اہلسنت امام رضان خان صاحب کے شہ پارے

صواب

وفقہ اللہ
رکن
1وہابیوں کے سلام کا جواب دینا حرام ہے ۔ (فتاوی افریقہ ، احمد رضا خان بریلوی، ص170)
2- وہابیوں سے مصافحہ کرنا ناجائز و گناہ ہے۔ (بریق المنار،فتاوی رضویہ ، جلد4 ،ص 218)
3- ان سے میل جول قطعی حرام، انھیں پاس بٹھاناحرام، ان کے پاس بیٹھنا حرام، بیمار پڑیں تو عیادت حرام، مرجائیں تو مسلمانوں کا سا انہیں غسل و کفن دینا حرام، ان کا جنازہ اٹھانا حرام، ان پر نماز پڑھنا حرام، ان کو مقابر مسلمیں میں‌دفن کرنا حرام، ان کی قبر پر جانا حرام۔ (فتاوی رضویہ، جلد6،ص90)

4- انہیں مسلمان سمجھنے والے کے پیچھے نماز جائز نہیں (فتاوی رضویہ، جلد6،ص81)
5- دیوبندی عقیدہ والوں کی کتابیں ہندؤں کی پوتھیوں سے بدتر ہیں۔ ان کتابوں کا دیکھنا حرام ہے۔ البتہ ان کے ورقوں پر استنجا نہ کیا جائے حروف کی تعظیم کی وجہ سے نہ کہ ان کی کتابوں کی۔ نیز اشرف علی کے عذاب و کفر میں شک کرنا بھی کفر ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد2،ص136)
6- وہابی ہر کافر اصلی، یہودی، نصرانی، بت پرست اور مجوسی سب سے بھی بدتر ہیں اور ان کا کفر ان سے بھی زیادہ ہے۔ (بالغ النور ، درج فتاوی رضویہ، جلد6،ص13)
7- یہ کتے سے بھی بدتر ہیں کہ کتے پر عذاب نہیں اور یہ عذاب شدید کے مستحق ہیں۔ (ازالہ العار، درج فتاوی رضویہ، جلد5،ص138)
8- وہابیوں کے پیچھے نماز ادا کرنا باطل محض ہے۔ (بالغ النور ،درج فتاوی رضویہ، جلد6،ص43)
9- وہابی نے نماز جنازہ پڑھائی تو گویا مسلمان بغیر جنازے کے دفن ہوگیا۔ (فتاوی رضویہ، جلد4،ص12)
10- وہابی سے نکاح پڑھوایا تو نہ صرف یہ کہ نکاح نہیں ہوابلکہ اسلام بھی گیا۔ تجدید اسلام و تجدید نکاح لازم۔ (ماھی الضلالہ ،درج فتاوی رضویہ، جلد5،ص50،89)
11- غیر مقلدین جہنم کے کتے ہیں۔ رافضیوں کو ان سے بدتر کہنا رافضیوں پر ظلم اور ان کی شان خباثت میں تنقیص ہے۔ (فتاوی رضویہ، جلد6،ص121)
12- کفر میں یہود، نصاری سے بدترہیں۔ ہنود ، مجوسی سے بدتر ہیں اور وہابیہ ہندؤں سے بھی بدتر ہیں۔ (فتاوی رضویہ، جلد6،ص13)
 

نورمحمد

وفقہ اللہ
رکن
شکریہ بھائی جان . .. مگر میرے خیال سے اس قسم کی پوسٹوں سے بچا جائے تو ہی بہتر ہے . . . پہلے سے ہی ہمارے دل ایکدوسرے ٹوٹے ہوئے ہیں . . . اور امت پوری کے پوری بٹی ہوئی ہے . . . . . .
 

بدرجی

وفقہ اللہ
رکن
آپ نے درست فرمایا بہت بڑے ےےےےےےےےےےےے بھائی جان
ہمااااااااااااااااااااااااااااااااااااارررررررررررررررررےےےےےےےےےےےےے دل انہی شہ باروں کی وجہ ہی سے ایک دوسرے سے دووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووررررررررررررررررہیں
 

راجہ صاحب

وفقہ اللہ
رکن
noor_03 نے کہا ہے:
شکریہ بھائی جان . .. مگر میرے خیال سے اس قسم کی پوسٹوں سے بچا جائے تو ہی بہتر ہے . . . پہلے سے ہی ہمارے دل ایکدوسرے ٹوٹے ہوئے ہیں . . . اور امت پوری کے پوری بٹی ہوئی ہے . . . . . .

سپر موڈریٹر کو کسی بھی تحریر کو منظور یا نامنظور کرنے اسے حذف کرنے اور اس کو مدون کرنے کا پورا پورا اختیار حاصل ہے '@^@|||
 

نورمحمد

وفقہ اللہ
رکن
مغموم نے کہا ہے:
noor_03 نے کہا ہے:
شکریہ بھائی جان . .. مگر میرے خیال سے اس قسم کی پوسٹوں سے بچا جائے تو ہی بہتر ہے . . . پہلے سے ہی ہمارے دل ایکدوسرے ٹوٹے ہوئے ہیں . . . اور امت پوری کے پوری بٹی ہوئی ہے . . . . . .

سپر موڈریٹر کو کسی بھی تحریر کو منظور یا نامنظور کرنے اسے حذف کرنے اور اس کو مدون کرنے کا پورا پورا اختیار حاصل ہے '@^@|||


جی حضرت . . . مگر میں نے اس کو ڈیلیٹ کرنا اس لئے مناسب نہیں سمجھا کے پوسٹ کرنے والے رکن کی سمجھ میں بھی یہ بات آئے اور آئندہ اس سے پرہیز کرے . . . . شکریہ . .
 
پ

پیامبر

خوش آمدید
مہمان گرامی
جی بالکل۔۔۔! اظہارِ رائے کی مکمل آزادی ہے۔ لیکن کچھ اخلاقی قیود ہر آزادی کے ساتھ خود ہی لاگو ہوجاتے ہیں۔
 

ابن بشیر الحسینوی

وفقہ اللہ
رکن
یہ کیا یاوا گوئی ہے
اہلحدیث قرآن و حدیث کی متبع جماعت ہے اور ہمیں اہل حدیث ہونے پر فخر یے
البشارہ ویب سائٹسے ایک مضمون پیش خدمت ہے
تاریخ اہل حدیث" ایک مختصر جائزہ
ای میل چھاپیے پی ڈی ایف

تحریر ضیائ الرحمن



اہل حدیث کوئی نئی جماعت نہیں، تمام اہل علم اس کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کا نصب العین کتاب و سنت ہے اور جب سے کتاب و سنت ہے اس وقت سے یہ جماعت ہے، اس لیے ان کا انتساب کتاب و سنت کی طرف ہے کسی امام یا فقیہ کی طرف نہیں اور نہ ہی کسی گاؤں اور شہر کی طرف ہے-
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر کہا ہے:
"فبای حدیث بعد اللہ و آیاتھ یومنون" (سورۃالجاثیۃ:6)
پس اللہ تعالی اور اس کی آیتوں کے بعد کس پر ایمان لائيں گے-دوسری جگہ فرمایا ہے:
"فبای حدیث بعدہ یومنون" ( المرسلات:50)
اب اس قرآن کے بعد کس بات پر ایمان لائيں گے-
اس کے علاوہ اور دیگر آیتیں ہیں جن میں لفظ حدیث سے مراد قرآن ہے اور ہر خطیب بھی اپنے خطبہ جمع میں یہ پڑھتا ہے۔
" فان خیر الحدیث کتاب اللہ"
بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے۔

اور اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور تقاریر کو حدیث کہا گیا ہے- (مشکوۃ ص:3)
مذکورہ صدر دلائل سے یہ امر اضہر من الشمس ہوگیا کہ قرآن مجید اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور تقریر حدیث ہیں تو اس اعتبار سے اہل حدیث کے معنی ہوں گے "صاحب قرآن و حدیث" یعنی قرآن اور نبی پاکۖ کے احکام پر عمل کرنے والا-
اصحاب اہل حدیث، اہل حدیث، اہل سنت یہ سب مترادف لفظ ہیں، اہل یا اصحاب کے معنی " والے" اب اس کے نسبت حدیث کی طرف کردیں تو معنی ہونگے، " حدیث والے" اور قرآن کو بھی اللہ نے حدیث کہا ہے جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے- اب یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ اسلام سے مراد" قرآن و حدیث" ہے اور قرآن و حدیث سے مراد اسلام ہے- اور مسلک اہلحدیث کی بنیاد انہی دو چيزوں پر ہے اور یہ ہی جماعت حق ہے اور رسول اللہ ۖ کی اس حدیث کا مطلب
" میری امت میں سے ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی ان کا مخالف ان کو نقصان نہ پہنچاسکے گا یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آجائے" ( مسلم:2/143)
لقب اہلحدیث، تبع تابعین کے زمانے میں

1:- "تبع تابعین اپنے آپ کو اہلحدیث کے نام سے عزت دیتے تھے اور اس نام سے خوش ہوتے تھے جیسا کہ امام ثوری نے کہا ہے کہ اہلحدیث میرے پاس نہ آئيں تو میں ان کے پاس ان کے گھروں میں جاؤں گا" ( شرف اصحاب اہلحدیث)

2:- "تبع تابعین حضرت سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ کو ان کے استاد امام ابو حنیفہ نے اہلحدیث بنایا تھا جیسا کہ آپ نے اپنے لفظوں میں یوں بیان کرتے ہیں پہلے پہل امام ابو حنیفہ نے ہی مجھے اہلحدیث بنایا تھا" (حدائق الحنفیہ: 134، تاریخ بغداد 9/178)

3:- "علامہ شہر ستانی نے اپنی کتاب " الملل والنحل" میں ائمہ اہلحدیث کے نام گنوائے ہیں اور وہ اہل حجاز ہیں اور وہ مالک بن انس اور محمد بن ادریس شافعی کے اصحاب ہیں اور سفیان ثوری کے اصحاب ہیں اور داؤد بن علی بن محمد اصفہانی کے اصحاب ہیں اور اسی طرح علامہ ابن خلدون نے اپنی کتاب تاریخ ابن خلدون میں ذکر کیا ہے" (تاریخ ابن خلدون 1/372)

4:- علامہ ابو منصور عبدالقادر بن طاہر تیمی بغدادی نے اپنی مشھور کتاب " اصول دین" میں صحابہ رض، تابعین اور تبع تابعین رح کے حالات کا ذکر کیا ہے- دوران ذکر میں کہا کہ روم جزیرہ آذربائیجان کی سرحدوں کے پورے باشندے اہلحدیث کے مذھب پر تھے اور اسی طرح افریقہ اور اندلس کے باشندے، بحیرہ عرب کے پورے باشندے، زنج کے ساحل پر یمن کی سرحدوں کے پورے باشندے اہلحدیث تھے" ( اصول الدین 1/310)

5:- امام اللغتہ والخو خلیل بن احمد الفراہیدی (متوفی 164ھ) فرماتے ہیں فرشتے آسمان کے اور اہل حدیث زمین کے محافظ ہیں یعنی یہی دین کی دعوت دینے والے اور تقریر و تحریر سے اس کی حفاظت کرنے والے ہیں- نیز فرماتے ہیں ان کے لیے یہی نیکی کافی ہے کہ وہ جب حدیث میں آپ کا نام آتا ہے تو درود شریف لکھتے اور پڑھتے رہتے ہیں-

