سورة بنی اسرائیل مفتی تقی عثمانی تفسیر آسان قرآن

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
تعارف
اس سورت کی سب سے پہلی آیت ہی یہ بتا رہی ہے کہ اس کا نزول معراج مبارک کے واقعے کے بعد ہوا ہے۔ اگرچہ معراج کے واقعے کی ٹھیک ٹھیک تاریخ یقینی طور پر متعین کرنا مشکل ہے، لیکن زیادہ تر روایات کا رجحان اس طرف ہے کہ یہ عظیم واقعہ آنحضرتﷺ کی بعثت کے دس سال بعد اور ہجرت سے تین سال پہلے پیش آیا تھا۔ اس وقت تک اسلام کی دعوت کا پیغام نہ صرف عرب کے بت پرستوں تک، بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں تک بھی پہنچ چکا تھا۔ اس سورت میں معراج کے غیر معمولی واقعے کا حوالہ دے کر آنحضرتﷺ کی رسالت کا ناقابل انکار ثبوت فراہم کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد بنو اسرائیل کے واقعے کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ کس طرح انہیں دو مرتبہ اللہ کی نافرمانی کی پاداش میں ذلت و رسوائی اور دشمن کے ہاتھوں بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طرح مشرکین عرب کو سبق دیا گیا ہے کہ وہ قرآن کریم کی مخالفت سے بازآ جائیں، ورنہ ان کو بھی اسی قسم کے انجام سے سابقہ پیش آ سکتا ہے، کیونکہ اس وقت قرآن کریم ہی وہ واحد کتاب ہے جو اعتدال کے ساتھ سیدھے راستے کی طرف ہدایت کر رہی ہے۔ (آیت نمبر ۹) پھر آیت نمبر ۲۲ سے ۳۸ تک مسلمانوں کو ان کے دینی، معاشرتی اور اخلاقی طرز عمل کے بارے میں نہایت اہم ہدایات دی گئی ہیں۔ اور مشرکین کے نامعقول اور معاندانہ طرز عمل کی مذمت کر کے ان کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے، اور مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اسی کی عبادت کرتے رہیں۔
چونکہ سورت کے شروع میں بنو اسرائیل کے ساتھ پیش آنے والے دو اہم واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے، اس لیے سورت کا نام سورة بنی اسرائیل ہے۔ اور اس کا دوسرا نام سورة الاسراء بھی ہے۔ اسراء سفر معراج کو اور خاص طور پر اس سفر کے اس حصے کو کہا جاتا ہے جس میں آنحضرتﷺ کو مسجد حرام سے بیت المقدس تک لے جایا گیا، سورت کا آغاز ہی چونکہ اس معجزانہ سفر کے تذکرے سے ہوا ہے، اس لیے اس کو سورة الاسراء بھی کہا جاتا ہے۔

آیت ۱

ترجمہ

پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی جس کے ماحول پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ (۱) بیشک وہ ہر بات سننے والی، ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے۔

تفسیر

۱۔ اس سے معراج کے واقعے کی طرف اشارہ ہے جس کی تفصیل حدیث اور سیرت کی کتابوں میں آئی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت جبرئیلؑ آنحضرتﷺ کے پاس آئے اور رات کے وقت انہیں ایک جانور پر سوار کیا جس کا نام براق تھا، وہ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ آپﷺ کو مسجد حرام سے بیت المقدس تک لے گیا، یہ سفر معراج کا پہلا مرحلہ تھا، جسے اسراء کہا جاتا ہے، پھر وہاں سے حضرت جبریئلؑ آپﷺ کو ساتوں آسمانوں پر لے گئے، ہر آسمان پر آپﷺ کی ملاقات پچھلے پیغمبروں میں کسی پیغمبر سے ہوئی، اس کے بعد جنت کے ایک درخت سدرۃ المنتہی پر تشریف لے گئے، اور آپ کو اللہ تعالیٰ سے براہ راست ہم کلامی کا شرف عطا ہوا، اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی امت پر پانچ نمازیں فرض فرمائیں، پھر رات ہی رات میں آپ واپس مکہ مکرمہ تشریف لے آئے، اس آیت میں اس سفر کے صرف پہلے حصے کا بیان اس لئے کیا گیا ہے کہ آنے والے تذکرے سے اسی کا تعلق زیادہ تھا، البتہ سفر کے دوسرے حصے کا تذکرہ سورة نجم۔ ۲۷۔ ۱۳ تا ۱۸ میں آیا ہے، صحیح روایات کے مطابق یہ معجزانہ سفر بیداری کی حالت میں پیش آیا تھا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کی ایک عظیم نشانی آپ کو دکھائی گئی تھی، یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ یہ واقعہ بیداری کے بجائے خواب میں دکھایا گیا، کیونکہ یہ بات صحیح احادیث کے تو خلاف ہے ہی قرآن کریم کا اسلوب واضح طور پر یہ بتا رہا ہے کہ یہ غیر معمولی واقعہ تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک نشانی قرار دیا ہے، اگر یہ صرف ایک خواب کا واقعہ ہوتا تو یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی، انسان خواب میں بہت کچھ دیکھتا رہتا ہے، پھر اسے اپنی ایک نشانی قرار دینے کے کوئی معنی نہیں تھے۔

آیت ۲، ۳

ترجمہ

اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تھی اور اس کو بنی اسرائیل کے لیے اس ہدایت کا ذریعہ بنایا تھا کہ تم میرے سوا کسی اور کو اپنا کارساز قرار نہ دینا۔
اے ان لوگوں کی اولاد جن کو ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں سوار کیا تھا۔ (۲) اور وہ بڑے شکر گزار بندے تھے۔

تفسیر

۲۔ حضرت نوعؑ کی کشتی کا حوالہ خاص طور پر اس لیے دیا گیا ہے کہ جو لوگ اس کشتی میں سوار ہوئے تھے، انہیں اللہ تعالیٰ نے طوفان میں ڈوبنے سے بچا لیا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم تھا، اسے یاد دلا کر فرمایا جا رہا ہے کہ اس نعمت کا شکر یہ ہے کہ ان لوگوں کی اولاد اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو اپنا معبود نہ بنائے۔

آیت ۴، ۵

ترجمہ

اور ہم نے کتاب میں فیصلہ کر کے بنو اسرائیل کو اس بات سے آگاہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو مرتبہ فساد مچاؤ گے، اور بڑی سرکشی کا مظاہرہ کرو گے۔
چنانچہ جب ان دو واقعات میں سے پہلا واقعہ پیش آیا تو ہم نے تمہارے سروں پر اپنے ایسے بندے مسلط کر دیے جو سخت جنگجو تھے، اور وہ تمہارے شہروں میں گھس کر پھیل گئے۔ (۳) اور یہ ایک ایسا وعدہ تھا جسے پورا ہو کر رہنا ہی تھا۔

تفسیر

۳۔ جب بنو اسرائیل کی نافرمانیاں حد سے بڑھ گئی تھیں تو بابل کے بادشاہ بخت نصر نے ان پر حملہ کر کے ان کا قتل عام کیا تھا اور جو زندہ رہ گئے تھے، انہیں گرفتار کر کے فلسطین سے بابل لے گیا تھا جہاں مدت دراز تک وہ اس کی غلامی میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرتے رہے، اس آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

آیت ۶

ترجمہ

پھر ہم نے تمہیں یہ موقع دیا کہ تم پلٹ کر ان پر غالب آؤ، اور تمہارے مال و دولت اور اولاد میں اضافہ کیا، اور تمہاری نفری پہلے سے یادہ بڑھا دی۔ (۴)

تفسیر

۴۔ تقریباً ستر سال تک بخت نصر کی غلامی میں رہنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر اس طرح رحم فرمایا کہ ایران کے بادشاہ اخسویرس نے بابل پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا، اس موقع پر اسے ان یہودیوں کی حالت زار پر رحم آیا اور اس نے ان کو آزاد کر کے دوبارہ فلسطین میں بسا دیا، اس طرح ان کو دوبارہ خوشحالی ملی، اور ایک مدت تک وہ بڑی تعداد میں وہاں آباد رہے، مگر جب خوشحالی ملنے پر انہوں نے دوبارہ بد اعمالیوں پر کمر باندھی تو وہ دوسرا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر اگلی آیت میں آ رہا ہے۔

آیت ۷

ترجمہ

اگر تم اچھے کام کرو گے تو اپنے ہی فائدے کے لیے کرو گے، اور برے کام کرو گے تو بھی وہ تمہارے لیے ہی برا ہو گا۔ چنانچہ جب دوسرے واقعے کی میعاد آئی (تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کر دیا) تاکہ وہ تمہارے چہروں کو بگاڑ ڈالیں، اور تاکہ وہ مسجد میں اسی طرح داخل ہوں جیسے پہلے لوگ داخل ہوئے تھے، اور جس جس چیز پر ان کا زور چلے، اس کو تہس نہس کر کے رکھ دیں۔ (۵)

