سورة مریم مفتی تقی عثمانی تفسیر آسان قرآن

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
تعارف
اس سورت کا بنیادی مقصد حضرت عیسیٰؑ اور ان کی والدہ حضرت مریمؑ کے بارے میں صحیح عقائد کی وضاحت اور ان کے بارے میں عیسائیوں کی تردید ہے۔ اگرچہ مکہ مکرمہ میں، جہاں یہ سورت نازل ہوئی، عیسائیوں کی کوئی خاص آبادی نہیں تھی، لیکن مکہ مکرمہ کے بت پرست کبھی کبھی آنحضرتﷺ کے دعوائے نبوت کی تردید کے لیے عیسائیوں سے مدد لیا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ بہت سے صحابہ کفار مکہ کے مظالم سے تنگ آ کر حبشہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے جہاں عیسائی مذہب ہی کی حکمرانی تھی۔ اس لیے ضروری تھا کہ مسلمان حضرت عیسی، حضرت مریم، حضرت زکریا اور حضرت یحیؑ کی صحیح حقیقت سے واقف ہوں۔ چنانچہ اس سورت میں ان حضرات کے واقعات اسی سیاق وسباق میں بیان ہوئے ہیں۔ اور چونکہ یہ واضح کرنا تھا کہ حضرت عیسیٰؑ خدا کے بیٹے نہیں ہیں، جیسا کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے، بلکہ وہ انبیائے کرام ہی کے مقدس سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ اس لیے بعض دوسرے انبیائے کرامؑ کا بھی مختصر تذکرہ اس سورت میں آیا ہے۔ لیکن حضرت عیسیٰؑ کی معجزانہ ولادت اور اس وقت حضرت مریمؑ کی کیفیات سب سے زیادہ تفصیل کے ساتھ اسی سورت میں بیان ہوئی ہیں، اس لیے اس کا نام سورة مریم رکھا گیا ہے۔

آیت ۱

ترجمہ

کھیعص (۱)
تفسیر

۱۔ جیسا کہ سورة بقرہ کے شروع میں عرض کیا گیا، مختلف سورتوں کے شروع میں جو حروف مقطعات آئے ہیں، ان کا ٹھیک ٹھیک مطلب اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔

آیت ۲ ۔ ۵

ترجمہ

یہ تذکرہ ہے اس رحمت کا جو تمہارے پروردگار نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب انہوں نے اپنے پروردگار کو آہستہ آہستہ آواز سے پکارا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ میرے پروردگار! میری ہڈیاں کمزور پڑ گئی ہیں، اور سر بڑھاپے کی سفیدی سے بھڑک اٹھا ہے، اور میرے پروردگار! میں آپ سے دعا مانگ کر کبھی نامراد نہیں ہوا۔
اور مجھے اپنے بعد اپنے چچازاد بھائیوں کا اندیشہ لگا ہوا ہے۔ (۲) اور میری بیوی بانجھ ہے، لہذا آپ خاص اپنے پاس سے مجھے ایک ایسا وارث عطا کر دیجیے۔

تفسیر

۲۔ یعنی میری کوئی اولاد تو ہے نہیں، اور میرے پیچھے میرے چچازاد بھائی اپنے علم اور تقویٰ کے اعتبار سے اس مقام پر نہیں ہیں کہ وہ میرے مشن کو آگے جاری رکھ سکیں، اس لئے مجھے ان سے اندیشہ ہے کہ وہ دین کی خدمت نہیں کر سکیں گے، لہذا مجھے ایسا بیٹا عطا فرما دیجئے جو میرے علوم نبوت کا وارث ہو، حضرت زکریاؑ کی اس دعا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے جواب میں بیٹا عطا فرمانے کا تذکرہ پیچھے سورة آل عمران (۳۔ ۳۸ تا ۴۰) میں بھی گزر چکا ہے ان آیتوں کے حواشی بھی ملاحظہ فرما لئے جائیں۔

آیت ۶

ترجمہ

جو میرا بھی وارث ہو، اور یعقوبؑ کی اولاد سے بھی میراث پائے۔ (۳) اور یا رب! اسے ایسا بنایے جو (خود آپ کا) پسندیدہ ہو۔

تفسیر

۳۔ ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ میراث پانے سے حضرت زکریاؑ کا مطلب مال و دولت کی میراث نہیں تھا، بلکہ علوم نبوت کی میراث پانا مراد تھا، کیونکہ حضرت یعقوبؑ کی اولاد سے مالی وراثت پانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لہذا ان کی دعا اس اصول کے خلاف نہیں جو معروف حدیث میں آنحضرتﷺ نے بیان فرمایا ہے کہ انبیاءؑ کا ترکہ ان کے وارثوں میں تقسیم نہیں ہوتا۔

آیت ۷، ۸

ترجمہ

( آواز آئی کہ) اے زکریا! ہم تمہیں ایک ایسے لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہو گا۔ اس سے پہلے ہم نے اس کے نام کا کوئی اور شخص پیدا نہیں کیا۔
زکریا نے کہا۔ میرے پروردگار! میرے یہاں لڑکا کس طرح پیدا ہو گا جبکہ میری بیوی بانجھ ہے، اور میں بڑھاپے سے اس حال کو پہنچ گیا ہوں کہ میرا جسم سوکھ چکا ہے۔ (۴)

