سورة النحل مفتی تقی عثمانی تفسیر آسان قرآن

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
تعارف
اس سورت کا بنیادی موضوع اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا مفصل بیان ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں انسان کے فائدے کے لیے پیدا فرمائی ہیں۔ اسی لیے اس سورت کو سورة النعم (نعمتوں کی سورت) بھی کہا جاتا ہے۔ عرب کے مشرکین عام طور سے یہ مانتے تھے کہ ان میں سے بیشتر نعمتیں اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی خدائی میں وہ بت بھی شریک ہیں جن کی وہ عبادت کرتے تھے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا تذکرہ فرما کر انہیں توحید پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے۔ ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور ایمان نہ لانے کی صورت میں انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے۔ یہ سورت جس زمانے میں نازل ہوئی، اس وقت بہت سے مسلمان کفار کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر حبشہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہو رہے تھے۔ آیت نمبر ۴۱ و ۴۲ میں ان کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کے مصائب و آلام کا دور ختم ہونے والا ہے۔ اور انہیں دنیا میں بھی اچھا ٹھکانا عطا ہو گا، اور آخرت میں بھی ان کے لیے بڑا اجر و ثواب ہے، بشرطیکہ وہ صبر سے کام لیں، اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں۔ سورت کے آخری حصے میں اسلامی شریعت کے کچھ اہم احکام بھی بیان فرمائے گئے ہیں جو ایک مسلمان کے طرز عمل کی بنیاد ہونے چاہئیں۔ نحل عربی میں شہد کی مکھی کو کہتے ہیں۔ اس سورت کی آیت نمبر ۶۸ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انعامات کا تذکرہ کرتے ہوئے شہد کی مکھی کا حوالہ دیا ہے کہ وہ کس طرح اللہ کے حکم سے پہاڑوں اور جنگلوں میں اپنے چھتے بناتی اور شہد پیدا کرتی ہے۔ اسی لیے سورت کا نام نحل رکھا گیا ہے۔

آیت ۱

ترجمہ

اللہ کا حکم آن پہنچا ہے، لہذا اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ (۱)۔ جو شرک یہ لوگ کر رہے ہیں، وہ اس سے پاک اور بہت بالا و برتر ہے۔

تفسیر

۱۔ عربی زبان کے اعتبار سے یہ انتہائی زور دار فقرہ ہے جس میں آئندہ ہونے والے کسی یقینی واقعے کو ماضی کے صیغے سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس کے زور دار اور تاثیر کو کسی اور زبان میں ادا کرنا بہت مشکل ہے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب آنحضرتﷺ کفار سے یہ فرماتے تھے کہ کفر کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی صورت میں ظاہر ہو گا اور مسلمان غالب آئیں گے تو وہ مذاق اڑانے کے انداز میں کہا کرتے تھے کہ اگر عذاب آنا ہے تو اللہ تعالیٰ سے کہئے کہ اسے ابھی بھیج دے اس کا مقصد در حقیقت یہ تھا کہ عذاب کی یہ دھمکی اور مسلمانوں کی فتح کا وعدہ (معاذ اللہ) محض بناوٹی بات ہے، اس کی حقیقت کچھ نہیں۔ اس سورت کا آغاز ان کے اس طرز عمل کے مقابلے میں یہ فرما کر کیا گیا ہے کہ کافروں پر آنے والے جس عذاب اور مسلمانوں کے غلبے کی جس خبر کو تم نا ممکن سمجھ رہے ہو وہ اللہ تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہے۔ اور اتنا یقینی ہے کہ گویا آن ہی پہنچا ہے، لہذا اس کے آنے کی جلدی مچا کر اس کا مذاق نہ اڑاؤ، کیونکہ وہ تہارے سر پر کھڑا ہے۔ پھر اگلے فقرے میں اس عذاب کے یقینی ہونے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہو، حالانکہ اللہ تعالیٰ نہ صرف اس سے پاک بلکہ اس سے بہت بالا و برتر ہے لہذا اس کے ساتھ شرک کرنا اس کی توہین ہے، اور خالق کائنات کی توہین کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ توہین کرنے والے پر عذاب نازل ہو (تفسیر المہائمی ۴۰۲: ۱)

آیت ۲ ۔ ۴

ترجمہ

وہ اپنے حکم سے فرشتوں کو اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اس زندگی بخشنے والی وحی کے ساتھ اتارتا ہے کہ لوگوں کو آگاہ کر دو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، لہذا تم مجھی سے ڈرو، (کسی اور سے نہیں )۔
اس نے آسمانوں اور زمین کو برحق مقصد سے پیدا کیا ہے۔ جو شرک یہ لوگ کرتے ہیں، وہ اس سے بہت بالا و برتر ہے۔
اس نے انسان کو نطفے سے پیدا کیا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ کھلم کھلا جھگڑے پر آمادہ ہو گیا۔ (۲)

تفسیر

۲۔ یعنی انسان کی حقیقت تو اتنی ہے کہ وہ ایک ناپاک بوند سے پیدا ہوا ہے، لیکن جب اسے ذرا قوت گویائی ملی تو جس ذات نے اسے اس ناپاک بوند سے ایک مکمل انسان بنایا تھا اور اسے اشرف المخلوقات کا رتبہ بخشا تھا اسی ذات کے ساتھ شریک ٹھہرا کر اس سے جھگڑنا شروع کر دیا۔

آیت ۵

ترجمہ

اور چوپائے اسی نے پیدا کیے جن میں تمہارے لیے سردی سے بچاؤ کا سامان ہے، (۳) اور اس کے علاوہ بہت سے فائدے ہیں، اور انہی میں سے تم کھاتے بھی ہو۔

تفسیر

۳۔ یعنی ان کی کھالوں سے ایسے لباس بنائے جاتے ہیں جو انسان کو سردی سے محفوظ رکھ سکیں۔

آیت ۶ ۔ ۸

ترجمہ

اور جب تم انہیں شام کے وقت گھر واپس لاتے ہو، اور جب انہیں صبح کو چرانے لے جاتے ہو تو ان میں تمہارے لیے ایک خوشنما منظر بھی ہے۔
اور یہ تمہارے بوجھ لاد کر ایسے شہر تک لے جاتے ہیں جہاں تم جان جوکھوں میں ڈالے بغیر نہیں پہنچ سکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے تمہارا پروردگار بہت شفیق، بڑا مہربان ہے۔
اور گھوڑے، خچر اور گدھے اسی نے پیدا کیے ہیں تاکہ تم ان پر سواری کرو، اور وہ زینت کا سامان بنیں۔ اور وہ بہت سی ایسی چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں ہے۔ (۴)

تفسیر

۴۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی بہت سی سواریاں وہ ہیں جن کا ابھی تمہیں پتہ نہیں ہے، اس طرح آیت کریمہ نہ یہ خبر دی ہے کہ اگرچہ فی الحال تم صرف گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کو سواری کے لئے استعمال کرتے ہو، لیکن اللہ تعالیٰ آئندہ نئی نئی سواریاں پیدا کرے گا، اور اس طرح اس آیت میں ان ساری سواریوں کا ذکر آ گیا ہے جو نزول قرآن کے بعد پیدا ہوئیں، مثلاً کاریں بسیں ریلیں ہوائی جہاز اور بحری جہازوغیرہ، بلکہ قیامت تک جتنی سواریاں مزید پیدا ہوں وہ سب اس آیت کے مفہوم میں داخل ہیں، عربی زبان کے قاعدے کے مطابق اس جملے کا یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ایسی چیزیں پیدا کرے گا جن کا تمہیں ابھی علم نہیں ہے۔

آیت ۹

ترجمہ

اور سیدھا راستہ دکھانے کی ذمہ داری اللہ نے لی ہے، اور بہت سے راستے ٹیڑھے ہیں اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو سیدھے راستے پر پہنچا بھی دیتا۔ (۵)

تفسیر

۵۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا کے راستے طے کرنے کے لئے سواریاں پیدا کی ہیں اسی طرح آخرت کا روحانی سفر طے کرنے کے لئے سیدھا راستہ دکھانے کی ذمہ داری بھی لی ہے، کیونکہ لوگوں نے اس کام کے لئے بہت سے ٹیڑھے راستے بنارکھے ہیں، ان سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ لوگوں کو سیدھا راستہ اپنے پیغمبروں اور اپنی کتابوں کے ذریعے دکھاتا ہے، البتہ وہ کسی کو زبردستی اٹھا کر اس راستے پر نہیں لے جاتا، اگرچہ وہ چاہتا تو یہ بھی کر سکتا تھا، لیکن اس دنیا میں انسان سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دکھائے ہوئے راستے پر اپنے اختیار سے چلے زبردستی نہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کے ذریعے راستہ دکھانے پر اکتفا فرماتا ہے۔

