اور قرآن کریم کی سچائی روز روشن کی طرح ثابت اور واضح ہو گئی۔
آیت ۲۵
ترجمہ
اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کئے ہیں ان کو خوشخبری دے دو کہ ان کے لئے ایسے باغات (تیار) ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جب کبھی ان کو ان (باغات) میں سے کوئی پھل رزق کے طور پر دیا جائے گا تو وہ کہیں گے‘‘ یہ تو وہی ہے جو ہمیں پہلے بھی دیا گیا تھا‘‘ اور انہیں وہ رزق ایسا ہی دیا جائے گا جو دیکھنے میں ملتا جلتا ہو گا اور ان کے لئے وہاں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان (باغات) میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
تفسیر
یہ اسلام کے تیسرے عقیدے یعنی آخرت پر ایمان کا بیان ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ مرنے کے بعد ایک اور زندگی آنے والی ہے جس میں ہر انسان کو اپنے تمام اعمال کا جواب دینا ہو گا اگر ایمان کے ساتھ نیک عمل کئے ہوں گے تو وہ جنت نصیب ہو گی جس کی ایک جھلک اس آیت میں دکھائی گئی ہے۔
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جنت میں جب اہل جنت کو پھل دیا جائے گا تو وہ کہیں گے یہ وہی ہے جو ہمیں اس سے پہلے کھانے کو دیا گیا، اس کا ایک مطلب تو یہ ہو سکتا ہے کہ جنت میں وقفہ وقفہ سے ایسے پھل دئے جائیں گے جو دیکھنے میں بالکل ملتے جلتے ہوں گے، مگر لذت اور ذائقے میں ہر پھل نیا ہو گا اور دوسرا مطلب یہ بھی ممکن ہے کہ جنت کے پھل دیکھنے میں دنیا کے پھلوں کی طرح ہوں گے اس لئے انہیں دیکھ کر جنتی یہ کہیں گے کہ یہ تو وہی پھل ہیں جو ہمیں پہلے یعنی دنیا میں ملے تھے، لیکن جنت میں ان کی لذت اور خصوصیات دنیا کے پھلوں سے کہیں زیادہ ہوں گی۔
آیت ۲۶
ترجمہ
بیشک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ (کسی بات کو واضح کرنے کے لئے) کوئی بھی مثال دے، چاہے وہ مچھر (جیسی معمولی چیز) کی ہو، یا کسی ایسی چیز کی جو مچھر سے بھی زیادہ (معمولی) ہو اب جو لوگ مومن ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ مثال ایک حق بات ہے جو ان کے پروردگار کی طرف سے آئی ہے۔ البتہ جو لوگ کافر ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ بھلا اس (حقیر) مثال سے اللہ کا کیا مطلب ہے؟ (اس طرح) اللہ اس مثال سے بہت سے لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کرتا ہے اور بہت سوں کو ہدایت دیتا ہے (مگر) وہ گمراہ انہی کو کرتا ہے جو نافرمان ہیں۔
تفسیر
بعض کافروں نے قرآن کریم پر یہ اعتراض کیا تھا کہ اس میں کچھ مثالیں مکھی، مچھر، مکڑی وغیرہ کی دی گئی ہیں، اگر یہ واقعی خدا کا کلام ہوتا تو اس میں ایسی حقیر چیزوں کا ذکر نہ ہوتا، ظاہر ہے کہ یہ اعتراض بڑا بے تکا اعتراض تھا کیونکہ مثال ہمیشہ مضمون کی مناسبت سے دی جاتی ہے اگر کسی حقیر و ذلیل کی مثال دینی ہو تو ایسی ہی کسی چیز سے دی جائے گی جو حقیر و ذلیل ہو، یہ کسی کلام کا عیب تو کیا ہوتا اس کی فصاحت و بلاغت کی دلیل ہے مگر یہ بات انہی کی سمجھ میں آتی ہے جو طالب حق ہوں اور حق پر ایمان لا چکے ہوں لیکن جنہوں نے کفر کی قسم کھا رکھی ہے انہیں تو ہر بات پر ہر حالت میں اعتراض کرنا ہے اس لئے ایسی بے تکی باتیں کہتے ہیں۔
قرآن کریم کی یہی آیتیں جو طالب حق کو ہدایت بخشتی ہیں ایسے لوگوں کے لئے مزید گمراہی کا سبب بن جاتی ہیں جنہوں نے ضد اور ہٹ دھرمی پر کمر باندھ کر یہ طے کر لیا ہے کہ حق بات ماننی نہیں ہے کیونکہ وہ ہر نئی آیت کا انکار کرتے ہیں اور ہر آیت کا انکار ایک مستقل گمراہی ہے۔
آیت ۲۷
ترجمہ
وہ جو اللہ سے کئے ہوئے عہد ۱ کو پختہ کرنے کے بعد بھی توڑ دیتے ہیں اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے ۲ انہیں کاٹ ڈالتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے ہیں ایسے ہی لوگ بڑا نقصان اٹھانے والے ہیں۔
تفسیر
۱۔ عہد سے مراد اکثر مفسرین نے وہ عہد الست لیا ہے جس کا ذکر سورة اعراف (۷ ۱۷۲) میں ہے، یعنی اللہ تعالیٰ انسانوں کو پیدا کرنے سے بہت پہلے آنے والی تمام روحوں کو جمع کر کے ان سے پوچھا تھا کہ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں، سب نے اللہ تعالیٰ کے پروردگار ہونے کا اقرار کر کے یہ عہد کیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریں گے، پھر اس آیت میں عہد کو پختہ کرنے سے مراد بظاہر یہ ہے کہ ہر دور میں اللہ تعالیٰ کے رسول آتے رہے جو اس عہد کو یاد دلا کر اللہ تعالیٰ کے خالق و مالک ہونے پر دلائل قائم کرتے رہے۔
اس عہد کی ایک اور تشریح بھی ممکن ہے اور وہ یہ کہ اس سے مراد وہ عملی اور خاموش عہد (tacit covenant) ہے جو ہر انسان پیدا ہوتے ہی اپنے خالق و مالک سے کرتا ہے یہ ایسا ہی ہے جیسے ہر شخص جو کسی ملک میں پیدا ہوتا ہے وہ اس ملک کا شہری ہونے کے ناطے یہ خاموش عہد کرتا ہے کہ وہ اس ملک کے قوانین کا پابند ہو گا خواہ زبان سے اس نے کچھ نہ کہا ہو لیکن اس کا کسی ملک میں پیدا ہونا ہی اس عہد کے قائم مقام ہے، اسی طرح کائنات میں جو شخص بھی پیدا ہوتا ہے وہ خود بخود اس عہد کا پابند ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی ہدایات کے مطابق زندگی گزارے گا۔ اس عہد کے لئے زبان سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ غالباً اسی وجہ سے اگلی آیت میں باری تعالیٰ نے فوراً یہ ارشاد فرمایا کہ‘‘ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کا طرز عمل آخر کیسے اختیار کر لیتے ہو، حالانکہ تم بے جان تھے، اسی نے تمہیں زندگی بخشی‘‘ یعنی اگر ذرا غور کرو تو تنہا یہ بات کہ کسی نے تمہیں پیدا کیا ہے، تمہاری طرف سے یہ عہد و پیمان ہے کہ تمہارے لئے ان کی نعمتوں کا اعتراف اور اس کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنا لازمی ہو گا۔ ورنہ یہ کونسی عقل اور کونسا انصاف ہے کہ پیدا تو اللہ تعالیٰ کرے، اور فرمانبرداری اس کے بجائے کی اور کی کی جائے، پھر اس خاموش عہد کو مزید پختہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کے ذریعے متواتر تمہیں اس عہد کی یاد دہانی کراتا رہا ہے اور ان پیغمبروں نے وہ مضبوط دلائل تمہارے سامنے پیش کئے ہیں جن سے یہ عہد مزید پختہ ہو گیا ہے کہ انسان کو ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنی ہے۔
۲۔ اس سے مراد رشتہ داروں کے وہ حقوق پامال کرنا ہے جنہیں صلہ رحمی کہا جاتا ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کافروں کی تین صفات بیان کی گئی ہیں، ایک یہ کہ وہ اللہ سے کیا ہوا عہد توڑتے ہیں دوسرے یہ کہ وہ رشتہ داروں کے حقوق پامال کرتے ہیں اور تیسرے یہ کہ زمین میں فساد مچاتے ہیں، ان میں سے پہلی چیز اللہ تعالیٰ کے حقوق سے متعلق ہے یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں وہ عقیدہ رکھتا ہے جو رکھنا چاہئے اور نہ اس کی وہ عبادت کرتا ہے جو ان پر فرض ہے، دوسری اور تیسری چیز کا تعلق حقوق العباد سے ہے، اللہ تعالیٰ نے مختلف رشتوں کے جو حقوق مقرر فرمائے ہیں، ان کی ٹھیک ٹھیک ادائیگی سے ہی ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آتا ہے، اگر ان رشتوں کو کاٹ کر باپ، بیٹے، بھائی بھائی، شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے حقوق پامال کرنا شروع کر دیں تو وہ خاندانی نظام تباہ ہو جاتا ہے جس پر ایک صحت مند تمدن کی بنیاد قائم ہوتی ہے، لہذا اس کا لازمی نتیجہ زمین میں فساد کی صورت میں نکلتا ہے اسی لئے قرآن کریم نے رشتوں کو کاٹنے اور زمین میں فساد مچانے کو سورة محمد (۲۶ ۲۲) میں بھی ایک ساتھ ملا کر ذکر فرمایا ہے . آیت فھل عسیتم ان تولیتم ان تفسدوا فی الارض وتقطعوا ارحامکم۔

آیت ۲۸

ترجمہ

تم اللہ کے ساتھ کفر کا طرز عمل آخر کیسے اختیار کر لیتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اسی نے تمہیں زندگی بخشی پھر وہی تمہیں موت دے گا پھر وہی تم کو (دوبارہ) زندہ کرے گا اور پھر تم اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے
تفسیر

آیت ۲۹

ترجمہ

وہی ہے جس نے زمین میں جو کچھ ہے تمہارے لئے پیدا کیا پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا، چنانچہ ان کو سات آسمانوں کی شکل میں ٹھیک ٹھیک بنا دیا، اور وہ ہر چیز کا پورا علم رکھنے والا ہے۔
تفسیر

۲۶ انسان کو توجہ دلائی جا رہی ہے کہ وہ کائنات کی جتنی چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے سب اللہ تعالیٰ کی عطا فرمائی ہوئی ہیں، ان میں سے ہر چیز اس کی توحید کی گواہی دے رہی ہے اس کے باوجود اس کے ساتھ کفر کارویہ اختیار کرنا کتنی بڑی ناشکری ہے، اسی آیت سے فقہاء نے یہ اصول بھی مستنبط کیا ہے کہ دنیا کی ہر چیز اصل میں حلال ہے اور جب تک کسی چیز کی حرمت پر کوئی دلیل نہ ہو اس وقت تک اس کو حلال ہی سمجھا جائے گا۔

آیت ۳۰

ترجمہ

اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں وہ کہنے لگے۔ کیا آپ زمین میں ایسی مخلوق پیدا کریں گے جو اس میں فساد مچائے اور خون خرابہ کرے حالانکہ ہم آپ کی تسبیح اور حمد و تقدیس میں لگے ہوئے ہیں اللہ نے کہا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
تفسیر

۲۷ آیت نمبر ۲۲ میں صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت واجب ہونے کی نہایت مختصر اور سادہ مگر مضبوط دلیل یہ دی گئی تھی کہ جس نے تمہیں وہی عبادت کا مستحق ہے۔ آیت نمبر ۲۸ میں کافروں کے کفر پر تعجب کا اظہار بھی اسی بنا پر کیا گیا تھا۔ اب انسان کی پیدائش کا پورا واقعہ بیان کر کے اس دلیل کو مزید پختہ کیا جا رہا ہے آیت میں خلیفہ سے مراد انسان ہے اور اس کے خلیفہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ زمین میں اللہ تعالیٰ کے احکام پر خود بھی عمل کرے اور اپنی طاقت کے مطابق دوسروں سے بھی عمل کروانے کی کوشش کرے۔
۲۸ فرشتوں کے اس سوال کا منشاء خدا نخواستہ کوئی اعتراض کرنا نہیں تھا بلکہ وہ حیرت کر رہے تھے کہ ایک ایسی مخلوق کو پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے جو نیکی کے ساتھ بدی کی صلاحیت بھی رکھتی ہو گی جس کے نتیجے میں زمین پر فساد پھیلنے کا امکان ہو گا،، مفسرین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ انسان سے پہلے زمین پر جنات پیدا کیا گئے تھے اور انہوں نے آپس میں لڑ لڑ کر ایک دوسرے کو ختم کر ڈالا تھا، فرشتوں نے سوچا کہ شاید انسان کا انجام بھی ایسا ہی ہو۔

آیت ۳۱

ترجمہ

اور آدم کو (اللہ نے) سارے نام سکھا دیئے پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور (ان سے) کہا اگر تم سچے ہو تو مجھے ان چیزوں کے نام بتلاؤ۔
تفسیر

۲۹ ناموں سے مراد کائنات میں پائی جانے والی چیزوں کے نام ان کی خاصیتیں اور انسان کو پیش آنے والی مختلف کیفیات کا علم ہے مثلاً بھوک، پیاس، صحت اور بیماری وغیرہ، اگرچہ آدمؑ کو ان چیزوں کی تعلیم دیتے وقت فرشتے بھی موجود تھے، لیکن چونکہ ان کی فطرت میں ان چیزوں کی پوری سمجھ نہیں تھی اس لئے جب ان کا امتحان لیا گیا تو وہ جواب نہیں دے سکے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے عملی طور پر انہیں باور کرا دیا کہ جو کام اس نئی مخلوق سے لینا مقصود ہے وہ فرشتے انجام نہیں دے سکتے۔

آیت ۳۲

ترجمہ

وہ بول اٹھے آپ ہی کی ذات پاک ہے جو کچھ علم آپ نے ہمیں دیا ہے اس کے سوا ہم کچھ نہیں جانتے حقیقت میں علم و حکمت کے مالک تو صرف آپ ہیں
تفسیر

۳۰ بظاہر ان الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ نام صرف حضرت آدمؑ کو سکھائے گئے تھے اور فرشتے اس تعلیم میں شریک نہیں تھے، اس صورت میں اس سے ناموں کے بارے میں پوچھنا یہ بتانے کے لئے تھا کہ تم میں وہ صلاحیت نہیں رکھی گئی جو آدمؑ کی تخلیق سے مقصود ہے، دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ آدمؑ کو سکھاتے وقت فرشتے موجود تھے، لیکن چونکہ ان میں ان باتوں کو سمجھنے یا یاد رکھنے کی صلاحیت نہیں تھی اس لئے وہ امتحان کے وقت جواب نے دے سکے، اس صورت میں ان کے جواب کا حاصل یہ ہو گا کہ ہمیں وہی علم حاصل ہو سکتا ہے جو آپ ہمیں دینا چاہیں اور اس کی صلاحیت ہمارے اندر پیدا کر دیں۔

آیت ۳۳

ترجمہ

اللہ نے کہا آدم تم ان کو ان چیزوں کے نام بتادو چنانچہ جب اس نے ان کے نام ان کو بتا دیئے تو اللہ نے (فرشتوں سے) کہا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کے بھید جانتا ہوں؟ اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ چھپاتے ہو مجھے اس سب کا علم ہے
تفسیر

آیت ۳۴

ترجمہ

اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو چنانچہ سب نے سجد کیا سوائے ابلیس کے کہ اس نے انکار کیا اور متکبرانہ رویہ اختیار کیا اور کافروں میں شامل ہو گیا،
تفسیر

۳۱ فرشتوں کے سامنے آدمؑ کی عظمت کا علمی مظاہرہ اور ان کا امتحان لینے کے لئے انہیں آدمؑ کو سجدہ کرنے حکم دیا گیا یہ سجدہ عبادت کا نہیں تعظیم کا سجدہ تھا جو بعض پچھلی شریعتوں میں جائز تھا بعد میں تعظیم کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ کرنے کی سختی سے ممانعت کر دی گئی تاکہ شرک کا کوئی شائبہ بھی پیدا نہ ہو، یہ سجدہ کروانا اس بات کا بھی مظاہرہ تھا کہ فرشتوں کو اس بات کی تلقین کی جا رہی ہے کہ کائنات میں جو چیزیں ان کے اختیار میں دی گئی ہیں وہ انسان کے لئے مسخر کر دی جائیں تاکہ یہ دیکھا جائے کہ وہ ان کو صحیح استعمال کرتا ہے یا غلط۔
۳۲ اگرچہ براہ راست سجدے کا حکم فرشتوں کو دیا گیا تھا مگر اس میں تمام جاندار مخلوقات بھی شامل تھیں لہذا ابلیس جو جنات میں سے تھا اس پر بھی اس حکم کی تعمیل لازم تھی لیکن جیسا کہ خود قرآن کریم نے دوسری جگہ بیان فرمایا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے کہنے لگا کہ مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے افضل ہوں میں اسے کیوں سجدہ کروں (اعراف ۷ ۲۲) اس واقعہ سے دو سبق ملتے ہیں ایک یہ کہ اپنے آپ کو بذات خود دوسروں سے بڑا سمجھنا اور اپنی بڑائی بگھارنا کتنا بڑا گناہ ہے اور دوسرا سبق یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی واضح حکم آ جائے تو بندے کا کام یہ ہے کہ اس حکم کو دل وجان سے بجا لائے، چاہے اس کی حکمت اور فائدہ سمجھ میں آئے یا نہ آئے

آیت ۳۵

ترجمہ

اور ہم نے کہا آدم تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو اور اس میں سے جہاں سے چاہو جی بھر کے کھاؤ مگر اس درخت کے پاس بھی مت جانا ورنہ تم ظالموں میں شمار ہو گے
تفسیر

۳۳ یہ کونسا درخت تھا؟ قرآن کریم نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی نہ اس کے جاننے کی ضرورت ہے اتنا جان لینا کافی ہے کہ جنت کے درختوں میں ایک درخت ایسا تھا جس کا پھل کھانے سے انہیں روک دیا گیا تھا، بعض روایات میں ہے کہ یہ گندم کا درخت تھا بعض میں انگور کا ذکر ہے مگر کوئی روایت ایسی نہیں جس پر پورا بھروسہ کیا جا سکے۔

آیت ۳۶

ترجمہ

پھر ہوا یہ کہ شیطان نے ان دونوں کو وہاں سے ڈگمگا دیا ۱ اور جس (عیش) میں وہ تھے اس سے انہیں نکال کر رہا اور ہم نے (آدم، ان کی بیوی اور ابلیس سے) کہا اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو گے، اور تمہارے لئے ایک مدت تک زمین میں ٹھہرنا اور کسی قدر فائدہ اٹھانا (طے کر دیا گیا) ہے ۲

تفسیر

۱۔ یعنی شیطان نے انہیں بہکا کر اس درخت کا پھل کھانے پر آمادہ کر دیا اور بہانہ یہ بنایا کہ یوں تو یہ درخت بڑا مفید ہے کیونکہ اس کو کھانے سے ابدی زندگی حاصل ہو جاتی ہے، لیکن شروع میں آپ کو اس لئے منع کیا گیا تھا کہ آپ کی جسمانی کیفیت اس کو برداشت نہ کر سکتی تھی اب چونکہ آپ جنت کے ماحول کے عادی ہو گئے ہیں اور آپ کے قوی مضبوط ہو چکے ہیں اس لئے اب وہ ممانعت باقی نہیں رہی۔ اس واقعے کی مزید تفصیل کے لئے دیکھئے سورة اعراف (۷: ۱۹ تا ۲۳) اور سورة طہ (۲۰: ۱۲۰)
۲۔ مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کے نتیجے میں آدمؑ اور ان کی اہلیہ کو جنت سے اور شیطان کو آسمانوں سے نیچے زمین پر اترنے کا حکم دے دیا گیا، ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا کہ انسان اور شیطان کے درمیان رہتی دنیا تک دشمنی قائم رہے گی اور زمین کا یہ قیام ایک معین مدت تک ہو گا جس میں کچھ دنیوی فائدے اٹھانے کے بعد سب کو بالآخر اللہ تعالیٰ کے پاس دوبارہ پیش ہونا ہو گا۔

آیت ۳۷

ترجمہ

پھر آدم نے اپنے پروردگار سے (توبہ کے) کچھ الفاظ سیکھ لیے (جن کے ذریعے انہوں نے توبہ مانگی) چنانچہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی بیشک وہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے

تفسیر

جب آدمؑ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ پریشان ہو گئے لیکن سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے کن الفاظ میں معافی مانگیں، اس لئے زبان سے کچھ نکل نہیں رہا تھا، اللہ تعالیٰ نے جو دلوں کے حال سے بھی خوب واقف ہے اور رحیم و کریم بھی ہے ان کی اس کیفیت کے پیش نظر خود ہی ان کو توبہ کے الفاظ سکھائے جو سورة اعراف میں مذکور ہیں قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ (آیت نمبر ۲۳) اے ہمارے پروردگار ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم برباد ہو جائیں گے۔
اس طرح اللہ تعالیٰ نے زمین پر بھیجنے سے پہلے انسان کو یہ تعلیم دے دی کہ جب کبھی نفسانی خواہشات یا شیطان کے بہکاوے میں آ کر اس سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اسے فوراً اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنی چاہئے اور اگرچہ توبہ کے لئے کوئی خاص الفاظ لازمی نہیں ہیں بلکہ ہر وہ جملہ جس میں اپنے کئے پر ندامت اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا ارادہ شامل ہو، اس کے ذریعہ توبہ ممکن ہے لیکن چونکہ یہ الفاظ خود اللہ تعالیٰ کے سکھائے ہوئے ہیں اس لئے ان الفاظ میں توبہ کرنے سے قبولیت کی زیادہ امید ہے۔
یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جیسا کہ پیچھے آیٰت ۳۰ سے واضح ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے شروع ہی سے آدمؑ کو زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجنے کے لئے پیدا فرمایا تھا لیکن زمین پر بھیجنے سے پہلے انہیں جنت میں رکھنے اور اس کے بعد کے واقعات کا تکوینی مقصد بظاہر یہ تھا کہ ایک طرف حضرت آدمؑ جنت کی نعمتوں کا خود تجربہ کر کے دیکھ لیں کہ ان کی اصل منزل کیا ہے اور زمین پر پہنچنے کے بعد اس منزل کے حصول میں کس قسم کی رکاوٹیں پیش آ سکتی ہیں اور ان سے نجات پانے کا کیا طریقہ ہو گا؟ چونکہ فرشتوں کے مقابلے میں انسان کا امتیاز ہی یہ تھا کہ اس میں اچھائی اور برائی دونوں کی صلاحیت رکھی گئی تھی اس لئے ضروری تھا کہ اسے زمین پر بھیجنے سے پہلے ایسے تجربے سے گزارا جائے پیغمبر چونکہ معصوم ہوتے ہیں اور ان سے کوئی بڑا گناہ سرزد نہیں ہو سکتا اس لئے حضرت آدمؑ کی یہ غلطی در حقیقت اجتہادی غلطی (Bonafide Mistake تھی یعنی سوچ کی یہ غلطی کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو شیطان کے بہکانے سے ایک خاص وقت تک محدود سمجھ لیا، ورنہ اللہ تعالیٰ کی کھلی نافرمانی کا ہرگز ان سے تصور نہیں کیا جا سکتا تاہم چونکہ یہ قصور بھی ایک پیغمبر کے شایان شان نہ تھا اس لئے اسے بعض آیات میں گناہ یا حکم عدولی سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس پر توبہ کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ ساتھ ہی زیر نظر آیت میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمالی اور اس طرح اس عیسائی عقیدہ کی تردید فرما دی گئی جس کا کہنا یہ ہے کہ آدمؑ کا یہ گناہ ہمیشہ کے لئے انسان کی سرشت میں داخل ہو گیا تھا جس کے نتیجے میں ہر بچہ ماں کے پیٹ سے گناہگار پیدا ہوتا ہے اور اس مشکل کے حل کے لئے اللہ تعالیٰ کو اپنا بیٹا دنیا میں بھیج کر اسے قربان کرنا پڑا تاکہ وہ ساری دنیا کے لئے کفارہ بن سکے، قرآن کریم نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان فرما دیا کے اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی تھی اس لئے نہ وہ گناہ باقی رہا تھا نہ اس کے اولاد آدم کی طرف منتقل ہونے کا سوال ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قانون عدل میں ایک شخص کے گناہ کا بوجھ دوسرے کے سر پر نہیں ڈالا جاتا۔

آیت ۳۸

ترجمہ

ہم نے کہا اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ پھر اگر میری طرف سے کوئی ہدایت تمہیں پہنچے تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے ان کو نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہوں گے
تفسیر

آیت ۳۹

ترجمہ

اور جو لوگ کفر کا ارتکاب کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے وہ دوزخ والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے
تفسیر

آیت ۴۰

ترجمہ

اے بنی اسرائیل میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی اور تم مجھے سے کیا ہوا عہد پورا کرو تاکہ میں بھی تم سے کیا ہوا عہد پورا کروں، اور تم (کسی اور سے نہیں، بلکہ) صرف مجھی سے ڈرو (۳۷)
تفسیر

ف ۳۷ اسرائیل حضرت یعقوبؑ کا دوسرا نام ہے ان کی اولاد کو بنی اسرائیل کہا جاتا ہے، تمام تر یہودی اور اکثر عیسائی اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے، مدینہ منورہ میں یہودیوں کی اچھی خاصی تعداد آباد تھی اور رسول اکرمﷺ نے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد نہ صرف ان کو اسلام کی دعوت دی تھی بلکہ ان سے امن کا معاہدہ بھی فرمایا تھا، لہذا اس مدنی سورت میں زیرنظر آیت سے آیت نمبر ۱۴۳ تک مسلسل بنی اسرائیل کا تذکرہ ہے، جس میں انہیں اسلام کی دعوت بھی دی گئی ہے اور ان کو نصیحت کرنے کے ساتھ ان کی بد عنوانیوں پر متنبہ بھی کیا گیا ہے، شروع میں ان کو یاد دلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر کیسے کیسے انعامات فرمائے تھے، اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہو کر اس عہد کو پورا کرتے جو اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا تھا کہ وہ تورات پر ٹھیک ٹھیک عمل کریں گے اور اللہ کے بھیجے ہوئے ہر نبی پر ایمان لائیں گے، لیکن انہوں نے تورات پر عمل کرنے کے بجائے اس کو من مانی تاویلیں شروع کر دیں اور اس کے احکام کو بدل ڈالا، چونکہ اس طرز عمل کی وجہ یہ بھی تھی کہ حق کو قبول کرنے کی صورت میں انہیں اپنے ہم مذہب لوگوں کا ڈر تھا کہ وہ کہیں ان سے بد ظن نہ ہو جائیں اس لئے اس آیت میں اور اس کے بعد والی آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ مخلوق سے ڈرنے کے بجائے انہیں اللہ سے ڈرنا چاہئے اور اللہ کے سوا کسی کا خوف دل میں نہیں رکھنا چاہئے۔

آیت ۴۱

ترجمہ

اور جو کلام میں نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ جبکہ وہ اس کتاب (یعنی تورات) کی تصدیق بھی کر رہا ہے جو تمہارے پاس ہے اور تم ہی سب سے پہلے اس کے منکر نہ بن جاؤ اور میری آیتوں کو معمولی سی قیمت لے کر نہ بیچو اور (کسی اور کے بجائے) صرف میرا خوف دل میں رکھو۔

تفسیر

بنی اسرائیل کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ قرآن کریم وہی دعوت لے کر آیا ہے جو تورات اور انجیل کی دعوت تھی اور جن آسمانی کتابوں پر وہ ایمان رکھتے ہیں قرآن کریم انہیں جھٹلانے کے بجائے دو طرح سے ان کی تصدیق کرتا ہے ایک اس لحاظ سے کہ وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ کتابیں اللہ ہی کی نازل کی ہوئی تھیں (یہ اور بات ہے کہ بعد کے لوگوں نے ان میں کافی رد و بدل کر ڈالا جس کی حقیقت قرآن نے واضح فرمائی) اور دوسرے قرآن اس حیثیت سے ان کتابوں کی تصدیق کرتا ہے کہ ان کتابوں میں آخری نبی کی تشریف آوری کی جو پیشین گوئیاں کی گئی تھیں قرآن کریم نے انہیں سچا کر دکھایا اس کا تقاضا یہ تھا کہ بنی اسرائیل عرب کے بت پرستوں سے پہلے اس پر ایمان لاتے، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ جس تیز رفتاری سے بت پرست اسلام لا رہے ہیں اس رفتار سے یہودی ایمان نہیں لا رہے ہیں اور اس طرح گویا بنی اسرائیل قرآن کی تکذیب کرنے میں پیش پیش ہیں اس لئے کہا گیا کہ تم ہی سب سے پہلے اس کے منکر نہ بن جاؤ، بعض یہودیوں کا طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ رشوت لے کر تورات کی تشریح عام لوگوں کی خواہشات کے مطابق کر دیا کرتے تھے اور بعض اوقات اس کے احکام کو چھپا لیتے تھے ان کے اس طرز عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا میری آیتوں کو معمولی سی قیمت لے کر نہ بیچو اور حق کو باطل کے ساتھ گڈمڈ نہ کرو اور نہ حق بات کو چھپاؤ۔

آیت ۴۲

ترجمہ

اور حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو، اور نہ حق بات کو چھپاؤ جبکہ (اصل حقیقت) تم اچھی طرح جانتے ہو
اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو

تفسیر

رکوع کا ذکر خاص طور پر اس لئے کیا گیا کہ یہودیوں کی نماز میں رکوع نہیں ہوتا تھا۔

آیت ۴۴ ۔ ۴۹

ترجمہ

کیا تم (دوسرے) لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو! کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں
اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو نماز بھاری ضرور معلوم ہوتی ہے مگر ان لوگوں کو نہیں جو خشوع (یعنی دھیان اور عاجزی) سے پڑھتے ہیں
جو اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے ہیں اور ان کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے
اے بنی اسرائیل میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی اور یہ بات (یاد کرو) کہ میں نے تم کو سارے جہانوں پر فضیلت دی تھی
اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شخص بھی کسی کے کچھ کام نہیں آئے گا نہ کسی سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی نہ کسی سے کسی قسم کا فدیہ لیا جائے گا اور نہ ان کو کوئی مدد پہنچے گی
اور وہ (وقت یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے نجات دی جو تمہیں بڑا عذاب دیتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس ساری صورت حال میں تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارا بڑا امتحان تھا۔

تفسیر

فرعون مصر کا بادشاہ تھا جہاں بنی اسرائیل بڑی تعداد میں آباد تھے، اور فرعون کی غلامی میں دن گزار رہے تھے، فرعون کے سامنے کسی نجومی نے یہ پیشین گوئی کر دی کہ اس سال بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہو گا جو اس کی بادشاہی کا خاتمہ کر دے گا، یہ سن کر اس نے یہ حکم دے دیا کے اسرائیلیوں میں جو کوئی بچہ پیدا ہو اسے قتل کر دیا جائے، البتہ لڑکیوں کو زندہ رکھا جائے تاکہ ان سے خدمت لی جا سکے، اس طرح بہت سے نو زائیدہ بچے قتل کئے گئے، اگرچہ حضرت موسیٰؑ اسی سال پیدا ہوئے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو محفوظ رکھا، اس کا مفصل واقعہ سورة طہ اور سورة القصص میں خود قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے۔

آیت ۵۰

ترجمہ

اور (یاد کرو) جب ہم نے تمہاری خاطر سمندر کو پھاڑ ڈالا تھا چنانچہ تم سب کو بچا لیا تھا اور فرعون کے لوگوں کو (سمندر میں) غرق کر ڈالا تھا اور تم یہ سارا نظام دیکھ رہے تھے

تفسیر

اس کا واقعہ بھی مذکورہ بالا دو سورتوں میں تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔

آیت ۵۱

ترجمہ

اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ ٹھہرایا تھا پھر تم نے ان کے پیچھے (اپنی جانوں پر) ظلم کر کے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔

تفسیر

حضرت موسیٰؑ سے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ وہ کوہ طور پر آ کر چالیس دن اعتکاف کریں تو انہیں تورات عطا کی جائے گی، چنانچہ حضرت موسیٰؑ کوہ طور پر تشریف لے گئے، ان کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سامری جادوگر نے ایک گائے کا بچھڑا بنایا اور بنی اسرائیل کو اسے اپنا معبود قرار دینے اور اس کی عبادت کرنے پر آمادہ کر لیا اور اس طرح وہ شرک میں مبتلا ہو گئے، حضرت موسیٰؑ کو اطلاع ہوئی وہ گھبرا کر واپس تشریف لائے اور بنی اسرائیل کو توبہ کی تلقین فرمائی، اس توبہ کا ایک حصہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل میں سے جو لوگ اس شرک میں ملوث نہیں ہوئے تھے وہ ملوث ہونے والوں کو قتل کریں، چنانچہ ان کی ایک بڑی تعداد قتل کی گئی اور اس طرح ان کی توبہ قبول ہوئی۔ یہ واقعات انشاء اللہ تفصیل سے سورہ اعراف اور سورة طہ میں آئیں گے۔

آیت ۵۲ ۔ ۵۶

ترجمہ

پھر اس سب کے بعد ہم نے تم کو معاف کر دیا تاکہ تم شکر ادا کرو
اور (یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، اور حق و باطل میں تمیز کا معیار (بخشا) تاکہ تم راہ راست پر آؤ۔
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ‘‘ اے میری قوم! حقیقت میں تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر خود اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے لہٰذا اب اپنے خالق سے توبہ کرو اور اپنے آپ کو قتل کرو تمہارے خالق کے نزدیک یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اس طرح اللہ نے تمہاری توبہ قبول کر لی۔ بیشک وہی ہے جو اتنا معاف کرنے والا، اتنا رحم کرنے والا ہے
اور جب تم نے کہا تھا اے موسیٰ ہم اس وقت تک ہرگز تمہارا یقین نہیں کریں گے جب تک اللہ کو ہم خود کھلی آنکھوں نہ دیکھ لیں‘‘
نتیجہ یہ ہوا کہ کڑکے نے تمہیں اس طرح آپکڑا کہ تم دیکھتے رہ گئے پھر ہم نے تمہیں تمہارے مرنے کے بعد دوسری زندگی دی تاکہ تم شکر گزار بنو۔

تفسیر

جب حضرت موسیٰؑ کوہ طور سے تورات لے کر تشریف لائے تو بنی اسرائیل نے ان سے کہا کہ ہمیں کیسے یقین آئے کہ واقعی اللہ نے ہمیں اس کتاب پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے، شروع میں ان پر حجت تمام کرنے کے لئے انہیں اللہ تعالیٰ نے براہ راست خطاب فرما کر تورات پر عمل کا حکم دیا مگر وہ کہنے لگے کہ جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے نہ دیکھ لیں گے ہمیں یقین نہ آئے گا، ان کے اس گستاخانہ طرز عمل پر ایک بجلی کے کڑکے نے انہیں آ گھیرا اور وہ بعض روایات کے مطابق مر گئے اور بعض روایات کے مطابق بے ہوش ہو گئے پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں دوبارہ زندگی دی۔ اس واقعے کی تفصیل بھی انشاء اللہ سورة اعراف میں آئے گی۔

آیت ۵۷

ترجمہ

اور ہم نے تم کو بادل کا سایہ عطا کیا اور تم پر من و سلویٰ نازل کیا (اور کہا کہ) جو پاکیزہ رزق ہم نے تمہیں بخشا ہے (شوق سے) کھاؤ اور یہ (نافرمانیاں کر کے) انہوں نے ہمارا کچھ نہیں بگاڑا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ہی ظلم کرتے رہے

تفسیر

جیسا کے سورة آل عمران میں آئے گا، بنی اسرائیل نے جہاد کے ایک حکم کی نافرمانی کی تھی جس کی پاداش میں انہیں صحرائے سینا میں مقید کر دیا گیا تھا، لیکن اس سزا یابی کے دوران بھی اللہ تعالیٰ نے انہیں جن نعمتوں سے نوازا یہاں ان کا ذکر ہو رہا ہے، صحرا میں چونکہ کوئی چھت ان کے سروں پر نہیں تھی اس لئے ان کو دھوپ کی تمازت سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے غیب سے یہ انتظام فرمایا کہ ایک بادل ان پر مسلسل سایہ کئے رہتا تھا اسی صحرا میں جہاں کوئی غذا دستیاب نہیں تھی اللہ تعالیٰ نے غیب سے من و سلویٰ کی شکل میں انہیں بہترین خوراک مہیا فرمائی، بعض روایات کے مطابق من سے مراد ترنجبین ہے جو اس علاقے میں افراط سے پیدا کر دی گئی تھی اور سلویٰ سے مراد بٹیریں ہیں جو بنی اسرائیل کی قیام گاہوں کے آس پاس کثرت سے منڈلاتی رہتیں اور کوئی انہیں پکڑنا چاہتا تو وہ بالکل مزاحمت نہیں کرتی تھیں، بنی اسرائیل نے ان تمام نعمتوں کی بری طرح ناقدری کی اور اس طرح خود اپنی جانوں پر ظلم کیا۔

