حضرت شیخ الہند کا قصیدہ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت شیخ الہند انگریزوں کو خطاب کرتے ہوئے اور سلطان ترکی سے امداد وتعاون اور بیرونی یلغار کی دھمکی دیتے ہوئے کیسا پُر شوکت انداز اختیار کرتے ہیں:

انْ لَمْ تَتُبْ مَنْ جَفَاھَا قَدْ عَزَمْتُ عَلَی انْ أسْتَعِیْنُ بِسُلْطَانِ الوَریٰ البَطْل

عَبْدِ الحَمِیْدِ أمانِ الخَائِفِیْنَ، مُبِیْدِ الظَّالِمِیْنَ، سَدِیْدِ القَوْلِ وَالعَمَل

ترجمہ ۱)اے انگریز!اگر تم اپنی جفاوظلم سے باز نہ آئے تو میں نے بھی عزم کر لیا ہے کہ نڈر بادشاہ سے مدد طلب کروں گا۔

(۲)(وہ)سلطان عبدالحمید ہے جو ڈرے ہوؤں کی جائے امان ،ظالموں سے بدلہ لینے والا اور قول وعمل میں سچا ہے۔

اسی طرح سلطان ترکی اور ان کے لشکر کی ہمت بڑھاتے اور حوصلہ بلند کرتے ہوئے کہتے ہیں:

سَلُّوا سُیُوْفَکُمْ وَاللہُ نَاصِرُکُمْ عَلی الطُّغَاةِ مِنَ الأوْغَادِ وَالسِّفْل

حَتَّامَ حِلْمُکُمْ یُغْرِیْھِمْ وَالٰی مَتٰی سُیُوْفُکُمْ فِی الْجَفْنِ وَالْخُلَل

ترجمہ ۱)اپنی تلواریں سونت لو اور ان سرکش کمینے اور گھٹیا لوگوں کے مقابلے میں اللہ ہی تمہارا مدد گار ہے۔

(۲)تمہاری بردباری کب تک انہیں ایسی حرکات پر ابھارتی رہے گی اور کب تک تمہاری تلواریں خوبصورت نیاموں میں رہیں گی۔

اہل ترکی روس اور دیگر حملہ آور قوتوں سے عملی طور پر میدانِ جہاد میں نبردآزما تھے ،قربانیاں پیش کررہے تھے؛ جب کہ یہ حضرات ہندوستان میں ان سے بہت دور بیٹھے تھے اور دلی طور پر ہی نہیں،مالی واخلاقی امداد میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی؛ لیکن عملی جہاد اور میدانِ جہاد سے باہر رہنے میں بہت فرق ہوتا ہے؛ اس لیے مولانا نے باوجود ترکی بہادروں کی مدح وستائش اور تحریض وترغیب کے اس پہلو سے نظر نہیں چرائی،اپنی معذرت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

عُذْرًا فَضْلُکُمْ وَالشِّعْرُ بَیْنَھُمَا فَرْقٌ جَلِيٌ وَأیْنَ الْبَحْرُ مِنْ وَشَل

ترجمہ:معذرت!تمہاری فضیلت(یعنی عملی جہاد کی فضیلت)اور میری شعر گوئی،ان دونوں میں تو واضح فرق ہے ،بھلا قطرے کی سمندر کے مقابلے میں کیا حیثیت؟

دوسرا قصیدہ بھی بھرپورآہنگ اورشجاعتِ ادبیہ سے معمور ہے۔ اس میں سلطان عبدالحمید خان کے جہادی جذبے اور مجاہدین کے کردار کو خراجِ تحسین پیش کیا گیاہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کریں:

وَلَطَالَمَا فَتَکَتْ جُیُوْشُک کُلَّ کَفَّارٍ عَنِیْد

وَقَتَلْتَھُمْ وَھَزَمْتَھُمْ وَقَطَعْتَھُمْ حَبْلَ الْوَرِیْد

وَلَقَدْ سَفَکْتَ دِمَائَھُمْ حَتّٰی جَرَیٰ بَحْرٌ جَدِیْد

ھَذَا وَسَیْفُکَ قَائِلٌ لِدِمَائِھِمْ ھَلْ مِنْ مَزِیْد

فَاقْطَعْ وُوٴُوْسَ الرُّوْسِ رَأسَ الکُفْرِ مَلْعُوْنٍ طَرِیْد

ترجمہ:کتنے عرصے سے آپ کے لشکر،ضدی کافروں کو سبق سکھا رہے ہیں ۔ آپ کے لشکر نے کافروں کو قتل کیا،انھیں شکست دی اور ان کی شہ رگ کاٹ دی ۔ تحقیق تو نے ان کا اتنا خون بہایا جس سے نیا سمندر رواں ہوگیا اورتیری تلوار اب بھی مزید خون کی پیاسی ہے۔ روسی کافروں کی گردنیں مارو ،یہ ملعون ہیں دھتکارے ہوئے ہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
یہ اشعار ،قصیدہ برہ کی شرح عطر الوردہ سے لیے گئے ہیں۔

