سورة الحجر مفتی تقی عثمانی تفسیر آسان قرآن

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
تعارف
اس سورت کی آیت نمبر ۹۴ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکہ مکرمہ میں آنحضرتﷺ کی بعثت کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی تھی، کیونکہ اس آیت میں پہلی بار آپ کو کھل کر اسلام کی عام تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے۔ سورت کے شروع میں یہ حقیقت بیان فرمائی گئی ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی ہوئی کتاب ہے، اور جو لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں، ایک وقت آئے گا جب وہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ اسلام لے آتے۔ یہ لوگ آنحضرتﷺ کو کبھی (معاذ اللہ) مجنون کہتے، اور کبھی کاہن قرار دیتے تھے۔ ان باتوں کی تردید کرتے ہوئے کہانت کی حقیقت آیت نمبر ۱۷ اور ۱۸ میں بیان فرمائی گئی ہے۔ ان لوگوں کے کفر کی اصل وجہ ان کا تکبر تھا، اس لیے ابلیس کا واقعہ آیات نمبر ۲۶ تا ۴۴ میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کے تکبر نے کس طرح اس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم کیا۔ کفار کی عبرت کے لیے حضرت ابراہیم، حضرت لوط، حضرت شعیب اور حضرت صالحؑ کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان فرمائے گئے ہیں۔ آنحضرتﷺ اور مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کافروں کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کی محنت بیکار جا رہی ہے۔ ان کا فریضہ اتنا ہے کہ وہ موثر انداز میں تبلیغ کریں، جو وہ بہترین طریقے پر انجام دے رہے ہیں۔ نتائج کی ذمہ داری ان پر نہیں ہے۔ سورت کا نام قوم ثمود کی بستیوں کے نام پر رکھا گیا ہے جو حجر کہلاتی تھیں، اور ان کا ذکر اس سورت کی آیت نمبر ۸۰ میں آیا ہے۔

آیت ۱ ۔ ۳

ترجمہ

الر۔ یہ (اللہ کی) کتاب اور روشن قرآن کی آیتیں ہیں۔
ایک وقت آئے گا جب یہ کافر لوگ بڑی تمنائیں کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے۔
(اے پیغمبر) انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دو کہ یہ خوب کھا لیں، مزے اڑا لیں، اور خیالی امیدیں انہیں غفلت میں ڈالے رکھیں، (۱) کیونکہ عنقریب انہیں پتہ چلا جائے گا (کہ حقیقت کیا تھی)۔

تفسیر

۱۔ اس آیت میں قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے کہ صرف کھانے پینے اور دنیا میں مزے اڑانے کو اپنی زندگی کا اصل مقصد بنا لینا اور اسی کے لیے اس طرح لمبی لمبی خیالی امیدیں باندھتے رہنا جیسے زندگی بس یہی۔ یہ کافروں کا کام ہے مسلمان دنیا میں رہتا ضرور ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں سے فائدہ بھی اٹھاتا ہے مگر اس دنیا کو اپنی زندگی کا مقصد نہیں بناتا۔ بلکہ اسے آخرت کی بھلائی کے لیے استعمال کرتا ہے جس کا بہترین راستہ شریعت کے احکام کی پابندی ہے۔

آیت ۴ ۔ ۸

ترجمہ

اور ہم نے جس کسی بستی کو ہلاک کیا تھا، اس کے لیے ایک معین وقت لکھا ہوا تھا۔
کوئی قوم اپنے معین وقت سے نہ پہلے ہلاک ہوتی ہے اور نہ اس سے آگے جا سکتی ہے۔
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اے وہ شخص جس پر یہ ذکر (یعنی قرآن) اتارا گیا ہے! تم یقینی طور پر مجنون ہو۔
اگر تم واقعی سچے ہو تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لے آتے؟
ہم فرشتوں کو اتارتے ہیں تو برحق فیصلہ دے کر اتارتے ہیں، اور ایسا ہوتا تو ان کو مہلت بھی نہ ملتی۔ (۲)

تفسیر

۲۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے اتارنے کی فرمائش کا جواب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جس قوم کے لیے کوئی پیغمبر بھیجا گیا ہو، اس کے پاس ہم فرشتے اس وقت اتارتے ہیں جب اس قوم کی نافرمانی حد سے گذر جاتی ہے، اور اس فیصلے کا وقت آ جاتا ہے کہ اب ان پر عذاب نازل ہو گا۔ اور جب یہ فیصلہ کر کے فرشتے بھیج دئیے جاتے ہیں تو پھر اس قوم کو ایمان لانے کی مہلت نہیں ملتی۔ کیونکہ یہ دنیا ایک امتحان کی جگہ ہے۔ یہاں انسان سے جو ایمان مطلوب ہے وہ ایمان بالغیب ہے جس میں انسان اپنی عقل اور سمجھ کو کام میں لا کر اللہ تعالیٰ اور اس کی توحید کے آگے سر تسلیم خم کرے۔ اگر غیب کی ساری چیزیں دنیا میں دکھا دی جائیں تو امتحان ہی کیا ہوا؟