آیت ۵۸، ۵۹

ترجمہ

اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے کہا تھا کہ‘‘ اس بستی میں داخل ہو جاؤ اور اس جہاں سے چاہو جی بھر کر کھاؤ اور (بستی کے) دروازے میں جھکے سروں سے داخل ہونا اور یہ کہتے جانا کہ (یا اللہ) ہم آپ کی بخشش کے طلب گار ہیں (اس طرح) ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے اور نیکی کرنے والوں کو اور زیادہ (ثواب) بھی دیں گے۔
مگر ہوا یہ کہ جو بات ان سے کہی گئی تھی ظالموں نے اسے بدل کر ایک اور بات بنا لی نتیجہ یہ کہ جو نافرمانیاں وہ کرتے آ رہے تھے ہم نے ان کی سزا میں ان ظالموں پر آسمان سے عذاب نازل کیا

تفسیر

اسی صحرا میں رہتے ہوئے جب مدت گزر گئی اور بنی اسرائیل من و سلویٰ سے بھی اکتا گئے تو انہوں نے یہ مطالبہ کیا کہ ہم ایک ہی قسم کے کھانے پر گزارہ نہیں کر سکتے، ہم زمین کی ترکاریاں وغیرہ کھانا چاہتے ہیں، ان کا یہ مطالبہ آگے آیت نمبر ۶۱ میں آ رہا ہے، اس موقع پر ان کی یہ خواہش بھی پوری کی گئی اور یہ اعلان فرمایا گیا کہ اب تمہیں صحرا کی خاک چھاننے سے نجات دی جاتی ہے، سامنے ایک شہر ہے اس میں چلے جاؤ؛ لیکن اپنے گناہوں پر ندامت کے اظہار کے طور پر سر جھکائے ہوئے اور معافی مانگتے ہوئے شہر میں داخل ہو، وہاں اپنی رغبت کے مطابق جو حلال غذا چاہو کھاس کو گے، لیکن ان ظالموں نے پھر ضد کا مظاہرہ کیا، شہر میں داخل ہوتے ہوئے سر تو کیا جھکاتے سینے تان تان کر داخل ہوئے اور معافی مانگنے کے لئے انہیں جو الفاظ کہنے کی تلقین کی گئی تھی ان کا مذاق بنا کر ان سے ملتے جلتے ایسے نعرے لگاتے ہوئے داخل ہوئے جس کا مقصد مسخرہ پن کے سوا کچھ نہ تھا، جو لفظ انہیں معافی مانگنے کے لئے سکھایا گیا تھا وہ تھا "حطۃ" (یا اللہ ہمارے گناہ بخش دے) انہوں نے اسے بدل کر جس لفظ کے نعرے لگائے تھے وہ تھا "حنطۃ" یعنی گندم۔

آیت ۶۰

ترجمہ

اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لئے پانی مانگا تو ہم نے کہا اپنی لاٹھی پتھر پر مارو‘‘ چنانچہ اس (پتھر) سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ہر ایک قبیلے نے اپنے پانی لینے کی جگہ معلوم کر لی (ہم نے کہا) اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ، اور زمین میں فساد مچاتے مت پھرنا۔

تفسیر

یہ واقعہ بھی اس وقت کا ہے جب بنی اسرائیل میدان تیہ (صحرائے سینا) میں محصور تھے وہاں پانی کا کوئی چشمہ نہیں تھا، اللہ تعالیٰ نے ایک معجزہ کے طور پر بارہ چشمے پیدا فرما دئے، حضرت یعقوب (اسرائیل)ؑ کے بارہ بیٹے تھے ہر بیٹے کی اولاد ایک مستقل قبیلہ بن گئی اور اس طرح بنی اسرائیل بارہ قبیلوں میں تقسیم ہو گئے، اللہ تعالیٰ نے ہر قبیلے کے لئے الگ چشمہ جاری فرما دیا تاکہ کوئی الجھن پیش نہ آئے۔

آیت ۶۱

ترجمہ

اور (وہ وقت بھی) جب تم نے کہا تھا کہ اے موسیٰ ہم ایک ہی کھانے پر صبر نہیں کر سکتے لہذا اپنے پروردگار سے مانگیے کہ وہ ہمارے لئے کچھ وہ چیزیں پیدا کرے جو زمین اگایا کرتی ہے یعنی زمین کی ترکاریاں، اس کی ککڑیاں، اس کا گندم، اس کی دالیں اور اس کی پیاز۔ موسیٰ نے کہا‘‘ جو (غذا) بہتر تھی کیا تم اس کو ایسی چیزوں سے بدلنا چاہتے ہو جو گھٹیا درجے کی ہیں؟ (خیر!) ایک شہر میں جا اترو۔ تو وہاں تمہیں وہ چیزیں مل جائیں گی جو تم نے مانگی ہیں اور ان (یہودیوں پر ذلت اور بیکسی کا ٹھپہ لگا دیا گیا، اور وہ اللہ تعالیٰ کا غضب لے کر لوٹے۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اور پیغمبروں کو ناحق قتل کر دیتے تھے۔ یہ سب اس لئے ہوا کہ انہوں نے نافرمانی کی اور وہ بے حد زیادتیاں کرتے تھے۔

تفسیر

یہ وہی واقعہ ہے جو اوپر بیان کیا گیا ہے۔

آیت ۶۲

ترجمہ

حق تو یہ ہے کہ جو لوگ بھی خواہ وہ مسلمان ہوں یا یہودی یا نصرانی یا صابی، اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئیں گے اور نیک عمل کریں گے وہ اللہ کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہوں گے اور ان کو نہ کوئی خوف ہو گا نہ وہ کسی غم میں مبتلا ہوں گے۔

تفسیر

بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور ان کی نافرمانیوں کے تذکرے کے بیچ میں یہ آیت کریمہ بنی اسرائیل کے ایک باطل گھمنڈ کی تردید کے لئے آئی ہے، ان کا عقیدہ یہ تھا کہ صرف انہی کی نسل اللہ کے منتخب اور لاڈلے بندوں پر مشتمل ہے، ان کے خاندان سے باہر کا کوئی آدمی اللہ کے انعامات کا مستحق نہیں ہے، (آج بھی یہودیوں کا یہی عقیدہ ہے، اسی لئے یہودی مذہب ایک نسل پرست مذہب ہے اور اس نسل کے باہر کا کوئی شخص یہودی مذہب اختیار کرنا بھی چاہے تو اختیار کر ہی نہیں سکتا، یا ان کے حقوق کا مستحق نہیں ہو سکتا جو ایک نسلی یہودی کو حاصل ہیں) اس آیت نے واضح فرمایا کہ حق کسی ایک نسل میں محدود نہیں ہے، اصل اہمیت ایمان اور نیک عمل کو حاصل ہے، جو شخص بھی اللہ اور آخرت پر ایمان لانے اور عمل صالح کی بنیادی شرطیں پوری کر دے گا خواہ وہ پہلے کسی بھی مذہب یا نسل سے تعلق رکھتا ہو اللہ کے نزدیک اجر کا مستحق ہو گا، یہودیوں اور نصرانیوں کے علاوہ عرب میں کچھ ستارہ پرست لوگ رہتے تھے جنہیں صابی کہا جاتا تھا اس لئے ان کا بھی ذکر کیا گیا ہے یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اللہ پر ایمان لانے میں اس کے تمام رسولوں پر ایمان لانا بھی داخل ہے، لہذا نجات پانے کے لئے رسول اکرمﷺ پر ایمان لانا بھی ضروری ہے، چنانچہ پیچھے آیت ۴۰۔ ۴۱ میں اسی لئے تمام بنی اسرائیل کو آنحضرتﷺ پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے۔ مزید دیکھئے قرآن کریم کی آیات ۵ ۶۵ تا ۶۸، ۷ ۱۵۵ تا ۱۵۷۔

آیت ۶۳

ترجمہ

اور وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے (تورات پر عمل کرنے کا) عہد لیا تھا، اور کوہ طور کو تمہارے اوپر اٹھا کھڑا کیا تھا۔ (کہ) جو (کتاب) ہم نے تمہیں دی ہے اس کو مضبوطی سے تھامو اور اس میں جو کچھ (لکھا) ہے اس کو یاد رکھو، تاکہ تمہیں تقویٰ حاصل ہو

تفسیر

جب حضرت موسیٰؑ تورات لے کر آئے تو بنی اسرائیل نے دیکھا کہ اس کے بعض احکام بہت سخت ہیں، اس لئے اس سے بچنے کے بہانے تلاش کرنے شروع کر دئے، پہلے تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے خود کہے کہ تورات پر عمل کرنا ضروری ہے، مطالبہ اگرچہ نامعقول تھا مگر ان پر حجت تمام کرنے کے لئے ان میں سے ستر آدمی منتخب کر کے حضرت موسیٰؑ کے ساتھ کوہ طور پر بھیجے گئے (اعراف، ۷ ۱۵۵) جن کو اللہ تعالیٰ نے براہ راست تورات پر عمل کا حکم دیا، مگر جب یہ واپس لوٹے تو انہوں نے اپنی قوم کے سامنے تصدیق تو کی کہ اللہ تعالیٰ نے تورات پر عمل کا حکم دیا ہے، لیکن ایک بات اپنی طرف سے بڑھا دی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جتنا تم سے ہو سکے اتنا عمل کر لینا، لیکن جو نہ ہو سکے وہ ہم معاف کر دیں گے، چنانچہ تورات کے جس حکم میں بھی انہیں کچھ مشکل نظر آتی وہ یہ بہانہ تراش لیتے کہ یہ حکم بھی اسی چھوٹ میں داخل ہے، اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے کوہ طور ان کے سروں پر بلند کر دیا کہ تورات کے تمام احکام کو تسلیم کرو، جب انہیں یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں پہاڑ ان پر گرانہ دیا جائے تب ان لوگوں نے تورات کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کا عہد کیا۔ اس آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے کوہ طور کو ان کے سروں پر بلند کرنے کی یہ صورت بھی ممکن ہے کہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا کر ان کے سروں پر معلق کر دیا گیا ہو، جیسا کہ حافظ ابن جریر ؒ نے متعدد تابعین سے نقل کیا ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے یہ کچھ بھی بعید نہیں ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی اور ایسی صورت پیدا فرما دی گئی ہو کہ ان لوگوں کو ایسا محسوس ہوا ہو کہ پہاڑ ان پر آگرے گا مثلاً کوئی زلزلہ آ گیا ہو جس سے انہیں ایسا لگا کہ پہاڑ گرنے والا ہے چنانچہ سورة اعراف (آیت ۱۷۱) میں اس واقعے کے بارے میں الفاظ یہ ہیں واذنتقنا الجبل فوقھم کانہ ظلۃ وظنوا انہ واقع بھم اس میں لفظ‘‘ نتق‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی لغت میں زور زور سے ہلانے کے آتے ہیں (دیکھئے قاموس اور مفردات القرآن) لہٰذا آیت کا یہ ترجمہ بھی ممکن ہے کہ‘‘ جب ہم نے پہاڑ کو ان کے اوپر زور سے اس طرح ہلایا کہ ان کو گمان ہوا کہ وہ ان پر گر پڑے گا یہاں یہ بات واضح رہے کہ کسی شخص کو ایمان قبول کرنے پر تو زبردستی مجبور نہیں کیا جا سکتا لیکن جب ایک شخص ایمان لے آئے تو اسے نافرمانی پر سزا بھی دی جا سکتی ہے اور ڈرا دھمکا کر حکم ماننے پر آمادہ بھی کیا جا سکتا ہے بنی اسرائیل چونکہ ایمان پہلے ہی لا چکے تھے اس لئے ان کو اللہ کے عذاب سے ڈرا کر فرمانبرداری پر آمادہ کیا گیا۔

آیت ۶۴، ۶۵

ترجمہ

اس سب کے باوجود تم دوبارہ (راہ راست سے) پھر گئے چنانچہ اگر اللہ کا فضل اور رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم ضرور سخت نقصان اٹھانے والوں میں شامل ہو جاتے۔
اور تم اپنے لوگوں کو اچھی طرح جانتے ہو جو سنیچر (سبت) کے معاملے میں حد سے گزر گئے تھے چنانچہ ہم نے ان سے کہا تھا کہ تم دھتکارے ہوئے بندر بن جاؤ۔

تفسیر

سنیچر (ہفتہ) کو عربی اور عبرانی زبان میں سبت کہتے ہیں، یہودیوں کے لئے اسے ایک مقدس دن قرار دیا گیا تھا، جس میں ان کے لئے معاشی سرگرمیاں ممنوع تھیں، جن یہودیوں کا یہاں ذکر ہے وہ (غالباً حضرت داؤدؑ کے زمانے میں) کسی سمندر کے کنارے رہتے تھے اور مچھلیاں پکڑا کرتے تھے، سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑنا ان کے لئے ناجائز تھا مگر شروع میں انہوں نے کچھ حیلے کر کے اس حکم کی خلاف ورزی کرنی چاہی اور پھر کھلم کھلا مچھلیاں پکڑنی شروع کر دیں، کچھ نیک لوگوں نے انہیں سمجھایا مگر باز نہ آئے، بالآخر ان پر عذاب آیا اور ان کی صورتیں مسخ کر کے انہیں بندر بنا دیا گیا۔ (اس واقعہ کی تفصیل اعراف، ۷ ۱۶۳ تا ۱۶۶)۔ میں آنے والی ہے۔

آیت ۶۶، ۶۷

ترجمہ

پھر ہم نے اس واقعے کو اس زمانے کے اور اس کے بعد کے لوگوں کے لئے عبرت اور ڈرنے والوں کے لئے نصیحت کا سامان بنا دیا
اور (وقت یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرو۔ وہ کہنے لگے کہ کیا آپ ہمارا مذاق بناتے ہیں موسیٰ نے کہا میں اس بات سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ میں (ایسے) نادانوں میں شامل ہوں (جو مذاق میں جھوٹ بولیں)

تفسیر

جیسا کہ نیچے آیت ۷۲ میں آ رہا ہے، یہ حکم ایک مقتول کا قاتل دریافت کرنے کے لئے دیا گیا تھا اس لئے بنی اسرائیل نے کو مذاق سمجھا کہ گائے ذبح کرنے سے قاتل کیسے معلوم ہو گا؟

آیت ۶۸ ۔ ۷۱

ترجمہ

انہوں نے کہا کہ آپ ہماری خاطر اپنے رب سے درخواست کیجئے کہ ہمیں صاف صاف بتائے کہ وہ گائے کیسی ہو؟ اس نے کہا اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہو کہ نہ بہت بوڑھی ہو بہ بالکل بچی (بلکہ) ان دونوں کے بیچ بیچ میں ہو۔ بس اب جو حکم تمہیں دیا گیا ہے اس پر عمل کر لو۔
کہنے لگے آپ ہماری خاطر اپنے رب سے درخواست کیجئے کہ ہمیں صاف صاف بتائے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟ موسیٰ نے کہا اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسے تیز زرد رنگ کی گائے ہو جو دیکھنے والوں کا دل خوش کر دے۔
انہوں نے (پھر) کہا کہ آپ ہماری خاطر اپنے رب سے درخواست کیجئے کہ ہمیں صاف صاف بتائے کہ وہ گائے کیسی ہو؟ اس گائے نے تو ہمیں شبہ میں ڈال دیا ہے اور اللہ نے چاہا تو ہم ضرور اس کا پتہ لگا لیں گے۔
موسیٰ نے کہا اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہو جو کام میں جت کر زمین نہ گا ہتی ہو، اور نہ کھیتی کو پانی دیتی ہو، پوری طرح صحیح سالم ہو جس میں کوئی داغ نہ ہو۔ انہوں نے کہا ہاں! اب آپ ٹھیک ٹھیک پتہ لے کر آئے۔ اس کے بعد انہوں نے اسے ذبح کیا، جبکہ لگتا نہیں تھا کہ وہ کر پائیں گے۔

تفسیر

مطلب یہ ہے کہ شروع میں جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا تو کسی خاص قسم کی گائے نہیں بتائی گئی تھی چنانچہ وہ کوئی بھی گائے ذبح کر دیتے تو حکم پورا ہو جاتا لیکن انہوں نے خواہ مخواہ کھود کرید شروع کر دی جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے بھی نت نئی شرطیں عائد فرما لیں اور ایسی گائے تلاش کرنا مشکل ہو گیا جو ان شرطوں کو پورا کرتی ہو۔ یہاں تک کہ ایک مرحلے میں ایسا محسوس ہونے لگا کہ شاید وہ ایسی گائے تلاش کر کے ذبح کرنے کے قابل نہ ہوں۔ اس واقعے میں سبق یہ دیا گیا ہے کہ بلا وجہ غیر ضروری کھوج میں پڑنا ٹھیک نہیں جو بات جتنی سادہ ہو اس پر اتنی ہی سادگی عمل کر لینا چاہیے۔

آیت ۷۲، ۷۳

ترجمہ

اور (یاد کرو) جب تم نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا، اور اس کے بعد اس کا الزام ایک دوسرے پر ڈال رہے تھے، اور اللہ کو وہ راز نکال باہر کرنا تھا جو تم چھپائے ہوئے تھے۔
چنانچہ ہم نے کہا کہ اس (مقتول) کو اس (گائے) کے ایک حصے سے مارو۔ اسی طرح اللہ مردوں کو زندہ کرتا ہے، اور تمہیں (اپنی قدرت کی) نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھ سکو۔

تفسیر

اس واقعہ کی تفصیل تاریخی روایات میں یہ آئی ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے اپنے ایک بھائی کو اس کی میراث حاصل کرنے کی خاطر قتل کیا اور اس کی لاش سڑک پر ڈال دی، پھر خود ہی حضرت موسیٰؑ کے پاس شکایت لے کر پہنچ گیا کہ قاتل کو پکڑ کر سزا دی جائے، اس موقع پر حضرت موسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں گائے ذبح کرنے کو کہا، جس کا واقعہ اوپر گذرا۔ جب گائے ذبح ہو گئی تو آپ نے فرمایا کہ گائے کا کوئی عضو اٹھا کر مقتول کی لاش پر مارو تو وہ زندہ ہو کر قاتل کا نام بتادے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس طرح قاتل کا پول کھل گیا اور وہ پکڑا گیا، قاتل کی دریافت کے لئے یہ طریقہ اختیار کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مردوں کو زندہ کرنے کی خدائی طاقت کا عملی مظاہرہ کر کے ان لوگوں کی زبانیں بند کر دیں گئیں جو دوسری زندگی کو نا ممکن سمجھتے تھے۔ غالباً اس واقعے کے بعد ہی بنی اسرائیل میں یہ طریقہ جاری ہوا کہ جب کوئی شخص مقتول پایا جائے اور قاتل کا پتہ نہ چل رہا ہو تو ایک گائے ذبح کر کے اس پر اپنے ہاتھ دھوئیں اور قسم کھائیں کہ ہم نے اسے قتل نہیں کیا جس کا ذکر بائبل کی کتاب استثناء ۱۲-۱ تا ۸ میں آیا ہے۔

آیت ۷۴

ترجمہ

اس سب کے بعد تمہارے دل پھر سخت ہو گئے، یہاں تک کہ وہ ایسے ہو گئے جیسے پتھر! بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی زیادہ۔ (کیونکہ) پتھروں میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے نہریں پھوٹ بہتی ہیں، اور انہی میں سے کچھ وہ ہوتے ہیں جو خود پھٹ پڑتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، اور انہی میں وہ (پتھر) بھی ہیں جو اللہ کے خوف سے لڑھک جاتے ہیں۔ اور (اس کے برخلاف) جو کچھ تم کر رہے ہو، اللہ اس سے بیخبر نہیں ہے۔

تفسیر

یعنی بعض مرتبہ تو پتھروں سے چشمے نکل آتے ہیں جیسا کہ بنی اسرائیل خود دیکھ چکے تھے کہ کس طرح ایک سنگلاخ چٹان سے پانی کے چشمے بہہ پڑے تھے (دیکھئے پیچھے آیت نمبر ۶۰) اور بعض اوقات بھاری مقدار میں تو پانی نہیں نکلتا مگر پتھر شق ہو کر تھوڑا بہت پانی نکال دیتا ہے اور کچھ پتھر اللہ کے خوف سے لڑھک بھی پڑتے ہیں مگر ان کے دل ایسے سخت ہیں کہ ذرا نہیں پسیجتے۔ کسی زمانے میں یہ بات کچھ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ پتھر جیسی بے جان چیز میں خوف کا کیا تصور ہو سکتا ہے؟ لیکن قرآن کریم نے کئی جگہوں پر یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ جن چیزوں کو ہم بظاہر بے جان یا بے شعور سمجھتے ہیں ان میں بھی کچھ نہ کچھ شعور موجود ہوتا ہے مثلاً دیکھئے سورة بنی اسرائیل (۲۷: ۳۳) اور سورة احزاب (۲۷: ۳۳) لہذا اگر اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ کچھ پتھر اللہ کے خوف سے لڑھک جاتے ہیں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے آج تو سائنس بھی رفتہ رفتہ اس نتیجے پر پہنچ رہی ہے کہ جمادات میں بھی نمو اور شعور کی کچھ نہ کچھ صلاحیت موجود ہوتی ہے۔

آیت ۷۵، ۷۶

ترجمہ

(مسلمانو!) کیا اب بھی تمہیں یہ لالچ ہے کہ یہ لوگ تمہارے کہنے سے ایمان لے آئیں گے؟ حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کے لوگ اللہ کا کلام سنتے تھے، پھر اس کو اچھی طرح سمجھنے کے بعد بھی جانتے بوجھتے اس میں تحریف کر ڈالتے تھے۔
اور جب یہ لوگ ان (مسلمانوں) سے ملتے ہیں جو پہلے ایمان لا چکے ہیں تو (زبان سے) کہہ دیتے ہیں کہ ہم (بھی) ایمان لے آئے ہیں، اور جب یہ ایک دوسرے کے ساتھ تنہائی میں جاتے ہیں تو (آپس میں ایک دوسرے سے) کہتے ہیں کہ کیا تم ان (مسلمانوں) کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ یہ (مسلمان) تمہارے پروردگار کے پاس جا کر انہیں تمہارے خلاف دلیل کے طور پر پیش کریں؟ کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں؟

تفسیر

تورات میں آخر زمانے میں آنے والے نبی کی جو پیشین گوئیاں موجود تھیں وہ تمام تر نبی کریمﷺ پر صادق آتی تھیں، بعض منافق یہودی جو مسلمانوں کے سامنے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے یہ پیشین گوئیاں مسلمانوں کو سنا دیتے تھے اس پر دوسرے یہودی تنہائی میں ان کو ملامت کرتے تھے کہ مسلمان ان پیشین گوئیاں کو جان لیں گے تو قیامت میں ہمارے خلاف استعمال کریں گے اور ہمارے پاس ان کا کوئی جواب نہ ہو گا، ظاہر ہے کہ یہ انتہائی بے وقوفی کی بات تھی، کیونکہ اگر مسلمانوں سے یہ پیشین گوئیاں چھپا بھی لی جائیں تو اللہ سے تو نہیں چھپ سکتیں۔

آیت ۷۷ ۔ ۷۹

ترجمہ

کیا یہ لوگ (جو ایسی باتیں کرتے ہیں) یہ نہیں جانتے کہ اللہ کو ان ساری باتوں کا خوب علم ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں؟
اور ان میں سے کچھ لوگ ان پڑھ ہیں جو کتاب (تورات) کا علم تو رکھتے نہیں، البتہ کچھ آرزوئیں پکائے بیٹھے ہیں، اور ان کا کام بس یہ ہے کہ وہم و گمان باندھتے رہتے ہیں۔
لہذا تباہی ہے ان لوگوں کی جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر (لوگوں سے) کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے ذریعے تھوڑی سی آمدنی کما لیں۔ پس تباہی ہے ان لوگوں پر اس تحریر کی وجہ سے بھی جو ان کے ہاتھوں نے لکھی، اور تباہی ہے ان پر اس آمدنی کی وجہ سے بھی جو وہ کماتے ہیں۔

تفسیر

یہاں قرآن کریم نے ترتیب یہ رکھی ہے کہ پہلے ان یہودی علماء کا ذکر فرمایا ہے جو تورات میں جان بوجھ کر رد و بدل کرتے تھے پھران ان پڑھ یہودیوں کا جنہیں تورات کا علم تو تھا نہیں مگر انہیں مذکورہ بالا علماء نے ان جھوٹی آرزوؤں میں مبتلا کر رکھا تھا کہ سارے یہودی اللہ کے لاڈلے ہیں اور وہ بہر صورت جنت میں جائیں گے، ان کا ساراعلم اسی قسم کے گمانوں پر مشتمل تھا، چونکہ ان کے اس گمان کی بنیادی وجہ علماء کی تحریفات تھیں اس لئے آٰت نمبر ۹۶ میں ان کی تباہی کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔

آیت ۸۰، ۸۱

ترجمہ

اور یہودیوں نے کہا ہے کہ ہمیں گنتی کے چند دنوں کے علاوہ آگ ہرگز نہیں چھوئے گی۔ آپ ان سے کہیے کہ کیا تم نے اللہ کی طرف سے کوئی عہد لے رکھا ہے جس کی بنا پر وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا، یا تم اللہ کے ذمے وہ بات لگا رہے ہو جس کا تمہیں کچھ پتہ نہیں؟
(آگ تمہیں) کیوں نہیں (چھوئے گی)؟ جو لوگ بھی بدی کماتے ہیں اور ان کی بدی انہیں گھیر لیتی ہے تو ایسے لوگ ہی دوزخ کے باسی ہیں۔ وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔

تفسیر

بدی کے گھیرے میں لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی ایسے گناہ ارتکاب کریں جس کے بعد کوئی نیک عمل آخرت میں کار آمد نہ ہو، اور وہ گناہ کفر اور شرک ہے۔

آیت ۸۲ ۔ ۸۵

ترجمہ

اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں تو وہ جنت کے باسی ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔
اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے پکا عہد لیا تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے، اور والدین سے اچھا سلوک کرو گے، اور رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں اور مسکینوں سے بھی۔ اور لوگوں سے بھلی بات کہنا، اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا۔ (مگر) پھر تم میں سے تھوڑے سے لوگوں کے سوا باقی سب (اس عہد سے) منہ موڑ کر پھر گئے۔
اور (یاد کرو) جب ہم نے تم سے پکا عہد لیا تھا کہ تم ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اور اپنے آدمیوں کو اپنے گھروں سے نہیں نکالو گے، پھر تم نے اقرار کیا تھا اور تم خود اس کے گواہ ہو۔
اس کے بعد (آج) تم ہی وہ لوگ ہو کہ اپنے ہی آدمیوں کو قتل کرتے ہو، اور اپنے ہی میں سے کچھ لوگوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کرتے ہو، اور ان کے خلاف گناہ اور زیادتی کا ارتکاب کر کے (ان کے دشمنوں کی) مدد کرتے ہو، اور اگر وہ (دشمنوں کے) قیدی بن کر تمہارے پاس آ جاتے ہیں تو تم ان کو فدیہ دے کر چھڑا لیتے ہو، حالانکہ ان کو (گھر سے) نکالنا ہی تمہارے لیے حرام تھا۔ تو کیا تم کتاب (تورات) کے کچھ حصے پر تو ایمان رکھتے ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو؟ اب بتاؤ کہ جو شخص ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیوی زندگی میں اس کی رسوائی ہو؟ اور قیامت کے دن ایسے لوگوں کو سخت ترین عذاب کی طرف بھیج دیا جائے گا۔ اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔

تفسیر

اس کا پس منظر یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں یہودیوں کے دو قبیلے آباد تھے، بنو قریظہ اور بنو نضیر، دوسری طرف بت پرستوں کے بھی دو قبیلے تھے اوس اور خزرج، قریظہ کی دوستی اوس قبیلے سے تھی، اور بنو نضیر کی خزرج سے، جب اوس و خزرج میں لڑائی ہوئی تو قریظہ اوس کا ساتھ دیتے اور بنو نضیر خزرج کا، نتیجہ یہ کہ یہودیوں کے دونوں قبیلے بالواسطہ ایک دوسرے کے مدمقابل آ جاتے اور ان لڑائیوں میں جہاں اوس اور خزرج کے آدمی مارے جاتے وہاں قریظہ اور نضیر کے یہودی بھی قتل ہوتے یا اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور ہوتے، اس طرح اگرچہ بنو قریظہ اور بنو نضیر دونوں قبیلے یہودی تھے مگر وہ ایک دوسرے کے دشمنوں کی امداد کر کے آپس میں ایک دوسرے کے قتل اور خانماں بربادی میں حصہ دار ہوتے تھے، ہاں اگر کوئی یہودی دشمن کے ہاتھوں قید ہو جاتا تو وہ سب مل کر اس کا فدیہ ادا کرتے اور اسے چھڑا لیتے جس کی وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ ہمیں تورات نے حکم دیا ہے کہ اگر کوئی یہودی دشمن کی قید میں چلا جائے تو اسے چھڑائیں، قرآن کریم فرماتا ہے کہ جس تورات نے یہ حکم دیا ہے اسی نے یہ حکم بھی تو دیا تھا کہ نہ ایک دوسرے کو قتل کرنا نہ ایک دوسرے کو گھر سے نکالنا، ان احکام کو تو تم نے چھوڑ دیا اور صرف فدیہ کے حکم پر عمل کر لیا۔

آیت ۸۶، ۸۷

ترجمہ

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیوی زندگی کو آخرت کے بدلے خرید لیا ہے، لہذا نہ ان کے عذاب میں کوئی تخفیف ہو گی اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔
اور بیشک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، اور اس کے بعد پے درپے رسول بھیجے۔ اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو کھلی کھلی نشانیاں دیں اور روح القدس سے ان کی تائید کی۔ پھر یہ آخر کیا معاملہ ہے کہ جب کبھی کوئی رسول تمہارے پاس کوئی ایسی بات لے کر آیا جو تمہاری نفسانی خواہشات کو پسند نہیں تھی تو تم اکڑ گئے؟ چنانچہ بعض (انبیاء) کو تم نے جھٹلایا، اور بعض کو قتل کرتے رہے۔

تفسیر

۵۹ ‘‘ روح القدس‘‘ کے لفظی معنی ہیں مقدس روح اور قرآن کریم میں یہ لقب حضرت جبرئیلؑ کے لئے استعمال کیا گیا ہے (دیکھئے سورة نحل آیت ۱۰۲: ۱۶) حضرت عیسیٰؑ کو جب جبرئیلؑ کی یہ تائید حاصل تھی کہ وہ ان دشمنوں سے ان کی حفاظت کے لئے ان کے ساتھ رہتے تھے

آیت ۸۸

ترجمہ

اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف میں ہیں۔ نہیں! بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پر پھٹکار ڈال رکھی ہے اس لیے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔

تفسیر

ان کے اس جملے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی شیخی بگھارتے تھے کہ ہمارے دلوں پر ایک حفاظتی غلاف ہے جس کی وجہ سے کوئی غلط بات ہمارے دلوں میں گھر نہیں کر سکتی اور یہ مطلب بھی ممکن ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنے آپ سے مایوس کرنے کے لئے طنزاً یہ کہتے تھے کہ آپ تو بس یہ سمجھ لو کہ ہمارے دلوں پر غلاف چڑھا ہوا ہے اور ہمیں اسلام کی دعوت دینے کی فکر میں نہ پڑو۔

آیت ۸۹

ترجمہ

اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے وہ کتاب آئی (یعنی قرآن) جو اس (تورات) کی تصدیق بھی کرتی ہے جو پہلے سے ان کے پاس ہے (تو ان کا طرز عمل دیکھو) باوجودیکہ یہ خود شروع میں کافروں (یعنی بت پرستوں) کے خلاف (اس کتاب کے حوالے سے) اللہ سے فتح کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ مگر جب وہ چیز ان کے پاس آ گئی جسے انہوں نے پہچان بھی لیا، تو اس کا انکار کر بیٹھے۔ پس چھٹکار ہے اللہ کی ایسے کافروں پر۔

تفسیر

جب یہودیوں کی بت پرستوں سے جنگ ہوتی یا بحث و مباحثہ ہوتا تو وہ یہ دعائیں مانگا کرتے تھے کہ یا اللہ! آپ نے تورات میں جس آخری نبی کی خبر دی ہے اسے جلدی بھیج دیجئے تاکہ ہم ان کے ساتھ مل کر بت پرستوں پر فتح حاصل کریں، مگر جب وہ نبی (حضرت محمدﷺ تشریف لے آئے تو وہ حسد میں مبتلا ہو گئے کہ انہیں بنی اسرائیل کے بجائے بنی اسماعیل میں کیوں بھیجا گیا؟ چنانچہ یہ جان لینے کے باوجود کہ آنحضرتﷺ پر وہ ساری علامتیں صادق آتی ہیں جو تورات میں نبی آخرالزماں کی بیان کی گئی ہیں انہوں نے آپ کو ماننے سے سے انکار کر دیا۔

آیت ۹۰

ترجمہ

بری ہے وہ قیمت جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا ہے، کہ یہ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کا صرف اس جلن کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ اللہ اپنے فضل کا کوئی حصہ (یعنی وحی) اپنے بندوں میں سے جس پر چاہ رہا ہے (کیوں) اتار رہا ہے؟ چنانچہ یہ (اپنی اس جلن کی وجہ سے) غضب بالائے غضب لے کر لوٹے ہیں۔ اور کافر لوگ ذلت آمیز سزا کے مستحق ہیں۔

تفسیر

یعنی ایک غضب کے مستحق تو وہ اپنے کفر کی وجہ سے تھے دوسرا غضب ان پر حسد اور ضد کی وجہ سے ہوا۔

آیت ۹۱ ۔ ۹۳

ترجمہ

اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو کلام اتارا ہے اس پر ایمان لے آؤ، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو (صرف) اسی کلام پر ایمان رکھیں گے جو ہم پر نازل کیا گیا، (یعنی تورات) اور وہ اس کے سوا (دوسری آسمانی کتابوں) کا انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہ بھی حق ہیں (اور) جو کتاب ان کے پاس ہے وہ اس کی تصدیق بھی کرتی ہیں۔ (اے پیغمبر) تم ان سے کہو کہ اگر تم واقعی (تورات) پر ایمان رکھتے تھے تو اللہ کے نبیوں کو پہلے زمانے میں کیوں قتل کرتے رہے؟
اور خود موسیٰ تمہارے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے، پھر تم نے ان کے پیٹھ پیچھے یہ ستم ڈھایا کہ گائے کے بچھڑے کو معبود بنا لیا۔
اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا اور تمہارے اوپر طور کو بلند کر دیا (اور یہ کہا کہ) جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اس کو مضبوطی سے تھامو اور (جو کچھ کہا جائے اسے ہوش سے) سنو۔ کہنے لگے ہم نے (پہلے بھی) سن لیا تھا، مگر عمل نہیں کیا تھا (اب بھی ایسا ہی کریں گے) اور (در اصل) ان کے کفر کی نحوست سے ان کے دلوں میں بچھڑا بسا ہوا تھا۔ آپ (ان سے) کہیے کہ اگر تم مومن ہو تو کتنی بری ہیں وہ باتیں جو تمہارا ایمان تمہیں تلقین کر رہا ہے۔

تفسیر

اس واقعے کی تفصیل اسی سورت میں پیچھے آیت نمبر ۶۳ کے حاشیہ میں گذر چکی اور بچھڑے کا واقعہ آیت ۵۳ کے تحت۔

آیت ۹۴، ۹۵

ترجمہ

آپ (ان سے) کہیے کہ اگر اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لیے مخصوص ہے (جیسا کہ تمہارا کہنا ہے) تو موت کی تمنا تو کر کے دکھاؤ، اگر واقعی سچے ہو۔
اور (ہم بتائے دیتے ہیں کہ) انہوں نے اپنے جو کرتوت آگے بھیج رکھے ہیں، ان کی وجہ سے یہ کبھی ایسی تمنا نہیں کریں گے۔ اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

