ر حضرت مسروق (تابعی ) کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کریمہ کی تفسیر پوچھی ۔
(وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَا ءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ) 3۔ آل عمران : 169)
جو لوگ اللہ کی راہ میں جہاد میں مارے گئے ہیں ان کو تم مردہ خیال نہ کرو بلکہ وہ اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جاتا ہے ہے الخ ۔
تو انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ (ان شہداء ) کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قلب میں ہیں ان کے (رہنے ) کے لئے عرش الہٰی کے نیچے (بمنزلہ گھونسلوں ) کے قندیلیں لٹکائی گئی ہیں وہ (روحیں ) بہشت میں سے جہاں سے ان کا جی چاہتا ہے میوے کھاتی ہیں پھر ان قندیلوں میں جا کر بسیرا کرتی ہیں تب پروردگار ان (شہدا ) کی طرف جھانکتا ہے فرماتا ہے کہ " کیا تم کو کسی چیز کی خواہش ہے ؟ " وہ عرض کرتے ہیں کہ ہم کس چیز کی خواہش کریں درآنحالیکہ ہم بہشت میں سے جہاں سے ہمارا جی چاہتا ہے میوے کھاتے ہیں ۔" اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ تین مرتبہ یہی معاملہ کرتا ہے (یعنی تین بار ان سے یہی سوال کرتا ہے ) اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ ہمیں پوچھے جانے والے سے چھوڑا نہیں جائے گا (یعنی جب وہ یہ جانتے ہیں کہ پروردگار کی مراد یہ ہے کہ ہم کسی خواہش کا اظہار کریں ) تو وہ عرض کرتے ہیں کہ " اے ہمارے پروردگار !ہماری بس یہی خواہش ہے تو ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں واپس کر دے (اور ہمیں دنیا میں واپس بھیج دے ) تاکہ ہم ایک بار اور تیری راہ میں مارے جائیں )" جب اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے کہ ان کی کوئی (متعین ) خواہش وحاجت نہیں ہے (کیونکہ انہوں نے جس خواہش کا اظہار کیا ہے اس کو پورا کرنا اللہ کے ارادہ اور مصلحت کے خلاف ہے دوسرے یہ کہ ان کو پہلی ہی بار میں جو عظیم ثواب اور عظیم اجر ملا ہے اور اسی وجہ سے ان کی کوئی حاجت وخواہش نہیں ہے اگر وہ دوبارہ دنیا میں بھیج دیئے جائیں تو وہی اجر وانعام انہیں دوبارہ ملے گا اور اس کی انہیں حاجت ہی نہیں ہے کیونکہ شہید کا اجر و ثواب ایک ہی ہے جو انہیں حاصل ہے ) تو ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ ان سے پوچھنا چھوڑ دیتا ہے ۔"
(مسلم )
(وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْيَا ءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ) 3۔ آل عمران : 169)
جو لوگ اللہ کی راہ میں جہاد میں مارے گئے ہیں ان کو تم مردہ خیال نہ کرو بلکہ وہ اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جاتا ہے ہے الخ ۔
تو انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ (ان شہداء ) کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قلب میں ہیں ان کے (رہنے ) کے لئے عرش الہٰی کے نیچے (بمنزلہ گھونسلوں ) کے قندیلیں لٹکائی گئی ہیں وہ (روحیں ) بہشت میں سے جہاں سے ان کا جی چاہتا ہے میوے کھاتی ہیں پھر ان قندیلوں میں جا کر بسیرا کرتی ہیں تب پروردگار ان (شہدا ) کی طرف جھانکتا ہے فرماتا ہے کہ " کیا تم کو کسی چیز کی خواہش ہے ؟ " وہ عرض کرتے ہیں کہ ہم کس چیز کی خواہش کریں درآنحالیکہ ہم بہشت میں سے جہاں سے ہمارا جی چاہتا ہے میوے کھاتے ہیں ۔" اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ تین مرتبہ یہی معاملہ کرتا ہے (یعنی تین بار ان سے یہی سوال کرتا ہے ) اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ ہمیں پوچھے جانے والے سے چھوڑا نہیں جائے گا (یعنی جب وہ یہ جانتے ہیں کہ پروردگار کی مراد یہ ہے کہ ہم کسی خواہش کا اظہار کریں ) تو وہ عرض کرتے ہیں کہ " اے ہمارے پروردگار !ہماری بس یہی خواہش ہے تو ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں واپس کر دے (اور ہمیں دنیا میں واپس بھیج دے ) تاکہ ہم ایک بار اور تیری راہ میں مارے جائیں )" جب اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے کہ ان کی کوئی (متعین ) خواہش وحاجت نہیں ہے (کیونکہ انہوں نے جس خواہش کا اظہار کیا ہے اس کو پورا کرنا اللہ کے ارادہ اور مصلحت کے خلاف ہے دوسرے یہ کہ ان کو پہلی ہی بار میں جو عظیم ثواب اور عظیم اجر ملا ہے اور اسی وجہ سے ان کی کوئی حاجت وخواہش نہیں ہے اگر وہ دوبارہ دنیا میں بھیج دیئے جائیں تو وہی اجر وانعام انہیں دوبارہ ملے گا اور اس کی انہیں حاجت ہی نہیں ہے کیونکہ شہید کا اجر و ثواب ایک ہی ہے جو انہیں حاصل ہے ) تو ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ ان سے پوچھنا چھوڑ دیتا ہے ۔"
(مسلم )