6:- مشہور زاہد امام فضل بن عیاض ( متوفی 187ھ) اہل حدیث کو دیکھ کر فرمانے لگے" یا ورثۃ الانبیاء"-

7:- خلیفہ ہارون الرشید (متوفی 193ھ) کہتے ہیں کہ 4 صفات مجھے 4 جماعتوں میں ملیں- کفر جہیمہ میں، بحث و جھگڑا معتزلہ میں، جھوٹ رافضیوں میں، اور حق اہلحدیث میں-

8:- عبداللہ بن داؤد الخریبی (متوفی 213ھ) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذہ سے سنا کہ اہلحدیث اللہ تعالی کی طرف سے اس کے دین کے امین ہیں یعنی علم و عمل میں رسول اللہ ۖ کے دین کی حفاظت کرنے والے ہیں (یہ سارے اقوال امام احمد بن سنان الواسطی{۶۵۲ھ}کی کتاب شرف اصحاب اہلحدیث سے لیے گئے ہیں)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صحابہ رض، تابعین و تبع تابعین رح یہ قرون ثلاثہ اہلحدیث کے نام سے مشھور تھے اور ان کو اہلحدیث کہا جاتا تھا-

لقب اہل حدیث، ائمہ اسلام کی نظر میں

ائمہ اربعہ خود بھی اہل حدیث تھے اور بڑے ہی شد مد کے ساتھ لوگوں کو اپنی تقلید سے منع کرتے ہوئے صرف قرآن و سنت کی دعوت دیتے تھے-
1:- امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (80ھ 150ھ) آپ کے شاگرد سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "پہلے پہل امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے مجھ کو اہلحدیث بنایا تھا ( حدائق الحنفیہ ص 134)

2:- حنفیت کے بانی امام محمد کے قول کے مطابق انہوں نے اپنی کتاب موطا میں امام زہری کے بارے میں کہا کہ ابن شہاب مدینہ میں اہلحدیث کے نزدیک سب سے بڑے عالم تھے۔ (موطا امام محمد ص 362)

3:- امام شافعی رحمہ اللہ (150ھ 204ھ) کے بارے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رح (متوفی 728ھ) فرماتے ہیں" امام شافعی رح نے اہلحدیث کا مذھب پکڑا اور اسی کو اپنے لیے پسند فرمایا" (منہاج السنہ 4/143)

4:- علامہ ابن القیم رح (متوفی 751ھ) اعلام الموقعین میں امام شافعی رح کا قول نقل فرماتے ہیں" تم اپنے اوپر حدیث والوں (اہلحدیث) کو لازم پکڑو کیونکہ وہ دوسروں کے اعتبار سے زیادہ درست اور صحیح ہیں۔

محدثین نے یہی لیا ہے کہ وہ گروہ اہل حدیث ہے- اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا :
" صدیوں میں بہترین صدی میری ہے پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہوں گے پھر وہ لوگ جو ان کے بعد ہونگے" (متفق علیہ)
اس سے مراد صحابہ (رض)، تابعین، تبع تابعین کا دور ہے- 222ھ تک کا زمانہ خیرالقرون سمجھا جاتا ہے-
آئيے اب آپ کے سامنے لقب اہل حدیث کے وہ دلائل پیش کیے جارہے ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور سے موجودہ دور تک ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے- ان شاءاللہ

لقب اہل حدیث ، عہد صحابہ (رض) میں:

1:- "حضرت ابو سعد خدری رضی اللہ عنہ جب حدیث کے جوان طلباء کو دیکھتے تھے تو کہتے تھے، تمہیں مرحبا ہو، رسول اللہ ۖ نے تمہاری بابت ہمیں وصیت فرمائی ہے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم تمہارے لیے اپنی مسجدوں میں کشادگی کریں اور تم کو حدیث سمجھائيں کیونکہ تم ہمارے تابعی جانشین اور اہلحدیث ہو"- (شرف اصحاب الحدیث)

2:- " حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو اہلحدیث اس حال میں آئيں گے کہ ان کے ساتھ روايتیں ہونگی، پس اللہ تعالی ان سے کہے گا کہ تم اہلحدیث ہو- نبی پاک ۖ پر درود بھیجتے ہوئے جنت میں داخل ہوجاؤ" (طبرانی القول البدیع للسخاوی: تاریخ بغداد 3)

3:- کثیر الروایۃ صحابہ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ (متوفی 57ھ یا 58ھ) کے متعلق امام ابوبکر بن داؤد رقم طراز ہیں کہ میں نے آپ کو خواب میں یہ فرماتے ہوئے دیکھا:
" اما اول صاحب حدیث کان فی الدنیا" دنیا میں سب سے پہلا حدیث والا " اہل حدیث" میں تھا۔ ( تذکرۃ الحفاظ 1/29)

4:- "خیر الامۃ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ (متوفی 68ھ) اہل حدیث تھے" (تاریخ بغداد 3/227)

لقب اہل حدیث، عہد تابعین میں:

1:-" سید التابعین حضرت عامر بن شرجیل شعبی رحمہ اللہ (متوفی 104ھ) اہلحدیث تھے" (تاریخ بغداد 3/227)

2:-شیخ علی ہجویری لاہوری نے فرمایا ہے، "عبداللہ بن المبارک امام اہلحدیث تھے" یعنی عبداللہ بن مبارک اہلحدیث کے امام تھے- (کشف المحجوب)

3:- علامہ ذہبی اور امام خطیب نے ذکر کیا ہے کہ "امام ذہری رحمہ اللہ خلیفہ عبدالمالک بن ابو سفیان، عاصم الاحول، عبیداللہ بن عمرو، یحی بن سعید الانصاری رحمہ اللہ تابعین میں اہل حدیث کے امام تھے" ( تذکرہ الحفاظ 97، تاریخ بغداد 2/245)

4:- "ابوبکر بن عیاش تابعی کہا کرتے تھے الحدیث ہر زمانے میں رہے ہیں جس طرح اسلام دوسرے مذاھب کے مقابلہ میں ہے" ( میزان شعرانی)

5:- صحیح مسلم کے مقدمہ میں ہے ائمہ اہلحدیث کا ذکر کیا گیا ہے مثال کے طور پر" مالک بن انس، شعبہ بن الحجاج، سفیان ابن عینیہ، یحیی بن سعید قطان اور عبدالرحمان بن مہدی وغیرہ" ( مقدمہ صحیح مسلم مطبوعۃ دھلی 23)

6:- "امام ابن قنیبہ اپنی کتاب جو معارف اسماء اہلحدیث سے مشھور ہے اس میں ان لوگوں کے نام گنوائے ہیں جو نبی پاکۖ کے زمارے سے آپ کے زمانے تک گذر چکے ہیں اور 100 نام گنوائے ہیں اور اما ابن قنیبہ تیسری صدی ھجری کے مشھور امام ہیں جیسا کہ امام ذھبی نے ڈکر کیا ہے اور ان کے حالات زندگی میں لکھا ہے اور میرا خیال ہے کہ ان کی وفات 310ھ میں ہوئی ہے" (تذکرہ الحفاظ ج


5:- امام شافعی رح اہلحدیث کے مذھب پر تھے بلکہ مذھب اہلحدیث کے مبلغ تھے کہ امام نووی رح نے امام شافعی رح کے حالات زندگی میں لکھا ہے، پھر عراق گئے علم حدیث کو پھیلایا اور مذھب اہلحدیث قائم کیا" (تھذیب الاسماءواللغات)

5:-امام شافعی رح سے روایت ہے کہ آپ فرماتے تھےکہ" اہلحدیث ہر زمانے میں ویسے ہی ہیں جس طرح صحابہ رض ہر زمانے میں تھے- یعنی وہ سختی کے ساتھ کتاب و سنت کی پیروی کرتے تھے" (المیزان الکبری)

6:- امام مالک (95ھ 180ھ) آپ کے متعلق علامہ شمس الدین ابو عبداللہ ال ذھبی رح (متوفی 748ھ) لکھتے ہیں کہ " قال وھیب، امام اہلحدیث مالک" یعنی وھیب نے کہا کہ اما مالک رح اہلحدیث کے امام تھے- (تذکرۃ الحفاظ 1/195)

7:- امام مسلم بن حجاج نیساپوری رح (261ھ) نے امام مالک رح کو " امام اہلحدیث" کہا ہے- (مقدمہ مسلم شریف ص:23)

8:- امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (164ھ 241ھ) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رح آپ کے متعلق فرماتے ہیں " کان علی مذھب اہل حدیث" یعنی آپ رحمہ اللہ اہلحدیث کے مذھب پر تھے- (منہاج السنہ 4/143)

9:- امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ طائفہ منصورہ والی روایت کی تشریح یوں فرماتے ہیں " ان لم یکونو ا اہلحدیث فلا ادری من ہم" یعنی اگر طائفہ منصورہ سے مراد اہلحدیث نہیں تو پھر مجھے نہیں معلوم کہ یہ کون ہیں- (نووی شرح مسلم 2/143، واللفظ لہ شرف اصحاب الحدیث 14)


10:- امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بالاتفاق اہلحدیث اماموں کے امام ہیں جیسا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رح نے فرمایا ہے کہ امام احمد اہلحدیث کے مذھب پر تھے- (منہاج السنۃ و ابن خلدون و الملل و النحل)

11:- خلیل بن احمد، صالح بن محمد رازی سے روایت ہے وہ امام احمد بن جنبل رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا " اگراہلحدیث اللہ کے ولی نہ ہوں تو زمین میں پھر اللہ کا کوئی بھی ولی نہیں" (شرف اصحاب الحدیث)

12:- امام الدنیا فی الحدیث فخر المحدثین محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ علیہ (المتوفی 256ھ) جن کی کتاب صحیح بخاری ہے اور تمام اہل علم اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ اصح الکتب بعد کتاب اللہ الصحیح البخاری یعنی قرآن کے بعد سب سے صحیح کتاب صحیح بخاری ہے-
حدیث نبوی لاتزال طائفۃ الخ کی تفسیر میں امام بخاری سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے علی بن مدینی کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " وہ گروہ االحدیث ہیں" (ترمذی، فتح الباری 13/294)

13:- امام مسلم رحمہ اللہ (المتوفی 261ھ) جن کی مشہور کتاب صحیح مسلم ہے صحیح بخاری کے بعد اسی کا درجہ ہے خود امام مسلم رح نے اپنے صحیح کے مقدمہ میں ائمہ اہل حدیث کا ذکر کیا ہے- (مقدمہ صحیح مسلم مطبوعہ دھلی:43)

15:- حدیث نبوی لاتزال طائفۃ الخ کی تفسیر میں عبداللہ بن مبارک سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ وہ گروہ اہلحدیث کا ہے (شرف اصحاب الحدیث)

16:- امام عیسی ترمذی رحمہ اللہ کی شہادت: " طائفہ منصورہ سے مراد اہلحدیث کا طبقہ ہے" (ترمذی)

17:- امام محمد بن حبان رحمہ اللہ کی شہادت: یعنی یہ بات درست ہے کہ قیامت کے دن رسول اللہ ۖ کے سب سے قریب اہلحدیث ہونگے" (جواہر البخاری: 14)

18:- حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ علیہ نے اللہ تعالی کا یہ قول " جس دن ہم تمام لوگوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ بلائيں گے" نقل کرکے فرمایا ہے کہ سلف صالحین اس آیت کریمہ کے پیش نظر یہ کہتے ہیں کہ حضرات اہلحدیث کے لیے اس سے بڑا شرف اور کیا ہوسکتا ہے کہ انہیں ان کے اپنے امام اور رہبر نبی پاکۖ کے ساتھ بلایا جائے گا۔ (تفسیر ابن کثیر ص 200)

19:- شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا " اہلحدیث کا اعتقاد خالص سنت پر ہے کیونکہ یہ وہی اعتقاد ہے جو نبی پاکۖ سے ثابت شدہ ہے- (منھاج السنۃ:179)

20:- شیخ عبدالقار جیلانی رحمہ اللہ علیہ کی شہادت: آپ نے فرمایا" اہل بدعات کی کچھہ علامتیں ہیں جن سے ان کی پہچان ہوجاتی ہے- ایک علامت تو یہ ہے کہ وہ اہلحدیث کو برا کہتے ہیں" (غنیۃالطالبین 1/80)


21:- امام علامہ البانی رحمہ اللہ علیہ مسکراتے ہوئے ایک سوال کا جواب دیا اور فرمایا" الحمد اللہ میں سلفی اور اہلحدیث ہوں اور یہ کہ جس شخص کا منہج سلفیت نہیں وہ حق سے منحرف ہے" (بحوالہ ماہنامہ سبیل المومنین حیدرآباد اکتوبر 2002ء)

اھل الحدیث سے مراد محدثین کرام اور عوام دونوں ہیں

یہ ایک عام غلط فہمی ہے کہ اھل الحدیث سے مراد صرف محدثین ہیں جبکہ حقیقت میں اھل الحدیث سے مراد محدثین (صحیح العقیدہ) اور حدیث پر عمل کرنے والے ان کے عوام دونوں مراد ہیں اس کی فی الحال دس دلیلیں پیش خدمت ہیں:
1) علمائے حق کا اجماع ہے کہ طائفہ منصورہ (فرقہ ناجیہ) سے مراد اہلحدیث ہیں جس کی تفصیل اوپر بیان کی جا چکی ہےتو کیا فرقہ ناجیہ صرف محدثین ہیں؟
ہرگز نہیں یہ بالکل خلاف عقل اور خلاف حقیقت ہے، طائفہ منصورہ اھل الحدیث سے مراد محدثین اور ان کے عوام دونوں ہیں۔

2) امام اہلسنت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا:
"صاحب الحدیث عندنا من یستعمل الحدیث" ہمارے نزدیک اہلحدیث وہ ہے جو حدیث پر عمل کرتا ہے۔
(مناقب الامام احمد بن حنبل لابن الجوزی ص۲۰۹ و سندہ صحیح)

3) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم اہلحدیث کا یہ مطلب نہیں لیتے کہ اس سے مراد صرف وہی لوگ ہیں جنہوں نے حدیث سنی، لکھی یا روایت کی ہے بلکہ اس سے ہم یہ مراد لیتے ہیں کہ ہر آدمی جو اس کے حفظ، معرفت اور فہم کا ظاہری اور باطنی لحاظ سے مستحق ہے اور ظاہری اور باطنی لحاظ سے اس کی اتباع کرتا ہے اور یہی معاملہ اہل قرآن کا ہے۔
(مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ جلد ۴ ص ۹۵)

4) امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اہل حدیث کی یہ صفت بیان کی ہے:
"وہ حدیثیوں پر عمل کرتے ہیں، ان کا دفاع کرتے ہیں اور ان کے مخالفین کا قلع قمع کرتے ہیں"
(صحیح ابن حبان، الاحسان : ۶۱۲۹)


5) امام احمد بن سنان الواسطی رحمہ اللہ (المتوفی ۲۵۹ ھجری) نے فرمایا: دنیا میں کوئی ایسا بدعتی نہیں جو اہلحدیث سے بغض نہیں رکھتا (معرفة علوم الحدیث للحاکم ص۴ وسندہ صحیح)
یہ بات عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ صحیح العقیدہ محدثین اور ان کے عوام سے اہل بدعت بہت بغض رکھتے ہیں۔

6) قرآن مجید سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے امام کیساتھ پکارا جائے گا (بنی اسرائیل:۷۱) اس کی تشریح میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بعض سلف سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت اہلحدیث کی سب سے بڑی فضیلت ہے کیونکہ ان کے امام نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہيں (تفسیر ابن کثیر ۱۶۴/۴)
کیا صرف محدثین کے امام نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟ نہیں بلکہ اہلحدیث سے مراد محدثین اور ان کے عوام دونوں ہیں

7) امام ابن قیم نے اپنے مشہور قصیدے نونیہ میں فرمایا: " اے اہل حدیث سے بغض رکھنے والے اور گالیاں دینے والے تجھے شیطان سے دوستی قائم کرنے کی بشارت ہو" (الکافیہ الشافیہ ص ۱۹۹)

8) امام جلال الدین سیوطی نے بنی اسرائیل:۷۱ کی تفسیر میں نقل فرمایا: "اہل حدیث کے لیئے اس سے زیادہ فضیلت والی کوئی اور بات نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا ان کا کوئی امام نہیں۔ (تدریب الراوی جلد۲ ص ۱۲۶)
یہاں بھی اہلحدیث سے مراد محدثین اور ان کے عوام دونوں ہیں۔

9) ابو منصور عبدالقاہر بن طاہر البغدادی (المتوفی ۴۲۹ ھجری) نے ملک شام وغیرہ کی سرحدوں پر رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں کہا: وہ سب اہلسنت میں سے اہلحدیث کے مذہب پر تھے۔ (اصول دین ص ۳۱۷)

یہ کسی دلیل سے ثابت نہیں کہ صرف محدثین ہی مذکورہ سرحدی علاقوں میں رہتے تھے اور وہاں ان کے عوام موجود نہیں تھے لہذا اس حوالے سے بھی ثابت ہوا کہ محدثین کے عوام بھی اہل حدیث ہیں۔

10) ابو عبداللہ محمد بن احمد بن البناء المقدسی البشاری (متوفی ۳۸۰ ھجری) نے اپنے دور کے اہل سندھ کے بارے میں لکھا:
"مذاھبھم أکثرھم أصحاب حدیث ورأیت القاضي أبا محمد المنصوري داودیًّا إماماً في مذھبھ ولھ تدریس و تصانیف، قدصنّف کتباً عدّة حسنةً"
ان سندھیوں کے مذاہب میں اکثر اہلحدیث ہیں اور میں نے قاضی ابو محمد المنصوری کو دیکھا، وہ داؤد ظاہری کے مسلک پر اپنے مذہب (اہل ظاہر) کے امام تھے، وہ تدریس بھی کرتے ہیں اور کتابیں بھی لکھتے ہیں، انہوں نے بہت سی اچھی کتابیں لکھی ہیں۔
(احسن التقاسیم فی معرفة الاقالیم ص ۳۶۳)

بشاری نے سندھیوں کی اکثریت کو اہلحدیث قرار دے کر ثابت کر دیا کہ محدثین کی طرح صحیح العقیدہ عوام بھی اہلحدیث ہیں نیز (1867 میں) فرقہ دیوبند کی پیدائش سے سینکڑوں سال پہلے۳۸۰ ھجری میں سندھ میں اہلحدیث اکثریت میں تھے۔

تاریخ اہلحدیث علماء دیوبند کی زبانی
مذکورہ بالا دلائل کے بعد مزید کسی وضاحت کی ضرورت تو نہیں لیکن پھر بھی دیوبندیوں پر اتمام حجت کے لیئے ہم اکابرین دیوبند کی کتب سے چند حوالے پیش کر رہے ہیں۔
1) مفتی رشید احمد لدھیانوی دیوبندی نے لکھا:
تقریبا" دوسری تیسری صدی ہجری میں اہل حق میں فروعی اور جزئی مسائل کے حل کرنے میں اختلافِ انظار کے پیش نظر پانچ مکاتب فکر قائم ہو گئے یعنی مذاہب اربعہ اور اہل حدیث۔ اس زمانے سے لے کر آج تک انہی پانچ طریقوں میں حق کو منحصر سمجھا جاتا رہا۔ (احسن الفتاوٰی ج1 صفحہ 316، مودودی صاحب اور تخریب اسلام صفحہ 20)
2) اشرف علی تھانوی نے لکھا ہے:
"امام ابو حنیفہ کا غیر مقلد ہونا یقینی ہے" (مجالس حکیم الامت ص۳۴۵)


یہ عام لوگوں کو بھی پتہ ہے کہ امام ابوحنیفہ انگریزوں کے دور سے بہت پہلے گزرے ہیں۔
3) حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے تقلید کے رد پر ضخیم کتاب "اعلام الموقعین" لکھی ہے۔ چنانچہ ظفر احمد تھانوی دیوبندی لکھتے ہیں:
"لأنارأینا أن ابن القیم الذي ھو الأب لنوع ھذہ الفرقة"
کیونکہ ہم نے دیکھا کہ ابن قیم اس (تقلید نہ کرنے والے/اہلحدیث) فرقے کی قسم کا باپ ہے۔ (اعلاء السنن جلد ۲۰ ص۸)
سب جانتے ہیں کہ امام ابن قیم 1888 سے سینکڑوں سال پہلے گزرے ہیں۔ لعنة اللہ علی الکازبین
4) حافظ ابن حزم الظاہری الاندلسی نے فرمایا "والتقلید حرام" اور تقلید حرام ہے (البذةالکافیة فی احکام اصول الدین ص70)
اور فرمایا: اور عامی و عالم (دونوں) اس (حرمت تقلید میں) برابرہیں، ہر ایک اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق اجتہاد کرے گا(النبذة الاکافیة ص71)
چنانچہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
اگرچہ اس امر پر اجماع نقل کیا گیا ہے کہ مذاہب اربعہ کو چھوڑ کر مذہب خامس مستحدث کرنا جائز نہیں یعنی جو مسئلہ چاروں مذہبوں کے خلاف ہو اس پر عمل کرنا جائز نہیں کہ حق دائر و منحصر ان چار میں ہے مگر اس پر بھی کوئی دلیل نہیں کیونکہ اہل ظاہر ہر زمانہ میں رہے اور یہ بھی نہیں کہ سب اہل ہوی ہوں وہ اس اتفاق سے علیحدہ رہے۔دوسرے اجماع اگر ثابت بھی ہو جاوے مگر تقلید شخصی پر تو کبھی اجماع بھی نہیں ہوا۔(تذکرۃ الرشید ج1، صفحہ 131)

فرقہ دیوبند کی خدمت میں دو مزید حوالے پیش خدمت ہیں جس سے اہل حدیث (تقلید نہ کرنے والے متبعین کتاب و سنت و اجماع) کا اہل سنت (واہل حق) ہونا بااعتراف فریق مخالف ثابت ہے۔ والحمدللہ

1) تفسیر حقانی کے مصنف عبد الحق حقانی دہلوی نے کہا:
" اور اہل سنت شافعی،حنبلی،مالکی، حنفی ہیں اور اہل حدیث بھی ان ہی میں داخل ہیں۔۔۔(حقانی عقاءد اسلام صفحہ ۳)