تفسیر

یہ بھی قرآن کریم کی طرف سے ایک چیلنج تھا جسے قبول کر لینا ان کے لئے کچھ بھی مشکل نہ تھا وہ بآسانی کم از کم زبان سے علی الاعلان موت کی تمنا کر کے دکھا سکتے تھے لیکن چونکہ وہ جانتے تھے تھے کہ یہ خدائی چیلنج ہے اس لئے ایسی تمنا کا اظہار انہیں فوراً قبر میں پہنچا دے گا اس لئے کسی نے ایسی جرات نہیں کی۔

آیت ۹۶، ۹۷

ترجمہ

(بلکہ) یقیناً تم ان لوگوں کو پاؤ گے کہ انہیں زندہ رہنے کی حرص دوسرے تمام انسانوں سے زیادہ ہے، یہاں تک کہ مشرکین سے بھی زیادہ۔ ان میں کا ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ ایک ہزار سال عمر پائے، حالانکہ کسی کا بڑی عمر پا لینا اسے عذاب سے دور نہیں کر سکتا۔ اور یہ جو عمل بھی کرتے ہیں اللہ اسے اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔
(اے پیغمبر) کہہ دو کہ اگر کوئی شخص جبرئیل کا دشمن ہے تو (ہوا کرے) انہوں نے تو یہ کلام اللہ کی اجازت سے تمہارے دل پر اتارا ہے جو اپنے سے پہلے کی کتابوں کی تصدیق کر رہا ہے، اور ایمان والوں کے لیے مجسم ہدایت اور خوشخبری ہے۔

تفسیر

بعض یہودیوں نے آنحضرتﷺ سے کہا تھا کہ آپ کہ پاس جبرئیلؑ وحی لاتے ہیں وہ چونکہ ہمارے لئے بڑے سخت احکام لایا کرتے تھے اس لئے ہم انہیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں، اگر کوئی اور فرشتہ وحی لا رہا ہو تو ہم کچھ غور کر سکتے تھے، یہ آیت اس کے جواب میں نازل ہوئی ہے اور جواب کا حاصل یہ ہے کہ جبرئیلؑ تو محض پیغام پہچانے والے ہیں، جو کچھ لاتے ہیں اللہ کے حکم سے لاتے ہیں، لہذا نہ ان سے دشمنی کی کوئی معقول وجہ ہے اور نہ اس کی و جہ سے اللہ کے کلام کو رد کرنے کا کوئی معنی ہے۔
 
Last edited:

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۹۸ ۔ ۱۰۲

ترجمہ

اگر کوئی شخص اللہ کا، اس کے فرشتوں اور رسولوں کا، اور جبرئیل اور میکائیل کا دشمن ہے تو (وہ سن رکھے کہ) اللہ کافروں کا دشمن ہے۔
اور بیشک ہم نے آپ پر ایسی آیتیں اتاری ہیں جو حق کو آشکار کرنے والی ہیں، اور ان کا انکار وہی لوگ کرتے ہیں جو نافرمان ہیں۔
یہ آخر کیا معاملہ ہے کہ ان لوگوں نے جب کوئی عہد کیا، ان کے ایک گروہ نے اسے ہمیشہ توڑ پھینکا؟ بلکہ ان میں سے اکثر لوگ ایمان لاتے ہی نہیں۔۱
اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے ایک رسول آئے جو اس (تورات) کی تصدیق کر رہے تھے جو ان کے پاس ہے، تو اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے اللہ کی کتاب (تورات و انجیل) کو اس طرح پس پشت ڈال دیا گویا وہ کچھ جانتے ہی نہ تھے (کہ اس میں نبی آخر الزماںﷺ کے بارے میں کیا ہدایات دی گئی تھیں)
اور یہ (بنی اسرائیل) ان (منتروں) کے پیچھے لگ گئے جو سلیمانؑ کی سلطنت کے زمانے میں شیاطین پڑھا کرتے تھے۔ اور سلیمانؑ نے کوئی کفر نہیں کیا تھا، البتہ شیاطین لوگوں کو جادو کی تعلیم دے کر کفر کا ارتکاب کرتے تھے۔ نیز (یہ بنی اسرائیل) اس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شہر بابل ۲ میں ہاروت اور ماروت نامی دو فرشتوں پر نازل کی گئی تھی۔ یہ دو فرشتے کسی کو اس وقت تک کوئی تعلیم نہیں دیتے تھے جب تک اس سے یہ نہ کہہ دیں گے کہ ہم محض آزمائش کے لیے (بھیجے گئے) ہیں، لہذا تم (جادو کے پیچھے لگ کر) کفر اختیار نہ کرنا۔ پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیزیں سیکھتے تھے جس کے ذریعے مرد اور اس کی بیوی میں جدائی پیدا کر دیں۔ ۳ (ویسے یہ واضح رہے کہ) وہ اس کے ذریعے کسی کو اللہ کی مشیت کے بغیر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔ (مگر) وہ ایسی باتیں سیکھتے تھے جو ان کے لیے نقصان دہ تھیں اور فائدہ مند نہ تھیں۔ اور وہ یہ بھی خوب جانتے تھے کہ جو شخص ان چیزوں کا خریدار بنے گا، آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ چیز بہت بری تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانیں بیچ ڈالیں۔ کاش کہ ان کو (اس بات کا حقیقی) علم ہوتا۔ ۴

تفسیر

۱۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی ایک اور بد عملی کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور وہ یہ کہ جادو ٹونے کے پیچھے لگنا ناجائز تھا، بالخصوص اگر جادو میں شرکیہ کلمات منتر کے طور پر پڑھے جائیں تو ایسا جادو کفر کے مرادف ہے، حضرت سلیمانؑ کے زمانے میں کچھ شیاطین نے، جن میں انسان اور جنات دونوں شامل ہو سکتے ہیں، بعض یہودیوں کو یہ پٹی پڑھائی کہ حضرت سلیمانؑ کی سلطنت کا سارا راز جادو میں مضمر ہے اور اگر جادو سیکھ لو گے تو تمہیں بھی حیرت انگیز اقتدار نصیب ہو گا، چنانچہ یہ لوگ جادو سیکھنے اور اس پر عمل کرنے میں لگ گئے، حالانکہ جادو پر عمل کرنا نہ صرف ناجائز تھا، بلکہ اس کی بعض قسمیں کفر تک پہنچتی تھیں، دوسرا غضب یہودیوں نے یہ کیا کہ خود حضرت سلیمانؑ کو جادو گر قرار دے کر ان کے بارے میں یہ مشہور کر دیا کہ انہوں نے آخری عمر میں بتوں کو پوجنا شروع کر دیا تھا، ان کے بارے میں یہ جھوٹی داستانیں انہوں نے اپنی مقدس کتابوں میں شامل کر دیں جو آج تک بائبل میں درج چلی آتی ہیں، چنانچہ بائبل کی کتاب سلاطین اول ۱۱۔ ۱ تا ۲۱ میں ان کے معاذ اللہ مرتد ہونے کا بیان آج بھی موجود ہے، قرآن کریم نے اس آیت میں حضرت سلیمانؑ پر اس ناپاک بہتان کی تردید فرمائی ہے، اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جن لوگوں نے قرآن کریم پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ یہودیوں اور عیسائیوں کی کتابوں سے ماخوذ ہے وہ کتنا غلط الزام ہے، یہاں قرآن کریم صریح الفاظ میں یہود و نصاریٰ کی کتابوں کی تردید کر رہا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں تھا جس سے وہ یہ خود معلوم کر سکتے کہ یہودیوں کی کتابوں میں کیا لکھا ہے، اس بات کا علم آپﷺ کو وحی کے سوا کسی اور راستہ سے نہیں ہو سکتا تھا، لہذا یہ آیت بذات خود آپ کے صاحب وحی رسول ہونے کی واضح دلیل ہے کہ آپ نے نہ صرف یہ بتلایا کہ یہودیوں کی کتابوں میں حضرت سلیمانؑ پر کیا بہتان لگایا گیا ہے، بلکہ اس قدر جم کر اس کی تردید فرمائی ہے۔
۲۔ بابل عراق کا مشہور شہر تھا، ایک زمانے میں وہاں جادو کا بڑا چرچا ہو گیا تھا، اور یہودی بھی اس ناجائز کام میں بری طرح ملوث ہو گئے تھے، انبیاء کرام اور دوسرے نیک لوگ انہیں جادو سے منع کرتے تھے تو وہ بات نہ مانتے تھے، اس سے بھی خطرناک بات یہ تھی کہ لوگوں نے جادوگروں کے شعبدوں کو معجزے سمجھ کر انہیں اپنا دینی مقتدا بنا لیا تھا، اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے دو فرشتے جن کا نام ہاروت وماروت تھا دنیا میں انسانی شکل میں بھیجے تاکہ وہ لوگوں کو جادو کی حقیقت سے آگاہ کریں اور یہ بتائیں کہ خدائی معجزات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، معجزہ براہ راست اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جس میں کسی ظاہری سبب کا کوئی دخل نہیں ہوتا، اس کے برعکس جادو کے ذریعے جو کوئی شعبدہ دکھایا جاتا ہے وہ اسی عالم اسباب کا ایک حصہ ہے، یہ بات واضح کرنے کے لئے ان فرشتوں کو جادو کے محتلف طریقے بھی بتانے پڑتے تھے، تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ کس طرح وہ سبب اور مسبب کے رشتے سے منسلک ہیں، لیکن جب وہ ان طریقوں کی تشریح کرتے تو ساتھ ساتھ لوگوں کو متنبہ بھی کر دیتے تھے کہ یاد رکھو! یہ طریقے ہم اس لئے نہیں بتا رہے ہیں کہ تم ان پر عمل شروع کر دو، بلکہ اس لئے بتا رہے ہیں کہ تم پر جادو اور معجزے کا فرق واضح ہو اور تم جادو سے پرہیز کرو اس لحاظ سے ہمارا وجود تمہارے لئے ایک امتحان ہے کہ ہماری باتوں کو سمجھ کر تم جادو سے پرہیز کرتے ہو یا ہم سے جادو کے طریقے سیکھ کر ان پر عمل شروع کر دیتے ہو، یہ کام انبیاء کے بجائے فرشتوں سے بظاہر اس بنا پر لیا گیا کہ جادو کے فارمولے بتانا خواہ وہ صحیح مقصد سے کیوں نہ ہو، انبیائے کرام کو زیب نہیں دیتا تھا، اس کے برعکس فرشتے چونکہ غیر مکلف ہوتے ہیں اس لئے ان سے بہت سے تکوینی کام لئے جا سکتے ہیں بہر حال نافرمان لوگوں نے ان فرشتوں کی طرف سے کہی ہوئی باتوں کو تو نظر انداز کر دیا اور ان کے بتائے ہوئے فارمولوں کو جادو کرنے میں استعمال کیا اور وہ بھی ایسے گھناؤنے مقاصد کے لئے جو ویسے بھی حرام تھے مثلاً میاں بیوی میں پھوٹ ڈال کر نوبت طلاق تک پہنچا دینا۔
۳۔ یہاں سے جملۂ معترضہ کے طور پر ایک اور اصولی غلطی پر متنبہ کیا جا رہا ہے اور وہ یہ کہ جادو پر ایمان رکھنے والے یہ سمجھتے تھے کہ جادو میں بذات خود ایسی تاثیر موجود ہے جس سے مطلوبہ نتیجہ خود بخود اللہ کے حکم کے بغیر بھی برآمد ہو جاتا ہے، گویا اللہ چاہے یا نہ چاہے وہ نتیجہ پیدا ہو کر رہے گا، یہ عقیدہ بذات خود کفر تھا، اس لئے واضح کر دیا گیا کہ دنیا کے دوسرے اسباب کی طرح جادو بھی محض ایک سبب ہے اور دنیا میں کوئی سبب بھی اپنا سبب یا نتیجہ اس وقت تک ظاہر نہیں کر سکتا جب تک اللہ کی مشیت اس کے ساتھ متعلق نہ ہو، کائنات کی کسی چیز میں بذات خود نہ کسی کو نفع پہچانے کی طاقت ہے نہ نقصان پہچانے کی، لہذا اگر کوئی ظالم کسی پر ظلم کرنا چاہتا ہے تو وہ اللہ کی قدرت اور مشیت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا، البتہ چونکہ یہ دنیا ایک امتحان کی جگہ ہے، اس لئے یہاں اللہ کی سنت یہ ہے کہ جب کوئی شخص اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے کوئی گناہ کرنا چاہتا ہے یا کسی پر ظلم کرنا چاہتا ہے تو اگر اللہ تعالیٰ تکوینی مصلحت کے مطابق سمجھتا ہے تو اپنی مشیت سے وہ کام کرا دیتا ہے، اسی کے نتجے میں ظالم کو گناہ اور مظلوم کو ثواب ملتا ہے، ورنہ اگر اللہ اسے کام کی قدرت ہی نہ دے تو امتحان کیسے ہو؟ لہذا جتنے گناہ کے کام دنیا میں ہوتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت اور مشیت سے ہوتے ہیں، اگرچہ اس کی رضا مندی ان کو حاصل نہیں ہوتی اور اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کی رضا مندی میں فرق یہی ہے کہ مشیت اچھے برے ہر کام سے متعلق ہو سکتی ہے، مگر رضامندی صرف جائز اور ثواب کے کاموں سے مخصوص ہے۔
۴۔ اس آیت کے شروع میں تو یہ کہا گیا ہے کہ وہ حقیقت جانتے ہیں کہ جو مشرکانہ جادو کا خریدار ہو گا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں لیکن آیت کے آخری حصہ میں فرمایا ہے کہ کاش وہ علم رکھتے جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں اس حقیقت کا علم نہیں ہے، بظاہر دونوں باتیں متضاد لگتی ہیں لیکن در حقیقت اس انداز بیان سے یہ عظیم سبق دیا گیا ہے کہ نرا علم جس پر عمل نہ ہو حقیقت میں علم کہلانے کا مستحق نہیں بلکہ وہ کالعدم ہے، لہذا اگر وہ یہ بات جانتے تو ہیں مگر ان کا عمل اس کے برخلاف ہے تو وہ علم کس کام کا؟ کاش کہ وہ حقیقی علم رکھتے تو اس پر ان کا عمل بھی ہوتا۔

آیت ۱۰۳، ۱۰۴

ترجمہ

اور (اس کے بر عکس) اگر وہ ایمان اور تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کے پاس سے ملنے والا ثواب یقیناً کہیں زیادہ بہتر ہوتا۔ کاش کہ ان کو (اس بات کا بھی حقیقی) علم ہوتا۔
ایمان والو! (رسول اللہﷺ سے مخاطب ہو کر) راعنا نہ کہا کرو، اور انظرنا کہہ دیا کرو۔ اور سنا کرو۔ اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

تفسیر

مدینہ میں رہنے والے بعض یہودیوں کی ایک شرارت یہ تھی کہ وہ جب حضور اکرمﷺ سے ملتے تو آپ سے کہتے تھے‘‘ راعنا‘‘ عربی میں اس کے معنی یہ ہیں کہ ہماری رعایت فرمائیے، اس لحاظ سے یہ لفظ ٹھیک تھا اور اس میں گستاخی کے کوئی معنی نہیں تھے لیکن عبرانی زبان میں جو یہودیوں کی مذہبی زبان تھی اس سے ملتا جلتا ایک لفظ بدعا اور گالی کے طور پر استعمال ہوتا تھا نیز اگر اسی لفظ میں عین کو ذرا کھینچ کر بولا جائے تو وہ راعینا بن جاتا ہے، جس کے معنی ہیں‘‘ ہمارے چروا ہے‘‘ غرض یہودیوں کی اصل نیت لفظ کو خراب معنی میں استعمال کرنے کی تھی، لیکن چونکہ عربی میں بظاہر اس کا مطلب ٹھیک تھا اس لئے بعض مخلص مسلمانوں نے بھی یہ لفظ بولنا شروع کر دیا، یہودی اس بات سے بڑے خوش ہوتے اور اندر اندر مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے، اس لئے اس آیت نے مسلمانوں کو اس شرارت پر متنبہ بھی کر دیا، آئندہ اس لفظ کے استعمال پر پابندی بھی لگا دی اور یہ سبق بھی دے دیا کہ ایسے الفاظ کا استعمال مناسب نہیں ہے جن میں کسی غلط مفہوم کا احتمال ہو یا ان سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہو، نیز اگلی آیت میں اس سارے عناد کی اصل وجہ بھی بتا دی کہ در حقیقت ان کو یہ حسد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبوت کی نعمت آنحضرتﷺ کو کیوں عطا فرما دی ہے۔

آیت ۱۰۵۔ ۱۰۶

ترجمہ

کافر لوگ خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرکین میں سے، یہ پسند نہیں کرتے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے کوئی بھلائی تم پر نازل ہو، حالانکہ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لیے مخصوص فرما لیتا ہے۔ اور اللہ فضل عظیم کا مالک ہے۔
ہم جب بھی کوئی آیت منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اسی جیسی (آیت) لے آتے ہیں۔ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے؟

تفسیر

اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ محتلف زمانوں کے حالات کی مناسبت سے شریعت کے فروعی احکام میں تبدیلی فرماتے رہے ہیں، اگرچہ دین کے بنیادی عقائد مثلاً توحید رسالت آخرت وغیرہ ہر دور میں ایک رہے ہیں لیکن جو عملی احکام حضرت موسیٰؑ کو دئے گئے تھے، ان میں سے بعض حضرت عیسیٰؑ کے دور میں تبدیل کر دئے گئے اور آنحضرتﷺ کے زمانے میں ان میں مزید تبدیلیاں واقع ہوئیں، اسی طرح جب آنحضرتﷺ کو شروع میں نبوت عطا ہوئی تو آپ کی دعوت کو مختلف مراحل سے گزرنا تھا، مسلمانوں کو طرح طرح کے مسائل درپیش تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے احکام میں تدریج اختیار فرمائی، کسی وقت ایک حکم دیا گیا بعد میں اس کی جگہ دوسرا حکم آ گیا، جیسا کہ قبلے کی تعین میں احکام بدلے گئے، جن کی کچھ تفصیل آگے آیت ۱۱۵ میں آ رہی ہے، فروعی احکام میں ان حکیمانہ تبدیلیوں کو اصطلاح میں‘‘ نسخ‘‘ کہتے ہیں، یہودیوں نے بالخصوص اور دوسرے کافروں نے بالعموم اس پر یہ اعتراض اٹھایا کہ اگر یہ سارے احکام اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو ان میں یہ تبدیلیاں کیوں ہو رہی ہیں، یہ آیت کریمہ اس سوال کے جواب میں نازل ہوئی ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے مطابق بدلتے ہوئے حالات میں یہ تبدیلیاں کرتے ہیں اور جو حکم بھی منسوخ کیا جاتا ہے اس کی جگہ ایسا حکم لایا جاتا ہے جو بدلے ہوئے حالات میں زیادہ مناسب اور بہتر ہوتا ہے یا کم از کم اتنا ہی بہتر ہوتا ہے جتنا بہتر پہلا حکم تھا۔

آیت ۱۰۷، ۱۰۸

ترجمہ

کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ وہ ذات ہے کہ آسمانوں اور زمین کی سلطنت تنہا اسی کی ہے، اور اللہ کے سوا نہ کوئی تمہارا رکھوالا ہے نہ مددگار؟
کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے اسی قسم کے سوال کرو جیسے پہلے موسیٰ سے کیے جا چکے ہیں؟ اور جو شخص ایمان کے بدلے کفر اختیار کرے وہ یقیناً سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔

تفسیر

یہ خطاب یہودیوں کو بھی ہے جو آنحضرتﷺ پر ایمان لانے کے بجائے طرح طرح کے مطالبے پیش کرتے تھے اور ساتھ ہی مسلمانوں کو بھی یہ سبق دیا جا رہا ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰؑ پر ایمان لانے کے باوجود یہودی ان سے نامعقول اور غیر ضروری سوالات اور مطالبے کرتے رہے، تم ایسا نہ کرنا۔

آیت ۱۰۹ ۔ ۱۱۱

ترجمہ

(مسلمانو) بہت سے اہل کتاب اپنے دلوں کے حسد کی بنا پر یہ چاہتے ہیں کہ تمہارے ایمان لانے کے بعد تمہیں پلٹا کر پھر کافر بنا دیں، باوجودیکہ حق ان پر واضح ہو چکا ہے۔ چنانچہ تم معاف کرو اور درگزر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ خود اپنا فیصلہ بھیج دے۔ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو، اور (یاد رکھو کہ) جو بھلائی کا عمل بھی تم خود اپنے فائدے کے لیے آگے بھیج دو گے اس کو اللہ کے پاس پاؤ گے بیشک جو عمل بھی تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔
اور یہ (یعنی یہودی اور عیسائی) کہتے ہیں کہ جنت میں سوائے یہودیوں یا عیسائیوں کے کوئی بھی ہرگز داخل نہیں ہو گا۔ یہ محض ان کی آرزوئیں ہیں۔۱ آپ ان سے کہے کہ اگر تم (اپنے اس دعوے میں) سچے ہو تو اپنی کوئی دلیل لے کر آؤ۔

تفسیر

۱۔ یعنی یہودی کہتے ہیں کہ صرف یہودی جنت میں جائیں گے اور عیسائی کہتے ہیں کہ صرف عیسائی۔

آیت ۱۱۲ ۔ ۱۱۴

ترجمہ

کیوں نہیں؟ (قاعدہ یہ ہے کہ) جو شخص بھی اپنا رخ اللہ کے آگے جھکا دے، اور وہ نیک عمل کرنے والا ہو، اسے اپنا اجر اپنے پروردگار کے پاس ملے گا۔ اور ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائیوں (کے مذہب) کی کوئی بنیاد نہیں، اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودیوں (کے مذہب) کی کوئی بنیاد نہیں، حالانکہ یہ سب (آسمانی) کتاب پڑھتے ہیں۔ اسی طرح وہ (مشرکین) جن کے پاس کوئی (آسمانی) علم ہی سرے سے نہیں ہے، انہوں نے بھی ان (اہل کتاب) کی جیسی باتیں کہنی شروع کر دی ہیں۔ چنانچہ اللہ ہی قیامت کے دن ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں یہ اختلاف کرتے رہے ہیں۔
اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو اللہ کی مسجدوں پر اس بات کی بندش لگا دے کہ ان میں اللہ کا نام لیا جائے، اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔ ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان (مسجدوں) میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے۔ ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور انہی کو آخرت میں زبردست عذاب ہو گا۔

تفسیر

اوپر یہود و نصاریٰ اور مشرکین عرب تینوں گروہوں کا ذکر آیا ہے، یہ تینوں گروہ کسی نہ کسی زمانے میں اور کسی نہ کسی شکل میں اللہ تعالیٰ کی عبادت گاہوں کی بے حرمتی کے مرتکب ہوئے ہیں، مثلاً عیسائیوں نے شاہ طیطوس کے زمانے میں بیت المقدس پر حملہ کر کے اسے تاخت و تاراج کیا، ابرہہ نے جو عیسائی ہونے کا مدعی تھا بیت اللہ پر حملہ کر کے اسے ویران کرنے کی کوشش کی، مشرکین مکہ مسلمانوں کو مسجد حرام میں نماز پڑھنے سے روکتے رہے اور یہودیوں نے بیت اللہ کے تقدس سے انکار کر کے عملاً لوگوں کو اس کی طرف رخ کرنے سے روکا، قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایک طرف ان میں سے ہر ایک کا دعوی یہ ہے کہ تنہا وہی جنت کا حق دار ہے اور دوسری طرف ان کی حالت یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت میں رکاوٹ ڈالنے یا عبادت گاہوں کو ویران کرنے کے درپے رہے ہیں، اسی آیت کا اگلا جملہ ذو معنی ہے اس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ حق تو یہ تھا کہ یہ لوگ اللہ کی مسجدوں میں اللہ کا خوف لے کر داخل ہوتے، نہ یہ کہ متکبرانہ انداز میں انہیں ویران کریں یا لوگوں کو وہاں اللہ کی عبادت سے روکیں، لیکن ساتھ ہی یہ لطیف اشارہ بھی ہے ہو سکتا ہے کہ عنقریب وہ وقت آنے ولا ہے جب یہ متکبر لوگ جو اللہ کی مسجدوں سے لوگوں کو روک رہے ہیں حق پرستوں کے سامنے ایسے مغلوب ہوں گے کہ انہیں خود ان کی جگہوں پر ڈر ڈر کر داخل ہونا پڑے گا چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر کفار مکہ کے ساتھ یہی صورت پیش آئی۔

آیت ۱۱۵

ترجمہ

اور مشرق و مغرب سب اللہ ہی کی ہیں۔ لہذا جس طرف بھی تم رخ کرو گے، وہیں اللہ کا رخ ہے۔ بیشک اللہ بہت وسعت والا، بڑا علم رکھنے والا ہے۔

تفسیر

اوپر جن تین گروہوں کا ذکر ہوا ہے ان کے درمیان ایک اختلاف قبلے کا بھی تھا، اہل کتاب بیت المقدس کی طرف رخ کرتے تھے اور مشرکین بیت اللہ کو قبلہ سمجھتے تھے، مسلمان بھی اسی کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے اور یہ بات یہودیوں کو ناگوار تھی، ایک مختصر عرصے کے لئے مسلمانوں کو بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا تو یہودیوں نے حکم دیا گیا تو یہودیوں نے خوشی کا اظہار کیا کہ دیکھو! مسلمان ہماری بات ماننے پر مجبور ہو گئے ہیں، پھر دوبارہ بیت اللہ کو مستقل قبلہ بنا دیا گیا، جس کی تفصیل انشاء اللہ اگلے پارہ کے شروع میں آنے والی ہے، یہ آیت بظاہر اس موقع پر نازل ہوئی ہے جب مسلمان بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ رہے تھے، بتلانا یہ مقصود ہے کہ کوئی بھی سمت اپنی ذات میں کسی تقدس کی حامل نہیں، کسی بھی جگہ یا کسی بھی سمت میں اگر کوئی تقدس آتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے آتا ہے، مشرق و مغرب سب اللہ کی مخلوق اور اسی کی تابع فرمان ہیں، اللہ تعالیٰ کسی ایک جہت میں محدود نہیں وہ ہر جگہ موجود ہے، چنانچہ وہ جس سمت کی طرف رخ کرنے کا حکم دیدے بندوں کا کام ہے کہ اسی حکم کی تعمیل کریں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ ہو جہاں قبلے کی صحیح سمت پتہ نہ چل رہی ہو تو وہاں وہ اپنے اندازے سے جس سمت کو قبلہ سمجھ کر نماز پڑھے گا اس کی نماز ہو جائے گی یہاں تک کہ اگر بعد میں پتہ چلے کہ جس رخ پر نماز پڑھی ہے وہ صحیح رخ نہیں تھا تب بھی نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس شخص نے اپنی طاقت کے مطابق اللہ کے حکم کی تعمیل کر لی۔ در اصل کسی بھی جگہ یا کسی بھی سمت میں اگر کوئی تقدس آتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے آتا ہے لہذا اگر اللہ تعالیٰ قبلے کے تعین میں اپنے احکام بدل رہا ہے تو اس میں کسی فریق کی ہار جیت کا سوال نہیں۔ یہ تبدیلی یہی دکھانے کے لئے آ رہی ہے کہ کوئی سمت اپنی ذات میں مقصود نہیں۔ مقصود اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی ہے۔ اگر آئندہ اللہ تعالیٰ دوبارہ بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیدے تو یہ بات نہ قابل تعجب ہونی چاہیے نہ قابل اعتراض۔

آیت ۱۱۶، ۱۱۷

ترجمہ

یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے کوئی بیٹا بنایا ہوا ہے۔ (حالانکہ) اس کی ذات (اس قسم کی چیزوں سے) پاک ہے، بلکہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کا ہے۔ سب کے سب اس کے فرمانبردار ہیں۔
وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جب وہ کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے بارے میں بس اتنا کہتا ہے کہ ہو جا۔ چنانچہ وہ ہو جاتی ہے۔

تفسیر

عیسائی تو حضرت عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا کہتے ہی ہیں، بعض یہودی حضرت عزیرؑ کو خدا کا بیٹا کہتے تھے، اور مشرکین مکہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں کہا کرتے تھے، یہ آیت ان سب کی تردید کر رہی ہے، مطلب یہ ہے کہ اولاد کی ضرورت اسے ہو سکتی ہے جو دوسروں کی مدد کا محتاج ہو، اللہ تعالیٰ پوری کائنات کا مالک ہے اور اسے کسی کام میں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں، پھر وہ اولاد کا محتاج کیوں ہو؟ اسی دلیل کو اگر منطقی پیرائے میں بیان کیا جائے تو وہ اس طرح ہو گی کہ اولاد اپنے باپ کا جزء ہوتی ہے اور ہر کل اپنے جزء کا محتاج ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ چونکہ ہر احتیاج سے پاک ہے اس لئے اس کی ذات بسیط ہے جسے کسی جزء کی حاجت نہیں، لہذا اس کی طرف اولاد منسوب کرنا اسے محتاج قرار دینے کے مرادف ہے۔

آیت ۱۱۸ ۔ ۱۲۰

ترجمہ

اور جو لوگ علم نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کہ اللہ ہم سے (براہ راست) کیوں بات نہیں کرتا؟ یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ جو لوگ ان سے پہلے گزرے ہیں وہ بھی اسی طرح کی باتیں کہتے تھے جیسے یہ کہتے ہیں۔ ان سب کے دل ایک جیسے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ یقین کرنا چاہیں ان کے لیے ہم نشانیاں پہلے ہی واضح کر چکے ہیں۔
(اے پیغمبر) بیشک ہم نے تمہیں کو حق دے کر اس طرح بھیجا ہے کہ تم (جنت کی) خوشخبری دو اور (جہنم سے) ڈراؤ) اور جو لوگ (اپنی مرضی سے) جہنم (کا راستہ) اختیار کر چکے ہیں ان کے بارے میں آپ سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی۔
اور یہود و نصاریٰ تم سے اس وقت تک ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کرو گے۔ کہہ دو کہ حقیقی ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے۔ اور تمہارے پاس (وحی کے ذریعے) جو علم آ گیا ہے اگر کہیں تم نے اس کے بعد بھی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کر لی تو تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے نہ کوئی حمایتی ملے گا نہ کوئی مددگار۔

تفسیر

اگرچہ حضور رسالت مآبﷺ سے یہ بات ناقابل تصور تھی کہ آپ کفار کی خواہشات کے پیچھے چلیں، لیکن اس آیت نے فرض محال کے طور پر یہ بات کہہ کر اصول یہ بتلا دیا کہ اللہ کے نزدیک شخصیات کی اہمیت ان کی ذات کی وجہ سے نہیں، بلکہ اللہ کی اطاعت کی وجہ سے ہوتی ہے، آنحضرتﷺ ساری مخلوقات میں سب سے افضل اسی بنا پر ہیں کہ اللہ کے سب سے زیادہ فرمانبردار ہیں۔

آیت ۱۲۱

ترجمہ

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی، جبکہ وہ اس کی تلاوت اس طرح کرتے ہوں جیسا اس کی تلاوت کا حق ہے، تو وہ لوگ ہی (در حقیقت) اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور جو اس کا انکار کرتے ہوں تو ایسے لوگ ہی نقصان اٹھانے والے ہیں۔

تفسیر

بنی اسرائیل میں جہاں سرکش لوگ بڑی تعداد میں تھے وہاں بہت سے لوگ ایسے مخلص بھی تھے جنہوں نے تورات اور انجیل کو صرف پڑھا ہی نہیں تھا، بلکہ اس کے تقاضوں پر عمل کرتے ہوئے حق کی ہر بات کو قبول کرنے کے لئے اپنے سینوں کو کشادہ رکھا تھا، چنانچہ جب ان کو آنحضرتﷺ کی دعوت پہنچی تو انہوں نے کسی عناد کے بغیر اسے قبول کیا، اس آیت میں ان حضرات کی تعریف کی گئی ہے اور سبق یہ دیا گیا ہے کہ کسی آسمانی کتاب کی تلاوت کا حق یہ ہے کہ اس کے تمام احکام کو دل سے مان کر ان کی تعمیل کی جائے، در حقیقت تورات پر ایمان رکھنے والے وہی ہیں جو اس کے احکام کی تعمیل میں آنحضرتﷺ پر ایمان لاتے ہیں۔

آیت ۱۲۲، ۱۲۳

ترجمہ

اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی، اور یہ بات (یاد کرو) کہ میں نے تم کو سارے جہانوں پر فضیلت دی تھی۔
اور اس دن سے ڈرو جس دن کوئی شخص بھی کسی کے کچھ کام نہیں آئے گا، نہ کسی سے کسی قسم کا فدیہ قبول کیا جائے گا، نہ اس کو کوئی سفارش فائدہ دے گی اور نہ ان کو کوئی مدد پہنچے گی۔

تفسیر

بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور ان کے مقابلے میں بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کا جو ذکر اوپر سے چلا آ رہا ہے اس کا آغاز آیت ۴۷ اور ۴۸ میں تقریباً انہی الفاظ سے کیا گیا تھا، اب سارے واقعات تفصیل سے یاد دلانے کے بعد پھر وہی بات ناصحانہ انداز میں ارشاد فرمائی گئی ہے کہ ان سب باتوں کو یاد دلانے کا اصل مقصد تمہاری خیر خواہی ہے اور تمہیں ان واقعات سے اس نتیجے تک پہنچ جانا چاہئے۔

آیت ۱۲۴

ترجمہ

اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابراہیم کو ان کے پروردگار نے کئی باتوں سے آزمایا، اور انہوں نے وہ ساری باتیں کیں، اللہ نے (ان سے) کہا میں تمہیں تمام انسانوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ ابراہیم نے پوچھا اور میری اولاد میں سے؟ اللہ نے فرمایا میرا (یہ) عہد ظالموں کو شامل نہیں ہے۔

تفسیر

یہاں سے حضرت ابراہیمؑ کے کچھ حالات و واقعات شروع ہو رہے ہیں اور پچھلی آیتوں سے ان واقعات کا دو طرح گہرا تعلق ہے، ایک بات تو یہ ہے کہ یہودی عیسائی اور عرب کے بت پرست یعنی تینوں گروہ جن کا ذکر اوپر آیا ہے حضرت ابراہیمؑ کو اپنا پیشوا مانتے تھے، مگر ہر گروہ یہ دعوی کرتا تھا کہ وہ اسی کے مذہب کے حامی تھے، لہذا ضروری تھا کہ حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں صحیح صورت حال واضح کی جائے، قرآن کریم نے یہاں یہ بتلایا ہے کہ ان کا تینوں گروہوں کے باطل عقائد سے کوئی تعلق نہیں تھا، ان کی ساری زندگی توحید کی تبلیغ میں خرچ ہوئی اور انہیں اس راستے میں بڑی بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا جن میں وہ پورے اترے، دوسری بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے دو بیٹے تھے، حضرت اسحاقؑ اور حضرت اسماعیلؑ، حضرت اسحاقؑ ہی کے بیٹے حضرت یعقوبؑ تھے جن کا دوسرا نام اسرائیل تھا، نبی کریمﷺ سے پہلے نبوت کا سلسلہ انہی کی اولاد یعنی بنی اسرائیل میں چلا آ رہا تھا، جس کی بنا پر وہ یہ سمجھتے تھے کہ دنیا بھر کی پیشوائی کا حق صرف انہی کو حاصل ہے، کسی اور نسل میں کوئی ایسا نبی نہیں آ سکتا جو ان کے لئے واجب الاتباع ہو، قرآن کریم نے یہاں یہ غلط فہمی دور کرتے ہوئے یہ واضح فرمایا ہے کہ دینی پیشوائی کا منصب کسی خاندان کی لازمی میراث نہیں ہے اور یہ بات خود حضرت ابراہیمؑ سے صریح لفظوں میں کہہ دی گئی تھی انہیں جب اللہ تعالیٰ نے مختلف طریقوں سے آزما لیا اور یہ ثابت ہو گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر بڑی سے بڑی قربانی کے لئے ہمیشہ تیار ہیں، تب اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا بھر کی پیشوائی کا منصب دینے کا اعلان فرمایا، اسی موقع پر جب انہوں نے اپنی اولاد کے بارے میں پوچھا تو صاف طور پر بتلا دیا گیا کہ ان میں جو لوگ ظالم ہوں گے یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر کے اپنی جانوں پر ظلم کریں گے وہ اس منصب کے حق دار نہیں ہوں گے بنی اسرائیل کو صدیوں آزمانے کے بعد ثابت یہ ہوا کہ وہ اس لائق نہیں ہیں کہ قیامت تک پوری انسانیت کی دینی پیشوائی ان کو دی جائے اس لئے نبی آخر الزمانﷺ اب حضرت ابراہیمؑ کے دوسرے صاحبزادے یعنی حضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں بھیجے جا رہے ہیں جن کے لئے حضرت ابراہیمؑ نے دعا کی تھی کہ وہ اہل مکہ میں سے بھیجے جائیں۔ اب چونکہ دینی پیشوائی منتقل کی جا رہی ہے اس لئے اب قبلہ بھی اس بیت اللہ کو بنایا جائے والا ہے جو حضرت ابراہیمؑ اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیلؑ نے تعمیر کیا تھا اس مناسبت سے آگے تعمیر کعبہ کا واقعہ بھی بیان فرمایا گیا ہے یہاں سے آیت نمبر آیت ۱۵۲ تک جو سلسلہ کلام آ رہا ہے اس کو اس پس منظر میں سمجھنا چاہیے۔