تفسیر

۵۔ بعض حضرات نے تو کہا ہے کہ اس دوسرے دشمن سے مراد انتیو کس ایپی فانیوس ہے جس نے حضرت عیسیٰؑ کی تشریف آوری سے کچھ پہلے دوبارہ بیت المقدس پر حملہ کر کے یہودیوں کا قتل عام کیا تھا، اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰؑ کے رفع آسمانی کے بعد روم کے شاہ طیطوس کا حملہ ہے، اگرچہ بنی اسرائیل پر مختلف زمانوں میں بہت سے دشمن مسلط رہے ہیں، لیکن ان دو دشمنوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اس لئے فرمایا ہے کہ ان کے حملوں میں انہیں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا، اور ان میں سے پہلا دشمن یعنی بخت نصر ان پر اس وقت مسلط کیا گیا جب انہوں نے حضرت موسیٰؑ کی شریعت کی خلاف ورزی کی، اور دوسرا دشمن اس وقت مسلط کیا گیا جب انہوں نے حضرت عیسیٰؑ کی مخالفت کی اور آگے یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر تم حضرت محمدﷺ کی مخالفت کرو گے تو تمہارے ساتھ ویسا ہی سلوک دوبارہ کیا جائے گا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۸ ۔ ۱۱

ترجمہ

عین ممکن ہے کہ (اب) تمہارا رب تم پر رحم کرے۔ لیکن اگر تم پھر وہی کام کرو گے، تو ہم بھی دوبارہ وہی کریں گے، اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنا ہی رکھا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے، اور جو لوگ (اس پر) ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں، انہیں خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے۔
اور یہ بتاتا ہے کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ان کے لیے ہم نے ایک دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اور انسان برائی اس طرح مانگتا ہے جیسے اسے بھلائی مانگنی چاہیے۔ (۶) اور انسان بڑا جلد باز واقع ہوا ہے۔

تفسیر

۶۔ کافر لوگ آنحضرتﷺ سے جو کہا کرتے تھے کہ اگر ہمیں ہمارے کفر پر عذاب ہونا ہے تو ابھی فوراً کیوں نہیں ہو جاتا؟ یہ ان کی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ لوگ جلد بازی میں عذاب کی برائی کو اس طرح مانگ رہے ہیں جیسے وہ کوئی اچھی چیز ہو۔

آیت ۱۲

ترجمہ

اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیوں کے طور پر پیدا کیا ہے۔ پھر رات کی نشانی کو تو اندھیری بنا دیا، اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا، تاکہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کروسکو۔ (۷) اور تاکہ تمہیں سالوں کی گنتی اور (مہینوں کا) حساب معلوم ہو سکے۔ اور ہم نے ہر چیز کو الگ الگ واضح کر دیا ہے۔

تفسیر

۷۔ یعنی دن اور رات کا ایک دوسرے کے بعد تسلسل کے ساتھ آنا اللہ تعالیٰ کی قدرت اور رحمت و حکمت کی نشانی ہے، رات کے وقت اندھیرا چھا جاتا ہے، تاکہ لوگ اس میں آرام کر سکیں اور دن کے وقت روشنی ہوتی ہے تاکہ لوگ اپنا روز گار تلاش کر سکیں، جس کو قرآن کریم‘‘ اللہ کا فضل ’’سے تعبیر کرتا ہے اور رات اور دن کے بدلنے ہی سے تاریخوں کا تعین ہوتا ہے۔

آیت ۱۳

ترجمہ

اور ہر شخص (کے عمل) کا انجام ہم نے اس کے اپنے گلے سے چمٹا دیا ہے۔ (۸) اور قیامت کے دن ہم (اس کا) اعمال نامہ ایک تحریر کی شکل میں نکال کر اس کے سامنے کر دیں گے جسے وہ کھلا ہوا دیکھے گا۔

تفسیر

۸۔ انجام کو گلے سے چمٹانے کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کے تمام اعمال ہر لمحے لکھے جا رہے ہیں جو اس کے اچھے یا برے انجام کی نشان دہی کرتے ہیں، اور جب قیامت آئے گی تو یہ سارا اعمال نامہ اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے گا جسے وہ خود پڑھ سکے گا، حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ جو شخص دنیا میں ان پڑھ تھا قیامت کے دن اسے بھی اپنا اعمال نامہ پڑھنے کی صلاحیت دے دی جائے گی۔

آیت ۱۴ ۔ ۱۸

ترجمہ

(کہا جائے گا کہ) لو پڑھ لو اپنا اعمال نامہ! آج تم خود اپنا حساب لینے کے لیے کافی ہو۔
جو شخص سیدھی راہ پر چلتا ہے تو وہ خود اپنے فائدے کے لیے چلتا ہے، اور جو گمراہی کا راستہ اختیار کرتا ہے وہ اپنے ہی نقصان کے لیے اختیار کرتا ہے۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور ہم کبھی کسی کو اس وقت تک سزا نہیں دیتے جب تک کوئی پیغمبر (اس کے پاس) نہ بھیج دیں۔
اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو (ایمان اور اطاعت کا) حکم دیتے ہیں، پھر وہ وہاں نافرمانیاں کرتے ہیں، تو ان پر بات پوری ہو جاتی ہے، چنانچہ ہم انہیں تباہ و برباد کر ڈالتے ہیں۔
اور کتنی ہی نسلیں ہیں جو ہم نے نوح کے بعد ہلاک کریں۔ اور تمہارا رب اپنے بندوں کے گناہوں سے پوری طرح باخبر ہے، سب کچھ دیکھ رہا ہے۔
جو شخص دنیا کے فوری فائدے ہی چاہتا ہے تو ہم جس کے لیے چاہتے ہیں جتنا چاہتے ہیں، اسے یہیں پر جلدی دے دیتے ہیں، (۹) پھر اس کے لیے ہم نے جہنم رکھ چھوڑی ہے جس میں وہ ذلیل و خوار ہو کر داخل ہو گا۔

تفسیر

۹۔ یہ اس شخص کا ذکر ہے جس نے اپنی زندگی کا مقصد ہی دنیا کی بہتری کو بنارکھا ہے اور آخرت پر یا تو ایمان نہیں، یا اس کی کوئی فکر نہیں، نیز اس قسم میں وہ شخص بھی داخل ہے جو کوئی نیکی کا کام دنیا کی دولت یا شہرت حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے نہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو دنیا کے یہ فوائد ملنے کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے، نہ اس بات کی گارنٹی ہے کہ جتنے فائدے وہ چاہ رہے ہیں وہ سب مل جائیں، البتہ ان میں سے جن کو ہم مناسب سمجھتے ہیں دنیا میں دے دیتے ہیں، مگر آخرت میں ان کا انجام جہنم ہے۔

آیت ۱۹، ۲۰

ترجمہ

اور جو شخص آخرت (کا فائدہ) چاہے اور اس کے لیے ویسی ہی کوشش کرے جیسی اس کے لیے کرنی چاہے، جبکہ وہ مومن بھی ہو، تو ایسے لوگوں کی کوشش کی پوری قدر دانی کی جائے گی۔
(اے پیغمبر) جہاں تک (دنیا میں) تمہارے رب کی عطا کا تعلق ہے ہم ان کو بھی اس سے نوازتے ہیں، اور ان کو بھی (۱۰) اور (دنیا میں) تمہارے رب کی عطا کسی کے لیے بند نہیں ہے۔

تفسیر

۱۰۔ یہاں عطا سے مراد دنیا کا رزق ہے یعنی مومن و کافر اور متقی اور فاسق ہر شخص کو دنیا میں اللہ تعالیٰ رزق عطا فرماتے ہیں، یہ رزق کسی پر بند نہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۲۱

ترجمہ

دیکھو ہم نے کس طرح ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے۔ (۱۱) اور یقین رکھو کہ آخرت درجات کے اعتبار سے بہت بڑٰ ہے، اور فضیلت کے اعتبار سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

تفسیر

۱۱۔ یعنی دنیا میں کسی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت زیادہ رزق عطا فرمایا ہے، اور کسی کو کم، البتہ جس چیز کے لئے انسان کو پوری کوشش کرنی چاہئے وہ آخرت کے فوائد ہیں کیونکہ وہ دنیا کے فوائد کے مقابلے میں بدرجہا زیادہ ہیں۔

آیت ۲۲

ترجمہ

اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بناؤ، ورنہ تم قابل ملامت (اور) بے یار و مددگار ہو کر بیٹھ رہو گے۔ (۱۲)

تفسیر

۱۲۔ آیت نمبر ۱۹ میں فرمایا گیا تھا کہ آخرت کی بھلائی حاصل کرنے کے لیے بندے کو ویسی ہی کوشش کرنی ہے جیسی کرنی چاہئے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کی طرف اشارہ تھا۔ اب یہاں سے ایسے کچھ احکام کی تفصیل بیان فرمائی جا رہی ہے جس کو سب سے پہلے توحید کے حکم سے شروع کیا گیا ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر کوئی عمل مقبول نہیں ہوتا۔ اس کے بعد کچھ احکام حقوق العباد سے متعلق بیان کیے گئے ہیں۔

