علم غیب اور ندائے یا رسول اللہ کے بارہ میں حضرت گنگوہیؒ کا ایک مفصل فتوےٰ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت مولانا گنگوہیؒ ایک شخص کے سوال کے جواب میں ( جس نے انبیاء علیھم السلام کے علم غیب کے بارہ میں ندائے "یا رسول اللہ" کے بارہ میں سوال کیا تھا) فرماتے ہیں۔

علم غیب میں تمام علماء کا عقیدہ ومذہب یہ ہے کہ سوائے حق تعالیٰ کے کو ئی اس کو نہیں جانتا "وَعِندَهُۥ مَفَاتِحُ ٱلْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ إِلَّا هُوَ ۚ خود حق تعالیٰ فرماتا ہے جس کا تر جمہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ ہی کے پاس علم غیب ہے کوئی نہیں جانتا اس کو سوائے اس کے۔ پس اثبات علم غیب ہے کوئی نہیں جانتا اس کے سوائے اس کے ، پس اثبات علم غیب غیر حق تعالیٰ کو شرک صریح ہے ، مگر ہاں جو بات حق تعالیٰ اپنے کسی مقبول کو بذریعہ وحی یا کشف بتا دیوے وہ اس کو معلوم ہو جاتا ہے جیسا علم جنت ، دوزخ اور رضا وغیرہ کا حق تعالیٰ نے انبیاءعلیھم السلام کو بتلا دیا ہے اور پھر انہوں نے امت کو خبر دی، چنانچہ اس آیت سورہ جن "فلا یظھر علیٰ غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول الآییۃ ۔" سے معلوم ہو ا ، سو حاصل اس آیت کا یہ ہوا کہ جس غیب امر کی خبر حق تعالیٰ اپنے مقبول کو دے دیوے تو اس کی خبر اس کو ہو جاتی ہے ،نہ یہ کہ تمام مغیبات حق تعالیٰ کے نبی کشف ہو جاتے ہیں ۔کیونکہ اگر یہ معنیٰ اس ہو ویں کہ تمام علم غیب رسول کو معلوم ہو جاتا ہے تو دوسری آیت صاف اس کے خلاف کہہ رہی ہے ۔قُل لَّآ أَمْلِكُ لِنَفْسِى نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ ٱلْغَيْبَ لَٱسْتَكْثَرْتُ مِنَ ٱلْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِىَ ٱلسُّوٓءُ

ترجمہ: کہدےکہ میں نہیں مالک اپنے نفس کے واسطے کسی نفع اور کسی ضرر کا مگر جو خدائے تعالیٰ چا ہے اورجو میں غیب کو جانتا تو بہت سی بھلائی جمع کر لیتا اور کوئی برائی مجھ کو نہ لگتی )۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس روشن ہو گیا کہ مغیبات آپ ﷺ کو معلوم نہیں اپنا نفع اور ضرر بھی آپ کے اختیار میں نہیں ، تو یہ عقیدہ البتہ خلاف نص قرآن ک شرک ہوا خود دوسری آیت میں موجود ہے۔۔۔۔۔۔وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلا بِكُمْ ترجمہ" میں نہیں جا نتا کہ کیا کیا جاوے گا

میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ ) پس ص جب صاف ظاہر ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ کو ہر گز علم غیب نہیں مگر جس قدر اطلاع دی جائے اور اس پر بہت آیات واحادیث شاہد ہیں تو خلاف اس کے عقیدہ کرنا کہ انبیاء علیھم السلام سب غیب کو جانتے ہیں شرک قبیح جلی ہو وے گا ۔معاذ اللہ حق تعالیٰ سب مسلمانوں کو ایسے عقیدۂ فاسدہ سے نجات دیوے ۔آمین پس ایسے عقیدے والا مشرک ہو اور جب انبیاء علیھم السلام کو علم غیب نہیں دیا تو یا رسول اللہ کہنا بھی جائز نہ ہو گا اگر یہ عقیدہ کر کے کہے کہ وہ دور سےسنتے ہیں بسبب علم غیب کے تو کفر ہے اور جو ہ عقیدہ نہیں تو کفر نہیں مگر کلمۂ مشابہ بکفر ہے البتہ اگر اس کلمہ کو درود شریف کے ضمن میں کہے اور یہ عقیدہ کرے کہ ملائکہ اس درود شریف کو آپ کو پیش کرتے ہیں تو درست ہے کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ ملائکہ درود بندہ مومن کا آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں اور ایک صنف ملائکہ اسی خدمت پر ہیں ۔

