حضرت مولانا گنگوہیؒ ایک شخص کے سوال کے جواب میں ( جس نے انبیاء علیھم السلام کے علم غیب کے بارہ میں ندائے "یا رسول اللہ" کے بارہ میں سوال کیا تھا) فرماتے ہیں۔
علم غیب میں تمام علماء کا عقیدہ ومذہب یہ ہے کہ سوائے حق تعالیٰ کے کو ئی اس کو نہیں جانتا "وَعِندَهُۥ مَفَاتِحُ ٱلْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ إِلَّا هُوَ ۚ خود حق تعالیٰ فرماتا ہے جس کا تر جمہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ ہی کے پاس علم غیب ہے کوئی نہیں جانتا اس کو سوائے اس کے۔ پس اثبات علم غیب ہے کوئی نہیں جانتا اس کے سوائے اس کے ، پس اثبات علم غیب غیر حق تعالیٰ کو شرک صریح ہے ، مگر ہاں جو بات حق تعالیٰ اپنے کسی مقبول کو بذریعہ وحی یا کشف بتا دیوے وہ اس کو معلوم ہو جاتا ہے جیسا علم جنت ، دوزخ اور رضا وغیرہ کا حق تعالیٰ نے انبیاءعلیھم السلام کو بتلا دیا ہے اور پھر انہوں نے امت کو خبر دی، چنانچہ اس آیت سورہ جن "فلا یظھر علیٰ غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول الآییۃ ۔" سے معلوم ہو ا ، سو حاصل اس آیت کا یہ ہوا کہ جس غیب امر کی خبر حق تعالیٰ اپنے مقبول کو دے دیوے تو اس کی خبر اس کو ہو جاتی ہے ،نہ یہ کہ تمام مغیبات حق تعالیٰ کے نبی کشف ہو جاتے ہیں ۔کیونکہ اگر یہ معنیٰ اس ہو ویں کہ تمام علم غیب رسول کو معلوم ہو جاتا ہے تو دوسری آیت صاف اس کے خلاف کہہ رہی ہے ۔قُل لَّآ أَمْلِكُ لِنَفْسِى نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ ٱلْغَيْبَ لَٱسْتَكْثَرْتُ مِنَ ٱلْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِىَ ٱلسُّوٓءُ
ترجمہ: کہدےکہ میں نہیں مالک اپنے نفس کے واسطے کسی نفع اور کسی ضرر کا مگر جو خدائے تعالیٰ چا ہے اورجو میں غیب کو جانتا تو بہت سی بھلائی جمع کر لیتا اور کوئی برائی مجھ کو نہ لگتی )۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس روشن ہو گیا کہ مغیبات آپ ﷺ کو معلوم نہیں اپنا نفع اور ضرر بھی آپ کے اختیار میں نہیں ، تو یہ عقیدہ البتہ خلاف نص قرآن ک شرک ہوا خود دوسری آیت میں موجود ہے۔۔۔۔۔۔وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلا بِكُمْ ترجمہ" میں نہیں جا نتا کہ کیا کیا جاوے گا
میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ ) پس ص جب صاف ظاہر ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ کو ہر گز علم غیب نہیں مگر جس قدر اطلاع دی جائے اور اس پر بہت آیات واحادیث شاہد ہیں تو خلاف اس کے عقیدہ کرنا کہ انبیاء علیھم السلام سب غیب کو جانتے ہیں شرک قبیح جلی ہو وے گا ۔معاذ اللہ حق تعالیٰ سب مسلمانوں کو ایسے عقیدۂ فاسدہ سے نجات دیوے ۔آمین پس ایسے عقیدے والا مشرک ہو اور جب انبیاء علیھم السلام کو علم غیب نہیں دیا تو یا رسول اللہ کہنا بھی جائز نہ ہو گا اگر یہ عقیدہ کر کے کہے کہ وہ دور سےسنتے ہیں بسبب علم غیب کے تو کفر ہے اور جو ہ عقیدہ نہیں تو کفر نہیں مگر کلمۂ مشابہ بکفر ہے البتہ اگر اس کلمہ کو درود شریف کے ضمن میں کہے اور یہ عقیدہ کرے کہ ملائکہ اس درود شریف کو آپ کو پیش کرتے ہیں تو درست ہے کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ ملائکہ درود بندہ مومن کا آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں اور ایک صنف ملائکہ اسی خدمت پر ہیں ۔
فقط
(فتاوی رشیدیہ جلد سوم صفحہ ۶،۷، ۸)
زلزلہ کے مصنف نے اس پورے فتوے سے صرف اتنا جملہ نقل کیا ہے ۔۔۔
"۔۔۔۔۔۔اور جب انبیاء علیھم السلام کو علم غیب نہیں تو یا رسول اللہ کہنا بھی جائز نہ ہو گا۔(زلزلہ)