آیت ۲۳۔ ۲۵

ترجمہ

اور تمہارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اف تک نہ کہو، اور نہ انہیں جھڑکو۔ بلکہ ان سے عزت کے ساتھ بات کیا کرو۔
اور ان کے ساتھ محبت کا برتاؤ کرتے ہوئے ان کے سامنے اپنے آپ کو انکساری سے جھکاؤ، اور یہ دعا کرو کہ یا رب! جس طرح انہوں نے میرے بچپن میں مجھے پایا ہے، آپ بھی ان کے ساتھ رحمت کا معاملہ کیجیے۔
تمہارا رب خوب جانتا ہے تمہارے دلوں میں کیا ہے۔ اگر تم نیک بن جاؤ، تو وہ ان لوگوں کی خطائیں بہت معاف کرتا ہے جو کثرت سے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ (۱۳)

تفسیر

۱۳۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم ایمان رکھتے ہو، اور مجموعی حیثیت سے نیکی کے کام کرنے کی کوشش کرتے ہو، پھر بشری تقاضوں سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے، اور تم اس پر توبہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے رجوع کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ معاف فرما دیں گے۔

آیت ۲۶

ترجمہ

اور رشتہ دار کو اس کا حق دو، اور مسکین اور مسافر کو (ان کا حق) اور اپنے مال کو بے ہودہ کاموں میں نہ اڑاؤ (۱۴)

تفسیر

۱۴۔ قرآن کریم نے یہاں ’’تبذیر‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ عام طور سے تبذیر اور اسراف دونوں کا ترجمہ فضول خرچی سے کیا جاتا ہے۔ لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ اگر جائز کام میں خرچ کیا جائے۔ لیکن ضرورت یا اعتدال سے زیادہ خرچ کیا جائے تو وہ اسراف ہے اور اگر مال کو ناجائز اور گناہ کے کام میں خرچ کیا جائے تو وہ تبذیر ہے اسی لیے یہاں ترجمہ ’’بیہودہ کاموں میں مال اڑانے‘‘ سے کیا گیا ہے۔

آیت ۲۷، ۲۸

ترجمہ

یقین جانو کہ جو لوگ بے ہودہ کاموں میں مال اڑاتے ہیں، وہ شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکرا ہے۔
اور اگر کبھی تمہیں ان (رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں) سے اس لیے منہ پھیرنا پڑے کہ تمہیں اللہ کی متوقع رحمت کا انتظار ہو (۱۵) تو ایسے میں ان کے ساتھ نرمی سے بات کر لیا کرو۔

تفسیر

۱۵۔ یعنی کسی ضرورت مند کو کچھ دینے سے اس لے انکار کرنے کی نوبت آ جائے کہ اس وقت تمہارے پاس دینے کے لیے کچھ نہ ہو، لیکن تمہیں یہ توقع ہو کہ آئندہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وسعت عطا فرما دیں گے تو ایسے میں اس ضرورت مند سے نرم الفاظ میں معذرت کر سکتے ہو۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۲۹ ۔ ۳۱

ترجمہ

اور نہ تو (ایسے کنجوس بنو کہ) اپنے ہاتھ کو گردن سے باندھ کر رکھو، اور نہ (ایسے فضول خرچ کہ) ہاتھ کو بالکل ہی کھلا چھوڑ دو جس کے نتیجے میں تمہیں قابل ملامت اور قلاش ہو کر بیٹھنا پڑے۔
حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق میں وسعت عطا فرما دیتا ہے، اور (جس کے لیے چاہتا ہے) تنگی پیدا کر دیتا ہے۔ یقین رکھو کہ وہ اپنے بندوں کے حالات سے اچھی طرح باخبر ہے، انہیں پوری طرح دیکھ رہا ہے۔
اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو۔ (۱۶) ہم انہیں بھی رزق دیں گے، اور تمہیں بھی۔ یقین جانو کہ ان کو قتل کرنا بڑی بھاری غلطی ہے۔

تفسیر

۱۶۔ مشرکین عرب بعض اوقات تو لڑکیوں کو اس لئے دفن کر دیتے تھے کہ اپنے گھر میں لڑکی کے وجود ہی کو وہ باعث شرم سمجھتے تھے، اس کے علاوہ بعض مرتبہ اولاد کو اس لئے قتل کر دیتے تھے کہ ان کو کھلانے سے مفلس ہو جانے کا احتمال تھا۔

آیت ۳۲، ۳۳

ترجمہ

اور زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو، وہ یقینی طور پر بڑی بے حیائی اور بے راہ روی ہے۔
اور جس جان کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے، اسے قتل نہ کرو، الا یہ کہ تمہیں (شرعاً) اس کا حق پہنچتا ہو۔ (۱۷) اور جو شخص مظلومانہ طور پر قتل ہو جا ۴ے تو ہم نے اس کے ولی کو (قصاص کا) اختیار دیا ہے۔ چنانچہ اس پر لازم ہے کہ وہ قتل کرنے میں حد سے تجاوز نہ کرے۔ (۱۸) یقیناً وہ اس لائق ہے کہ اس کی مدد کی جائے۔

تفسیر

۱۷۔ کسی کو قتل کرنے کا حق صرف چند صورتوں میں پہنچا ہے جن میں سے ایک اہم صورت کا ذکر اگلے جملے میں آ رہا ہے اور وہ یہ کہ کسی شخص کو ظالمانہ طور پر قتل کر دیا گیا ہو تو اس کے ولی یعنی وارثوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ بدلے میں عدالتی کار روائی کے بعد قاتل کو قتل کریں، یا کروائیں، اس بدلے کو ’’قصاص‘‘ کہا جاتا ہے۔
۱۸۔ قاتل کو قصاص میں قتل کروانے کا حق تو اولیاء مقتول کو حاصل ہے لیکن اس سے زیادہ کسی کار روائی کا حق نہیں ہے۔ چنانچہ ہاتھ پاؤں یا دوسرے اعضاء کو کاٹنا یا قتل کرنے کے لیے کوئی زیادہ تکلیف دہ طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ ایسا کوئی طریقہ اختیار کیا جائے تو اسے قرآن کریم نے حد سے تجاوز قرار دیا ہے۔

آیت ۳۴

ترجمہ

اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ پھٹکو، مگر ایسے طریقے سے جو (اس کے حق میں) بہترین ہو، (۱۹) یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی کو پہنچ جائے، اور عہد کو پورا کرو، یقین جانو کہ عہد کے بارے میں (تمہاری) باز پرس ہونے والی ہے۔

تفسیر

۱۹۔ یہ یتیم کے رشتہ داروں اور خاص طور پر اس کے سرپرستوں کو خطاب ہو رہا ہے کہ اگر یتیم کو اپنے مرحوم باپ سے میراث میں کوئی مال ملا ہو تو اسے امانت سمجھو اور اس میں وہی تصرف تمہارے لئے جائز ہے جو یتیم کے حق میں فائدہ مند ہو، کوئی ایسا کام جائز نہیں جس میں اس کو نقصان پہنچ جائے، یعنی بالغ ہو کر اسے اتنی سمجھ آ جائے کہ وہ اپنے نفع نقصان کو خود سمجھنے لگے تو اس وقت اس کا مال اسی کے حوالے کر دینا واجب ہے، یہ مسئلہ قرآن کریم نے تفصیل کے ساتھ سوہ نساء (۴۔ ۲) میں بیان فرمایا ہے۔

آیت ۳۵، ۳۶

ترجمہ

اور جب کسی کو کوئی چیز پیمانے سے ناپ کر دو تو پورا ناپو، اور تولنے کے لیے صحیح ترازو استعمال کرو۔ یہی طریقہ درست ہے اور اسی کا انجام بہتر ہے۔
اور جس بات کا تمہیں یقین نہ ہو، (اسے سچ سمجھ کر) اس کے پیچھے مت پڑو۔ (۲۰) یقین رکھو کہ کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں (تم سے) سوال ہو گا۔ (۲۱)

تفسیر

۲۰۔ مثلاً جب تک کسی شخص کے بارے میں شرعی دلیل سے کوئی جرم یا گناہ ثابت نہ ہو جائے، اس وقت تک صرف شبہ کی بنیاد پر نہ اس کے خلاف سزا کی کار روائی جائز ہے، اور نہ دل میں یہ یقین کر لینا جائز ہے کہ واقعی اس نے جرم یا گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔ اس آیت کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ جن باتوں کا نہ یقینی علم حاصل ہے اور نہ ایسے علم پر دنیا اور آخرت کا کوئی کا موقوف ہے بلا وجہ ایسی چیزوں کی تحقیق اور جستجو میں پڑنا بھی جائز نہیں ہے۔
۲۱۔ اگر شرعی دلیل کے بغیر کوئی شخص دوسرے کے بارے میں یقین کر کے بیٹھ جائے کہ اس نے فلاں گناہ کا ارتکاب کیا ہے تو یہ دل کا گناہ ہے اور اس سے آخرت میں باز پرس ہو گی۔

آیت ۳۷

ترجمہ

اور زمین پر اکڑ کر مت چلو۔ نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو اور نہ بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتے ہو۔ (۲۲)