مولانا مرحوم کا انداز تشریح وتوضیح بہت نرالاہے، اس میں خاص وعام کی استعداد کو سامنے رکھا گیا ہے۔ محض اردو ترجمہ وتشریح پر اکتفا نہیں کیا گیا؛ بلکہ اہل علم اور ذی استعداد طلبہ کے لیے اردو سے پہلے عربی ہی میں مشکل الفاظ کے معانی اور پیچیدہ مقامات کو حل کیا ہے، گویا کتاب کی ایک نہیں دوشر حیں ہوگئیں ایک عربی،دوسری اردو میں ،قصیدہ برہ کی شرح عطر الوردہ کے خطبے میں تحریر فرماتے ہیں:

ترجمہ:”پہلے میں نے عربی میں مشکل لغات کا حل اور محاورات کی توضیح پیش کی ہے، جس سے شعر کا مقصد واضح ہو جائے ،اس سلسلے میں ملا عبدالغنی القراباغی کی شرح سے استفادہ کیا ہے۔ پھر ہندی(اردو)زبان میں شرح کی ہے، جس سے پیچیدہ مقامات حل ہو جائیں اور مغلق مطالب طلبہ کے لیے آسان ہو جائیں اور مزید شوق ورغبت کا باعث ہوں، گویا یہ دوشرحیں ہیں،ایک عربی دوسری اردو میں“

یہاں یہ حقیقت بھی ذہن میں رہے کہ مولانا مرحوم نے قصیدہ بُردہ کی جو شرح لکھی ہے، وہ محض علمی وادبی ذوق کی تسکین کے لیے نہیں؛ بلکہ اس کے پس منظر میں حبّ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک پر جوش دریا ہے، جو مولانا مرحوم کے قلب وجگر میں موجزن ہے اور مولانا مرحوم اپنی اس عاجزانہ خدمت کو تقربِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اپنی مغفرت کا بہترین وسیلہ وذریعہ قرار دیتے ہیں:

ترجمہ:”(میں نے یہ شرح) اِس امید پر تحریر کی ہے کہ یہ خدمت میرے گناہوں کا کفارہ اور آخرت کا نیک توشہ بن جائے اور یہ امید کیوں نہ ہو کہ یہ قصیدہ نبی کریم سیدُالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی سراسر مدح وتوصیف ہے“۔

”عِطر الوردہ“ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ: اَشعار میں جن واقعات کی طرف محض مجمل اشارہ ہو،مولانا مرحوم نے ترجمے کے ساتھ ان واقعات کو بھی جامع تفصیل سے ذکر کردیا ہے؛ تاکہ جو شخص ناواقفیت کی بنا پر اشارہ نہ سمجھ سکے، وہ واقعہ ملحوظ رکھ کر شاعرانہ اسلوب سے بھرپورانداز میں لطف اندوز ہو سکے
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مولانا مرحوم کی تحریر میں سلاست ،روانی اور زور بیان کے ساتھ حقائق وواقعات کی صحیح منظر کشی کا عنصر پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔ الہدیة السنیةمیں حضرت نانوتوی،جو عمر میں آپ سے چھوٹے تھے اور پہلے وفات پا گئے تھے ،اُن کے متعلق جو کچھ اس رسالے میں تحریر فرمایا، اُس کے چنداشعارملاحظہ ہوں :

یَا قَاسِمَ الْخَیْرِ مَنْ لِلْعِلْمِ وَالدِّیْن اذَا ارْتَحَلْتَ وَ ارْشَادٍ وَّ تَلْقِیْن

اے قاسم الخیر!جب آپ رحلت کرگئے تو علم ،دین اور ارشادوتلقین کا کون کفیل ہوگا۔

یَا قَاسِمَ الخیرِ! مَنْ لِلطَّارِقِیْنَ وَمَنْ لِلضَّارِعِیْنَ مَکْرُوْب ومَحْزُوْن

اے قاسم الخیر!اب مہمانوں،بے وسیلہ سائلوں،غم زدوں اور بے چینوں کا کون کفیل ہوگا۔

یَا قَاسِمَ الخَیْرِ! اِسْمَعْ مَنْ لِکُربَتِنَا یَا قَاصِمَ الضَیْرِ قُلْ مَنْ لِلْمَسَاکِیْن

اے قاسم الخیر!سن توسہی،اے نقصان کی تلافی کرنیوالے تو ہی کہہ! اب مسکینوں کاکون کفیل ہوگا۔

