الفاظ کا الٹ پھیر

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
لفظ کبھی ایک زبان سے دوسری زبان میں جاکر اصل معنی سے یکسر الٹ مطلب بیان کرتے ہیں اور کبھی معنی وہی رہتے ہیں مگر صوتی یا لفظی ترتیب بدل جاتی ہے۔
عربی میں گھنگھور گھٹا کو ’ غیم ‘کہتے ہیں۔یہ لفظ قرآن میں بھی آیا ہے۔یہ کالی گھٹائیں جب چھما چھم برستی ہوئی سرزمینِ فارس پہنچیں
تو عربی کا ’ غیم ‘ یکسر الٹی ترتیب کے ساتھ فارسی میں ’ میغ ‘ ہوگیا۔۔۔۔
پھر ابر اور کالی گھٹا کے معنوں میں فارسی ’ میغ ‘ اردو کو بھی سیراب کرگیا ۔
اسی ’ میغ ‘کو بروکار لاتے ہوئے میر تقی میر کَہہ گئے ہیں: ’ تہِ میغ خورشید پنہاں ہوا ‘۔
یہی ’ میغ ‘ سنسکرت میں ’ میگھ ‘ ہے۔اول: بطور اسم ’مگھ‘ بارش کے دیوتا کا نام ہے ۔۔۔۔ ثانی: خود بادل اور برسات کو ’ میگھ ‘ کہتے ہیں۔
ایک بھارتی شاعرہ اندرا ورما کا شعر ہے:
اس کے مضراب سے جب راگ بنیں گی دیپک
میگھ چپکے سے مرے دل پہ برس جائے گا
اب اس ’ میگھ ‘ اور پانی کی رعایت سے بنگلہ دیش کے مشہور دریا ’ میگھنا ‘ کے نام پر غور کریں۔بات اور آسان ہوجائے گی ۔
یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ لفظ ’ میغ ‘ عربی زبان سے سنسکرت میں آیا ہے یا معاملہ اس کے بالکل اُلٹ ہوا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
زبر دست
بہت خوب
ہمارے استاذ فرماتے تھے صرف ملبوس مت دیکھا کرو لا بس کو بھی دیکھا کرو ۔ جناب کمال کس کا ؟۔ تحریر یا مضمون نگار کا؟

آپ سب کا بہت بہت شکریہ ۔۔۔ یقیناً اساتذہ کرام کا کمال ہے جن کا علم اور محنت قابل تعریف ہے۔
 
Top