تفسیر

۴۔ یہ تعجب کا اظہار در حقیقت فرط مسرت میں اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر شکر ادا کرنے کا ایک اسلوب تھا۔

آیت ۹

ترجمہ

کہا۔ ہاں! ایسا ہی ہو گا۔ تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ یہ تو میرے لیے معمولی بات ہے، اور اس سے پہلے میں نے تمہیں پیدا کیا تھا جب تم کچھ بھی نہیں تھے۔ (۵)

تفسیر

۵۔ یعنی جس اللہ تعالیٰ نے تمہیں عدم سے وجود عطا فرمایا ہے، وہ یقیناً اس بات پر بھی قادر ہے کہ تمہیں بڑھاپے میں اولاد عطا فرما دے۔

آیت ۱۰

ترجمہ

زکریا نے کہا۔ میرے پروردگار! میرے لیے کوئی نشانی مقرر فرما دیجیے۔ (۶) فرمایا۔ تمہاری نشانی یہ ہے کہ تم صحت مند ہونے کے باوجود تین رات تک لوگوں سے بات نہیں کر سکو گے۔ (۷)

تفسیر

۶۔ یعنی کوئی ایسی نشانی بتا دیجئے جس سے مجھے یہ پتہ چل جائے کہ حمل قرار پا چکا ہے
۷۔ یعنی جب حمل قرار پائے گا تو تم سے بولنے کی قوت تین دن کے لیے سلب کر لی جائے گی۔ البتہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد کر سکو گے

آیت ۱۱، ۱۲

ترجمہ

چنانچہ وہ عبادت گاہ سے نکل کر اپنی قوم کے سامنے آئے، اور ان کو اشارے سے ہدایت دی کہ تم لوگ صبح و شام اللہ کی تسبیح کیا کرو۔
(پھر جب یحیٰ پیدا ہو کر بڑے ہو گئے تو ہم نے ان سے فرمایا) اے یحیٰ! کتاب کو مضبوطی سے تھام لو۔ (۸) اور ہم نے بچپن ہی میں ان کو دانائی بھی عطا کر دی تھی۔

تفسیر

۸۔ کتاب سے مراد تورات ہے، اور مضبوطی کے ساتھ تھامنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پر خود بھی پورا پورا عمل کرو۔ اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرو۔

آیت ۱۳ ۔ ۱۷

ترجمہ

اور خاص اپنے پاس سے نرم دلی اور پاکیزگی بھی۔ اور وہ بڑے پرہیزگار تھے۔
اور اپنے والدین کے خدمت گزار! نہ وہ سرکش تھے، نہ نافرمان۔
اور (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) سلام ہے ان پر اس دن بھی جس روز وہ پیدا ہوئے، اس دن بھی جس روز انہیں موت آئے گی، اور اس دن بھی جس روز انہیں زندہ کر کے دوبارہ اٹھایا جائے گا۔
اور اس کتاب میں مریم کا بھی تذکرہ کرو۔ اس وقت کا تذکرہ جب وہ اپنے گھر والوں سے علیحدہ ہو کر اس جگہ چلی گئیں جو مشرق کی طرف واقع تھا۔
پھر انہوں نے ان لوگوں کے اور اپنے درمیان ایک پردہ ڈال لیا۔ (۹) اس موقع پر ہم نے ان کے پاس اپنی روح (یعنی ایک فرشتے) کو بھیجا جو ان کے سامنے ایک مکمل انسان کی شکل میں ظاہر ہوا۔

تفسیر

۹۔ علیحدہ جا کر پردہ ڈالنے کی وجہ بعض مفسرین نے یہ بیان کی ہے کہ غسل کرنا چاہتی تھیں، اور بعض نے کہا ہے کہ عبادت کے لئے تنہائی اختیار کرنا مقصود تھا، علامہ قرطبی نے اسی کو ترجیح دی ہے۔

آیت ۱۸، ۱۹

ترجمہ

مریم نے کہا۔ میں تم سے خدائے رحمن کی پناہ مانگتی ہوں۔ اگر تم میں خدا کا خوف ہے (تو یہاں سے ہٹ جاؤ)
فرشتے نے کہا۔ میں تو تمہارے رب کا بھیجا ہوا (فرشتہ) ہوں (اور اس لیے آیا ہوں) تاکہ تمہیں ایک پاکیزہ لڑکا دوں۔ (۱۰)

تفسیر

۱۰۔ پاکیزہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے نسب اور اپنے اخلاق و عادات کے اعتبار سے پاکیزہ ہو گا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۲۰، ۲۱

ترجمہ

مریم نے کہا۔ میرے لڑکا کیسے ہو جائے گا، جبکہ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں ہے، اور نہ میں کوئی بدکار عورت ہوں؟
فرشتے نے کہا۔ ایسے ہی ہو جائے گا۔ تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ یہ میرے لیے ایک معمولی بات ہے۔ اور ہم یہ کام اس لیے کریں گے تاکہ اس لڑکے کو لوگوں کے لیے (اپنی قدرت کی) ایک نشانی بنائیں۔ اور اپنی طرف سے رحمت کا مظاہرہ کریں (۱۱) اور یہ بات پوری طرح طے ہو چکی ہے۔