2) مفتی کفایت اللہ دہلوی دیوبندی نے کہا:
"ہاں اہل حدیث مسلمان ہیں اور اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں۔ ان سے شادی بیاہ کا معاملہ کرنا درست ہے۔ محض ترک تقلید سے اسلام میں فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی اہل سنت و الجماعت سے تارک تقلید باہر ہے (کفایت المفتی جلد۱، صفحہ ۳۲۵، جواب:۳۷۰)

امید ہے شرم اورغیرت رکھنے والے دیوبندیوں کے لیئے اتنا کافی ہے۔‬
 
M

Malang009

خوش آمدید
مہمان گرامی
جناب ابن بشیر صاحب گزارش صرف اتنی ہے کہ پرانی کتب میں اہل قرآن نامی ایک فرقے کا ذکر ہے ، اگر آپ لوگوں کے بڑے بھائی اس لفظ سےا ستدلال کر کے یہ شور مچائیں کہ اس دور میں بھی منکر حدیث کا وجود تھا تو آپ لوگ انکو کیا منہ دکھائیں گے ؟؟ آپ نے اپنی پوسٹ کے آخر میں لکھا ہے کہ غیرت اور شرم رکھنے والے دیوبندیوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے اگر وہ بھی یہ لکھیں کہ غیرت اور شرم رکھنے والے غیر مقلدین کے لیے اتنا ہی کافی ہے تو آپ لوگ کیا جواب دیں گے ؟؟؟

بات صرف اتنی ہے کہ اس دور میں اہل حدیث کے الفاظ محدثین کے لیے استعمال ہوئے ہیں نہ کہ فرقہ غیر مقلدین کے لیے ۔ پہلے تو آپ لوگ یہ بات کلیر کر لیں کہ انیس سو سے پہلے کوئی ایسا فرقہ نہیں گزرا جسکا عامی جسکو عربی تو کجا اردو بھی صحیح نہ پڑھنی آتی ہو اپنے آپ کو تقلید سے آزاد اور مجتہد کے درجے پر فائز کرتا ہو ۔ اسی لیے ان عبارات میں اہل حدیث کے لفظ کا آپ کو کوئی فائدہ نہیں ۔ لہذا اپنے آپ کو جھوٹی تسلیاں دینا بند کر دیں یہ چیز زندگی کے لیے نہایت نقصان دہ ہوتی ہے ۔ اور اگر عادت ہو جائے تو اپنے علاوہ دوسروں کی زندگیوں پر بھی برا اثر ڈالا کرتی ہے ۔
ابن بشیر الحسینوی نے کہا ہے:
2) اشرف علی تھانوی نے لکھا ہے:
"امام ابو حنیفہ کا غیر مقلد ہونا یقینی ہے" (مجالس حکیم الامت ص۳۴۵)
یہ عام لوگوں کو بھی پتہ ہے کہ امام ابوحنیفہ انگریزوں کے دور سے بہت پہلے گزرے ہیں۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ کی بات تو واضح ہے کہ امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ مجتہد تھے اور مجتہد پر کسی کی تقلید واجب نہیں لہذا لغوی طور پر انکو غیر مقلد کہا جا سکتا ہے ۔ لیکن اصطلاحی طور پر غیر مقلد اسے کہا جا سکتا ہے جو نہ خود مجتہد ہو نہ کسی کی تقلید کرتا ہو ۔ لہذا یہ حوالہ تو آپ کے کسی کام کا نہیں ۔ کیونکہ عام لوگوں کو امام ابو حنیفہ کی مجتہدانہ حثیت کا بھی پتا ہے ۔


4
) حافظ ابن حزم الظاہری الاندلسی نے فرمایا "والتقلید حرام" اور تقلید حرام ہے (البذةالکافیة فی احکام اصول الدین ص70)
اور فرمایا: اور عامی و عالم (دونوں) اس (حرمت تقلید میں) برابرہیں، ہر ایک اپنی طاقت اور استطاعت کے مطابق اجتہاد کرے گا(النبذة الاکافیة ص71)
حافظ ابن حزم ظاہری نے اپنی بات پر نہ قرآن پیش کیا نہ ہی حدیث لیکن چونکہ آپ کے دل کو اچھی لگی لہذا آپ نے آنکھیں بند کر کے نہ خود اسکی اندھی تقلید کی بلکہ دوسروں سے بھی کروانے کے لیے عبارت کو پیش کر دیا ۔ ابن حزم کے نام کے ساتھ لگے لفظ ظاہری سے بھی کچھ پتا چل رہا ہے ۔ علامہ ابن حزم کی تو اپنی ایک علمی حثیت ہے یا تو آپ یہ کہیں کہ آپ کا علم و تقویٰ بھی انکے برابر ہے تو ہم آپکو مانیں ۔ہاں یہ ہم ضرور مانتیں ہیں کہ عامی کے لیے ترک تقلید کی دعوت انکی غلطی تھی ۔

فرقہ دیوبند کی خدمت میں دو مزید حوالے پیش خدمت ہیں جس سے اہل حدیث (تقلید نہ کرنے والے متبعین کتاب و سنت و اجماع) کا اہل سنت (واہل حق) ہونا بااعتراف فریق مخالف ثابت ہے۔ والحمدللہ

1) تفسیر حقانی کے مصنف عبد الحق حقانی دہلوی نے کہا:
" اور اہل سنت شافعی،حنبلی،مالکی، حنفی ہیں اور اہل حدیث بھی ان ہی میں داخل ہیں۔۔۔(حقانی عقاءد اسلام صفحہ ۳)

2) مفتی کفایت اللہ دہلوی دیوبندی نے کہا:
"ہاں اہل حدیث مسلمان ہیں اور اہل سنت والجماعت میں داخل ہیں۔ ان سے شادی بیاہ کا معاملہ کرنا درست ہے۔ محض ترک تقلید سے اسلام میں فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی اہل سنت و الجماعت سے تارک تقلید باہر ہے (کفایت المفتی جلد۱، صفحہ ۳۲۵، جواب:۳۷۰)

امید ہے شرم اورغیرت رکھنے والے دیوبندیوں کے لیئے اتنا کافی ہے۔‬[/color][/size]
[/quote]
جناب جس دور کے اہلحدیث کے بات انہوں نے کی ہے وہ اور تھے آپ لوگ اور ہیں آپ کے بڑے حیات الانبیاء فی القبور کے قائل تھے جبکہ آپ لوگ نہیں ہیں ۔ اور اہلسنت والجماعت سب اس پر متفق ہیں کہ جو حیات الانبیاء فی القبور کو نہ مانے وہ اہل سنت والجماعت سے خارج ہے لہذا آپ لوگ خارج ٹہرے ۔ پرانے حوالے پیش نہ کریں ۔
 

ابن بشیر الحسینوی

وفقہ اللہ
رکن
اس دور میں اہل حدیث کے الفاظ محدثین کے لیے استعمال ہوئے ہیں نہ کہ فرقہ غیر مقلدین کے لیے ۔ پہلے تو آپ لوگ یہ بات کلیر کر لیں کہ انیس سو سے پہلے کوئی ایسا فرقہ نہیں گزرا جسکا عامی جسکو عربی تو کجا اردو بھی صحیح نہ پڑھنی آتی ہو اپنے آپ کو تقلید سے آزاد اور مجتہد کے درجے پر فائز کرتا ہو ۔
ِ...................................................................................................
یہ بہت بڑا جھوٹ ہے صحابہ کرام تابعین ،محدثین کرام نے واضح طور پر کہا ہے کہ تقلید نہ کرو وہی ہم کہتے ہیں
اور انھوں نے واضح کہا کہ قرآن و حدیث کو لازم پکڑو ہم بھی وہی کہتے ہیں اس پر سیکنکڑوں حوالے پیش کیے جاتے ہیں اور آپ کو بھی پتا ہے بس آپ جھوٹ سے کام لیتے ہوئے اپنے آباےئ کی یاد تازہ کر رہے ہیں
 

ابن بشیر الحسینوی

وفقہ اللہ
رکن
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ کی بات تو واضح ہے کہ امام ابو حنیفہ علیہ الرحمہ مجتہد تھے اور مجتہد پر کسی کی تقلید واجب نہیں لہذا لغوی طور پر انکو غیر مقلد کہا جا سکتا ہے ۔ لیکن اصطلاحی طور پر غیر مقلد اسے کہا جا سکتا ہے جو نہ خود مجتہد ہو نہ کسی کی تقلید کرتا ہو ۔ لہذا یہ حوالہ تو آپ کے کسی کام کا نہیں ۔ کیونکہ عام لوگوں کو امام ابو حنیفہ کی مجتہدانہ حثیت کا بھی پتا ہے ۔

........................................
ملنگ صاح ایک مضمون کا مطالعہ کریں اور عبرت پکڑیں
ایک غیر مقلد کی کہانی، مقلدین کی زبانی


ایک مشہور و معروف غیر مقلد کی کہانی پیش خدمت ہے جس نے اپنے’’کارناموں ‘‘کی بدولت تاریخ میں ایک متنازعہ ترین شخصیت کے طور پر بے پناہ شہرت حاصل کی ۔اگر چہ مختلف ادوار میں اس شخصیت کے چاہنے والوں نے دجل اور فریب کے ذریعے ہر چند کوشش کی کہ انھیں ایک غیر متنازعہ شخصیت کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے لیکن غیر مقلد موصوف جو سنہری کارنامے سر انجام دے چکے تھے اس کی بدولت ان لوگوں کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔ آہ! حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے۔

یہ متنازعہ غیر مقلد کون تھا آئیے ایک مقلد کی زبانی اس کا تعارف حاصل کرتے ہیں۔دیوبندیوں کے حکم الامت ،مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں: بعض غیر مقلدین کہتے ہیں کہ ہمیں ان سے نفرت ہے بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے جبکہ ہم خود ایک غیر مقلد کے معتقد اور مقلد ہیں، کیونکہ امام اعظم ابوحنیفہ کا غیر مقلد ہونا یقینی ہے۔(مجالس حکیم الامت، صفحہ345)

صوفی محمد اقبال قریشی دیوبندی لکھتے ہیں: حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہ وہ معتدل مزاج جامع شخصیت تھے کہ خود فرماتے ہیں کہ ہم جب خود ایک غیر مقلد حضرت امام اعظم امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں (کیونکہ مجتہد کسی کا مقلد نہیں ہوتا) تو پھر غیر مقلدین سے نفرت کیوں کریں۔(ھدیہ اھلحدیث، صفحہ 6)

مذکورہ بالا حوالاجات سے اس متنازعہ غیر مقلد کا تعارف مقلدین کی زبانی حاصل ہو ا کہ کہ وہ شخصیت نعمان بن ثابت المعروف امام ابوحنیفہ تھے۔اہم ترین بات یہ بھی معلو م ہوئی کہ غیرمقلدین سے نفرت کرنا انہیں برا بھلا کہنااورگالیاں دینااصل میں امام ابوحنیفہ کو گالیا ں دینا ، انہیں برابھلا کہنا اور ان سے نفرت کرنا ہے۔ کیونکہ دیوبندیوں کے حکیم الامت کے بقول ابوحنیفہ پکے غیر مقلد تھے۔اور ان کا غیرمقلدین سے نفرت کرنے کا تصور تک نہ کرنا بھی خود انکے امام صاحب کے یقینی غیر مقلد ہونے کی وجہ سے تھا ۔اس کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا کہ غیرمقلدین سے متعلق ایسا رویہ رکھنے والے معتدل مزاج نہیں بلکہ غالی اور متشدد ہیں۔