تفسیر

۲۲۔ اکڑ کر چلنے کے لیے ایک تو کچھ لوگ زمین پر زور زور سے پاؤں مار کر چلتے ہیں۔ دوسرے سینہ تان کر چلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پہلی صورت کے لیے کہا گیا ہے کہ پاؤں چاہے کتنے زور سے مار لو، تم زمین کو پھاڑ نہیں سکتے، اور دوسری صورت کے لیے فرمایا گیا ہے کہ سینہ تان کر اپنا قد اونچا کرنے کی کتنی ہی کوشش کر لو، تمہاری لمبائی پہاڑوں سے زیادہ نہیں ہو سکتی، اور اگر لمبا قد ہی فضیلت اور بڑائی کا معیار ہوتا تو پہاڑوں کو تم سے افضل ہونا چاہئے تھا۔

آیت ۳۸ ۔ ۴۰

ترجمہ

یہ سارے برے کام ایسے ہیں جو تمہارے پروردگار کو بالکل ناپسند ہیں۔
(اے پیغمبر) یہ وہ حکمت کی باتیں ہیں جو تمہارے پروردگار نے تم پر وحی کے ذریعے پہنچائی ہیں۔ اور (اے انسان) اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بنا، ورنہ تجھے ملامت کر کے، دھکے دے کر دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔
بھلا کیا تمہارے رب نے تمہیں تو بیٹے دینے کے لیے چن لیا ہے، اور خود اپنے لیے فرشتوں کو بیٹیاں بنا لیا ہے؟ (۲۳) حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ بڑی سنگین بات کہہ رہے ہو۔

تفسیر

۲۳۔ پیچھے کئی مرتبہ گزرا ہے کہ مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے، حالانکہ خود اپنے لئے بیٹیوں کی پیدائش کو برا سمجھتے تھے، اور اپنے لئے ہمیشہ بیٹوں کی تمنا کیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ عجیب معاملہ ہے کہ تمہارے خیال کے مطابق تمہیں تو اللہ تعالیٰ نے بیٹے دینے کے لئے چن لیا ہے اور خود بیٹیاں رکھی ہیں جو تمہارے خیال کے مطابق باپ کے لئے باعث عار ہوا کرتی ہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۴۱، ۴۲

ترجمہ

اور ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے وضاحتیں کی ہیں، تاکہ لوگ ہوش میں آئیں، مگر یہ لوگ ہیں کہ اس سے ان کے بدکنے ہی میں اور اضافہ ہو رہا ہے۔
کہہ دو کہ اگر اللہ کے ساتھ اور بھی خدا ہوتے جیسے کہ یہ لوگ کہتے ہیں تو وہ عرش والے (حقیقی خدا) پر چڑھائی کرنے کے لیے کوئی راستہ پیدا کر لیتے۔ (۲۴)

تفسیر

۲۴۔ یہ توحید کے حق میں اور شرک کے خلاف ایک عام فہم دلیل ہے اور وہ یہ کہ خدا ایسی ذات ہی کو کہا جا سکتا ہے جو ہر کام پر قدرت رکھتی ہو، اور کسی کے حکم کے تابع نہ ہو۔ اب اگر اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے سوا اور بھی خدا ہوتے تو ان میں سے ہر ایک دوسرے سے آزاد ہوتا، اور سب کی قدرت کامل ہوتی۔ چنانچہ یہ دوسرے خدا مل کر عرش والے خدا پر چڑھائی بھی کر سکتے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ ان کو خدا پر چڑھائی کرنے کی قدرت نہیں ہے، اور وہ خود اللہ تعالیٰ کے محکوم ہیں تو پھر وہ خدا ہی کیا ہوئے؟ ثابت ہو گیا کہ کائنات میں حقیقی خدا تو ایک ہی ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔

آیت ۴۳، ۴۴

ترجمہ

حقیقت ہے کہ جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں اس کی ذات ان سے بالکل پاک اور بہت بالا و برتر ہے۔
ساتوں آسمان اور زمین اور ان کی ساری مخلوقات اس کی پاکی بیان کرتی ہیں، اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح نہ کر رہی ہو، لیکن تم لوگ ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو۔ (۲۵) حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا بردبار، بہت معاف کرنے والا ہے۔

تفسیر

۲۵۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ساری چیزیں زبان حال سے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہیں، کیونکہ ان میں سے ہر چیز ایسی ہے کہ اگر اس کی تخلیق پر غور کیا جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور اس کی وحدانیت پر دلالت کرتی ہے، نیز ہر چیز اسی کے تابع فرمان ہے اور یہ مطلب بھی کچھ بعید نہیں ہے کہ یہ ساری چیزیں حقیقی معنی میں تسبیح کرتی ہوں، اور ہم اسے نہ سمجھتے ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز یہاں تک کہ پتھروں میں بھی ایک طرح کی حس پیدا فرمائی ہے۔ اور یہ بات قرآن کریم کی کئی آیتوں کی روشنی میں زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اور آج کی سائنس نے بھی یہ تسلیم کر لیا ہے کہ پتھروں میں بھی ایک طرح کی حس پائی جاتی ہے۔

آیت ۴۵

ترجمہ

اور (اے پیغمبر) جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ایک ان دیکھا پردہ حائل کر دیتے ہیں۔ (۲۶)

تفسیر

۲۶۔ جو لوگ اپنی اصلاح اور آخرت کی فکر سے غافل ہو کر بس دنیا کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، اور حق کی کوئی طلب ان کے دلوں میں پیدا نہیں ہوتی، بلکہ وہ حق کے مقابلے میں ضد اور عناد کی روش اختیار کر لیتے ہیں، وہ حق کو سوچنے سمجھنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ ان دیکھا پردہ ہے جو ان کے اور پیغمبر کے درمیان حائل ہو جاتا ہے، اور یہی وہ غفلت کا غلاف ہے جو ان کے دلوں پر مسلط ہو جاتا ہے، اور ان کے کانوں میں وہ گرانی پیدا کر دیتا ہے جس کی بنا پر وہ حق بات سننے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۴۶ ۔ ۵۱

ترجمہ

اور ہم ان کے دلوں پر ایسا غلاف چڑھا دیتے ہیں کہ وہ اسے سمجھتے نہیں اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دیتے ہیں۔ اور جب تم قرآن میں تنہا اپنے رب کا ذکر کرتے ہو تو یہ لوگ نفرت کے عالم میں پیٹھ پھیر کر چل دیتے ہیں۔
ہمیں خوب معلوم ہے کہ جب یہ لوگ تمہاری بات کان لگا کر سنتے ہیں تو کس لیے سنتے ہیں، اور جب یہ آپس میں سرگوشیاں کرتے ہیں (تو ان باتوں کا بھی ہمیں پورا علم ہے) جب یہ ظالم (اپنی برادری کے مسلمانوں سے) یوں کہتے ہیں کہ تم تو بس ایک ایسے آدمی کے پیچھے چل پڑے ہو جس پر جادو ہو گیا ہے۔
دیکھو انہوں نے تم پر کیسی کیسی پھبتیاں چست کی ہیں۔ یہ راہ سے بھٹک چکے ہیں۔ چنانچہ یہ راستے پر نہیں آ سکتے۔
اور یہ کہتے ہیں کہ کیا جب ہمارا وجود ہڈیوں میں تبدیل ہو کر چورا چورا ہو جائے گا تو بھلا کیا اس وقت ہمیں نئے سرے سے پیدا کر کے اٹھایا جائے گا؟
کہہ دو کہ تم پتھر یا لوہا بھی بنا جاؤ۔
یا کوئی اور ایسی مخلوق بن جاؤ جس کے بارے میں تم دل میں سوچتے ہو کہ (اس کا زندہ ہونا) اور بھی مشکل ہے، (پھر بھی تمہیں زندہ کر دیا جائے گا) اب وہ کہیں گے کہ کون ہمیں دوبارہ زندہ کرے گا؟ کہہ دو کہ وہی زندہ کرے گا جس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا۔ (۲۷) پھر وہ تمہارے سامنے سر ہلا ہلا کر کہیں گے کہ ایسا کب ہو گا؟ کہہ دینا کہ کیا بعید ہے کہ وہ وقت قریب ہی آ گیا ہو۔

تفسیر

۲۷۔ اشارہ اس طرف ہے کہ کسی چیز کو پہلی بار عدم سے وجود میں لانا زیادہ مشکل ہوتا ہے اس کے بر خلاف ایک مرتبہ پیدا کرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنا اتنا مشکل نہیں ہوتا۔ جس خدا نے پہلی بار پیدا کرنے کا زیادہ مشکل کام اپنی قدرت سے انجام دیا ہے، اس کے بارے میں یہ ماننے میں کیا دشواری ہے کہ وہ دوبارہ بھی پیدا کر سکتا ہے۔

آیت ۵۲، ۵۳

ترجمہ

جس دن وہ تمہیں بلائے گا تو تم اس کی حمد کرتے ہوئے اس کے حکم کی تعمیل کرو گے، اور یہ سمجھ رہے ہو گے کہ تم بس تھوڑی سی مدت (دنیا میں) رہے تھے۔
میرے (مومن) بندوں سے کہہ دو کہ وہی بات کہا کریں جو بہترین ہو۔ در حقیقت شیطان لوگوں کے درمیان فساد ڈالتا ہے۔ شیطان یقینی طور پر انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (۲۸)