تفسیر

۱۱۔ انسان کی پیدائش کا عام طریقہ تو یہ ہے کہ وہ مراد اور عورت دونوں کے ملاپ سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدمؑ کو اس طرح پیدا فرمایا کہ ان کی پیدائش میں نہ کسی مرد کا کوئی دخل تھا، نہ کسی عورت کا، اور حضرت حواء کو چونکہ انہی کی پسلی سے پیدا کیا گیا، اس لیے ان کی پیدائش میں مرد کا تو فی الجملہ دخل تھا، عورت کا کوئی دخل نہیں تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے پیدائش کی چوتھی صورت اپنی قدرت سے ظاہر فرمائی کہ حضرت عیسیٰؑ کو باپ کے بغیر صرف ماں سے پیدا فرمایا۔ اس سے ایک تو اللہ تعالیٰ کی قدرت کا مظاہرہ مقصود تھا اور دوسرے وہ ایک پیغمبر کی حیثیت میں لوگوں کے لیے رحمت بن کر تشریف لا رہے تھے۔

آیت ۲۲، ۲۳

ترجمہ

پھر ہوا یہ کہ مریم کو اس بچے کا حمل ٹھہر گیا (اور جب ولادت کا وقت قریب آیا) تو وہ اس کو لے کر لوگوں سے الگ ایک دور مقام پر چلی گئیں۔
پھر زچگی کے درد نے انہیں ایک کھجور کے درخت کے پاس پہنچا دیا۔ وہ کہنے لگیں۔ کاش کہ میں اس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی، اور مر کر بھولی بسری ہو جاتی۔ (۱۲)

تفسیر

۱۲۔ ایک پاکباز عورت کو کنوارے پن میں بچہ پیدا ہونے کے تصور سے جو بے چینی ہو سکتی ہے، وہ ظاہر ہے۔ اگرچہ عام حالات میں موت کی تمنا کرنا منع ہے، لیکن کسی دینی نقصان کے اندیشے سے ایسی تمنا منع نہیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ شدید بے چینی کے عالم میں حضرت مریمؑ کو فرشتے کی دی ہوئی بشارتوں کی طرف وقتی طور سے دھیان نہیں رہا۔ اس لیے بے ساختہ یہ کلمات زبان سے نکلے۔

آیت ۲۴ ۔ ۲۶

ترجمہ

پھر فرشتے نے ان کے نیچے ایک جگہ سے انہیں آواز دی کہ غم نہ کرو، تمہارے رب نے تمہارے نیچے ایک چشمہ پیدا کر دیا ہے۔
اور کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلاؤ، اس میں سے پکی ہوئی تازہ کھجوریں تم پر جھڑیں گی۔
اب کھاؤ، اور پیو، اور آنکھیں ٹھنڈی رکھو۔ (۱۳) اور اگر لوگوں میں سے کسی کو آتا دیکھو تو (اشارے سے) کہہ دینا کہ آج میں نے خدائے رحمن کے لیے ایک روزے کی منت مانی ہے، اس لیے میں کسی بھی انسان سے بات نہیں کریں گی۔ (۱۴)

تفسیر

۱۳۔ حضرت مریمؑ جس جگہ تشریف لے گئی تھیں، وہ کچھ بلندی پر واقع تھی، (اور شاید یہی جگہ بیت اللحم کہلاتی ہے جو بیت المقدس سے چند میل کے فاصلے پر ہے) اس کے نیچے نشیب میں سے فرشتہ ان سے دوبارہ ہم کلام ہوا، اور انہیں تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے کھانے پینے کا یہ انتظام فرما دیا ہے کہ نیچے ایک چشمہ بہہ رہا ہے اور معمولی کوشش سے تازہ کھجوریں آپ پر خود بخود جھڑ جائیں گی جن میں پوری غذائیت بھی ہے، اور تقویت کا سامان بھی۔
۱۴۔ بعض پچھلی شریعتوں میں بات چیت نہ کرنے کا روزہ رکھنا بھی عبادت کی ایک شکل تھی جو آنحضرتﷺ کی شریعت میں منسوخ ہو گئی۔ اب ایسا روزہ رکھنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو یہ ہدایت دی گئی کہ وہ ایسے روزے کی منت مان کر روزہ رکھ لیں۔ اور کوئی بات کرنا چاہے تو اسے اشاروں سے بتا دیں کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے تاکہ خواہ مخواہ لوگوں کے سوال و جواب سے مزید تکلیف نہ ہو۔

آیت ۲۷

ترجمہ

پھر وہ اس بچے کو اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں (۱۵) وہ کہنے لگے کہ مریم تم نے تو بڑا غضب ڈھا دیا۔

تفسیر

۱۵۔ بچے کی پیدائش کے بعد حضرت مریمؑ پوری طرح مطمئن ہو چکی تھیں کہ جس اللہ تعالیٰ نے یہ بچہ اپنی خاص قدرت سے پیدا فرمایا ہے، وہی ان کی برأت بھی ظاہر فرمائے گا، اس لیے اب اطمینان کے ساتھ خود ہی بچے کو لے کر لوگوں کے سامنے تشریف لے گئیں

آیت ۲۸

ترجمہ

اے ہارون کی بہن (۱۶) نہ تو تمہارا باپ کوئی برا آدمی تھی، نہ تمہاری ماں کوئی بدکار عورت تھی۔