اس اعتراف کے بعد تو مقلدین کا فرض تھا کہ غیرمقلدین کا پورا پورا احترام کرتے اور ان پر طعن و تشنیع سے باز رہتے کیونکہ اس کے نتیجے میں خود ان کے امام اعظم پر حرف آتا اور انکی بدنامی ہوتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے مقلدین کا یہ فرض بھی ان کی بے اصولیوں کی نظر ہوگیا۔اور اہل حدیث سے بغض ،حسد، جلن میں لفظ غیر مقلد کی آڑ میں اپنے ہی غیر مقلد امام اعظم ابوحنیفہ کی عزت کو سر بازار اچھال دیا۔آل تقلید نے غیرمقلدین بشمول پکے غیرمقلد امام ابوحنیفہ کی شان میں ایسی گھٹیا اور سوقیانہ زبان استعمال کی کہ شرم بھی شرما گئی۔امام ابوحنیفہ کا متنازعہ ہونا تو علیحدہ مسئلہ ہے لیکن میرے نزدیک یہ اس لحاظ سے ایک مظلوم شخصیت ہے کہ ان کی عزت سب سے زیادہ ان کے چاہنے والوں کے ہاتھوں ہی کھلونا بنی ہے۔آئیے ایسی ہی کچھ مثالوں پر نظر ڈالتے ہیں۔

مقلدین کی زبانی یہ جاننے کے بعد کہ امام ابوحنیفہ بلا شک و شبہ غیر مقلد تھے اب ہم آپ کو ایک مقلد ہی کی زبانی بتاتے ہیں کہ غیر مقلد کہتے کس کو ہے۔

۰۱۔ ماسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی، غیر مقلد امام ابوحنیفہ کی تعریف کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: غیرمقلد کی تعریف: مجتہد اور مقلد کامطلب تو آپ نے جان لیا، اب غیرمقلد کا معنی بھی سمجھ لیں کہ جو نہ خود اجتہادکرسکتا ہو اور نہ کسی کی تقلید کرے یعنی نہ مجتہد ہو نہ مقلد۔ جیسے نماز باجماعت میں ایک امام ہوتا ہے باقی مقتدی، لیکن جو شخص نہ امام ہو نہ مقتدی، کبھی امام کو گالیاں دے کبھی مقتدیوں سے لڑے یہ غیر مقلد ہے۔یا جیسے ملک میں ایک حاکم ہوتا ہے باقی رعایا لیکن جو نہ حاکم ہو نہ رعایا بنے وہ ملک کا باغی ہے۔ یہی مقام غیر مقلد کا ہے۔(تجلیات صفدر، جلد سوم، صفحہ 377)

یہ ادب ہے ادب نا شناس مقلدین کے ہاں ان کے خود ساختہ امام اعظم کا!!! ہم کہتے ہیں کہ جب امام ابوحنیفہ نہ مقلد تھے نہ مجتہد، نہ امام تھے نہ مقتدی بلکہ امام کو گالیاں دینے والے اور مقتدیوں سے جھگڑا کرنے والے تھے اور ان کا مقام ملک کے باغی جیسا تھا تو مقلدین کو آخر ایسی کیا موت پڑی ہے کہ انہیں غیرمقلد امام کی تقلید کرنے پر مجبور ہیں ؟! عجیب بات ہے کہ تقلید بھی انہی کی کرتے ہیں اورگالیا ں بھی انہی کو دیتے ہیں ؟! اس کو کہتے ہیں : جس تھالی میں کھانا اسی میں سوراخ کرنا۔

۰۲۔ بے ادب اور گستاخ امین اوکاڑوی صاحب ایک اور مقام پرغیرمقلد امام ابوحنیفہ کی سوانح حیات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: وہ جاہل ہی پیداہوتا ہے، جاہل ہی مرتا ہے۔ وہ ساری عمر کتاب اللہ سے بھی جاہل رہتا ہے۔ سنت رسول اللہ ﷺ سے بھی ۔ اور کتاب و سنت کا علم تو اسے کیا ہوتا ۔ اس کو اپنے بارہ میں بھی علم نہیں ہوتا کہ میں جاہل ہوں۔(تجلیات صفدر، جلد چہارم، صفحہ 300)

ویسے تو امین اوکاڑوی اعلیٰ درجے کے کذابوں میں سے ایک تھا لیکن جس طرح شیطان سے ایک مرتبہ سچ بولنا ثابت ہے بعینہ اسی طرح امین اوکاڑوی کے قلم سے بھی کبھی کبھی سچ نکل ہی جاتا تھا جیسا کہ مذکورہ بالا عبارت ہے۔ اس عبار ت کی تصدیق غیر مقلد امام ابوحنیفہ کے فتوؤں سے بھی ہوتی ہے جو فقہ حنفی کی کتابوں میں مرقوم ہیں۔غیرمقلد اما م ابوحنیفہ کے نزدیک رضاعت کی مدت ڈھائی برس تھی جبکہ اللہ رب العالمین کے نزدیک رضاعت کی مدت دو برس قرآن مجید میں مذکور ہے۔چونکہ امام صاحب کا اس فتوے سے رجو ع ثابت نہیں اس لئے ثابت ہوا کہ غیرمقلد امام ابوحنیفہ تمام عمر کتاب اللہ سے جاہل تھے۔اسی طرح شوال کے چھ روزے جن کی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے غیر مقلد امام ابوحنیفہ کے نزدیک مکروہ تھے۔جو کہ اس بات کا روشن اور واضح ثبوت ہے کہ غیرمقلد امام صاحب احادیث رسول ﷺ سے بھی جاہل تھے۔ اس کے علاوہ عقیقہ جو کہ مسلمانوں کے نزدیک سنت رسول ﷺ ہے۔ غیرمقلد امام ابوحنیفہ کے نزدیک زمانہ جہالت کی ایک رسم تھی۔نعوذباللہ من ذالک ۔ یہ تمام حقائق امین اوکاڑوی کے بیان کو جو اس نے غیرمقلد ابوحنیفہ کی جہالت کے بارے میں دیا سچ ثابت کرتے ہیں۔

غیر مقلدامام ابوحنیفہ کے انہی جاہلانہ اور گستاخانہ فتوؤں کے سبب امین اوکاڑوی نے کہا: غیرمقلد پر تعزیر واجب ہے۔(تجلیات صفدر، جلد چہارم، صفحہ 300)

تمام تر حقائق جاننے اور ان کا اقرار کرنے کے باوجود بھی مقلدین کا ایسے غیر مقلد شخص کو امام بنا لینا اورپھر اپنے دین کی بنیاد اس کی اندھی تقلید پر رکھ دینا انتہائی گھاٹے کا سودا ہے۔

۰۳۔ اشرف علی تھانوی دیوبندی ،غیر مقلد امام ابوحنیفہ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: غیر مقلد ہونا تو بہت آسان ہے البتہ مقلد ہونا مشکل ہے کیونکہ غیرمقلدی میں تو یہ ہے کہ جو جی میں آیا کر لیا جسے چاہا بدعت کہہ دیا جسے چاہا سنت کہہ دیا کوئی معیار ہ ہی نہیں مگر مقلد ایسا نہیں کر سکتا، اس کو قدم قدم پر دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔ آزادغیر مقلدوں کی ایسی مثال ہے کہ جیسے سا نڈ ہوتے ہیں اس کھیت میں منہ مارا کبھی اس کھیت میں ، نہ کوئی کھونٹا ہے نہ تھا، تو ان کا کیا، اس کو تو کوئی کرے غرض ایسے لوگوں میں خود رائی کا بڑا مرض ہے۔ (الافاضات الیومیہ،جلد 4، صفحہ 377، 378 بحوالہ وہابیوں کا مکر وفریب، صفحہ 86 تا 87)

مطلب یہ ہوا کہ اشرف علی تھانوی کے نزدیک امام ابوحنیفہ سخت سست اور کاہل تھے اس لئے انہوں نے آسان ترین طریقہ اختیارکیا اور غیر مقلد ہوگئے۔ایک غیرمقلد امام کی تقلید کا دم بھرنا پھر اسی امام کو سانڈے سے تشبیہ دینااور خود رائی کے مرض میں مبتلا بتلانا انہیں مقلدین کا حوصلہ ہے ۔ پھرامام ابوحنیفہ کی گستاخی کے الزام پر مفت میں بدنام بیچارے اہل حدیث!
پس ثابت ہوا کہ آل تقلید کے نزدیک غیرمقلدیت وہ ناقابل معافی جرم ہے کہ اگر اس کا ارتکاب ان کے امام اعظم بھی کریں تووہ بھی ان کے نزدیک کسی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں۔

غیر مقلد امام ابوحنیفہ نہ صرف خوددین میں خود رائی کا شکا ر تھے بلکہ خود رائی کے مرض میں مبتلا افراد کے امام تھے ملاحظہ فرمائیں: امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نعمان بن ثابت کوفی صاحب الرائے تھے۔(المجروحین لابن حبان: 3/64، 63)
میزان الاعتدال میں ہے کہ: امام ابوحنیفہ کوفہ کے رہنے والے اہل الرائے کے امام ہیں۔(میزان الاعتدال،جلد 4، صفحہ 365)

نوٹ:یادرہے کہ یہ وہی اشرف علی تھانوی صاحب ہیں جو ایک غیرمقلد کے اعتراض کہ آپ ہم سے نفرت کرتے ہیں کہ جواب میں فرما رہے تھے کہ ہم تو خود ایک غیرمقلد امام کے مقلد ہیں لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم غیرمقلد سے نفرت کریں لیکن یہا ں موصوف کی غیرمقلدوں سے نفرت چھپائے نہیں چھپ رہی۔بہرحال!یہی دوغلا پن تو آل تقلید کا امتیازی نشان ہے۔

۰۴۔ دیوبندیوں کے حکیم الامت اشرف علی تھانوی صاحب امام ابوحنیفہ کی غیر مقلدیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ غیرمقلدی نہایت خطرناک چیز ہے اس کا انجام سرکشی اور بزرگوں کی شان میں گستاخی یہ اس کا اولین قدم ہے۔(الاضافات الیومیہ ،جلد 1، صفحہ 187، 188بحوالہ وھابیوں کا مکر وفریب،صفحہ 87)

غالی مقلدین کی جانب سے غیرمقلد امام ابوحنیفہ کے تابعی ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ایک تابعی کے بزرگ صحابہ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتے اس لئے اگر غیرمقلدیت کا اولین قدم بزرگوں کی شان میں گستاخی ہے توپھر یقیناًغیرمقلد امام ابوحنیفہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی شان میں گستاخی کرکے ہی غیرمقلد بنے ہوں گے۔اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ امام ابوحنیفہ کا غیرمقلدیت کی انتہاء پر پہنچنے کے بعد صحابہ کرام کی شان میں گستاخیوں اور بدتمیزیوں کا گراف کس بلندسطح تک پہنچا ہوگا!

