انکار حدیث کا فتنہ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
انکار حدیث کا فتنہ ظہور میں آچکا ہے۔ بحث کرنے والے پوری قوت کے ساتھ اس بحث میں مصروف ہیں کہ حدیث حجت ہے یا نہیں؟ جن لوگوں کی طرف سے یہ بحث اٹھائی گئی ہے ان کا حال تو انہی کو معلوم ہوگا لیکن جہاں تک میرے ایمان کا احساس ہے یہ سوال ہی غیرت ایمانی کے خلاف چیلنج ہے جس سے اہل ایمان کی گردن ندامت کی وجہ سے جھک جانی چاہئے۔

اس فتنہ کے اٹھانے والے ظالموں نے نہیں سوچا کہ وہ اس سوال کے ذریعہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی ذات کو اعتماد یا عدم اعتماد کا فیصلہ طلب کرنے کے لئے امت کی عدالت میں لے آئیں گے۔ امت اگر یہ فیصلہ کردے گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات (حدیث) قابل اعتماد ہے، تواس کے مرتبہ کا سوال ہوگا اور اگر نالائق امتی یہ فیصلہ صادر کردیں کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات (حدیث) آپ کے زمانہ والوں کے لئے لائق اعتماد ہوتو ہو لیکن موجودہ دور کے متمدن اور ترقی پسند افراد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرنا ملائیت ہے“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ ہوجائے گا۔ (معاذ اللہ، استغفراللہ) اگر دل کے کسی گوشے میں ایمان کی کوئی رمق بھی موجود ہے تو کیا یہ سوال ہی موجب ندامت نہیں کہ نبی صلى الله عليه وسلم کی بات لائق اعتماد ہے یا نہیں؟

تُف ہے! اس مہذب دنیا پر کہ جس ملک کی قومی اسمبلی میں صدرمملکت کی ذات کو تو زیر بحث نہیں لیا جاسکتا (پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر نے متعدد دفعہ یہ رولنگ دی ہے کہ معزز ارکان اسمبلی صدر مملکت کی ذات گرامی کو زیر بحث نہیں لاسکتے) لیکن اسی ملک میں چند ننگ امت، آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ذات اقدس کو نہ صرف یہ کہ زیر بحث لاتے ہیں بلکہ زبان وقلم کی تمام تر طاقت اس پر صرف کرتے ہیں کہ امت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دے ڈالے۔اگر ایمان اسی کا نام ہے تو مجھے کہنا ہوگا، ﴿بئسَمَا یَأمُرُکُمْ بِہِ ایمانکم انْ کُنْتُمْ مُوٴمِنِیْن﴾۔

بہرحال مریض دلوں کے لئے انکار حدیث کی خوراک لذیذ ہوتو ہو (غلبہ صفراء کی وجہ سے ان مسکینوں کو اس کی تلخی کا احساس نہیں ہوتا) لیکن میرے جیسے گنہگار اور ناکارہ امتی کے لئے یہ موضوع خوشگوار نہیں بلکہ یہ بحث ہی تلخ ہے، نہایت تلخ، مجھے کل ان کے دربار میں جانا ہے اور ان کی شفاعت کی امید ہی سرمایہ زندگی ہے۔ سوچتا ہوں اور خدا کی قسم، کانپتا ہوں، کہ اگر ان کی طرف سے دریافت کرلیاگیا کہ ”او نالائق! کیا میری حدیث کا اعتماد بھی محل بحث ہوسکتا ہے؟ تو میرے پاس کیا جواب ہوگا؟ اسلام کے ان فرزندان ناخلف نے خود رسالت مآب صلى الله عليه وسلم پر جرح وتعدیل کا جو راستہ اختیار کیا ہے واللہ! اس میں کفر ونفاق کے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ﴿فَمَنْ شَاءَ فَلْیُوٴمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ﴾ (اب جس کا جی چاہے نبی کی بات پر ایمان لائے اور جس کا جی چاہے کفر کا راستہ اختیار کرے)