تفسیر

۱۶۔ کہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مریمؑ حضرت ہارونؑ کی اولاد میں سے ہوں، اور ان کے قبیلے کی طرف منسوب کر کے ان کو ہارون کی بہن کہہ دیا گیا ہو جیسے حضرت ہودؑ کو ’’عاد کا بھائی‘‘ کہا گیا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے کسی بھائی کا نام ہارون ہو، اور چونکہ وہ نیک نام بزرگ تھے، اس لیے ان کی قوم نے ان کا حوالہ دیا ہو۔

آیت ۲۹، ۳۰

ترجمہ

اس پر مریم نے اس بچے کی طرف اشارہ کیا۔ لوگوں نے کہا۔ بھلا ہم اس سے کیسے بات کریں جو ابھی پالنے میں پڑا ہوا بچہ ہے؟
(اس پر) بچہ بول اٹھا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی ہے، اور نبی بنایا ہے۔ (۱۷)

تفسیر

۱۷۔ یعنی بڑے ہو کر مجھے انجیل عطا کی جائے گی، اور نبی بنایا جائے گا، اور یہ بات اتنی یقینی ہے جیسے ہو ہی چکی۔ دودھ پیتے بچے کا اس طرح بولنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھلا ہوا معجزہ تھا جس نے حضرت مریمؑ کی برأت بالکل واضح کر دی۔

آیت ۳۱

ترجمہ

اور جہاں بھی میں رہوں، مجھے بابرکت بنایا ہے، اور جب تک زندہ رہوں، مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا ہے۔ (۱۸)

تفسیر

۱۸۔ یعنی جب تک میں اس دنیا میں زندہ رہوں گا مجھ پر نماز اور زکوٰۃ فرض رہے گی۔

آیت ۳۲ ۔ ۳۴

ترجمہ

اور مجھے اپنی والدہ کا فرمانبردار بنایا ہے، اور مجھے سرکش اور سنگ دل نہیں بنایا۔
اور (اللہ کی طرف سے) سلامتی ہے مجھ پر اس دن بھی جب میں پیدا ہوا، اور اس دن بھی جس دن میں مروں گا، اور اس دن بھی جب مجھے دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔
یہ ہیں عیسیٰ بن مریم! ان (کی حقیقت) کے بارے میں سچی بات یہ ہے جس میں لوگ جھگڑ رہے ہیں۔ (۱۹)

تفسیر

۱۹۔ اس پورے واقعے کو ذکر فرما کر یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ عیسائیوں اور یہودیوں نے حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں جو افراط و تفریط اختیار کر رکھی ہے وہ حقیقت نہیں ہے۔ نہ وہ الزامات درست ہیں جو یہودیوں نے ان پر لگا رکھے ہیں، اور نہ انہیں اللہ تعالیٰ کا بیٹا ماننا صحیح ہے جیسا کہ عیسائیوں نے مان رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی بیٹے کی ضرورت نہیں ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۳۵ ۔ ۴۲

ترجمہ

اللہ کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ کوئی بیٹا بنائے، اس کی ذات پاک ہے۔ جب وہ کسی بات کا فیصلہ کر لیتا ہے تو بس اس سے یہ کہتا ہے کہ ہو جا۔ چنانچہ وہ جاتی ہے۔
اور (اے پیغمبر! لوگوں سے کہہ دو کہ) یقیناً اللہ میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار، اس لیے اس کی عبادت کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔
پھر بھی ان میں سے مختلف گروہوں نے اختلاف ڈال دیا ہے، چنانچہ جس دن یہ ایک زبردست دن کا مشاہدہ کریں گے، اس دن ان کی بڑی تباہی ہو گی جنہوں نے کفر کا ارتکاب کیا ہے۔
جس روز یہ ہمارے پاس آئیں گے اس دن یہ کتنے سننے والے اور دیکھنے والے بن جائیں گے۔ لیکن یہ ظالم آج کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔
اور (اے پیغمبر) ان کو اس پچھتاوے کے دن سے ڈرایے جب ہر بات کا آخری فیصلہ ہو جائے گا، جبکہ یہ لوگ (اس وقت) غفلت میں ہیں، اور ایمان ہیں لارہے۔
یقین جانو کہ زمین اور اس پر سارے رہنے والوں کے وارث ہم ہی ہوں گے، اور ہماری طرف ہی ان سب کو لوٹایا جائے گا۔
اور اس کتاب میں ابراہیم کا بھی تذکرہ کرو۔ بیشک وہ سچائی کے خوگر نبی تھے۔
یاد کرو جب انہوں نے اپنے باپ سے کہا تھا کہ ابا جان! آپ ایسی چیزوں کی کیوں عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں، نہ دیکھتی ہیں، اور نہ آپ کا کوئی کام کر سکتی ہیں؟ (۲۰)

تفسیر

۲۰۔ حضرت ابراہیمؑ کا باپ آزر نہ صرف بت پرست تھا، بلکہ خود بت تراشی کیا کرتا تھا۔

آیت ۴۳، ۴۴

ترجمہ

ابا جان! میرے پاس ایک ایسا علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا، اس لیے میری بات مان لیجیے، میں آپ کو سیدھا راستہ بتلا دوں گا۔
ابا جان! شیطان کی عبادت نہ کیجیے (۲۱) یقین جانیے کہ شیطان خدائے رحمن کا نافرمان ہے۔