فقط

(فتاوی رشیدیہ جلد سوم صفحہ ۶،۷، ۸)

زلزلہ کے مصنف نے اس پورے فتوے سے صرف اتنا جملہ نقل کیا ہے ۔۔۔

"۔۔۔۔۔۔اور جب انبیاء علیھم السلام کو علم غیب نہیں تو یا رسول اللہ کہنا بھی جائز نہ ہو گا۔(زلزلہ)

اب پورا فتوی ناظرین کےسامنے ہے اس میں چارباتیں پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ موجود ہیں ۔( بریلوی فتنہ کا نیا روپ )۔جاری ۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
فتوے کے چار خاص نقا ط

۱۔ ایک یہ کہ االلہ تعالیٰ وحی یا کشف وغیرہ کے ذریعہ اپنے مقبول بندوں ( یعنی ابیاء علیھم السلام واولیا ء کرام ) کو غیب کی باتوں کی اطلاع دیتا ہے جس سے ان کو مغیبات کی خبر اور اطلاع ہو جاتی ہے اور پھران کے بتلانے سے عام امتیوں کو بھی اطلاع ہو جاتی ہے جس طرح کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیھم السلام کو جنت ، دوزخ وغیرہ امور آخرت کے بارے میں بہت کچھ بتلاا دیا اورانہوں نے اپنی امتوں کو بتلایا حالانکہ جنت دوزخ وغیرہ یہ سب چیزیں غیب میں ہیں اور ان کے علاوہ عالم غیب کی ہزاروں چیزیں ہیں جن کی اطلاع حضور ﷺ کو وحی سے ہو ئی اور آپﷺ نے امت کو ان کی اطلاع دی۔

۲۔ دوسری بات اس فتوی میں صراحت کے ساتھ یہ بھی موجود ہے کہ شرک کا حکم اسی صورت سے متعلق ہے جب کی رسول اللہ ﷺ یا دیگر انبیاء علیھم السلام کے لیے سب غیب کے علم کا عقیدہ رکھا جائے جو بلا شبہ شرک ہے ۔

۳۔ تیسری بات اس فتوی یں صراحت کے ساتھ یہ موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو " یارسول " کے الفاظ سے ندا کرنا ناجائز اسی صورت میں کہا گیا ہے جب کہ یہ ندا اور پکارنا اس مشرکانہ عقیدہ کی بنیاد پر ہو کہ آپ ﷺ عالم الغیب ہیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ ہماری دعا اور پکار کو ہر جگہ سے سنتاا ے اسی طرح حضور ﷺ بھی عالم الغیب ہو نے کی وجہ سے سنتے ہیں ۔

۴۔ چوتھی بات اس فتوے میں یہ بھی صراحت مو جود ہے کہ اگر کوئی شخص اس نظریہ کی بنیاد پر کہ فرشتے ہم امتیوں کا درود وسلام حضور ﷺ کو پہنچاتے ہیں ( جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے ) درود وسلام میں حضور ﷺ کو یا رسول اللہ خطاب کرے تو جائز ہے ۔

رسول اللہ ﷺ کو حروف ندا سے خطاب کرنے کے بارہ میں ایک اور فتوی

اس ندا کے مسئلہ سے متعلق ایک فتوی اسی فتاوی رشیدیہ کا ناظرین کرام ملاحظہ فر مائیں ۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ سے سوال کیا گیا کہ اس طرح کے اشعار پڑھنے کا کیا حکم ہے ۔