تفسیر

۲۸۔ اس آیت میں مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ جب ان کی کافروں کے ساتھ گفتگو ہو تو ان کے ساتھ بھی خوش اسلوبی کے ساتھ بات کیا کریں کیونکہ غصے کے عالم میں سخت قسم کی باتوں سے فائدے کے بجائے نقصان ہوتا ہے اور ایسی باتیں شیطان اس لئے کہلواتا ہے کہ ان سے فساد پیدا ہو۔

آیت ۵۴ ۔ ۵۷

ترجمہ

تمہارا پروردگار تمہیں خوب جانتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو تم پر رحم فرما دے، اور چاہے تو تمہیں عذاب دیدے، اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں ان کی باتوں کا ذمہ دار بنا کر نہیں بھیجا ہے۔
اور تمہارا پروردگار ان سب کو جانتا ہے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں۔ اور ہم نے کچھ نبیوں کو دوسرے نبیوں پر فضیلت دی ہے، اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی تھی۔
(جو لوگ اللہ کے علاوہ دوسرے معبودوں کو مانتے ہیں، ان سے) کہہ دو کہ جن کو تم نے اللہ کے سوا معبود سمجھ رکھا ہے، انہیں پکار کر دیکھو۔ ہو گا یہ کہ نہ وہ تم سے کوئی تکلیف دور کر سکیں گے، اور نہ اسے تبدیل کر سکیں گے۔
جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ تو خود اپنے پروردگار تک پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرتے ہیں کہ ان میں سے کون اللہ کے زیادہ قریب ہو جائے، اور وہ اس کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں، اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ (۲۹) یقیناً تمہارے رب کا عذاب ہے ہی ایسی چیز جس سے ڈرا جائے۔

تفسیر

۲۹۔ اس سے مراد بت نہیں بلکہ وہ فرشتے اور جنات ہیں جن کو مشرکین عرب خدائی کا درجہ دیا کرتے تھے، مطلب یہ ہے کہ یہ خدا تو کیا ہوتے خود اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، اور اس کے تقرب کے راستے ڈھونڈتے رہتے ہیں۔

آیت ۵۸

ترجمہ

اور کوئی بستی ایسی نہیں ہے جسے ہم روز قیامت سے پہلے ہلاک نہ کریں، یا اسے سخت عذاب نہ دیں۔ یہ بات (تقدیر کی) کتاب میں لکھی جا چکی ہے۔ (۳۰)

تفسیر

۳۰۔ یعنی اگر کافروں پر ابھی جلدی سے کوئی عذاب نہیں آ رہا ہے تو وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہمیشہ کے لئے عذاب سے بچ گئے ہیں، واقعہ یہ ہے کہ یا تو ان پر کوئی سخت عذاب دنیا ہی میں آ جائے گا، ورنہ قیامت سے پہلے پہلے سبھی کو ہلاک ہونا ہے، اور پھر آخرت میں ان کافروں کو دائمی عذاب ہو کر رہے گا۔

آیت ۵۹

ترجمہ

اور ہم کو نشانیاں (یعنی کفار کے مانگے ہوئے معجزات) بھیجنے سے کسی اور چیز نے نہیں، بلکہ اس بات نے روکا ہے کہ پچھلے لوگ ایسی نشانیوں کو جھٹلا چکے ہیں۔ (۳۱) اور ہم نے قوم ثمود کو اونٹنی دی تھی جو آنکھیں کھولنے کے لیے کافی تھی، مگر انہوں نے اس کے ساتھ ظلم کیا۔ اور ہم نشانیاں ڈرانے ہی کے لیے بھیجتے ہیں۔

تفسیر

۳۱۔ آنحضرتﷺ کے متعدد معجزات دیکھنے کے باوجود مشرکین آپ سے نت نئے معجزات کا مطالبہ کرتے رہتے تھے، یہ ان مطالبات کا جواب ہے۔ فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب کافروں کو کوئی فرمائشی معجزہ دکھا دیا جاتا ہے، اور وہ اس کے باوجود ایمان نہیں لاتے تو انہیں عذاب سے ہلاک کر دیا جاتا ہے، جس کی ایک مثال یہ ہے کہ قوم ثمود کے مطالبے پر پہاڑ سے اونٹنی نکال دی تھی، مگر وہ پھر بھی نہ مانے اس لئے عذاب کا شکار ہوئے، اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ یہ مشرکین عرب بھی فرمائشی معجزہ دیکھنے کے باوجود اسی طرح پیغمبر کو جھٹلاتے رہیں گے جس طرح پچھلی قوموں نے جھٹلایا تھا، چونکہ ابھی ان کو ہلاک کرنا اللہ تعالیٰ کی حکمت کو منظور نہیں ہے، اس لئے فرمائشی معجزات نہیں دکھائے جا رہے ہیں۔

آیت ۶۰

ترجمہ

اور (اے پیغمبر) وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے کہا تھا کہ تمہارا پروردگار (اپنے علم سے) تمام لوگوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ (۳۲) اور ہم نے جو نظارہ تمہیں دکھایا ہے، اس کو ہم نے (کافر) لوگوں کے لیے ایک فتنہ بنا دیا۔ (۳۳) نیز اس درخت کو بھی جس پر قرآن میں لعنت آئی ہے۔ اور ہم تو ان کو ڈراتے رہتے ہیں، لیکن اس سے ان کی سخت سرکشی ہی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

تفسیر

۳۲۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو بتا دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ یہ ہٹ دھرم لوگ کسی صورت میں ایمان نہیں لائیں گے، چنانچہ ان کی ہٹ دھرمی کی دو مثالیں دی گئی ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو معراج کے موقع پر جو نظارہ دکھایا وہ آپ کے پیغمبر ہونے کی کھلی دلیل تھی، کافروں نے آپﷺ سے بیت المقدس کے بارے میں مختلف سوالات کئے، اور آپ نے سب کے ٹھیک ٹھیک جوابات دے دئیے، جس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ واقعی آپﷺ نے راتوں رات یہ سفر کیا ہے، لیکن اتنی کھلی ہوئی بات سامنے آ جانے کے بعد بھی یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی پر ڈٹے رہے، دوسری مثال یہ ہے کہ قرآن کریم نے فرمایا تھا کہ زقوم کا درخت دوزخیوں کی غذا ہو گی، اور یہ بھی فرمایا تھا کہ یہ درخت جہنم ہی میں پیدا ہوتا ہے، اس پر کافروں نے ایمان لانے کے بجائے مذاق اڑانا شروع کیا کہ بھلا آگ میں درخت کیسے پیدا ہو سکتا ہے اور یہ نہ سوچا کہ جس ذات نے آگ پیدا کی ہے، اگر وہ اسی آگ میں کوئی درخت بھی پیدا کر دے جس کی خاصیت عام درختوں سے مختلف ہو تو بھلا اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔
۳۳۔ یعنی اسے ہدایت حاصل کرنے کے بجائے یہ اور گمراہی میں پڑ گئے جس کی تفصیل اوپر کے حاشیہ میں گذری۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۶۱، ۶۲

ترجمہ

اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے فرشتوں سے کہا تھا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ چنانچہ انہوں نے سجدہ کیا، لیکن ابلیس نے نہیں کیا۔ اس نے کہا کہ کیا میں اس کو سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے؟
کہنے لگا۔ بھلا بتاؤ یہ ہے وہ مخلوق جسے تو نے میرے مقابلے میں عزت بخشی ہے۔ اگر تو نے مجھے قیامت کے دن تک مہلت دی تو میں اس کی اولاد میں سے تھوڑے سے لوگوں کو چھوڑ کر باقی سب کو جبڑوں میں لگام ڈالوں گا۔ (۳۴)

تفسیر

۳۴۔ یعنی انہیں اس طرح اپنے قابو میں کر لوں گا جیسے گھوڑے وغیرہ کو جبڑوں میں لگام دے کر قابو میں کیا جاتا ہے۔

آیت ۶۳، ۶۴

ترجمہ

اللہ نے کہا۔ جا پھر ان میں سے جو تیرے پیچھے چلے گا تو جہنم ہی تم سب کی سزا ہو گی، مکمل اور بھرپور سزا۔
اور ان میں سے جس جس پر تیرا بس چلے۔ انہیں اپنی آواز سے بہکا لے۔ (۳۵) اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کی فوج چڑھا لا (۳۶) اور ان کے مال اور اولاد میں اپنا حصہ لگا لے، (۳۷) اور ان سے خوب وعدے کر لے۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ) شیطان ان سے جو وعدہ بھی کرتا ہے وہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