تفسیر

۲۱۔ بتوں کی عبادت کرنے کا خیال در حقیقت شیطان کا ڈالا ہوا خیال تھا، اس لیے بتوں کی عبادت کا مطلب یہی تھا کہ انسان شیطان کو قابل اطاعت سمجھ کر اس کی عبادت کرے۔

آیت ۴۵

ترجمہ

ابا جان! مجھے اندیشہ ہے کہ خدائے رحمن کی طرف سے آپ کو کوئی عذاب نہ آ پکڑے، جس کے نتیجے میں آپ شیطان کے ساتھی بن کر رہ جائیں۔ (۲۲)

تفسیر

۲۲۔ یعنی جو انجام شیطان کو ہو وہ آپ کا بھی ہو۔

آیت ۴۶، ۴۷

ترجمہ

ان کے باپ نے کہا۔ ابراہیم! کیا تم میرے خداؤں سے بیزار ہو؟ یاد رکھو، اگر تم باز نہ آئے تو میں تم پر پتھر برساؤں گا، اور اب تم ہمیشہ کے لیے مجھ سے دور ہو جاؤ۔
ابراہیم نے کہا۔ میں آپ کو (رخصت کا) سلام کرتا ہوں۔ (۲۳) میں اپنے پروردگار سے آپ کی بخشش کی دعا کروں گا۔ (۲۴) بیشک وہ مجھ پر بہت مہربان ہے۔

تفسیر

۲۳۔ عام حالات میں کافروں کو سلام کی ابتدا کرنا جائز نہیں ہے، لیکن جہاں کوئی دینی مصلحت داعی ہو تو اس نیت سے سلام کرنے کی گنجائش ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اسلام کی توفیق دے کر سلامتی سے ہم کنار فرمائیں۔
۲۴۔ سورة توبہ (۱۱۴: ۹) میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے اس وعدے کا حوالہ دیا ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے یہ وعدہ اس وقت کیا تھا جب آپ کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے مقدر میں ایمان نہیں ہے چنانچہ جب یہ بات معلوم ہو گئی تو پھر آپ اس کے لیے دعا کرنے سے دست بردار ہو گئے۔

آیت ۴۸ ۔ ۵۰

ترجمہ

اور میں آپ لوگوں سے بھی الگ ہوتا ہوں، اور اللہ کو چھوڑ کر آپ لوگ جن جن کی عبادت کرتے ہیں، ان سے بھی، اور میں اپنے پروردگار کو پکارتا رہوں گا۔ مجھے پوری امید ہے کہ اپنے رب کا پکار کر میں نامراد نہیں رہوں گا۔
چنانچہ جب وہ ان سے اور ان (بتوں) سے الگ ہو گئے جنہیں وہ اللہ کے بجائے پکارا کرتے تھے، تو ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب (جیسی اولاد) بخشی، اور ان میں سے ہر ایک کو نبی بنایا۔
اور ان کو اپنی رحمت سے نوازا، اور انہیں اونچے درجے کی نیک نامی عطا کی۔ (۲۵)

تفسیر

۲۵۔ چنانچہ حضرت ابراہیمؑ کو نہ صرف مسلمان، بلکہ یہودی اور عیسائی بھی اپنا مقتدا سمجھتے ہیں۔

آیت ۵۱

ترجمہ

اور اس کتاب میں موسیٰ کا بھی تذکرہ کرو۔ بیشک وہ اللہ کے چنے ہوئے بندے تھے، اور رسول اور نبی تھے۔ (۲۶)

تفسیر

۲۶۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونؑ کا مفصل واقعہ اگلی سورت میں آ رہا ہے

آیت ۵۲ ۔ ۵۴

ترجمہ

ہم نے انہیں کوہ طور کی دائیں جانب سے پکارا اور انہیں اپنا راز دار بنا کر اپنا قرب عطا کیا۔
اور ہم نے ان کے بھائی ہارون کو نبی بنا کر اپنی رحمت سے انہیں (ایک مددگار) عطا کیا۔
اور اس کتاب میں اسماعیل کا بھی تذکرہ کرو۔ بیشک وہ وعدے کے سچے تھے (۲۷) اور رسول اور نبی تھے۔

تفسیر

۲۷۔ پیچھے آیت نمبر ۴۹ میں حضرت ابراہیمؑ کی اولاد میں حضرت اسماعیلؑ کا ذکر اس لیے نہیں کیا گیا تھا کہ ان کی اہمیت کے پیش نظر ان کا تذکرہ علیحدہ کرنا مقصود تھا جو اس آیت میں کیا گیا ہے۔ یوں تو سارے انبیاءؑ ہی وعدے کے سچے ہوتے ہیں، لیکن حضرت اسماعیلؑ کے لیے خاص طور پر یہ صفت اس لیے بیان فرمائی گئی ہے کہ جب انہیں ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے اپنے والد سے وعدہ کیا تھا کہ ذبح کے وقت وہ انہیں صبر کرنے والا پائیں گے (جس کا ذکر سورة صافات میں آئے گا)۔ موت کو سامنے دیکھ کر بھی انہیں اپنا یہ وعدہ یاد رہا، اور انہوں نے مثالی صبر و ضبط کا مظاہرہ فرمایا۔ اس کے علاوہ بھی وعدے کی پابندی کے معاملے میں ان کے کئی واقعات مفسرین نے بیان فرمائے ہیں۔