آیت ۹

ترجمہ

حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر (یعنی قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (۳)

تفسیر

۳۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمایا ہے کہ اگرچہ قرآن کریم سے پہلے بھی آسمانی کتابیں بھیجی گئی تھیں، لیکن چونکہ وہ خاص خاص قوموں اور خاص خاص زمانوں کے لیے آئی تھیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو قیامت تک محفوظ رکھنے کی کوئی ضمانت نہیں دی تھی، بلکہ ان کی حفاظت کا کام انہی لوگوں کو سونپ دیا گیا تھا جو ان کے مخاطب تھے، جیسا کہ سورة مائدہ آیت ۴۴ میں فرمایا گیا ہے لیکن قرآن کریم چونکہ آخری آسمانی کتاب ہے جو قیامت تک کے لیے نافذ العمل رہے گی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا خود ذمہ لیا ہے، چنانچہ اس میں قیامت تک کوئی رد و بدل نہیں ہو سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت اس طرح فرمائی ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کے سینوں میں اسے اس طرح محفوظ کر دیا ہے کہ اگر بالفرض کوئی دشمن قرآن کریم کے سارے نسخے (معاذ اللہ) ختم کر دے تب بھی چھوٹے چھوٹے بچے اسے دوبارہ کسی معمولی تبدیلی کے بغیر لکھوا سکتے ہیں جو بذات خود قرآن کریم کا زندہ معجزہ ہے۔

آیت ۱۰ ۔ ۱۲

ترجمہ

اور (اے پیغمبر) ہم تم سے پہلے بھی پچھلی قوموں کے مختلف گروہوں میں اپنے پیغمبر بھیج چکے ہیں۔
اور ان کے پاس کوئی رسول ایسا نہیں آتا تھا جس کا وہ مذاق نہ اڑاتے ہوں۔
مجرم لوگوں کے دلوں میں یہ بات (۴) ہم اسی طرح داخل کرتے ہیں۔

تفسیر

۴۔ ”یہ بات‘‘ سے قرآن کریم بھی مراد ہو سکتا ہے، یعنی قرآن کریم ان کے دلوں میں داخل تو ہوتا ہے، لیکن ان کے مجرمانہ طرز عمل کی وجہ سے وہ انہیں ایمان کی دولت نہیں بخشتا۔ اور ’’یہ بات‘‘ سے ان کے مذاق اڑانے کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے۔ یعنی ان کے مجرمانہ طرز عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے، اور کفر و بغاوت اور اسہزاء ان کے دلوں میں داخل کر دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ایمان نہیں لاتے۔

آیت ۱۳ ۔ ۱۵

ترجمہ

کہ وہ اس پر ایمان نہیں لاتے۔ اور پچھلے لوگوں کا بھی یہی طریقہ چلا آیا ہے۔
اور اگر (بالفرض) ہم ان کے لیے آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور وہ دن کی روشنی میں اس پر چڑھتے بھی چلے جائیں۔
تب بھی یہی کہیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی ہے، بلکہ ہم لوگ جادو کے اثر میں آئے ہوئے ہیں۔ (۵)

تفسیر

۵۔ مطلب یہ ہے کہ ان کے سارے مطالبات محض ضد پر مبنی ہیں۔ فرشتے اتارنا تو درکنار، اگر خود ان کو آسمان پر لے جایا جائے تب بھی یہ آنحضرتﷺ کو جھٹلانے کا کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑ لیں گے۔ اور یہ کہیں گے کہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۱۶

ترجمہ

اور ہم نے آسمان میں بہت سے برج بنائے ہیں۔ (۶) اور اس کو دیکھنے والوں کے لیے سجاوٹ عطا کی ہے۔ (۷)

تفسیر

۶۔ برج اصل میں قلعے کو کہتے ہیں، لیکن اکثر مفسرین نے کہا ہے یہاں بروج سے مراد ستارے ہیں
۷۔ یعنی آسمان ستاروں سے سجا ہوا نظر آتا ہے یہاں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ قرآن کریم نے آسمان کا لفظ مختلف مقامات پر مختلف معنی میں استعمال فرمایا ہے کہیں اس سے مراد ان سات آسمانوں میں سے کوئی آسمان ہوتا ہے جن کے بارے میں قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اوپر تلے پیدا فرمایا ہے اور کہیں اس سے اوپر کی سمت مراد ہوتی ہے چنانچہ آگے آیت نمبر ۲۱ میں جہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ آسمان سے پانی ہم نے اتارا ہے وہاں آسمان سے ہی معنی مراد ہیں۔ بظاہر اس آیت میں بھی یہی معنی مراد ہیں۔

