حضرت شیخ الہند انگریزوں کو خطاب کرتے ہوئے اور سلطان ترکی سے امداد وتعاون اور بیرونی یلغار کی دھمکی دیتے ہوئے کیسا پُر شوکت انداز اختیار کرتے ہیں:
ترجمہ ۱)اے انگریز!اگر تم اپنی جفاوظلم سے باز نہ آئے تو میں نے بھی عزم کر لیا ہے کہ نڈر بادشاہ سے مدد طلب کروں گا۔
(۲)(وہ)سلطان عبدالحمید ہے جو ڈرے ہوؤں کی جائے امان ،ظالموں سے بدلہ لینے والا اور قول وعمل میں سچا ہے۔
اسی طرح سلطان ترکی اور ان کے لشکر کی ہمت بڑھاتے اور حوصلہ بلند کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ترجمہ ۱)اپنی تلواریں سونت لو اور ان سرکش کمینے اور گھٹیا لوگوں کے مقابلے میں اللہ ہی تمہارا مدد گار ہے۔
(۲)تمہاری بردباری کب تک انہیں ایسی حرکات پر ابھارتی رہے گی اور کب تک تمہاری تلواریں خوبصورت نیاموں میں رہیں گی۔
اہل ترکی روس اور دیگر حملہ آور قوتوں سے عملی طور پر میدانِ جہاد میں نبردآزما تھے ،قربانیاں پیش کررہے تھے؛ جب کہ یہ حضرات ہندوستان میں ان سے بہت دور بیٹھے تھے اور دلی طور پر ہی نہیں،مالی واخلاقی امداد میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی؛ لیکن عملی جہاد اور میدانِ جہاد سے باہر رہنے میں بہت فرق ہوتا ہے؛ اس لیے مولانا نے باوجود ترکی بہادروں کی مدح وستائش اور تحریض وترغیب کے اس پہلو سے نظر نہیں چرائی،اپنی معذرت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ترجمہ:معذرت!تمہاری فضیلت(یعنی عملی جہاد کی فضیلت)اور میری شعر گوئی،ان دونوں میں تو واضح فرق ہے ،بھلا قطرے کی سمندر کے مقابلے میں کیا حیثیت؟
دوسرا قصیدہ بھی بھرپورآہنگ اورشجاعتِ ادبیہ سے معمور ہے۔ اس میں سلطان عبدالحمید خان کے جہادی جذبے اور مجاہدین کے کردار کو خراجِ تحسین پیش کیا گیاہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کریں:
ترجمہ:کتنے عرصے سے آپ کے لشکر،ضدی کافروں کو سبق سکھا رہے ہیں ۔ آپ کے لشکر نے کافروں کو قتل کیا،انھیں شکست دی اور ان کی شہ رگ کاٹ دی ۔ تحقیق تو نے ان کا اتنا خون بہایا جس سے نیا سمندر رواں ہوگیا اورتیری تلوار اب بھی مزید خون کی پیاسی ہے۔ روسی کافروں کی گردنیں مارو ،یہ ملعون ہیں دھتکارے ہوئے ہیں۔
انْ لَمْ تَتُبْ مَنْ جَفَاھَا قَدْ عَزَمْتُ عَلَی انْ أسْتَعِیْنُ بِسُلْطَانِ الوَریٰ البَطْل
عَبْدِ الحَمِیْدِ أمانِ الخَائِفِیْنَ، مُبِیْدِ الظَّالِمِیْنَ، سَدِیْدِ القَوْلِ وَالعَمَل
عَبْدِ الحَمِیْدِ أمانِ الخَائِفِیْنَ، مُبِیْدِ الظَّالِمِیْنَ، سَدِیْدِ القَوْلِ وَالعَمَل
ترجمہ ۱)اے انگریز!اگر تم اپنی جفاوظلم سے باز نہ آئے تو میں نے بھی عزم کر لیا ہے کہ نڈر بادشاہ سے مدد طلب کروں گا۔
(۲)(وہ)سلطان عبدالحمید ہے جو ڈرے ہوؤں کی جائے امان ،ظالموں سے بدلہ لینے والا اور قول وعمل میں سچا ہے۔