تفسیر

۳۵۔ آواز سے بہکانے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کے دلوں میں گناہ کے وسوسے پیدا کرے، اور بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد گانے بجانے کی آواز ہے جو انسان کو گناہ میں مبتلا کرتی ہے۔
۳۶۔ شیطان کو دشمن کی فوج سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح ایک فوج میں ساروں کے بھی دستے ہوتے ہیں اور پیدل چلنے والے دستے بھی، اسی طرح شیطان اپنی ایک فوج رکھتا ہے جس میں شریر جنات اور انسان شامل ہیں، یہ سب مل کر انسانوں کو بہکانے میں شیطان کی مدد کرتے ہیں۔
۳۷۔ اس میں اشارہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے مال اور اولاد کو اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف حاصل کرتا یا انہیں ناجائز کاموں میں استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اپنے مال اور اولاد میں شیطان کا حصہ لگا لیا ہے۔

آیت ۶۵

ترجمہ

یقین رکھ کہ جو میرے بندے ہیں، ان پر تیرا کوئی بس نہیں چلے گا۔ (۳۸) اور تیرا پروردگار (ان کی) رکھوالی کے لیے کافی ہے۔

تفسیر

۳۸۔ میرے بندوں سے مراد مخلص بندے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کی فکر رکھتے ہیں۔

آیت ۶۶ ۔ ۶۹

ترجمہ

تمہارا پروردگار وہ ہے جو تمہارے لیے سمندر میں کشتیاں لے چلتا ہے، تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔ یقیناً وہ تمہارے ساتھ بڑی رحمت کا معاملہ کرنے والا ہے۔
اور جب سمندر میں تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو جن (دیوتاؤں) کو تم پکارا کرتے ہو، وہ سب غائب ہو جاتے ہیں۔ بس اللہ ہی اللہ رہ جاتا ہے۔ پھر جب اللہ تمہیں بچا کر خشکی تک پہنچا دیتا ہے تو تم منہ موڑ لیتے ہو۔ اور انسان بڑا ہی ناشکرا ہے۔
تو کیا تمہیں اس بات کا کوئی ڈر نہیں رہا کہ اللہ تمہیں خشکی ہی کے ایک حصے میں دھنسا دے، یا تم پر پتھر برسانے والی آندھی بھیج دے، اور پھر تمہیں اپنا کوئی رکھوالا نہ ملے؟
اور کیا تم اس بات سے بھی بے فکر ہو گئے ہو کہ وہ تمہیں دوبارہ اسی (سمندر) میں لے جائے۔ پھر تم پر ہوا کا طوفان بھیج کر تمہاری ناشکری کی سزا میں تمہیں غرق کر ڈالے، پھر تمہیں کوئی نہ ملے جو اس معاملے میں ہمارا پیچھا کر سکے؟ (۳۹)

تفسیر

۳۹۔ یعنی اس معاملہ میں نہ کوئی ہم سے کسی قسم کی باز پرس کر سکتا ہے کہ ہم نے ایسے لوگوں کو کیوں ہلاک کیا، اور نہ کوئی ہمارے فیصلے کو ٹالنے کے لئے ہمارا پیچھا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۷۰ ۔ ۷۲

ترجمہ

اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی ہے، اور انہیں خشکی اور سمندر دونوں میں سواریاں مہیا کی ہیں، اور ان کو پاکیزہ چیزوں کا رزق دیا ہے، اور ان کو اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ہے۔
اس دن کو یاد رکھو جب ہم تمام انسانوں کو ان کے اعمال ناموں کے ساتھ بلائیں گے۔ پھر جنہیں ان کا اعمال نامہ داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا، تو وہ اپنے اعمال نامے کو پڑھیں گے، اور ان پر ریشہ برابر بھی ظلم نہیں ہو گا۔
اور جو شخص دنیا میں اندھا بنا رہا، وہ آخرت میں بھی اندھا، بلکہ راستے سے اور زیادہ بھٹکا ہوا رہے۔ (۴۰)

تفسیر

۴۰۔ یہاں اندھا ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ دنیا میں حق کو دیکھنے سے محروم رہا، چنانچہ وہ آخرت میں بھی نجات کا راستہ نہیں دیکھ سکے گا۔

آیت ۷۳ ۔ ۷۵

ترجمہ

اور (اے پیغمبر) جو وحی ہم نے تمہارے پاس بھیجی ہے، یہ (کافر) لوگ تمہیں فتنے میں ڈال کر اس سے ہٹانے لگے تھے، تاکہ تم اس کے بجائے کوئی اور بات ہمارے نام پر گھڑ کر پیش کرو، اور اس صورت میں یہ تمہیں اپنا گہرا دوست بنا لیتے۔
اور اگر ہم نے تمہیں ثابت قدم نہ بنایا ہوتا تو تم بھی ان کی طرف کچھ کچھ جھکنے کے قریب جا پہنچتے۔
اور اگر ایسا ہو جاتا تو ہم تمہیں دنیا میں بھی دگنی سزا دیتے، اور مرنے کے بعد بھی دگنی، پھر تمہیں ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار نہ ملتا۔ (۴۱)

تفسیر

۴۱۔ آنحضرتﷺ کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے گناہوں سے معصوم بنایا تھا، جس کی بنا پر آپﷺ ہر موقع پر ثابت قدم رہے، اگرچہ آپ سے کافروں کی بات ماننے کا دور دور احتمال نہیں تھا، لیکن آپﷺ کے لئے بھی فرضی نافرمانی کی صورت میں سزا کا تذکرہ کر کے اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضح فرما دی کہ کسی بھی شخص کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقرب ہونے کا اصل مدار اس کے اعمال پر ہے، اور کوئی شخص کتنا ہی مقرب ہو اگر گناہ کا ارتکاب کرے گا تو سزا کا مستحق ہو گا، بلکہ مقرب ہونے کی وجہ سے اسے دگنی سزا دی جائے گی۔

آیت ۷۶

ترجمہ

اس کے علاوہ یہ لوگ اس فکر میں بھی ہیں کہ اس سرزمین (مکہ) سے تمہارے قدم اکھاڑ دیں، تاکہ تمہیں یہاں سے نکال کر باہر کریں۔ اور اگر ایسا ہوا تو یہ بھی تمہارے بعد زیادہ دیر یہاں نہیں ٹھہر سکیں گے۔ (۴۲)

تفسیر

۴۲۔ یعنی آپﷺ کے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمانے کے بعد یہ کافر لوگ بھی مکہ مکرمہ میں زیادہ عرصہ نہیں رہ سکیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ ہجرت کے آٹھ سال بعد مکہ مکرمہ فتح ہو گیا۔ اور نویں سال تمام کافروں کو یہاں سے نکل جانے کا حکم مل گیا جس کی تفصیل سورة توبہ کے شروع میں گذر چکی ہے۔

آیت ۷۷، ۷۸

ترجمہ

یہ ہمارا وہ طریق کار ہے جو ہم نے اپنے ان پیغمبروں کے ساتھ اختیار کیا تھا جو ہم نے تم سے پہلے بھیجے تھے، اور تم ہمارے طریقے میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے۔
(اے پیغمبر) سورج ڈھلنے کے وقت سے لے کر رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو۔ (۴۳) اور فجر کے وقت قرآن پڑھنے کا اہتمام کرو۔ یاد رکھو کہ فجر کی تلاوت میں مجمع حاضر ہوتا ہے۔ (۴۴)

تفسیر

۴۳۔ سورج ڈھلنے کے بعد سے رات کے اندھیرے تک ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی چار نمازوں کی طرف اشارہ ہے، اور فجر کی نماز کا ذکر الگ سے اس لئے فرمایا گیا ہے کہ اس وقت لوگوں کو نماز کے لئے اٹھنا پڑتا ہے، جس میں دوسری نمازوں کے مقابلے میں زیادہ مشقت ہوتی ہے، اس لئے اس کو خاص اہمیت کے ساتھ الگ ذکر فرمایا گیا ہے۔
۴۴۔ اکثر مفسرین نے اس کا یہ مطلب بیان فرمایا ہے کہ صبح کی نماز میں جو تلاوت کی جاتی ہے اس میں فرشتوں کا مجمع حاضر ہوتا ہے، احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کی نگرانی کے لئے جو فرشتے مقرر ہیں وہ باری باری اپنے فرائض انجام دیتے ہیں، چنانچہ ایک جماعت فجر کے وقت آتی ہے جو سارے دن اپنے فرائض انجام دیتی ہے، اور دوسری جماعت شام کو عصر کے وقت آتی ہے، پہلی جماعت فجر کی نماز میں آ کر شریک ہوتی ہے، اور بعض مفسرین نے اس سے نمازیوں کی حاضری مراد لی ہے، یعنی فجر کی نماز میں چونکہ نمازیوں کو حاضری کا موقع دینے کے لئے اس نماز میں لمبی تلاوت کرنی چاہئے۔

آیت ۷۹

ترجمہ

اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھا کرو جو تمہارے لیے ایک اضافی عبادت ہے۔ (۴۵) امید ہے کہ تمہارا پروردگار تمہیں مقام محمود تک پہنچائے گا۔ (۴۶)

تفسیر

۴۵۔ اضافی عبادت کا مطلب بعض مفسرین نے یہ بیان فرمایا ہے کہ یہ نماز آنحضرتﷺ پر اضافی طور پر فرض تھی، عام مسلمانوں کے لئے فرض نہیں تھی اور بعض مفسرین نے اضافی عبادت کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کی طرح آنحضرتﷺ کے لئے بھی نفلی عبادت ہے۔
۴۶۔ مقام محمود کے لفظی معنی قابل تعریف مقام، اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد آنحضرتﷺ کا وہ منصب ہے جس کے تحت آپﷺ کو شفاعت کا حق دیا جائے گا۔