یا رسول کبریا فریادہے ۔۔۔۔۔ یا محمد مصطفے فریاد ہے

مدد کر بہر خدا حضرت محمد مصطفے۔۔۔۔ میری تم سے ہر گھڑی فر یا دہے

حضرت مولانا نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا ہے

" ایسے الفاظ پڑھنے محبت میں اور خلوت میں بایں خیال کہ حق تعالیٰ آپ کی ذات کو مطلع فرما دیوے ،یا محض محبت سے بلاا کسی خیال کے جائز ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور بعقیدہ عالم الغیب اور فریاد رس ہو نے کے شرک ہیں ،اور مجامع میں منع ہیں کہ عوام کے عقیدہ کو فاسد کرتے ہیں لہذا مکروہ ہوویں گے ۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم ( فتاوی رشیدیہ )
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب، سرورِ کونین سیدنا ومولانا حضرت محمد ﷺ کو تمام جہانوں سے بڑھ کر علم عطا فرمایا، تمام کائنات مل کر بھی رسول اللہ ﷺ کے علم کا تصور نہیں کرسکتی، اسی طرح ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے اتنا وسیع علم عطا فرمایا کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کے علاوہ تمام مخلوقات مل کر اس مقام تک نہیں پہنچ سکتیں، اور پھر رسول اللہ ﷺ کو تمام انبیاءِ کرام علیہم السلام پر فضیلت بخشی، لیکن اللہ تبارک وتعالی کے "علم" (اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت) میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے، جو کسی کا عطا کیا ہوا نہیں ہے، جو اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ ہمیشہ سے اور ہمیشہ ہمیشہ تک ہر چیز کے بارے میں حاصل ہے، اس علم کے حصول میں کسی بھی قسم کا واسطہ نہیں ہے، جس کی خبر اللہ تعالیٰ کو کسی نے نہیں دی۔ شریعت کے عرف میں "علمِ غیب" سے یہی مراد ہوتا ہے اور اُس پر غیب کا اطلاق بندوں کی نسبت سے ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذاتی علم جو بلاواسطہ، کسی کے بتائے بغیر ہمیشہ سے ہمیشہ تک کے لیے حاصل ہے، اس میں کوئی بھی شریک نہیں ہوسکتا۔

البتہ اللہ تعالیٰ نے انبیاءِ کرام علیہم السلام کو اور ان کے واسطے امتوں کو جنت، جہنم اور قبرکے احوال نیز بہت سی وہ باتیں بتائی ہیں جو پردہ غیب میں ہیں۔ جنہیں "اَخبارِ غیب" ، "انباء الغیب" یا "اطلاع علی بعض المغیبات" کہا جاتاہے، اور اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ انبیاءِ کرام علیہم السلام کو جتنا چاہتے ہیں اَخبارِ غیب کا علم عطا فرماتے ہیں، لیکن غیب کی خبر کو غیب کا علم نہیں کہا جاتا؛ کیوں کہ یہ علم اللہ تعالیٰ کے بتانے سے حاصل ہوتاہے، اور بسا اوقات جبریل امین کا بھی درمیان میں واسطہ آجاتاہے، لہٰذا ان اخبارِ غیب کو علمِ غیب نہیں کہا جاسکتا۔

اسے (بلاتشبیہ) ایک مثال کے ذریعے سمجھیے، ایک وہ شخص ہے جو کوئی چیز ایجاد کرے یا کوئی سائنسی تجربہ کرکے جدید ٹیکنالوجی حاصل کرے، اور دوسرا شخص وہ ہے جو پہلے شخص سے ٹیکنالوجی حاصل کرکے وہی چیز بنائے، یا دنیا میں سب سے پہلے اس ٹیکنالوجی کی خبر دے اور اس کی تشہیر کرے۔ ظاہر ہے کہ دنیاوی نظم کے تحت ایجاد موجد کی ہی کہلائے گی، اور خبر دینے والے یا اس ایجاد کو نقل کرکے اشیاء بنانے والے کو موجد نہیں کہا جائے گا۔ اسی طرح بلاتشبیہ سمجھ لیجیے کہ ایک غیب کا براہِ راست بلاواسطہ علم ہے، اوردوسرا انہی مغیبات میں سے بعض اشیاء کے بارے میں خبر دینا ہے۔

"علمِ غیب" اور "اَخبارِ غیب" کا یہ فرق قرآنِ مجید نے بھی واضح کیا ہے، ذیل میں دونوں طرح کی آیات ذکر کی جاتی ہیں، مذکورہ تشریح کی روشنی میں دونوں آیات اپنی جگہ واضح ہیں۔

ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ (الأنعام : 50)
ترجمہ: ”آپ کہہ دیجیے کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ میں غیب جانتا ہوں، نہ ہی میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔“

سیدنا نوح علیہ السلام کا اپنی قوم سے خطاب اللہ تعالیٰ نے یوں نقل فرمایا ہے :
وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ (هود : 31)
ترجمہ:”میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ میں غیب جانتا ہوں، نہ ہی میں فرشتہ ہوں۔“

سورہ النمل میں ہے:

قل لا یعلم من فی السمٰوٰت والارض الغیب الا الله (النمل:65)

ترجمہ: آپ کہہ دیجیے کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا سوائے اللہ کے۔

سورہ اعراف میں ہے:

قل لا املک لنفسی نفعاً ولا ضراً الا ماشاء الله ولوکنت اعلم الغیب لاستکثرت من الخیر وما مسنی السوء ان انا الا نذیر وبشیر لقوم یؤمنون (الأعراف:188)

ترجمہ: آپ کہہ دیجیے کہ میں اپنے لیے نہ تو نفع کا مالک ہوں، اور نہ ہی نقصان کا، مگر جو اللہ چاہے، اور اگر میں غیب جانتا تو میں بہت زیادہ خیر حاصل کرتا، اور مجھے برائی چھوتی ہی نہیں، میں تو ڈرانے والا اور خوش خبری دینے والا ہوں ایمان والوں کو۔

یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ بہت سے مواقع پر رسول اللہ ﷺ کو تکلیف پہنچائی گئی۔ مثلاً: آپ ﷺ کے پاس کچھ لوگ آئے اور انہوں نے خود کو مسلمان ظاہر کیا، اور کہا کہ قوم میں تبلیغِ دین اور قرآن کریم سکھانے کی ضرورت ہے، آپ ﷺ قراء وعلماء صحابہ کرام کو ساتھ بھیج دیں، اس طرح کے دو واقعے پیش آئے جن میں آپ ﷺ کے صحابہ کرام کو راستے میں دھوکے سے شہید کردیا گیا۔ ظاہر بات ہے کہ رسول اللہ ﷺ دشمن کی سازش کو جانتے ہوئے اپنی امت کے ان منتخب لوگوں کو ہرگز ان کے حوالے نہ فرماتے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کو گوشت میں زہر دیا گیا اور آپ ﷺ نے ایک لقمہ منہ میں لیا بھی، جسے تھوک دیا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس گوشت نے خبردی کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے، اور مرضِ وفات میں آپ ﷺ نے اشارہ فرمایا کہ مجھے خیبر کے زہر کا اثر محسوس ہورہاہے۔ ظاہر ہے کہ پہلے سے علم ہوتا تو حضور ﷺ ہرگز زہر آلود گوشت تناول نہ فرماتے۔

جب کہ دوسری طرف بے شمار مواقع پر قبل از وقوعِ واقعہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو بذریعہ وحی اطلاع دے دی، اور آپ ﷺ نے قیامت تک پیش آنے والے بے شمار احوال کی امت کو خبر دے دی، بلکہ جنت و جہنم میں داخلے تک کے تمام مراحل کی بے شمار غیبی خبریں پہنچادیں، غزوۂ تبوک کے موقع پر فرمایا :
"أَمَا إِنَّهَا سَتَهُبُّ اللَّيْلَةَ رِيحٌ شَدِيدَةٌ فَلَا يَقُومَنَّ أَحَدٌ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ بَعِيرٌ فَلْيَعْقِلْهُ".(صحيح البخاري : 1481، صحيح مسلم : 1392)
ترجمہ: ”خبردار ! آج رات سخت آندھی چلے گی، لہٰذا کوئی بھی کھڑا نہ ہو اور جس کے پاس اونٹ ہو، اسے باندھ لے۔“

اور پھر اسی طرح ہوا۔ اسی طرح غزوہ بدر کے موقع پر آپ ﷺ نے کفار کے سرداروں کے قتل کی جگہیں متعین فرمادیں، چناں چہ وہ اپنے مقتل سے ایک سوت اِدھر اُدھر نہ ہوپائے۔ آپ ﷺ نے ایک موقع پر طویل خطبہ ارشاد فرمایا جس میں قیامت تک آنے والی ہر قابلِ ذکر جماعت اور گروپ کا ذکر فرمایا اور اس کے امیر(لیڈر) کا نام بھی بتایا، اور ایک موقع پر آپ ﷺ گھر سے باہر تشریف لائے تو دونوں ہاتھوں میں دو رجسٹر تھے، دائیں ہاتھ والے کی بابت فرمایا کہ اس میں اہلِ جنت کے نام ہیں، جب کہ بائیں ہاتھ والے کی بابت فرمایا کہ اس میں اہلِ جہنم کے نام ہیں، پھر ان دونوں رجسٹروں کو اشارہ سے چھوڑ دیا اور وہ غائب ہوگئے۔ اور آپ ﷺ نے دجال کے آنے سے پہلے قسطنطینیہ کی فتح کی بشارت دی، اور مغرب کی فتح کے بعد جب دجال کے ظہور کی باطل خبر دنیا میں پھیلے گی اس وقت مسلمانوں کی فاتح فوج جن افراد کو دجال کی خبر کی تحقیق کے لیے روانہ کرے گی، حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا میں ان کو ان کے ناموں سے جانتاہوں۔ اس طرح کی بے شمار خبریں اور آپ ﷺ کے معجزات ہیں۔ چناں چہ اللہ جل وعلا سورہ آلِ عمران آیت نمبر 44 اور سورہ یوسف آیت نمبر 102 میں فرماتے ہیں:

ذلک من انباء الغیب نوحیه الیک

ترجمہ: یہ غیب کی خبروں میں سے ہے جسے ہم آپ (ﷺ) کی طرف وحی کرتے ہیں۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

أما الغیب فما غاب عن العباد من أمر الجنة وأمر النار وما ذکر في القرآن ج۱ص۴۰

یعنی غیب وہ ہے کہ جو بندوں سے پوشیدہ ہوجیسے جنت وجہنم کے حالات ومعاملات اور جو کچھ کہ قرآن شریف میں بیان کیا گیا ہے (ابن کثیر)

علامہ قرطبی رحمہ فرماتے ہیں:
وَلا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزائِنُ اللَّهِ وَلا أَعْلَمُ الْغَيْبَ (أَخْبَرَ بِتَذَلُّلِهِ وَتَوَاضُعِهِ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَنَّهُ لَا يَدَّعِي مَا لَيْسَ لَهُ مِنْ خَزَائِنِ اللَّهِ، وهي إنعامه على من يشاء مِنْ عِبَادِهِ، وَأَنَّهُ لَا يَعْلَمُ الْغَيْبَ، لِأَنَّ الْغَيْبَ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ) .

وَلا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزائِنُ اللَّهِ وَلا أَعْلَمُ الْغَيْبَ ”ميں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ ہی میں غیب جانتا ہوں۔“ یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی عاجزی اور بے بسی کا تذکرہ کیا ہے، نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کے خزانے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا دعویٰ بھی نہیں کرتے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا انعام ہوتا ہے، جس بندے پر چاہے کرے۔ یہ بھی بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب نہیں جانتے، کیونکہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔“ (الجامع لأحکام القرآن : 27، 26/9)

خلاصہ یہ ہے کہ "علمِ غیب" باری تعالیٰ کا خاصہ ہے، جو اللہ کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہے، البتہ انبیاءِ کرام علیہم السلام خصوصاً رسول اللہ ﷺ کو بے شمار اَخبارِ غیب عطا دی گئی ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ایسے علوم عطا فرمائے ہیں کہ تمام مخلوق مل کر بھی کسی نبی کے علم کی ہم سری کرنا تو درکنار پاسنگ تک بھی نہیں پہنچ سکتی۔ فقط واللہ اعلم
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
علامہ احمد قسطلانی (۸۵۱۔ ۹۲۳ھ ) کہتے ہیں :
عالم الغيب فلا يطلع على غيبه أحدا من خلقه إلا من ارتضي من رسول لاطلاعه على بعض الغيب، يكون إخباره عن الغيب معجزة له .
’’اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ وہ اپنی مخلوق میں کسی کو اپنے غیب کی اطلاع نہیں دیتا، مگر جس رسول کو چاہے کسی غیب کی بات پر مطلع کر دیتا ہے اور یہ اطلاع نبی کے لیے معجزہ ہوتی ہے۔“
(ارشاد الساري لشرح صحيح بخاري : 363/10)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
’’محمود بن لبید بنو عبدالاشہل کے لوگوں سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں : زید بن اللصیت نے کہا کہ وہ عمارہ کی رہائش گاہ پر تھا اور عمارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ اس نے کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا دعویٰ ہے کہ وہ نبی ہیں اور تمہیں آسمان کی خبریں بتاتے ہیں، حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کی اونٹنی کہاں ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جبکہ عمارہ آپ کے پاس تھے کہ ایک شخص نے کہا ہے : یہ محمد تمہیں خبر دیتا ہے کہ وہ نبی ہے اور کہتا ہے کہ وہ تمہیں آسمان کی خبر دیتا ہے، حالانکہ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کی اونٹنی کہاں ہے ؟ اللہ کی قسم ! میرے پاس وہی علم ہے جو اللہ نے مجھے سکھایا ہے اور اس اونٹنی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھے آگاہی دے دی ہے کہ وہ فلاں وادی کی فلاں گھاٹی میں ہے۔ اس کی لگام درخت کے ساتھ اٹکی ہوئی ہے۔ جاؤ، اسے میرے پاس لے آؤ ! وہ اسے لے کر آ گئے۔“ (المغازي لابن اسحاق كما في السيرة لابن هشام:523/2، وسنده حسن، وابن اسحاق وثقه الجمھور)