اسی طرح سلطان ترکی اور ان کے لشکر کی ہمت بڑھاتے اور حوصلہ بلند کرتے ہوئے کہتے ہیں:
سَلُّوا سُیُوْفَکُمْ وَاللہُ نَاصِرُکُمْ عَلی الطُّغَاةِ مِنَ الأوْغَادِ وَالسِّفْل
حَتَّامَ حِلْمُکُمْ یُغْرِیْھِمْ وَالٰی مَتٰی سُیُوْفُکُمْ فِی الْجَفْنِ وَالْخُلَل
حَتَّامَ حِلْمُکُمْ یُغْرِیْھِمْ وَالٰی مَتٰی سُیُوْفُکُمْ فِی الْجَفْنِ وَالْخُلَل
ترجمہ ۱)اپنی تلواریں سونت لو اور ان سرکش کمینے اور گھٹیا لوگوں کے مقابلے میں اللہ ہی تمہارا مدد گار ہے۔
(۲)تمہاری بردباری کب تک انہیں ایسی حرکات پر ابھارتی رہے گی اور کب تک تمہاری تلواریں خوبصورت نیاموں میں رہیں گی۔
اہل ترکی روس اور دیگر حملہ آور قوتوں سے عملی طور پر میدانِ جہاد میں نبردآزما تھے ،قربانیاں پیش کررہے تھے؛ جب کہ یہ حضرات ہندوستان میں ان سے بہت دور بیٹھے تھے اور دلی طور پر ہی نہیں،مالی واخلاقی امداد میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی؛ لیکن عملی جہاد اور میدانِ جہاد سے باہر رہنے میں بہت فرق ہوتا ہے؛ اس لیے مولانا نے باوجود ترکی بہادروں کی مدح وستائش اور تحریض وترغیب کے اس پہلو سے نظر نہیں چرائی،اپنی معذرت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
عُذْرًا فَضْلُکُمْ وَالشِّعْرُ بَیْنَھُمَا فَرْقٌ جَلِيٌ وَأیْنَ الْبَحْرُ مِنْ وَشَل
ترجمہ:معذرت!تمہاری فضیلت(یعنی عملی جہاد کی فضیلت)اور میری شعر گوئی،ان دونوں میں تو واضح فرق ہے ،بھلا قطرے کی سمندر کے مقابلے میں کیا حیثیت؟
دوسرا قصیدہ بھی بھرپورآہنگ اورشجاعتِ ادبیہ سے معمور ہے۔ اس میں سلطان عبدالحمید خان کے جہادی جذبے اور مجاہدین کے کردار کو خراجِ تحسین پیش کیا گیاہے۔ یہ اشعار ملاحظہ کریں:
وَلَطَالَمَا فَتَکَتْ جُیُوْشُک کُلَّ کَفَّارٍ عَنِیْد
وَقَتَلْتَھُمْ وَھَزَمْتَھُمْ وَقَطَعْتَھُمْ حَبْلَ الْوَرِیْد
وَلَقَدْ سَفَکْتَ دِمَائَھُمْ حَتّٰی جَرَیٰ بَحْرٌ جَدِیْد
ھَذَا وَسَیْفُکَ قَائِلٌ لِدِمَائِھِمْ ھَلْ مِنْ مَزِیْد
فَاقْطَعْ وُوٴُوْسَ الرُّوْسِ رَأسَ الکُفْرِ مَلْعُوْنٍ طَرِیْد
وَقَتَلْتَھُمْ وَھَزَمْتَھُمْ وَقَطَعْتَھُمْ حَبْلَ الْوَرِیْد
وَلَقَدْ سَفَکْتَ دِمَائَھُمْ حَتّٰی جَرَیٰ بَحْرٌ جَدِیْد
ھَذَا وَسَیْفُکَ قَائِلٌ لِدِمَائِھِمْ ھَلْ مِنْ مَزِیْد
فَاقْطَعْ وُوٴُوْسَ الرُّوْسِ رَأسَ الکُفْرِ مَلْعُوْنٍ طَرِیْد
ترجمہ:کتنے عرصے سے آپ کے لشکر،ضدی کافروں کو سبق سکھا رہے ہیں ۔ آپ کے لشکر نے کافروں کو قتل کیا،انھیں شکست دی اور ان کی شہ رگ کاٹ دی ۔ تحقیق تو نے ان کا اتنا خون بہایا جس سے نیا سمندر رواں ہوگیا اورتیری تلوار اب بھی مزید خون کی پیاسی ہے۔ روسی کافروں کی گردنیں مارو ،یہ ملعون ہیں دھتکارے ہوئے ہیں۔