آیت ۱۰، ۱۱

ترجمہ

وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا جس سے تمہیں پینے کی چیزیں حاصل ہوتی ہیں، اور اسی سے وہ درخت اگتے ہیں جن تم مویشیوں کو چراتے ہو۔
اسی سے اللہ تمہارے لیے کھیتیاں، زیتون، کھجور کے درخت، انگور اور ہر قسم کے پھل اگاتا ہے۔ (۶) حقیقت یہ ہے کہ ان سب باتوں میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانی ہے جو سوچتے سمجھتے ہوں۔

تفسیر

۶۔ کھیتیوں سے اس پیداوار کی طرف اشارہ ہے جو انسان غذا کے طور پر استعمال کرتا ہے، جیسے گندم، سبزیاں وغیرہ اور زیتون ان اشیاء کا ایک نمونہ ہے جو کھانا پکانے اور کھانے کے لیے چکنائی کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ اور کھجور، انگور اور باقی پھلوں سے اس پیداوار کی طرف اشارہ ہے جو مزید لذت حاصل کرنے کے کام آتی ہیں۔

آیت ۱۲ ۔ ۱۴

ترجمہ

اور اس نے دن اور رات کو اور سورج اور چاند کو تمہاری خدمت پر لگا رکھا ہے، اور ستارے بھی اس کے حکم سے کام پر لگے ہوئے ہیں۔ یقیناً ان باتوں میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو عقل سے کام لیں۔
اسی طرح وہ ساری رنگ برنگ کی چیزیں جو اس نے تمہاری خاطر زمین میں پھیلا رکھی ہیں، وہ بھی اس کے حکم سے کام پر لگی ہوئی ہیں۔ بیشک ان سب میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو سبق حاصل کریں۔
اور وہی ہے جس نے سمندر کو کام پر لگایا، تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ (۷) اور اس سے وہ زیورات نکالو جو تم پہنتے ہو۔ (۸) اور تم دیکھتے ہو کہ اس نے کشتیاں پانی کو چیرتی ہوئی چلتی ہیں، تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو، اور تاکہ شکر گزار بنو۔ (۹)

تفسیر

۷۔ مچھلی کا گوشت مراد ہے
۸۔ سمندر سے موتی نکلتے ہیں جو زیورات میں کام آتے ہیں
۹۔ یعنی سمندر میں تجارت سفر کر کے اللہ تعالیٰ کے شکر گذار بنو۔ قرآن کریم نے ’’اللہ کا فضل تلاش کرنے‘‘ کی اصطلاح بہت سی آیتوں میں تجارت کے لیے استعمال فرمائی ہے۔ دیکھئے سورة بقرہ ۱۹۸، سورة بنی اسرائیل ۶۶، سورة قصص ۷۳ سورة روم ۴۶ سورة فاطر ۱۲ سورة جاثیہ ۱۲ سورة جمعہ ۱۰ اور سورة مزمل ۲۰۔ تجارت کو اللہ تعالیٰ کا فضل کہنے سے ایک طرف تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر تجارت شرعی احکام کی پابند ہو تو وہ ایک پسندیدہ چیز ہے۔ اور دوسری طرف اس اصطلاح سے تاجروں کو یہ تنبیہ بھی کی جا رہی ہے کہ تجارت میں جو نفع حاصل ہوتا ہے، وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، کیونکہ انسان کوشش ضرور کرتا ہے، لیکن اگر اللہ تعالیٰ کا فضل شامل حال نہ ہو تو کوشش کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی لہذا اگر تجارت کے ذریعے مال و دولت حاصل ہو جائے تو انسان کو مغرور ہونے کے بجائے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

آیت ۱۵

ترجمہ

اور اس نے زمین میں پہاڑوں کے لنگر ڈال دیے ہیں تاکہ وہ تم کو لے کر ڈگمگائے نہیں، (۱۰) اور دریا اور راستے بنائے ہیں تاکہ تم منزل مقصود تک پہنچ سکو۔

تفسیر

۱۰۔ جب زمین کو شروع میں سمندر پر بچھایا گیا تو وہ ڈگمگاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے ذریعے اس کو جما دیا ہے۔ جدید سائنس کے مطابق اب بھی بڑے بڑے برا اعظم سمندر کے پانی پر تھوڑے تھوڑے سرکتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ سرکنا اتنا معمولی ہوتا ہے کہ انسان کو احساس نہیں ہوتا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۱۶ ۔ ۱۸

ترجمہ

اور (راستوں کی پہچان کے لیے) بہت سی علامتیں بنائی ہیں۔ اور ستاروں سے بھی لوگ راستہ معلوم کرتے ہیں۔
اب بتاؤ کہ جو کچھ پیدا نہیں کرتے؟ کیا پھر بھی تم کوئی سبق نہیں لیتے؟
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننے لگو، تو انہیں شمار نہیں کر سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (۱۱)

تفسیر

۱۱۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں جب اتنی زیادہ ہیں کہ شمار میں نہیں آ سکتیں تو ان کا حق تو یہ تھا کہ انسان ہر آن اللہ تعالیٰ کا شکر ہی ادا کرتا رہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ انسان کے بس میں نہیں ہے۔ اس لیے وہ اپنی مغفرت اور رحمت کا معاملہ فرما کر شکر کی اس کوتاہی معاف فرماتا رہتا ہے۔ البتہ یہ مطالبہ ضرور ہے کہ وہ اس کے احکام کے مطابق زندگی گذارے اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار رہے۔ اس کے لیے اسے یہ حقیقت پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہر کام کو جانتا ہے۔ چاہے وہ چھپ کر کرے یا علانیہ۔ چنانچہ اگلی آیت میں یہی حقیقت بیان فرمائی گئی ہے۔

آیت ۱۹ ۔ ۲۱

ترجمہ

اور اللہ وہ باتیں بھی جانتا ہے جو تم چھپ کر کرتے ہو، اور وہ بھی جو تم علی الاعلان کرتے ہو۔
اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر یہ لوگ جن (دیوتاؤں) کو پکارتے ہیں، وہ کچھ بھی پیدا نہیں کرتے، وہ تو خود ہی مخلوق ہیں۔
وہ بے جان ہیں، ان میں زندگی نہیں، اور ان کو اس بات کا بھی احساس نہیں ہے کہ ان لوگوں کو کب زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔ (۱۲)

تفسیر

۱۲۔ اس سے وہ بت مراد ہیں جن کی وہ پوجا کرتے تھے۔ فرمایا گیا ہے کہ وہ کسی کو پیدا تو کیا کرتے؟ خود پیدا کیے گئے ہیں اور نہ ان میں جان ہے نہ انہیں یہ احساس ہے کہ ان کے پجاریوں کو مرنے کے بعد کب زندہ کیا جائے گا۔

آیت ۲۲، ۲۳

ترجمہ

تمہارا معبود تو بس ایک ہی خدا ہے۔ لہذا جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ان کے دل میں انکار پیوست ہو گیا ہے، اور وہ گھمنڈ میں مبتلا ہیں۔
ظاہر بات ہے کہ اللہ وہ باتیں بھی جانتا ہے جو وہ چھپ کر کرتے ہیں، اور وہ بھی جو وہ علی الاعلان کرتے ہیں۔ وہ یقیناً گھمنڈ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ (۱۳)

تفسیر

۱۳۔ چونکہ وہ گھمنڈ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اس لیے انہیں سزا بھی ضرور دے گا، اور اس کے لیے آخرت کا وجود ضروری ہے لہذا اس کے انکار کی کوئی وجہ نہیں۔

آیت ۲۴، ۲۵

ترجمہ

اور جب ان سے کہا گیا کہ تمہارے رب نے کیا بات نازل کی ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ گزرے ہوئے لوگوں کے افسانے! ۔
(ان باتوں کا) نتیجہ یہ ہے کہ وہ قیامت کے دن خود اپنے (گناہوں) کے پورے پورے بوجھ بھی اپنے اوپر لادیں گے، اور ان لوگوں کے بوجھ کا ایک حصہ بھی جنہیں یہ کسی علم کے بغیر گمراہ کر رہے ہیں۔ (۱۴) یاد رکھو کہ بہت برا بوجھ ہے جو یہ لاد رہے ہیں۔

تفسیر

۱۴۔ یعنی اللہ کے کلام کو افسانہ قرار دے کر انہوں نے جن لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ ان کے ایسے گناہوں کا بوجھ بھی ان پر لادا جائے گا جو انہوں نے ان کے زیر اثر آ کر کیے۔

