دنیا میں انسان کا باہمی اتحاد یا اختلاف روز ازل کے اتحاد اختلاف کا مظہر ہے

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا روحیں جسموں میں داخل کیے جانے سے پہلے لشکر کی طرح ایک جگہ مجتمع تھیں اور پھر ان کو الگ الگ کر کے ایک ایک جسم میں داخل کیا گیا چنانچہ جسموں میں داخل ہونے سے پہلے جو روحیں ایک دوسرے کے صفات سے مناسبت و مشابہت رکھنے کی وجہ سے آپس میں مانوس و متعارف تھیں وہ جسموں میں پہنچنے کے بعد اس دنیا میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ محبت و الفت رکھتی ہیں، اور جو روحیں ایک دوسرے سے انجان و نامانوس تھیں وہ اس دنیا میں بھی اختلاف رکھتی ہیں۔ (بخاری)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
تشریح



جمہور علماء کا قول یہ ہے کہ دنیا میں اب تک جتنے اجسام پیدا ہو چکے ہیں یا قیامت تک جتنے پیدا ہوں گے ان سب کی روحین اپنے جسمانی وجود سے بھی بہت پہلے پیدا کی جا چکی تھیں جو عالم ارواح میں جمع ہیں اور دنیا میں جب کسی روح کا جسم پیدا ہوتا ہے تو وہ روح اس جسم میں بھیج دی جاتی ہے چنانچہ ابتداء خلقت میں اور روز ازل اللہ نے اپنی ربوبیت کا عہد اقرار کرنے کے لیے جب پوری کائنات انسانی کی روحوں کو چیونٹیوں کی صورت میں جمع کیا تو اس وقت وہاں جو روحیں آپس میں ایک دوسرے سے مانوس و متعارف ہوئیں اور جن روحوں کے درمیان صفات کی مناسبت اور موانست پیدا ہوئی یا جو روحیں آپس میں نامانوس ہو چکی اور جن روحوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ رہا وہ دنیا میں بھی اپنے اجسام میں آنے کے بعد آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت و موانست ایک دوسرے کی صفات سے مناسبت و مشابہت رکھتے ہیں لہذا جیسے نیک لوگ اور اچھے ہوتے ہیں وہ نیک اور اچھے لوگوں سے محبت تعلق رکھتے ہیں اور جو لوگ فاسق اور بدکار ہوتے ہیں وہ فاسقوں اور بدکاروں کے محبت تعلق رکھتے ہیں یا جو لوگ ایس دنیا میں آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف و عناد رکھتے ہیں جیسے نیک لوگ برے لوگوں سے اجتناب کرتے ہیں اور برے لوگ نیک لوگوں سے اختلاف کرتے ہیں تو وہ در اصل اپنی روحوں کے ازلی اتحاد و موانست یا اختلاف کا مظہر ہیں روز ازل جن روحوں میں محبت و موانست تھی ان کے درمیان دنیا میں بھی محبت و موانست ہے اور جن روحوں میں وہاں اختلاف تھا وہ یہاں بھی اختلاف و عناد رکھتے ہیں۔ جاننا چاہیے کہ روحوں کے درمیان جو روز ازل جو تعارف و تعلق پیدا ہو گیا تھا اس کا ظہور دنیا میں الہام خداوندی کے سبب ہوتا ہے بایں طور کہ جب روحیں اس دنیا میں اپنے جسموں میں آتی ہیں تو اللہ ان کی وہاں روز ازل کی محبت کے سبب یہاں دنیا میں بھی ان لوگوں کے دل میں محبت ڈال دیتا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
روح کی حقیقت کا ادراک نہیں کیا جاسکتا ،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے کچھ یہودیوں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے متعلق سوال کرنے پر بس اتنا فرمادیا کہ :

قل الروح من أمر ربی ”
آپ فرمادیجیے کہ روح اللہ تعالی کے حکم سے پیداشدہ ایک چیز ہے“

اس کی حقیقت وماہیت کو بیا ن نہیں فرمایا؛

البتہ علماء نے روح کے متعلق جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ روح ایک جسمِ لطیف ہے اور اس جسمِ عنصری کے مخالف ہے ،زندہ متحرک ہے جو تمام اعضاء بدن میں سرایت کرتا ہے ،بدن میں اس کا سرایت کرنا ایسا ہے جیسے گلاب کے پھول میں پانی ،زیتون میں روغن اور کوئلہ میں آگ اور کوئلہ میں آگ ،جسم کی شکل کے مطابق روح کی بھی لطیف صورت ہے ،روح کی بھی دو آنکھیں ہیں ،کان ہیں ہاتھ اور پاؤں ہیں ؛بلکہ روح کے ہر عضو کی نظیر بدنِ انسانی میں موجود ہے
(تحفة القاری شرح بخاری:۲/۴۴بحوالہ دلائل السلوک:۵۵)

روح کو جب بدن میں داخل کیا جاتاہے تو بدن کی خصوصیات سامنے آتی ہیں مثلاً:بچپن،جوانی بڑھاپا اور بچپن میں ذہن ،عقل فہم ادراک وغیرہ کا ناقص ہونا پھر رفتہ رفتہ عمر کے ساتھ ترقی کرنا وغیر ہ یہ بدن کی خصوصیات ہیں ورنہ روح تو اپنی پیدائش کے وقت سے ہی عاقل وبالغ اور ذی فہم ہے اور اگر یہ بات نہ ہوتی تو” ألست بربکم“ کے جواب میں ”بلی“ کیوں کہتی ،سوال سننا،سمجھنا اور جواب دینا روح کے پیدائشی عاقل وبالغ ہونے کی دلیل ہے۔جہاں تک نفس کا تعلق ہے تو نفس روح ہی کا دوسرا نام ہے ،

قرآن شریف میں ہے:

اللہ یتوفی الأنفس حین موتہا․
”اللہ تعالیٰ ہی قبض کرتے ہیں جانوں کو ان کی موت کے وقت“؛

البتہ روح اور نفس میں مغایرت بوجہ اوصاف کے ہے اولیت کے اعتبار سے روح ہے یعنی فرشتہ جب ماں کے پیٹ میں پھونکتا ہے روح ہے،اور جب پیدا ہوتا ہے اور کسبِ اخلاق واوصاف حمیدہ یا ذمیمہ کرتا ہے اور بدن سے عشق ومحبت پیدا کرلیتاہے اور مصالحِ بدن میں مشغول ہوجاتا ہے تو اس پر لفظِ نفس بولا جاتا ہے ۔مزید تفصیل کے لیے آپ (دلائل السلوک :۴۶تا۵۹) کا مطالعہ فرمائیں۔


واللہ تعالیٰ اعلم


دارالافتاء،

دارالعلوم دیوبند
 
Top