آیت ۱۷، ۱۸

ترجمہ

اور اسے ہر مردود شیطان سے محفوظ رکھا ہے۔
البتہ جو کوئی چوری سے کچھ سننے کی کوشش کرے تو ایک روشن شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔ (۸)

تفسیر

۸۔ یہ حقیقت قرآن کریم نے کئی جگہ بیان فرمائی ہے کہ شیطان آسمان کے اوپر جا کر عالم بالا کی خبریں حاصل کرنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ خبریں کاہنوں اور نجومیوں تک پہنچائیں، اور وہ ان کے ذریعے لوگوں کو یہ باور کرائیں کہ انہیں غیب کی باتیں معلوم ہو جاتی ہیں، لیکن آسمان میں کا داخلہ شروع ہی سے بند ہے، البتہ آنحضرتﷺ کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے یہ شیاطین آسمان کے قریب جا کر فرشتوں کی باتیں چوری چھپے سننے کی کوشش کرتے تھے اور وہاں سے کوئی بات کان میں پڑ جاتی توا سکے ساتھ سینکڑوں جھوٹ ملا کر کاہنوں کو بت ا دیتے تھے، اس طرح کبھی کوئی بات صحیح بھی نکل آتی تھی، لیکن آنحضرتﷺ کی تشریف آوری کے بعد ان کو آسمان کے قریب جانے سے بھی روک دیا گیا، اب اگر وہ ایسی کوشش کرتے ہیں تو ان کو ایک شعلے کے ذریعے مار کر بھگا دیا جاتا ہے، اس حقیقت کی پوری تفصیل انشاء اللہ سورة جن میں آئے گی۔

آیت ۱۹

ترجمہ

اور زمین کو ہم نے پھیلا دیا ہے، اور اس کو جمانے کے لیے اس میں پہاڑ رکھ دیے ہیں، (۹) اور اس میں ہر قسم کی چیزیں توازن کے ساتھ اگائی ہیں۔

تفسیر

۹۔ قرآن کریم نے کئی جگہ بیان فرمایا ہے کہ شروع میں جب زمین کو سمندر پر بچھایا گیا تو وہ ڈولتی تھی، اس لئے اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پیدا فرمائے، تاکہ وہ زمین کو جما کر رکھیں، دیکھئے سورة نحل آیت نمبر: ۱۵

آیت ۲۰

ترجمہ

اور اس میں تمہارے لیے بھی روزی کے سامان پیدا کیے ہیں اور ان (مخلوقات) کے لیے بھی جنہیں تم رزق نہیں دیتے۔ (۱۰)

تفسیر

۱۰۔ اگرچہ ہر چیز کو رزق تو حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے، لیکن بعض پالتو جانور ایسے ہیں جنہیں انسان ظاہری طور پر چارہ فراہم کرتا ہے، ان کے علاوہ اکثر مخلوقات ایسی ہیں جنہیں رزق مہیا کرنے میں ظاہری طور پر بھی انسان کا کوئی دخل نہیں ہے، اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ ہم نے انسانوں کے لئے بھی رزق کے سامان پیدا کئے ہیں اور ان مخلوقات کے لئے بھی جنہیں انسان ظاہری طور پر کوئی غذا فراہم نہیں کرتا۔
عربی گرامر کی رو سے اس آیت کا ترجمہ ایک اور طرح بھی ممکن ہے اور وہ مخلوقات بھی پیدا کی ہیں جن کو تم رزق نہیں دیتے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے فائدے کے لئے وہ مخلوقات بھی پیدا کی ہیں جن کو وہ ظاہری طور پر بھی رزق نہیں دیتا مگر ان سے فائدہ اٹھاتا ہے جیسے شکار کے جانور۔

آیت ۲۱ ۔ ۲۴

ترجمہ

اور کوئی (ضرورت کی) چیز ایسی نہیں ہے جس کے ہمارے پاس خزانے موجود نہ ہوں، مگر ہم اس کو ایک معین مقدار میں اتارتے ہیں۔
اور وہ ہوائیں جو بادلوں کو پانی سے بھر دیتی ہیں، ہم نے بھیجی ہیں، پھر آسمان سے پانی ہم نے اتارا ہے، پھر اس سے تمہیں سیراب ہم نے کیا ہے، اور تمہارے بس میں یہ نہیں ہے کہ تم اس کو ذخیرہ کر کے رکھ سکو۔
ہم ہی زندگی دیتے ہیں، اور ہم ہی موت دیتے ہیں، اور ہم ہی سب کے وارث ہیں۔
تم میں سے جو آگے نکل گئے ہیں، ان کو بھی ہم جانتے ہیں اور جو پیچھے رہ گئے ہیں ان سے بھی ہم واقف ہیں۔ (۱۱)

