بیت المقدس مسلمانوں کی مذہبی میراث ہے

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
بیت المقدس مسلمانوں کی مذہبی میراث ہے
مفتی امانت علی قاسمی
اس روئے زمین پر اللہ کا پہلا گھر خانہٴ کعبہ ہے اور دوسرا خانہٴ خدا،مسجد اقصی ہے ، ایک روایت میں ہے حضور صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا گیا یا رسول اللہ! سب سے پہلی مسجد کون سی ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا مسجد حرام، سوال ہوا اور دوسری ؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا مسجد اقصی، پوچھا گیا ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا چالیس سال کا ۔ یہ مسئلہ علما ء کے درمیان اختلافی ہے کہ مسجد حرام کی تعمیر سب سے پہلے کس نے کی؟ ایک روایت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اور ایک روایت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے۔ اسی طرح اس میں بھی اختلاف ہے کہ مسجد اقصی کی تعمیرسب سے پہلے کس نے کی ہے؟ ایک قول ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اور دوسری روایت ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے۔ لیکن زیادہ صحیح یہ ہے خانہٴ کعبہ کی تعمیرحضرت ابراہیم نے اور بیت المقدس کی تعمیر حضرت یعقوب علیہ السلام نے کی ہے، اس لیے کہ ان دونوں کی عمر میں چالیس سال کا فاصلہ ہے ،جب کہ حضرت ابراہیم اور حضرت سلیمان کی عمر میں کئی سو سال کا فاصلہ ہے ۔

اسلام کے ابتدائی زمانہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے، مکہ میں تیرہ سال اور مدینہ ہجرت کرنے کے بعد سولہ یا سترہ مہینہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہے، اس لیے مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول ہے، جس طرح مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی فضیلت ہے اسی طرح مسجد اقصی میں نماز پڑھنے کی فضیلت ہے ،مسجد حرام کی بنسبت مسجد اقصی میں ایک چوتھائی ثواب ملتا ہے ، ایک روایت میں ہے مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک ہزار نمازوں کا ملتا ہے اور مسجد اقصی میں ڈھائی سو نماز پڑھنے کا ثواب ملتا ہے، یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ صلی الله علیہ وسلم نے انبیاء کی امامت فرمائی ہے ، سفر معراج کی پہلی منزل بیت المقدس ہے۔ بعض روایت میں ہے کہ معراج پر تشریف لے جاتے وقت ہی آپ نے انبیاء کی امامت فرمائی تھی ۔ جب کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ معراج سے واپسی پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے بیت المقدس میں فجر کی نماز میں انبیاء کی امامت فرمائی ، ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبادت کی نیت سے کسی مسجد کا سفر کرنا درست نہیں ہے، سوائے تین مساجد کے: مسجد حرام ، مسجد نبوی اور مسجد اقصی یہ وہ وجوہات ہیں جن کی بنیاد پر بیت المقدس سے مسلمانوں کا رشتہ ایمانی اور مذہبی ہے ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ مسلمان بیت المقدس کو فتح کر لیں گے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیش گوئی بہت جلد پوری ہوگئی اور14 میں حضرت عمر فاروق کے زمانے میں حضرت عبیدہ بن الجراح  نے لشکر کشی کی اور فلسطین کا محاصرہ کرلیا، اس وقت اس کا نام ایلیا تھا ،چالیس روز کے محاصرے کے بعد یہودی مصالحت کے لیے تیار ہوگئے ،لیکن ان کی شرط تھی کہ مصالحت پر دستخط مسلمانوں کے خلیفہ خود آکر کریں ،حضرت عمر فاروق نے صحابہ سے مشورہ کیا اور فلسطین تشریف لے آئے اور معاہدہ پردستخط فرمادیے، جس کی رو سے بیت المقدس پرمسلمانوں کا قبضہ ہوگیا اور یہودی جزیہ دے کر مسلمانوں کے زیر سایہ رہنے لگے۔

