مملوک علی نانوتوی

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
برصغیر میں علم و عمل کے چراغ کو باقی رکھنے اور انہیں گوشہائے عالم میں پھیلانے میں بڑا کردار امام محمد قاسم نانوتوی اور قطب عالم حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہما کا ہے۔ ان دونوں حضرات نے اپنے رفقاء کے ساتھ دارالعلوم دیوبند کی شکل میں امت مسلمہ کو وہ عظیم تحفہ دیا ہے جس کے ثمرات سے آج تک عالم اسلام مستفید ہورہا ہے۔ انہیں دونوں شخصیات سے علماء دیوبند کا علمی و روحانی سلسلہ جاری ہے۔ روحانیت میں ان دونوں حضرات کے راہنما سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ہے اور علمیت میں ان دونوں حضرات کے رہبر و استاد مولانا مملوک علی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ لیکن عجیب اتفاق یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کو حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے واقفیت تو ہے لیکن حضرت مولانا مملوک علی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے ایسی واقفیت نہیں ہے جن کے وہ مستحق ہیں۔

ولادت با سعادت
آپ نانوتہ میں خاندان صدیقی شیوخ کے چشم وچراغ ہیں۔ آپ کی ولادت ایک روایت کے مطابق 1204 ہجری میں ہے۔ تاریخ ولادت میں گرچہ کچھ اختلاف ہے لیکن قرین قیاس مذکورہ سن ہی ہے۔ آپ کے والد محترم مولوی احمد علی نانوتوی نہایت متقی اور پرہیز گار تھے۔ چنانچہ آپ کی تربیت ابتدا سے ہی ایسے ماحول میں ہوئی جو ہر قسم کے لہو و لعب سے پاک تھا۔ دینی ماحول اور والد محترم کی تربیت نے بچپن سے ہی حصول علم کا گرویدہ بنا دیا تھا۔

تعلیم و تربیت
آپ نے ابتدائی تعلیم گھر کے ماحول میں رہ کر حاصل کی۔ والد محترم نے ابتداء میں علمی ذوق و شوق کو پروان چڑھایا اور آپ کے اس شوق نے آپ کو وقت کا عظیم معلم بنا دیا۔
اس دور میں مفتی الہٰی بخش علاقہ میں ممتاز ترین عالم دین کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔ آپ کے حلقہ درس میں دور دراز کے طلباء کا ہجوم رہتا تھا۔ آپ کے ممتاز طلباء میں شیخ محدث احمد علی سہارنپوری اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی جیسے اشخاص شامل تھے۔ مولانا مملوک علی نے آپ کے درس میں شامل ہوکر علمی تشنگی کی سیرابی حاصل کی۔ آپ نے کچھ عرصہ بعد سید محمد قلندر جلال آبادی کے حلقہ درس میں شمولیت اختیار کی۔ ان دونوں حضرات سے آپ نے علمی فیض حاصل کیا۔
یہ وہ دور تھا جب دہلی علم و فضل کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ خاندان ولی اللہ کے چشم وچراغ علم حدیث کے فیوض و برکات کے پیمانے چھلکا رہے تھے۔ دوسری جانب دیگر اہل علم کی درسگاہوں نے دہلی کی فضا کو علم کی خوشبو سے معطر کر رکھا تھا۔ انہی چاشنی اور لگن نے مولانا مملوک علی کو دہلی کی درسگاہوں تک پہنچا دیا۔
دہلی کے قیام میں کچھ دنوں تک آپ مولانا عبداللہ علوی مرشد آبادی کے حلقہ درس میں شامل ہوئے۔ انہیں ایام میں غالباً ہدایہ النحو کا ایک سبق آپ نے مسند ہند شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی پڑھا ہے۔ وہاں سے آپ حضرت مولانا رشید الدین خان کشمیری دہلوی کی درسگاہ میں پہنچے۔ یہاں آپ نے بقیہ علوم کی تکمیل فرمائی اور یہ آپ کے حصول علم کے سفر کی آخری درسگاہ ثابت ہوئی۔ مولانا رشید الدین خان کشمیری سے آپ کے تعلقات کافی گہرے تھے۔ حتی کہ آپ کی فرمائش پر مولانا رشید الدین خان نے کتاب بھی ترتیب دی ہے۔