آیت ۱۲۵

ترجمہ

اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے ایسی جگہ بنایا جس کی طرف وہ لوٹ لوٹ کر جائیں اور جو سراپا امن ہو۔ ۱ اور تم مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو۔ اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو یہ تاکید کی کہ تم دونوں میرے گھر کو ان لوگوں کے لیے پاک کرو جو (یہاں) طواف کریں اور اعتکاف میں بیٹھیں اور رکوع اور سجدہ بجا لائیں۔۲

تفسیر

۱۔ اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی یہ حرمت رکھی ہے کہ نہ صرف مسجد حرام میں بلکہ اس کے ارد گرد کے وسیع علاقے میں جسے حرم کہا جاتا ہے، نہ کسی انسان کو قتل کیا جا سکتا ہے نہ شدید دفاعی ضرورت کے بغیر جنگ کرنا جائز ہے، نہ کسی جانور کا شکار حلال ہے، نہ کوئی خود رو پودا اکھاڑنے کی اجازت ہے، نہ کسی جانور کو قید رکھا جا سکتا ہے، اس طرح یہ صرف انسانوں کے لئے ہی نہیں حیوانات اور نباتات کے لئے بھی امن کی جگہ ہے۔
۲۔ مقام ابراہیم اس پتھر کا نام ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیمؑ نے بیت اللہ تعمیر کیا تھا، یہ پتھر آج بھی موجود ہے اور یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہر وہ شخص جو بیت اللہ کا طواف کرے سات چکر لگانے کے بعد اس پتھر کے سامنے کھڑا ہو کر بیت اللہ کا رخ کرے اور دو رکعتیں پڑھے ان رکعتوں کا اسی جگہ پڑھنا افضل ہے۔

آیت ۱۲۶، ۱۲۷

ترجمہ

اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ابراہیم نے کہا تھا کہ اے میرے پروردگار! اس کو ایک پر امن شہر بنا دیجیے اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائیں انہیں قسم قسم کے پھلوں سے رزق عطا فرمایے۔ اللہ نے کہا اور جو کفر اختیار کرے گا اس کو بھی میں کچھ عرصے کے لیے لطف اٹھانے کا موقع دوں گا، (مگر) پھر اسے دوزخ کے عذاب کی طرف کھینچ لے جاؤں گا۔ اور وہ بدترین ٹھکانا ہے۔
اور اس وقت کا تصور کرو جب ابراہیم بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے اور اسماعیل بھی (ان کے ساتھ شریک تھے، اور دونوں یہ کہتے جاتے تھے کہ) اے ہمارے پروردگار! ہم سے (یہ خدمت) قبول فرما لے۔ بیشک تو اور صرف تو ہی، ہر ایک کی سننے والا، ہر ایک کو جاننے والا ہے۔

تفسیر

بیت اللہ جسے کعبہ بھی کہتے ہیں در حقیقت حضرت آدمؑ کے وقت سے تعمیر چلا آتا ہے لیکن حضرت ابراہیمؑ کے دور میں وہ حوادث روزگار سے منہدم ہو چکا تھا، حضرت ابراہیمؑ کو اسے از سر نو انہی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا حکم ہوا تھا جو پہلے سے موجود تھیں اور اللہ تعالیٰ نے بذریعۂ وحی آپ کو بتا دی تھیں، اسی لئے قرآن کریم نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ وہ بیت اللہ تعمیر کر رہے تھے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ وہ اس کی بنیادیں اٹھا رہے تھے

آیت ۱۲۸، ۱۲۹

ترجمہ

اے ہمارے پروردگار! ہم دونوں کو اپنا مکمل فرمانبردار بنا لے اور ہماری نسل سے بھی ایسی امت پیدا کر جو تیری پوری تابع دار ہو اور ہم کو ہماری عبادتوں کے طریقے سکھا دے اور ہماری توبہ قبول فرما لے۔ بیشک تو اور صرف تو ہی معاف کر دینے کا خوگر (اور) بڑی رحمت کا مالک ہے۔
اور ہمارے پروردگار! ان میں ایک ایسا رسول بھی بھیجنا جو انہی میں سے ہو، جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، اور ان کو پاکیزہ بنائے۔ بیشک تیری اور صرف تیری ذات وہ ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے، جس کی حکمت بھی کامل۔

تفسیر

دل سے نکلی ہوئی اس دعا کی تاثیر کسی ترجمے کے ذریعے دوسری زبان میں منتقل نہیں کی جا سکتی چنانچہ ترجمہ صرف اس کا مفہوم ہی ادا کر سکتا ہے یہاں اس دعا کو نقل کرنے کا مقصد ایک تو یہ دکھانا ہے کہ انبیاء اپنے بڑے سے کارنامے پر بھی مغرور ہونے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور اور زیادہ عجز و نیاز کا مظاہرہ کرتے فرماتے ہیں اور اپنے کارنامے کا تذکرہ کرنے کے بجائے اپنی ان کوتاہیوں پر توبہ مانگتے ہیں جو اس کام کی ادائیگی میں ان سے سرزد ہونے کا امکان ہو دوسرے ان کا ہر کام صرف اللہ کی رضا جوئی کے لئے ہوتا ہے لہذا وہ اس پر مخلوق سے تعریف کرانے کی فکر کے بجائے اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دعا مانگتے ہیں۔ تیسرے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ آنحضرتﷺ کی تشریف آوری حضرت ابراہیمؑ کی دعا میں شامل تھی اور اس طرح خود حضرت ابراہیمؑ نے یہ تجویز دی تھی کہ آپ بنی اسماعیل میں سے مبعوث ہوں نہ کہ بنی اسرائیل میں سے۔ اس دعا میں حضرت ابراہیمؑ کی زبان سے حضور نبی کریمﷺ کی تشریف آوری کے بنیادی مقاصد بھی بیان فرما دیئے ہیں ان مقاصد کو قرآن کریم نے کئی مقامات پر بیان فرمایا ہے اور ان کی تشریح انشاء اللہ آگے اسی سورت کی آیت آیت ۱۵۱ میں آئے گی۔

آیت ۱۳۰، ۱۳۱

ترجمہ

اور کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے انحراف کرے؟ سوائے اس شخص کے جو خود اپنے آپ کو حماقت میں مبتلا کر چکا ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم نے دنیا میں انہیں (اپنے لیے) چن لیا تھا، اور آخرت میں ان کا شمار صالحین میں ہو گا۔
جب ان کے پروردگار نے ان سے کہا کہ سر تسلیم خم کر دو! تو وہ (فوراً) بولے میں نے رب العالمین کے (ہر حکم کے) آگے سر جھکا دیا۔

تفسیر

یہاں سر تسلیم خم کے نے کے لئے قرآن کریم نے‘‘ اسلام‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کے لفظی معنی سر جھکانے اور کسی کے مکمل تابع فرمان ہو جانے کے ہیں۔ ہمارے دین کا نام اسلام اسی لئے رکھا گیا ہے کہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنے ہر قول و فعل میں اللہ تعالیٰ ہی کا تابعدار بنے۔ حضرت ابراہیمؑ چونکہ شروع ہی سے مومن تھے اس لئے یہاں اللہ تعالیٰ کا مقصد ان کو ایمان لانے کی تلقین کرنا نہیں تھا اسی لئے یہاں اس لفظ کا ترجمہ اسلام لانے سے نہیں کیا گیا البتہ اگلی آیت میں حضرت ابراہیمؑ کی جو وصیت اپنی اولاد کے لئے مذکور ہے وہاں اسلام کے مفہوم میں دونوں باتیں داخل ہیں، دین برحق پر ایمان رکھنا بھی اور اس کے بعد اللہ کے ہر حکم کی تابعداری بھی۔ اس لئے وہاں لفظ‘‘ مسلم‘‘ ہی استعمال کیا گیا ہے۔

آیت ۱۳۲، ۱۳۳

ترجمہ

اور اسی بات کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی، اور یعقوب نے بھی (اپنے بیٹوں کو) کہ اے میرے بیٹو! اللہ نے یہ دین تمہارے لیے منتخب فرما لیا ہے، لہذا تمہیں موت بھی آئے تو اس حالت میں آئے کہ تم مسلم ہو۔
کیا اس وقت تم خود موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت آیا تھا۔ جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ تم میرے بعد کس کی عبادت کرو گے؟ ان سب نے کہا تھا کہ ہم اسی ایک خدا کی عبادت کریں گے جو آپ کا معبود ہے اور آپ کے باپ دادوں ابراہیم، اسماعیل اور اسحاق کا معبود ہے۔ اور ہم صرف اسی کے فرمانبردار ہیں۔

تفسیر

بعض یہودیوں نے کہا تھا کہ حضرت یعقوب (اسرائیل)ؑ نے اپنے انتقال کے وقت اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ وہ یہودیت کے دین پر رہیں، یہ آیت اس کا جواب ہے۔ اس آیت کو سورة آل عمران کی آیت ۶۵ کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو بات اور زیادہ واضح ہو جاتی ہے۔

آیت ۱۳۴ ۔ ۱۳۸

ترجمہ

وہ ایک امت تھی جو گزر گئی، جو کچھ انہوں نے کمایا وہ ان کا ہے اور جو کچھ تم نے کمایا وہ تمہارا ہے، اور تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا عمل کرتے تھے۔
اور یہ (یہودی اور عیسائی مسلمانوں سے) کہتے ہیں کہ تم یہودی یا عیسائی ہو جاؤ راہ راست پر آ جاؤ گے۔ کہہ دو کہ نہیں بلکہ (ہم تو) ابراہیم کے دین کی پیروی کریں گے جو ٹھیک ٹھیک سیدھی راہ پر تھے، اور وہ ان لوگوں میں سے نہ تھے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں۔
(مسلمانو) کہہ دو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور اس کلام پر بھی جو ہم پر اتارا گیا اور اس پر بھی جو ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد پر اتارا گیا، اور اس پر بھی جو موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا گیا اور اس پر بھی جو دوسرے پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے عطا ہوا۔ ہم ان پیغمبروں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے، اور ہم اسی (ایک خدا) کے تابع فرمان ہیں۔
اس کے بعد اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو تو یہ راہ راست پر آ جائیں گے۔ اور اگر یہ منہ موڑ لیں تو در حقیقت وہ دشمنی میں پڑ گئے ہیں۔ اب اللہ تمہاری حمایت میں عنقریب ان سے نمٹ لے گا، اور وہ ہر بات سننے والا، ہر بات جاننے والا ہے۔
(اے مسلمانو! کہہ دو کہ) ہم پر تو اللہ نے اپنا رنگ چڑھا دیا ہے اور کون ہے جو اللہ سے بہتر رنگ چڑھائے؟ اور ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں۔

تفسیر

اس میں عیسائیوں کی رسم بپتسمہ (Baptism) کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جسے اصطباغ (رنگ چڑھانا) بھی کہا جاتا ہے، کسی شخص کو عیسائی بنتے وقت وہ اسے غسل دیتے ہیں جو بعض اوقات رنگا ہوا پانی ہوتا ہے، ان کے خیال میں اس طرح اس پر عیسائی مذہب کا رنگ چڑھ جاتا ہے، یہ بپتسمہ پیدا ہونے والے بچوں کو بھی دیا جاتا ہے کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق ہر بچہ ماں کے پیٹ سے گنہگار پیدا ہوتا ہے اور جب تک وہ بپتسمہ نہ لے گا گنہگار رہتا ہے اور یسوع مسیح کے کفارے کا حق دار نہیں ہوتا، قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ اس بے سر و پا خیال کی کوئی حقیقت نہیں، رنگ چڑھانا ہے تو اللہ کا رنگ چڑھاؤ جو توحید خالص کا رنگ ہے۔

آیت ۱۳۹، ۱۴۰

ترجمہ

کہہ دو کہ کیا تم ہم سے اللہ کے بارے میں حجت کرتے ہو؟ حالانکہ وہ ہمارا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار (یہ) اور (بات ہے کہ) ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں، اور تمہارے عمل تمہارے لیے۔ اور ہم نے تو اپنی بندگی اسی کے لیے خالص کر لی ہے۔
بھلا کیا تم یہ کہتے ہو کہ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور ان کی اولادیں یہودی یا نصرانی تھیں؟ (مسلمانو! ان سے) کہو کیا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟ اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو ایسی شہادت کو چھپائے جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے پہنچی ہو؟ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بیخبر نہیں ہے۔

تفسیر

یہ حقیقت در اصل ان کو بھی معلوم ہے کہ یہ تمام انبیاء کرام توحید خالص کا درس دیتے رہے ہیں اور ان بے بنیاد عقیدوں سے انبیاء کرام کا کوئی تعلق نہیں ہے خود ان کی کتابوں میں یہ حقیقت واضح طور پر لکھی ہوئی موجود ہے اور ان میں نبی آخر الزمانﷺ کی بشارتیں بھی موجود ہیں جو ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی شہادت کا درجہ رکھتی ہیں، مگر یہ ظالم ان کو چھپائے بیٹھے ہیں۔

آیت ۱۴۱، ۱۴۲

ترجمہ

(بہرحال) وہ ایک امت تھی جو گزر گئی۔ جو کچھ انہوں نے کمایا وہ ان کا ہے، اور جو کچھ تم نے کمایا وہ تمہارا ہے، اور تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا عمل کرتے تھے؟
اب یہ بیوقوف لوگ کہیں گے کہ آخر وہ کیا چیز ہے جس نے ان (مسلمانوں) کو قبلے سے رخ پھیرنے پر آمادہ کر دیا جس کی طرف وہ منہ کرتے چلے آ رہے تھے؟ آپ کہہ دیجیے کہ مشرق اور مغرب سب اللہ ہی کی ہیں۔ وہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ کی ہدایت کر دیتا ہے۔

تفسیر

یہاں سے قبلے کی تبدیلی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کا تفصیلی بیان شروع ہو رہا ہے، واقعات کا پس منظر یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں آنحضرتﷺ بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا کرتے تھے، جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کو بیت المقدس کا رخ کرنے کا حکم دیا گیا، جس پر آپ تقریباً سترہ مہینے تک عمل کرتے رہے، اس کے بعد دوبارہ بیت اللہ شریف کو قبلہ قرار دے دیا گیا، تبدیلی کا یہ حکم آگے آیت نمبر ۱۴۴ میں آ رہا ہے، یہ آیت پیشین گوئی کر رہی ہے کہ یہودی اور عیسائی اس تبدیلی پر بڑے اعتراضات کریں گے، حالانکہ یہ حقیقت اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے ہر شخص کے لئے کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ قبلہ کی کوئی خاص سمت مقرر کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ قبلے کی سمت میں تشریف فرما ہیں، وہ تو ہر سمت اور ہر جگہ موجود ہے اور مشرق ہو یا مغرب شمال ہو یا جنوب، یہ ساری جہتیں اسی کی بنائی ہوئی ہیں، البتہ چونکہ مصلحت کا تقاضہ یہ ہے کہ اللہ کی عبادت کرتے وقت تمام مومنوں کے لئے کوئی ایک سمت مقرر کر دی جائے، اس لئے یہ مقصود ہے، جو کچھ تقدس کسی قبلہ یا اس کی سمت میں آتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے آتا ہے، چنانچہ وہ اپنی حکمت کے مطابق جب چاہے جس سمت کو چاہے قبلہ قرار دے سکتا ہے، ایک مومن کا سیدھا راستہ یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھ کر اللہ کے ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دے، آیت کے آخر میں سیدھی راہ کا جو ذکر ہے اس سے مراد اسی حقیقت کا ادراک ہے۔

آیت ۱۴۳

ترجمہ

اور (مسلمانو) اسی طرح تو ہم نے تم کو ایک معتدل امت بنایا ہے تاکہ تم دوسرے لوگوں پر گواہ بنو، اور رسول تم پر گواہ بنے اور جس قبلے پر تم پہلے کار بند تھے،۱ اسے ہم نے کسی اور وجہ سے نہیں، بلکہ صرف یہ دیکھنے کے لیے مقرر کیا تھا کہ کون رسول کا حکم مانتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے ۲؟ اور اس میں شک نہیں کہ یہ بات تھی بڑی مشکل، لیکن ان لوگوں کے لیے (ذرا بھی مشکل نہ ہوئی) جن کو اللہ نے ہدایت دے دی تھی۔ ۳ اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو ضائع کر دے۔ در حقیقت اللہ لوگوں پر بہت شفقت کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔

تفسیر

۱۔ یعنی جس طرح ہم نے اس آخری زمانے میں دوسری جہتوں کو چھوڑ کر کعبہ کی سمت کو قبلہ بننے کا شرف عطا فرمایا اور تمہیں اسے دل و جان سے قبول کرنے کی ہدایت دی، اسی طرح ہم نے تم کو دوسری امتوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ معتدل اور متوازن امت بنایا ہے (تفسیر کبیر) چنانچہ اس امت کی شریعت میں ایسے مناسب احکام رکھے گئے ہیں جو قیام قیامت تک انسانیت کی صحیح رہنمائی کر سکیں، معتدل امت کی یہ خصوصیت بھی اس آیت میں بیان فرمائی گئی ہے کہ اس امت کو قیامت کے دن انبیاء کرام کے گواہ کے طور پر پیش کیا جائے گا، اس کی تفصیل صحیح بخاری کی ایک حدیث میں یہ بیان ہوئی ہے کہ جب پچھلے انبیاء کرام کی امتوں میں سے کافر لوگ صاف انکار کر دیں گے کہ ہمارے پاس کوئی نبی نہیں آیا تھا تو امت محمدیہ کے لوگ انبیائے کرام کے حق میں گواہی دیں گے کہ انہوں نے رسالت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی اپنی امتوں کو پوری طرح اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا تھا اور اگرچہ ہم خود اس موقع پر موجود نہیں تھے، لیکن ہمارے نبی کریمﷺ محمد مصطفیٰﷺ نے وحی سے باخبر ہو کر ہم کو یہ بات بتلا دی تھی اور ہمیں ان کی بات پر اپنے ذاتی مشاہدے سے زیادہ اعتماد ہے۔
دوسری طرف رسول کریمﷺ اپنی امت کی اس بات کی تصدیق فرمائیں گے، نیز مفسرین نے امت محمدیہ کے گواہ ہونے کے یہ معنی بھی کئے ہیں کہ شہادت سے مراد حق کی دعوت وتبلیغ ہے اور یہ امت پوری انسانیت کو اسی طرح حق کا پیغام پہنچائے گی جس طرح آنحضرتﷺ نے ان کو پہنچایا تھا۔ باتیں دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں اور ان میں کوئی تعارض بھی نہیں۔
۲، مطلب یہ ہے کہ پہلے کچھ عرصے کے لئے بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا جو حکم ہم نے دیا تھا اس کا مقصد یہ امتحان لینا تھا کہ کون قبلے کی اصل حقیقت کو سمجھ کر اللہ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے اور کون ہے جو کسی ایک قبلے کو بذات خود ہمیشہ کے لئے مقدس مان کر اللہ کے بجائے اسی کی عبادت شروع کر دیتا ہے، قبلے کی تبدیلی سے یہی واضح کرنا مقصود تھا کہ عبادت بیت اللہ کی نہیں اللہ کی کرنی ہے، ورنہ اس میں اور بت پرستی میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ اگلے جملے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ جو لوگ صدیوں سے بیت اللہ کو قبلہ مانتے چلے آ رہے تھے ان کے لئے اچانک بیت المقدس کی طرف رخ موڑ دینا کوئی آسان بات نہ تھی، کیونکہ صدیوں سے دلوں پر حکمرانی کرنے والے اعتقادات کو یکایک بدل لینا بڑا مشکل ہوتا ہے، لیکن جن لوگوں کو اللہ نے یہ سمجھ عطا فرمائی کہ کسی بھی چیز میں کوئی ذاتی تقدس نہیں اور اصل تقدس اللہ تعالیٰ کے حکم کو حاصل ہے ان کو نئے قبلے کی طرف رخ کرنے میں ذرا بھی دقت پیش نہیں آئی، کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ ہم پہلے بھی اللہ کے بندے اور اس کے تابع فرمان تھے اور آج بھی اسی کے حکم پر ایسا کر رہے ہیں۔
۳، اس سلسلہ کلام میں اس جملے کا ایک مطلب تو حضرت حسن بصریؒ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اگرچہ نئے قبلے کو اختیار کر لینا مشکل تھا، لیکن جن لوگوں نے اپنی قوت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اسے بے چون و چرا مان لیا اللہ تعالیٰ ان کے اس ایمانی جذبے کو ضائع نہیں کرے گا، بلکہ انہیں اس کا عظیم اجر ملے گا (تفسیر کبیر) دوسرے یہ جملہ ایک سوال کا جواب بھی ہے جو بعض صحابہ کے دل میں پیدا ہوا تھا اور وہ یہ کہ جو مسلمان اس وقت انتقال فرما گئے تھے جب قبلہ بیت المقدس تھا تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کی وہ نمازیں جو انہوں نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے پڑھی تھیں قبلے کی تبدیلی کے بعد ضائع اور کالعدم ہو جائیں؟ آیت نے جواب دے دیا کہ نہیں چونکہ انہوں نے اپنے ایمانی جذبے کے تحت وہ نمازیں اللہ ہی کے حکم کی تعمیل میں پڑھی تھیں اس لئے وہ نمازیں ضائع نہیں ہوں گی۔

آیت ۱۴۴

ترجمہ

(اے پیغمبر) ہم تمہارے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ چنانچہ ہم تمہارا رخ ضرور اس قبلے کی طرف پھیر دیں گے ۱ جو تمہیں پسند ہے لو اب اپنا رخ مسجد حرام کی سمت کر لو، اور (آئندہ) جہاں کہیں تم ہو اپنے چہروں کا رخ (نماز پڑھتے ہوئے) اسی کی طرف رکھا کرو۔ اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ یہی بات حق ہے ۲ جو ان کے پروردگار کی طرف سے آئی ہے اور جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔

تفسیر

۱۔ جب بیت المقدس کو قبلہ بنایا گیا تو آنحضرتﷺ کو یہ اندازہ تھا کہ یہ حکم عارضی ہے اور چونکہ بیت اللہ بیت المقدس کے مقابلے میں زیادہ قدیم بھی تھا اور اس سے حضرت ابراہیمؑ کی یادیں بھی وابستہ تھیں، اس لئے آپ کی طبعی خواہش بھی یہی تھی کے اسی کو قبلہ بنایا جائے، چنانچہ آنحضرتﷺ قبلے کی تبدیلی کے انتظار اور اشتیاق میں کبھی کبھی آسمان کی طرف منہ اٹھا کر دیکھتے تھے، اس آیت میں آپ کی اسی کیفیت کو بیان کیا گیا ہے۔
۲۔ یعنی اہل کتاب اچھی طرح جانتے ہیں کہ قبلے کی تبدیلی کا جو حکم دیا گیا ہے وہ بالکل برحق ہے، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ لوگ حضرت ابراہیمؑ کو مانتے تھے اور یہ بات تاریخی طور پر ثابت تھی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مکہ میں کعبہ تعمیر کیا تھا بلکہ بعض مورخین نے خود تورات کے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کی تمام اولاد (بشمول حضرت اسحاقؑ) کا قبلہ کعبہ ہی تھا۔

آیت ۱۴۵

ترجمہ

اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی تھیا گر تم ان کے پاس ہر قسم کی نشانیاں لے آؤ تب بھی یہ تمہارے قبلے کی پیروی نہیں کریں گے۔ اور نہ تم ان کے قبلے پر عمل کرنے والے ہو، نہ یہ ایک دوسرے کے قبلے پر عمل کرنے والے ہیں اور جو علم تمہارے پاس آ چکا ہے اس کے بعد اگر کہیں تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کر لی تو اس صورت میں یقیناً تمہارا شمار ظالموں میں ہو گا۔

تفسیر

وَمَا أَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَہُمْ، میں یہ اعلان کر دیا گیا کہ اب قیامت تک کے لئے آپ کا قبلہ بیت اللہ ہی رہے گا، اس سے یہود و نصاریٰ کے ان خیالات کا قطع کرنا مقصود تھا کہ مسلمانوں کے قبلہ کو تو کوئی قرار نہیں۔
وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَہْوَاءَہُمْ، یہ خطاب رسول اللہﷺ کو بطور فرض محال کے ہے جس کے وقوع کا کوئی احتمال نہیں، اور در اصل سنانا امت محمدیہ کو ہے کہ اس کی خلاف ورزی نہ کریں۔

آیت ۱۴۶

ترجمہ

جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کو اتنی اچھی طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں۔ اور یقین جانو کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے حق کو جان بوجھ کر چھپا رکھا ہے۔

تفسیر

اس آیت میں رسول کریمﷺ کو بحیثیت رسول پہچاننے کی تشبیہ اپنے بیٹوں کو پہچاننے کے ساتھ دی گئی ہے، کہ یہ لوگ جس طرح اپنے بیٹوں کو پوری طرح پہچانتے ہیں، ان میں کبھی شبہ و اشتباہ نہیں ہوتا، اسی طرح تورات و انجیل میں جو رسول اللہﷺ کی بشارت اور آپﷺ کی واضح علامات و نشانات کا ذکر آیا ہے، اس کے ذریعے یہ لوگ رسول اللہﷺ کو بھی یقینی طور سے جانتے پہچانتے ہیں ان کا انکار محض عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ہے۔

آیت ۱۴۷، ۱۴۸

ترجمہ

اور حق وہی ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے آیا ہے، لہذا شک کرنے والوں میں ہرگز شامل نہ ہو جانا۔
اور ہر گروہ کی ایک سمت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے۔ لہذا تم نیک کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ تم جہاں بھی ہو گے اللہ تم سب کو (اپنے پاس) لے آئے گا۔ یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

تفسیر

جو لوگ قبلے کی تبدیلی پر اعتراض کر رہے تھے ان پر حجت تمام کرنے کے بعد مسلمانوں کو یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ ہر مذہب کے لوگوں نے اپنے اپنے قبلے الگ الگ بنا رکھے ہیں اور تمہارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ اس دنیا میں ان کو کسی ایک قبلے پر جمع کر سکو، لہذا اب ان لوگوں سے قبلے کی بحث میں پڑنے کے بجائے تمہیں اپنے کام میں لگ جانا چاہئے اور وہ یہ ہے کہ اپنے نامہ اعمال میں زیادہ سے زیادہ نیکیوں کا اضافہ کرو اور اس کام میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو، آخری انجام یہ ہو گا کہ تمام مذہبوں والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے پاس بلائے گا اور اس وقت ان سب کی ترکی تمام ہو جائے گی وہاں سب کا قبلہ ایک ہی ہو جائے گا، کیونکہ سب اللہ کے سامنے کھڑے ہوں گے۔

آیت ۱۴۹

ترجمہ

اور تم جہاں سے بھی (سفر کے لیے) نکلو، اپنا منہ (نماز کے وقت) مسجد حرام کی طرف کرو، اور یقیناً یہی بات ہے جو تمہارے پروردگار کی طرف سے آئی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے بیخبر نہیں ہے۔

تفسیر

اللہ تعالیٰ نے مسجد حرام کی طرف رخ کرنے کا حکم ان آیتوں میں تین مرتبہ دہرایا ہے، اس سے ایک تو حکم کی اہمیت اور تاکید جتلانی مقصود ہے، دوسرے یہ بھی بتانا ہے کہ قبلے کا رخ کرنا صرف اس حالت میں نہیں ہے جب کوئی شخص بیت اللہ کے سامنے موجود ہو، بلکہ جب مکہ مکرمہ سے نکلا ہوا ہو تب بھی یہی حکم ہے اور کہیں دور چلا جائے تب بھی یہ فریضہ ختم نہیں ہوتا، البتہ یہاں اللہ تعالیٰ نے سمت کا لفظ استعمال فرما کر اس طرف بھی اشارہ کر دیا ہے کہ کعبے کا رخ کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان کعبے کی سوفیصد سیدھ میں ہو بلکہ اگر سمت وہی ہے تو کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم پورا ہو جائے گا اور انسان اس معاملے میں اتنا ہی مکلف ہے کہ وہ اپنے بہترین ذرائع استعمال کر کے سمت صحیح متعین کر لے ایسا کر لینے کے بعد اس کی نماز ہو جائے گی۔

آیت ۱۵۰

ترجمہ

اور جہاں سے بھی تم نکلو، اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرو، اور تم جہاں کہیں ہو اپنے چہرے اسی کی طرف رکھو تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف حجت بازی کا موقع نہ ملے البتہ ان میں جو لوگ ظلم کے خوگر ہیں (وہ کبھی خاموش نہ ہوں گے) سو ان کا کچھ خوف نہ رکھو، ہاں میرا خوف رکھ اور تاکہ میں تم پر اپنا انعام مکمل کر دو اور تاکہ تم ہدایت حاصل کر لو۔

تفسیر

اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بیت المقدس قبلہ تھا، یہودی یہ حجت کرتے تھے کہ دیکھو ہمارا دین برحق ہے، اسی لے یہ لوگ ہمارے قبلے کو اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اور مشرکین مکہ یہ بحث کرتے تھے کہ مسلمان اپنے آپ کو حضرت ابراہیمؑ کا متبع کہتے ہیں مگر انہوں نے ابراہیمی قبلے کو چھوڑ کر ان سے سنگین انحراف کر لیا ہے، اب جبکہ قبلے کی تبدیلی میں جو مصلحت تھی وہ حاصل ہو گئی اور اس کے بعد مسلمان ہمیشہ کے لئے کعبے کو قبلہ قرار دے کر اس پر عمل پیرا ہوں گے تو ان دونوں کی حجتیں ختم ہو جائیں گی، البتہ وہ کٹ حجت لوگ جنہوں نے اعتراض کرتے رہنے کی قسم ہی کھا رکھی ہے ان کی زبانیں کوئی نہیں روک سکتا، لیکن مسلمانوں کو ان سے خوف کھانے کی ضرورت نہیں ہے، انہیں اللہ کے سوا کسی سے ڈرنا نہیں چاہئے۔

آیت ۱۵۱

ترجمہ

(یہ انعام ایسا ہی ہے) جیسے ہم نے تمہارے درمیان تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہارے سامنے ہماری آیتوں کی تلاوت کرتا ہے اور تمہیں پاکیزہ بناتا ہے، اور تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔

تفسیر


حضرت ابراہیمؑ نے کعبے کی تعمیر کے وقت دو دعائیں کی تھیں، ایک یہ کہ ہماری نسل سے ایسی امت پیدا فرمائیے جو آپ کی مکمل فرمانبردار ہو، اور دوسری یہ کہ ان میں ایک رسول بھیجئے (دیکھئے پیچھے آیات ۱۲۸۔ ۱۲۹) اللہ تعالیٰ نے پہلی دعا اس طرح قبول فرمائی کہ امت محمدیہ (علی صاحبہا السلام) کو معتدل امت قرار دے کر پیدا فرمایا (دیکھئے آیت ۱۴۳) اب اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جس طرح ہم نے حضرت ابراہیمؑ کی دعا قبول کرتے ہوئے تم پر یہ انعام فرمایا کہ تمہیں معتدل امت بنا کر آئندہ ہمیشہ کے لئے انسانیت کی رہنمائی تمہیں عطا کر دی، جس کی ایک اہم علامت یہ بھی ہے کہ ہمیشہ کے لئے کعبے کو قبلہ بنا دیا گیا ہے، اسی طرح ہم نے حضرت ابراہیمؑ کی دوسری دعا قبول کرتے ہوئے رسول اکرمﷺ کو تمہارے درمیان بھیج دیا ہے، جو انہی خصوصیات اور فرائض منصبی کے حامل ہیں جو حضرت ابراہیمؑ نے ان کے لئے مانگے تھے، ان میں سے پہلا فریضہ تلاوت آیات ہے، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی آیات کو تلاوت کرنا بذات خود ایک مقصد اور ایک نیکی ہے، خواہ تلاوت آیات بغیر سمجھے کی جائے، کیونکہ قرآن کے معنی کی تعلیم آگے ایک مستقل فریضے کے طور پر بیان کی گئی ہے، دوسرا مقصد قرآن کریم کی تعلیم ہے، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آنحضرتﷺ کی تعلیم کے بغیر قرآن کریم کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا ممکن نہیں ہے، اور یہ کہ صرف ترجمہ پڑھ لینے سے قرآن کریم کی صحیح سمجھ حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ اہل عرب عربی زبان سے خوب واقف تھے، انہیں ترجمہ سکھانے کے لئے کسی استاذ کی ضرورت نہیں تھی، تیسرے آپ کا فریضہ یہ بتایا گیا ہے کہ آپ حکمت کی تعلیم دیں، اس سے معلوم ہوا کہ حکمت و دانائی اور عقلمندی وہی ہے جو آنحضرتﷺ نے تلقین فرمائی، اس سے نہ صرف آپ کی احادیث کا حجت ہونا معلوم ہوتا ہے بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اگر آپ کا کوئی حکم کسی کو اپنی عقل کے لحاظ سے حکمت کے خلاف محسوس ہو تو اعتبار اس کی عقل کا نہیں بلکہ آنحضرتﷺ کی سکھائی ہوئی حکمت کا ہے، چوتھا فریضہ یہ بتایا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو پاکیزہ بنائیں اس سے مراد آپ کی عملی تربیت ہے، جس کے ذریعے آپ نے صحابہ کرام کے اخلاق اور باطنی صفات کو گندے جذبات سے پاک کر کے انہیں اعلی درجے کی خصوصیات سے آراستہ فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن و سنت کا صرف کتابی علم بھی انسان کی اصلاح کے لئے کافی نہیں ہے، جب تک اس نے اس علم کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی عملی تربیت نہ لی ہو، آنحضرتﷺ نے صحابہ کو اپنی صحبت سے سرفراز فرما کر ان کی تربیت فرمائی، پھر صحابہ نے تابعین کی اور تابعین نے تبع تابعین کی اسی طرح تربیت کی، اور یہ سلسلہ صدیوں سے اسی طرح چلا آتا ہے، باطنی اخلاق کی اسی تربیت کا علم علم احسان یا تزکیہ کہلاتا ہے اور تصوف بھی در حقیقت اسی علم کا نام تھا اگرچہ بعض نا اہلوں نے اس میں غلط خیالات کی ملاوٹ کر کے بعض مرتبہ اسے خراب بھی کر دیا، لیکن اس کی اصل یہی تزکیہ ہے جس کا ذکر قرآن کریم نے یہاں فرمایا ہے، اور ہر دور میں تصوف کی اصل حقیقت کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے والے ہمیشہ موجود رہے ہیں۔

آیت ۱۵۲، ۱۵۳

ترجمہ

اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے۔ لہذا مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ اور میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔
اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

تفسیر

اس سورت کی آیت نمبر ۴۰ سے بنی اسرائیل سے متعلق جو سلسلہ کلام شروع ہوا تھا وہ پورا ہو گیا اور آخر میں مسلمانوں کو ہدایت کر دی گئی کہ وہ فضول بحثوں میں الجھنے کے بجائے اپنے دین پر زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی طرف متوجہ ہوں، چنانچہ اب مختلف اسلامی عقائد اور احکام کا بیان شروع ہو رہا ہے، اس بیان کا آغاز صبر کی تاکید سے ہوا ہے، کیونکہ یہ دور وہ ہے جس میں مسلمانوں کو اپنے دین پر عمل اور اس کی تبلیغ میں دشمنوں کی طرف سے طرح طرح کی رکاوٹیں پیش آ رہی تھیں، اسی زمانے میں جنگوں کا سلسلہ بھی جاری تھا اور بہت سی سختیاں برداشت کرنی پڑرہی تھیں، جنگوں میں اپنے عزیز رشتہ دار اور دوست شہید بھی ہو رہے تھے یا ہونے والے تھے۔ لہذا اب مسلمانوں کو تلقین کی جا رہی ہے کہ دین حق کے راستے میں یہ آزمائشیں تو پیش آنی ہیں، ایک مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر راضی رہ کر صبر کا مظاہرہ کرے، واضح رہے کہ صبر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کسی تکلیف یا صدمہ پر روئے نہیں، صدمے کی بات پر رنج کرنا انسان کی فطرت میں داخل ہے اس لئے شریعت نے اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی، جو رونا بے اختیار آ جائے وہ بھی بے صبری میں داخل نہیں، البتہ صبر کا مطلب یہ ہے کہ صدمے کے باوجود اللہ تعالیٰ سے کوئی شکوہ نہ ہو، بلکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر انسان عقلی طور پر راضی رہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ڈاکٹر آپریشن کرے تو انسان کو تکلیف تو ہوتی ہے اور بعض اوقات اس تکلیف کی وجہ سے انسان بیساختہ چلا بھی اٹھتا ہے، لیکن اسے ڈاکٹر سے شکایت نہیں ہوتی، کیونکہ اسے یقین ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے اس کی ہمدردی میں اور اس کی مصلحت کی خاطر کر رہا ہے۔