ایک زمانے تک بیت المقدس مسلمانوں کے قبضہ میں رہا ، پانچویں صدی ہجری میں سلجوقی حکومت کا فاطمی حکومت سے مقابلہ ہوا اور فاطمیوں نے ان سے بیت المقدس اپنی تحویل میں لے لیا، اس کے بعد 493ھ میں پہلی صلیبی جنگ ہوئی اور بیت المقدس صلیبیوں کے ہاتھ میں چلا گیا، اس کی بازیابی کے لیے اللہ تعالی نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو پیدا فرمایا ، صلاح الدین ایوبی یہ دیکھ کر کہ جس بیت المقدس کے ساتھ مسلمانوں کا والہانہ رشتہ رہا ہے، آج وہ غیروں کے ہاتھوں میں ہے وہ تڑپ جاتے ہیں، ان آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ، ان کے چہروں پر ہمیشہ غم کے آثار رہتے ہیں بالآخر وہ ایک مضبوط فوج تیار کرکے بیت المقدس کی بازیابی کا عزم مصمم کرلیتے ہیں اور سلطان کے عزم و استقلال کے آگے صلیبی فوجیں ڈھیر ہو جاتی ہیں ، مقابلہ تو خوب ہوتا ہے، مسلمان بڑی تعداد میں شہید ہوتے ہیں، عیسائی بیت المقدس کے ارد گرد بہت مضبوط قلعہ تعمیر کرتے ہیں، جسے عبور کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، لیکن ایوبی کی ہمت اور عزیمت کے آگے مضبوط قلعہ مسمار ہوجاتا ہے اور نوے سال کے عرصے کے بعد 583ھ میں بیت المقدس پردوبارہ اسلامی پر چم لہرانے لگتا ہے ۔

حضرت عمر فاروق نے بیت المقدس کے فتح ہونے کے بعد وہاں ایک مصلی تعمیر کروایا تھا ، پھر اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے اس سادہ مصلی کو از سر نو تعمیر کرایا اوراس کے شمالی جانب میں ایک قبہ بھی تعمیر کرنے کا حکم دیا ،لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور یہ کام ان کے ہاتھوں تکمیل کو نہ پہنچ سکا، پھر ان کے بیٹے ولید بن عبد الملک نے المصلی الجامع اور قبة الصخرا کو عالی شان انداز میں تعمیر کیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ بیت المقدس ایک بہت بڑے احاطہ کا نام ہے، جس کی چاروں طرف سے مضبوط دیواروں کے ذریعہ گھیرا بندی کی گئی ہے اور یہ حصہ غیر مسقف ہے، اس میں المصلی الجامع اور قبة الصخرا کے علاوہ اور بھی چیزیں تعمیر کی گئی ہیں اور ہر دور میں مسلم حکم رانوں نے مسجد حرام کی طرح بیت المقدس کی تعمیر و تزئین کار ی کے ذریعہ فن تعمیر کی عظیم شاہ کاری کا مظاہرہ کیا ہے، آج کل جو بیت المقدس کی تصویر دکھائی دیتی ہے وہ درحقیقت قبة الصخرا کی تصویر ہے، بیت المقدس تو بہت بڑے رقبہ پر پھیلا ہو ا ہے ۔