شارحِ صحیح بخاری حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (۷۷۳۔ ۸۵۲ھ ) اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں :

فأعلم النبى صلى الله عليه وسلم أنه لا يعلم الغيب إلا ما علمه الله، وهو مطابق لقوله تعالى: ﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾ ……
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا ہے کہ وہ غیب نہیں جانتے، ہاں وہ بات جو اللہ تعالیٰ انہیں سکھا دے (اسے جان لیتے ہیں )۔ یہ حدیث اس فرمانِ باری تعالیٰ کی طرح ہے :

﴿فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ﴾

” (وہی ) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسندکرے۔“ (فتح الباري لابن حجر : 364/13)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
أمره الله تعالى أن يفوّض الأمور إليه، وأن يخبر عن نفسه أنه لا يعلم الغيب المستقبل، ولا اطلاع له على شىء من ذلك إلا بما أطلعه الله عليه، كما قال تعالى:

﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾

’’اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا ہے کہ آپ تمام امور اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیں اور اپنے بارے میں خبر دے دیں کہ وہ مستقبل کے غیب کو نہیں جانتے، نہ آپ کو اس میں سے کسی چیز کی اطلاع ہے، سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطلاع دے دی ہے۔

جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﴿عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا﴾ ” (وہی ) عالم : الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔“

(تفسير ابن كثير : 249/3)
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بحث ونظر میں "علم غیب اور ندائے یا رسول اللہ کے بارہ میں حضرت گنگوہیؒ کا ایک مفصل فتوےٰ" منتقل ہو جائے تو کوئی بھی بحث میں حصہ لے سکتا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بحث ونظر میں "علم غیب اور ندائے یا رسول اللہ کے بارہ میں حضرت گنگوہیؒ کا ایک مفصل فتوےٰ" منتقل ہو جائے تو کوئی بھی بحث میں حصہ لے سکتا ہے
حکم کی تعمیل ہوئی محترم
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
محترم @احمدچشتی صاحب آپکے کہنے پر ہم اس لڑی کو بحث و نظر والے زمرے میں منتقل کر چکے ہیں اسلیے جو بھی آپ کو مباحثہ کرنا ہے یا سوال جواب کرنے ہیں تو گفتگو میں کرنے کی بجائے یہیں پر کیجیے۔ شکریہ
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے :
” جو کہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کل کی بات جانتے تھے ،اس نے اللہ تعالیٰ پر بہتان عظیم باندھا،اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمین و آسمان والوں میں سے کوئی بھی غیب کی بات جاننے والا نہیں“
مسلم شریف ،کتاب الایمان،باب معنی قول اللہ عزوجل (ولقد رآہ نزلتہ اخریٰ )ح : 177 طول منہ
(بخاری جلد 2 صفحہ 720 )
(مسلم جلد 1 صفحہ 98 )
(ابو عوانہ جلد1 صفحہ 154 )
(بخاری جلد 2 صفحہ 1089 )
(ترمذی جلد 2 صفحہ 160 )
(مشکوۃ جلد 2 صفحہ 501 )
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے ہر چیز کی چابیاں عطا کی گئیں ہیں مگر ان پانچ چیزوں کی عطا نہیں کی گئیں ،اللہ ہی کے پاس ہیں علم قیامت کا اور بارش نازل کرنے کا اور مافی الرحام کا خبیر تک (جو سورہ لقمان کی آخری آیتیں ہیں)

(کنز العمال ج 6 ص 106 )
(مسند احمد ج2 ص 85 )
(درمنشور ج5 ص 170 )
(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 454 )
(امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں بسند صحیح خصائص الکبریٰ ج 2 ص 195 )
(علامہ عزیزی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں قال الشیخ الحدیث صحیح (السراج المنیر ج2 ص79 )
(علامہ آلوسی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں بسند صحیح (روح المعانی ج 21 ص 99 )
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (المتوفی32 ھ ) فرماتے ہیں:
” تمہارے نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب کے خزانے عطا کئے گئے ہیں مگر یہ پانچ امورعطا نہیں کئے گئے جو سورہ لقمان کی آخر میں ہیں“
(مسند احمد ج 4 ص 438 )

