ابن العربی – اور – ابنِ عربی دو الگ الگ شخصیات از قلم: محمد زبیر ندوی

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
علمی و روحانی دنیا میں ابن عربی نام کی شخصیت بڑی معروف و مسلم ہے، اور جب سے ترکی کا ارطغرل ڈرامہ پردۂ سیمیں پر آیا ہے ابن عربی کی شخصیت سے ایک بڑی دنیا متعارف ہوگئی ہے، لیکن اس نام سے دو شخصیات ہیں جو اپنے علم و فضل، فکر و فن، اور نظر و نظریہ کے اعتبار سے کافی الگ ہیں، اہل علم اور خواص و عوام کا ایک بڑا طبقہ ان دونوں شخصیات کو عموماً ایک سمجھ لیتا ہے؛ حالانکہ عمر و عصر اور فکرو نظر کے اعتبار سے دونوں شخصیات میں کوئی یکسانیت نہیں ہے۔

دونوں شخصیات میں ایک کی شہرت ابن العربی (ال سے) سے ہے جبکہ دوسری کی شہرت ابنِ عربی سے ہے، گو کہ دونوں کا ملک و وطن ایک ہی ہے یعنی اندلس؛ اسی لیے ابن العربی الاندلسی اور ابن عربی اندلسی سے معروف ہیں نیز دونوں مسلکا مالکی ہیں؛ لیکن بایں ہمہ دونوں میں کافی فرق ہے، اول الذکر کا نام نامی ابو بکر محمد بن عبد اللہ ابن العربی الاندلسی ہے جبکہ ثانی الذکر کا اسم گرامی محی الدین محمد بن علی ابنِ عربی الاندلسی ہے، ابو بکر ابن العربی کی پیدائش سنہ1076ء اور وفات 1148ء ہے جبکہ محی الدین ابن عربی 1165ء اور وفات 1240ء ہے گویا ابنِ عربی کی پیدائش ابن العربی کی وفات کے 17/سال بعد ہوئی۔

ابن العربی کا اصل میدان علومِ اسلامیہ میں تفسیر و حدیث اور فقہ مالکی ہے، اسی لیے وہ مورخ و فقیہ، مفسر و محدث اور قاضی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں؛ چنانچہ ان کی تصانیف أحكام القرآن، الناسخ والمنسوخ، القبس في شرح موطأ الإمام مالك، العواصم من القواصم، عارضة الأحوذي في شرح الترمذي، المسالك على موطأ مالك، الإنصاف في مسائل الخلاف، أعيان الأعيان، المحصول في أصول الفقه ان کے اسی رنگ و مزاج کو ظاہر کرتی ہیں،

جبکہ ابن عربی کا اصل میدان علم کلام، فلسفہ و تزکیہ باطن اور تصوف و سلوک ہے، ان کی اسی فنی خصوصیت کی وجہ سے انہیں "الکبریت الاحمر ” (نادر روزگار) اور "شیخ اکبر” کہا جاتا ہے، ان کی تصانیف کتاب الیقین، الاعلام باشارات أہل الالہام ، فصوص الحکم اور الفتوحات المکیہ سے ان کے اسی ذوق اور رنگ و آہنگ کا پتہ لگایا جاسکتا ہے۔
ابو بکر قاضی ابن العربی کی کتابیں ہر مکتبۂ فکر میں اہمیت و اعتبار کی نظر سے دیکھی جاتی ہیں اور ہر طبقہ ان سے مستفید ہوتا ہے؛ جبکہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی کتابیں اہل ظاہر اور بعض دیگر طبقات کے نزدیک غیر معتبر ہیں، بلکہ الفتوحات المکیہ اور فصوص الحکم کو یہ حضرات زندقہ و الحاد پر مبنی سمجھتے ہیں، بعض عرب آج بھی ان کے بارے میں کافی بدظن ہیں اور ملحد و زندیق تک انہیں گردانتے ہیں، اسی لیے کچھ لوگوں نے طرفہ کے طور پر ابن عربی اور ابن العربی میں موازنہ کرتے ہوئے کہا ہے المعرفة معرفة و النكرة نكرة حالانکہ یہ نقطہ نظر مبنی بر غلو ہے، تاہم ایسا بھی نہیں ہےکہ ابن عربی کی تمام تحقیقات و تصنیفات سے کلی اتفاق کرلیا جائے؛ چنانچہ مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی خود انہیں صوفیاء کبار میں سے شمار کرتے ہیں مگر ابن عربی کے وحدت الوجودکے نظریہ کے شدید ناقد ہیں، وہ ابن عربی سے ناراضگی کا اظہارکرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ہم کو فتوحات مدنیہ نے ”فتوحات مکیہ“ سے اور نصوص (شریعت) نے ”فصوص“ (الحکم ) سے بے نیاز کردیا ہے“ ان کے (ابن عربی کے) اکثرکشفی علوم جواہل سنت کے علوم سے اختلاف رکھتے ہیں، صحت سے دور ہیں، ان کی پیروی یا تو وہ کرے گا جس کا دل بیمار ہے یا مقلد محض“ (مولاناابوالحسن علی ندوی ؒتاریخ دعوت و عزیمت جلد چہارم ص ۵۵۱)

ابن العربی الاندلسی کی وفات ان کے شہر فاس یعنی اندلس ہی میں ہوئی؛ جبکہ شیخ اکبر ابن عربی کی وفات شہر دمشق یعنی ملک شام میں ہوئی، ابن العربی کی وفات ارطغرل بن سلیمان شاہ کی پیدائش سے قبل ہی ہوچکی تھی نیز اناطول/اناضول (موجودہ ترکی) کا سفر ثابت بھی نہیں ہے، جبکہ شیخ اکبر ابن عربی کا زمانہ وہی ہے جو ارطغرل بن سلیمان شاہ کا زمانہ ہے، نیز اناطول/اناضول یعنی موجودہ ترکی میں ان کی بکثرت آمد و رفت ثابت ہے؛ اس لیے ارطغرل سے ملاقات بھی ممکن ہے، تاہم ڈرامے میں جو چیزیں دکھائی گئی ہیں اور ان کے غیبی تصرفات کی منظر نگاری کی گیی ہے وہ محل نظر بھی ہے اور قابل تردید بھی۔

ابن عربی اور ابن العربی کے سلسلے میں یہ چند وضاحتی باتیں تھیں جو افادۂ عام کی خاطر صفحہ قرطاس پر بکھیر دی گئی ہیں، شائقین و قارئین مزید افادے کی خاطر عربِیَین کی کتابوں کے مقدمات اور ابتدائی صفحات نیز "العقد الثمین فی تاریخ البلد الامین”، "عقيدة ابن عربي و حياته”، ‘البدر الطالع” اور” تنبيه الغبي إلى تكفير ابن عربي” وغیرہ کتابوں سے مراجعت کریں۔
 
Top