(مولانا محمد یوسف لدھیانوی)
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
انکار حدیث کا فتنہ ظہور میں آچکا ہے۔ بحث کرنے والے پوری قوت کے ساتھ اس بحث میں مصروف ہیں کہ حدیث حجت ہے یا نہیں؟ جن لوگوں کی طرف سے یہ بحث اٹھائی گئی ہے ان کا حال تو انہی کو معلوم ہوگا لیکن جہاں تک میرے ایمان کا احساس ہے یہ سوال ہی غیرت ایمانی کے خلاف چیلنج ہے جس سے اہل ایمان کی گردن ندامت کی وجہ سے جھک جانی چاہئے۔

اس فتنہ کے اٹھانے والے ظالموں نے نہیں سوچا کہ وہ اس سوال کے ذریعہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی ذات کو اعتماد یا عدم اعتماد کا فیصلہ طلب کرنے کے لئے امت کی عدالت میں لے آئیں گے۔ امت اگر یہ فیصلہ کردے گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات (حدیث) قابل اعتماد ہے، تواس کے مرتبہ کا سوال ہوگا اور اگر نالائق امتی یہ فیصلہ صادر کردیں کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات (حدیث) آپ کے زمانہ والوں کے لئے لائق اعتماد ہوتو ہو لیکن موجودہ دور کے متمدن اور ترقی پسند افراد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرنا ملائیت ہے“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ ہوجائے گا۔ (معاذ اللہ، استغفراللہ) اگر دل کے کسی گوشے میں ایمان کی کوئی رمق بھی موجود ہے تو کیا یہ سوال ہی موجب ندامت نہیں کہ نبی صلى الله عليه وسلم کی بات لائق اعتماد ہے یا نہیں؟

تُف ہے! اس مہذب دنیا پر کہ جس ملک کی قومی اسمبلی میں صدرمملکت کی ذات کو تو زیر بحث نہیں لیا جاسکتا (پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر نے متعدد دفعہ یہ رولنگ دی ہے کہ معزز ارکان اسمبلی صدر مملکت کی ذات گرامی کو زیر بحث نہیں لاسکتے) لیکن اسی ملک میں چند ننگ امت، آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ذات اقدس کو نہ صرف یہ کہ زیر بحث لاتے ہیں بلکہ زبان وقلم کی تمام تر طاقت اس پر صرف کرتے ہیں کہ امت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دے ڈالے۔اگر ایمان اسی کا نام ہے تو مجھے کہنا ہوگا، ﴿بئسَمَا یَأمُرُکُمْ بِہِ ایمانکم انْ کُنْتُمْ مُوٴمِنِیْن﴾۔

بہرحال مریض دلوں کے لئے انکار حدیث کی خوراک لذیذ ہوتو ہو (غلبہ صفراء کی وجہ سے ان مسکینوں کو اس کی تلخی کا احساس نہیں ہوتا) لیکن میرے جیسے گنہگار اور ناکارہ امتی کے لئے یہ موضوع خوشگوار نہیں بلکہ یہ بحث ہی تلخ ہے، نہایت تلخ، مجھے کل ان کے دربار میں جانا ہے اور ان کی شفاعت کی امید ہی سرمایہ زندگی ہے۔ سوچتا ہوں اور خدا کی قسم، کانپتا ہوں، کہ اگر ان کی طرف سے دریافت کرلیاگیا کہ ”او نالائق! کیا میری حدیث کا اعتماد بھی محل بحث ہوسکتا ہے؟ تو میرے پاس کیا جواب ہوگا؟ اسلام کے ان فرزندان ناخلف نے خود رسالت مآب صلى الله عليه وسلم پر جرح وتعدیل کا جو راستہ اختیار کیا ہے واللہ! اس میں کفر ونفاق کے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ﴿فَمَنْ شَاءَ فَلْیُوٴمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ﴾ (اب جس کا جی چاہے نبی کی بات پر ایمان لائے اور جس کا جی چاہے کفر کا راستہ اختیار کرے)

(مولانا محمد یوسف لدھیانوی)
قربان جاؤں اپنے ان انمول اکابرین پر کہ کس بہترین انداز میں ہم جیسے نالائقوں کو مسئلہ سمجھا دیا

اشتراک کا شکریہ
 
Top