دہلی کالج کا قیام
1825 میں دہلی کالج کا قیام عمل میں آیا۔ قیام سے قبل ہی صدر مدرس کے طور پر مولانا رشید الدین خان کشمیری اور نائب کی حیثیت سے مولانا مملوک علی نانوتوی کا تقرر عمل میں آچکا تھا۔ مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی نے لکھا ہے کہ ابتدا کے تین سالوں تک اس کا مکمل نظام مدرسہ کے طرز پر رہا ہے، پھر بعد میں اسے باضابطہ نئی شکل دے دی گئی۔
دہلی کالج میں رہتے ہوئے آپ نے بے لوث خدمت انجام دی اور کالج کو ترقی و کامیابی کے راستہ پر گامزن کیا۔ آپ کی شبانہ روز کی محنت شاقہ نے دہلی کالج کے ماحول کو ایسے دور میں جب پورے ہندوستان کا علمی ڈھانچہ لارڈ میکالے کے اشاروں پر گھوم رہا تھا اور عیسائی مشنری ہر جانب عیسائیت کی تبلیغ لگی ہوئی تھی یہ واحد ادارہ تھا جو ایسے حالات میں آب و تاب سے چمک دمک رہا تھا، اور جو ان شرور سے مکمل طور پر محفوظ تھا۔
مولانا رشید الدین خان کشمیری کی وفات کے بعد جب صدر مدرس کا عہدہ خالی ہوا تو اس خلا کو پر کرنے کیلئے آپ سے بہتر کوئی متبادل موجود نہیں تھا۔ آپ کو دہلی کالج کا طویل تجربہ تھا علاوہ ازیں آپ طویل زمانے سے نائب صدر کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے تھے۔
1841 میں باقاعدہ آپ کو دہلی کالج کیلئے صدر مدرس کی حیثیت سے منتخب کیاگیا۔
دہلی کالج میں رہتے ہوئے آپ کیلئے کلکتہ کالج ( مدرسہ عالیہ) کیلئے امین کے عہدہ کی پیشکش ہوئی۔ بلکہ باضابطہ تعلیمی کونسل نے مہر ثبت لگادی تھی، لیکن دہلی والوں سے لگاؤ اور دوست و احباب کے اصرار کی وجہ سے آپ نے عہدہ قبول کرنے سے معذرت پیش کردی۔ آپ کے قوت حافظہ اور علمی تبحر کو بیان کرتے ہوئے سر سید احمد خان لکھتے ہیں کہ ان کا حال تو یہ ہے کہ اگر تمام کتابیں خاکستر ہو جائیں تو بھی ان کے قوت حافظہ سے انہیں حاصل کیا جاسکتا ہے۔
مولانا مملوک علی نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ دہلی کالج کے علاوہ فرصت کے اوقات میں طلباء کو پڑھایا کرتے تھے۔ انہیں ایام میں آپ کی معیت اور صحبت کا فیض امام محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کو نصیب ہوا۔ آپ نے دہلی کالج کے علاوہ بیشتر کتابیں مولانا سے ذاتی طور پر پڑھی ہیں۔ امام محمد قاسم نانوتوی کے دہلی میں قیام کے دوران ہی قطب عالم مولانا رشید احمد گنگوہی دہلی تشریف لے گئے اور یہاں مولانا مملوک علی نانوتوی کی خدمت میں امام محمد قاسم نانوتوی کے ساتھ علوم و فنون کی تعلیم حاصل کی۔
دہلی کالج میں رہتے ہوئے آپ نے صدر مدرس کے علاوہ بھی کئی اہم شعبوں کی ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی کالج کے انگریز پرنسپل بھی آپ کی غیر معمولی خدا داد صلاحیتوں کے قائل تھے اور وقتاً فوقتاً ان باتوں کا اظہار بھی کیا کرتے تھے۔