آیت ۵۵ ۔ ۵۷

ترجمہ

اور وہ اپنے گھر والوں کو بھی نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا تھے، اور اپنے پروردگار کے نزدیک پسندیدہ تھے۔
اور اس کتاب میں ادریس کا بھی تذکرہ کرو، بیشک وہ سچائی کے خوگر نبی تھے۔
اور ہم نے انہیں رفعت دے کر ایک بلند مقام تک پہنچا دیا تھا (۲۸)

تفسیر

۲۸۔ اس سے مراد نبوت و رسالت اور تقویٰ اور بزرگی کا اعلیٰ مرتبہ ہے جو ان کے زمانے میں انہی کو عطا ہوا۔ بائبل میں ان کے بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ الہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا تھا۔ تفسیر کی بعض کتابوں میں بھی ایسی کچھ روایتیں آئی ہیں جن کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ اس آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن یہ روایتیں سند کے اعتبار سے نہایت کمزور اور ناقابل اعتبار ہیں۔

آیت ۵۸

ترجمہ

آدم کی اولاد میں سے یہ وہ نبی ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا، اور ان میں سے کچھ ان لوگوں کی اولاد میں سے ہیں جن کو ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں) سوار کیا تھا، اور کچھ ابراہیم اور اسرائیل (یعقوبؑ) کی اولاد میں سے ہیں۔ اور یہ سب ان لوگوں میں سے ہیں جن کو ہم نے ہدایت دی، اور (اپنے دین کے لیے) منتخب کیا۔ جب ان کے سامنے خدائے رحمن کی آیتوں کی تلاوت کی جاتی تو یہ روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔ (۲۹)

تفسیر

۲۹۔ یہ سجدے کی آیت ہے۔ جو کوئی شخص عربی میں یہ آیت پڑھے۔ یا سنے اس پر سجدہ تلاوت واجب ہے۔

آیت ۵۹ ۔ ۶۴

ترجمہ

پھر ان کے بعد ایسے لوگ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو برباد کیا، اور اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے چلے۔ چنانچہ ان کی گمراہی بہت جلد ان کے سامنے آ جائے گی۔ (۳۰)

تفسیر

۳۰۔ یعنی ان کی گمراہی کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی صورت میں ان کے سامنے آ جائے گا۔
البتہ جن لوگوں نے توبہ کر لی، اور ایمان لے آئے، اور نیک عمل کیے تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے، اور ان پر ذرا بھی ظلم نہیں ہو گا۔
(ان کا داخلہ) ایسے ہمیشہ باقی رہنے والے باغات میں (ہو گا) جن کا خدائے رحمن نے اپنے بندوں سے ان کے دیکھے بغیر وعدہ کر رکھا ہے۔ یقیناً اس کا وعدہ ایسا ہے کہ یہ اس تک ضرور پہنچیں گے۔
وہ اس میں سلامتی کی باتوں کے سوا کوئی لغو بات نہیں سنیں گے۔ اور وہاں ان کا رزق انہیں صبح و شامل ملا کرے گا۔
یہ ہے وہ جنت جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اس کو بنائیں گے جو متقی ہو۔
اور (فرشتے تم سے یہ کہتے ہیں کہ) ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر اتر کر نہیں آتے۔ (۳۱) جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، وہ سب اسی کی ملکیت ہے۔ اور تمہارا رب ایسا نہیں ہے جو بھول جایا کرے۔

تفسیر

۳۱۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرئیلؑ کو آنحضرتﷺ کے پاس آئے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا تھا، اس پر بعض کفار نے آپ کا مذاق بھی بنایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو (معاذاللہ) چھوڑ دیا ہے، چنانچہ جب جبرئیلؑ آئے تو آپ نے ان سے فرمایا کہ آپ جلدی جلدی ہمارے پاس کیوں نہیں آتے؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حضرت جبرئیلؑ کا جواب نقل فرمایا ہے کہ ہمارا اتر کر آنا ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت ہوتا ہے، ساری کائنات کی مصلحتیں وہی جانتا ہے، کیونکہ آسمان، زمین اور ان کی درمیانی مخلوقات سب اسی کے قبضے میں ہیں، اور کسی وقت دیر ہوتی ہے تو کسی حکمت کی وجہ سے ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، اور دیر کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ (معاذاللہ) وہ وحی نازل کرنا بھول گیا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۶۵ ۔ ۶۷

ترجمہ

وہ آسمانوں اور زمین کا بھی مالک ہے، اور جو مخلوقات ان کے درمیان ہیں، ان کا بھی، لہذا تم اس کی عبادت کرو، اور اس کی عبادت پر جمے رہو۔ کیا تمہارے علم میں کوئی اور ہے جو اس جیسی صفات رکھتا ہو؟
اور (کافر) انسان یہ کہتا ہے کہ جب میں مر چکا ہوں گا تو کیا واقعی اس وقت مجھے زندہ کر کے نکالا جائے گا؟
کیا اس انسان کو یہ بات یاد نہیں آتی کہ ہم نے اسے شروع میں اس وقت پیدا کیا تھا جب وہ کچھ بھی نہیں تھا؟ (۳۲)