۰۵۔ ایک زلیل فطرت نام نہاد عالم عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی نے غیر مقلد امام ابوحنیفہ کو شان دار الفاظ سے ملقب کر کے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور اپنی’’ لازوال محبت ‘‘کو جو مقلدین کے دل میں امام صاحب کے لئے ہر وقت موجزن رہتی ہے پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔عبدالغنی طارق لدھیانوی اپنی مخصوص شیریں زبان میں لکھتے ہیں: لیکن علماء نے آپکو بدمذہب (برا مذہب) لامذہب (بے مذہب) غیر مقلد (خواہش پرست) لکھا ہے۔ (شادی کی پہلی دس راتیں، صفحہ 7)

لیکن جب ان القابات سے بھی لدھیانوی صاحب کے جذبات کی تسکین نہیں ہوئی اور امام صاحب سے محبت کے اظہار میں جو کمی رہ گئی تھی اسکو عبدالغنی طارق لدھیانوی نے اس طرح پورا فرمایا کہ غیر مقلد امام ابوحنیفہ کو شیطان کی اولاد قرار دے دیا۔دیکھئے لکھتے ہیں: شیطان علی الصبح بازار جاتا ہے اور اپنی دم دبر میں لے کر سات انڈے دیتا ہے ،ہر ایک انڈے سے ایک بچہ نکلتا ہے ہر ایک کا علیحدہ نام ہے اور علیحدہ کام ہے..... جو بچہ دوسرے انڈے سے نکلتا ہے اس کا نام ہے حدیث (جس کی تم آل و اولاد ہو).......اسکا مطلب یہ ہے کہ ہم شیطان کی اولا د ہوئے؟ بالکل سہیل کے منہ سے فوراً نکلا۔(شادی کی پہلی دس راتیں، صفحہ 7)

چونکہ یہ عبارت عبدالغنی طارق لدھیانو ی صاحب نے غیر مقلد کے بارے میں تحریر فرمائی ہے اور بقول ان کے اکابرین امام ابوحنیفہ پکے اور سچے غیر مقلد تھے اس لئے اس عبارت کا صحیح مصداق بھی غیرمقلد امام ابوحنیفہ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ہم جاہل اور بے عقل مقلدین سے صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اپنے دین کی بنیاد ایک شیطان کی اولاد کے اقوال پر رکھ دینا کو ن سی عقل مندی ہے؟

۰۶۔ عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی عورت بن کر اپنے امام کے مذہب پر لعنت بھیجتے ہوئے فرماتے ہیں: غیرمقلدین کے جھوٹےمذہب پر ایک کھرب مرتبہ لعنت بھیجتی ہوں۔(شادی کی پہلی دس راتیں، صفحہ 36)

عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی کو اپنے اکابرین کی طرح عورت بننے کا بہت شوق ہے اس لئے انھوں نے ایک بے ہودہ کتاب بنام شادی کی پہلی دس راتیں جس کے سرورق پر لکھا ہے:صرف شادی شدہ پڑھیں، لکھی ہے جو ایک نوبیاہتا عورت اور مرد کے باہمی مکالمے کے انداز پر ہے جس میں طارق لدھیانوی نے بیک وقت مرد اور عورت دونوں کا کردار نباہتے ہوئے دونوں کی ترجمانی کے فرائض سرانجام دئے ہیں۔ اس سے ایک طرف تو غیرمقلدین کو گالیاں دے کر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کی ہے اور دوسری جانب دیوبندی اکابرین کی طرح عورت بننے کی خواہش کی کسی حدتکمیل بھی کی ہے ۔اسے کہتے ہیں ایک تیر سے دو شکار

مذکورہ بالا عبارت میں طارق لدھیانوی کا غیر مقلدامام ابوحنیفہ کے مذہب پر ایک کھرب لعنت بھیجنارد عمل ہے فقہ حنفی کی اس عبارت کا جس میں مذکور ہے: اس شخص پر ریت کے ذروں کے برابر لعنتیں ہوں جو ابوحنیفہ کے قول کو رد کرتا ہے۔(ردالمختار مع شامی ص63، جلد1)۔ اب چونکہ حنفی دیوبندیوں او رحنفی بریلویوں کا مذہب ہی اس اختلاف پر مشتمل ہے جو امام صاحب کے شاگردوں نے ایک تہائی مسائل میں اپنے استاد سے کیا جس کی وجہ سے غیر مقلد امام ابوحنیفہ کے شاگرد بھی اور ذریت دیوبندیت و بریلویت بھی اپنی پیدائش سے ہی لعنتی ہیں اور یہ لعنت ان لوگوں پر اپنے امام کے قول کے خلاف کرنے کی وجہ سے ہمیشہ برستی رہے گی۔خیر ہمیں اس سے کیا؟ ان کے گھر کا معاملہ ہے چاہے خود کو لعنتی کہیں یا اپنے امام کو لعنت کا مستحق ٹھہرائیں۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

۰۷۔ عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی کا ایک قلمی نوادر ملاحظہ فرمائیں، میں نہیں سمجھتا کہ آج سے پہلے کسی اورمقلد نے ان شاندار الفاظ میں امام ابوحنیفہ کو خراج تحسین پیش کیا ہو۔ طارق لدھیانوی صاحب رقمطراز ہیں: تقلید کوئی عام قسم کا ہار نہیں بلکہ وہ سونے، چاندی، ہیرے جواہرات کا قیمتی ہار ہے۔ اس لئے وہ قیمتی ہار غیر مقلد، خنزیر اور کتے کے گلے میں نہیں ڈالا جاتا۔(شادی کی پہلی دس راتیں، صفحہ 52تا53 )

سب سے پہلے اشرف علی تھانوی جو دیوبندیوں کے مستند اکابر ہیں کے الفاظ ذہن میں لائیں کہ امام اعظم ابوحنیفہ کا غیر مقلد ہونا یقینی ہے پھر بے شرم اور گستاخ عبدالغنی طارق دیوبندی کی اس عبارت کا مطالعہ کریں کہ کس طرح یہ ناہنجار شخص اپنے ہی امام اعظم کو خنزیر اور کتے کے مشابہہ قرار دے رہا ہے۔ویسے تو یہ الفاظ طارق لدھیانوی دیوبندی کے اپنے نہیں بلکہ یہ الفاظ اس نے اپنے استاد گستاخوں کے امام امین اوکاڑوی سے نقل کئے ہیں یعنی یہ وہی بارہا چبائے اور اگلے ہوئے نوالے ہیں جنھیں طارق لدھیانوی نے چبایا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ پرائمری اسکول ماسٹر امین اوکاڑوی دیوبندی اور عبدالغنی طارق دیوبندی کے نزدیک غیر مقلد ابوحنیفہ ، خنزیر اور کتے میں کوئی فرق نہیں ان سب کا مقام اور مرتبہ ایک ہی ہے۔یاد رہے کہ یہ جملے ان لوگوں کے نوک قلم کا نتیجہ ہیں جو خود کو ائمہ کرام اور بزرگان دین کے باادب ہونے کا ڈھول پیٹتے نہیں تھکتے۔لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

۰۸۔ عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی کا سینہ غیر مقلد امام ابوحنیفہ کی عداوت اور بغض سے بھرا ہوا ہے جس کا اظہار انہوں نے اپنی چھوٹی سے کتاب شادی کی پہلی دس راتوں میں کھل کر کیا ہے۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں: خدا برباد کرے غیر مقلدین کو جو جھوٹ پر جھوٹ بول کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔(شادی کی پہلی دس راتیں، صفحہ 37 )

جی صحیح فرمایا طارق لدھیانوی صاحب آپ نے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے بھی غیر مقلد امام ابوحنیفہ کے جھوٹے ہونے کی گواہی دی ہے۔ دیکھئے: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا: کان ابوحنیفۃ یکذب ترجمہ: ابوحنیفہ جھوٹ بولتا ہے۔(تاریخ بغداد، ص 418،جلد 13)

امام ابوحنیفہ کے ساتھ ساتھ ان کے شاگرد بھی غیر مقلد اور جھوٹے تھے۔
النافع الکبیر میں مدرج ہے: نہ ابویوسف اور امام محمد مقلد ہیں اور نہ طحاوی، کرخی، ابوبکر القفال اور قاضی حسین مقلد ہیں بلکہ ان علماء کو جب ایک بات پسند ہو، دلیل کی رو سے وہ اختیار کرتے ہیں، اور یہ موافقت الرا ء ی ہے نہ کہ تقلید۔ (بحوالہ تحفتہ المناظر یا تناقضات المقلدین، صفحہ 59)

نوٹ: تقلید نہ کرنے والے کو ہی غیر مقلد کہا جاتا ہے۔پس ثابت ہوا کہ امام ابوحنیفہ کے شاگرد بھی غیر مقلد تھے۔

غیر مقلد امام ابویوسف کے بارے میں ان کے اپنے ہی استاد غیر مقلد ابوحنیفہ نے گواہی دی کہ ان کا شاگرد جھوٹا اور کذاب تھا۔ دیکھئے: امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت نے کہا: کیا تم یعقوب (ابویوسف) پر تعجب نہیں کرتے ؟! وہ میرے بارے میں ایسی باتیں کہتا ہے جو میں نہیں کہتا۔(التاریخ الصغیر/الاوسط للبخاری 2/209، 210وسندہ صحیح)

غیرمقلد ابوحنیفہ کے شاگرد رشید غیرمقلد ابویوسف غیر مقلد امام محمد کوجھوٹا اور کذاب قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: اس کذاب یعنی محمد بن الحسن سے کہو ۔یہ جو مجھ سے روایتیں بیان کرتا ہے کیا اس نے سنی ہیں؟(تاریخ بغداد2 /180، وسندہ حسن)

دیوبندیوں کی منافقت پر حیرت ہے جن غیرمقلدین (غیرمقلد امام ابوحنیفہ، غیرمقلد امام ابویوسف، غیرمقلد امام محمد) کو جھوٹ بول بول کر گمراہ کرنے والا بتا رہے ہیں انہیں جھوٹوں کے مذہب پر خود بھی عمل پیرا ہیں اور یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ دوسرے بھی ان جھوٹوں کے مذہب کو اپنا کر اپنی آخرت برباد کر لیں۔اللہ ان منافقین اور کذابین کے ٹولے کے شر سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے۔آمین

غیرمقلد امام ابوحنیفہ اور ان کے شاگردوں کے بارے میں عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی نے اور بھی بہت سی باتیں کی ہیں جیسے ایک غیر مقلد کو مخاطب کرتے ہوئے عبدالغنی طارق دیوبندی فرماتے ہیں؛ سن جاہل ....جاہلوں کی روحانی اولا۔(شادی کی پہلی دس راتیں، صفحہ 48)

۰۹۔ غیر مقلد ٹولے کو جس میں سرفہرست امام ابوحنیفہ، ابویوسف اور امام محمد وغیرہ شامل ہیں کو عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی یہود اور شیعہ کا مقلد قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: غیرمقلدین نے یہود اور شیعہ کی تقلید کی ہے۔ (شادی کی پہلی دس راتیں، صفحہ 40)

عرض ہے کہ اگر یہ غیر مقلدین (ابوحنیفہ، ابویوسف، امام محمد) یہودیوں کے مقلد تھے تو تم ان کی تقلید میں مبتلا ہوکر کیوں یہودیوں اور شیعوں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہو؟

عجیب بات ہے کہ یہ تقلیدی لوگ جو خود ہی امام ابوحنیفہ پر اعتراض کرتے ہیں انہیں برابھلاکہتے اور گالیاں دیتے ہیں(جس کا ثبوت سابقہ سطور میں بھی پیش کیا گیا ہے اور آئندہ بھی آئے گا۔ ان شاء اللہ)لیکن اس کا الزام انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے مخالفین پر تھوپ دیتے ہیں جیسے عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی کا اہل حدیث خاتون پر لگایا گیایہ الزام: امام اعظم پر اعتراض کرتی ہو شرم نہیں آتی (شادی کی پہلی دس راتیں، صفحہ 21)

غیرمقلدابوحنیفہ پر اعتراض تم کرو گالیاں تم دو اور الزام اہل حدیث پر !آخر یہ کون سا انصاف ہے؟ ہم عبدالغنی طارق لدھیانوی کا اہل حدیث پر کسا ہوا یہ جملہ ان کے کردار اور عمل کی روشنی میں خود انہیں کو واپس لوٹا رہے ہیں: امام اعظم پر اعتراض کرتے ہو شرم نہیں آتی؟ ان مقلدوں کو شرم آئے بھی تو کیسے کہ یہ لوگ شرم و حیا کو خیر باد کہہ کر ہی تو حنفی بنے ہیں۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی!