سید احمد شہید کی تحریک سے وابستگی
جس وقت آپ دہلی میں مقیم تھے انہیں ایام میں سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ دہلی کالج میں ملازمت کی وجہ سے آپ فعال کردار تو ادا نہیں کرسکے لیکن آپ نے ایسے اسباب و وسائل اختیار کئے جن کی وجہ سے نانوتہ اور اطراف کے لوگ کثیر تعداد میں اس تحریک کا حصہ بنے، خود سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ نے اس علاقہ کا دورہ کیا اور یہاں ایک نئی امنگ ایک نیا جوش و جذبہ پیدا کرکے رخصت ہوئے۔

تصنیفات
درس وتدریس کی مشغولیت اور طلباء کے ہجوم کی وجہ سے آپ نے تصنیف و تالیف کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔ پھر بھی تقریباً چھ کتابوں پر آپ نے کام کیا ہے۔ مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی نے انہیں اس طرح ترتیب سے بیان کیا ہے۔
تصحیح سنن ترمذی
اردو ترجمہ سنن ترمذی
تصحیح و حواشی تاریخ یمینی
کتاب المختار فی الاخبار والآثار
ترجمہ اردو تحریر اقلیدس
نتیجہ تحریر
یہ چھ کتابیں ہیں جنہیں آپ نے تمام تر مصروفیات کے باوجود علمی حلقوں کیلئے مرتب فرمایا تھا۔ آپ نے دیوان حماسہ کے حاشیہ پر کام شروع کیا تھا لیکن وہ کسی وجہ سے تکمیل کو نہیں پہنچ سکا۔

وفات

1267 ہجری 1 ذی الحجہ کو آپ کی طبیعت خراب ہوئی اور یہی بیماری آپ کے لئے مرض الموت ثابت ہوئی۔ تقریباً گیارہ دنوں تک بستر مرگ پر رہے۔ ان ایام میں آپ کے صاحبزادہ حضرت مولانا یعقوب نانوتوی اور آپ کے شاگرد امام محمد قاسم نانوتوی ہمہ وقت خدمت میں مصروف رہا کرتے تھے۔ بالآخر 11 ذی الحجہ بمطابق 7 اکتوبر 1851 کو آپ اس دار فانی سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہوگئے۔ آپ کے کارناموں کو بیان کرنا اور شمار کرانا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے پہلے شیخ الحدیث آپ کے شاگرد اور صاحبزادہ حضرت مولانا یعقوب نانوتوی ہیں۔ دارالعلوم کے بانی امام محمد قاسم نانوتوی آپ کے شاگرد ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کے سرپرست مولانا رشید احمد گنگوہی آپ کے شاگرد ہیں۔دار العلوم دیوبند کی بنیاد آپ کے ہونہار شاگردوں کا کارنامہ ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قصوں میں راوی ضروری نہیں ؟مطلب کسی پیشہ ور بھانڈ قصہ گو بھی چلیں گے۔
حضرت مولانا محمد قاسم کا ایک قدیم صدیقی خاندان سے رشتہ ہے، جو اہل خاندان کی روایت واطلاع کے مطابق، ہندوستان کے لودھی خاندان کے بادشاہ، سکندرلودھی کے دور حکومت میں، ۸۷۸ھ (۷۴/۱۳۷۳ء) ہندوستان آیا تھا۔ اس خاندان کے ہندوستان آنے والے پہلے شخص شیخ مظہرالدین صدیقی تھے، صدیقیان نانوتہ کی خاندانی روایت ہے کہ سکندرلودھی نے ان کے علم وکمالات کی شہرت سنی تو ان کو ہندوستان آنے کی دعوت دی تھی، جس کو قبول کرتے ہوئے وہ ہندوستان آگئے تھے