مَنْ لِلْمَدَارِسِ، مَنْ لِلْوَعْظِ، مَنْ لِھُدَیً لِلنِّکَاتِ تَوْضِیْحٍ وَتَبْیِیْن

مدارس ،وعظ وہدایت ،نکتہ سنجی اور توضیح وتشریح کا کون کفیل ہوگا۔

مَنْ لِلشَّریْعَةِ أوْ مَنْ لِلطَّرِیْقَةِ أوْ مَنْ لِلْحَقِیْقَةِ اِذَا رَسِیْتَ فِی الطِّین

شریعت،طریقت اور حقیقت کا محافظ کون ہوگا؛ جب کہ توزیرزمین مقیم ہوگیا۔

سَقٰی الالٰہُ ضَرِیْحاً أنْتَ سَاکِنُہ وَیَرْحَمُ اللہُ مَنْ یَمْدُدْ بِتَأمِیْن

اللہ تعالیٰ اس قبر کو سیراب رکھے جس میں آپ سکونت پذیر ہیں اور ان پر بھی اللہ کی رحمت ہو جو آمین کہہ کر(اس دعا میں میری) اعانت کرے، مولانا مرحوم کے آثارِ ادبیہ میں الہدیة السنیة اور ادبی کتب کی شروحات کے علاوہ ”قصائدِ قاسمی“ میں آپ کے دو عربی قصیدے موجود ہیں ۔ پہلا قصیدہ پچپن اشعار پر مشتمل ہے اور دوسرا تیرہ اشعار پر مشتمل ہے
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مولانا مرحوم کی تحریر میں سلاست ،روانی اور زور بیان کے ساتھ حقائق وواقعات کی صحیح منظر کشی کا عنصر پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔ الہدیة السنیةمیں حضرت نانوتوی،جو عمر میں آپ سے چھوٹے تھے اور پہلے وفات پا گئے تھے ،اُن کے متعلق جو کچھ اس رسالے میں تحریر فرمایا، اُس کے چنداشعارملاحظہ ہوں :

یَا قَاسِمَ الْخَیْرِ مَنْ لِلْعِلْمِ وَالدِّیْن اذَا ارْتَحَلْتَ وَ ارْشَادٍ وَّ تَلْقِیْن

اے قاسم الخیر!جب آپ رحلت کرگئے تو علم ،دین اور ارشادوتلقین کا کون کفیل ہوگا۔

یَا قَاسِمَ الخیرِ! مَنْ لِلطَّارِقِیْنَ وَمَنْ لِلضَّارِعِیْنَ مَکْرُوْب ومَحْزُوْن

اے قاسم الخیر!اب مہمانوں،بے وسیلہ سائلوں،غم زدوں اور بے چینوں کا کون کفیل ہوگا۔

یَا قَاسِمَ الخَیْرِ! اِسْمَعْ مَنْ لِکُربَتِنَا یَا قَاصِمَ الضَیْرِ قُلْ مَنْ لِلْمَسَاکِیْن

اے قاسم الخیر!سن توسہی،اے نقصان کی تلافی کرنیوالے تو ہی کہہ! اب مسکینوں کاکون کفیل ہوگا۔

مَنْ لِلْمَدَارِسِ، مَنْ لِلْوَعْظِ، مَنْ لِھُدَیً لِلنِّکَاتِ تَوْضِیْحٍ وَتَبْیِیْن

مدارس ،وعظ وہدایت ،نکتہ سنجی اور توضیح وتشریح کا کون کفیل ہوگا۔

مَنْ لِلشَّریْعَةِ أوْ مَنْ لِلطَّرِیْقَةِ أوْ مَنْ لِلْحَقِیْقَةِ اِذَا رَسِیْتَ فِی الطِّین

شریعت،طریقت اور حقیقت کا محافظ کون ہوگا؛ جب کہ توزیرزمین مقیم ہوگیا۔

سَقٰی الالٰہُ ضَرِیْحاً أنْتَ سَاکِنُہ وَیَرْحَمُ اللہُ مَنْ یَمْدُدْ بِتَأمِیْن

اللہ تعالیٰ اس قبر کو سیراب رکھے جس میں آپ سکونت پذیر ہیں اور ان پر بھی اللہ کی رحمت ہو جو آمین کہہ کر(اس دعا میں میری) اعانت کرے، مولانا مرحوم کے آثارِ ادبیہ میں الہدیة السنیة اور ادبی کتب کی شروحات کے علاوہ ”قصائدِ قاسمی“ میں آپ کے دو عربی قصیدے موجود ہیں ۔ پہلا قصیدہ پچپن اشعار پر مشتمل ہے اور دوسرا تیرہ اشعار پر مشتمل ہے
شکریہ
 
Top