۱۰۔ ابوبکر غازی پوری دیوبندی غیر مقلدین کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے انکشاف فرماتے ہیں: صحابہ سے بیزاری، ان کی شان میں زبان درازی، ان کے اجماع پر عمل کرنے سے انکار اور ان کے اقوال و آثار کو درخو اعتنا ء نہ سمجھ کر ترک کردینے پر یہ سب متفق ہیں۔(کچھ دیر غیر مقلدین کے ساتھ، صفحہ 114)

تمام غیر مقلدین کے بارے میں تو ہمیں نہیں معلوم لیکن غیر مقلدامام ابوحنیفہ کی تیار کردہ فقہ حنفی میں ضرور صحابہ کرام سے بے زاری اور ا ن کی شان میں زبان درازی موجود ہے اور اجماع سے انکار اور صحابہ کے اقوال کو درخو اعتناء سمجھ کر ترک کر دیناتو بہت معمولی بات ہے قرآن و حدیث کو اپنے خلاف پاکر ترک کرنے پرغیر مقلد امام ابوحنیفہ کے مقلدین کا اتفاق ہے دیکھئے اصول کرخی۔

ابوبکر غازی پوری مزید فرماتے ہیں: فتنہ و فساد پھیلانے اور مسلمانوں کی مختلف جماعتوں کے درمیان اشتعال پیدا کرنے پر ان سب کا اتفاق ہے بلکہ اس سے زیادہ لذیذو شیریں چیز ان کے نزدیک اورکوئی نہیں ہے۔(کچھ دیر غیر مقلدین کے ساتھ، صفحہ 114)

ابوبکر غازی پوری دیوبندی سے ہزار ہامذہبی اختلاف کے باوجود ہمیں ان کی یہ بات بالکل تسلیم ہے کہ غیر مقلد ابوحنیفہ نے دین اسلام میں قرآن و حدیث کے مقابلے پر اپنی ناقص رائے اورباطل قیاس کو داخل کرکے مسلمانوں کے درمیان فتنہ ا ور فساد کاجو بیج بویا تھا برسوں سے امت مسلمہ اس کی فصل کاٹ رہی ہے۔

۱۱۔ ابوبکر غازی پوری دیوبندی کی زبانی غیر مقلد ابوحنیفہ اور اس کے ٹولے کی حقیقت بھی سن لیں۔ فرماتے ہیں: حقیقت یہ ہے کہ رؤے زمین پر شیعوں کے بعد اسلام کا مدعی کوئی فرقہ ہمیں ایسا نہیں معلوم جو کذب و نفاق اور دجل و فریب میں فرقہ غیر مقلدیت تک پہنچا ہو اللہ تعالیٰ ہی ان سے ان کے کرتوتوں کا محاسبہ کریں گے۔(کچھ دیر غیر مقلدین کے ساتھ، صفحہ 152)

عرض ہے کہ جب آپ کے نزدیک آپکے امام اعظم اور ان کے شاگرد جو کہ پکے غیرمقلد تھے،کذاب، منافق،دجال اور فریبی تھے تو آپ ان کی تقلید پر اب تک کاربند کیوں ہیں اور کیوں ایسے شیطانی اوصاف کے حامل امام کی تقلید کی طرف لوگوں کو منہ پھاڑ کر دعوت دیتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ پیارے پیارے القابات جن سے آپ غیر مقلد امام ابوحنیفہ کو ملقب کر رہے ہیں ۔ کھلی منافقت کے سبب خود آپ ان القابات کے اپنے امام کے مقابلے میں زیادہ مستحق ہیں؟!

۱۲۔ مولانا رضوان الرحمن قاسمی جو ابوبکر غازی پوری دیوبندی کے شاگرد ہیں غیر مقلدین کے بارے میں کتاب کچھ دیر غیر مقلدین کے ساتھ کے حاشیہ میں لکھتے ہیں: قیاس تو لامذہب ٹولہ میں حرام ہے ،اس کے نزدیک قیاس کی بنیاد ابلیس لعین نے ڈالی ہے، ابلیس کی یہ تقلید یہاں کیونکر؟ (دیکھئے حاشیہ کچھ دیر غیر مقلدین کے ساتھ، صفحہ 216)

نوٹ: ابوبکر غازی پوری دیوبندی کی جس عربی کتاب کاترجمہ کچھ دیر غیر مقلدین کے ساتھ کے نام سے مکتبہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی ،کراچی سے مطبوع ہے ، اس کتاب کا اصل نام ’’وقفہ مع اللامذھبیہ فی شبہ القارۃ الھندیۃ‘‘ ہے۔دیکھئے کچھ دیر غیر مقلدین کے ساتھ ،حصہ اول، صفحہ 7)

اس وضاحت سے معلوم ہواکہ آل تقلید کے ہاں لامذہب اور غیرمقلد ہم معنی اور مترادف الفاظ ہیں۔اور کسی کا غیر مقلد ہونا ہی اس کا لامذہب ہونا ہے ، اس لئے مولانا رضوان الرحمن قاسمی دیوبندی کے بقول اب لامذہب غیرمقلد امام ابوحنیفہ چاہے ابلیس کے مقلد ہوں یا کسی اور شخص کے، یہ مقلدین کا مسئلہ اور ان کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔غیرمقلد امام ابوحنیفہ کوابلیس کا مقلد کہہ کر اور خود ان کی تقلید اختیار کرکے مقلدین خود بھی تو شیطان کے چیلے قرار پاتے ہیں! ویسے مقلدین کو چاہیے کہ اس طرح اپنے امام کو برابھلا کہنے کے بجائے ان سے براء ت کا اظہار کردیں تاکہ مقلدین کا مذہب اور ان کا امام خو د انہی کے ہاتھوں مزید بدنام اور رسواء ہونے سے بچ جائیں۔ مقلدین کے یہ کرتوت تقلیدی مذہب کے لئے رسوائی اور جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں۔

بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جومظلوم اہل حدیثوں پر ائمہ کرام اور بزرگان دین کی گستاخی وتوہین کے الزامات لگاتے ہیں،لیکن خود ان کا کردار اور عمل کیا ہے مذکورہ بالا حوالاجات سے روشن اور واضح ہے۔یہ لوگ نبی کریم ﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین، بزرگان دین اور خود اپنے غیرمقلد امام اعظم ابوحنیفہ پر تبرا کرنے والے بے شرم اور گستاخ لوگ ہیں جنھوں نے شرم و حیا دھو کر پی لی ہے۔

۱۳۔ صوفی منقار شاہ دیوبندی عنوان قائم کرتے ہیں۔’’حضرت امام ابوحنیفہ کی شان میں گستاخی کرنے والا مرتد ہو کر مرتا ہے‘‘ اور اس عنوان کے تحت اشرف علی تھانوی کا کلام نقل کرتے ہیں ،ملاحظہ ہو: حضرت تھانوی فرماتے تھے.....مولوی عبدالجبار صاحب کے والد مولوی عبداللہ صاحب کے بارے میں فرمایا کہ وہ کہا کرتے تھے جو امام ابوحنیفہ کی شان میں گستاخی کرتا ہے وہ آخر کار ضرور مرتد ہو جاتا ہے ارتداد سے خالی نہیں رہتا ، چناچہ ان کے سامنے ایک شخص نے امام صاحب کی شان میں گستاخی کی اس پر مولوی عبداللہ صاحب نے فرمایا کہ یہ ضرور مرتد ہوجائے گا چناچہ تھوڑے ہی دن کے بعد وہ مرزائی ہوگیا۔(القول العزیز ، جلد1، صفحہ28 ، بحوالہ وھابیو ں کا مکر و فریب، صفحہ89 تا90 )

دوسرے مقلدوں کے بارے میں تو ہمیں نہیں معلوم لیکن غیر مقلد ابوحنیفہ کا سب سے بڑا گستاخ پرائمری اسکول ماسٹر امین اوکاڑوی جس نے اپنی پوری زندگی غیرمقلد کی تحقیر و گستاخی کے لئے وقف کی ہوئی تھی کا انجام بھی بعینہ وہی ہوا جو کذاب ،مردود، دجال اور مرتد غلام احمدقادیانی کا ہوا تھا۔طالب الرحمٰن شاہ حفظہ اللہ نے ایک انٹرویو میں بتایا: ۲۰۰۳ میں دو یا تین سال پہلے امین اوکاڑوی صاحب فوت ہوگئے ہیں اور ملتان کے ساتھیوں نے بتلایا کہ وہ ٹائلٹ میں فوت ہوئے اور انھیں موت بھی برے طریقے سے آئی ۔ (ہم اہلحدیث کیوں ہوئے؟صفحہ621)


مرتدغلام احمد قادیانی بھی ٹائلٹ میں فوت ہوا اور غیر مقلد امام ابوحنیفہ کا گستاخ امین اوکاڑوی بھی ۔طالب الرحمن شاہ حفظہ اللہ کے نزدیک تو امین اوکاڑوی کا یہ عبرتناک انجام اس مباہلے کا نتیجہ تھا جو ان کے اور امین اوکاڑوی کے درمیان ہوا ۔لیکن مقلدوں کے نزدیک اس بری موت کا سبب غیر مقلد ابوحنیفہ کی گستاخی کے علاوہ کچھ نہیں جیسا کہ اشرف علی تھانوی کے حوالے سے عرض کیا گیا کہ غیرمقلد ابوحنیفہ کی شان میں گستاخی کرنے والا بالآخر بری موت اور ارتداد جیسے برے انجام سے دوچار ہوتا ہے۔ ہم مقلدین خصوصاً دیوبندیوں کو یہ مخلصانہ مشورہ دیتے ہیں اگر وہ مرتد ہو کر مرنا نہیں چاہتے اور امین اوکاڑوی جیسی بری موت سے بھی بچنا چاہتے ہیں تو غیر مقلدین کی تحقیر اور ان پر طعن و تشنیع سے باز آجائیں۔

آپ کا مخلص اور خیرخواہ: سابقہ مقلد شاہد نذیر

پوری دنیا جان چکی ہے کہ تقلید اسلام کی دشمن ہے
کسی نے نہیں کہا کہ ابو حنیفہ صاحب کی تقلدی کرو ؟
سب نے کہا ہے قرآن و حدیث کو لازم پکڑو
مقلدین قرآن و حدیث کی مخالفت پو زندگیاں ضایع کر رہے ہیں ہمیں فخر کہ ہم قرآن و حد یث کا پر چار کرتے ہیں الحمدللہ
رب العلمین
 