مفصل حالات کیلئے دیکھئے:
استاذ الکل حضرت مولانا مملوک العلی نانوتوی رحمة الله عليه:
تالیف نورالحسن راشد کاندھلوی ص:۶۵ (کاندھلہ انڈیا۲۰۰۹/)۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قصوں میں راوی ضروری نہیں ؟مطلب کسی پیشہ ور بھانڈ قصہ گو بھی چلیں گے۔
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، اسی خاندان اور ماحول میں (غالباً شوال ۱۲۴۸ھ/ مارچ ۱۸۳۳ء) پیداہوئے، جب اس خاندان میں بڑے بڑے علماء موجود تھے اورہر طرف علم اور تعلیم کا چرچا رہتا تھا۔ حضرت مولانا محمد قاسم نے فارسی وعربی کی ابتدائی درسی کتابیں، مولانا مہتاب علی دیوبندی (وفات: ۱۱۹۳ھ/۱۸۷۶ء) اور مولوی محمد نواز سہارنپوری سے پڑھیں۔

محرم ۱۲۶۱ھ (جنوری ۱۸۴۵ء) میں اپنے خاندان کے عالم اور دہلی کالج کے صدر مدرس، مولانا مملوک العلی نانوتوی کی سرپرستی اور نگرانی میں مزید تعلیم کیلئے دہلی پہنچے، دہلی میں کافیہ ابن حاجب سے تعلیم کا آغاز ہوا۔ مولانا محمد قاسم اپنی فطری لیاقت وصلاحیت کی وجہ سے، تعلیم میں اپنے ہم سبق ساتھیوں اور ہم عمر طلبہ سے بھی آگے رہتے تھے، جب کسی ساتھی یا کسی اور مدرسے کے طالب علم سے بحث وگفتگو ہوتی، تو اکثر اس مقابل (طالب علم) کو مولانا سے بحث ومباحثہ کی سوچتا، مولانا سے شرمندہ ہونا پڑتا تھا، اسی طرح تیزرفتار مگر اعلیٰ درجہ کی تفہیم وتعلیم اور لیاقت سے تعلیم مکمل کی۔ مولانا کے استادزادے اور عزیز، مولانا محمد یعقوب نانوتوی نے لکھا ہے:

پھر تو مولوی صاحب ایسا چلے کہ کسی کو ساتھ ہونے کی گنجائش نہ رہی۔ معقول کی مشکل کتابیں، زواہد، (میر زاہد کی تصانیف) قاضی (مبارک کی شرح قطبی از میرزاہد) صدرا (صدرالدین شیرازی) اور شمس بازغہ (ملا محمود جون پوری) ایسا پڑھا کرتے تھے، جیسے حافظ منزل سناتا ہے۔

حالات طیب حضرت مولانا محمد قاسم:
تالیف مولانا محمد یعقوب نانوتوی۔ بحواشی نورالحسن راشد کاندھلوی ص:۱۸۰-۱۷۹
(مشمولہ: قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، احوال وآثار وباقیات متعلقات)
(کاندھلہ:۲۰۰۰/))
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قصوں میں راوی ضروری نہیں ؟مطلب کسی پیشہ ور بھانڈ قصہ گو بھی چلیں گے۔
ہندوستان کے علماء میں خداطلبی کا ذوق اور سلوک ومعرفت کی چاشنی حاصل کرنے کا، جو معمول اور اہتمام صدیوں سے چلا آرہا تھا، حضرت مولانا محمد قاسم نے اپنے اساتذہ اور رفقاء کی طرح، اس پر بھی پورا عمل کیا اوراس کے لئے اپنے زمانہ کے ایک بڑے مرشد، معرفت وسلوک کے امام اور طریقہٴ سفر کے کامل رہنما، حضرت حاجی امداد اللہ فاروقی تھانوی کا ہاتھ پکڑا۔ حضرت حاجی صاحب جملہ سلاسل تصوف کے عالی مرتبہ شیخ تھے، حضرت مولانا نے، حضرت حاجی صاحب کی سرپرستی میں تصوف کے سبق لئے اور مرشد کامل کی تعلیمات وہدایات سے روشنی حاصل کرکے، ایسے منور وتابناک بنے کہ شیخ امداد اللہ نے مولانا کو اجازت وخلافت سے نوازا، اور اپنے متوسلین کو مولانا سے استفادہ کی ہدایت کی۔ پیر ومرشد (حضرت حاجی امداداللہ) کی نگاہ میں حضرت مولانا محمد قاسم کا کیا مقام ومرتبہ تھا، اس کا حضرت حاجی امداد اللہ کی تحریروں اور مکتوبات سے اندازہ ہوتا ہے، حاجی صاحب نے مولانا محمد قاسم کے والد ماجد شیخ اسد علی نانوتوی کو ایک خط میں لکھا تھا، اور اپنی ایک اہم تصنیف ضیاء القلوب، میں یہاں تک لکھ دیا کہ:

”بخدمت بھائی صاحب مکرم معظم جناب شیخ اسد علی صاحب سلّمہ! بعد سلام ونیاز مبارکباد واللہ تعالیٰ آں جناب راتوفیق اتباع سنت نبوی عليه السلام داد، امید قوی ست کہ ہمیں عمل خیرومسئلہ نجات جناب شود، عجب نیست، وشکر کنند کہ خدا تعالیٰ شمارا یک ولی کامل عطا فرمودہ، کہ ببرکت انفاس اوایں چنیں اعمال نیک ورضامندی اللہ ورسول بظہور آمد، والا ایں دولت سرمد ہمہ کس را نہ دہند“

مرقومات امدادیہ، مکتوب اٹھارواں ص:۴۹-۴۸
جامع مکتوبات،مولانا وحید الدین رامپوری۔
ترتیب جدید: نثار احمد فاروقی (مکتبہ برہان، دہلی ۱۹۷۹/)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قصوں میں راوی ضروری نہیں ؟مطلب کسی پیشہ ور بھانڈ قصہ گو بھی چلیں گے۔
نیز ہرکس کہ ازیں فقیر محبت وعقیدت وارادت دارد مولوی رشید احمد صاحب سلّمہ ومولوی محمد قاسم صاحب سلّمہ را کہ جامع جمیع کمالات ظاہری وباطنی اند بجائے من فقیر راقم اوراق، بلکہ بمدارج فوق از من شمارند۔ اگرچہ بظاہر معاملہ برعکس شد کہ اوشان بجائے من، ومن بمقام اوشان شدم، وصحبت اوشان را غنیمت دانند، کہ ایں چنیں کساں دریں زمان نایاب اند، واز خدمت بابرکت ایشاں فیضیاب بودہ باشند“