آیت ۸۰

ترجمہ

اور یہ دعا کرو کہ یا رب! مجھے جہاں داخل فرما اچھائی کے ساتھ داخل فرما، اور جہاں سے نکال اچھائی کے ساتھ نکال، اور مجھے خاص اپنے پاس سے ایسا اقتدار عطا فرما جس کے ساتھ (تیری) مدد ہو۔ (۴۷)

تفسیر

۴۷۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب آنحضرتﷺ کو مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ کو اپنا مستقر قرار دینے کا حکم ہوا تھا، اس وقت آپﷺ کو یہ دعا مانگنے کی تلقین فرمائی گئی تھی اور اس میں داخل کرنے سے مدینہ منورہ میں داخل کرنا اور نکالنے سے مکہ مکرمہ سے نکالنا مراد ہے، لیکن الفاظ عام ہیں اس لئے یہ دعا ہر اس موقع پر کی جا سکتی ہے جب کوئی کسی نئی جگہ جانے یا نیا کام شروع کرنے کا ارادہ کر رہا ہو۔

آیت ۸۱

ترجمہ

اور کہو کہ حق آن پہنچا، اور باطل مٹ گیا، اور یقیناً باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے۔ (۴۸)

تفسیر

۴۸۔ اس آیت کریمہ میں یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ حق یعنی اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب ہونے والا ہے، چنانچہ جب آنحضرتﷺ نے مکہ مکرمہ فتح کر لیا اور حرم میں داخل ہو کر کعبے میں بنے ہوئے بت گرائے تو اس وقت آپﷺ کی زبان مبارک پر یہی آیات تھیں۔

آیت ۸۲ ۔ ۸۵

ترجمہ

اور ہم وہ قرآن نازل کر رہے ہیں جو مومنوں کے لیے شفا اور رحمت کا سامان ہے، البتہ ظالموں کے حصے میں اس سے نقصان کے سوا کسی اور چیز کا اضافہ نہیں ہوتا۔
اور جب ہم انسان کو کوئی نعمت دیتے ہیں تو وہ منہ موڑ لیتا ہے، اور پہلو بدل لیتا ہے، اور اگر اس کو کوئی برائی چھو جائے تو مایوس ہو بیٹھتا ہے۔
کہہ دو کہ ہر شخص اپنے اپنے طریقے پر کام کر رہا ہے۔ اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے کون زیادہ صحیح راستہ پر ہے۔
اور (اے پیغمبر) یہ لوگ تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے پروردگار کے حکم سے (بنی) ہے۔ اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ بس تھوڑا ہی سا علم ہے۔ (۴۹)

تفسیر

۴۹۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ کچھ یہودیوں نے آنحضرتﷺ کا امتحان لینے کے لئے یہ سوال کیا تھا کہ روح کی حقیقت کیا ہے؟ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی ہے، اور جواب میں اتنی ہی بات بیان فرمائی گئی ہے جو انسان کی سمجھ میں آ سکتی ہے، اور وہ یہ کہ روح کی پیدائش براہ راست اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوئی ہے، انسان کے جسم اور دوسری مخلوقات میں تو یہ بات مشاہدے میں آ جاتی ہے کہ ان کی پیدائش میں کچھ ظاہری اسباب کا دخل ہوتا ہے، مثلاً نر اور مادہ کے ملاپ سے بچہ پیدا ہوتا ہے، لیکن روح ایسی چیز ہے جس کی تخلیق کا کوئی عمل انسان کے مشاہدے میں نہیں آتا، یہ براہ راست اللہ تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آتی ہے، اس سے زیادہ روح کی حقیقت کو سمجھنا عقل کے بس میں نہیں ہے۔ اس لئے فرما دیا گیا ہے کہ تمہیں بہت تھوڑا علم عطا کیا گیا ہے اور بہت سی چیزیں تمہاری سمجھ سے باہر ہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۸۶ ۔ ۹۳

ترجمہ

اور اگر ہم چاہیں تو جو کچھ وحی ہم نے تمہارے پاس بھیجی ہے، وہ ساری واپس لے جائیں، پھر تم اسے واپس لانے کے لیے ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار بھی نہ پاؤ۔
لیکن یہ تو تمہارے رب کی طرف سے ایک رحمت ہے (کہ وحی کا سلسلہ جاری ہے) حقیقت یہ ہے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر جو فضل ہو رہا ہے وہ بڑا عظیم ہے۔
کہہ دو کہ اگر تمام انسان اور جنات اس کام پر اکٹھے بھی ہو جائیں کہ اس قرآن جیسا کلام بنا کر لے آئیں، تب بھی وہ اس جیسا نہیں لا سکیں گے، چاہے وہ ایک دوسرے کی کتنی مدد کر لیں۔
اور ہم نے انسانوں کی بھلائی کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی حکمت کی باتیں طرح طرح سے بیان کی ہیں، پھر بھی اکثر لوگ انکار کے سوا کسی اور بات پر راضی نہیں ہیں۔
اور کہتے ہیں کہ ہم تم پر اس وقت تک ایمان نہیں لائیں گے جب تک تم زمین کو پھاڑ کر ہمارے لیے ایک چشمہ نہ نکال دو۔
یا پھر تمہارے لیے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ پیدا ہو جائے، اور تم اس کے بیچ بیچ میں زمین کو پھاڑ کر نہریں جاری کر دو۔
یا جیسے تم دعوے کرتے ہو، آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے ہم پر گرا دو، یا پھر اللہ کو اور فرشتوں کو ہمارے آمنے سامنے لے آؤ۔
یا پھر تمہارے لیے ایک سونے کا گھر پیدا ہو جائے، یا تم آسمان پر چڑھ جاؤ، اور ہم تمہارے چڑھنے کو بھی اس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک تم ہم پر ایسی کتاب نازل نہ کر دو جسے ہم پڑھ سکیں۔ (اے پیغمبر) کہہ دو کہ سبحان اللہ! میں تو ایک بشر ہوں جسے پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ (۵۰)

تفسیر

۵۰۔ ان آیات میں مشرکین مکہ کے وہ مطالبات بیان فرمائے گئے ہیں جو محض ضد کی بنا پر آنحضرتﷺ سے کیا کرتے تھے، آپﷺ کے متعدد معجزات ان پر ظاہر ہو چکے تھے، لیکن وہ پھر بھی نت نئی فرمائشوں سے باز نہیں آتے تھے، آپﷺ کو ان ساری فرمائشوں کا یہ مختصر جواب دینے کی تلقین فرمائی گئی ہے کہ میں خدا نہیں ہوں کہ یہ سارے کام میرے اختیار میں ہوں، میں تو ایک انسان ہوں، البتہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت جو معجزات مجھے عطا فرما دئیے ہیں ان سے زیادہ اپنے اختیار میں کوئی معجزہ نہیں دکھا سکتا۔

آیت ۹۴، ۹۵

ترجمہ

اور جب ان لوگوں کے پاس ہدایت کا پیغام آیا تو ان کو ایمان لانے سے اسی بات نے تو روکا کہ وہ کہتے تھے۔ کیا اللہ نے ایک بشر کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟
کہہ دو کہ اگر زمین میں فرشتے ہی اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو بیشک ہم آسمان سے کسی فرشتے کو رسول بنا کر ان پر اتار دیتے۔ (۵۱)

تفسیر

۵۱۔ مطلب یہ ہے کہ پیغمبر کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسی جنس سے ہو جس کی طرف وہ بھیجا جا رہا ہے، تاکہ وہ ان کی فطری ضروریات کو سمجھ کر اور ان کی نفسیات سے واقف ہو کر ان کی رہنمائی کرے، چونکہ آنحضرتﷺ کو انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہے، اس لئے آپ کا انسان ہونا قابل اعتراض نہیں، بلکہ حکمت کے عین مطابق ہے، ہاں اگر دنیا میں فرشتے آباد ہوتے تو بیشک ان کے پاس فرشتے کو رسول بنا کر بھیجا جاتا۔