آیت ۲۶ ۔ ۲۸

ترجمہ

ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی مکر کے منصوبے بنائے تھے۔ پھر ہوا یہ کہ (منصوبوں کی) جو عمارتیں انہوں نے تعمیر کی تھیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں جڑ بنیاد سے اکھاڑ پھینکا، پھر ان کے اوپر سے چھت بھی ان پر آ گری، اور ان پر عذاب ایسی جگہ سے آ دھمکا جس کا انہیں احساس تک نہیں تھا۔
پھر قیامت کے دن اللہ انہیں رسوا کرے گا، اور ان سے پوچھے گا کہ کہاں ہیں وہ میرے شریک جن کی خاطر تم (مسلمانوں سے) جھگڑا کیا کرتے تھے؟ جن لوگوں کو علم عطا ہوا ہے وہ (اس دن) کہیں گے کہ بڑی رسوائی اور بدحالی مسلط ہے آج ان کافروں پر۔
جن کی روحیں فرشتوں نے اس حالت میں قبض کیں جب انہوں نے اپنی جانوں پر (کفر کی وجہ سے) ظلم کر رکھا تھا۔ (۱۵) اس موقع پر لوگ بڑی فرمانبرداری کے بول بولیں گے کہ ہم تو کوئی برا کام نہیں کرتے تھے۔ (ان سے کہا جائے گا) کیسے نہیں کرتے تھے؟ اللہ کو سب معلوم ہے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔

تفسیر

۱۵۔ اس سے معلوم ہوا کہ عذاب میں صرف ان لوگوں کو ہو گا جو کفر کی حالت میں مرے ہوں۔ اگر کوئی مرنے سے پہلے پہلے سچی توبہ کر لے تو اس کی توبہ قبول ہو جاتی ہے اور اسے معاف کر دیا جاتا ہے
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۲۹ ۔ ۳۵

ترجمہ

لہذا اب ہمیشہ جہنم میں رہنے کے لیے اس کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ، کیونکہ تکبر کرنے والوں کا یہی برا ٹھکانا ہے۔
اور (دوسری طرف) متقی لوگوں سے پوچھا گیا کہ تمہارے پروردگار نے کیا چیز نازل کی ہے؟ تو انہوں نے کہا۔ خیر ہی خیر تاری ہے۔ (اسی طرح) جن لوگوں نے نیکی کی روش اختیار کی ہے، ان کے لیے اس دنیا میں بھی بہتری ہے، اور آخرت کا گھر تو ہے ہی سراپا بہتری، یقیناً متقیوں کا گھر بہترین ہے۔
ہمیشہ ہمیشہ بسنے کے لیے وہ باغات جن میں وہ داخل ہوں گے، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی، اور وہاں جو کچھ وہ چاہیں گے، انہیں ملے گا۔ متقی لوگوں کو اللہ ایسا ہی صلہ دیتا ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کی روحیں فرشتے ایسی حالت میں قبض کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوتے ہیں وہ ان سے کہتے ہیں کہ سلامتی ہو تم پر! جو عمل تم کرتے رہے ہو، اس کے صلے میں جنت میں داخل ہو جاؤ۔
یہ (کافر) لوگ اب (ایمان لانے کے لیے) اس کے سوا کس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آکھڑے ہوں، یا (قیامت یا عذاب کی صورت میں) تمہارے پروردگار کا حکم ہی آ جائے۔ جو امتیں ان سے پہلے گزری ہیں، انہوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ اور اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا، لیکن وہ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھاتے رہے تھے۔
اس لیے ان کے برے اعمال کا وبال ان پر پڑا، اور جس چیز کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے، اسی نے ان کو آ کر گھیر لیا۔
اور جن لوگوں نے شرک اختیار کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے سوا کسی اور چیز کی عبادت نہ کرتے، نہ ہم، نہ ہمارے باپ دادا، اور نہ ہم اس کے (حکم کے) بغیر کوئی چیز حرام قرار دیتے۔ جو امتیں ان سے پہلے گزری ہیں انہوں نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ لیکن پیغمبروں کی ذمہ داری اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ صاف صاف طریقے پر پیغام پہنچا دیں۔ (۱۶)

تفسیر

۱۶۔ ان کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو ہم شرک نہ کرتے سراسر ہٹ دھرمی پر مبنی تھا، کیونکہ اس طرح ہر مجرم یہ کہہ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو میں یہ جرم نہ کرتا، ایسی باتیں قابل جواب نہیں ہوتیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب دینے کے بجائے صرف یہ فرما دیا کے رسولوں کی ذمہ داری پیغام پہچانے کی حد تک محدود ہے، ان کی ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ ایسے ضدی لوگ راہ راست پر آہی جائیں، اور انہوں نے جو یہ کہا ہے کہ ہم کوئی چیز حرام قرار نہ دیتے، اس سے ان جانوروں کی طرف اشارہ ہے جو انہوں نے بتوں کے نام پر حرام کر رکھے تھے، اس کی تفصیل سورة انعام (۶۔ ۱۳۹ تا ۱۴۵) میں گزر چکی ہے۔

آیت ۳۶

ترجمہ

اور واقعہ یہ ہے کہ ہم نے ہر امت میں کوئی نہ کوئی پیغمبر اس ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اور طاغوت سے اجتناب کرو۔ (۱۷) پھر ان میں سے کچھ وہ تھے جن کو اللہ نے ہدایت دے دی اور کچھ ایسے تھے جن پر گمراہی مسلط ہو گئی۔ تو ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ (پیغمبروں کو) جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا؟

تفسیر

۱۷۔ طاغوت شیطان کو بھی کہتے ہیں اور بتوں کو بھی، لہذا اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شیطان کے پیچھے نہ چلو اور یہ بھی کہ بت پرستی سے اجتناب کرو۔

آیت ۳۷ ۔ ۴۰

ترجمہ

(اے پیغمبر) اگر تمہیں یہ حرص ہے کہ یہ لوگ ہدایت پر آ جائیں، تو حقیقت یہ ہے کہ اللہ جن کو (ان کے عناد کی وجہ سے) گمراہ کر دیتا ہے ان کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا، اور ایسے لوگوں کو کسی قسم کے مددگار بھی میسر نہیں آتے۔
اور ان لوگوں نے بڑا زور لگا لگا کر اللہ کی قسمیں کھائی ہیں کہ جو لوگ مر جاتے ہیں، اللہ ان کو دوبارہ زندہ نہیں کرے گا۔ بھلا کیوں نہیں کرے گا؟ یہ تو ایک وعدہ ہے جسے سچا کرنے کی ذمہ داری اللہ نے لے رکھی ہے، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
(دوبارہ زندہ کرنے کا یہ وعدہ اللہ نے اس لیے کیا ہے) تاکہ وہ لوگوں کے سامنے ان باتوں کو اچھی طرح واضح کر دے جن میں وہ اختلاف کر رہے ہیں اور تاکہ کافر لوگ جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔
اور جب ہم کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہماری طرف سے صرف اتنی بات ہوتی ہے کہ ہم اسے کہتے ہیں۔ ہو جا۔ بس وہ ہو جاتی ہے۔ (۱۸)

تفسیر

۱۸۔ پچھلی آیت میں آخرت کی دوسری زندگی کا مقصد بیان فرمایا تھا اور اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ مرنے کے بعد زندہ ہونے کو تم اس لئے نا ممکن سمجھ رہے ہو کہ وہ تمہارے تصور سے باہر ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی بھی کام مشکل نہیں ہے، کسی چیز کے پیدا کرنے کے لئے اسے کوئی محنت کرنی نہیں پڑتی، وہ تو ایک حکم دیتا ہے اور وہ چیز پیدا ہو جاتی ہے۔

آیت ۴۱

ترجمہ

اور جن لوگوں نے دوسروں کے ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر اپنا وطن چھوڑا ہے، یقین رکھو کہ انہیں ہم دنیا میں بھی اچھی طرح بسائیں گے، اور آخرت کا اجر تو یقیناً سب سے بڑا ہے۔ کاش کہ یہ لوگ جان لیتے۔ (۱۹)

تفسیر

۱۹۔ جیسا کہ اس سورت کے تعارف میں عرض کیا گیا، یہ آیت ان صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو کفار کے ظلم سے تنگ آ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ البتہ اس میں جو عام الفاظ استعمال ہوئے ہیں، وہ ہر اس شخص کو شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر اپنا وطن چھوڑ کر ہجرت کرے۔ اور آخر میں جو فرمایا گیا کہ ’’کاش یہ لوگ جان لیتے‘‘۔ اس سے مراد بظاہر یہ مہاجرین ہی ہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کو اس اجر کا علم ہو جائے تو بے وطن ہونے سے انہیں جو تکلیف ہو رہی ہے وہ بالکل باقی نہ رہے۔ اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ ان سے مراد کافر لوگ ہیں۔ اور مطلب یہ ہے کہ کاش اس حقیقت کا علم ان کافروں کو بھی ہو جائے تو وہ اپنے کفر سے توبہ کر لیں۔