تفسیر

۳۲۔ یعنی جب انسان کا وجود بالکل تھا ہی نہٰں، تب اللہ تعالیٰ نے اسے محض اپنی قدرت سے پیدا فرمایا تھا اب مرنے کے بعد تو انسان کے جسم کے کچھ نہ کچھ حصے کسی نہ کسی شکل میں باقی رہتے ہیں۔ ان کو دوبارہ زندگی دے دینا اس کے لیے کیا مشکل ہے جو بالکل عدم سے انسان کو پیدا کر چکا ہے۔

آیت ۶۸

ترجمہ

تو قسم ہے تمہارے پروردگار کی! ہم ان کو وار ان کے ساتھ سارے شیطانوں کو ضرور اکٹھا کریں گے، (۳۳) پھر ان کو دوزخ کے گرد اس طرح لے کر آئیں گے کہ یہ سب گھٹنوں کے بل گرے ہوئے ہوں گے۔

تفسیر

۳۳۔ یعنی ان شیطانوں کو جو انہیں گوارہ کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ ہر انسان کے ساتھ وہ شیطان بھی لایا جائے گا جس نے اس انسان کو گمراہ کیا تھا (تفسیر عثمانی)

آیت ۶۹ ۔ ۷۱

ترجمہ

پھر ان کے ہر گروہ میں سے ان لوگوں کو کھیچ نکالیں گے جو خدائے رحمن کے ساتھ سرکشی کرنے میں زیادہ سخت تھے۔
پھر یہ بات ہم ہی خوب جانتے ہیں کہ وہ کون لوگ ہیں جو سب سے پہلے اس دوزخ میں جھونکے جانے کے زیادہ مستحق ہیں۔
اور تم میں سے کوئی نہیں ہے جس کا اس (دوزخ) پر گزر نہ ہو۔ (۳۴) اس بات کا تمہارے پروردگار نے حتمی طور پر ذمہ لے رکھا ہے۔

تفسیر

۳۴۔ اس سے مراد پل صراط ہے جو دوزخ ہی پر بنا ہوا ہے، اور اس پل پر سے ہر شخص کو گذرنا ہو گا، چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر، نیک ہو یا بد عمل، پھر جیسے اگلی آیت میں آ رہا ہے۔ نیک لوگ تو اس پل سے اس طرح گذر جائیں گے کہ انہیں دوزخ کی ذرا سی بھی تکلیف نہیں ہو گی۔ اور کافر اور بد عمل لوگوں کو دوزخ میں گرا دیا جائے گا۔ پھر جن کے دلوں میں ایمان ہو گا۔ انہیں تو اپنے اعمال کی سزا بھگتنے کے بعد دوزخ سے نکال لیا جائے گا اور جن کے دلوں میں رائی برابر بھی ایمان نہیں ہو گا۔ وہ دوزخ میں پڑے رہیں گے۔ والعیاذ باللہ تعالیٰ۔ اور نیک لوگوں کو دوزخ سے گذارنے کی حکمت یہ بھی ہے کہ جہنم کا ہولناک نظارہ دیکھنے کے بعد جنت کی قدر و قیمت یقیناً زیادہ ہو گی۔

آیت ۷۲ ۔ ۷۷

ترجمہ

پھر جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے، انہیں تو ہم نجات دے دیں گے، اور جو ظالم ہیں، انہیں اس حالت میں چھوڑ دیں گے کہ وہ اس (دوزخ میں) گھٹنوں کے بل پڑے ہوں گے۔
اور جب ان کے سامنے ہماری کھلی کھلی آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں، تو کافر لوگ مومنوں سے کہتے ہیں کہ بتاؤ، ہم دونوں فریقوں میں سے کس کا مقام زیادہ بہتر ہے، اور کس کی مجلس زیادہ اچھی ہے؟
اور (یہ نہیں دیکھتے کہ) ان سے پہلے ہم کتنی نسلیں ہلاک کر چکے ہیں، جو اپنے سازو سامان اور ظاہری آن بان میں ان سے کہیں بہتر تھیں۔
کہہ دو کہ جو لوگ گمراہی میں جا پڑیں تو ان کے لیے مناسب یہی ہے کہ خدائے رحمن انہیں خوب ڈھیل دیتا رہے۔ یہاں تک کہ جب یہ لوگ وہ چیز خود دیکھ لیں گے جس سے انہیں ڈرایا جا رہا ہے، چاہے وہ (اس دنیا کا) عذاب ہو، یا قیامت، تو اس وقت انہیں پتہ چلے گا کہ بدترین مقام کس کا تھا، اور لشکر کس کا زیادہ کمزور تھا۔
اور جن لوگوں نے سیدھا راستہ اختیار کر لیا ہے، اللہ ان کو ہدایت میں اور ترقی دیتا ہے۔ اور جو نیک عمل باقی رہنے والے ہیں، ان کا بدلہ بھی تمہارے پروردگار کے یہاں بہتر ملے گا، اور ان کا (مجموعی) انجام بھی بہتر ہو گا۔
بھلا تم نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے ہماری آیتوں کو ماننے سے انکار کیا، اور یہ کہا ہے کہ مجھے مال اور اولاد (آخرت میں بھی) ضرور ملیں گے۔ (۳۵)