آیت ۹۶ ۔ ۱۰۰

ترجمہ

کہہ دو کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان گواہ بننے کے لیے کافی ہے۔ بیشک وہ اپنے بندوں سے پوری طرح باخبر ہے، سب کچھ دیکھ رہا ہے۔
اور جسے اللہ ہدایت دے، وہی صحیح راستے پر ہوتا ہے، اور جن لوگوں کو وہ گمراہی میں مبتلا کر دے، تو اس کے سوا تمہیں ان کے کوئی مددگار نہیں مل سکتے۔ اور ہم انہیں قیامت کے دن منہ کے بل اس طرح اکٹھا کریں گے کہ وہ اندھے، گونگے اور بہرے ہوں گے۔ ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا۔ جب کبھی اس کی آگ دھیمی ہونے لگے گی، ہم اسے اور زیادہ بھڑکا دیں گے۔
یہ ان کی سزا ہے، کیونکہ انہوں نے ہماری آیتوں کا انکار کیا تھا، اور یہ کہا تھا کہ کیا جب ہم (مر کر) ہڈیاں ہی ہڈیاں رہ جائیں گے، اور چورا چورا ہو جائیں گے تو کیا پھر بھی ہمیں نئے سرے سے زندہ کر کے اٹھایا جائے گا؟
بھلا کیا انہیں اتنی سی بات نہیں سوجھی کہ وہ اللہ جس نے سارے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، وہ اس بات پر قادر ہے کہ ان جیسے آدمی پھر سے پیدا کر دے؟ اور اس نے ان کے لیے ایک ایسی میعاد مقرر کر رکھی ہے جس (کے آنے) میں ذرا بھی شک نہیں ہے۔ پھر بھی یہ ظالم انکار کے سوا کسی بات پر راضی نہیں۔
(اے پیغمبر! ان کافروں سے) کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے کہیں تمہارے اختیار میں ہوتے تو تم خرچ ہو جانے کے ڈر سے ضرور ہاتھ روک لیتے۔ (۵۲) اور انسان ہے ہی بڑا تنگ دل۔

تفسیر

۵۲۔ رحمت کے خزانوں سے یہاں مراد نبوت عطا کرنے کا اختیار ہے، کفار مکہ آنحضرتﷺ کی نبوت کا انکار کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ یہ مکہ یا طائف کے کسی بڑے آدمی کو کیوں نہیں دی گئی؟ گویا وہ یہ کہہ رہے تھے کہ کسی کو نبوت ہماری مرضی سے دینی چاہئیے تھی، اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرما رہے ہیں کہ اگر نبوت عطا کرنے کا اختیار تمہیں دے دیا جاتا تو تم اس میں اسی طرح بخل سے کام لیتے جیسے دنیوی دولت کے معاملے میں بخل کرتے ہو کہ خرچ ہونے کے ڈر سے کسی کو نہیں دیتے۔

آیت ۱۰۱

ترجمہ

اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی کھلی نشانیاں دی تھیں۔ (۵۳) اب بنو اسرائیل سے پوچھ لو کہ جب وہ ان لوگوں کے پاس گئے تو فرعون نے ان سے کہا کہ اے موسیٰ! تمہارے بارے میں میرا تو خیال یہ ہے کہ کسی نے تم پر جادو کر دیا ہے۔

تفسیر

۵۳۔ ایک صحیح حدیث میں ان نو نشانیوں کی تفسیر خود آنحضرتﷺ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ نو احکام تھے۔ شرک نہ کرو، چوری نہ کرو، زنا نہ کرو، کسی کو ناحق قتل نہ کرو، کسی پر جھوٹا الزام لگا کر اسے قتل یا سزا کے لئے پیش نہ کرو، جادو نہ کرو، سود نہ کھاؤ، پاک دامن عورتوں پر بہتان نہ باندھو، اور جہاد میں پیٹھ دکھا کر نہ بھاگو۔
(ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ)

آیت ۱۰۲ ۔ ۱۰۸

ترجمہ

موسیٰ نے کہا۔ تمہیں خوب معلوم ہے کہ یہ ساری نشانیاں کسی اور نے نہیں، آسمانوں اور زمین کے پروردگار نے بصیرت پیدا کرنے کے لیے نازل کی ہیں۔ اور اے فرعون! تمہارے بارے میں میرا گمان یہ ہے کہ تمہاری بربادی آنے والی ہے۔
پھر فرعون نے یہ ارادہ کیا تھا کہ ان سب (بنو اسرائیل) کو اس سرزمین سے اکھاڑ پھینکے، لیکن ہم نے اسے اور جتنے لوگ اس کے ساتھ تھے، ان سب کو غرق کر دیا۔
اور اس کے بعد بنو اسرائیل سے کہا کہ تم زمین میں بسو۔ پھر جب آخرت کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آئے گا تو ہم تم سب کو جمع کر کے حاضر کر دیں گے۔
اور ہم نے اس قرآن کو حق ہی کے ساتھ نازل کیا ہے، اور حق ہی کے ساتھ یہ اترا ہے۔ اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں کسی اور کام کے لیے نہیں، بکہ صرف اس لیے بھیجا ہے کہ تم (فرمانبرداروں کو) خوشخبری دو اور (نافرمانوں کو) خبردار کرو۔
اور ہم نے قرآن کے جدا جدا حصے بنائے، تاکہ تم اسے ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کے سامنے پڑھو، اور ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا ہے۔
(کافروں سے) کہہ دو کہ چاہے تم اس پر ایمان لاؤ، یا نہ لاؤ، جب یہ (قرآن) ان لوگوں کے سامنے پڑھا جاتا ہے جن کو اس سے پہلے علم دیا گیا تھا تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں۔
اور کہتے ہیں۔ پاک ہے ہمارا پروردگار! بیشک ہمارے پروردگار کا وعدہ تو پورا ہی ہو کر رہتا ہے۔ (۵۴)

تفسیر

۵۴۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں تورات اور انجیل کا علم دیا گیا تھا۔ چونکہ ان کتابوں میں نبی آخر الزماںﷺ کی تشریف آوری کی خبر دی گئی تھی، اس لیے ان کے مخلص لوگ قرآن کریم کو سن کر یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آخر زمانے میں جس کتاب کے نازل کرنے اور جس پیغمبر کو بھیجنے کا وعدہ فرمایا تھا وہ پورا ہو گیا۔

آیت ۱۰۹

ترجمہ

اور وہ روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل گر جاتے ہیں اور یہ (قرآن) ان کے دلوں کی عاجزی کو اور بڑھا دیتا ہے۔ (۵۵)

تفسیر

۵۵۔ یہ سجدہ تلاوت کی آیت ہے، یہ آیت جب بھی عربی زبان میں پڑھی جائے سجدہ کرنا واجب ہے، البتہ صرف ترجمہ پڑھنے سے یا دل میں زبان ہلائے بغیر پڑھنے سے سجدہ واجب نہیں ہوتا۔

آیت ۱۱۰

ترجمہ

کہہ دو کہ چاہے تم اللہ کو پکارو، یا رحمن کو پکارو، جس نام سے بھی (اللہ کو) پکارو گے (ایک ہی بات ہے) کیونکہ تمام بہترین نام اسی کے ہیں۔ (۵۶) اور تم اپنی نماز نہ بہت اونچی آواز سے پڑھو، اور نہ بہت پست آواز سے، بلکہ ان دونوں کے درمیان (معتدل) راستہ اختیار کرو۔ (۵۷)

تفسیر

۵۶۔ اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ عرب کے مشرکین اللہ تعالیٰ کے نام رحمن کو نہیں مانتے تھے چنانچہ جب مسلمان یا اللہ یا رحمن کہہ کر دعا کرتے تو وہ مذاق اڑاتے تھے، اور کہتے تھے کہ ایک طرف تو تم کہتے ہو کہ اللہ ایک ہے، اور دوسری طرف دو خداؤں کو پکار رہے ہو، ایک اللہ کو اور ایک رحمن کو، اس آیت میں ان کے لغو اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اللہ اور رحمن دونوں اللہ ہی کے نام ہیں بلکہ اس کے اور بھی اچھے اچھے نام ہیں جنہیں اسمائے حسنی کہا جاتا ہے ان میں سے کسی بھی نام سے اس کو پکارا جا سکتا ہے اس سے عقیدۂ توحید پر کوئی حرف نہیں آتا۔
۵۷۔ وَلَا تَجْہَرْ بِصَلَاتِکَ وَلَا تُخَافِتْ بِہَا۔ نماز میں جب بلند آواز سے تلاوت کی جاتی تو مشرکین شور مچا کر مذاق اڑاتے اور اس میں خلل ڈالنے کی کوشش کرتے تھے، اس لئے فرمایا گیا ہے کہ بہت اونچی آواز سے تلاوت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یوں بھی معتدل آواز زیادہ پسندیدہ ہے۔

آیت ۱۱۱

ترجمہ

اور کہو کہ تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جس نے نہ کوئی بیٹا بنایا، نہ اس کی سلطنت میں کوئی شریک ہے، اور نہ اسے عاجزی سے بچانے کے لیے کوئی حمایتی درکار ہے۔ (۵۸) اور اس کی ایسی بڑائی بیان کرو جیسی بڑائی بیان کرنے کا اسے حق حاصل ہے۔

تفسیر

۵۸۔ بہت سے کافروں کا یہ خیال تھا کہ جس ذات کا نہ کوئی بیٹا ہو اور نہ اس کی سلطنت میں کوئی شریک ہو، وہ تو بڑی کمزور ذات ہو گی، اس آیت نے واضح فرما دیا کہ اولاد اور مددگاروں کی حاجت اس کو ہوتی ہے جو کمزور ہو، اور اللہ تعالیٰ کی ذات اتنی قوی ہے کہ اسے کمزوری دور کرنے کے لئے نہ کسی اولاد کی ضرورت ہے نہ کسی مددگار کی حاجت۔
٭٭٭
 
Top