نیز فرماتے ہیں کہ:
”نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز کا علم عطا کیا گیا ہے سوائے ان پانچ چیزوں کے (کہ ان کا علم کسی کوبھی عطا نہیں ہوا)

(فتح الباری ج 1 ص 115 ۔اور ج 8 ص395 ۔جلد 13 ص 308 )
(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 454)وقال ہذا اسناد حسن و در منشور ج 5 ص 170 )
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت ربعی رحمتہ اللہ علیہ بن خراش (المتوفی 100ھ )سے روایت ہے :
مجھ سے بنی عامر کے ایک شخص نے بیان کیا کہ میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاظر ہوا اور عرض کیا کہ علم میں سے کوئی ایسی چیز بھی باقی ہے جس کو آپ نہ جانتے ہوں ،حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بہت سی خیر کی تعلیم دی ہے اور بے شک علوم میں سے وہ بھی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی نہیں جانتا چناچہ پانچ باتیں جو سورہ لقمان کی آخری آیت میں مذکور ہیں ،ان کا پورا علم بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کسی دوسرے کو نہیں “

(مسند احمد )
(وقال ابن کثیر ج 3 ص 455 ہذا اسناد صحیح)
(در منشور ج 5 ص 170 )
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
زمینوں اور آسمانوں کا کلی غیب جاننے کا بیان قرآن پاک میں کتنے مختصر الفاظ ،سادہ ،جامع اور وضاحت والا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔(لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَبْصِرْ بِهِ وَأَسْمِعْ الخ الکھف 26 پارہ 15
(ترجمہ:اسی کو معلوم ہیں سب غیب(چھپی باتیں) آسمانوں کی اور زمین کی ،کیا خوب ہے وہ دیکھنے والااور سننے ولا)

اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں علامہ جلال الدین محلی(المتوفی 864ھ)اور علامہ ابو السعود محمد بن محمد العمادی(المتوفی 982ھ)اورعلامہ نسفی اور علامہ خازن لکھتے ہیں:

”یعنی اللہ تعالیٰ پر آسمان و زمین کے باشندوں کے حالات سے کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے ،اور بس وہ تنہا ان کو جاننے ولا ہے“
(تفسیرجلالین ص 184)
(ابو السعود ج 6 ص 58)
(تفسیر مدارک ج 3 ص 9 )
(تفسیرخازن ج 6 ص 169)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
(وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَجْتَبِي مِن رُّسُلِهِ مَن يَشَاءُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّـهِ وَرُسُلِهِ الخ اٰٰل عمران 179 پارہ 4
(ترجمہ:اور نہیں ہے اللہ تعالیٰ کہ مطلع کرے تم کو غیب پر ،لیکن ہاں جس کو خود چاہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہیں ،اُن کو منتخب فرمالیتا ہے)

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
(عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ الخ جن 26،27 پارہ 29
(ترجمہ :۔ غیب کا جاننے والا وہ ہی ہے،سو مطلع نہیں فرماتا وہ اپنے غیب پر کسی کو ، سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے)

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
( ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ الخ یوسف 102 پارہ 13
(ترجمہ:یہ غیب کی خبریں ہیں جو وحی کر رہے ہیں ہم تمہاری طرف )

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
(تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَـٰذَا الخ ھود 49 پارہ 12
(ترجمہ:یہ خبریں ہیں غیب کی جو ہم وحی کر رہے ہیں تمہاری طرف (اے نبی)نہیں جانتے تھے یہ باتیں تم اور نہ تمہاری قوم اس سے پہلے)
اوپر بیان کی گئیں غیب کے اثبات میں آیات مبارکہ میں آپ نوٹ فرمائیں کہ کسی موقعہ پر بھی “علم غیب یعنی غیب جاننے“ کا بیان نہیں بلکہ “مطلع کیا گیا“یا”غیب کی خبریں وحی کی گئیں“ کا بیان ہے۔

یہ بہت ہی خاص بات ہے ،آپ لوگ اپنے ذہن میں رکھیں
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
غیب کی نفی میں واضح طور پر ”غیب جاننے کی نفی “ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
(قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ الخ النمل 65 پارہ 20
(ترجمہ :کہہ دے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے کوئی بھی سوائے اللہ کے غیب کو نہیں جانتا)