تفسیر

۱۱۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو قومیں تم سے پہلے گذر چکی ہیں ان کے حالات سے بھی ہم واقف ہیں، اور جو قومیں آگے آنے والی ہیں، ان کے حالات سے بھی اور یہ مطلب بھی ممکن ہے کہ تم میں سے جو لوگ نیک کاموں میں دوروں سے آگے بڑھ گئے ہیں ان کو بھی ہم جانتے ہیں اور جو پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان کو بھی۔

آیت ۲۵، ۲۶

ترجمہ

اور یقین رکھو کہ تمہارا پروردگار ہی ہے جو ان سب کو حشر میں اکٹھا کرے گا، بیشک اس کی حکمت بھی بڑی ہے، اس کا علم بھی بڑا۔
ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا۔ (۱۲)

تفسیر

۱۲۔ اس سے مراد حضرت آدمؑ کی تخلیق ہے جس کا مفصل واقعہ سورة بقرہ (۳۰، ۳۴) میں گذر چکا ہے اور وہاں فرشتوں کو سجدے کا حکم دینے سے متعلق ضروری نکات بھی بیان ہو چکے ہیں

آیت ۲۷

ترجمہ

اور جنات کو اس سے پہلے ہم نے لو کی آگ سے پیدا کیا تھا۔ (۱۳)

تفسیر

۱۳۔ جس طرح انسان کے جد امجد حضرت آدمؑ ہیں اسی طرح جنات میں سب سے پہلے جس جن کو پیدا کیا گیا اس کا نام جان تھا اور اسے آگ سے پیدا کیا گیا
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۲۸ ۔ ۳۸

ترجمہ

اور وہ وقت یاد کرو جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے ایک بشر کو پیدا کرنے والا ہوں۔
لہذا جب میں اس کو پوری طرح بنا لوں، اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔
چنانچہ سارے کے سارے فرشتوں نے سجدہ کیا۔
سوائے ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔
اللہ نے کہا: ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہیں ہوا؟
اس نے کہا: میں ایسا (گرا ہوا) نہیں ہوں کہ ایک ایسے بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑے ہوئے گارے کی کھنکھناتی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہے۔
اللہ نے کہا: اچھا تو یہاں سے نکل جا، کیونکہ تو مردود ہو گیا ہے۔
اور تجھ پر قیامت کے دن تک پھٹکار پڑی رہے گی۔
کہنے لگا: یا رب! پھر مجھے اس دن تک (زندہ رہنے کی) مہلت دیدے جب لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔
اللہ نے فرمایا کہ جا پھر تجھے مہلت (تو) دے دی گئی۔
(مگر) ایک ایسی میعاد کے دن تک جو ہمیں معلوم ہے۔ (۱۴)

تفسیر

۱۴۔ شیطان نے مہلت تو روز حشر تک کے لئے مانگی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس وقت کے بجائے ایک اور معین وقت تک کے لئے اسے مہلت دی، اکثر مفسرین کے مطابق وہ پہلے صور کے پھونکنے تک ہے جس کے بعد ساری مخلوقات کو موت آئے گی، اس وقت شیطان کو بھی موت آ جائے گی۔

آیت ۳۹

ترجمہ

کہنے لگا: یا رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، اس لیے اب میں قسم کھاتا ہوں کہ ان انسانوں کے لیے دنیا میں دلکشی پیدا کروں گا۔ (۱۵) اور ان سب کو گمراہ کر کے رہوں گا۔

تفسیر

۱۵۔ یعنی ایسی دلکشی پیدا کروں گا جو انہیں تیری نافرمانی پر آمادہ کرے گی۔

آیت ۴۰، ۴۱

ترجمہ

سوائے تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے ان میں سے اپنے لیے مخلص بنا لیا ہو۔
اللہ نے فرمایا: یہ ہے وہ سیدھا راستہ جو مجھ تک پہنچتا ہے۔ (۱۶)

تفسیر

۱۶۔ اللہ تعالیٰ نے اسی وقت واضح فرما دیا کہ جو لوگ اخلاص اور بندگی کا راستہ اختیار کریں گے وہ سیدھا مجھ تک پہنچے گا اور ایسے لوگوں پر شیطان کے بہکاوے کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔

آیت ۴۲

ترجمہ

یقین رکھو کہ جو میرے بندے ہیں، ان پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا، (۱۷) سوائے ان گمراہ لوگوں کے جو تیرے پیچھے چلیں گے۔