آیت ۱۵۴ ۔ ۱۵۶

ترجمہ

اور جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوں ان کو مردہ نہ کہو، در اصل وہ زندہ ہیں مگر تم کو (ان کی زندگی کا) احساس نہیں ہوتا
اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔
یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ‘‘ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

تفسیر

اس فقرے میں پہلے تو اس حقیقت کا اظہار ہے کہ چونکہ ہم سب اللہ کی ملکیت میں ہیں اس لئے اسے ہمارے بارے میں ہر فیصلہ کرنے کا اختیار ہے اور چونکہ ہم اس کے ہیں اور کوئی بھی اپنی چیز کا برا نہیں چاہتا، اس لئے ہمارے بارے میں اس کا ہر فیصلہ خود ہماری مصلحت میں ہو گا، چاہے فی الحال ہمیں وہ مصلحت سمجھ میں نہ آ رہی ہو، دوسری طرف اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ایک دن ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کے پاس اسی جگہ جانا ہے جہاں ہمارا کوئی عزیز یا دوست گیا ہے، لہذا یہ جدائی عارضی ہے ہمیشہ کے لئے نہیں ہے اور جب ہم اس کے پاس لوٹ کر جائیں گے تو ہمیں اس صدمے یا تکلیف پر انشاء اللہ ثواب بھی ملنا ہے، جب یہ اعتقاد دل میں ہو تو اسی کا نام صبر ہے، خواہ اس کے ساتھ ساتھ بے اختیار آنسوں بھی نکل رہے ہوں۔

آیت ۱۵۷، ۱۵۸

ترجمہ

یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں، اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں۔
بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، لہذا جو شخص بھی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس کے لیے اس بات میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ ان کے درمیان چکر لگائے اور جو شخص خوشی سے کوئی بھلائی کا کام کرے تو اللہ یقیناً قدر دان (اور) جاننے والا ہے۔

تفسیر

صفا اور مروہ مکہ مکرمہ میں دو پہاڑیاں ہیں، جب حضرت ابراہیمؑ اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہؓ کو اپنے دودھ پیتے صاحبزادے اسماعیلؑ کے ساتھ چھوڑ کر گئے تو حضرت ہاجرہؓ پانی کی تلاش میں ان پہاڑیوں کے درمیان دوڑی تھیں، حج اور عمرے میں اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان سعی کرنا واجب قرار دیا ہے، اگرچہ سعی واجب ہے مگر یہاں‘‘ کوئی گناہ نہیں‘‘ کے الفاظ اس لئے استعمال فرمائے گئے ہیں کہ زمانۂ جاہلیت میں یہاں دو بت رکھ دئے گئے تھے جو اگرچہ بعد میں ہٹا لئے گئے مگر بعض صحابہ کو یہ شک ہوا کہ شاید ان پہاڑیوں کے درمیان دوڑنا جاہلیت کی نشانی ہونے کی وجہ سے گناہ ہو، آیت نے یہ شک دور کر دیا۔

آیت ۱۵۹

ترجمہ

بیشک وہ لوگ جو ہماری نازل کی ہوئی روشن دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم انہیں کتاب میں کھول کھول کر لوگوں کے لیے بیان کر چکے ہیں (۱۰۴) تو ایسے لوگوں پر اللہ بھی لعنت بھیجتا ہے اور دوسرے لعنت کرنے والے بھی لعنت بھیجتے ہیں۔

تفسیر

اشارہ ان یہودیوں اور عیسائیوں کی طرف ہے جو پچھلی آسمانی کتابوں میں مذکور ان بشارتوں کو چھپاتے تھے جو آنحضرتﷺ کے بارے میں نازل ہوئی تھیں

آیت ۱۶۰ ۔ ۱۶۴

ترجمہ

ہاں وہ لوگ جنہوں نے توبہ کر لی ہو اور اپنی اصلاح کر لی ہو (اور چھپائی ہوئی باتوں کو) کھول کھول کر بیان کر دیا ہو تو میں ایسے لوگوں کی توبہ قبول کر لیتا ہوں، اور میں توبہ قبول کرنے کا خوگر ہوں بڑا رحمت والا۔
بیشک وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کیا اور کافر ہونے کی حالت ہی میں مرے، ان پر اللہ کی اور فرشتوں کی اور سارے انسانوں کی لعنت ہے
وہ ہمیشہ اسی پھٹکار میں رہیں گے، نہ ان پر سے عذاب کو ہلکا کیا جائے گا اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی
اور، تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں جو سب پر مہربان، بہت مہربان ہے۔
بیشک آسمان اور زمین کی تخلیق میں رات دن کے لگاتار آنے جانے میں ان کشتیوں میں جو لوگوں کے فائدے کا سامان لے کر سمندر میں تیرتی ہیں اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا اور اس کے ذریعے زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندگی بخشی اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے، اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع دار بن کر کام میں لگے ہوئے ہیں، ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہی نشانیاں ہیں جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں۔

تفسیر

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ کائنات کے ان حقائق کی طرف توجہ دلائی ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے پھیلے پڑے ہیں اور اگر ان پر معقولیت کے ساتھ غور کیا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید پر دلالت کرتے ہیں، چونکہ روزہ مرہ ان کو دیکھتے دیکھتے ہماری نگاہیں ان کی عادی ہو گئی ہیں، اس لئے ان میں کوئی حیرت کی بات ہمیں محسوس نہیں ہوتی ورنہ ان میں سے ایک ایک چیز ایسے محیرالعقول نظام کا حصہ ہے جس کی تخلیق اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے سوا کائنات کی کسی طاقت کے بس میں نہیں ہے، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات جس طرح کام کر رہی ہیں، چاند اور سورج جس طرح ایک لگے بندھے نظام الاوقات کے تحت دن رات سفر میں ہیں، سمندر جس طرح نہ صرف پانی کا ذخیرہ کئے ہوئے ہے، بلکہ کشتیوں کے ذریعے خشکی کے مختلف حصوں کو جوڑے ہوئے ہے اور ان کی ضرورت کا سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہا ہے، بادل اور ہوائیں جس انداز میں انسانوں کی زندگی کا سامان مہیا کر رہے ہیں ان سب چیزوں کے بارے میں بدترین حماقت کے بغیر یہ سمجھنا ممکن نہیں ہے کہ یہ سب کچھ خود بخود کسی خالق کے بغیر ہو رہا ہے، مشرکین عرب بھی یہ مانتے تھے کے یہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہے، لیکن ساتھ ہی وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ان تمام کاموں میں کئی دیوتا اس کے مددگار ہیں، قرآن کریم فرماتا ہے کہ جس ذات کی قدرت اتنی عظیم ہے کہ یہ سارا نظام کائنات اس نے بلا شرکت غیرے پیدا کر دیا ہے آخر اسے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے کسی شریک یا مددگار کی کیا ضرورت ہے، لہذا جو شخص بھی اپنی عقل کو کام میں لائے گا اسے کائنات کی ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی توحید نظر آئے گی۔

آیت ۱۶۵ ۔ ۱۶۸

ترجمہ

اور (اس کے باوجود) لوگوں میں کچھ وہ بھی ہیں جو اللہ کے علاوہ دوسروں کو اس کی خدائی میں اس طرح شریک قرار دیتے ہیں کہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسے اللہ کی محبت (رکھنی چاہئے) اور جو لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں، اور کاش کہ یہ ظالم جب (دنیا میں) کوئی تکلیف دیکھتے ہیں اسی وقت یہ سمجھا لیا کریں کہ تمام تر طاقت اللہ ہی کو حاصل ہے اور یہ کہ اللہ کا عذاب (آخرت میں) اس وقت بڑا سخت ہو گا۔
جب وہ (پیشوا) جن کے پیچھے یہ لوگ چلتے رہے ہیں، اپنے پیروکاروں سے مکمل بے تعلقی کا اعلان کریں گے اور یہ سب لوگ عذاب کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیں گے، اور ان کے تمام باہمی رشتے کٹ کر رہ جائیں گے
اور جنہوں نے ان (پیشواؤں) کی پیروی کی تھی وہ کہیں گے کہ کاش ہمیں ایک مرتبہ پھر (دنیا میں) لوٹنے کا موقع دے دیا جائے تو ہم بھی ان (پیشواؤں) سے اسی طرح بے تعلقی کا اعلان کریں جیسے انہوں نے ہم سے بے تعلقی کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح اللہ انہیں دکھا دے گا کہ ان کے اعمال (آج) ان کے لیے حسرت ہی حسرت بن چکے ہیں اور اب وہ کسی صورت دوزخ سے نکلنے والے نہیں ہیں۔
اے لوگو! زمین میں جو حلال پاکیزہ چیزیں ہیں وہ کھاؤ (۱۰۶) اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو کہ وہ تمہارے لیے ایک کھلا دشمن ہے۔

تفسیر

مشرکین عرب کی ایک گمراہی یہ تھی کہ انہوں نے کسی آسمانی تعلیم کے بغیر مختلف چیزوں کے بارے میں حلال و حرام کے فیصلے خود گھڑ رکھے تھے مثلاً مردار جانور کو کھانا ان کے نزدیک جائز تھا مگر بہت سے حلال جانوروں کو انہوں نے اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا، جس کی تفصیل سورة انعام میں آئے گی، یہ آیت ان کی اسی گمراہی کی تردید میں نازل ہوئی ہیں۔

آیت ۱۶۹ ۔ ۱۷۳

ترجمہ

وہ تو تم کو یہی حکم دے گا کہ تم بدی اور بے حیائی کے کام کرو اور اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاؤ جن کا تمہیں علم نہیں ہے۔
اور جب ان (کافروں) سے کہا جاتا ہے کہ اس کلام کی پیروی کرو جو اللہ نے اتارا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں! ہم تو ان باتوں کی پیروی کریں گے جن پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے۔ بھلا کیا اس صورت میں بھی (ان کو یہی چاہئے) جب ان کے باپ دادے (دین کی) ذرا بھی سمجھ نہ رکھتے ہوں، اور انہوں نے کوئی (آسمانی) ہدایت بھی حاصل نہ کی ہو؟
اور جن لوگوں نے کفر کو اپنا لیا ہے ان (کو حق کی دعوت دینے) کی مثال کچھ ایسی ہے جیسے کوئی شخص ان (جانوروں) کو زور زور سے بلائے جو ہانک پکار کے سوا کچھ نہیں سنتے۔ یہ بہرے، گونگے اندھے ہیں، لہذا کچھ نہیں سمجھتے۔
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں رزق کے طور پر عطا کی ہیں، ان میں سے (جو چاہو) کھاؤ، اور اللہ کا شکر ادا کرو، اگر واقعی تم صرف اسی کی بندگی کرتے ہو۔
اس نے تو تمہارے لئے بس مردار جانور، خون اور سور حرام کیا ہے، نیز وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو۔ ہاں اگر کوئی شخص انتہائی مجبوری کی حالت میں ہو (اور ان چیزوں میں سے کچھ کھا لے) جبکہ اس کا مقصد نہ لذت حاصل کرنا ہو اور نہ وہ (ضرورت کی) حد سے آگے بڑھے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ یقیناً اللہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔

تفسیر

اس آیت میں تمام حرام چیزوں کا احاطہ کرنا مقصود نہیں بلکہ مقصد یہ جتلانا ہے کہ جن جانوروں کو تم نے حرام سمجھ رکھا ہے وہ تو اللہ نے حرام نہیں کئے، تم خوامخواہ ان کی حرمت اللہ کے ذمے لگا رہے ہو، البتہ کئی چیزیں ایسی ہیں جن کو تم حرام نہیں سمجھتے مگر اللہ نے انہیں حرام قرار دیا ہے، حرام چیزیں وہ نہیں ہیں جو تم سمجھ رہے ہو حرام تو وہ ہیں جنہیں تم نے حلال سمجھا ہوا ہے۔

آیت ۱۷۴ ۔ ۱۷۷

ترجمہ

حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت وصول کر لیتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ کے سوا کچھ نہیں بھر رہے، قیامت کے دن اللہ ان سے کلام بھی نہیں کرے گا، اور نہ ان کو پاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی اور مغفرت کے بدلے عذاب کی خریداری کر لی ہے۔ چنانچہ (اندازہ کرو کہ) یہ دوزخ کی آگ سہنے کے لیے کتنے تیار ہیں۔
یہ سب کچھ اس لئے ہو گا کہ اللہ نے حق پر مشتمل کتاب اتاری ہے، اور جن لوگوں نے ایسی کتاب کے بارے میں مخالفت کا رویہ اختیار کیا ہے وہ ضدا ضدی میں بہت دور نکل گئے ہیں۔
نیکی بس یہی تو نہیں ہے کہ اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی طرف کر لو، بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر، آخرت کے دن پر، فرشتوں پر اور اللہ کی کتابوں اور اس کے نبیوں پر ایمان لائیں، اور اللہ کی محبت میں اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں کو دیں، اور غلاموں کو آزاد کرانے میں خڑچ کریں، اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں، اور جب کوئی عہد کر لیں تو اپنے عہد کو پورا کرنے کے عادی ہوں، اور تنگی اور تکلیف میں نیز جنگ کے وقت صبر و استقلال کے خوگر ہوں۔ ایسے لوگ ہیں جو سچے (کہلانے کے مستحق) ہیں، اور یہی لوگ ہیں جو متقی ہیں۔

تفسیر

روئے سخن ان اہل کتاب کی طرف ہے جنہوں نے قبلے کے مسئلے پر بحث و مباحثہ اس انداز سے شروع کر رکھا تھا جیسے دین میں اس سے زیادہ اہم کوئی مسئلہ نہیں ہے، مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ قبلے کے مسئلے کی جتنی وضاحت ضروری تھی وہ ہو چکی ہے، اب آپ کو دین کے دوسرے اہم مسائل کی طرف توجہ دینی چاہئے اور اہل کتاب سے بھی یہ کہنا چاہئے کہ قبلے کے مسئلے پر بحث سے زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ اپنا ایمان درست کرو اور وہ صفات پیدا کرو جو ایمان کو مطلوب ہیں، اس سلسلے میں آگے قرآن کریم نے نیکی کے مختلف شعبے بیان فرمائے ہیں اور اسلامی قانون کے مختلف احکام کی وضاحت کی ہے جو ایک ایک کر کے آگے آ رہے ہیں۔

آیت ۱۷۸

ترجمہ

اے ایمان والو! جو لوگ (جان بوجھ کر ناحق) قتل کر دیے جائیں ان کے بارے میں تم پر قصاص (کا حکم) فرض کر دیا گیا ہے، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت (ہی کو قتل کیا جائے)، ۱ پھر اگر قاتل کو اس کے بھائی) یعنی مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے تو معروف طریقے کے مطابق (خوں بہا کا) مطالبہ کرنا (وارث کا) حق ہے، اور اسے خوش اسلوبی سے ادا کرنا (قاتل کا) فرض ہے۔ ۲ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک آسانی پیدا کی گئی ہے اور ایک رحمت ہے، اس کے بعد بھی کوئی زیادتی کرے تو وہ دردناک عذاب کا مستحق ہے۔ ۳

تفسیر

۱۔ قصاص کا مطلب ہے برابر کا بدلہ لینا، اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کو جان بوجھ کر ناحق قتل کر دیا جائے اور قاتل کا جرم ثابت ہو جائے تو مقتول کے وارث کو حق حاصل ہے کہ وہ قاتل سے قصاص کا مطالبہ کرے، جاہلیت کے زمانے میں اگرچہ قصاص تو لیا جاتا تھا لیکن اس میں نا انصافی یہ تھی کہ انہوں نے مختلف انسانوں کے جو درجے اپنے خیال میں مقرر کر رکھے تھے ان کے لحاظ سے اگر نچلے درجے کے کسی شخص نے اونچے درجے کے کسی آدمی کو قتل کر دیا تو ورثاء کا مطالبہ یہ ہوتا تھا کہ قاتل کے بجائے اس کے قبیلے کے کسی دوسرے آدمی کو قتل کیا جائے جو رتبے میں مقتول کے برابر ہو، چنانچہ اگر ایک غلام نے کسی آزاد آدمی کو قتل کر دیا ہو تو مطالبہ میں یہ ہوتا تھا کہ ہم قاتل غلام کے بجائے کسی آزاد آدمی کو قتل کریں گے، اسی طرح اگر قاتل عورت ہو اور مقتول مرد تو کہا جاتا تھا کہ قاتل عورت کے بجائے قبیلے کا کوئی مرد قتل کیا جائے، اس کے برعکس اگر قاتل مقتول سے اوپر کے درجے کا ہو مثلاً قاتل مرد ہو اور مقتول عورت تو قاتل کا قبیلہ کہتا تھا کہ ہماری کسی عورت کو قتل کر دو قاتل مرد سے قصاص نہیں لیا جائے گا، اس آیت نے جاہلیت کی اس ظالمانہ رسم کو ختم فرما دیا اور اعلان کیا کہ جان ہر ایک کی برابر ہے اور قصاص ہر صورت میں قاتل ہی سے لیا جائے گا چاہے وہ مرد ہو یا عورت غلام ہو یا آزاد۔
۲۔ بنی اسرائیل کے قانون میں قصاص تو تھا لیکن دیت یا خوں بہا کا کوئی تصور نہیں تھا، اس آیت نے مقتول کے ورثاء کو یہ حق دیا کہ اگر وہ چاہیں تو مقتول کا قصاص معاف کر کے خوں بہا کے طور پر کچھ رقم کا مطالبہ کریں، ایسی صورت میں ان کو چاہئے کہ رقم کی مقدار معقولیت کی حد میں رکھیں اور قاتل کو چاہئے کہ خوش اسلوبی سے اس کی ادائیگی کرے۔
اگر خوں بہا لے کر وارثوں نے قصاص معاف کر دیا ہو تو اب ان کے لئے قاتل کی جان لینا جائز نہیں ہے، اگر وہ ایسا کریں گے تو یہ زیادتی ہو گی جس کی بنا پر دنیا و آخرت دونوں میں سزا کے مستحق ہوں گے۔
۳۔ مطلب یہ ہے کہ اگر خوں بہا لے کر وارثوں نے قصاص معاف کر دیا ہو تو اب ان کے لیے قاتل کی جان لینا جائز نہیں ہے۔ اگر وہ ایسا کریں تو یہ زیادتی ہو گی جس کی بنا پر وہ دنیا اور آخرت دونوں میں سزا کے مستحق ہوں گے۔

آیت ۱۷۹، ۱۸۰

ترجمہ

اور اے عقل رکھنے والو! تمہارے لئے قصاص میں زندگی (کا سامان ہے) امید ہے کہ تم (اس کی خلاف ورزی سے) بچو گے۔
تم پر فرض کیا گیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی، اپنے پیچھے مال چھوڑ کر جانے والا ہو تو جب اس کی موت کا وقت قریب آ جائے وہ اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں دستور کے مطابق وصیت کرے۔ یہ متقی لوگوں کے ذمے ایک لازمی حق ہے۔

تفسیر

یہ آیت اس دور میں نازل ہوئی تھی جب مرنے والے کے ترکے میں وارثوں کے حصے متعین نہیں ہوئے تھے، چنانچہ سارا ترکہ مرنے والے کے لڑکوں کو مل جاتا تھا، اس آیت نے یہ فرض قرار دیا کہ ہر انسان مرنے سے پہلے اپنے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے حق میں وصیت کر کے جائے اور یہ واضح کرے کہ ان میں سے کس کا کتنا حصہ دیا جائے گا، بعد میں سورة نساء کی آیات نمبر ۱۱ تا ۴۱ میں تمام وارثوں کی تفصیل اور ان کے حصے خود اللہ تعالیٰ نے مقرر فرما دئیے، اس کے بعد جس کا اس آیت میں ذکر ہے وہ فرض تو نہیں رہی، البتہ اگر کسی شخص کے ذمے کوئی حق ہو تو اس کی وصیت کرنا اب بھی فرض ہے، نیز جو لوگ شرعی اعتبار سے وارث نہیں ہیں ان کے لئے اپنے ترکے کے ایک تہائی کی حد تک وصیت کرنا اب بھی جائز ہے۔

آیت ۱۸۱

ترجمہ

پھر جو شخص اس وصیت کو سننے کے بعد اس میں کوئی تبدیلی کرے گا، تو اس کا گناہ ان لوگوں پر ہو گا جو اس میں تبدیلی کریں گے۔ یقین رکھو کہ اللہ (سب کچھ) سنتا جانتا ہے

تفسیر

جن لوگوں نے مرنے والے کی زبان سے کوئی وصیت سنی ہو ان کے لئے ہرگز جائز نہیں ہے کہ وہ اس میں کوئی کمی بیشی کریں، اس کے بجائے ان کے لئے وصیت پر عمل کرنا واجب ہے۔

آیت ۱۸۲

ترجمہ

ہاں اگر کسی شخص کو یہ اندیشہ ہو کہ کوئی وصیت کرنے والا بے جا طرف داری یا گناہ کا ارتکاب کر رہا ہے، اور وہ متعلقہ آدمیوں کے درمیان صلح کرا دوے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

تفسیر

مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی وصیت کرنے والا نا انصافی سے کام لے اور کوئی اسے سمجھابجھا کر اپنی وصیت میں مرنے سے پہلے پہلے تبدیلی کرنے پر آمادہ کر دے تو یہ جائز ہے۔

آیت ۱۸۳، ۱۸۴

ترجمہ

اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو
گنتی کے چند دن روزے رکھنے ہیں، پھر بھی اگر تم میں سے کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے۔ اور جو لوگ اس کی طاقت رکھتے ہوں وہ ایک مسکین کو کھانا کھلا کر (روزے کا) فدیہ ادا کر دیں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص اپنی خوشی سے کوئی نیکی کرے تو یہ اس کے حق میں بہتر ہے، اور اگر تم کو سمجھ ہو تو روزے رکھنے میں تمہارے لیے زیادہ بہتری ہے۔

تفسیر

تشریح شروع میں جب روزے فرض کئے گئے تو یہ آسانی بھی دی گئی تھی کہ اگر کوئی شخص روزہ رکھنے کے بجائے فدیہ ادا کر دے تو یہ بھی جائز ہے، بعد میں آیت نمبر ۱۸۵ نازل ہوئی جو آگے آ رہی ہے اس آیت نے اس سہولت کو واپس لے لیا اور یہ حتمی حکم دے دیا گیا کہ جو شخص بھی رمضان کا مہینہ پائے وہ روزے رکھے، تاہم فدیہ کی سہولت ان لوگوں کے لئے اب بھی باقی رکھی گئی ہے جو نہایت بوڑھے ہوں اور ان میں روزہ رکھنے کی بالکل طاقت نہ ہو اور آئندہ ایسی طاقت پیدا ہونے کی امید بھی نہ ہو۔

آیت ۱۸۵

ترجمہ

رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے سراپا ہدایت، اور ایسی روشن نشانیوں کا حامل ہے جو صحیح راستہ دکھاتی اور حق و باطل کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کر دیتی ہیں، لہذا تم میں سے جو شخص بھی یہ مہینہ پائے وہ اس میں ضرور روزہ رکھے، اور اگر کوئی شخص بیمار ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے، اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے اور تمہارے لئے مشکل پیدا کرنا نہیں چاہتا، تاکہ (تم روزوں کی) گنتی پوری کر لو، اور اللہ نے تمہیں جو راہ دکھائی اس پر اللہ کی تکبیر کہو۔ اور تاکہ تم شکر گزار بنو۔

تفسیر

اس آیت میں ایک لطیف اشارہ ان تکبیرات کی طرف بھی ہے جو رمضان کے فوراً بعد عید کی نماز میں کہی جاتی ہیں۔

آیت ۱۸۶

ترجمہ

اور (اے پیغمبر) جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں پوچھیں تو (آپ ان سے کہہ دیجیے کہ) میں اتنا قریب ہوں کہ جب کوئی مجھے پکارتا ہے تو میں پکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔ لہذا وہ بھی میری بات دل سے قبول کریں، اور مجھ پر ایمان لائیں، تاکہ وہ راہ راست پر آ جائیں۔

تفسیر
رمضان کے ذکر کے عین درمیان اس آیت کو لانے کی وجہ شاید یہ ہو کہ پیچھے رمضان کی گنتی پوری کرنے کا جو ذکر آیا تھا اس سے کسی کو خیال ہو سکتا تھا کہ رمضان گزرنے کے بعد شاید اللہ تعالیٰ سے وہ قرب باقی نہ رہے جو اس مبارک مہینے میں حاصل ہوا تھا، اس آیت نے اس خیال کی تردید کرتے ہوئے واضح فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ ہر آن اپنے بندوں سے قریب ہے اور ان کی پکار سنتا ہے۔

آیت ۱۸۷، ۱۸۸

ترجمہ

تمہارے لئے حلال کر دیا گیا ہے کہ روزوں کی رات میں تم اپنی بیویوں سے بے تکلف صحبت کرو، ۱ وہ تمہارے لئے لباس ہیں، اور تم ان کے لیے لباس ہو، اللہ کو علم تھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے، پھر اس نے تم پر عنایت کی اور تمہاری غلطی معاف فرما دی۔ چنانچہ اب تم ان سے صحبت کر لیا کرو، اور جو کچھ اللہ نے تمہارے لیے لکھ رکھا ہے اسے طلب کرو۔ ۲
اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہو کر تم پر واضح (نہ) ہو جائے، اس کے بعد رات آنے تک روزے پورے کرو، اور ان (اپنی بیویوں) سے اس حالت میں مباشرت نہ کرو جب تم مسجدوں میں اعتکاف میں بیٹھے ہو، یہ اللہ کی (مقرر کی ہوئی) حدود ہیں، لہذا ان (کی خلاف ورزی) کے قریب بھی مت جانا، اسی طرح اللہ اپنی نشانیاں لوگوں کے سامنے کھول کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔

تفسیر

شروع شروع میں حکم یہ تھا کہ اگر کوئی شخص روزہ افطار کرنے کے بعد ذرا سا بھی سو جائے تو اس کے لئے رات کے وقت بھی نہ کھانا جائز ہوتا تھا نہ جماع کرنا، بعض حضرات سے اس حکم کی خلاف ورزی سرزد ہوئی اور انہوں نے رات کے وقت اپنی بیویوں سے جماع کر لیا، یہ آیت اس خلاف ورزی کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور ساتھ ہی جن حضرات سے یہ غلطی ہوئی تھی ان کی معافی کا اعلان کر کے آئندہ کے لئے یہ پابندی اٹھا رہی ہے۔
۲۔ اس کا مطلب اکثر مفسرین نے یہ بتایا ہے کہ بیوی سے جماع کرنے میں وہ اولاد حاصل کرنے کی نیت رکھنی چاہئے جو اللہ نے تقدیر میں لکھ دی ہے اور بعض حضرات نے یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ جماع کے دوران وہی لذت طلب کرنی چاہئے جو اللہ نے جائز قرار دی ہے، ناجائز طریقوں مثلاً غیر فطری طریقوں سے پرہیز کرنا چاہئے۔

آیت ۱۸۸، ۱۸۹

ترجمہ

اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق طریقوں سے نہ کھاؤ، اور نہ ان کا مقدمہ حاکموں کے اس سے غرض سے لے جاؤ کہ لوگوں کے مال کا کوئی حصہ جانتے بوجھتے ہڑپ کرنے کا گناہ کرو۔
لوگ آپ سے نئے مہینوں کے چاند کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ انہیں بتا دیجیئے کہ یہ لوگوں (کے مختلف معاملات کے) اور حج کے اوقات متعین کرنے کے لیے ہیں۔
اور یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کی پشت کی طرف سے داخل ہو۔ بلکہ نیکی یہ ہے کہ انسان تقویٰ اختیار کرے، اور تم گھروں میں ان کے دروازوں سے داخل ہوا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔

تفسیر

بعض اہل عرب کا یہ معمول تھا کہ اگر حج کا احرام باندھنے کے بعد انہیں کسی ضرورت سے گھر واپس جانا پڑتا تو وہ گھر کے عام دروازے سے داخل ہونے کو ناجائز سمجھتے تھے اور ایسی صورت میں گھر کے پچھلے حصے سے داخل ہوتے تھے خواہ اس کے لئے انہیں گھر میں نقیب ہی کیوں نہ لگانی پڑے، یہ آیت اس فضول رسم کو بے بنیاد قرار دے رہی ہے۔

آیت ۱۹۰

ترجمہ

اور ان لوگوں سے اللہ کے راستے میں جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں اور زیادتی نہ کرو، یقین جانو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

تفسیر

یہ آیات اس وقت نازل ہوئی تھیں جب مکہ کے مشرکین نے آنحضرتﷺ اور آپ کے صحابہ کو صلح حدیبیہ کے موقع پر عمرہ ادا کرنے سے روک دیا تھا اور یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ اگلے سال آ کر عمرہ کریں گے، جب اگلے سال عمرہ کا ارادہ کیا گیا تو کچھ صحابہ کو یہ خطرہ ہوا کہ کہیں مشرکین مکہ عہد شکنی کر کے ہم سے لڑائی شروع نہ کر دیں اگر ایسا ہوا تو مسلمانوں کو یہ مشکل پیش آئے گی کے حدود حرم میں اور خاص طور پر ذی قعدہ کے مہینے میں لڑائی کیسے کریں جبکہ اس مہینے میں جنگ ناجائز ہے، ان آیات نے وضاحت فرمائی کہ اپنی طرف سے تو جنگ نہ کی جائے، البتہ اگر کفار معاہدہ توڑ کر جنگ شروع کر دیں تو ایسی صورت میں مسلمانوں کے لئے جنگ جائز ہے اور اگر وہ حدود حرم اور محترم مہینے کی حرمت کا لحاظ کئے بغیر حملہ آور ہو جائیں تو مسلمانوں کے لئے بھی ان کی زیادتی کا بدلہ لینا درست ہے۔

آیت ۱۹۱

ترجمہ

اور تم ان لوگوں کو جہاں پاؤ قتل کرو، اور انہیں اس جگہ سے نکال باہر کرو نہاں سے انہوں نے تہیں نکالا تھا، اور فتنہ قتل سے زیادہ سنگین برائی ہے، اور تم ان سے مسجد حرام کے پاس اس وقت تک لڑائی نہ کرو جب تک وہ خود اس میں تم سے لڑائی شروع نہ کریں، ہاں اگر وہ تم سے اس میں لڑائی شروع کر دیں تو تم ان کو قتل کر سکتے ہو، ایسے کافروں کی سزا یہی ہے،

تفسیر

لفظ ‘‘فتنہ’’ قرآن کریم میں مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے جن میں سے ایک معنی ظلم اور تشدد کے بھی ہیں اور شاید یہاں یہی معنی مراد ہوں، مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو اپنے دین پر عمل سے روکنے کے لئے بدترین تشدد روا رکھا ہوا تھا، لہذا بظاہر یہاں مقصد یہ ہے کہ اگرچہ کسی کو قتل کرنا اپنی ذات میں کوئی اچھی بات نہیں ہے لیکن فتنہ اس کے مقابلے میں زیادہ سخت برائی ہے اور جہاں فتنے کا سد باب قتل کے بغیر ممکن نہ ہو وہاں قتل کے سوا چارہ نہیں ہے۔

آیت ۱۹۲، ۱۹۳

ترجمہ

پھر اگر وہ باز آ جائیں تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے
اور تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہو جائے۔ پھر اگر وہ باز آ جائیں تو (سمجھ لو کہ) تشدد سوائے ظالموں کے کسی پر نہیں ہونا چاہئے۔

تفسیر

یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جہاد کا اصل مقصد کسی کو اسلام پر مجبور کرنا نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ عام حالات میں کوئی شخص کفر پر اصرار کرے تب بھی جزیہ کے ذریعے اسلامی حکومت کے قوانین کی اطاعت کر کے اپنے مذہب پر قائم رہ سکتا ہے، لیکن جزیرۂ عرب کا حکم مختلف ہے، یہ وہ ملک ہے جہاں رسول کریمﷺ کو براہ راست بھیجا گیا اور جہاں کے لوگوں نے آنحضرتﷺ کے معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور آپﷺ کی تعلیمات براہ راست سنیں، ایسے لوگ اگر ایمان نہ لائیں تو پچھلے انبیاءؑ کے زمانوں میں انہیں عذاب عام کے ذریعے ہلاک کیا گیا، آنحضرتﷺ کے زمانے میں عذاب عام موقوف فرما دیا گیا، لیکن یہ حکم دیا گیا کہ جزیرۂ عرب میں کوئی کافر مستقل شہری کی حیثیت میں نہیں رہ سکتا، یہاں اس کے لئے تین ہی راستے ہیں یا اسلام لائے یا جزیرۂ عرب سے باہر چلا جائے یا جنگ میں قتل ہو جائے۔

آیت ۱۹۴

ترجمہ

حرمت والے مہینے کا بدلہ حرمت والا مہینہ ہے، اور حرمتوں پر بھی بدلے کے احکام جاری ہوتے ہیں چنانچہ اگر کوئی شخص تم پر کوئی زیادہ کرے تو تم بھی ویسی ہی زیادتی اس پر کرو جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور اچھی طرح سمجھ لو کہ اللہ انہی کا ساتھی ہے جو اس کا خوف دل میں رکھتے ہیں

تفسیر

یعنی اگر کوئی شخص مہینے کی حرمت پامال کر کے تم سے لڑائی کرے تو تم بھی اس سے بدلہ لے سکتے ہو۔

آیت ۱۹۵

ترجمہ

اور اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی اختیار کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

تفسیر

اشارہ یہ ہے کہ اگر تم نے جہاد میں خرچ کرنے سے بخل سے کام لیا اور اس کی وجہ سے جہاد کے مقاصد حاصل نہ ہو سکے تو یہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کی مرادف ہو گا، کیونکہ اس کے نتیجے میں دشمن مضبوط ہو کر تمہاری ہلاکت کا سبب بنے گا۔

آیت ۱۹۶

ترجمہ

اور حج اور عمرہ اللہ کے لیے پورا پورا ادا کرو، ہاں اگر تمہیں روک دیا جائے تو جو قربانی میسر ہو (اللہ کے حضور پیش کر دو ۱ اور اپنے سر اس وقت تک نہ منڈاؤ جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔ ہاں اگر تم میں سے کوئی شخص بیمار ہو یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو تو روزوں یا صدقے یا قربانی کا فدیہ دے۔ ۲ پھر جب تم امن حاصل کر لو جو شخص حج کے ساتھ عمرے کا فائدہ بھی اٹھائے وہ جو قربانی میسر ہو (اللہ کے حضور پیش کرے) ہاں اگر کسی کے پاس اس کی طاقت نہ ہو تو وہ حج کے دنوں میں تین روزے رکھے اور سات (روز) اس وقت جب تم (گھروں کو) لوٹ جاؤ۔ اس طرح یہ کل دس روزے ہوں گے ۳ یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر والے مسجد حرام کے پاس نہ رہتے ہوں ۴ اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور جان رکھو کہ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔

تفسیر

۱۔ مطلب یہ ہے کہ جب کوئی شخص حج یا عمرے کا احرام باندھ لے تو جب تک حج یا عمرے کے اعمال پورے نہ ہو جائیں احرام کھولنا جائز نہیں، البتہ کوئی ایسی مجبوری پیش آ سکتی ہے کہ احرام باندھنے کے بعد مکہ مکرمہ تک پہنچنا ممکن نہ رہے، چنانچہ خود آنحضرتﷺ کو یہ صورت پیش آئی کہ آپ اور آپ کے صحابہ عمرے کا احرام باندھ کر روانہ ہوئے، لیکن جب حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو مشرکین مکہ نے آگے بڑھنے سے روک دیا، اسی موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں، اور ان میں ایسی صورت حال کا یہ حل بتایا گیا کہ ایسی صورت میں قربانی کر کے احرام کھولاجا سکتا ہے، امام ابو حنیفہ ؒ کے مسلک میں یہ قربانی حدود حرم میں ہونی چاہئے، جیسا کے اگلے جملے میں فرمایا گیا ہے، اور اپنے سر اس وقت تک نہ منڈاؤ جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے، نیز اس کے بعد جس حج یا عمرے کا احرام باندھا تھا اس کی قضا بھی ضروری ہے، چنانچہ آنحضرتﷺ نے اس عمرے کی قضا اگلے سال فرمائی۔
۲۔ احرام کی حالت میں سر منڈانا جائز نہیں ہوتا، لیکن اگر کسی شخص کو بیماری یا کسی تکلیف کی وجہ سے سر منڈانا پڑ جائے تو اس کو یہ فدیہ دینا ہو گا جو یہاں مذکور ہے، احادیث کی روشنی میں اس کی تفصیل یہ ہے کہ یا تین روزے رکھے جائیں یا چھ مسکینوں کو صدقہ الفطر کے برابر صدقہ کیا جائے یا ایک بکری قربان کی جائے۔
۳۔ اوپر اس صورت میں قربانی کا حکم بیان ہوا تھا جب کسی شخص کو دشمن نے روک دیا ہو، اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ قربانی امن کے عام حالات میں بھی واجب ہو سکتی ہے، جب کوئی شخص حج کے ساتھ عمرہ بھی جمع کرے یعنی قرن یاتمتع کا احرام باندھے (اگر صرف حج کا احرام باندھا ہو جسے افراد کہتے ہیں تو قربانی واجب نہیں ہے) البتہ اگر کوئی شخص قران یا تمتع کے باوجو دق ربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو وہ قربانی کے بدلے دس روزے رکھ سکتا ہے، جن میں سے تین روزے عرفہ کے دن (یعنی نو ذوالحجہ) تک پورے ہو جانے چاہئیں اور سات روزے حج سے فارغ ہونے کے بعد رکھنے ہوں گے۔
۴۔ یعنی تمتع یا قران کے ذریعے حج اور عمرہ دونوں کو جمع کرنا صرف ان لوگوں کے لئے جائز ہے جو باہر سے حج کے لئے آئیں، جو لوگ حدود حرم یا حنفی مسلک کے مطابق حدود میقات میں رہتے ہوں وہ صرف افراد کر سکتے ہیں تمتع یا قران نہیں کر سکتے۔

آیت ۱۹۷

ترجمہ

حج کے چند متعین مہینے ہیں۔ چنانچہ جو شخص ان مہینوں میں (احرام باندھ کر) اپنے اوپر حج لازم کر لے تو حج کے دوران نہ وہ کوئی فحش بات کرے نہ کوئی گناہ نہ کوئی جھگڑا۔ اور تم جو کوئی نیک کام کرو گے اللہ اسے جان لے گا، اور (حج کے سفر میں) زاد راہ ساتھ لے جایا کرو، کیونکہ بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ اور اے عقل والو! میری نافرمانی سے ڈرتے رہو

تفسیر

بعض لوگ حج کو روانہ ہوتے وقت اپنے ساتھ کھانے پینے کا سامان ساتھ نہیں رکھتے تھے، ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم اللہ پر توکل کرتے ہوئے حج کریں گے، لیکن جب راستے میں کھانے کی ضرورت پڑتی توبسا اوقات وہ لوگوں سے مانگنے پر مجبور ہو جاتے تھے، اس آیت کریمہ نے یہ بتلایا کہ توکل کا یہ مطلب نہیں ہوتا کے انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے، بلکہ اسباب کو اختیار کرنا شریعت کا تقاضا ہے، اور بہترین زاد راہ تقویٰ ہے، یعنی وہ زاد راہ جس کے ذریعے انسان دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے محفوظ رہے۔

آیت ۱۹۸

ترجمہ

تم پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم (حج کے دوران تجارت یا مزدوری کے ذریعے) اپنے پروردگار کا فضل تلاش کرو ۱ پھر جب تم عرفات سے رواہ ہو تو مشعر حرام کے پاس (جو مزدلفہ میں واقع ہے) اللہ کا ذکر کرو، اور اس کا ذکر اسی طرح کرو جس طرح اس نے تمہیں ہدایت کی ہے ۲ جبکہ اس سے پہلے تم بالکل ناواقف تھے۔

تفسیر

۱۔ بعض حضرات حج کے سفر میں کوئی تجارت کرنے کو ناجائز سمجھتے تھے، یہ آیت ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے اور اس نے بتا دیا کے سفر حج میں روزی کمانے کا کوئی مشغلہ اختیار کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس سے حج کے ضروری کام متاثر نہ ہوں۔
۲۔ وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدَاکُمْ حج کے دوران عرفات سے آ کر مزدلفہ میں رات گزاری جاتی ہے اور اگلی صبح طلوع آفتاب سے پہلے پہلے وقوف کیا جاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے اور دعائیں مانگی جاتی ہیں، جاہلیت میں بھی اہل عرب اللہ کا ذکر تو کرتے تھے، مگر اس کے ساتھ اپنے دیوتاؤں کا ذکر بھی شامل کر لیتے تھے، بتایا جا رہا ہے کہ مومن کا ذکر خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہونا چاہئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت فرمائی ہے۔

آیت ۱۹۹

ترجمہ

اس کے علاوہ (یہ بات بھی یاد رکھو کہ) تم اسی جگہ سے روانہ ہو جہاں سے عام لوگ روانہ ہوتے ہیں اور اللہ سے مغفرت مانگو، بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے

تفسیر

جاہلیت میں اہل عرب نے یہ طریقہ مقرر کر رکھا تھا کہ اور تمام انسان نو ذوالحجہ کو عرفات کے میدان میں وقوف کرتے تھے مگر قریش اور بعض دوسرے قبائل جو حرم کے قریب رہتے تھے اور خمس کہلاتے تھے، عرفات جانے کے بجائے مزدلفہ میں رہتے تھے اور وہیں وقوف کرتے تھے ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم حرم کے مجاور ہیں اور عرفات چونکہ حدود حرم سے باہر ہے اس لئے ہم وہاں نہیں جائیں گے، نتیجہ یہ کہ عام لوگوں کو نویں تاریخ کا دن عرفات میں گزارنے کے بعد رات کو مزدلفہ کے لئے روانہ ہونا پڑتا تھا، اس آیت نے یہ رسم ختم کر دی اور قریش کے لوگوں کو بھی یہ حکم دیا کے وہ عام لوگوں کے ساتھ عرفات میں وقوف کریں اور انہی کے ساتھ روانہ ہو کر مزدلفہ آئیں۔

آیت ۲۰۰

ترجمہ

پھر جب تم اپنے حج کے کام پورے کر چکو تو اللہ کا اس طرح ذکر کرو جیسے تم اپنے باپ دادوں کا ذکر کیا کرتے ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ ذکر کرو۔ اب بعض لوگ تو وہ ہیں جو (دعا میں بس) یہ کہتے ہیں کہ‘‘ اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما‘‘ اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔

تفسیر

جاہلیت میں ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ حج کے بنیادی ارکان سے فارغ ہو کر جب منی میں جمع ہوتے تو بعض لوگ ایک پورا دن اپنے آباء و اجداد کی تعریفیں کرنے اور ان کے کارنامے بیان کرنے میں گزارا کرتے تھے، یہ اشارہ اس رسم کی طرف ہے اور بعض لوگ دعائیں تو مانگتے مگر چونکہ وہ آخرت کے قائل نہیں تھے اس لئے ان کی دعا صرف دنیا کی بہتری تک محدود ہوتی تھی اگلے جملے میں بتایا گیا ہے کہ ایک مومن کو دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی مانگنی چاہئے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۲۰۱

ترجمہ

اور انہی میں سے وہ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ‘‘ اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اپنے اعمال کی کمائی کا حصہ (ثواب کی صورت میں) ملے گا، اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے۔
اور اللہ کو گنتی کے (ان چند) دنوں میں (جب تم منی میں مقیم ہو) یاد کرتے رہو۔ پھر جو شخص دو ہی دن میں جلدی چلا جائے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہے اور جو شخص (ایک دن) بعد میں جائے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔ یہ (تفصیل) اس کے لیے ہے جو تقویٰ اختیار کرے اور تم سب تقویٰ اختیار کرو، اور یقین رکھو کہ تم سب کو اسی کی طرف لے جا کر جمع کیا جائے گا۔

تفسیر

منیٰ میں تین دن گزارنا سنت ہے اور اس دوران جمرات پر کنکریاں مارنا واجب ہے، البتہ ۱۲ تاریخ کے بعد منی سے چلا جانا جائز ہے، ۱۳ تاریخ تک رکنا ضروری نہیں، اور اگر کوئی رکنا چاہے تو ۱۳ تاریخ کو بھی رمی کر کے واپس جا سکتا ہے۔

آیت ۲۰۴

ترجمہ

اور لوگوں میں ایک وہ شخص بھی ہے کہ دنیوی زندگی کے بارے میں اس کی باتیں تمہیں بڑی اچھی لگتی ہیں اور جو کچھ اس کے دل میں ہے اس پر وہ اللہ کو گواہ بھی بناتا ہے، حالانکہ وہ (تمہارے) دشمنوں میں سب سے زیادہ کٹر ہے
اور جب اٹھ کر جاتا ہے تو زمین میں اس کی دوڑ دھوپ اس لئے ہوتی ہے کہ و ۲ہ اس میں فساد مچائے، اور فصلیں اور نسلیں تباہ کرے، حالانکہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔

تفسیر

تشریح بعض روایات میں ہے کہ اخنس بن شریق نامی ایک شخص مدینہ منورہ آیا تھا، اور اس نے آنحضرتﷺ کے پاس آ کر بڑی چکنی چپڑی باتیں کیں، اور اللہ کو گواہ بنا کر اپنے ایمان لانے کا اظہار کیا، لیکن جب واپس گیا توراستے میں مسلمانوں کی کھیتیاں جلا دیں اور ان کے مویشیوں کو ذبح کر ڈالا، یہ آیات اس پس منظر میں نازل ہوئیں تھیں، البتہ ہر قسم کے منافقوں پر پوری اترتی ہیں۔

آیت ۲۰۶

ترجمہ

اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کا خوف کرو، تو نخوت اس کو گناہ پر اور آمادہ کر دیتی ہے۔ چنانچہ ایسے شخص کو تو جہنم ہی راس آئے گی
اور یقین کرو وہ بہت برا بچھونا ہے، اور (دوسری طرف) لوگوں میں وہ شخص بھی ہے جو اللہ کی خوشنودی کی خاطر اپنی جان کا سودا کر لیتا ہے، اور اللہ (ایسے) بندوں پر بڑا مہربان ہے۔

تفسیر

یہ ان صحابہ کرام کا ذکر ہے جنہوں نے اپنی جانیں اسلام کے مقاصد کے لیے کھپا رکھی تھیں۔ ایسے کئی صحابہ کے واقعات مفسرین نے ذکر کیے ہیں۔

آیت ۲۰۸، ۲۰۹

ترجمہ

اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ، اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو، یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
پھر جو روشن دلائل تمہارے پاس آ چکے ہیں، اگر تم ان کے بعد بھی (راہ راست سے) پھسل گئے تو یاد رکھو کہ اللہ اقتدار میں بھی کامل ہے، حکمت میں بھی کامل۔

تفسیر

ان دو صفتوں کو ساتھ ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ چونکہ اس کا اقتدار کامل ہے اس لیے وہ کسی وقت بھی تمہاری بد عملی کی سزا دے سکتا ہے، لیکن چونکہ اس کی حکمت بھی کامل ہے، اس لیے وہی اپنی حکمت سے یہ طے کرتا ہے کہ کس کو کب اور کتنی سزا دینی ہے۔ لہذا اگر ایسے کافر فوری طور سے عذاب میں پکڑے نہیں جا رہے تو اس سے یہ سمجھ بیٹھنا حماقت ہے کہ وہ سزا سے ہمیشہ کے لیے بچ گئے۔

آیت ۲۱۰

ترجمہ

یہ (کفار ایمان لانے کے لیے) اس کے سوا کس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ خود بادل کے سائبانوں میں ان کے سامنے آ موجود ہو، اور فرشتے بھی (اس کے ساتھ ہوں) اور سارا معاملہ ابھی چکا دیا جائے؟ حالانکہ آخر کار سارے معاملات اللہ ہی کی طرف تو لوٹ کر رہیں گے۔

تفسیر

مختلف کفار اور خاص طور پر یہود مدینہ اس قسم کے مطالبات کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ براہ راست ہمیں نظر آ کر ہمیں ایمان لانے کا حکم کیوں نہیں دیتا؟ یہ آیت اس قسم کے مطالبات کا جواب دے رہی ہے، اور وہ یہ کہ یہ دنیا آزمائش کے لئے بنائی گئی ہے کہ انسان اپنی عقل استعمال کرے اور کائنات میں پھیلے ہوئے واضح دلائل کی روشنی میں اللہ کی توحید اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے، اسی لئے اس آزمائش میں اصل قیمت ایمان بالغیب کی ہے، اگر اللہ تعالیٰ براہ راست نظر آ جائیں تو آزمائش کیا ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب غیب کی چیزیں انسان کو آنکھوں سے نظر آ جائیں تو پھر ایمان معتبر نہیں ہوتا اور ایسا اسی وقت ہو گا جب یہ کائنات ختم کر کے سزا اور جزا کا مرحلہ آ جائے گا۔

آیت ۲۱۱، ۲۱۲

ترجمہ

بنی اسرائیل سے پوچھو ہم نے ان کو کتنی ساری کھلی نشانیاں دی تھیں، اور جس شخص کے پاس اللہ کی نعمت آ چکی ہو، پھر وہ اس کو بدل ڈالے، تو (اسے یاد رکھنا چاہئے کہ) اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔
جن لوگوں نے کفر اپنا لیا لیا ہے، ان کے لیے دنیوی زندگی بڑی دلکش بنا دی گئی ہے، اور وہ اہل ایمان کا مذاق اڑاتے ہیں، حالانکہ جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے وہ قیامت کے دن ان سے کہیں بلند ہوں گے، اور اللہ جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔

تفسیر

یہ فقرہ در اصل کفار کے اس باطل دعوی کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ ہمیں خوب رزق دے رہا ہے، اس لئے یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ ہمارے عقائد اور اعمال سے ناراض نہیں ہے، جواب دیا گیا ہے کہ دنیا میں رزق کی فراوانی کسی کے حق پر ہونے کی دلیل نہیں، دنیوی رزق کے لئے اللہ کے نزدیک الگ معیار مقرر ہے، یہاں اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دے دیتا ہے، خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔

آیت ۲۱۳ ۔ ۲۱۷

ترجمہ

(شروع میں) سارے انسان ایک ہی دین کے پیرو تھے، پھر (جب ان میں اختلاف ہوا تو) اللہ نے نبی بھیجے جو (حق والوں کو) خوشخبری سناتے، اور (باطل والوں کو) ڈراتے تھے، اور ان کے ساتھ حق پر مشتمل کتاب نازل کی، تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کرے جن میں ان کا اختلاف تھا۔ اور (افسوس کی بات یہ ہے کہ) کسی اور نے نہیں بلکہ خود انہوں نے جن کو وہ کتاب دی گئی تھی، روشن دلائل آ جانے کے بعد بھی، صرف باہمی ضد کی وجہ سے اسی (کتاب) میں اختلاف نکال لیا، پھر جو لوگ ایمان لائے اللہ نے انہیں اپنے حکم سے حق کی ان باتوں میں راہ راست تک پہنچایا جن میں انہوں نے اختلاف کیا تھا، اور اللہ جسے چاہتا ہے راہ راست تک پہنچا دیتا ہے۔
(مسلمانو) کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم جنت میں (یونہی) داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تمہیں اس جیسے حالات پیش نہیں آئے جیسے ان لوگوں کو پیش آئے تھے جو تم سے پہلے ہو گزرے ہیں۔ ان پر سختیاں اور تکلیفیں آئیں، اور انہیں ہلا ڈالا گیا، یہاں تک کہ رسول اور ان کے ایمان والے ساتھ بول اٹھے کہ‘‘ اللہ کی مدد کب آئے گی؟‘‘ یاد رکھو! اللہ کی مدد نزدیک ہے۔
لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ (اللہ کی خوشنودی کے لیے) کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجیے کہ جو مال بھی تم خرچ کرو وہ والدین، قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہونا چاہئے، اور تم بھلائی کا جو کام بھی کرو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
تم پر (دشمنوں سے) جنگ کرنا فرض کیا گیا ہے، اور وہ تم پر گراں ہے، اور یہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو، اور (اصل حقیقت تو) اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔
لوگ آپ سے حرمت والے مہینے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس میں جنگ کرنا کیسا ہے؟ آپ کہہ دیجیے کہ اس میں جنگ کرنا بڑا گناہ ہے، مگر لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنا، اس کے خلاف کفر کی روش اختیار کرنا، مسجد حرام پر بندش لگانا اور اس کے باسیوں کو وہاں سے نکال باہر کرنا اللہ کے نزدیک زیادہ بڑا گناہ ہے، اور فتنہ قتل سے بھی زیادہ سنگین چیز ہے، اور یہ (کافر) تم لوگوں سے برابر جنگ کرتے رہیں گے، یہاں تک کہ اگر ان کا بس چلے تو یہ تم کو تمہارا دین چھوڑنے پر آمادہ کر دیں، اور اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا دین چھوڑ دے، اور کافر ہونے کی حالت ہی میں مرے تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں اکارت ہو جائیں گے، ایسے لوگ دوزخ والے ہیں، وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔

تفسیر

تشریح سورة توبہ (۹ ۳۶) میں چار مہینوں کو اشہر حرم کہا گیا ہے، یعنی حرمت والے مہینے، آنحضرتﷺ نے ان کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ چار مہینے رجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم ہیں، ان مہینوں میں جنگ منع ہے، البتہ اگر کوئی دشمن حملہ کر دے تو اپنا دفاع کیا جا سکتا ہے، ایک مرتبہ ایک سفر کے دوران چند صحابہ کی کچھ مشرکین سے جھڑپ ہو گئی اور مشرکین میں سے ایک آدمی عمرو بن ضمری مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا، یہ واقعہ جمادی الثانیہ کی ۲۹ تاریخ کی شام کو واقع ہوا، لیکن اس شخص کے قتل ہوتے ہی رجب کا چاند نظر آ گیا، اس پر مشرکین نے مسلمانوں کے خلاف ایک طوفان مچا دیا کہ یہ لوگ حرمت والے مہینوں کا بھی پاس نہیں کر رہے ہیں، یہ آیت اس پروپیگنڈے کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے، جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ اول تو عمرو بن امیہ کا قتل غلط فہمی میں ہوا جان بوجھ کر حرمت والے مہینے میں قتل نہیں کیا گیا، لیکن جو لوگ اس واقعے پر طوفان کھڑا کئے ہوئے ہیں، بلکہ جو لوگ حقیقۃً مسجد حرام میں عبادت کے اہل ہیں، ان کے لئے زندگی اجیرن بنا کر انہیں یہاں سے نکلنے پر مجبور کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔

آیت ۲۱۸، ۲۱۹

ترجمہ

(اس کے برخلاف) جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا، تو وہ بیشک اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں، اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
لوگ آپ سے شراب اور جوے کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ کہہ دیجیے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ بھی ہے، اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں، اور ان دونوں کا گناہ ان کے فائدے سے زیادہ بڑھا ہوا ہے۔ ۱
اور لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ (اللہ کی خوشنودی کے لیے) کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجیے کہ‘‘ جو تمہاری ضرورت سے زائد ہو‘‘ ۔ ۲ اللہ اسی طرح اپنے احکام تمہارے لیے صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ تم غور و فکر سے کام لو۔

تفسیر

۱۔ چونکہ اہل عرب صدیوں سے شراب کے عادی تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کی حرمت کے اعلان میں تدریج سے کام لیا، پہلے سورة نحل (۱۶ ۶۷) میں ایک لطیف اشارہ دیا کہ نشہ لانے والی شراب اچھی چیز نہیں ہے، پھر سورة البقرۃ کی اس آیت میں قدرے وضاحت سے فرمایا کہ شراب پینے کے نتیجے میں انسان سے بہت سی ایسی حرکتیں سرزد ہو جاتی ہیں جو گناہ ہیں اور اگرچہ اس میں کچھ فائدے بھی ہیں، مگر گناہ کے امکانات زیادہ ہیں، پھر سورة نساء (۴ ۴۳) میں یہ حکم آیا کے نشے کی حالت میں نماز نہ پڑھو بالا آخر سورة مائدہ (۵ ۹۰۔ ۹۱) میں شراب کو ناپاک اور شیطانی عمل قرار دے کر اس سے مکمل پرہیز کرنے کا صاف صاف حکم دے دیا گیا۔
۲۔ بعض صحابہ سے منقول ہے کہ انہوں نے صدقہ کا ثواب سن کر اپنی ساری پونجی صدقہ کر دی یہاں تک کہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے کچھ نہ چھوڑا اور گھر والے بھوکے رہ گئے، اس آیت نے بتلایا کہ صدقہ وہی درست ہے جو اپنے گھر والوں کی ضرورت پوری کرنے کے بعد کیا جائے، چنانچہ آنحضرتﷺ نے متعدد احادیث میں اس پر زور دیا ہے کہ صدقہ اتنا ہونا چاہئے کہ گھر والے محتاج نہ ہو جائیں۔

آیت ۲۲۰

ترجمہ

دنیا کے بارے میں بھی اور آخرت کے بارے میں بھی۔ اور لوگ آپ سے یتیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ ان کی بھلائی چاہنا نیک کام ہے، اور اگر تم ان کے ساتھ مل جل کر رہو تو (کچھ حرج نہیں کیونکہ) وہ تمہارے بھائی ہی تو ہیں، اور اللہ خوب جانتا ہے کہ کون معاملات بگاڑنے والا ہے اور کون سنوارنے والا، اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں مشکل میں ڈال دیتا۔ یقیناً اللہ کا اقتدار بھی کامل ہے، حکمت بھی کامل۔

تفسیر

جب قرآن کریم نے یتیموں کا مال کھانے پر سخت وعید سنائی (سورة نساء ۴: ۱۔۲) تو بعض صحابہ جن کی سرپرستی میں کچھ یتیم تھے، اتنی احتیاط کرنے لگے کہ ان کا کھانا الگ پکواتے اور انہیں الگ ہی کھلاتے، یہاں تک کہ اگر ان کا کچھ کھانا بچ جاتا تو خراب ہو جاتا، اس میں تکلیف بھی تھی اور نقصان بھی، اس آیت نے واضح کر دیا کہ اصل مقصد یہ ہے کہ یتیموں کی مصلحت کا پورا خیال رکھا جائے، سرپرستوں کو مشکل میں ڈالنا مقصد نہیں ہے، لہذا ان کا کھانا ساتھ پکانے اور ساتھ کھلانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ معقولیت اور انصاف کے ساتھ ان کے مال سے ان کے کھانے کا خرچ وصول کیا جائے، پھر اگر غیر ارادی طور پر کچھ کمی بیشی ہو بھی جائے تو معاف ہے، ہاں جان بوجھ کر ان کو نقصان نہ پہنچایا جائے، رہی یہ بات کہ کون انصاف اور اصلاح سے کام لے رہا ہے اور کس کی نیت خراب ہے، اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔

آیت ۲۲۱ ۔ ۲۲۳

ترجمہ

اور مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ یقیناً ایک مومن باندی کسی بھی مشرک عورت سے بہتر ہے، خواہ وہ مشرک عورت تمہیں پسند آ رہی ہو، اور اپنی عورتوں کا نکاح مشرک مردوں سے نہ کراؤ جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ اور یقیناً ایک مومن غلام کسی بھی مشرک مرد سے بہتر ہے خواہ وہ مشرک مرد تمہیں پسند آ رہا ہو۔ یہ سب دوزخ کی طرف بلاتے ہیں جبکہ اللہ اپنے حکم سے جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے، اور اپنے احکام لوگوں کے سامنے صاف صاف بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
اور لوگ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجیے کہ وہ گندگی ہے لہذا حیض کی حالت میں عورتوں سے اگل رہو، اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان سے قربت (یعنی جماع) نہ کرو، ہاں جب وہ پاک ہو جائیں تو ان کے پاس اسی طرح یقے سے جاؤ جس طرح اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے، بیشک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی طرف کثرت سے رجوع کریں اور ان سے محبت کرتا ہے جو خوب پاک صاف رہیں۔
تمہاری بیویاں تمہارے لیے کھتیاں ہیں لہذا اپنی کھتی میں جہاں سے چاہو ہو جاؤ اور اپنے لئیے (اچھے عمل) آگے بھیجو، اللہ سے ڈرتے رہو، اور یقین رکھو کہ تم اس سے جا کر ملنے والے ہو، اور مومنوں کو خوش خبری سنا دو۔

تفسیر

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک لطیف کنایہ استعمال کر کے میاں بیوی کے خصوصی ملاپ کے بارے میں چند حقائق بیان فرمائے ہیں، پہلی بات تو یہ واضح فرمائی ہے کہ میاں بیوی کا یہ ملاپ صرف لذت حاصل کرنے کے مقصد سے نہیں ہونا چاہئے، بلکہ اسے انسانی نسل کی بڑھوتری کا ذریعہ سمجھنا چاہئے، جس طرح ایک کاشتکار اپنی کھیتی میں بیج ڈالتا ہے تو اس کا اصل مقصد پیداوار کا حصول ہوتا ہے اسی طرح یہ عمل بھی در اصل انسانی نسل باقی رکھنے کا ایک ذریعہ ہے، دوسری حقیقت یہ بیان فرمائی ہے کہ جب اس عمل کا اصل مقصد یہ ہے تو یہ عمل نسوانی جسم کے اسی حصہ میں ہونا چاہئے جو اس کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے، پیچھے کا جو حصہ اس کام کے لئے نہیں بنایا گیا، اس کو فطرت کے خلاف جنسی لذت کے لئے استعمال کرنا حرام ہے، تیسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ نسوانی جسم کا جو اگلا حصہ اس غرض کے لئے بنایا گیا ہے اس تک پہنچنے کے لئے راستہ کوئی بھی اختیار کیا جا سکتا ہے، یہودیوں کا خیال یہ تھا کہ اس حصے میں مباشرت کرنے کے لئے بس ایک ہی طریقہ جائز ہے یعنی سامنے کی طرف سے، اگر مباشرت آگے ہی کے حصے میں ہو لیکن اس تک پہنچنے کے لئے راستہ پیچھے کا اختیار کیا جائے تو وہ کہتے تھے کہ اولاد بھینگی پیدا ہوتی ہے، اس آیت نے یہ غلط فہمی دور کر دی۔

آیت ۲۲۴

ترجمہ

اور اللہ (کے نام) کو اپنی قسموں میں اس غرض سے استعمال نہ کرو کہ اس کے ذریعے نیکی اور تقویٰ کے کاموں اور لوگوں کے درمیان صلح صفائی کرانے سے بچ سکو اور اللہ سب کچھ سنتا جانتا ہے۔

تفسیر

بعض مرتبہ انسان کسی وقتی جذبے سے مغلوب ہو کر قسم کھا لیتا ہے کہ فلاں کام نہیں کروں گا، حالانکہ وہ نیک کام ہوتا ہے، مثلاً ایک مرتبہ حضرت مسطحؓ سے ایک غلطی ہو گئی تھی تو حضرت صدیق اکبرؓ نے یہ قسم کھا لی تھی کہ آئندہ وہ ان کی مالی مدد نہیں کریں گے، یا جیسے روح المعانی میں ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ نے اپنے بہنوئی کے بارے میں قسم کھا لی تھی کہ وہ ان سے بات نہیں کریں گے، اور نہ ان کی بیوی سے ان کی صلح کرائیں گے، یہ آیت ایسی قسم کھانے سے منع کر رہی ہے، کیونکہ اس طرح اللہ کا نام ایک غلط مقصد میں استعمال ہوتا ہے، اور صحیح حدیث میں آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایسی نامناسب قسم کھا لے تو اسے توڑ دینا چاہئے اور اس کا کفارہ ادا کرنا چاہئے۔

آیت ۲۲۵

ترجمہ

اللہ تمہاری لغو قسموں پر تمہاری گرفت نہیں کے گا البتہ جو قسمیں تم نے اپنے دلوں کے ارادے سے کھائی ہوں گی ان پر گرفت کرے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا بردبار ہے۔

تفسیر

لغو قسم سے مراد تو وہ قسم ہے جو قسم کھانے کے ارادے سے نہیں بلکہ تکیہ کلام کے طور سے زبان پر آ جائے، خاص طور پر عربوں میں اس کا بہت رواج تھا کہ بات بات میں وہ واللہ کہہ دیتے تھے، اسی طرح بعض اوقات انسان ماضی کے کسی واقعے پر قسم کے ارادے ہی سے قسم کھاتا ہے، لیکن اس کے اپنے خیال کے مطابق وہ قسم صحیح نہیں ہوتی ہے، جھوٹ بولنے کا ارداہ نہیں ہوتا، لیکن بعد میں پتہ چلتا ہے کہ جو بات قسم کھا کر کہی تھی وہ حقیقت میں صحیح نہیں تھی، ان دونوں طرح کی قسموں کو لغو کہا جاتا ہے، اس آیت نے بتایا کہ اس پر گناہ نہیں ہوتا، البتہ انسان کو چاہئے کہ وہ قسم کھانے میں احتیاط سے کام لے اور ایسی قسم سے بھی پرہیز کرے۔

آیت ۲۲۶

ترجمہ

جو لوگ اپنی بیویوں سے ایلاء کرتے ہیں (یعنی ان کے پاس نہ جانے کی قسم کھا لیتے ہیں) ان کے لیے چار مہینے کی مہلت ہے چنانچہ اگر وہ (قسم توڑ کر) رجوع کر لیں تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

تفسیر

تشریح عربوں میں یہ ظالمانہ طریقہ رائج تھا کہ وہ یہ قسم کھا بیٹھتے تھے کہ اپنی بیوی کے پاس نہیں جائیں گے، نتیجہ یہ کہ بیوی غیر معین مدت تک لٹکی رہتی تھی، نہ اسے بیوی جیسے حقوق ملتے تھے اور نہ وہ کہیں اور شادی کر سکتی تھی، ایسی قسم کو ایلاء کہا جاتا ہے، اس آیت نے یہ قانون بنا دیا کہ جو شخص ایلاء کرے وہ یا تو چار مہینے کے اندر اندر اپنی قسم توڑ کر کفارہ ادا کرے اور اپنی بیوی سے معمول کے ازدواجی تعلقات بحال کر لے، ورنہ چار مہینے تک اگر اس نے اپنی قسم نہ توڑی تو بیوی اس کے نکاح سے نکل جائے گی، آیت میں جو کہا گیا ہے کہ‘‘ اور اگر انہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی ہو‘‘ اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ چار مہینے قسم توڑے بغیر گزار دیں تو نکاح خود بخود ختم ہو جائے گا۔

آیت ۲۲۷، ۲۲۸

ترجمہ

اور اگر انہوں نے طالق ہی کی ٹھان لی ہو تو (بھی) اللہ سننے جاننے والا ہے۔
اور جن عورتوں کو طلاق دے دی گئی ہو وہ تین مرتبہ حیض آنے تک اپنے آپ کو انتظار میں رکھیں ۱ اور اگر وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہوں تو ان کے لیے حلال نہیں ہے کہ اللہ نے ان کے رحم میں جو کچھ (حمل یا حیض) پیدا کیا ہے اسے چھپائیں، اور اس مدت میں اگر ان کے شوہر حالات بہتر بنانا چاہیں تو ان کو حق ہے کہ وہ ان عورتوں کو (اپنی زوجیت) میں واپس لے لیں۔ اور ان عورتوں کو معروف طریقے کے مطابق ویسے ہی حقوق حاصل ہیں جیسے (مردوں کو) ان پر حاصل ہیں۔ ۲ ہاں مردوں کو ان پر ایک درجہ فوقیت ہے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے۔

تفسیر

۱۔ یہ مطلقہ عورتوں کی عدت کا بیان ہے، یعنی طلاق کے بعد انہیں تین مرتبہ ایام ماہواری پورے ہونے تک عدت گزارنی ہو گی، جس کے بعد وہ کہیں اور نکاح کر سکیں گی، لیکن سورة احزاب (۳۳: ۴۹) میں واضح کر دیا گیا ہے کہ عدت گزارنا اسی وقت واجب ہے جب میاں بیوی کے درمیان خلوت ہو چکی ہو، اگر اس سے پہلے ہی طلاق ہو گئی تو عدت واجب نہیں، نیز سورة طلاق (۶۵: ۴) میں بتایا گیا ہے کہ جن عورتوں کو حیض ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا ہو یا ابھی آنا شروع نہ ہوا ہو ان کی عدت تین مہینے ہے، اور اگر عورت حاملہ ہو تو اس کی عدت بچے کی پیدائش پر ختم ہو جائے گی۔
۲۔ جاہلیت کے دور میں عورت کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جاتا تھا، اس آیت نے بتایا کہ شوہر اور بیوی کے حقوق ایک دوسرے کے برابر ہیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ زندگی کے سفر میں اللہ تعالیٰ نے مرد کو امیر اور نگران بنایا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے سورة نساء (۴: ۳۴) میں واضح فرمایا ہے، اس لحاظ سے ایک کو ایک درجہ فوقیت حاصل ہے۔

آیت ۲۲۹

ترجمہ

طلاق (زیادہ سے زیادہ) دو بار ہونی چاہئیے، اس کے بعد (شوہر کے لیے دو ہی راستے ہیں) یا تو قاعدے کے مطابق (بیوی کو) روک رکھے (یعنی طالق سے رجوع کر لے) یا خوش اسلوبی سے چھوڑ دے (یعنی رجوع کے بغیر عدت گزر جانے دے) اور (اے شوہرو) تمہارے لیے حلال نہیں ہے کہ تم نے ان (بیویوں) کو جو کچھ دیا ہو وہ (طلاق کے بدلے) ان سے واپس لو، الا یہ کہ دونوں کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ (نکاح باقی رہنے کی صورت میں) اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے۔ چنانچہ اگر تمہیں اس بات کا اندیشہ ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو ان دونوں کے لیے اس میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ عورت مالی معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کر لے۔ یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود ہیں، لہذا ان سے تجاوز نہ کرو۔ اور جو لوگ اللہ کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں وہ بڑے ظالم لوگ ہیں۔

تفسیر

اس آیت نے ایک ہدایت تو یہ دی ہے کہ اگر طلاق دینی ہی پڑ جائے تو زیادہ سے زیادہ دو طلاقیں دینی چاہئیں، کیونکہ اس طرح میاں بیوی کے درمیان تعلقات بحال ہونے کا امکان رہتا ہے، چنانچہ عدت کے دوران شوہر کو طلاق سے رجوع کرنے کا حق رہتا ہے، اور عدت کے بعد دونوں کی باہمی رضا مندی سے نیا نکاح نئے مہر کے ساتھ ہو سکتا ہے، لیکن جیسا کہ اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے کہ تین طلاقوں کے بعد دونوں راستے بند ہو جاتے ہیں اور تعلقات کی بحالی کا کوئی طریقہ باقی نہیں رہتا، دوسری ہدایت یہ دی گئی ہے کہ شوہر طلاق سے رجوع کا فیصلہ کرے یا علیحدگی کا، دونوں صورتوں میں معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنے چاہئیں، عام حالات میں شوہر کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ طلاق کے بدلے مہر واپس کرنے یا معاف کرنے کا مطالبہ کرے، ہاں اگر طلاق کا مطالبہ عورت کی طرف سے ہو اور شوہر کی کسی زیادتی کے بغیر ہو، مثلاً بیوی شوہر کو پسند نہ کرتی ہو اور اس بنا پر دونوں کو یہ اندیشہ ہو کہ وہ خوشگواری کے ساتھ نکاح کے حقوق ادا نہ کر سکیں گے تو اس صورت یہ جائز قرار دے دیا گیا ہے کہ عورت مالی معاوضے کے طور پر مہر یا اس کا کچھ حصہ واپس کر دے یا اگر اس وقت تک وصول نہ کیا ہو تو معاف کر دے۔