یہودیوں کے سلسلہ میں اتنا کہہ دینا کافی ہے اسلام کے ابتدائی زمانہ سے وہ مسلمانوں کے بد ترین دشمن ہیں ،انہوں نے عہد نبوی میں بد عہدی کی، اس کے علاوہ اسلام کو جس طرح نقصان پہنچاسکتے تھے اس سے دریغ نہیں کیا ،قرآن نے ان کی عداوت و دشمنی کے سلسلے میں مختلف آیتیں نازل کی ہیں، یہودی فلسطین پر اپنا حق مانتے ہیں اور بیت المقدس کی جگہ پر ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا چاہتے ہیں ، اسلام سے قبل یہودی فلسطین میںآ باد تھے، لیکن 135ء میں رومی شہنشاہ ہیڈریان نے یہودیوں کو فلسطین سے جلاوطن کردیا تھا، 1700برس تک یہودیوں کو یہاں آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی، اس مدت میں صرف نوے سال تک بیت المقدس عیسائیوں کے قبضہ میں رہا ،سب سے پہلی مرتبہ 1880ء میں کچھ یہودی خاندان فلسطین میں آکر آباد ہوئے، پھر 1897ء میں یہودی تحریک معرض وجود میں آئی، جس کا مقصد فلسطین پر قبضہ کرنا اور ہیکل سلیمانی تعمیر کرنا تھا ، 1901ء میں ہرٹزل نے ترکی خلیفہ سلطان عبد الحمید کو لالچ دیا، اس وقت فلسطین خلافت عثمانیہ کی ماتحتی میں تھا کہ آپ فلسطین میں یہودیوں کے مملکت کے قیام کی اجازت دے دیجیے ،یہودی ترکی کا سارا قرضہ چکا دیں گے۔لیکن سلطان عبد الحمید نے نہ صرف ان کے پیش کش کوٹھکرا دیا، بلکہ ان کی غیرت ایمانی جوش میں آگئی، انہوں نے کہا ہم اس وطن کی ایک بالشت زمین بھی اس وقت تک نہیں دیں گے جب تک کہ اس پر ہمارا خون نہ بہ جائے ، یہودی اس بات پر سلطان کے مخالف ہوگئے اور 1908ء میں سازش کے ذریعہ ان کو معزول کر دیا گیا 1914ء میں جب پہلی جنگ عظیم برپا ہوئی تو برطانیہ نے دو قومی نظریہ کے ذریعہ عربوں اور ترکوں میں منافرت پیدا کردی اور عرب برطانیہ کے اور ترکی جرمنی کی حلیف ہوگئے ،اس دوران وائزمین نامی ایک یہودی نے برطانیہ کو یہ پیش کش کی کہ اگر جرمنی پر فتح کی صورت میں فلسطین میں یہودیوں کا قومی وطن بنا دیا جائے تو یہودی اس جنگ کا سارا خرچہ برداشت کرنے کو تیار ہیں اور 1917ء میں یہ خفیہ معاہدہ ہوگیا ،جسے تاریخ میں اعلان بالفور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، یہ معاہدہ برطانیہ دھوکے بازی اور بربریت کاعملی ثبوت ہے اور یہ وہ بد نما داغ ہے جسے انگریز کبھی دھو نہیں سکتے، اس لیے کہ عربوں کی زمین پر انگریزوں کو فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا ہے، پھر وہ انگریز شریف مکہ سے بھی وعدہ کرچکے تھے کہ عرب کی زمین پر عرب کی حکومت ہوگی، اسی معاہدے کی وجہ سے شریف مکہ نے ترکی کے خلاف بغاوت کی تھی ، جس کی وجہ سے فلسطین اور عراق پر برطانیہ کا قبضہ ہوا تھا، لیکن مسلمانوں سے کیا گیا وعدہ نظر انداز کرکے فلسطین یہودیوں کو دے دیا گیا۔

1917ء میں فلسطین کی یہودی آبادی چھپن ہزار تھی ،لیکن اعلان بالفور پر عمل ہونے کی وجہ سے 1921ء میں یہودی آبادی 83ہزارتک پہنچ گئی اور بڑی تیزی سے یہودی آباد ہونے لگے،1922ء سے 1947ء کا زمانہ برطانوی انتداب کا زمانہ ہے، جس میں یہودیوں کو بسانے کا کام منظم طور پر کیا جاتا ہے اور فلسطین کی زمین خریدنے کے لیے خزانے کے منھ کھول دیے جاتے ہیں، اب یہودیوں کی آبادی چار لاکھ سے تجاوز کرجاتی ہے، 1947ء میں برطانیہ نے مسئلہ فلسطین کو اقوام متحدہ میں پیش کردیا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو عربوں اور یہودیوں کے درمیان تقسیم کردیا اور فلسطین کا پچپن فیصد رقبہ یہودیوں کو اور پینتالیس فیصد رقبہ عربوں کو دے دیا، یہ تقسیم بالکل ظالمانہ تھی کہ عربوں کی زمین بلا کسی وجہ کے زبردستی یہودیوں کو دے دی گئی تھی ، اس لیے عرب اس تقسیم سے راضی نہیں تھے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہودی بھی اس تقسیم سے راضی نہیں ہوئے چناں چہ انہوں نے لڑائی کے ذریعہ عرب کی باقی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع دیا، 14/مئی1948ء کو یہودیوں نے اپنے قومی وطن اسرائیل کا اعلان کر دیا، جسے امریکہ اور برطانیہ نے سب سے پہلے تسلیم کرلیا ، اس وقت عرب ممالک نے اس تقسیم کی مخالفت کی اور کوششیں کی، لیکن یہودی جارحیت کے سامنے عربوں کی ایک نہ چلی، بالآخر 1967ء میں عرب اسرائیل جنگ کے نتیجہ میں بیت المقدس مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا ،بلکہ انہوں نے بیت المقدس کے علاوہ مصر کے صحرائے سینا ء اور شام کے جولان کی پہاڑیوں پر بھی اپنا قبضہ جما لیا ، اس طرح تیرہ سو سال جو بیت المقدس مسلمانوں کے قبضہ میں تھا یہودیوں کا اس پر قبضہ ہوگیا ۔