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
(قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ الخ الاعراف 188 پارہ 9
غیب کی نفی میں واضح طور پر ”غیب جاننے کی نفی “ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
(قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ الخ النمل 65 پارہ 20
(ترجمہ :کہہ دے کہ آسمان والوں میں سے زمین والوں میں سے کوئی بھی سوائے اللہ کے غیب کو نہیں جانتا)

اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
(قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّـهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ الخ الاعراف 188 پارہ 9
(ترجمہ: کہہ دو کہ میں نہیں اختیار رکھتا میں اپنی ذات کے لئے بھی نہ کسی نفع اور نہ کسی نقصان کا ،مگر یہ کہ چاہے اللہ ،اور میں جانتا غیب کا تو ضرور حاصل کر لیتا میں بہت فائدے اور نہ پہنچتا مجھے کوئی نقصان)

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ الخ الانعام 59
ترجمہ :اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں، (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ الخ الانعام 59
ترجمہ :اور اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہیں غیب کی کنجیاں، (خزانے) ان کو کوئی نہیں جانتا بجز اللہ کے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
لفظ “علم غیب“ قرآن پاک میں صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اور قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کے سوا غیر کے لئے “علم غیب“ کی واضح اور صریح نفی ہے
إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ الخ البقرۃ 33 ----- عَالِمُ الْغَيْبِ الخ الانعام 73 ----- عَالِمِ الْغَيْبِ الخ توبۃ 94 ----- عَالِمِ الْغَيْبِ الخ توبۃ 105 ----- عَالِمُ الْغَيْبِ الخ الرعد 9 ----- عَالِمِ الْغَيْبِ الخ المومنون 92 -----عَالِمُ الْغَيْبِ الخ السجدۃ 6 ----- عَالِمِ الْغَيْبِ الخ سبا 3 ----- عَالِمُ الْغَيْبِ الخ فاطر 38 ----- عَالِمَ الْغَيْبِ الخ الزمر 46 ---- يَعْلَمُ غَيْبَ الخ الحجرات 18 ----- عَالِمُ الْغَيْبِ الخ الحشر 22 ----- عَالِمِ الْغَيْبِ الخ الجمعۃ 8 ----- عَالِمُ الْغَيْبِ الخ التغابن 18 ----- عَالِمُ الْغَيْبِ الخ الجن 26
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اہم بات یہ ہے کہ "علم غیب"(یعنی غیب جاننا) کی اصطلاح ذاتی علم غیب کے لئے استعمال ہوتی ہے ۔
اس بات کا اقرار امام احمد رضا فرماتے ہیں:
"علم جب کہ مطلق بولا جائے خصوصا جبکہ غیب کی خبر کی طرف مضاف ہو تو اس سے مراد علم ذاتی ہوتا ہے" (ملفوضات حصہ سوم)
اور یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام رحمھم اللہ نے غیر اللہ کے لئے علم غیب کا عقیدہ رکھنے والے کی تکفیر فرمائی ہے ۔
چناچہ ملا علی قاری رحمتہ اللہ علیہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام کے لئے علم غیب پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”پھر تو جان لے کہ حضرات انبیاءکرام علیہم الصلوة والسلام غیب کی چیزوں کا علم نہیں رکھتے تھے مگر جتنا کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ ان کو علم دے دیتا ہے اور حنفیوں نے تصریح کی ہے کہ جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں تو وہ کافر ہے کیوں کہ اس شخص نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کا معارضہ کیا کہ تو کہدے کہ جو ہستیاں آسمانوں اور زمین میں ہیں وہ غیب نہیں جانتی بجز پروردگار کے ایسا ہی مسایرہ میں ہے“(مسائرہ مع المسامرہ ج 2 ص 88 طبع مصر)(شرح فقہ اکبر ص 185 طبع کانپور)
تو واضح ہوتا ہے کہ غیر اللہ کے لئے علم غیب یعنی غیب جاننے کا عقیدہ ر کھنا کفر ہے۔
جبکہ بزرگان دین اور دیگر علماءکرام کے اقوال کے مفہوم یہ نہیں ہیں کہ” نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں “
بلکہ بزرگان دین اور علماءکرام کے اقوال میں”اللہ تعالیٰ نے بعض غیب پرمطلع فرمایا“وغیرہ کے ارشادات ہیں ۔

اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بعض غیب پر مطلع یا عطاء ہونا اور غیب جاننے کے عقیدے میں واضح ترین فرق ہے

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی وفیق عطاء فرمائے آمین
 
Top