M

Malang009

خوش آمدید
مہمان گرامی
جناب ابن بشیر عرف شرالقرون کے جاہل مولویوں کے اندھے مقلد صاحب میں نے وہ مضمون پڑھ لیا جسکی آپ اندھی تقلید میں مبتلا ہیں ۔ اور اس سے عبرتیں بھی حاصل کی ہیں جو شاید آپ کے لیے فیض کا درجہ رکھتی ہوں ۔
ملاحظہ فرمائیں اپنے مولویوں کی قرآن و حدیث والی زبان


بے ادب اور گستاخ امین اوکاڑوی صاحب
ویسے تو امین اوکاڑوی اعلیٰ درجے کے کذابوں میں سے ایک تھا لیکن جس طرح شیطان سے ایک مرتبہ سچ بولنا ثابت ہے بعینہ اسی طرح امین اوکاڑوی کے قلم سے بھی کبھی کبھی سچ نکل ہی جاتا تھ
غیر مقلدامام ابوحنیفہ کے انہی جاہلانہ اور گستاخانہ فتوؤں کے سبب امین اوکاڑوی نے کہا
ایک زلیل فطرت نام نہاد عالم عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی
عبدالغنی طارق لدھیانوی دیوبندی کو اپنے اکابرین کی طرح عورت بننے کا بہت شوق ہے

واہ واہ کیا فیض جاری ہو رہا ہے سبحان اللہ ماشااللہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیخ الحدیث صاحب ابھی ابھی بخاری کا درس دے کر آرہے ہیں ۔ مضمون پڑھ کر ایسا محسوس ہوا کہ قرآن اور حدیث کے حوالوں سے بھرا پڑا ہے ۔

آپ لوگ دوسروں کو اندھی تقلید کا طعنہ دیتے دیتے خود اندھے مقلد بن گئے کے اپنے سوچنے سمجھنے کے صلاحیت جو پہلے ہی تھوڑی سی تھی اس سے بھی گئے ۔
مثال کے طور پر میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مجتہد لغوی معنوں میں غیر مقلد ہو گا یعنی وہ خود اجتہاد کرے گا اور اپنے اجتہاد پر عمل کرے گا ۔ اسی لیے کسی اور کا مقلد نہیں ہو گا ۔ جبکہ اصطلاحاً غیر مقلد وہ ہو گا جو نہ تو خود مجتہد ہو نہ کسی کی تقلید کرتا ہو ۔

ہم لوگ امام ابو حنیفہ کو مجتہد مانتے ہیں اور انکی تقلید کرتے ہیں ۔ آپ کے قرآن و حدیث والے مضمون کا ایک بڑا حصہ اسی جہالت پر مبنی تھا کہ امام ابو حنیفہ غیر مقلد تھے حالانکہ میں پہلے بھی بتا چکا تھا کہ حضرت تھانوی کے وہ الفاظ اصطلاحاً نہیں بلکہ لغوی معنیٰ میں تھے

لیکن آپ کے انداز کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے آپ کے لیے ہی فرمایا تھا

بینا ہو تو جگنو کی چمک راہ دکھا دے
اندھے (مقلد) کو تو سورج بھی دکھائی نہیں دیتا

اور ایک دوسرے شاعر نے آپ حضرات کی شان میں عرض کی ہے

آنکھیں اگر ہیں بند تو دن بھی رات ہے
اس میں بھلا قصور ہے کیا آفتاب کا

اب چلتے ہیں دوسرے حصے کی طرف ، وہ یہ ہے کہ آپ کے طالب الرحمٰن کو چند غیر مقلدین نے جھوٹ بولا کہ حضرت اوکاڑوی کا انتقال مرزا قادیانی کی طرح ہوا ۔ غیر مقلد طالب الرحمٰن کذاب نے آس کو دوسرے غیر مقلدین کو بتایا اور بشمول آپ کے جتنے بھی غیر مقلدوں تک یہ بات پہنچی سب اسکی اندھی تقلید کرتے ہیں اور شور مچاتے پھرتے ہیں ۔ لیکن کیا آپ کی پوری جماعت میں سے بھی ایک شخص ایسا نکلا جس نے کہا ہو کہ بھئی یہ طالب الرحمٰن تو وہ شخص ہے جو صادق کوہاٹی کو اپنی بیٹیاں دے رہا تھا غیر مقلد ہونے کے لیے اس کی بات کا کیا اعتبار چلو ہم خود سے تحقیق کرتے ہیں ۔ ؟؟؟؟ کسی ایک غیر مقلد نے تو جا کر پتا کیو ہو گا؟؟؟ لیکن ایسا نہیں ہوا اسی لیے میں غیر مقلدین کے بارے میں کہا کرتا ہوں

جاہل مولویوں کے اندھے مقلد غیر مقلد غیر مقلد

اسی طرح کچھ عرصہ پہلے آپ کے مولوی زبیر علیزی کذاب (جسکے جھوٹوں پر علامہ عبدالغفار ذہبی نے رسالہ لکھا ہے اور بیچارے اب تک انکا جواب دینے سے عاجز ہے ) نے یہ شوشہ چھوڑا تھا کہ امین اوکاڑوی کا داماد غیر مقلد ہے ۔ اس پر پھر حضرت اوکاڑوی کے داماد کی تحریر دکھائی گئی کہ وہ پکا حنفی دیوبندی ہے ۔ لیکن آپ اور آپ جیسے دوسرے غیر مقلدین نے اسکی بھی اندھی تقلید کی اور نہ صرف خود اندھی تقلید کی بلکہ حنفیوں کے پاس جا کر بھی شور مچایا ۔

یہ ہی نہیں کچھ عرصہ قبل ایک شخص کو اپنے باپ بدلنے کا شوق پیدا ہوا اور وہ اپنے آپ کو علامہ انور شاہ کاشمیری کے خاندان کا کہنے لگا ۔ بات تو سچی یہ ہے کہ آپ لوگ شیعہ سے بھی آگے ہیں وہ تو تقیہ کرنے میں بھی اپنا باپ شاید نہ بدلتے ہوں جیسا آپ لوگوں کے فرقے میں ہو جاتا ہے ۔

آپ نے جس مولوی کا یہ مضمون چھاپا ہے اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ عبدالغنی طارق کو عورت بننے کا شوق ہے تو جناب عرض ہے کہ مجبور نہ کریں کیونکہ آپ کے مولوی نے تو جھوٹ لکھا ہے لیکن ہم آپ لوگوں کی کتابوں سے ایسے سچے واقعات نکال لائیں گے جن میں آپکا کوئی مولوی جننی کی انڈر ویر بیچ کر پیسے کام میں لاتا ہے تو دوسرا مولوی اپنے دوست کو خط لکھ کر پوچھتا ہے کہ تمہاری مفعول بننے والی عادت اب تک باقی ہے یا چلی گئی ۔ اگر اس پر بھی بس نہ ہو تو آپ کے ان مولوی صاحب کے بارے میں پوچھا جا سکتا ہے کہ انکی بیوی انگریز کو ماننے اسکی کوٹھی میں کتنا عرصہ رہی تھی ۔۔۔

اگر میرے ساتھ اصولی گفتگو کرنی ہے تو یہ گھوڑا اور یہ گھوڑے کا میدان اور اگر آپ نے اپنے جاہل مولویوں کے مضامین کی اندھی تقلید مجھ سے کروانی ہے جیسا آپ خود کر رہے ہیں تو اللہ حافظ میری درخواست ہو گی کہ آپ اس فورم پر مت آئیں کیونکہ یہ فورم اور خاص کر فورم کا یہ حصہ آپ کے مضامین کے لیے نہیں بنا بلکہ ایک موثر گفتگو کے لیے بنایا گیا ہے ۔ اگر تم کو یہاں اچھے سے بات کرنی ہے تو ٹھیک ورنہ جتنی تمہاری عمر ہو گی اس سے دگنا میرا تم اور تمہارے مولویوں سے بات کرنے کا تجربہ ہے اور میں ان سے بات کرتے کرتے بہت اچھے اچھے الفاظ سیکھ چکا ہوں ۔ بہتر یہی ہو گا کہ تم مجھے غیر مقلدانہ لہجہ اور الفاظ استعمال کرنے پر مجبور نہ کرو ۔ خود بھی تمیز سے رہو اور ایسے جانگلوس اور گنوار مولوی جو اتنے پھٹو ہیں کہ اپنے اصل نام سے مضمون بھی نہیں چھپوا سکتے انکے مضامین یہاں نہ لگاو ۔
 
M

Malang009

خوش آمدید
مہمان گرامی
ابن بشیر الحسینوی نے کہا ہے:
اس دور میں اہل حدیث کے الفاظ محدثین کے لیے استعمال ہوئے ہیں نہ کہ فرقہ غیر مقلدین کے لیے ۔ پہلے تو آپ لوگ یہ بات کلیر کر لیں کہ انیس سو سے پہلے کوئی ایسا فرقہ نہیں گزرا جسکا عامی جسکو عربی تو کجا اردو بھی صحیح نہ پڑھنی آتی ہو اپنے آپ کو تقلید سے آزاد اور مجتہد کے درجے پر فائز کرتا ہو ۔
ِ...................................................................................................
یہ بہت بڑا جھوٹ ہے صحابہ کرام تابعین ،محدثین کرام نے واضح طور پر کہا ہے کہ تقلید نہ کرو وہی ہم کہتے ہیں
اور انھوں نے واضح کہا کہ قرآن و حدیث کو لازم پکڑو ہم بھی وہی کہتے ہیں اس پر سیکنکڑوں حوالے پیش کیے جاتے ہیں اور آپ کو بھی پتا ہے بس آپ جھوٹ سے کام لیتے ہوئے اپنے آباےئ کی یاد تازہ کر رہے ہیں
صحابی یا تو مقلد تھے یا مجتہد تھے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اجتہاد بھی رائے سے کرتے تھے ۔ خود ایک صحابی سے حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اجتہاد کیسے کرو گے تو انہوں نے کہا اپنی راے سے

دنیا چاند پر پہنچ گئی اور غیر مقلد ابھی تک باتھ روم میں بیٹھا "لوٹا بھر دو لوٹا بھر دو" کی صدائیں لگا رہا ہے :-(||>

حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے حضر معاذ بن جبل کو یمن بھیجا اور پورے یمن والوں سے اکیلے حضرت معاذ کی تقلید کروا کر امت کو بتا دیا کہ میرے جانے کے بعد تم نے ایسے ہی مجتہدین کی تقلید کرنی ہے ۔ اسی لیے حضرت معاذ کو بھی بتا دیا تھا کہ یہ آخری ملاقات ہے ۔

لیکن غیر مقلد آج بھی چیختا ہے کہ یہ جھوٹ ہے یہ جھوٹ ہے ۔

قرآن اور حدیث میں اگر سب مسائل کا حل ہوتا تو حضور کیوں پوچھتے کہ ایسے مسائل کا حل کہاں سے کرو گے جو تمہیں سنت میں بھی نہ ملے حضرت معاذ کہتے کہ اپنی رائے سے اجتہاد کرتا ہوں ۔ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم ٹوکنے کے بجائے شاباش دیتے ہیں ۔ پتا چلا کہ نبی بھی اجتہاد و تقلید پر خوش ہوتا ہے اور صحابی بھی ۔

نبی اور صحابی کی خوشی سے کون جلتا ہے ۔۔ زرا بتاو تو []---
 
Top