اب ان کا منصوبہ یہ ہے کہ بیت المقدس کو منہدم کر کے ایک عظیم ہیکل سلیمانی وہاں پر تعمیر کیا جائے، اس کے لیے وہ منصوبہ بند کوششیں کررہے ہیں ، کبھی اس کے ارد گرد کھدائی کرتے ہیں ، سرنگیں بناتے ہیں ، تا کہ بیت المقدس کی بنیادوں کو کھوکھلاکیا جا سکے ، بیت المقدس میں موجود قبروں کے نشان یا اس کے اسلامی نشان کو مٹا رہے ہیں ، اس شہر سے اسلام کے نشان کو مٹانے کے لیے مسجدوں کو مسمار کر رہے ہیں ، وہاں موجود مسلمانوں کو جبر و تشدد کے ذریعہ فلسطین چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے، کبھی بیت المقدس میں آگ لگا دی جاتی ہے، گویا ہر طرح بیت المقدس کو نیست و نابود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ، لیکن قربان جائیے فلسطینی مسلمانوں پر کہ بے سروسامانی کے عالم میں اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں، اپنی ہمت کا مظاہرہ کررہے ہیں ، نوجوان اور بچے بھی اس جنگ میں پیچھے نہیں ہیں ، اپنی جان کی بازی لگا کر بیت المقدس کی بازیابی کی جد و جہد کررہے ہیں ۔

اسلام نے دنیا کے تمام مسلمانوں کو ایک جسم کی طرح قرار دیا ہے، اگر جسم کے کسی حصے کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم تکلیف محسوس کر تا ہے، اسی طرح اگر دنیا کے کسی خطے میں مسلمان تکلیف میں ہوں توتمام مسلمانوں کو بھی وہ تکلیف محسوس ہونی چاہیے ،اگرفلسطین کے مسلمان اسرائیلی جارحیت کے شکار ہیں تو تمام مسلمانوں کو اس کے خلاف دستوری جد جہد کرنی چاہیے اور اپنے ایمان ویقین کا ثبوت پیش کرنا چاہیے ، ہمیں مسئلہ فلسطین کا مطالعہ کر نا چاہیے ، ہماری نوجوان نسل شاید اس پورے قضیہ سے ہی نا بلد ہے ، ضرورت اس کی ہے کہ ہم تاریخ کا مطالعہ کریں ، حالات سے واقفیت حاصل کریں ، فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اگر کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے ساتھ اظہار ہمدردی و غم خواری کا معاملہ ضرور کر سکتے ہیں ،اتنا تو ہمارا حق ضرور بنتا ہے ان نہتے ، جانباز فلسطینیوں کے لیے ، اللہ تعالی فلسطینی مسلمانوں کی مدد فرمائے اور کوئی صلاح الدین پیدا کرے، جو مسلمانوں کی مذہبی میراث کو واپس دلاسکے، فلسطین مسلمانوں کی مذہبی میراث ہے، مسلمان کبھی بھی اور کسی صورت میں اس سے دست بر دار نہیں ہو سکتے ۔
 
Top