اب پورا فتوی ناظرین کےسامنے ہے اس میں چارباتیں پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ موجود ہیں ۔( بریلوی فتنہ کا نیا روپ )۔جاری ۔
علم غیب میں تمام علماء کا عقیدہ ومذہب یہ ہے کہ سوائے حق تعالیٰ کے کو ئی اس کو نہیں جانتا "وَعِندَهُۥ مَفَاتِحُ ٱلْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَآ إِلَّا هُوَ ۚ خود حق تعالیٰ فرماتا ہے جس کا تر جمہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ ہی کے پاس علم غیب ہے کوئی نہیں جانتا اس کو سوائے اس کے۔ پس اثبات علم غیب ہے کوئی نہیں جانتا اس کے سوائے اس کے ، پس اثبات علم غیب غیر حق تعالیٰ کو شرک صریح ہے ، مگر ہاں جو بات حق تعالیٰ اپنے کسی مقبول کو بذریعہ وحی یا کشف بتا دیوے وہ اس کو معلوم ہو جاتا ہے جیسا علم جنت ، دوزخ اور رضا وغیرہ کا حق تعالیٰ نے انبیاءعلیھم السلام کو بتلا دیا ہے اور پھر انہوں نے امت کو خبر دی، چنانچہ اس آیت سورہ جن "فلا یظھر علیٰ غیبہ احدا الا من ارتضی من رسول الآییۃ ۔" سے معلوم ہو ا ، سو حاصل اس آیت کا یہ ہوا کہ جس غیب امر کی خبر حق تعالیٰ اپنے مقبول کو دے دیوے تو اس کی خبر اس کو ہو جاتی ہے ،نہ یہ کہ تمام مغیبات حق تعالیٰ کے نبی کشف ہو جاتے ہیں ۔کیونکہ اگر یہ معنیٰ اس ہو ویں کہ تمام علم غیب رسول کو معلوم ہو جاتا ہے تو دوسری آیت صاف اس کے خلاف کہہ رہی ہے ۔قُل لَّآ أَمْلِكُ لِنَفْسِى نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَآءَ ٱللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ ٱلْغَيْبَ لَٱسْتَكْثَرْتُ مِنَ ٱلْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِىَ ٱلسُّوٓءُ
ترجمہ: کہدےکہ میں نہیں مالک اپنے نفس کے واسطے کسی نفع اور کسی ضرر کا مگر جو خدائے تعالیٰ چا ہے اورجو میں غیب کو جانتا تو بہت سی بھلائی جمع کر لیتا اور کوئی برائی مجھ کو نہ لگتی )۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس روشن ہو گیا کہ مغیبات آپ ﷺ کو معلوم نہیں اپنا نفع اور ضرر بھی آپ کے اختیار میں نہیں ، تو یہ عقیدہ البتہ خلاف نص قرآن ک شرک ہوا خود دوسری آیت میں موجود ہے۔۔۔۔۔۔وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلا بِكُمْ ترجمہ" میں نہیں جا نتا کہ کیا کیا جاوے گا
میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ ) پس ص جب صاف ظاہر ہو گیا کہ رسول اللہ ﷺ کو ہر گز علم غیب نہیں مگر جس قدر اطلاع دی جائے اور اس پر بہت آیات واحادیث شاہد ہیں تو خلاف اس کے عقیدہ کرنا کہ انبیاء علیھم السلام سب غیب کو جانتے ہیں شرک قبیح جلی ہو وے گا ۔معاذ اللہ حق تعالیٰ سب مسلمانوں کو ایسے عقیدۂ فاسدہ سے نجات دیوے ۔آمین پس ایسے عقیدے والا مشرک ہو اور جب انبیاء علیھم السلام کو علم غیب نہیں دیا تو یا رسول اللہ کہنا بھی جائز نہ ہو گا اگر یہ عقیدہ کر کے کہے کہ وہ دور سےسنتے ہیں بسبب علم غیب کے تو کفر ہے اور جو ہ عقیدہ نہیں تو کفر نہیں مگر کلمۂ مشابہ بکفر ہے البتہ اگر اس کلمہ کو درود شریف کے ضمن میں کہے اور یہ عقیدہ کرے کہ ملائکہ اس درود شریف کو آپ کو پیش کرتے ہیں تو درست ہے کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ ملائکہ درود بندہ مومن کا آپ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں اور ایک صنف ملائکہ اسی خدمت پر ہیں ۔
فقط
(فتاوی رشیدیہ جلد سوم صفحہ ۶،۷، ۸)
زلزلہ کے مصنف نے اس پورے فتوے سے صرف اتنا جملہ نقل کیا ہے ۔۔۔
"۔۔۔۔۔۔اور جب انبیاء علیھم السلام کو علم غیب نہیں تو یا رسول اللہ کہنا بھی جائز نہ ہو گا۔(زلزلہ)
اب پورا فتوی ناظرین کےسامنے ہے اس میں چارباتیں پوری صراحت اور وضاحت کے ساتھ موجود ہیں ۔( بریلوی فتنہ کا نیا روپ )۔جاری ۔