آیت ۴۲ ۔ ۴۷

ترجمہ

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے صبر سے کام لیا ہے، اور جو اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
اور (اے پیغمبر) ہم نے تم سے پہلے بھی کسی اور کو نہیں، انسانوں ہی کو پیغمبر بنا کر بھیجا تھا جن پر ہم وحی نازل کرتے تھے۔ (اے منکرو) اب اگر تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے تو جو علم والے ہیں ان سے پوچھ لو۔
ان پیغمبروں کو روشن دلائل اور آسمانی کتابیں دے کر بھیجا گیا تھا۔ اور (اے پیغمبر) ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے ان باتوں کی واضح تشریح کر دو جو ان کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر سے کام لیں۔
تو کیا وہ لوگ جو برے برے منصوبے بنا رہے ہیں اس بات سے بالکل بے خوف ہو گئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے، یا ان پر عذاب ایسی جگہ سے آ پڑے کہ انہیں احساس تک نہ ہو؟
یا انہیں چلتے پھرتے ہی اپنی پکڑ میں لے لے، کیونکہ وہ اسے عاجز نہیں کر سکتے۔
یا انہیں اس طرح گرفت میں لے کہ وہ دھیرے دھیرے گھٹتے چلے جائیں۔ (۲۰) کیونکہ تمہارا پروردگار بڑا شفیق، نہایت مہربان ہے۔ (۲۱)

تفسیر

۲۰۔ یعنی ایک دم سے تو عذاب آ کر انہیں ہلاک نہ کرے، لیکن اپنی بد عملی کی سزا میں دھیرے دھیرے ان کی افرادی قوت اور ان کا مال و دولت گھٹتا چلا جائے۔ یہ تفسیر روح المعانی میں متعدد صحابہ اور تابعین سے منقول ہے۔
۲۱۔ اس ’’کیونکہ‘‘ کا تعلق بے خوف ہونے سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ شفیق اور مہربان ہے۔ اس لیے اس نے کافروں کو مہلت دی ہوئی ہے اور فوری طور پر انہیں عذاب میں نہیں پکڑا، اس لیے یہ کافر لوگ بے خوف ہو گئے ہیں، حالانکہ پچھلی امتوں کے واقعات سے سبق لے کر انہیں بے خوف نہیں ہونا چاہیے۔

آیت ۴۸

ترجمہ

کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے جو چیز بھی پیدا کی ہے اس کے سائے اللہ کو سجدے کرتے ہوئے دائیں اور بائیں جھکے رہتے ہیں اور وہ سب عاجزی کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں؟ (۲۲)

تفسیر

۲۲۔ انسان کتنا بھی مغرور یا متکبر ہو جائے، اس کا سایہ جب زمین پر پڑتا ہے تو وہ عاجزی اور انکساری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق کے ساتھ اس کے سائے کی شکل میں ایک ایسی چیز پیدا فرما دی ہے جو اس کے اختیار کے بغیر ہر وقت اللہ تعالیٰ کے آگے سجدہ ریز رہتی ہے۔ یہاں تک کہ جو لوگ سورج کی پوجا کرتے ہیں۔ وہ خود تو سورج کے آگے جھک رہے ہوتے ہیں اور ان کے سائے اس کی مخالف سمت میں سجدہ ریز ہوتے ہیں۔

آیت ۴۹

ترجمہ

اور آسمانوں اور زمین میں جتنے جاندار ہیں وہ اور سارے فرشتے اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور وہ ذرا تکبر نہیں کرتے۔
وہ اپنے اس پروردگار سے ڈرتے ہیں جو ان کے اوپر ہے اور وہی کام کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ (۲۳)

تفسیر

۲۳۔ یہ آیت سجدہ ہے، یعنی جو شخص بھی یہ آیت عربی زبان میں پڑھے، اس پر سجدہ کرنا واجب ہو جاتا ہے، اسے سجدہ تلاوت کہتے ہیں، جو نماز کے سجدے کے علاوہ ہے، البتہ صرف ترجمہ پڑھنے سے یا آیت کو پڑھے بغیر صرف دیکھنے سے سجدہ واجب نہیں ہوتا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۵۱ ۔ ۵۶

ترجمہ

اور اللہ نے فرمایا ہے کہ دو دو معبود نہ بنا بیٹھنا، وہ تو بس ایک ہی معبود ہے۔ اس لیے بس مجھی سے ڈرا کرو۔
اور آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کا ہے، اور اسی کی اطاعت ہر حال میں لازم ہے۔ کیا پھر بھی تم اللہ کے سوا اوروں سے ڈرتے ہو؟
اور تم کو جو نعمت بھی حاصل ہوتی ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، پھر جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اسی سے فریادیں کرتے ہو۔
اس کے بعد جب وہ تم سے تکلیف دور کر دیتا ہے تو تم میں سے ایک گروہ اچانک اپنے پروردگار کے ساتھ شرک شروع کر دیتا ہے۔
تاکہ ہم نے اسے جو نعمت دی تھی اس کی ناشکری کرے۔ اچھا! کچھ عیش کر لو، پھر عنقریب تمہیں پتہ چل جائے گا۔
اور ہم نے جو رزق انہیں دیا ہے اس میں وہ ان (بتوں) کا حصہ لگاتے ہیں جن کی حقیقت خود انہیں معلوم نہیں ہے۔ (۲۴) اللہ کی قسم! تم سے ضرور باز پرس ہو گی کہ تم کیسے بہتان باندھا کرتے تھے۔

تفسیر

۲۴۔ عرب کے مشرکین اپنی زرعی پیداوار اور جانوروں کا ایک حصہ بتوں کے نام پر نذر کر دیتے تھے۔ اس کی طرف اشارہ ہے کہ جن بتوں کی نہ حقیقت ان کو معلوم ہے نہ ان کے وجود کی کوئی دلیل ان کے پاس ہے، اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق کو ان کے لیے نذر کر دیتے ہیں۔ اس رسم کی تفصیل سورة انعام آیت ۱۳۶ میں گذری ہے۔

آیت ۵۷

ترجمہ

اور اللہ کے لیے تو انہوں نے بیٹیاں گھڑ رکھی ہیں۔ سبحان اللہ! اور خود اپنے لیے وہ (بیٹے چاہتے ہیں) جو اپنی خواہش کے مطابق ہوں (۲۵)

تفسیر

۲۵۔ مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اول تو اللہ تعالیٰ اولاد کی ضروت سے پاک ہے دوسرے یہ خود اپنے لیے بیٹیوں کو پسند نہیں کرتے، بلکہ بیٹوں کی ولادت کے خواہش مند رہتے ہیں، جو بذات خود بڑی گمراہی کی بات ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کی بیٹیاں ہیں۔

آیت ۵۸ ۔ ۶۳

ترجمہ

اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی (پیدائش) کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے، اور وہ دل ہی دل میں کڑھتا رہتا ہے۔
اس خوشخبری کو برا سمجھ کر لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے کہ) ذلت برداشت کر کے اسے اپنے پاس رہنے دے، یا اسے زمین میں گاڑ دے۔ دیکھو انہوں نے کتنی بری باتیں طے کر رکھی ہیں۔
بری بری باتیں تو انہی میں ہیں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، اور اعلی درجے کی صفات صرف اللہ کی ہیں، اور وہ اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔
اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم کی وجہ سے (فوراً) اپنی پکڑ میں لیتا تو روئے زمین پر کوئی جاندار باقی نہ چھوڑتا، لیکن وہ ان کو ایک معین وقت تک مہلت دیتا ہے۔ پھر جب ان کا وہ معین وقت آ جائے گا تو وہ گھڑی بھر بھی اس سے آگے پیچھے نہیں ہو سکیں گے۔
اور انہوں نے اللہ کے لیے وہ چیزیں گھڑ رکھی ہیں جنہیں خود ناپسند کرتے ہیں، پھر بھی ان کی زبانیں (اپنی) جھوٹی تعریف کرتی رہتی ہیں کہ ساری بھلائی انہی کے حصے میں ہے۔ لازمی بات ہے کہ (ایسے رویے کی وجہ سے) ان کے حصے میں تو دوزخ ہے، اور انہیں اسی میں پڑا رہنے دیا جائے گا۔
(اے پیغمبر) اللہ کی قسم! تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں، ہم نے ان کے پاس پیغمبر بھیجے تھے، تو شیطان نے ان کے اعمال کو خوب بنا سنوار کر ان کے سامنے پیش کیا۔ (۲۶) چنانچہ وہی (شیطان) آج ان کا سرپرست بنا ہوا ہے اور (اس کی وجہ سے) ان کے لیے دردناک عذاب تیار ہے۔

تفسیر

۲۶۔ یعنی یہ پٹی پڑھائی کہ تم جو اعمال کر رہے ہو وہی بہترین اعمال ہے۔

آیت ۶۴۔ ۶۷

ترجمہ

اور ہم نے تم پر یہ کتاب اسی لیے اتاری ہے تاکہ تم ان کے سامنے وہ باتیں کھول کھول کر بیان کر دو جن میں انہوں نے مختلف راستے اپنائے ہوئے ہیں، اور تاکہ یہ ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت کا سامان ہو۔
اور اللہ نے آسمان سے پانی برسایا، اور زمین کے مردہ ہو جانے کے بعد اس میں جان ڈال دی۔ یقیناً اس میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو بات سنتے ہیں۔
اور بیشک تمہارے لیے مویشیوں میں بھی سوچنے کا بڑا سامان ہے، ان کے پیٹ میں جو گوبر اور خون ہے اس کی بیچ میں سے ہم تمہیں ایسا صاف ستھرا دودھ پینے کو دیتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہوتا ہے۔
اور کھجور کے پھلوں اور انگوروں سے بھی (ہم تمہیں ایک مشروب عطا کرتے ہیں) جس سے تم شراب بھی بناتے ہو، اور پاکیزہ رزق بھی (۲۷) بیشک اس میں بھی ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔

تفسیر

۲۷۔ یہ سورت مکی ہے۔ جب یہ نازل ہوئی تو اس وقت تک شراب حرام نہیں ہوئی تھی، لیکن اسی آیت میں شراب کو پاکیزہ رزق کے مقابلے میں ذکر فرمایا کر ایک لطیف اشارہ اس طرف کر دیا گیا تھا کہ شراب پاکیزہ رزق نہیں ہے۔

آیت ۶۸

ترجمہ

اور تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو پہاڑوں میں، اور درختوں میں اور لوگ جو چھتریاں اٹھاتے ہیں ان میں اپنے گھر بنا۔ (۲۸)

تفسیر

۲۸۔ چھتریاں اٹھانے سے مراد وہ ٹٹیاں ہیں جن پر مختلف قسم کی بیلیں چڑھائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر شہد کی مکھی کے گھر بنانے کا ذکر اس لیے فرمایا ہے کہ وہ جو چھتے بناتی ہے وہ عجیب و غریب صنعت کا شاہکار ہوتے ہیں اور عام طور پر وہ یہ چھتے اونچی جگہوں پر بناتی ہے تاکہ اس میں بننے والا شہد زمین کی کثافتوں سے بھی محفوظ رہے۔ اور اسے تازہ ہوا بھی میسر آئے۔ توجہ اس طرف دلائی جا رہی ہے کہ یہ سب کچھ اسے اللہ تعالیٰ نے سکھایا ہے۔ تفصیلات کے لیے دیکھئے معارف القران ج۔ ۵ ص ۳۶۲ تا ۳۶۷

آیت ۶۹، ۷۰

ترجمہ

پھر ہر قسم کے پھلوں سے اپنی خوراک حاصل کر، پھر ان راستوں پر چل جو تیرے رب نے تیرے لیے آسان بنا دیے ہیں۔ (اسی طرح) اس مکھی کے پیٹ سے وہ مختلف رنگوں والا مشروب نکلتا ہے جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ یقیناً ان سب باتوں میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو سوچتے سمجھتے ہوں۔
اور اللہ نے تمہیں پیدا کیا ہے پھر وہ تمہاری روح قبض کرتا ہے، اور تم میں سے کوئی ایسا ہوتا ہے جو عمر کے سب سے ناکارہ حصے تک پہنچا دیا جاتا ہے، جس میں پہنچ کر وہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی کچھ نہیں جانتا۔ (۲۹) بیشک اللہ بڑے علم والا، بڑی قدرت والا ہے۔

تفسیر

۲۹۔ انتہائی بڑھاپے کی حالت کو ’’ناکارہ عمر‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے جس میں انسان کی جسمانی اور ذہنی قوتیں ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ اور سب کچھ جاننے کے باوجود کچھ نہ جاننے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ بڑھاپے کے اس حصے میں انسان اس علم کا اکثر حصہ بھول جاتا ہے جو اس نے اپنی پچھلی زندگی میں حاصل کیا تھا، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں بکثرت ایسا ہوتا ہے کہ ابھی اسے ایک بات بتائی گئی، اور تھوڑی سی دیر میں وہ ایسا ہو گیا جیسے اس کو کچھ بتایا ہی نہیں گیا تھا۔ یہ حقائق بیان فرما کر غافل انسان کو اس طرف متوجہ کیا جا رہا ہے کہ اسے اپنی کسی طاقت اور صلاحیت پر غرور نہیں کرنا چاہئے۔ جو کوئی طاقت اسے ملی ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، اور جب وہ چاہے واپس لے لیتا ہے۔ ان تغیرات سے اسے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ یہ سارا کارخانہ ایک بڑے علم والے، بڑی قدرت والے خدا کا بنایا ہوا ہے جس کا کوئی شریک نہیں، اور بالآخر ہر شخص کو اسی کے پاس واپس جانا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۷۱

ترجمہ

اور اللہ نے تم میں سے کچھ لوگوں کو رزق کے معاملے میں دوسروں پر برتری دے رکھی ہے۔ اب جن لوگوں کو برتری دی گئی ہے وہ اپنا رزق اپنے غلاموں کو اس طرح نہیں لوٹا دیتے کہ وہ سب برابر ہو جائیں۔ (۳۰) تو کیا یہ لوگ اللہ کی نعمت کا انکار کرتے ہیں؟ (۳۱)

تفسیر

۳۰۔ مطلب یہ ہے کہ تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں کرتا کہ اپنے غلام کو اپنی دولت اس طرح دیدے کہ وہ دولت میں اس کے برابر ہو جائے۔ اب تم خود مانتے ہو کہ جن دیوتاؤں کو تم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے مملوک یعنی غلام ہیں۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ نے انہیں اپنی خدائی اس طرح دے دی ہو کہ انہیں اللہ کے برابر معبود بننے کا حق حاصل ہو گیا ہو۔
۳۱۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کر کے یہ دعوی کرتے ہیں کہ فلاں نعمت اللہ نے نہیں، بلکہ ان کے گھڑے ہوئے دیوتاؤں نے دی ہے۔

آیت ۷۲ ۔ ۷۴

ترجمہ

اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لیے بیویاں بنائی ہیں، اور تمہاری بیویوں سے تمہارے لیے بیٹے اور پوتے پیدا کیے ہیں، اور تمہیں اچھی اچھی چیزوں میں سے رزق فراہم کیا ہے۔ کیا پھر بھی یہ لوگ بے بنیاد باتوں پر ایمان لاتے اور اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں؟
اور یہ اللہ کو چھوڑ کر ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو ان کو آسمانوں اور زمین میں سے کسی طرح کا رزق دینے کا نہ کوئی اختیار رکھتی ہیں نہ رکھ سکتی ہیں۔
لہذا تم اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو۔ (۳۲) بیشک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

تفسیر

۳۲۔ مشرکین عرب بعض اوقات اپنے شرک کی تائید میں یہ مثال دیتے تھے کہ جس طرح دنیا کا بادشاہ تنہا اپنی حکومت نہیں چلاتا، بلکہ اسے حکومت کے بہت سے کام اپنے مددگاروں کو سونپنے پڑتے ہیں، اسی طرح (معاذ اللہ) اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی خدائی کے بہت سے کام ان دیوتاؤں کو سونپ رکھے ہیں۔ اور ان معاملات میں وہ خود مختار ہو گئے ہیں۔ اس آیت میں ان سے کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے دنیا کے بادشاہوں کی، بلکہ کسی بھی مخلوق کی مثال دینا انتہائی جہالت کی بات ہے۔ اس کے بعد آیت نمبر ۷۵، ۷۶ میں اللہ تعالیٰ نے دو مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ جن کا مقصد یہ ہے کہ اگر مخلوقات ہی کی مثال لینی ہے تو ان دو مثالوں سے ظاہر ہے کہ مخلوق مخلوق میں بھی فرق ہوتا ہے، کوئی مخلوق اعلی درجے کی ہے، کوئی ادنیٰ درجے کی، جب مخلوق مخلوق میں اتنا فرق ہے تو خالق اور مخلوق میں کتنا فرق ہو گا؟ پھر کسی مخلوق کو خالق کے ساتھ عبادت میں کیسے شریک کیا جا سکتا ہے؟