تفسیر

۱۷۔ میرے بندوں سے مراد وہ بندے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلنے کا پختہ عزم رکھتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہوں، ایسے لوگوں پر شیطان کا زور نہ چلنے کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ شیطان انہیں بھی گمراہ کرنے کی کوشش تو کرے گا لیکن وہ اپنے اخلاص اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے دھوکے میں نہیں آئیں گے۔

آیت ۴۳ ۔ ۴۷

ترجمہ

اور جہنم ایسے تمام لوگوں کا طے شدہ ٹھکانا ہے۔
اس کے سات دروازے ہیں۔ ہر دروازے (میں داخلے) کے لیے ان (دوزخیوں کا) ایک ایک گروہ بانٹ دیا گیا ہے۔
(دوسری طرف) متقی لوگ باغات اور چشموں کے درمیان رہیں گے۔
(ان سے کہا جائے گا کہ) ان (باغات) میں سلامتی کے ساتھ بے خوف ہو کر داخل ہو جاؤ۔
ان کے سینوں میں جو کچھ رنجش ہو گی، اسے ہم نکال پھینکیں گے، (۱۸) وہ بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے اونچی نشستوں پر بیٹھے ہوں گے۔

تفسیر

۱۸۔ یعنی دنیا میں ان حضرات کے درمیان اگر کوئی رنجش رہی ہو تو جنت میں پہنچنے کے بعد اللہ تعالیٰ وہ ان کے دلوں سے نکال دیں گے

آیت ۴۸ ۔ ۵۱

ترجمہ

وہاں نہ کوئی تھکن ان کے پاس آئے گی، اور نہ ان کو وہاں سے نکالا جائے گا۔
میرے بندوں کو بتا دو کہ میں ہی بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہوں۔
اور یہ بھی بتا دو کہ میرا عذاب ہی دردناک عذاب ہے۔
اور انہیں ابراہیم کے مہمانوں کا حال سنا دو۔ (۱۹)

تفسیر

۱۸۔ مہمانوں سے مراد وہ فرشتے ہیں جو حضرت ابراہیمؑ کے پاس بھییجے گئے تھے۔ اوپر یہ بیان کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت بھی وسیع ہے، اور عذاب بھی بڑا سخت ہے، لہذا ایک انسان کو نہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہونا چاہئے، اور ان اس کے عذاب سے بے فکر ہو کر بیٹھنا چاہئے۔ اس مناسبت سے ان مہمانوں کا یہ واقعہ ذکر فرمایا گیا ہے، کیونکہ اس واقعے میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا بھی بیان ہے کہ یہ فرشتے حضرت ابراہیمؑ کے پاس بڑھاپے میں حضرت اسحاقؑ جیسے بیٹے کی پیدائش کی خبر لے کر آئے، اور اللہ تعالیٰ کے سخت عذاب کا بھی ذکر ہے کہ انہی فرشتوں کے ذریعے حضرت لوطؑ کی قوم پر عذاب نازل کیا گیا۔ یہ واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ سور ہود آیت ۶۹ تا ۸۳ میں گذر چکا ہے۔ اس کے مختلف حصوں کی وضاحت ہم نے وہاں کی ہے۔

آیت ۵۲

ترجمہ

اس وقت کا حال جب وہ ان کے پاس پہنچے، اور سلام کیا۔ ابراہیم نے کہا کہ ہمیں تو تم سے ڈر لگ رہا ہے (۲۰)

تفسیر

۲۰۔ سورة ہود میں گزر چکا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ ان کو انسان سمجھ کر ان کی مہمانی کے لئے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت لے کر آئے تھے، لیکن انہوں نے کھانے سے پرہیز کیا جو اس علاقے کے رواج کے مطابق اس بات کی علامت تھی کہ یہ کوئی دشمن ہیں اور کسی برے ارادے سے آئے ہیں اس لئے انہیں خوف محسوس ہوا۔