آیت ۲۳۰

ترجمہ

پھر اگر شوہر (تیسری) طلاق دیدے تو وہ (مطلقہ عورت) اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہو گی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے، ہاں اگر وہ (دوسرا شوہر بھی) اسے طلاق دیدے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے پاس (نیا نکاح کر کے) دوبارہ واپس آ جائیں، بشرطیکہ انہیں یہ غالب گمان ہو کہ اب وہ اللہ کی حدود قائم رکھیں گے، اور یہ سب اللہ کی حدود ہیں جو وہ ان لوگوں کے لیے واضح کر رہا ہے جو سمجھ رکھتے ہوں۔
اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دے دی ہو اور وہ اپنی عدت کے قریب پہنچ جائیں، تو یا تو ان کو بھلائی کے ساتھ (اپنی زوجیت میں) روک رکھو، یا انہیں بھلائی کے ساتھ چھوڑ دو، اور انہیں ستانے کی خاطر اس لیے روک کر نہ رکھو کہ ان پر ظلم کر سکو اور جو شخص ایسا کرے گا وہ خود اپنی جان پر ظلم کرے گا، اور اللہ کی آیتوں کو مذاق مت بناؤ اور اللہ نے تم پر جو انعام فرمایا ہے اسے اور تم پر جو کتاب اور حکمت کی باتیں تمہیں نصیحت کرنے کے لیے نازل کی ہیں انہیں یاد رکھو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور جان رکھو کہ اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔

تفسیر

جاہلیت میں ایک ظالمانہ طریقہ یہ تھا کہ لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دیتے اور جب عدت گزرنے کے قریب ہوتی تو رجوع کر لیتے، تاکہ وہ دوسرا نکاح نہ کر سکے، پھر اس کے حقوق ادا کرنے کے بجائے کچھ عرصے کے بعد پھر طلاق دیتے اور عدت گزرنے سے پہلے رجوع کر لیتے اور اس طرح وہ غریب بیچ میں لٹکی رہتی نہ کسی اور سے نکاح کر سکتی اور نہ شوہر سے اپنے حقوق حاصل کر سکتی یہ آیت اس ظالمانہ طریقے کو حرام قرار دے رہی ہے۔

آیت ۲۳۲

ترجمہ

اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دے دی ہو اور وہ اپنی عدت کو پہنچ جائیں تو (اے میکے والو) انہیں اس بات سے منع نہ کرو کہ وہ اپنے (پہلے) شوہروں سے (دوبارہ) نکاح کریں، بشرطیکہ وہ بھلائی کے ساتھ ایک دوسرے سے راضی ہو گئے ہوں۔ ان باتوں کی نصیحت تم میں سے ان لوگوں کو کی جا رہی ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوں۔ یہی تمہارے لیے زیادہ ستھرا اور پاکیزہ طریقہ ہے، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

تفسیر

بعض مرتبہ طلاق اور اس کی عدت گذرنے کے بعد میاں بیوی کو سبق مل جاتا اور وہ از سر نو نئی زندگی شروع کرنے کے لیے آپس میں دوبارہ نکاح کرنا چاہتے تھے، چونکہ طلاقیں تین نہیں ہوئی ہوتی تھیں، اس لیے شرعاً نیا نکاح جائز جائز بھی تھا اور عورت بھی اس پر راضی ہوتی تھی، لیکن عورت کے میکے والے خود ساختہ غیرت کی بنا پر اسے اپنے پہلے شوہر سے نکاح کرنے سے روکتے تھے۔ یہ آیت اس غلط رسم کو ناجائز قرار دے رہی ہے۔

آیت ۲۳۳

ترجمہ

اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال تک دودھ پلائیں، یہ مدت ان کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنا چاہیں، اور جس باپ کا وہ بچہ ہے اس پر واجب ہے کہ وہ معروف طریقے پر ان ماؤں کے کھانے اور لباس کا خرچ اٹھائے، ۱۔ (ہاں) کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی، نہ تو ماں کو اپنے بچے کی وجہ سے ستایا جائے، اور نہ باپ کو اپنے بچے کی وجہ سے ۲ اور اسی طرح کی ذمہ داری وارث پر بھی ہے ۳ پھر اگر وہ دونوں (یعنی والدین) آپس کی رضا مندی اور باہمی مشورے سے (دو سال گزرنے سے پہلے ہی) دودھ چھڑانا چاہیں تو اس میں بھی ان پر کوئی گناہ نہیں ہے، اور اگر تم یہ چاہو کہ وپنے بچوں کو کسی انا سے دودھ پلواؤ تو بھی تم پر کوئی گناہ نہیں، جبکہ تم نے جو اجرت ٹھہرائی تھی وہ (دودھ پلانے والی انا کو) بھلے طریقے سے دے دو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور جان رکھو کہ اللہ تمہارے سارے کاموں کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے۔

تفسیر

۱۔ طلاق کے احکام کے درمیان بچے کو دودھ پلانے کا ذکر اس مناسبت سے آیا ہے کہ بعض اوقات یہ مسئلہ ماں باپ کے درمیان جھگڑے کا سبب بن جاتا ہے، لیکن جو احکام یہاں بیان کئے گئے ہیں وہ طلاق کی صورت کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں، بلکہ تمام حالات کے لئے ہیں، پہلی بات تو اس میں یہ واضح کی گئی ہے کہ دودھ زیادہ سے زیادہ دو سال تک پلایا جا سکتا ہے، اس کے بعد ماں کا دودھ چھڑانا ہو گا، دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ اگر ماں باپ بچے کی مصلحت سمجھیں تو پہلے بھی دودھ چھڑا سکتے ہیں، دو سال پورے کرنا شرعاً واجب نہیں ہے، تیسری بات یہ کہ دودھ پلانے والی ماں کا خرچ اس کے شوہر یعنی بچے کے باپ پر واجب ہے، اگر نکاح قائم ہو تب تو یہ خرچ نکاح کی وجہ سے واجب ہے اور اگر طلاق ہو گئی تو عدت کے دوران دودھ پلانا مطلقہ ماں پر واجب ہے اور اس دوران اس کا نفقہ طلاق دینے والے شوہر پر ہے، عدت کے بعد نفقہ تو ختم ہو جائے گا، لیکن مطلقہ عدت کے بعد دودھ پلانے کی اجرت کا مطالبہ کر سکتی ہے۔
۲۔ ماں اگر کسی معقول عذر کی وجہ سے دودھ نہ پلائے تو اسے مجبور نہ کیا جائے، دوسری طرف اگر بچہ ماں کے سوا کسی اور کا دودھ نہ لیتا ہو تو ماں کے لئے انکار جائز نہیں، کیونکہ اس صورت میں یہ انکار باپ کو بلا وجہ ستانے کی مرادف ہے۔
۳۔ اگر کسی بچہ کا باپ زندہ نہ ہو تو دودھ پلانے کے سلسلے میں جو ذمہ داری باپ کی ہے وہ بچے کے وارثوں پر عائد ہو گی، یعنی جو لوگ بچے کے مرنے کی صورت میں اس کے ترکے کے حق دار ہوں گے انہی پر یہ بھی واجب ہے کہ وہ اس بچے کو دودھ پلانے اور اس کا خرچ برداشت کرنے کی ذمہ داری اٹھائیں۔

آیت ۲۳۴، ۲۳۵

ترجمہ

اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں، اور بیویاں چھوڑ کر جائیں تو وہ بیویاں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن انتظار میں رکھیں گی، پھر جب وہ اپنی (عدت کی) میعاد کو پہنچ جائیں تو وہ اپنے بارے میں جو کاروائی (مثلاً دوسرا نکاح) قاعدے کے مطابق کریں تو تم پر کچھ گناہ نہیں، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
اور (عدت کے دوران) اگر تم ان عورتوں کو اشارے کنائے میں نکاح کا پیغام دو یا (ان سے نکاح کا ارادہ) دل میں چھپائے رکھو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ہے، اللہ جانتا ہے کہ تم ان (سے نکاح) کا خیال تو دل میں لاؤ گے، لیکن ان سے نکاح کا دو طرفہ و عدت مت کرنا، الا یہ کہ مناسب طریقے سے کوئی بات کہہ دو اور نکاح کا عقد پکا کرنے کا اس وقت تک ارادہ بھی مت کرنا جب تک عدت کی مقر رہ مدت اپنی میعاد کو نہ پہنچ جائے، اور یاد رکھو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اللہ اسے خوب جانتا ہے، لہذا اس سے ڈرتے رہو، اور یاد کھو کہ اللہ بہت بخشنے والا بڑا بردبار ہے۔

تفسیر

جو عورت عدت گزار رہی ہو اس کو صاف لفظوں میں نکاح کا پیغام دینا اور یہ بات پکی کر لینا جائز نہیں ہے کہ عدت کے بعد تم مجھ سے نکاح کرو گی، البتہ اس آیت نے کوئی مناسب اشارہ دینے کی اجازت دی ہے، جس سے وہ عورت سمجھ جائے کہ اس شخص کا ارادہ عدت کے بعد پیغام دینے کا ہے، مثلاً کوئی اتنا کہلوا دے کہ میں بھی کسی مناسب رشتے کی تلاش میں ہوں۔

آیت ۲۳۶

ترجمہ

تم پر اس میں بھی کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم عورتوں کو ایسے وقت طلاق دو جبکہ ابھی تم نے ان کو چھوا بھی نہ ہو، اور نہ ان کے لیے کوئی مہر مقرر کیا ہو، اور (ایسی صورت میں) ان کو کوئی تحفہ دو، خوشحال شخص اپنی حیثیت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی حیثیت کے مطابق بھلے طریقے سے یہ تحفہ دے۔ یہ نیک آدمیوں پر ایک لازمی حق ہے۔

تفسیر

یہ وہ صورت ہے جس میں دونوں مرد و عورت نے نکاح کے وقت کوئی مہر مقرر نہیں کیا تھا اور پھر دونوں کے درمیان خلوت کی نوبت آنے سے پہلے ہی طلاق ہو گئی، اس صورت میں شوہر پر مہر واجب نہیں ہوتا، لیکن کم از کم ایک جوڑا کپڑا دینا واجب ہے، اور کچھ مزید تحفہ دیدے تو زیادہ بہتر ہے (اس تحفہ کو اصطلاح میں متعہ کہا جاتا ہے) اور اگر نکاح کے وقت مہر کی مقدار طے کر لی گئی تھی، پھر خلوت سے پہلے ہی طلاق ہو گئی تو اس صورت میں آدھا مہر واجب ہو گا۔

آیت ۲۳۷

ترجمہ

اور اگر تم نے انہیں چھونے سے پہلے ہی اس حالت میں طلاق دی ہو جبکہ ان کے لیے (نکاح کے وقت) کوئی مہر مقرر کر لیا تھا تو جتنا مہر تم نے مقرر کیا تھا اس کا آدھا دینا (واجب ہے) الا یہ کہ وہ عورتیں رعایت کر دیں (اور آدھے مہر کا بھی مطالبہ نہ کریں) یا وہ (شوہر) جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے، رعایت کرے ا(اور پورا مہر دیدے) اور اگر تم رعایت کرو تو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے، اور آپس میں فراخ دلی کا برتاؤ کرنا مت بھولو۔ جو عمل بھی تم کرتے ہو، اللہ یقیناً اسے دیکھ رہا ہے۔
تمام نمازوں کا پورا خیال رکھو، اور (خاص طور پر) بیچ کی نماز کا اور اللہ کے سامنے با ادب فرمانبردار بن کر کھڑے ہوا کرو۔

تفسیر

آیت نمبر ۱۵۳ سے اسلامی عقائد اور احکام کا جو بیان شروع ہوا تھا وہ اب ختم ہو رہا ہے، آیت نمبر ۱۵۳ میں یہ بیان نماز کی تاکید سے شروع ہوا تھا اب آخر میں دوبارہ نماز کی یہ اہمیت بیان کی جا رہی ہے کہ جنگ کے شدید حالات میں بھی امکان کی آخری حد تک اس کا خیال رکھنا ضروری ہے، بیچ کی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے، اس کا خاص طور پر اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ عام طور سے اس وقت لوگ اپنا کاروبار سمیٹنے میں مشغول ہوتے ہیں اور اس مشغولیت میں بے پروائی ہونے کا امکان زیادہ ہے۔

آیت ۲۳۹

ترجمہ

اور اگر تمہیں (دشمن کا) خوف لاحق ہو تو کھڑے کھڑے یا سوار ہونے کی حالت ہی میں (نماز پڑھ لو) پھر جب تم امن کی حالت میں آ جاؤ تو اللہ کا ذکر اس طریقے سے کرو جو اس نے تمہیں سکھایا ہے جس سے تم پہلے ناواقف تھے۔

تفسیر

جنگ کی حالت میں جب باقاعدہ نماز پڑھنے کا موقع نہ ہو اس بات کی اجازت ہے کہ انسان کھڑے کھڑے اشارے سے نماز پڑھ لے البتہ چلتے ہوئے پڑھنا جائز نہیں اگر کھڑا ہونے کا بھی موقع نہ ہو تو نماز قضا کرنا بھی جائز ہے۔

آیت ۲۴۰

ترجمہ

اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جائیں اور اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنی بیویوں کے حق میں یہ وصیت کر جایا کریں کہ ایک سال تک وہ (ترکے سے نفقہ وصول کرنے کا) فائدہ اٹھائیں گی اور ان کو (شوہر کے گھر سے) نکالا نہیں جائے گا ہاں اگر وہ خود نکل جائیں تو اپنے حق میں قاعدے کے مطابق وہ جو کچھ بھی کریں اس میں تےم پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ اور اللہ صاحب اقتدار بھی ہے، صاحب حکمت بھی۔

تفسیر

آخر میں طلاق کے جو مسائل چل رہے تھے ان کا ایک تکملہ ضمنی طور پر بیان ہوا ہے جو مطلقہ عورتوں کے حقوق سے متعلق ہے، زمانہ جاہلیت میں بیوہ عورت کی عدت ایک سال ہوتی تھی، لیکن اسلام نے پیچھے آیت نمبر ۲۳۴ میں عدت کی مدت گھٹا کر چار مہینے دس دن مقرر کر دی، جس وقت زیر نظر آیت نازل ہوئی ہے اس وقت تک میراث کے احکام نہیں آئے تھے اور جیسا کے اوپر آیت نمبر ۱۸۰ میں گزرا لوگوں پر یہ واجب تھا کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے حق میں وصیت کیا کریں کہ ان کے ترکے سے کس کو کتنا دیا جائے، لہذا اس آیت میں اسی اصول کے تحت یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگرچہ بیوہ کی عدت چار مہینے دس دن ہے، لیکن اس کے شوہر کو چاہئے کہ وہ اپنی بیوی کے حق میں یہ وصیت کر جائے کہ اسے سال بھر تک اس کے ترکے سے نفقہ بھی دیا جائے اور اس کے گھر میں رہائش بھی فراہم کی جائے، البتہ وہ خود اپنا یہ حق چھوڑ دے اور چار مہینے دس دن کے بعد شوہر کے گھر سے چلی جائے تو کچھ حرج نہیں، ہاں چار مہینے دس دن سے پہلے اس کے لئے بھی شوہر کے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے، اگلے جملے میں جو کہا گیا ہے کہ ہاں اگر وہ خود نکل جائیں تو اپنے حق میں قاعدے کے مطابق وہ جو کچھ بھی کریں اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہو گا، اس میں قاعدے سے مراد یہی ہے کہ وہ عدت پوری کرنے کے بعد نکلیں، پہلے نہیں، لیکن یہ سارا حکم میراث کے احکام آنے سے پہلے تھا، جب سورة نساء میں میراث کے احکام آ گئے اور بیوی کا حصہ ترکے میں مقرر کر دیا گیا تو سال بھر کے نفقے اور رہائش کا یہ حق ختم ہو گیا۔

آیت ۲۴۱

ترجمہ

اور مطلقہ عورتوں کو قاعدے کے مطابق فائدہ پہچانا متقیوں پر ان کا حق ہے۔

تفسیر

مطلقہ عورتوں کو فائدہ پہچانے کا لفظ بڑا عام ہے اس میں عدت کے دوران کا نفقہ بھی داخل ہے اور اگر ابھی مہر نہ دیا گیا ہو تو وہ بھی داخل ہے نیز اوپر آیت نمبر ۲۳۶ میں جس تحفے کا ذکر ہے وہ بھی اس میں شامل ہے۔ یہ تحفہ اس صورت میں بھی مستحب ہے کہ مطلقہ عورت کو مہر کے علاوہ یہ تحفہ بھی دیا جائے ان تمام احکام سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ اول تو طلاق کوئی پسندیدہ چیز نہیں ہے اور اس کا اقدام اسی وقت کرنا چاہئے جب کوئی اور صورت باقی نہ رہی ہو، دوسرے جب یہ اقدام کیا جائے تو نکاح کے تعلق کا اختتام بھی شرافت فراخ دلی اور احترام سے خوشگوار ماحول میں ہونا چاہئے، دشمنی کے ماحول میں نہیں۔

آیت ۲۴۲

ترجمہ

اللہ اپنے احکام اسی طرح وضاحت سے تمہارے سامنے بیان کرتا ہے تاکہ تم سمجھ داری سے کام لو۔
کیا تمہیں ان لوگوں کا حال معلوم نہیں ہوا جو موت سے بچنے کے لیے اپنے گھروں سے نکل آئے تھے، اور وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے؟ چنانچہ اللہ نے ان سے کہا مر جاؤ، پھر انہیں زندہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ لوگوں پر بہت فضل فرمانے والا ہے، لیکن اکثر لوگ شکر ادا نہیں کرتے۔

تفسیر

یہاں سے آیت نمبر ۲۶۰ تک دو مضمون ایک ساتھ بیان ہوئے ہیں، بنیادی مقصد جہاد کی ترغیب دینا ہے لیکن بعض منافقین اور کمزور طبیعت کے لوگ جہاد میں جانے سے اس لئے کتراتے تھے کہ انہیں موت کا خوف تھا، اس لئے دوسرا مضمون ساتھ ساتھ بیان ہوا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ موت اور زندگی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے وہ چاہے تو جنگ کے بغیر بھی موت دیدے اور چاہے تو شدید جنگ کے درمیان بھی انسانوں کی حفاظت کر لے، بلکہ اس کی قدرت میں یہ بھی ہے کہ وہ مرنے کے بعد بھی انسانوں کو زندہ کر دے، اس قدرت کا عمومی مظاہرہ تو آخرت میں ہو گا لیکن اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی چند ایسے نمونے دنیا کو دکھا دئیے ہیں جن میں بعض لوگوں کو مرنے کے بعد بھی زندہ کیا گیا ہے، اس کی ایک مثال اس آیت ۲۴۳ میں دی گئی ہے، ایک اشارہ آیت نمبر ۲۵۳ میں حضرت عیسیٰؑ کی طرف کیا گیا ہے جن کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے کئے مردوں کو زندہ کیا تیسرا حوالہ حضرت ابراہیمؑ اور نمرود کے مکالمے (آیت نمبر ۲۵۸) میں اللہ تعالیٰ کے موت اور زندگی دینے سے متعلق ہے، چوتھا واقعہ آیت نمبر ۲۵۹ میں حضرت عزیرؑ کا بیان فرمایا گیا ہے اور اس سے اگلی آیت (نمبر ۲۶۰) میں پانچواں واقعہ حضرت ابراہیمؑ کا ہے جس میں انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو کیسے زندہ کرتے ہیں۔
زیر نظر آیت (آیت ۲۴۳) میں جو واقعہ بیان ہوا ہے اس کی تفصیل قرآن کریم نے بیان نہیں فرمائی۔ صرف اتنا بتایا ہے کہ کسی زمانے میں کوئی قوم جو ہزاروں کی تعداد میں تھی، موت سے بچنے کے لیے اپنے گھروں سے نکل کھڑی ہوئی تھی، مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں موت دے دی، اور پھر زندہ کر کے یہ دکھا دیا کہ اگر موت سے بچنے کے لیے کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی تدبیر اختیار کرے تو ضروری نہیں کہ موت سے بچ ہی جائے، اللہ تعالیٰ اسے پھر بھی موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔ یہ لوگ کون تھے؟ کس زمانے میں تھے؟ وہ موت کا خوف کیا تھا جس کی بنا پر یہ بھاگ کھڑے ہوئے تھے؟ یہ تفصیل قرآن کریم نے بیان نہیں فرمائی، کیونکہ قرآن کریم کوئی تاریخ کی کتاب نہیں ہے، اس میں جو واقعات بیان ہوتے ہیں، وہ کوئی سبق دینے کے لیے ہوتے ہیں، لہذا اکثر ان کا صرف اتنا حصہ بیان کیا جاتا ہے جس سے وہ سبق مل جائے۔ اور اس واقعے سے مذکورہ بالا سبق لینے کے لیے اتنی بات کافی ہے جو یہاں بیان ہوئی ہے۔ البتہ جس انداز سے قرآن کریم نے اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ قصہ اس وقت لوگوں میں مشہور و معروف تھا۔ آیت کے شروع میں یہ الفاظ کہ ‘‘ کیا تمہیں ان لوگوں کا حال معلوم نہیں ہوا؟‘‘ اس قصے کی شہرت پر دلالت کر رہے ہیں۔ چنانچہ حافظ ابن جریر طبری ؒ نے یہاں حضرت عبداللہ بن عباس اور بعض تابعین سے کئی روایتیں نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ بنو اسرائیل کے لوگوں کا ہے جو ہزاروں کی تعداد میں ہونے کے باوجود یا تو کسی دشمن کے مقابلے سے کترا کر اپنا گھر بار چھوڑ گئے تھے یا طاعون کی وبا سے گھبرا کر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ جب یہ اس جگہ پہنچے جسے وہ پناہ گاہ سمجھتے تھے تو اللہ کے حکم سے موت نے وہیں ان کو آ لیا۔ بعد میں جب وہ بوسیدہ ہڈیوں میں تبدیل ہو گئے تو حضرت حزقیلؑ کا وہاں سے گذر ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ وہ ان ہڈیوں سے خطاب کریں، اور ان کے خطاب کے بعد وہ ہڈیاں پھر سے انسانی شکل میں زندہ ہو کر کھڑی ہو گئیں۔ حضرت حزقیلؑ کا یہ قصہ موجودہ بائبل میں بھی مذکور ہے (دیکھئے حزقی ایل ۱: ۳۷ تا ۱۵) اس لیے کچھ بعید نہیں ہے کہ یہ واقعہ مدینہ منورہ کے یہودیوں کے ذریعے مشہور ہو گیا ہو۔
واقعے کی یہ تفصیلات مستند ہوں یا نہ ہوں، لیکن اتنی بات قرآن کریم کے صاف اور صریح الفاظ سے واضح ہے کہ ان لوگوں کو حقیقی طور پر موت کے بعد زندہ کیا گیا تھا۔ ہمارے زمانے کے بعض مصنفین نے مردوں کے زندہ ہونے کو بعید از قیاس سمجھتے ہوئے اس آیت میں یہ تاویل کی ہے کہ یہاں موت سے مراد سیاسی اور اخلاقی موت ہے، اور دوبارہ زندہ ہونے سے مراد سیاسی غلبہ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاویل قرآن کریم کے صریح الفاظ سے میل نہیں کھاتی۔ اور عربیت اور قرآن کریم کے اسلوب سے بھی بہت بعید ہے سیدھی سی بات یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان ہے تو اس قسم کے واقعات میں تعجب کی کیا بات ہے جس کی بنا پر یہ دور از کار تاویلیں کی جائیں؟ بالخصوص یہاں سے آیت ۲۶۰ تک جو سلسلہ کلام چل رہا ہے۔ اور جس کی تفصیل اوپر بیان ہوئی ہے، اس کی روشنی میں یہاں موت اور زندگی سے حقیقی معنی مراد ہونا ہی قرین قیاس ہے۔

آیت ۲۴۴، ۲۴۵

ترجمہ

اور اللہ کے راستے میں جنگ کرو، اور یقین رکھو کہ اللہ خوب سننے والا، خوب جاننے والا ہے۔
کون ہے جو اللہ کو اچھے طریقے پر قرض دے، تاکہ وہ اسے اس کے مفاد میں اتنا بڑھائے چڑھائے کہ وہ بدر جہاز یا دہ ہو جائے؟ اور اللہ ہی تنگی پیدا کرتا ہے، اور وہی وسعت دیتا ہے، اور اسی کی طرف تم سب کو لوٹایا جائے گا۔

تفسیر

اللہ کو قرض دینے سے مراد اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنا ہے، اس میں غریبوں کی امداد بھی داخل ہے اور جہاد کے مقاصد میں خرچ کرنا بھی ہے، اسے قرض مجازاً کہا گیا ہے، کیونکہ اس کا بدلہ ثواب کی صورت میں دیا جائے گا، اور اچھے طریقے کا مطلب یہ ہے کہ اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے دیا جائے، دکھاوا یا دنیا میں بدلہ لینا مقصود نہ ہو، اور اگر جہاد کے لئے یا کسی غریب کی مدد کے طور پر قرض ہی دیا جائے تو اس پر کسی سود کا مطالبہ نہ ہو، کفار اپنی جنگی ضروریات کے لئے سود پر قرض لیتے تھے، مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ اگرچہ دنیا میں تو انہیں سود نہیں ملے گا، لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ اس کا ثواب اصل سے بدرجہا زیادہ عطا فرمائیں گے، جہاں تک اس خطرے کا تعلق ہے کہ اس طرح خرچ کرنے سے مال میں کمی ہو جائے گی، اس کے جواب میں فرمایا گیا ہے کہ تنگی اور وسعت اللہ ہی کے قبضے میں ہیں، جو شخص اللہ کے دین کے خاطر اپنا مال خرچ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو تنگی پیش آنے نہیں دیں گے بشرطیکہ وہ اللہ کے حکم کے مطابق خرچ کرے۔

آیت ۲۴۶

ترجمہ

کیا تمہیں موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے گروہ کے اس واقعے کا علم نہیں ہوا جب انہوں نے اپنے ایک نبی سے کہا تھا کہ ہمارا ایک بادشاہ مقرر کر دیجیے تاکہ (اس کے جھنڈے تلے) ہم اللہ کے راستے میں جنگ کر سکیں۔ نبی نے کہا کیا تم لوگوں سے یہ بات کچھ بعید ہے کہ جب تم پر جنگ فرض کی جائے تو تم نہ لڑو؟ انہوں نے کہا بھلا ہمیں کیا ہو جائے گا جو ہم اللہ کے راستے میں جنگ نہ کریں گے حالانکہ ہمیں اپنے گھروں اور اپنے بچوں کے پاس سے نکال باہر کیا گیا ہے۔ پھر (ہوا یہی کہ) جب ان پر جنگ فرض کی گئی تو ان میں سے تھوڑے لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب پیٹھ پھیر گئے، اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔

تفسیر

یہاں نبی سے مراد حضرت سموئیلؑ ہیں جو حضرت موسیٰؑ کے تقریباً ساڑھے تین سو سال بعد پیغمبر بنائے گئے تھے، سورة مائدہ (۵: ۲۴) میں مذکور ہے کہ فرعون سے نجات پانے کے بعد حضرت موسیٰؑ نے بنی اسرائیل کو ان عمالقہ سے جہاد کرنے کی دعوت دی تھی جو بنی اسرائیل کے وطن فلسطین پر قابض ہو گئے تھے مگر بنی اسرائیل نے انکار کر دیا، جس کی سزاء میں انہیں صحرائے سینا میں محصور کر دیا گیا اور اسی حالت میں حضرت موسیٰؑ کی وفات ہو گئی، بعد میں حضرت یوشعؑ کی قیادت میں فلسطین کا ایک بڑا علاقہ فتح ہوا، حضرت یوشعؑ آخر عمر تک ان کی نگرانی کرتے رہے اور ان کے معاملات کے تصفیے کے لئے قاضی مقر رکئے، تقریباً تین سو سال تک نظام اسی طرح چلتا رہا کہ بنی اسرائیل کا کوئی بادشاہ یا حکمران نہیں بلکہ قبیلوں کے سردار حضرت یوشعؑ کے مقرر کئے ہوئے نظام کے تحت قاضی ہوا کرتے تھے، اسی لئے اس دور کو قاضیوں کا زمانہ کہا جاتا تھا، بائبل کی کتاب قضاۃ میں اسی زمانہ کی تاریخ بیان کی گئی ہے، چونکہ اس دور میں پوری قوم کا کوئی متفقہ حکمران نہیں تھا، اس لئے آس پاس کی قومیں ان پر حملہ آور ہوتی تھیں، آخر میں فلسطین کی بت پرست قوم نے ان پر حملہ کر کے انہیں سخت شکست دی اور وہ متبرک صندوق بھی اٹھا کر لے گئے جس میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونؑ کی کچھ یادگاریں، تورات کا نسخہ اور آسمانی غذا‘‘ من‘‘ کا مرتبان محفوظ تھا اور جسے بنی اسرائیل تبرک کے لئے جنگوں کے موقع پر آگے رکھا کرتے تھے، حالات کے اس پس منظر میں ایک قاضی حضرت سموئیلؑ کو نبوت کا منصب عطا ہوا، ان کے دور میں بھی فلسطینیوں کا ظلم و ستم جاری رہا تو بنی اسرائیل نے ان سے درخواست کی کہ ان پر کوئی بادشاہ مقرر کر دیا جائے، اس کے نتیجے میں طالوت کو بادشاہ بنایا گیا جس کا واقعہ یہاں سے مذکور ہے، بائبل میں دو کتابیں حضرت سموئیلؑ کی طرف منسوب ہیں ان میں سے پہلی کتاب میں بنی اسرائیل کی طرف سے بادشاہ مقرر کرنے کی فرمائش بھی ذکر کی گئی ہے، مگر بادشاہ کا نام طالوت کے بجائے ساؤل مذکور ہے نیز بعض تفصیلات میں فرق بھی ہے۔

آیت ۲۴۷، ۲۴۸

ترجمہ

اور ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اللہ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ بنا کر بھیجا ہے۔ کہنے لگے بھلا اس کو ہم پر بادشاہت کرنے کا حق کہاں سے آ گیا؟ ہم اس کے مقابلے میں بادشاہت کے زیادہ مستحق ہیں، اور اس کو تو مالی وسعت بھی حاصل نہیں۔ نبی نے کہا اللہ نے ان کو تم پر فضیلت دے کر چنا ہے اور انہیں علم اور جسم میں (تم سے) زیادہ وسعت عطا کی ہے، اور اللہ اپنا ملک جس کو چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت اور بڑا علم رکھنے والا ہے۔
اور ان سے ان کے نبی نے یہ بھی کہا کہ طالوت کی بادشاہت کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق (واپس) آ جائے گا جس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے سکینت کا سامان ہے، اور موسیٰ اور ہارون نے جو اشیاء چھوڑی تھیں ان میں سے کچھ باقی ماندہ چیزیں ہیں۔ اسے فرشتے اٹھائے ہوئے لائیں گے اگر تم مومن ہو تو تمہارے لیے اس میں بڑی نشانی ہے۔

تفسیر

جب بنی اسرائیل نے طالوت کو بادشاہ ماننے سے انکار کیا اور ان کے بادشاہ مقرر ہونے پر کوئی نشانی طلب کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت سموئیلؑ سے کہلوایا کہ ان کے منجانب اللہ ہونے کی نشانی یہ ہو گی کہ اشدودی قوم کے لوگ جو متبرک صندوق اٹھا کر لے گئے تھے ان کے زمانے میں، اللہ کے فرشتے وہ صندوق تمہارے پاس اٹھا کر لے آئیں گے، اسرائیلی روایات کے مطابق اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ اشدودیوں نے وہ صندوق ایک مندر میں لے جا کر رکھا مگر اس کے بعد وہ طرح طرح کی مصیبتوں سے دوچار ہونا شروع ہو گئے، کبھی ان کے بت اوندھے پڑے ہوئے ملتے، کبھی گلٹیوں کی وبا پھیل جاتی، کبھی چوہوں کی کثرت پریشان کرتی، آخر کار ان کے نجومیوں نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ یہ ساری آفتیں اس صندوق کی وجہ سے ہیں، چنانچہ انہوں نے وہ صندوق بیل گاڑیوں پر رکھ کر انہیں شہر سے باہر ہنکا دیا، بائبل میں فرشتوں کے صندوق لانے کا ذکر نہیں ہے، مگر قرآن کریم نے صاف کہا ہے کہ اسے فرشتے لے کر آئیں گے، اگر بائبل کی یہ روایت درست مانی جائے کہ ان لوگوں نے خود صندوق کو باہر نکال دیا تھا تو ممکن ہے کہ بیل گاڑیوں نے اسے شہر سے باہر چھوڑ دیا ہو اور وہاں سے اسے فرشتے اٹھا کر بنی اسرائیل کے پاس لے آئے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ بیل گاڑیوں پر ہنکانے کا قصہ ہی غلط ہو اور فرشتے اسے براہ راست اٹھا لائے ہوں، واللہ اعلم۔

آیت ۲۴۹

ترجمہ

چنانچہ جب طالوت لشکر کے ساتھ روانہ ہوا تو اس نے (لشکر والوں سے) کہا کہ اللہ ایک دریا کے ذریعے تمہارا امتحان لینے والا ہے، جو شخص اس دریا سے پانی پیے گا وہ میرا آدمی نہیں ہو گا، اور جو اسے نہیں چکھے گا وہ میرا آدمی ہو گا، الا یہ کہ کوئی اپنے ہاتھ سے ایک چلو بھر لے (تو کچھ حرج نہیں) پھر (ہوا یہ کہ) ان میں سے تھوڑے آدمیوں کے سوا باقی سب نے اس دریا سے (خوب) پانی پیا۔ چنانچہ جب وہ (یعنی طالوت) اور اس کے ساتھ ایمان رکھنے والے دریا کے پار اترے، تو یہ لوگ (جنہوں نے طالوت کا حکم نہیں مانا تھا) کہنے لگے کہ آج جالوت اور اس کے لشکر کا مقابلہ کرنے کی ہم میں بالکل طاقت نہیں ہے۔ (مگر) جن لوگوں کا ایمان تھا کہ وہ اللہ سے جا ملنے والے ہیں انہوں نے کہا کہ نجانے کتنی چھوٹی جماعتیں ہیں جو اللہ کے حکم سے بڑی جماعتوں پر غالب آئی ہیں، اور اللہ ان لوگوں کا ساتھی ہے جو صبر سے کام لیتے ہیں۔

تفسیر

یہ دریائے اردن تھا اور یہ امتحان بظاہر یہ دیکھنے کے لئے لیا گیا تھا کہ لشکر کے کتنے لوگ ہیں جو اپنے امیر کی اطاعت کا ایسا جذبہ رکھتے ہیں کہ اس پر اپنی خواہشات کو بھی قربان کر دیں کیونکہ اس طرح کی جنگ میں ایسی مضبوط اطاعت کے بغیر کام نہیں چلتا۔

آیت ۲۵۰

ترجمہ

اور جب یہ لوگ جالوت اور اس کے لشکروں کے آمنے سامنے ہوئے تو انہوں نے کہا اے ہمارے پروردگار صبر و استقلال کی صفت ہم پر انڈیل دے، ہمیں ثابت قدمی بخش دے، اور ہمیں اس کافر قوم کے مقابلے میں فتح و نصرت عطا فرما دے۔
چنانچہ انہوں نے اللہ کے حکم سے ان (جالوت کے ساتھیوں) کو شکست دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کیا، اور اللہ نے اس کو سلطنت اور دانائی عطا کی، اور جو علم چاہا اس کو عطا فرمایا۔ اگر اللہ لوگوں کا ایک دوسرے ذریعے دفاع نہ کرے تو زمین میں فساد پھیل جائے، لیکن اللہ تمام جہانوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے۔