آیت ۷۵ ۔ ۸۰

ترجمہ

اللہ ایک مثال دیتا ہے کہ ایک طرف ایک غلام ہے جو کسی کی ملکیت میں ہے، اس کو کسی چیز پر کوئی اختیار نہیں، اور دوسری طرف وہ شخص ہے جس کو ہم نے اپنے پاس سے عمدہ رزق عطا کیا ہے، اور وہ اس میں سے پوشیدہ طور پر بھی اور کھلے بندوں بھی خوب خرچ کرتا ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ ساری تعریفیں اللہ کی ہیں، لیکن ان میں سے اکثر لوگ (ایسی صاف بات بھی) نہیں جانتے۔
اور اللہ ایک اور مثال دیتا ہے کہ دو آدمی ہیں ان میں سے ایک گونگا ہے جو کوئی کام نہیں کر سکتا، اور اپنے آقا پر بوجھ بنا ہوا ہے، وہ اسے جہاں کہیں بھیجتا ہے، وہ کوئی ڈھنگ کا کام کر کے نہیں لاتا، کیا ایسا شخص اس دوسرے آدمی کے برابر ہو سکتا ہے جو دوسروں کو بھی اعتدال کا حکم دیتا ہے اور خود بھی سیدھے راستے پر قائم ہے؟
اور آسمانوں اور زمین کے سارے بھید اللہ کے قبضے میں ہیں۔ اور قیامت کا معاملہ آنکھ جھپکنے سے زیادہ نہیں ہو گا، بلکہ اس سے بھی جلدی۔ یقین رکھو کہ اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔
اور اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹ سے اس حالت میں نکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے، اور تمہارے لیے کان، آنکھیں اور دل پیدا کیے، تاکہ تم شکر ادا کرو۔
کیا انہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا کہ وہ آسمان کی فضا میں اللہ کے حکم کے پابند ہیں؟ انہیں اللہ کے سوا کوئی اور تھامے ہوئے نہیں ہے۔ یقیناً اس میں ان لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہوں۔
اور اس نے تمہارے لیے تمہارے گھروں کو سکون کی جگہ بنایا، اور تمہارے لیے مویشیوں کی کھالوں سے ایسے گھر بنائے جو تمہیں سفر پر روانہ ہوتے وقت اور کسی جگہ ٹھہرتے وقت ہلکے پھلکے محسوس ہوتے ہیں۔ (۳۳) اور ان کے اون، ان کے رویں اور ان کے بالوں سے گھریلو سامان اور ایسی چیزیں پیدا کیں جو ایک مدت تک تمہیں فائدہ پہنچاتی ہیں۔

تفسیر

۳۳۔ ان گھروں سے مراد وہ خیمے ہیں جو چمڑے سے بنائے جاتے ہیں، اور عرب کے لوگ انہیں سفر میں ساتھ لے جاتے تھے تاکہ جہاں چاہیں، انہیں نصب کر کے پڑاؤ ڈال لیں۔

آیت ۸۱

ترجمہ

اور اللہ ہی نے اپنی پیدا کی ہوئی چیزوں سے تمہارے لیے سائے پیدا کیے، اور پہاڑوں میں تمہارے لیے پناہ گا ہیں بنائیں، اور تمہارے لیے ایسے لباس پیدا کیے جو تمہیں گرمی سے بچاتے ہیں، اور ایسے لباس جو تمہاری جنگ میں تمہیں محفوظ رکھتے ہیں۔ (۳۴) اس طرح وہ اپنی نعمتوں کو تم پر مکمل کرتا ہے تاکہ تم فرمانبردار بنو۔

تفسیر

۳۴۔ یعنی لوہے کی زرہیں جو جنگ میں تلوار وغیرہ کے وار کو روکنے کے لیے پہنی جاتی تھیں۔

آیت ۸۲ ۔ ۸۴

ترجمہ

پھر بھی اگر یہ (کافر) منہ موڑے رہیں تو (اے پیغمبر) تمہاری ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ واضح طریقے پر پیغام پہنچا دو۔
یہ لوگ اللہ کی نعمتوں کو پہچانتے ہیں، پھر بھی ان کا انکار کرتے ہیں، اور ان میں سے اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔
اور اس دن کو یاد رکھو جب ہم ہر ایک امت میں سے ایک گواہ کھڑا کریں گے۔ (۳۵) پھر جن لوگوں نے کفر اپنایا تھا انہیں (عذر پیش کرنے کی) اجازت نہیں دی جائے گی، اور نہ ان سے یہ فرمائش کی جائے گی کہ وہ توبہ کریں۔ (۳۶)

تفسیر

۳۵۔ اس سے مراد ہر امت کے پیغمبر ہیں جو یہ گواہی دیں گے کہ انہوں نے اس امت کے لوگوں کو حق کا پیغام پہنچایا تھا، اور ان کافروں نے اسے قبول نہیں کیا۔
۳۶۔ اس لیے کہ توبہ کا دروازہ موت سے پہلے پہلے تک تو کھلا رہتا ہے۔ اس کے بعد توبہ قبول نہیں ہوتی۔

آیت ۸۵، ۸۶

ترجمہ

اور جب یہ ظالم عذاب کو آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو نہ ان سے اس عذاب کو ہلکا کیا جائے گا، اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی۔
اور جن لوگوں نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تھا، جب وہ اپنے (گھڑے ہوئے) شریکوں کو دیکھیں گے تو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! یہ ہیں ہمارے (بنائے ہوئے) وہ شریک جن کو ہم تجھے چھوڑ کر پکارا کرتے تھے۔ (۳۷) اس موقع پر وہ (گھڑے ہوئے شریک) ان پر بات پھینک ماریں گے کہ تم بالکل جھوٹے ہو۔ (۳۸)

تفسیر

۳۷۔ اس موقع پر ان بتوں کو بھی سامنے لایا جائے گا جن کی یہ عبادت کیا کرتے تھے، تاکہ ان کی بیچارگی سب کے سامنے واضح ہو، اور ان شیاطین کو بھی جن کی پیروی کر کے گویا ان کو خدا کا شریک بنا لیا تھا۔
۳۸۔ عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان بتوں کو بھی زبان دیدے، اور وہ ان کے جھوٹا ہونے کا اعلان کریں، کیونکہ دنیا میں بے جان ہونے کی بنا پر انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ کون ان کی عبادت کر رہا ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ زبان حال سے یہ بات کہیں اور شیاطین یہ بات کہہ کر ان سے اپنی بے تعلقی کا اظہار کریں گے۔

آیت ۸۷ ۔ ۹۱

ترجمہ

اور وہ اس دن اللہ کے سامنے فرمانبرداری کے بول بولنے لگیں گے، اور جو بہتان وہ باندھا کرتے تھے اس کا انہیں کوئی سراغ نہیں ملے گا۔
جن لوگوں نے کفر اپنا لیا تھا، اور دوسروں کو اللہ کے راستے سے روک تھا، ان کے عذاب پر ہم مزید عذاب کا اضافہ کرتے رہیں گے، کیونکہ وہ فساد مچایا کرتے تھے۔
اور وہ دن بھی یاد رکھو جب ہر امت میں ایک گواہ انہی میں سے کھڑا کریں گے اور (اے پیغمبر) ہم تمہیں ان لوگوں کے خلاف گواہی دینے کے لیے لائیں گے۔ اور ہم نے تم پر یہ کتاب اتار دی ہے تاکہ وہ ہر بات کھول کھول کر بیان کر دے، اور مسلمانوں کے لیے ہدایت، رحمت اور خوشخبری کا سامان ہو۔
بیشک اللہ انصاف کا، احسان کا، اور رشتہ داروں کو (ان کے حقوق) دینے کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی، بدی اور ظلم سے روکتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔
اور جب تم نے کوئی معاہدہ کیا ہو تو اللہ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کرو، اور قسموں کو پختہ کرنے کے بعد انہیں نہ توڑو، جبکہ تم اپنے اوپر اللہ کو گواہ بنا چکے ہو۔ تم جو کچھ کرتے ہو، یقیناً اللہ اسے جانتا ہے۔
اور جس عورت نے اپنے سوت کو مضبوطی سے کاتنے کے بعد اسے ادھیڑ کرتار تار کر دیا تھا، اس جیسے نہ بن جانا (۳۹) کہ تم بھی اپنی قسموں کو (توڑ کر) آپس کے فساد کا ذریعہ بنانے لگو، صرف اس لیے کہ کچھ لوگ دوسروں سے زیادہ فائدے حاصل کر لیں۔ (۴۰) اللہ اس کے ذریعے تمہاری آزمائش کر رہا ہے۔ اور قیامت کے دن وہ تمہیں وہ باتیں ضرور کھول کر بتا دے گا جن میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔

تفسیر

۳۹۔ روایات میں ہے کہ مکہ مکرمہ میں ایک دیوانی عورت تھی جسے خرقاء کہتے تھے۔ وہ بڑی محنت سے دن بھر سوت کا تتی تھی، اور شام کو اسے ادھیڑ ڈالتی تھی۔ یہ عورت اس معاملے میں ایک ضرب المثل بن گئی تھی۔ جب کوئی شخص اچھا خاصا کام کر کے خود ہی اسے بگاڑ دے تو اسے اس عورت سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ یہاں یہ تشبیہ ان لوگوں کے لیے استعمال کی گئی ہے جو زور و شور سے کسی بات کی قسم کھا کر اسے توڑ ڈالیں
۴۰۔ جھوٹی قسم کھانے یا قسم کو توڑنے کا مقصد عام طور پر کوئی نہ کوئی دنیا کا فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے فرمایا گیا ہے کہ اس معمولی سے فائدے کی خاطر ایسے گناہ کا ارتکاب نہ کرو۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۹۳، ۹۴