آیت ۵۳ ۔ ۶۲

ترجمہ

انہوں نے کہا: ڈریے نہیں، ہم تو آپ کو ایک صاحب علم لڑکے (کی ولادت) کی خوشخبری دے رہے ہیں۔
ابراہیم نے کہا: کیا تم مجھے اس حالت میں خوشخبری دے رہے ہو جبکہ مجھے پر بڑھاپا چھا چکا ہے؟ پھر کس بنیاد پر مجھے خوشخبری دے رہے ہو؟
وہ بولے: ہم نے آپ کو سچی خوشخبری دی ہے، لہذا آپ ان لوگوں میں شامل نہ ہوں جو نا امید ہو جاتے ہیں۔
ابراہیم نے کہا: اپنے پروردگار کی رحمت سے گمراہوں کے سوا کون نا امید ہو سکتا ہے؟
(پھر) انہوں نے پوچھا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتو! اب آپ کے سامنے کیا مہم ہے؟
انہوں نے کہا: ہمیں ایک مجرم قوم کی طرف (عذاب نازل کرنے کے لیے) بھیجا گیا ہے۔
البتہ لوط کے گھر والے اس سے مستثنی ہیں، ان سب کو ہم بچا لیں گے۔
سوائے ان کی بیوی کے۔ ہم نے یہ طے کر رکھا ہے کہ وہ ان لوگوں میں شامل رہے گی جو (عذاب کا نشانہ بننے کے لیے) پیچھے رہ جائیں گے۔
چنانچہ جب یہ فرشتے لوط کے گھر والوں کے پاس پہنچے۔
تو لوط نے کہا: آپ لوگ اجنبی معلوم ہوتے ہیں۔ (۲۱)

تفسیر

۲۱۔ حضرت لوطؑ اپنی قوم کی بد فطرتی سے واقف تھے کہ یہ لوگ اجنبیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے گھبراہٹ کا اظہار کیا۔ حضرت لوطؑ کی اس بد نہاد قوم کے مختصر تعارف کے لیے دیکھئے۔ سورة اعراف آیت ۸۰ پر ہمارا حاشیہ۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۶۳ ۔ ۶۵

ترجمہ

انہوں نے کہا: نہیں، بلکہ ہم آپ کے پاس وہ (عذاب) لے کر آئے ہیں جس میں یہ لوگ شک کیا کرتے تھے۔
ہم آپ کے پاس اٹل فیصلہ لے کر آئے ہیں، اور یقین رکھیے کہ ہم سچے ہیں۔
لہذا آپ رات کے کسی حصے میں اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جایے، اور آپ خود ان کے پیچھے پیچھے چلیے (۲۲) اور آپ میں سے کوئی پیچھے مڑ کر نہ دیکھے، اور وہیں جانے کے لیے چلتے رہیں جہاں کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔

تفسیر

۲۲۔ حضرت لوطؑ کو پیچھے چلنے کا حکم اس لیے دیا گیا تاکہ آپ اپنے تمام ساتھیوں کی نگرانی کر سکیں، خاص طور پر ان سب کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھیں۔ حضرت لوطؑ کے پیچھے ہونے کی وجہ سے کسی کو یہ جرات نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ اس حکم کی خلاف ورزی کرے۔

آیت ۶۶، ۶۷

ترجمہ

اور (اس طرح) ہم نے لوط تک اپنا یہ فیصلہ پہنچا دیا کہ صبح ہوتے ہی ان لوگوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی جائے گی۔
اور شہر والے خوشی مناتے ہوئے (لوط کے پاس) آ پہنچے۔ (۲۳)

تفسیر

۲۳۔ یہ فرشتے خوبصورت نوجوانوں کی شکل میں آئے تھے اس لیے جیسا کہ حضرت لوطؑ کو اندیشہ تھا۔ یہ لوگ اپنی ہوس کو پوری کرنے کے شوق میں خوشی مناتے ہوئے آئے۔

آیت ۶۸ ۔ ۷۱

ترجمہ

لوط نے (ان سے) کہا کہ یہ لوگ میرے مہمان ہیں، لہذا مجھے رسوا نہ کرو۔
اور اللہ سے ڈرو، اور مجھے ذلیل نہ کرو۔
کہنے لگے: کیا ہم نے آپ کو پہلے ہی دنیا جہان کے لوگوں (کو مہمان بنانے) سے منع نہیں کر رکھا تھا؟
لوط نے کہا: اگر تم میرے کہنے پر عمل کرو تو یہ میری بیٹیاں (جو تمہارے نکاح میں ہیں، تمہارے پاس) موجود ہی ہیں۔ (۲۴)

تفسیر

۲۴۔ کسی نبی کی امت میں جتنی عورتیں ہوتی ہیں، وہ اس نبی کی روحانی بیٹیاں ہوتی ہیں۔ حضرت لوطؑ نے ان بد قماش لوگوں کو نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی کہ تمہاری عورتیں جو میری روحانی بیٹیاں ہیں، تمہارے گھروں میں موجود ہیں۔ تم اپنی نفسانی خواہشات ان سے پوری کر سکتے ہو، اور یہی فطرت کا پاکیزہ طریقہ ہے۔