تفسیر

جالوت دشمن کی فوج کا بڑا قوی ہیکل پہلوان تھا، سموئیلؑ کے نام پر جو پہلی کتاب بائبل میں ہے اس میں مذکور ہے کہ وہ کئی روز تک بنی اسرائیل کو چیلنج دیتا رہا کہ کوئی اس کے مقابلے کے لئے آئے، مگر کسی کو اس سے دوبدو لڑنے کی جرأت نہ ہوئی، داؤدؑ اس وقت نوعمر نوجوان تھے، ان کے تین بھائی جنگ میں شریک تھے، مگر وہ چونکہ سب سے چھوٹے تھے اس لئے اپنے بوڑھے والد کی خدمت کے لئے ان کے پاس رہ گئے تھے، جب میدان جنگ شروع ہوئے کئی دن گزر گئے تو ان کے والد نے انہیں اپنے تین بھائیوں کی خبر لینے کے لئے میدان جنگ بھیجا، یہ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ جالوت مسلسل چیلنج دے رہا ہے اور کوئی اس سے لڑنے کے لئے آگے نہیں بڑھ رہا ہے، تو انہیں غیرت آئی اور انہوں نے طالوت سے اجازت مانگی کہ وہ جالوت کے مقابلے کے لئے جانا چاہتے ہیں، ان کی نوعمری کے پیش نظر شروع میں طالوت اور دوسرے لوگوں کو بھی تردد ہوا، لیکن ان کے اصرار پر انہیں اجازت مل گئی، انہوں نے جالوت کے سامنے جا کر اللہ کا نام لیا اور ایک پتھر اس کی پیشانی پر مارا جو اس کے سر میں گھس گیا اور وہ زمین پر گر پڑا، یہ اس کے پاس گئے اور خود اسی کی تلوار لے کر اس کا سر قلم کر دیا، (۱۔ سموئیل، باب ۱۷) یہاں تک بائبل اور قرآن کریم کے بیان میں کوئی تعارض نہیں ہے، لیکن اس کے بعد بائبل میں یہ کہا گیا ہے کہ طالوت (یا ساؤل) کو حضرت داؤدؑ کی مقبولیت سے حسد ہو گیا تھا، چنانچہ بائبل میں ان کے خلاف بہت سی ناقابل یقین باتیں ذکر کی گئی ہیں، بظاہر یہ داستانیں ان بنی اسرائیل کی کاروائی ہے جو شروع سے طالوت کے مخالف تھے، قرآن کریم نے جن الفاظ میں طالوت کی تعریف کی ہے ان میں حسد جیسی بیماری کی گنجائش نہیں ہے، بہر حال حضرت داؤدؑ کے اس کارنامے نے انہیں ایسی مقبولیت عطا کی کہ بعد میں وہ بنی اسرائیل کے بادشاہ بھی بنے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت سے بھی سرفراز فرمایا اور ان کے ذریعے پہلی بار ایسا ہوا کہ نبوت اور بادشاہت ایک ہی ذات میں جمع ہوئیں۔

آیت ۲۵۲

ترجمہ

یہ اللہ کی آیات ہیں جو ہم آپ کے سامنے ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سناتے ہیں، اور آپ بیشک ان پیغمبروں میں سے ہیں جو رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔

تفسیر

طالوت بادشاہ کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ آنحضرتﷺ کی زبان مبارک پر ان آیات کا جاری ہونا آپ کے رسول ہونے کی دلیل ہے اس لئے آپ کے پاس ان واقعات کو جاننے کا وحی کے سوا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اور ٹھیک ٹھیک کے الفاظ سے شاید اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ اہل کتاب نے ان واقعات کو بیان کرنے میں کہیں مبالغے سے کام لیا ہے اور کہیں من گھڑت قصے مشہور کر دئے ہیں قرآن کریم ان میں سے صرف صحیح باتیں بیان کرتا ہے۔

آیت ۲۵۳

ترجمہ

یہ پیغمبر جو ہم نے (مخلوق کی اصلاح کے لیے) بھیجے ہیں، ان کو ہم نے ایک دوسرے پر فضیلت عطا کی ہے، ۱ ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ نے کلام فرمایا، اور ان میں سے بعض کو اس نے بدرجہا بلندی عطا کی اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم کو کھلی نشانیاں دیں اور روح القدر سے ان کی مدد فرمائی ۲ اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے بعد والے لوگ اپنے پاس روشن دلائل آ جانے کے بعد آپس میں نہ لڑتے، ۳ لیکن انہوں نے خود اختلاف کیا، چنانچہ ان میں سے کچھ وہ تھے جو ایمان لائے اور کچھ وہ جنہوں نے کفر اپنایا۔ اور اگر اللہ چاہتا تو وہ آپس میں نہ لڑتے، لیکن اللہ وہی کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔

تفسیر

۱۔ تلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا مطلب یہ ہے کہ تھوڑی بہت فضیلت تو مختلف انبیاء کرامؑ کو ایک دوسرے پر دی گئی ہے، لیکن بعض انبیاء کرامؑ کو دوسروں پر بدرجہا زیادہ فضیلت حاصل ہے اور یہ نبی کریمﷺ کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے۔
۲۔ یہ مضمون پیچھے آیت نمبر ۸۷ میں آ چکا ہے۔ تشریح کے لیے اس آیت کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔
۳۔ قرآن کریم نے بہت سے مقامات پر یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں یہ تھا کہ وہ تمام انسانوں کو زبردستی ایمان لانے پر مجبور کر دیتا اور اس صورت میں سب کا دین ایک ہی ہو جاتا اور کوئی اختلاف پیدا نہ ہوتا، لیکن اس سے وہ سارا نظام تلپٹ ہو جاتا جس کے لئے یہ دنیا بنائی گئی ہے اور انسان کو اس میں بھیجا گیا ہے، انسان کو یہاں بھیجنے کا مقصد اس کا یہ امتحان لینا ہے کہ اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں سے ہدایت کا راستہ معلوم کرنے کے بعد کون ہے جو اس ہدایت پر اپنی مرضی سے چلتا ہے اور کون ہے جو اس کو نظر انداز کر کے اپنی من گھڑت خواہشات کو اپنا رہنما بناتا ہے، اس لئے اللہ نے زبردستی لوگوں کو ایمان پر مجبور نہیں کیا، چنانچہ آگے آیت نمبر ۲۵۶ میں صراحت کے ساتھ یہ بات کہہ دی گئی ہے کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے، حق کے دلائل واضح کر دئے گئے ہیں، اس کے بعد جو کوئی حق کو اختیار کرے گا وہ اپنے ہی فائدے کے لئے ایسا کرے گا اور جو شخص اسے نظر انداز کر کے شیطان کے سکھائے ہوئے راستے پر چلے گا وہ اپنا نقصان کرے گا۔

آیت ۲۵۴

ترجمہ

اے ایمان والو۔ جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے وہ دن آنے سے پہلے پہلے (اللہ کے راستے میں) خرچ کر لو جس دن نہ کوئی سودا ہو گا نہ کوئی دوستی (کام آئے گی) اور نہ کوئی سفارش ہو سکے گی۔ اور ظالم وہ لوگ ہیں جو کفر اختیار کیے ہوئے ہیں۔

تفسیر

وہ دن سے مراد قیامت کا دن ہے

آیت ۲۵۵ ۔ ۲۵۸

ترجمہ

اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو سدا زندہ ہے جو پوری کائنات سنبھالے ہوئے ہے جس کو نہ کبھی اونگھ لگتی ہے، نہ نیند۔ آسمانوں میں جو کچھ ہے (وہ بھی) اور زمین میں جو کچھ ہے (وہ بھی) سب اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کر سکے؟ وہ سارے بندوں کے تمام آگے پیچھے کے حالات کو خوب جانتا ہے، اور وہ لوگ اس کے علم کی کوئی بات اپنے علم کے دائرے میں نہیں لا سکتے، سوائے اس بات کے جسے وہ خود چاہے، اس کی کرسی نے سارے آسمانوں اور زمین کو گھیرا ہوا ہے، اور ان دونوں کی نگہبانی سے اسے ذرا بھی بوجھ نہیں ہوتا، اور وہ بڑا عالی مقام، صاحب عظمت ہے۔
دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے، ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز ہو کر واضح ہو چکا، اس کے بعد جو شخص طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آئے گا، اس نے ایک مضبوط کنڈا تھام لیا جس کے ٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں، اور اللہ خوب سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
اللہ ایمان والوں کا رکھوالا ہے، وہ انہیں اندھیریوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے، اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے، ان کے رکھوالے وہ شیطان ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیریوں میں لے جاتے ہیں، وہ سب آگ کے باسی ہیں، وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔
کیا تم نے اس شخص (کے حال) پر غور کیا جس کو اللہ نے سلطنت کیا دے دی تھی کہ وہ اپنے پروردگار (کے وجود ہی) کے بارے میں ابراہیم سے بحث کرنے لگا؟ جب ابراہیم نے کہا کہ میرا پروردگار وہ ہے جو زندگی بھی دیتا ہے اور موت بھی، تو وہ کہنے لگا کہ میں بھی زندگی دیتا ہوں اور موت دیتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا اچھا اللہ تو سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تم ذرا اسے مغرب سے تو نکال کر لاؤ، اس پر وہ کافر مبہوت ہو کر رہ گیا۔ اور اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

تفسیر

یہ بابل کا بادشاہ نمرود تھا جو خدائی کا بھی دعوے دار تھا، اس نے جو دعوی کیا کہ میں زندگی اور موت دیتا ہوں اس کا مطلب یہ تھا کہ بادشاہ ہونے کی وجہ سے جس کو چاہوں موت کے گھاٹ اتار دوں اور جس کو چاہوں موت کا مستحق ہونے کے باوجود معاف کر کے آزاد کر دوں، اور اس طرح اسے زندگی دے دوں، ظاہر ہے کہ اس کا جواب قطعی طور پر غیر متعلق تھا، اس لئے کہ گفتگو زندگی اور موت کے اسباب سے نہیں ان کی تخلیق سے ہو رہی تھی، لیکن حضرت ابراہیمؑ نے دیکھا کہ وہ یا تو موت اور حیات کی تخلیق کا مطلب ہی نہیں سمجھتا یا کٹ حجتی پر اتر آیا ہے، اس لئے انہوں نے ایک ایسی بات فرمائی جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا، مگر لاجواب ہو کر حق کو قبول کرنے کے بجائے اس نے حضرت ابراہیمؑ کو قید کیا، پھر آگ میں ڈالنے کا حکم دیا، جس کا ذکر قرآن کریم نے سورة انبیاء (۶۸ تا ۷۱) سورة عنکبوت اور سورة صافات میں فرمایا ہے۔

آیت ۲۵۹

ترجمہ

یا (تم نے) اس جیسے شخص (کے واقعے) پر (غور کیا) جس کا ایک بستی پر ایسے وقت گزر ہوا جب وہ چھتوں کے بل گری پڑی تھی؟ (۱۷۵) اس نے کہا کہ اللہ اس بستی کو اس کے مرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا؟ پھر اللہ نے اس شخص کو سو سال تک کے لیے موت دی، اور اس کے بعد زندگہ کر دیا۔ (اور پھر) پوچھا کہ تم کتنے عرصے تک (اس حالت میں) رہے ہو؟ اس نے کہا ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ۔ اللہ نے کہا نہیں بلکہ تم سو سال اسی طرح رہے ہو۔ اب اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ وہ ذرا نہیں سڑیں۔ اور (دوسری طرف) اپنے گدھے کو دیکھو (کہ گل سڑ کر اس کا کیا حال ہو گیا ہے) اور یہ ہم نے اس لیے کیا تاکہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے (اپنی قدرت کا) ایک نشان بنا دیں، اور (اب اپنے گدھے کی) ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم کس طرح انہیں اٹھاتے ہیں، پھر ان کو گوشت کا لباس پہناتے ہیں۔ چنانچہ جب حقیقت کھل کر اس کے سامنے آ گئی تو وہ بول اٹھا کہ مجھے یقین ہے اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

تفسیر

آیت نمبر ۲۵۹ اور ۲۶۰ میں اللہ تعالیٰ نے دو ایسے واقعے ذکر فرمائے ہیں جن میں اس نے اپنے دو خاص بندوں کو اس دنیا ہی میں مردوں کو زندہ کرنے کا مشاہدہ کرایا، پہلے واقعے میں ایک ایسی بستی کا ذکر ہے جو مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھی اس کے تمام باشندے مر کھپ چکے تھے اور مکانات چھتوں سمیت گر کر مٹی میں مل گئے تھے ایک صاحب کا وہاں سے گزر ہوا تو انہوں نے دل میں سوچا کہ اللہ تعالیٰ اس ساری بستی کو کس طرح زندہ کرے گا، بظاہر اس سوچ کا منشاء خدانخواستہ کوئی شک کرنا نہیں تھا بلکہ حیرت کا اظہار تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قدرت کا مشاہدہ اس طرح کرایا جس کا اس آیت میں ذکر ہے، یہ صاحب کون تھے اور یہ بستی کونسی تھی یہ بات قرآن کریم نے نہیں بتائی، اور کوئی مستند روایت بھی ایسی نہیں ہے جس کے ذریعے یقینی طور پر ان باتوں کا تعین کیا جا سکے۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ بستی بیت المقدس تھی۔ اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب بخت نصر نے اس پر حملہ کر کے اسے تباہ کر ڈالا تھا، اور یہ صاحب حضرت عزیر یا حضرت ارمیاؑ تھے۔ لیکن نہ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے، نہ اس کھوج میں پڑنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کا مقصد اس کے بغیر بھی واضح ہے۔ البتہ یہ بات تقریباً یقینی معلوم ہوتی ہے کہ یہ صاحب کوئی نبی تھے، کیونکہ اول تو اس آیت میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے ہم کلام ہوئے، نیز اس طرح کے واقعات انبیائے کرام ہی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ دیکھئے نیچے حاشیہ آیت ۱۷۷

آیت ۲۶۰

ترجمہ

اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب ابراہیم نے کہا تھا کہ میرے پروردگار مجھے دکھائیے کہ آپ مردوں کو کیسے زندہ کرتے ہیں؟ اللہ نے کہا کیا تمہیں یقین نہیں؟ کہنے لگے یقین کیوں نہ ہوتا؟ مگر (یہ خواہش اس لیے کی ہے) تاکہ میرے دل کو پورا اطمینان حاصل ہو جائے۔ ۱ اللہ نے کہا اچھا تو چار پرندے لو، اور انہیں اپنے سے مانوس کر لو، پھر (ان کو ذبح کر کے) ان کا ایک ایک حصہ ہر پہاڑ پر رکھ دو، پھر ان کو بلاؤ، وہ چاروں تمہارے پاس دوڑے چلے آئیں گے۔ ۲ اور جان رکھو کہ اللہ پوری طرح صاحب اقتدار بھی ہے، اعلی درجے کی حکمت والا بھی۔

تفسیر

۱۔ اس سوال و جواب کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہ بات صاف کر دی کہ حضرت ابراہیمؑ کی یہ فرمائش خدانخواستہ کسی شک کی وجہ سے نہیں تھی، انہیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ پر پورا یقین تھا، لیکن آنکھوں سے دیکھنے کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے، اس سے نہ صرف مزید اطمینان حاصل ہوتا ہے، بلکہ اس کے بعد انسان دوسروں سے یہ کہہ سکتا ہے کہ جو کچھ کہہ رہا ہوں دلائل سے اس کا علم حاصل کرنے کے علاوہ آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔
۲۔ یعنی اگرچہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ ہر وقت مردے کو زندہ کرنے کا مشاہدہ کر ا سکتی ہے، مگر اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر ایک کو یہ مشاہدہ نہ کرایا جائے۔ اور بات در اصل یہ ہے کہ یہ دنیا چونکہ امتحان کی جگہ ہے، اس لیے یہاں اصل قیمت ایمان بالغیب کی ہے، اور انسان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ ان حقائق پر آنکھوں سے دیکھے بغیر دلائل کی بنیاد پر ایمان لائے۔ البتہ انبیائے کرام کا معاملہ عام لوگوں سے مختلف ہے۔ وہ جب غیب کے حقائق پر غیر متزلزل ایمان لا کر یہ ثابت کر چکے ہوتے ہیں کہ ان کا ایمان نہ کسی شک کی گنجائش رکھتا ہے اور نہ وہ آنکھ کے کسی مشاہدے پر موقوف ہے تو ان کے ایمان بالغیب کا امتحان اسی دنیا میں پورا ہو جاتا ہے۔ پھر انہیں حکمت خداوندی کے تحت بعض غیبی حقائق آنکھوں سے بھی دکھا دئیے جاتے ہیں، تاکہ ان کے علم و اطمینان کا معیار عام لوگوں سے زیادہ ہو، اور وہ ڈنکے کی چوٹ یہ کہہ سکیں کہ وہ جس بات کی دعوت دے رہے ہیں اس کی حقانیت انہوں نے آنکھوں سے بھی دیکھ رکھی ہے۔
بعض وہ لوگ جو خلاف عادت باتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں، انہوں نے اس آیت میں بھی ایسی کھینچ تان کی ہے جس سے یہ نہ ماننا پڑے کہ وہ پرندے واقعۃً مر کر زندہ ہو گئے تھے۔ لیکن قرآن کریم کا پورا سیاق اور جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ان کا اسلوب ایسی تاویلات کی تردید کرتا ہے۔ جو شخص عربی زبان کے محاورات اور اسالیب سے واقف ہو وہ ان آیات کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں نکالے گا جو ترجمے میں بیان کیا گیا ہے۔

آیت ۲۶۱

ترجمہ

جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات بالیں اگائے (اور) ہر بال میں سو دانے ہوں اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے (ثواب میں) کئی گنا اضافہ کر دیتا ہے، اللہ بہت وسعت والا (اور) بڑے علم والا ہے۔

تفسیر

اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے سات سوگنا ثواب ملتا ہے اور اللہ تعالیٰ جس کا ثواب چاہیں اور بڑھا سکتے ہیں، واضح رہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ کا قرآن کریم نے بار بار ذکر کیا ہے اور اس سے مراد ہر وہ خرچ ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیا جائے اس میں زکوٰۃ صدقات اور خیرات سب داخل ہیں۔

آیت ۲۶۲

ترجمہ

جو لوگ اپنے مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ کوئی تکلیف پہنچاتے ہیں، وہ اپنے پروردگار کے پاس اپنا ثواب پائیں گے، نہ ان کو کوئی خوف لاحق ہو گا اور نہ کوئی غم پہنچے گا۔
بھلی بات کہہ دینا اور درگزر کرنا اس صدقے سے بہتر ہے جس کے بعد کوئی تکلیف پہنچائی جائے اور اللہ بڑا بے نیاز، بہت بردبار ہے۔

تفسیر

مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی سائل کسی سے مانگے اور کسی وجہ سے دے نہ سکتا ہو تو اس سے نرم الفاظ میں معذرت کر لینا اور اگر وہ مانگنے پر ناروا اصرار کرے تو اس کی غلطی سے درگزر کرنا اس سے کہیں بہتر ہے کہ انسان دے تو دے مگر بعد میں احسان جتلائے یا اسے ذلیل کر کے تکلیف پہنچائے

آیت ۲۶۴

ترجمہ

اے ایمان والو اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور تکلیف پہنچا کر اس شخص کی طرح ضائع مت کرو جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ چنانچہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چکنی چٹان پر مٹی جمی ہو، پھر اس پر زور کی بارش پڑے اور اس (مٹی کو بہا کر چٹان) کو (دوبارہ) چکنی بنا چھوڑے۔ ایسے لوگوں نے جو کمائی کی ہوتی ہے وہ ذرا بھی ان کے ہاتھ نہیں لگتی، اور اللہ (ایسے) کافروں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا۔

تفسیر

چٹان پر اگر مٹی جمی ہو تو یہ امید ہو سکتی ہے کہ اس پر کوئی چیز کاشت کر لی جائے، لیکن اگر بارش مٹی کو بہا لے جائے تو چٹان کے چکنے پتھر کاشت کے قابل نہیں رہتے، اسی طرح صدقہ خیرات سے آخرت کے ثواب کی امید ہوتی ہے، لیکن اگر اس کے ساتھ ریا کاری یا احسان جتانے کی خرابی لگ جائے تو وہ صدقے کو بہا لے جاتی ہے اور ثواب کی کوئی امید نہیں رہتی۔

آیت ۲۶۵

ترجمہ

اور جو لوگ اپنے مال اللہ کی خوشنودی طلب کرنے کے لیے اور اپنے آپ میں پختگی پیدا کرنے کے لیے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک باغ کسی ٹیلے پر واقع ہو، اس پر زور کی بارش برسے تو وہ دگنا پھل لے کر آئے۔ اور اگر اس پر زور کی بارش نہ بھی برسے تو ہلکی پھوار بھی اس کے لیے کافی ہے، اور تم جو عمل بھی کرتے ہو اللہ اسے خوب اچھی طرح دیکھتا ہے۔
کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں (اور) اس کو اس باغ میں اور بھی ہر طرح کے پھل حاصل ہوں، اور بڑھاپے نے اسے آ پکڑا ہو، اور اس کے بچے ابھی کمزور ہوں، اتنے میں ایک آگ سے بھرا بگولا آ کر اس کو اپنی زد میں لے لے اور پورا باغ جل کر رہ جائے؟ اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم غور کرو۔

تفسیر

صدقات کو برباد کرنے کی یہ دوسری مثال ہے۔ جس طرح ایک آگ سے بھرا بگولا ہرے بھرے باغ کو یکایک تباہ کر ڈالتا ہے، اسی طرح ریاکاری یا صدقہ دے کر احسان جتلانا یا کسی اور طرح غریب آدمی کو ستانا صدقے کے عظیم ثواب کو برباد کر ڈالتا ہے۔

آیت ۲۶۷ ۔ ۲۷۲

ترجمہ

اے ایمان والو۔ جو کچھ تم نے کمایا ہو اور جو پیداوار ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہو اس کی اچھی چیزوں کا ایک حصہ (اللہ کے راستے میں) خرچ کیا کرو، اور یہ نیت نہ رکھو کہ بس ایسی خراب قسم کی چیزیں (اللہ کے نام پر) دیا کرو گے جو (اگر کوئی دوسرا تمہیں دے تو نفرت کے مارے) تم اسے آنکھیں میچے بغیر نہ لے سکو۔ اور یاد رکھو کہ اللہ ایسا بے نیاز ہے کہ ہر قسم کی تعریف اسی کی طرف لوٹتی ہے۔
شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بے حیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تم سے اپنی مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا، ہر بات جاننے والا ہے۔
وہ جس کو چاہتا ہے دانائی عطا کر دیتا ہے، اور جسے دانائی عطا ہو گئی اسے وافر مقدار میں بھلائی مل گئی۔ اور نصیحت وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جو سمجھ کے مالک ہیں۔
اور تم جو کوئی خرچ کرو یا کوئی منت مانو اللہ اسے جانتا ہے۔ اور ظالموں کو کسی طرح کے مددگار میسر نہیں آئیں گے۔
اگر تم صدقات ظاہر کر کے دو تب بھی اچھا ہے، اور اگر ان کو چھپا کر فقرا کو دو تو یہ تمہارے حق میں کہیں بہتر ہے، اور اللہ تمہاری برائیوں کا کفارہ کر دے گا، اور اللہ تمہارے تمام کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔
(اے پیغمبر) ان (کافروں) کو راہ راست پر لے آنا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے، لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے راہ راست پر لے آتا ہے۔
اور جو مال بھی تم خرچ کرتے ہو وہ خود تمہارے فائدے کے لیے ہوتا ہے جبکہ تم اللہ کی خوشنودی طلب کرنے کے سوا کسی اور غرض سے خرچ نہیں کرتے۔ اور جو مال بھی تم خرچ کرو گے تمہیں پورا پورا دیا جائے گا اور تم پر ذرا بھی ظلم نہیں ہو گا۔

تفسیر

بعض انصاری صحابہ کے کچھ غریب رشتہ دار تھے مگر چونکہ وہ کافر تھے اس لئے وہ ان کی امداد نہیں کرتے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ وہ اسلام لے آئیں تو ان کی امداد کریں، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خود آنحضرتﷺ نے بھی یہی ہدایت فرمائی تھی، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (روح المعانی) اس طرح مسلمانوں کو بتایا گیا کہ آپ پر ان کے اسلام لانے کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی اور اگر آپ ان غریب کافروں پر بھی اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے کچھ خرچ کریں گے تو اس کا بھی پورا پورا ثواب ملے گا۔

آیت ۲۷۳

ترجمہ

(مالی امداد کے بطور خاص) مستحق وہ فقرا ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں اس طرح مقید کر رکھا ہے کہ وہ (معاش کی تلاش کے لیے) زمین میں چل پھر نہیں سکتے۔ چونکہ وہ اتنے پاک دامن ہیں کہ کسی سے سوال نہیں کرتے، اس لیے ناواقف آدمی انہیں مال دار سمجھتا ہے، تم ان کے چہرے کی علامتوں سے ان (کی اندرونی حالت) کو پہچان سکتے ہو (مگر) وہ لوگوں سے لگ لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔ اور تم جو مال بھی خرچ کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

تفسیر

حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ یہ آیت اصحاب صفہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یہ وہ صحابہ تھے جنہوں نے اپنی زندگی علم دین حاصل کرنے کے لئے وقف کر دی تھی اور آنحضرتﷺ کے پاس مسجد نبوی سے متصل ایک چبوترے پر آپڑے تھے، طلب علم کی وجہ سے وہ کوئی معاشی مشغلہ اختیار نہیں کر سکتے تھے مگر مفلسی کی سختیاں ہنسی خوشی برداشت کرتے تھے کسی سے مانگنے کا سوال نہیں تھا، اس آیت نے بتایا کہ ایسے لوگ امداد کے زیادہ مستحق ہیں جو ایک نیک مقصد سے پوری امت کے فائدے کے لئے مقید ہو کر رہ گئے ہیں اور سختیاں جھیلنے کے باوجود اپنی ضرورت کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرتے۔ آیت نمبر ۲۶۱ سے۲۷۴ تک صدقات کی فضیلت اور اس کے احکام بیان ہوئے تھے۔ آگے آیت نمبر ۲۸۰ تک اس کی ضد یعنی سود کا بیان ہے۔ صدقات انسان کے جذبہ سخاوت کی نشانی ہیں، اور سود بخل اور مال کی محبت کی علامت ہے۔

آیت ۲۷۴

ترجمہ

جو لوگ اپنے مال دان رات خاموشی سے بھی اور علانیہ بھی خرچ کرتے ہیں وہ اپنے پروردگار کے پاس اپنا ثواب پائیں گے، اور نہ انہیں کوئی خوف لاحق ہو گا، نہ کوئی غم پہنچے گا۔
جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر پاگل بنا دیا ہو، یہ اس لیے ہو گا کہ انہوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو سود ہی کی طرح ہوتی ہے۔ ۱ حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ لہذا جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آ گئی اور وہ (سودی معاملات سے) باز آ گیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے۔ ۲ اور اس (کی باطنی کیفیت) کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں، وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ ۳

تفسیر

۱۔ " سود " یا " ربا " ہر اس زیادہ رقم کو کہا جاتا ہے جو کسی قرض پر طے کر کے وصول کی جائے، مشرکین کا کہنا تھا کہ جس طرح ہم کوئی سامان فروخت کر کے نفع کماتے ہیں اور اس کو شریعت نے حلال قرار دیا ہے، اسی طرح اگر قرض دے کر کوئی نفع کمائیں تو کیا حرج ہے؟ ان کے اس اعتراض کا جواب تو یہ تھا کہ سامان تجارت کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ اسے بیچ کر نفع کمایا جائے، لیکن نقدی اس کام کے لئے نہیں بنائی گئی کہ اسے سامان تجارت بنا کر اس سے نفع کمایا جائے، وہ تو ایک تبادلے کا ذریعہ ہے، تاکہ اس کے ذریعہ اشیائے ضرورت خریدی اور بیچی جا سکیں، نقدی کا نقدی سے تبادلہ کر کے اسے بذات خود نفع کمانے کا ذریعہ بنا لیا جائے تو اس سے بیشمار مفاسد پیدا ہوتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے یہاں بیع اور سود کے درمیان فرق کی تفصیل بیان کرنے کے بجائے ایک حاکمانہ جواب دیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام قرار دے دیا ہے تو ایک بندے کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس حکم کی حکمت اور اس کا فلسفہ پوچھتا پھرے اور گویا عملاً یہ کہے کہ جب تک مجھے اس کا فلسفہ سمجھ میں نہیں آ جائے گا میں اس حکم پر عمل نہیں کروں گا، واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم میں یقیناً کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے، لیکن ضروری نہیں کہ وہ ہر شخص کی سمجھ میں بھی آ جائے، لہذا اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے تو پہلے اس کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کرنا چاہئے، اس کے بعد اگر کوئی شخص اپنے مزید اطمینان کے لئے حکمت اور فلسفہ سمجھنے کی کوشش کرے تو کوئی حرج نہیں، لیکن اس پر اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کو موقوف رکھنا ایک مومن کا طرز عمل نہیں۔
۲۔ مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے سود کی حرمت نازل ہونے سے پہلے لوگوں سے سود وصول کیا ہے، چونکہ اس وقت تک سود کے حرام ہونے کا اعلان نہیں ہوا تھا اس لئے وہ پچھلے معاملات معاف ہیں، اور ان کے ذریعے جو رقمیں وصول کی گئی ہیں وہ واپس کرنے کی ضرورت نہیں، البتہ حرمت کے اعلان کے وقت جو سود کسی پر واجب الادا ہو وہ لینا جائز نہیں ہو گا، بلکہ اسے چھوڑنا ہو گا جیسا کہ آیت نمبر ۲۷۸ میں حکم دیا گیا ہے۔
۳۔ یعنی جن لوگوں نے حرمت سودی کو تسلیم نہ کیا اور وہی اعتراض کرتے رہے کہ بیع اور سود میں کوئی فرق نہیں، وہ کافر ہونے کی وجہ سے ابدی عذاب کے مستحق ہوں گے۔ سود کے موضوع پر مزید تفصیل کے لیے دیکھئے ان آیات کے تحت معارف القرآن اور مسئلہ سود از حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ اور میرا مذکورہ بالا فیصلہ۔

آیت ۲۷۶ ۔ ۲۸۲

ترجمہ

اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، اور اللہ ہر اس شخص کو ناپسند کرتا ہے جو ناشکرا گنہگار ہو۔
(ہاں) وہ لوگ جو ایمان لائیں، نیک عمل کریں، نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں وہ اپنے رب کے پاس اپنے اجر کے مستحق ہوں گے، نہ انہیں کوئی خوف لاحق ہو گا نہ کوئی غم پہنچے گا۔
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اگر تم واقعہ مومن ہو تو سود کا جو حصہ بھی (کسی کے ذمے) باقی رہ گیا ہو اسے چھوڑ دو۔
پھر بھی اگر تم ایسا نہ کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو۔ اور اگر تم (سود سے) توبہ کرو تو تمہارا اصل سرمایہ تمہارا حق ہے، نہ تم کسی پر ظلم کرو نہ تم پر ظلم کیا جائے۔
اور اگر کوئی تنگدست (قرض دار) ہو تو اس کا ہاتھ کھلنے تک مہلت دینی ہے، اور صدقہ ہی کر دو تو یہ تمہارے حق میں کہیں زیادہ بہتر ہے، بشرطیکہ تم کو سمجھ ہو۔
اور ڈرو اس دن سے جب تم سب اللہ کے پاس لوٹ کر جاؤ گے، پھر ہر ہر شخص کو جو کچھ اس نے کمایا ہے پورا پورا دیا جائے گا، اور ان پر کوئی ظلم نہیں ہو گا۔
اے ایمان والو جب تم کسی معین میعاد کے لیے ادھار کا کوئی معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور تم میں سے جو شخص لکھنا جانتا ہو انصاف کے ساتھ تحریر لکھے، اور جو شخص لکھنا جانتا ہو لکھنے سے انکار نہ کرے۔ جب اللہ نے اسے یہ علم دیا ہے تو اسے لکھنا چاہیے۔ اور تحریر وہ شخص لکھوائے جس کے ذمے حق واجب ہو رہا ہو، اور اسے چاہیے کہ وہ اللہ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور اس (حق) میں کوئی کمی نہ کرے۔ (۱۸۷) ہاں اگر وہ شخص جس کے ذمے حق واجب ہو رہا ہے ناسمجھ یا کمزور ہو یا (کسی اور وجہ سے) تحریر نہ لکھوا سکتا ہو تو اس کا سرپرست انصاف کے ساتھ لکھوائے۔ اور اپنے میں سے دو مردوں کو گواہ بنا لو، ہاں اگر دو مرد موجود نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ان گواہوں میں سے ہو جائیں جنہیں تم پسند کرتے ہو، تاکہ اگر ان دو عورتوں میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلادے۔ اور جب گواہوں کو (گواہی دینے کے لیے) بلایا جائے تو وہ انکار نہ کریں، اور جو معاملہ اپنی میعاد سے وابستہ ہو، چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا، اسے لکھنے سے اکتاؤ نہیں۔ یہ بات اللہ کے نزدیک زیادہ قرین انصاف اور گواہی کو درست رکھنے کا بہتر ذریعہ ہے، اور اس بات کی قریبی ضمانت ہے کہ تم آئندہ شک میں نہیں پڑو گے۔ ہاں اگر تمہارے درمیان کوئی نقد لین دین کا سودا ہو تو اس کو نہ لکھنے میں تمہارے لیے کچھ حرج نہیں ہے۔ اور جب خرید و فروخت کرو تو گواہ بنا لیا کرو۔ اور نہ لکھنے والے کو کوئی تکلیف پہنچائی جائے، نہ گواہ کو۔ اور اگر ایسا کرو گے تو یہ تمہاری طرف سے نافرمانی ہو گی، اور اللہ کا خوف دل میں رکھو، اللہ تمہیں تعلیم دیتا ہے، اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔

تفسیر

یہ قرآن کریم کی سب سے طویل آیت ہے اور اس میں سود کی حرمت بیان کرنے کے بعد ادھار خرید و فروخت کے سلسلے میں اہم ہدایات دی گئی ہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ معاملات صفائی کے ساتھ ہوں، اگر کوئی ادھار کسی کے ذمے واجب ہو رہا ہو تو اسے ایسی تحریر لکھنی یا لکھوانی چاہئے جو معاملے کی نوعیت کو واضح کر دے، اس تحریر میں پوری بات لاگ لپیٹ کے بغیر لکھنی چاہئے اور کسی کا حق مارنے کے لئے تحریر میں کتر بیونت سے پرہیز کرنا چاہئے۔

آیت ۲۸۳

ترجمہ

اور اگر تم سفر پر ہوا اور تمہیں کوئی لکھنے والا نہ ملے تو (ادائیگی کی ضمانت کے طور پر) رہن قبضے میں رکھ لیے جائیں۔ ہاں اگر تم ایک دوسرے پر بھروسہ کرو تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے وہ اپنی امانت ٹھیک ٹھیک ادا کرے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے۔ اور گواہی کو چھپاؤ، اور جو گواہی کو چھپائے وہ گنہگار دل کا حامل ہے، اور جو عمل بھی تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے۔
جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اللہ ہی کا ہے، اور جو باتیں تمہارے دلوں میں ہیں، خواہ تم ان کو ظاہر کرو یا چھپاؤ، اللہ تم سے ان کا حساب لے گا پھر جس کو چاہے گا معاف کر دے گا اور جس کو چاہے گا سزا دے گا (اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

تفسیر

آگے آیت نمبر ۲۸۶ کے پہلے جملے نے واضح کر دیا کہ انسان کے اختیار کے بغیر جو خیالات اس کے دل میں آ جاتے ہیں، ان پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ لہذا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان جان بوجھ کر جو غلط عقیدے دل میں رکھے، یا کسی گناہ کا سوچ سمجھ کر بالکل پکا ارادہ کر لے تو اس کا حساب ہو گا۔

آیت ۲۸۵، ۲۸۶

ترجمہ

یہ رسول (یعنی حضرت محمدﷺ اس چیز پر ایمان لائے ہیں جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اور (ان کے ساتھ) تمام مسلمان بھی، یہ سب اللہ پر، اس کے فرشتوں پر اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں (وہ کہتے ہیں کہ) ہم اس کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے (کہ کسی پر ایمان لائیں، کسی پر نہ لائیں) اور وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے (اللہ اور رسول کے احکام کو توجہ سے) سن لیا ہے، اور ہم خوشی سے (ان کی) تعمیل کرتے ہیں۔ اے ہمارے پروردگار ہم آپ کی مغفرت کے طلبگار ہیں، اور آپ ہی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔
اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا، اس کو فائدہ بھی اسی کام سے ہو گا جو وہ اپنے ارادے سے کرے، اور نقصان بھی اسی کام سے ہو گا جو اپنے ارادے سے کرے۔ (مسلمانو اللہ سے یہ دعا کیا کرو کہ) اے ہمارے پروردگار اگر ہم سے کوئی بھول چوک ہو جائے تو ہماری گرفت نہ فرمایئے۔ اور اے ہمارے پروردگار ہم پر اس طرح کا بوجھ نہ ڈالیے جیسا آپ نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا۔ اور اے ہمارے پروردگار ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈالیے جسے اٹھانے کی ہم میں طاقت نہ ہو، اور ہماری خطاؤں سے درگزر فرمایئے، ہمیں بخش دیجیے اور ہم پر رحم فرمایئے۔ آپ ہی ہمارے حامی و ناصر ہیں، اس لیے کافر لوگوں کے مقابلے میں ہمیں نصرت عطا فرمایئے۔
٭٭٭
 
Top