ترجمہ

اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت (یعنی ایک ہی دن کا پیرو) بنا دیتا، لیکن وہ جس کو چاہتا ہے (اس کی ضد کی وجہ سے) گمراہی میں ڈال دیتا ہے، اور جس کو چاہتا ہے ہدایت تک پہنچا دیتا ہے۔ اور تم جو عمل بھی کرتے تھے اس کے بارے میں تم سے ضرور باز برس ہو گی۔
اور تم اپنی قسموں کو آپس میں فساد ڈالنے کا ذریعہ نہ بناؤ، جس کے نتیجے میں کسی (اور) کا پاؤں جمنے کے بعد پھسل جائے (۴۱)، پھر تمہیں (اس کو) اللہ کے راستے سے روکنے کی وجہ سے بری سزا چکھنی پڑے، اور تمہیں (ایسی صورت میں) بڑا عذاب ہو گا۔

تفسیر

۴۱۔ یہ قسم کو توڑنے کا ایک اور نقصان بیان فرمایا جا رہا ہے اور وہ یہ کہ جب تم قسم توڑو گے تو عین ممکن ہے کہ تمہیں دیکھ کر کوئی اور شخص بھی اس گناہ پر آمادہ ہو جائے۔ پہلے تو اس کے پاؤں جمے ہوئے تھے، تمہیں دیکھ کر وہ پھسل گیا تو چونکہ تم اس کے گناہ کا سبب بنے تو تمہیں دہرا گناہ ہو گا۔ کیونکہ تم نے اس کو اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکا۔

آیت ۹۵، ۹۶

ترجمہ

اور اللہ کے عہد کو تھوڑی سی قیمت میں نہ بیچ ڈالو۔ اگر تم حقیقت سمجھو تو جو (اجر) اللہ کے پاس ہے وہ تمہارے لیے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ سب ختم ہو جائے گا، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے۔ اور جن لوگوں نے صبر سے کام لیا ہو گا (۴۲) ہم انہیں ان کے بہترین کاموں کے مطابق ان کا اجر ضرور عطا کریں گے۔

تفسیر

۴۲۔ پہلے کئی بار عرض کیا جا چکا ہے کہ قرآن کریم کی اصطلاح میں ’’صبر‘‘ کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اپنی نفسانی خواہشات کو دبا کر اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی کو بھی صبر کہا جاتا ہے، اور کسی تکلیف کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر کوئی شکایت نہ کی جائے تو وہ بھی صبر ہے۔

آیت ۹۷، ۹۸

ترجمہ

جس شخص نے بھی مومن ہونے کی حالت میں نیک عمل کیا ہو گا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، ہم اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے، اور ایسے لوگوں کو ان کے بہترین اعمال کے مطابق ان کا اجر ضرور عطا کریں گے۔
چنانچہ جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو۔ (۴۳)

تفسیر

۴۳۔ پچھلی آیتوں میں نیک عمل کی فضیلت بیان فرمائی گئی تھی، چونکہ نیکی کے کاموں میں سب سے زیادہ خلل شیطان کے اثر سے پڑتا ہے، اس لئے اس آیت میں اس کا یہ علاج بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ لی جائے یعنی اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔ پڑھا جائے۔ تلاوت قرآن کا ذکر خاص طور پر اس لئے فرمایا گیا ہے کہ قرآن کریم ہی تمام نیک کاموں کی ہدایت دینے والا ہے، ، لیکن شیطان سے پناہ مانگنا صرف تلاوت ہی کے ساتھ مخصوص نہیں، ہر نیک کام کے وقت پناہ مانگ لی جائے تو انشاء اللہ شیطانی اثرات سے حفاظت رہے گی۔

آیت ۹۹ ۔ ۱۰۱

ترجمہ

اس کا بس ایسے لوگوں پر نہیں چلتا جو ایمان لائے ہیں، اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
اس کا بس تو ان لوگوں پر چلتا ہے جو اسے دوست بناتے ہیں، اور اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔
اور جب ہم ایک آیت کو دوسری آیت سے بدلتے ہیں۔ (۴۴) اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا نازل کرے تو یہ (کافر) کہتے ہیں کہ تم تو اللہ پر جھوٹ باندھنے والے ہو۔ حالانکہ ان میں سے اکثر لوگ حقیقت کا علم نہیں رکھتے۔

تفسیر

۴۴۔ اللہ تعالیٰ مختلف حالات کے لحاظ سے اپنے احکام میں کبھی کبھی تبدیلی فرماتے تھے، جیسا کہ قبلے کے احکام کے متعلق سورة بقرہ میں تفصیل گزر چکی ہے، اس پر کفار اعتراض کرتے تھے کہ یہ احکام کیوں بدلے جاتے ہیں؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام نہیں بلکہ (معاذ اللہ) آنحضرتﷺ اپنی طرف سے یہ تبدیلیاں کر رہے ہیں، اس آیت میں اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ کس وقت کونسا حکم نازل کیا جائے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۱۰۲، ۱۰۳

ترجمہ

کہہ دو کہ یہ (قرآن کریم) تو روح القدس (یعنی جبریلؑ) تمہارے رب کی طرف سے ٹھیک ٹھیک لے کر آئے ہیں، تاکہ وہ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھے، اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور خوشخبری کا سامان ہو۔
اور (اے پیغمبر) ہمیں معلوم ہے کہ یہ لوگ (تمہارے بارے میں) یہ کہتے ہیں کہ ان کو تو ایک انسان سکھاتا پڑھاتا ہے۔ (حالانکہ) جس شخص کا یہ حوالہ دے رہے ہیں اس کی زبان عجمی ہے۔ (۴۵) اور یہ (قرآن کی زبان) صاف عربی زبان ہے۔

تفسیر

۴۵۔ مکہ مکرمہ میں ایک لوہار تھا جو آنحضرتﷺ کی باتیں دل لگا کر سنا کرتا تھا، اس لئے آپﷺ کبھی کبھی اس کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے اور وہ کبھی کبھی آپﷺ کو انجیل کی کوئی بات بھی سنا دیا کرتا تھا، مکہ مکرمہ کے بعض کافروں نے اس کو بنیاد بنا کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ آنحضرتﷺ یہ قرآن اس لوہار سے سیکھتے ہیں، یہ آیت کریمہ اس اعتراض کی لغویت کو بیان کر رہی ہے کہ وہ بیچارہ لوہار تو عرب نہیں ہے، عجمی ہے، وہ عربی زبان کے اس فصیح و بلیغ کلام کا مصنف کیسے ہو سکتا ہے۔

آیت ۱۰۴ ۔ ۱۰۶

ترجمہ

جو لوگ اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے، ان کو اللہ ہدایت پر نہیں لاتا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
اللہ پر جھوٹ تو (پیغمبر نہیں) وہ لوگ باندھتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے، اور وہی حقیقت میں جھوٹے ہیں۔
جو شخص اللہ پر ایمان لانے کے بعد اس کے ساتھ کفر کا ارتکاب کرے، وہ نہیں جسے زبردستی (کفر کا کلمہ کہنے پر) مجبور کر دیا گیا ہو، جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، بلکہ وہ شخص جس نے اپنا سینہ کفر کے لیے کھول دیا ہو۔ تو ایسے لوگوں پر اللہ کی طرف سے غضب نازل ہو گا، (۴۶) اور ان کے لیے زبردست عذاب تیار ہے۔

تفسیر

۴۶۔ یعنی کسی شخص کو جان کا خوف ہو کہ اگر زبان سے کفر کا کلم نہیں کہے گا تو جان چلی جائے گی، تو ایسا شخص معذور ہے، جبکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، لیکن اللہ تعالیٰ کا غضب اس پر نازل ہو گا جو اپنے اختیار کی وجہ سے کفر کی باتیں کرے۔

آیت ۱۰۷ ۔ ۱۱۰

ترجمہ

یہ اس لیے کہ ایسے لوگوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں زیادہ محبوب سمجھا، اور اس لیے کہ اللہ ایسے ناشکرے لوگوں کو ہدایت تک نہیں پہنچایا کرتا۔
یہ ایسے لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں پر ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر مہر لگا دی ہے، اور یہی لوگ ہیں جو (اپنے انجام سے) بالکل غافل ہیں۔
لازمی بات یہ ہے کہ یہی لوگ ہیں جو آخرت میں سب سے زیادہ نقصان اٹھائیں گے۔
پھر یقین جانو تمہارے پروردگار کا معاملہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے فتنے میں مبتلا ہونے کے بعد ہجرت کی، پھر جہاد کیا اور صبر سے کام لیا تو ان باتوں کے بعد تمہارا پروردگار یقیناً بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (۴۷)

تفسیر

۴۷۔ اس آیت میں فتنے میں مبتلا ہونے سے ان صحابہ کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے جو مکہ مکرمہ میں کافروں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنے۔ پہلے چونکہ کافروں کے برے انجام کا ذکر تھا تو اس آیت میں نیک مسلمانوں کا اجر بھی بیان فرما دیا گیا ہے۔ لیکن بعض مفسرین نے یہاں فتنے میں مبتلا ہونے کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ پہلے کفر میں مبتلا ہو گئے بعد میں توبہ کی۔ اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ پہلے سے جن مرتد لوگوں کا ذکر چلا آ رہا ہے۔ انہی کے بارے میں اب یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اب بھی اگر وہ توبہ کر کے ہجرت کریں اور جہد کریں تو اللہ تعالیٰ ان کے پچھلے گناہ معاف فرما دیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۱۱۱، ۱۱۲