آیت ۷۲ ۔ ۷۶

ترجمہ

(اے پیغمبر) تمہاری زندگی کی قسم! حقیقت یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی بدمستی میں اندھے بنے ہوئے تھے۔
چنانچہ سورج نکلتے ہی ان کو چنگھاڑ نے آ پکڑا۔
پھر ہم نے اس زمین کو تہ و بالا کر کے رکھ دیا، اور ان پر پکی مٹی کے پتھروں کی بارش برسا دی۔
حقیقت یہ ہے کہ اس سارے واقعے میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو عبرت کی نگاہ سے دیکھتے ہوں۔
اور یہ بستیاں ایک ایسے راستے پر واقع ہیں جس پر لوگ مستقل چلتے رہتے ہیں۔ (۲۵)

تفسیر

۲۵۔ حضرت لوطؑ کی بستیاں اردن کے بحیرہ مردار کے آس پاس واقع تھیں، اور عرب کے لوگ جب شام کا سفر کرتے تو ان بستیوں کے آثار ان کے راستے میں پڑتے تھے۔ آیت ۷۲ کے بارے میں یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے سوا کسی کی قسم کھانا انسانوں کے لیے جائز نہیں۔ دیکھئے سورة صافات کا حاشیہ نمبر ۱۔

آیت ۷۷، ۷۸

ترجمہ

یقیناً اس میں ایمان والوں کے لیے بڑی عبرت ہے۔
اور ایکہ کے باشندے (بھی) بڑے ظالم تھے۔ (۲۶)

تفسیر

۲۶۔ ایکہ اصل میں گھنے جنگل کو کہتے ہیں۔ حضرت شعیبؑ جس قوم کی طرف بھیجے گئے تھے وہ ایسے ہی گھنے جنگل کے پاس واقع تھی۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اسی بستی کا نام مدین تھا، اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ مدین کے علاوہ کوئی اور بستی تھی، اور حضرت شعیبؑ اس کی طرف بھی بھیجے گئے تھے۔ اس قوم کا واقعہ سورة اعراف آیت ۸۵ تا ۹۳ میں گذر گیا ہے تفصیلات کے لیے ان آیات کے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔

آیت ۷۹

ترجمہ

چنانچہ ہم نے ان سے بھی انتقام لیا۔ اور ان دونوں قوموں کی بستیاں کھلی شاہراہ پر واقع ہیں۔ (۲۷)

تفسیر

۲۷۔ دونوں مراد حضرت لوطؑ اور حضرت شعیبؑ کی بستیاں ہیں۔ جیسا کہ اوپر گذرا۔ حضرت لوطؑ کی بستیاں تو بحیرہ مردار کے پاس تھیں، اور حضرت شعیبؑ کی بستی مدین بھی اردن میں واقع تھی، اور اہل عرب شام جاتے ہوئے ان دونوں کے پاس سے گذرا کرتے تھے۔

آیت ۸۰

ترجمہ

اور حجر کے باشندوں نے بھی پیغمبروں کو جھٹلایا تھا۔ (۲۸)

تفسیر

۲۸۔ حِجر (حا کے نیچے زیر) قوم ثمود کی ان بستیوں کا نام تھا جن کے پاس حضرت صالحؑ کو پیغمبر بنا کر بھیجا گیا تھا، ان کا واقعہ بھی سورة اعراف آیت نمبر ۷۳ تا ۷۹ میں گزر چکا ہے، ان کے تعارف کے لئے اسی سورت کی مذکورہ آیات پر ہمارے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔

آیت ۸۱ ۔ ۸۵

ترجمہ

اور ہم نے ان کو اپنی نشانیاں دیں تو وہ ان سے منہ موڑے رہے۔
اور وہ پہاڑوں کو تراش تراش کر بے خوف و خطر مکان بنایا کرتے تھے۔
آخر انہیں صبح صبح ایک چنگھاڑ نے آ پکڑا۔
اور نتیجہ یہ ہوا کہ جس ہنر سے وہ کمائی کرتے تھے، وہ ان کے کچھ کام نہ آیا۔
اور ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان کے درمیان جو کچھ ہے اس کو کسی برحق مقصد کے بغیر پیدا نہیں کیا، (۲۹) اور قیامت کی گھڑی آ کر رہے گی۔ لہذا (اے پیغمبر! ان کافروں کے طرز عمل پر) خوبصورتی کے ساتھ درگزر سے کام لو۔ (۳۰)