ضیاء القلوب، مشمولہ کلیات امدادیہ ص:۶۰
(فخرالمطابع لکھنوٴ ۱۳۲۴ھ))
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قصوں میں راوی ضروری نہیں ؟مطلب کسی پیشہ ور بھانڈ قصہ گو بھی چلیں گے۔
۱۸۵۷ء کی تحریک ہوئی پسپا ہونے کے نتیجہ میں، انگریزوں کا دوبارہ تسلط قائم ہوگیا تھا، جو ان کی پہلی حکومت سے بہت زیادہ جابرانہ قاہرانہ تھا۔ اس کا ایک بہت برا اثر یہ ہوا تھا کہ اس تحریک میں شرکت کی سزا اور الزام میں لاکھوں علماء اور اہل کمال پھانسیوں پر لٹکائے گئے، ہزاروں جلاوطن ہوئے، بے شمار لوگوں کو مختلف سزائیں دی گئیں اورہزاروں حالات کی سختیوں سے مجبور ہوکر، ہندوستان سے حرمین شریفین ہجرت کرگئے تھے، جس کی وجہ سے اکثر خانقاہیں برباد، مسجدیں ویران اور مدرسے بے نام ونشان ہوگئے تھے، حالات ایسے سخت اور ناقابل بیان تھے کہ کہنا مشکل ہے، نہ کسی کو زبان کھولنے کی اجازت تھی، نہ آہ وفغاں کرنے کی۔ چوں کہ علمائے کرام اور دینی طبقہ نے ۱۸۵۷ء میں انگریز کے خلاف معرکہ آرائی میں بڑا اور سرگرم حصہ لیا تھا، اس لئے اس تحریک کے ناکام ہونے کے بعد، انگریزوں کے مظالم اور سزاؤں کانشانہ بھی یہی بنے، لیکن حالات کی پکڑ کیسی ہی سخت کیوں نہ ہو، ملت کو بہر صورت اپنا راستہ خود متعین کرنا اور چلنے کے لئے ایک طریقہ اور شاہراہ عمل مقرر کرنی ضروری تھی۔ علمائے کرام سوچتے تھے کہ ملت ایک ایسے حادثہ کاشکار ہوئی ہے کہ اگر فوراً اس کا بڑا، دیرپا مضبوط علاج اور مستقبل کی اکثر ضرورتوں میں، رہنمائی کرنے والی تدبیر اور طریقہٴ کار وضع نہ کیاگیا، تو اس ملک بلکہ پورے برصغیر میں، مسلمانوں کا اور دینی اقدار ومعاملات کاباقی رہنا مشکل ہوجائے گا، ان مشکل حالات میں جب کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کے رفقائے کرام نے، اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے، ملت ہندیہ کے لئے ایک ایسا نسخہ صحت تجویز کیا، جس نے زخم خوردہ بلکہ نیم جاں ملت اسلامیہ کو بڑی حد تک شفا بخشی اوراس کے زخموں سے چور چور جسم میں زندگی کی لہر دوڑادی۔

یہ کام دیوبند میں ایک ایسے بڑے کثیر المقاصد اور خود کفالت پر مبنی مدرسہ (دارالعلوم) کا آغاز تھا، جس نے اس ملک میں رہنے بسنے والے تمام مسلمانوں میں امید کی ایک شمع روشن کردی تھی، عام مسلمانوں نے دیوبند سے اٹھنے والی اس آواز، اس تحریک، اس جدوجہد کی بھرپور آبیاری کی اور حضرت مولانا محمدقاسم اور ان کے عالی مرتبت رفقاء کے منصوبوں کو، پورے حوصلہ، جذبہ اور اخلاص ودردمندی کے ساتھ آگے بڑھایا، اور پروان چڑھایا،یہاں تک کہ وہ ایسا گھنا اور بافیض سایہ بن گیا، کہ اب ہندوپاکستان کے مسلمان ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا میں امت مسلمہ کا ایک حصہ، اسی کے زیرسایہ،اتباع شریعت وسنت، تعلیم قرآن وحدیث اور پیروی دین، کا سفر طے کررہا ہے، اور یہ بات بلا تکلف کہی جاسکتی ہے، کہ عصر حاضر میں کم سے کم ہندوپاکستان اور بنگلہ دیش میں کوئی بڑا دینی علمی ادارہ اور فکر صحیح اور عمل قرآن وسنت کا مرکز ایسا نہیں ہے، جس کا رشتہ دارالعلوم سے جڑا ہوا نہ ہو۔

اس مدرسہ اور دارالعلوم کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے، دینی خدمت اور ایسے افراد وعلماء تیار کرنا تھا، جو آگے چل کر ملت کی زمام سنبھالیں اور ہندوستان کے سیاسی حالات میں اس کی ڈوبتی کشتی کو طوفان سے سلامت نکال کر، دریا کے کنارہ پر لانے کی جدوجہد کے لئے، اپنی زندگی اور دوسرے تمام مقاصد فنا کردیں، اور قال اللہ وقال الرسول صلى الله عليه کا بھولا ہوا سبق، پوری ملت اسلامیہ کے کانوں اور دل میں پوری طرح اتار دیں۔