ترجمہ

یہ سب کچھ اس دن ہو گا جب ہر شخص اپنے دفاع کی باتیں کرتا ہوا آئے گا اور ہر ہر شخص کو اس کے سارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور لوگوں پر کوئی ظلم نہیں ہو گا۔
اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے جو بڑی پر امن اور مطمئن تھی اس کا رزق اس کو ہر جگہ سے بڑی فراوانی کے ساتھ پہنچ رہا تھا، پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری شروع کر دی، تو اللہ نے ان کے کرتوت کی وجہ سے ان کو یہ مزہ چکھایا کہ بھوک اور خوف ان کا پہننا اوڑھنا بن گیا۔ (۴۸)

تفسیر

۴۸۔ یہ اللہ تعالیٰ نے ایک عام مثال دی ہے کہ جو بستیاں خوشحال تھیں، جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ناشکری اور نافرمانی پر کمر باندھ لی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو عذاب کا مزہ چکھایا لیکن بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد مکہ مکرمہ کی بستی ہے جس میں سب لوگ خوشحالی اور امن کے ساتھ رہ رہے تھے، لیکن جب انہوں نے آنحضرتﷺ کو جھٹلایا تو ان پر سخت قسم کا قحط مسلط کر دیا گیا جس کے نتیجے میں لوگ چمڑا تک کھانے پر مجبور ہوئے۔ بعد میں انہوں نے آنحضرتﷺ سے درخواست کی کہ آپ قحط دور ہونے کی دعا فرمائیں۔ چنانچہ وہ آپﷺ کی دعا سے دور ہوا۔ اس واقعے کا ذکر سورة دخان میں بھی آنے والا ہے۔

آیت ۱۱۳، ۱۱۴

ترجمہ

اور ان کے پاس انہی میں سے ایک پیغمبر آیا تھا، مگر انہوں نے اس کو جھٹلایا، چنانچہ جب انہوں نے ظلم اپنا لیا تو ان کو عذاب نے آ پکڑا۔
لہذا اللہ نے جو حلال پاکیزہ چیزیں تمہیں رزق کے طور پر دی ہیں، انہیں کھاؤ، (۴۹) اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو، اگر تم واقعی اسی کی عبادت کرتے ہو۔

تفسیر

۴۹۔ جس ناشکری کے پیچھے مذمت کی گئی ہے اسی کی ایک صورت مشرکین عرب نے یہ اختیار کر رکھی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی بہت سی نعمتوں کو من گھڑت طریقے سے حرام قرار دے رکھا تھا، جس کی تفصیل سورة انعام (۱۳۹ تا ۱۴۵) میں گذر چکی ہے۔ یہاں نا شکری کی اس خاص صورت سے منع کیا جا رہا ہے۔

آیت ۱۱۵

ترجمہ

اس نے تو تمہارے لیے بس مردار، خون، خنزیر کا گوشت اور وہ جانور حرام کیا ہے جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا گیا ہو۔ البتہ جو شخص بھوک سے بالکل بے تاب ہو، لذت حاصل کرنے کے لیے نہ کھائے، اور (ضرورت کی) حد سے آگے نہ بڑھے تو اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (۵۰)

تفسیر

۵۰۔ اس کی تفصیل سورة مائدہ آیت ۳ میں گزر چکی ہے۔

آیت ۱۱۶ ۔ ۱۱۸

ترجمہ

اور جن چیزوں کے بارے میں تمہاری زبانیں جھوٹی باتیں بناتی ہیں، ان کے بارے میں یہ مت کہا کرو کہ یہ چیز حلال ہے اور یہ حرام ہے، کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم اللہ پر جھوٹا بہتان باندھو گے۔ یقین جانو کہ جو لوگ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پاتے۔
(دنیا میں) انہیں جو عیش حاصل ہے، وہ بہت تھوڑا سا ہے، اور ان کے لیے دردناک عذاب تیار ہے۔
اور یہودیوں کے لیے ہم نے وہ چیزیں حرام کی تھیں جن کا تذکرہ ہم تم سے پہلے ہی کر چکے ہیں۔ (۵۱) اور ہم نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھاتے رہے۔

تفسیر

۵۱۔ بتلانا یہ مقصود ہے کہ کفار مکہ اپنے آپ کو حضرت ابراہیمؑ کے دین کا پیرو کہتے تھے، حالانکہ جن حلال چیزوں کو ان مشرکین نے حرام کر رکھا تھا۔ وہ حضرت ابراہیمؑ کے وقت ہی سے حلال چلی آتی تھیں۔ البتہ ان میں سے صرف چند چیزوں کو یہودیوں پر بطور سزا حرام کر دیا گیا تھا۔ جیسا کہ سورة نساء آیت ۱۶ میں گذر چکا ہے۔ باقی سب چیزیں اس وقت سے آج تک حلال ہی چلی آتی ہیں۔

آیت ۱۱۹ ۔ ۱۲۴

ترجمہ

پھر بھی تمہارا رب ایسا ہے کہ جن لوگوں نے نادانی میں برائی کا ارتکاب کر لیا اور اس کے بعد توبہ کر لی، اور اپنی اصلاح کر لی تو ان سب باتوں کے بعد بھی تمہارا پروردگار بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔
بیشک ابراہیم ایسے پیشوا تھے جنہوں نے ہر طرف سے یکسو ہو کر اللہ کی فرمانبرداری اختیار کر لی تھی، اور وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں۔
وہ اللہ کی نعمتوں کے شکر گزار تھے۔ اس نے انہیں چن لیا تھا، اور ان کو سیدھے راستے تک پہنچا دیا تھا۔
اور ہم نے نا کو دنیا میں بھی بھلائی دی تھی، اور آخرت میں تو یقیناً ان کا شمار صالحین میں ہے۔
پھر (اے پیغمبر) ہم نے تم پر بھی وحی کے ذریعے یہ حکم نازل کیا ہے کہ تم ابراہیم کے دین کی پیروی کرو جس نے اپنا رخ اللہ ہی کی طرف کیا ہوا تھا، اور وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔
سینچر کے دن کے احکام تو ان لوگوں پر لازم کیے گئے تھے جنہوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا تھا۔ (۵۲) اور یقین رکھو کہ تمہارا رب قیامت کے دن ان کے درمیان ان تمام باتوں کا فیصلہ کر دے گا جن میں لوگ اختلاف کیا کرتے تھے۔

تفسیر

۵۲۔ یہ ایک دوسرا استثنا ہے جس میں یہودیوں کے لیے بعض وہ چیزیں ممنوع کر دی گئی تھیں جو حضرت ابراہیمؑ کی شریعت میں جائز تھیں۔ اور وہ یہ کہ یہودیوں کے لیے سنیچر کے دن معاشی سرگرمیاں ممنوع کر دی گئی تھیں۔ پھر ان میں بھی اختلاف رہا کہ کچھ لوگوں نے اس پابندی پر عمل کیا اور کچھ نے نہیں کیا۔ بہر حال! یہ بھی ایک استثنائی حکم تھا جو صرف یہودیوں کو دیا گیا تھا۔ حضرت ابراہیمؑ کی شریعت اس سے خالی تھی۔ لہذا کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی طرف سے حلال چیزوں کو حرام قرار دیدے۔

آیت ۱۲۵ ۔ ۱۲۸

ترجمہ

اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے نصیحت کر کے دعوت دو، اور (اگر بحث کی نوبت آئے تو) ان سے بحث بھی ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو۔ یقیناً تمہارا پروردگار ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے بھٹک گئے ہیں، اور ان سے بھی خوب واقف ہے جو راہ راست پر قائم ہیں۔
اور اگر تم لوگ (کسی کے ظلم کا) بدلہ لو تو اتنا ہی بدلہ لو جتنی زیادتی تمہارے ساتھ کی گئی تھی۔ اور اگر صبر ہی کر لو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں کے حق میں بہت بہتر ہے۔
اور (اے پیغمبر) تم صبر سے کام لو، اور تمہارا صبر اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔ اور ان (کافروں) پر صدمہ نہ کرو، اور جو مکاریاں یہ لوگ کر رہے ہیں ان کی وجہ سے تنگ دل نہ ہو۔
یقین رکھو کہ اللہ ان لوگوں کا ساتھی ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو احسان پر عمل پیرا ہیں۔ (۵۳)

تفسیر

۵۳۔ ’’احسان‘‘ بڑا عام لفظ ہے جس میں ہر طرح کے نیک کام داخل ہیں۔ اور ایک حدیث میں اس کی یہ تشریح فرمائی گئی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے کہ جیسے وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہو، یا کم از کم اس تصور کے ساتھ کہ وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ اللہم اجعلنا من المحسنین۔
٭٭٭
 
Top