تفسیر

۲۹۔ یعنی اس کائنات کو پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ نیک لوگوں کو آخرت میں انعام دیا جائے، اور نافرمانوں کو سزا دی جائے، لہذا آنحضرتﷺ کو تسلی دی جا رہی ہے کہ آپ ان کافروں کے اعمال کے ذمہ دار نہیں ہیں، بلکہ ان کا فیصلہ اللہ تعالیٰ خود کرے گا۔
۳۰۔ درگزر سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان کو تبلیغ نہ کی جائے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کو سزا دینا آپ کی ذمہ داری نہیں ہے، مکی زندگی میں ان سے لڑنے کی بھی اجازت نہیں تھی، اور ان کی طرف سے جو اذیتیں مسلمانوں کو پہنچ رہی تھیں، ان کا بدلہ لینے کا بھی حکم نہیں تھا، در گزر کرنے سے یہ مراد ہے کہ فی الحال ان سے کوئی بدلہ بھی نہ لو، اس طرح مسلمانوں کو تکلیفوں کی بھٹی سے گزار کر ان میں اعلی اخلاق پیدا کئے جا رہے تھے۔

آیت ۸۶، ۸۷

ترجمہ

یقین رکھو کہ تمہارا رب ہی سب کو پیدا کرنے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
اور ہم نے تمہیں سات ایسی آیتیں دے رکھی ہیں جو بار بار پڑھی جاتی ہیں، (۳۱) اور عظمت والا قرآن عطا کیا ہے۔

تفسیر

۳۱۔ اس سے مراد سورة فاتحہ کی سات آیتیں ہیں جو ہر نماز میں بار بار پڑھی جاتی ہیں، غالباً اس موقع پر سورة فاتحہ کا خصوصی حوالہ اس لئے دیا گیا ہے کہ اس سورت میں بندوں کو ایاک نعبد وایاک نستعین کے ذریعے ہر بات اللہ سے مانگنے کی تلقین فرمائی گئی ہے، گویا یہ ہدایت فرمائی جا رہی ہے کہ جب کوئی تکلیف یا مصیبت پیش آئے، اللہ تعالیٰ سے رجوع کر کے اسی سے مدد مانگو، اور اسی سے صراط مستقیم پر قائم رہنے کی دعا کرو۔

آیت ۸۸ ۔ ۹۱

ترجمہ

اور تم ان چیزوں کی طرف ہرگز آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھو جو ہم نے ان (کافروں) میں سے مختلف لوگوں کو مزے اڑانے کے لیے دے رکھی ہیں، اور نہ ان لوگوں پر اپنا دل کڑھاؤ، اور جو لوگ ایمان لے آئے ہیں، ان کے لیے اپنی شفقت کا بازو پھیلا دو۔
اور (کفر کرنے والوں سے) کہہ دو کہ میں تو بس کھلے الفاظ میں تنبیہ کرنے والا ہوں۔
(یہ تنبیہ قرآن عظیم کے ذریعے اسی طرح نازل کی گئی ہے) جیسے ہم نے ان تفرقہ کرنے والوں پر نازل کی تھی۔
جنہوں نے (اپنی) پڑھی جانے والی کتاب کے حصے بخرے کر لیے تھے۔ (۳۲)

تفسیر

۳۲۔ اس سے مراد یہود اور عیسائی ہیں، انہوں نے اپنی کتابوں کے حصے بخرے اس طرح کئے تھے کہ اس کے جس حکم کو چاہتے مان لیتے اور جس کی چاہتے خلاف ورزی کرتے تھے۔

آیت ۹۲ ۔ ۹۴

ترجمہ

چنانچہ تمہارے رب کی قسم! ہم ایک ایک کر کے ان سب سے پوچھیں گے۔
کہ وہ کیا کچھ کیا کرتے تھے۔
لہذا جس بات کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے اسے علی الاعلان لوگوں کو سنا دو، (۳۳) اور جو لوگ (پھر بھی) شرک کریں، ان کی پروا مت کرو۔

تفسیر

۳۳۔ یہ وہ آیت ہے جس کے ذریعے آنحضرتﷺ کو علی اعلان تبلیغ کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے آپ انفرادی طور پر تبلیغ فرماتے تھے۔

آیت ۹۵ ۔ ۹۹

ترجمہ

یقین رکھو کہ ہم تمہاری طرف سے ان لوگوں سے نمٹنے کے لیے کافی ہیں جو (تمہارا) مذاق اڑاتے ہیں۔
جنہوں نے اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود گھڑ رکھا ہے۔ چنانچہ عنقریب انہیں سب پتہ چل جائے گا۔
یقیناً ہم جانتے ہیں کہ جو باتیں یہ بناتے ہیں، ان سے تمہارا دل تنگ ہوتا ہے۔
تو (اس کا علاج یہ ہے کہ) تم اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو، اور سجدہ بجا لانے والوں میں شامل رہو۔
اور اپنے پروردگار کی عبادت کرتے رہو، یہاں تک کہ تم پر وہ چیز آ جائے جس کا آنا یقینی ہے۔ (۳۴)

تفسیر

۳۴۔ اس سے مراد موت ہے، یعنی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزار دو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ آپ کو وفات دے کر اپنے پاس بلا لیں
٭٭٭
 
Top