اس مدرسہ دیوبند (دارالعلوم) کا ۱۵/محرم الحرام ۱۲۸۳ھ (پنجشنبہ ۳۰/مئی ۱۸۶۶ء) کو بے سروسامانی کی حالت میںآ غاز ہوا تھا، افتتاح کے وقت اس میں صرف ایک استاذ تھے اور ان کے سامنے بیٹھنے والے دو تین طالب علم تھے، مدرسہ کی کوئی عمارت تھی نہ کچھ اور سامان، دیوبند کی ایک کئی سو سال پرانی مسجد (چھتہ) کے صحن میں موجود، انار کے ایک درخت کے نیچے اس کی ابتداء ہوئی تھی، مگر حق تعالیٰ شانہ کو اس مکتب ومدرسہ کے بانیوں کا اخلاص، ان کی حسن نیت اور سادگی کا عمل کچھ ایسا پسند آیا کہ یہی چھوٹا سا مکتب اور مدرسہ آگے بڑھ کر، ایک بڑا دارالعلوم، ایک ممتاز عالمی درس گاہ، ایک بہت بڑی، بہت کثیر المقاصد، بہت ہمہ جہت اور بہت دوراندیش تحریک ثابت ہوئی، اس مدرسہ کے قیام نے برصغیر (ہندوپاکستان، بنگلہ دیش) کے دینی ماحول میں امیدوں کے چراغ روشن کردئیے، اور پوری ملت اسلامیہ کو ایک واضح طریقہ عمل اورایسی شاہراہ مستقیم عنایت کردی کہ برصغیر کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی باشعور اور دیندار اکثریت، اس کے سایہ میں سفرکررہی ہے۔ دیوبند کے مدرسے کے قیام اور دینی تعلیم جاری ہونے اور اس کے باقاعدہ عمدہ انتظام کی، اس قدر پذیرائی، تحسین اور پرجوش تعاون ہوا کہ مدرسہ دیوبند کے بلند مرتبہ رہنماؤں میں سب سے ممتاز شخصیت، حضرت مولانا محمد قاسم نے تھوڑے تھوڑے وقفہ سے، مختلف مقامات پر اسی قسم کے پانچ مدرسے اور قائم کئے، ان سے بھی اس طرح علم اور دین پر عمل کا چرچا شروع ہوا، اور ان میں ہر ایک مدرسہ نے دارالعلوم دیوبند کے مقاصد، طریقہ تعلیم اور دینی عقیدہ ونظریات کو اپنا رہنما قرار دیا اور پھر یہ مدرسے بھی بڑھتے بڑھتے گھنے درخت بن گئے، اور اب ان مدرسوں کے تعلیم و تربیت یافتہ لاکھوں افراد، خصوصاً ہندوستان اور عموماً دنیاکے گوشہ گوشہ میں، دینی اصلاحی، تبلیغی، ملی خدمات، پورے اطمینان اور توجہ سے انجام دے رہے ہیں۔

دارالعلوم دیوبند کی تاریخ اردو، عربی اور انگریزی میں بارہ تیرہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ تفصیلات ان میں درج ہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

Grave_of_Mamluk_Ali_Nanautawi.jpg
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
یہ کوئی حدیث کی روایت نہیں ہے کہ آپ کو راوی چاہیے

حضرت شیخ الحدیث مولانامحمد زکریاصاحب فرماتے ہیں: صوفیہ کرام کے واقعات تاریخی حیثیت رکھتے ہی ہیں اور ظاہر ہے کہ تاریخ کا درجہ حدیث کے درجے سے کہیں کم ہے۔ (فضائل نماز: ص ۸۳ آخری گذارش) لہٰذا واقعہ کا ثبوت حدیث کی طرح سند کے ساتھ ضروری نہیں ہے تسلسل اور شہرت کی بنا پر بھی ذکر کیا جاسکتا ہے​

 
Top