تفسیر

۳۵۔ صحیح بخاری میں حضرت خباب بن ارتؓ نے بیان فرمایا ہے کہ میں نے مکہ مکرمہ میں لوہار کا پیشہ اختیار کر رکھا تھا اور (اسی سلسلے میں) میرے کچھ پیسے مکہ مکرمہ کے ایک کافر سردار عاص بن وائل کے ذمے واجب ہو گئے تھے۔ میں اس سے اپنا حق مانگنے کے لیے گیا تو اس نے قسم کھا کر کہا کہ میں تمہارے پیسے اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک تم محمدﷺ کو نہ جھٹلاؤ۔ میں نے کہا کہ تم مر کر دوبارہ زندہ ہو جاؤ تب بھی میں محمدﷺ کو جھٹلا نہیں سکتا۔ اس پر عاص بن وائل نے کہا۔ اچھا جب میں مر کر دوبارہ زندہ ہوں گا تو وہاں بھی میرے پاس بہت سا مال اور اولاد ہو گی، اس وقت میں تمہارے پیسے ادا کر دوں گا۔ اس موقع پر یہ آیات نازل ہوئی تھیں۔

آیت ۷۸ ۔ ۸۱

ترجمہ

کیا اس نے عالم غیب میں جھانک کر دیکھ لیا ہے، یا اس نے خدائے رحمن سے کوئی عہد لے رکھا ہے؟
ہرگز نہیں! جو کچھ یہ کہہ رہا ہے ہم اسے بھی لکھ رکھیں گے، اور اس کے عذاب میں اور اضافہ کر دیں گے۔
اور جس (مال اور اولاد) کا یہ حوالہ دے رہا ہے، اس کے وارث ہم ہوں گے، اور یہ ہمارے پاس تن تنہا آئے گا۔
اور ان لوگوں نے اللہ کے سوا دوسرے معبود اس لیے بنا رکھے ہیں تاکہ وہ ان کی پشت پناہی کریں۔ (۳۶)

تفسیر

۳۶۔ بعض مشرکین یہ کہا کرتے تھے کہ ہم لات اور عزا جیسی بتوں یا دوسرے معبودوں کی عبادت اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہماری سفارش کریں (سورة یونس: ۱۸) یہ ان کے اسی عقیدے کی طرف اشارہ ہے۔ اور جواب میں فرمایا گیا ہے کہ جن دیوتاؤں پر یہ بھروسہ کیے بیٹھے ہیں۔ قیامت کے دن وہ تو اس بات ہی سے انکار کر دیں گے کہ ان کی عبادت کی گئی تھی اور وہ ان کی سفارش تو کیا کرتے، الٹے ان کے مخالف ہو جائیں گے۔ یہ مضمون سورة نحل۔ ۸۶ میں بھی گذرا ہے جیسا کہ وہاں بھی عرض کیا گیا تھا، عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان بتوں کو بھی زبان دیدے اور وہ ان کے جھوٹا ہونے کا اعلان کریں، کیونکہ دنیا میں بے جان ہونے کی بنا پر انہیں پتہ ہی نہیں تھا کہ کون ان کی عبادت کر رہا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ زبان حال سے یہ بات کہیں، اور شیاطین واقعی زبان سے یہ بات کہہ کر ان سے اپنی بے تعلقی کا اظہار کریں۔

آیت ۸۲ ۔ ۹۶

ترجمہ

یہ سب غلط بات ہے! وہ تو ان کی عبادت ہی کا انکار کر دیں گے، اور الٹے ان کے مخالف ہو جائیں گے۔
(اے پیغمبر) کیا تمہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ ہم نے کافروں پر شیاطین چھوڑ رکھے ہیں جو انہیں برابر اکساتے رہتے ہیں؟
لہذا تم ان کے معاملے میں جلدی نہ کرو، ہم تو ان کے لیے گنتی گن رہے ہیں۔
(اس دن کو نہ بھولو) جس دن ہم سارے متقی لوگوں کو مہمان بنا کر خدائے رحمن کے پاس جمع کریں گے۔
اور مجرموں کو پیاسے جانوروں کی ہنکا کر دوزخ کی طرف لے جائیں گے۔
لوگوں کو کسی کی سفارش کرنے کا اختیار بھی نہیں ہو گا، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے خدائے رحمن سے کوئی اجازت حاصل کر لی ہو۔
اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدائے رحمن کی کوئی اولاد ہے۔
(ایسی بات کہنے والو!) حقیقت یہ ہے کہ تم نے بڑی سنگین حرکت کی ہے۔
کچھ بعید نہیں کہ اس کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ٹوٹ کر گر پڑیں۔
کہ ان لوگوں نے خدائے رحمن کے لیے اولاد ہونے کا دعوی کیا ہے۔
حالانکہ خدائے رحمن کی یہ شان نہیں ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔
آسمانوں اور زمین میں جتنے لوگ ہیں، ان میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو خدائے رحمن کے حضور بندہ بن کر نہ آئے۔
یقین رکھو کہ اس نے سب کا احاطہ کر رکھا ہے اور انہیں خوب اچھی طرح گن رکھا ہے۔
اور قیامت کے دن میں سے ایک ایک شخص اس کے پاس اکیلا آئے گا۔
(ہاں) بیشک جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں، خدائے رحمن ان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا۔ (۳۷)

تفسیر

۳۷۔ یعنی اس وقت تو مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ کفار ان کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں۔ لیکن عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب مخلوق خدا کے دلوں میں ان مسلمانوں کی محبت پیدا ہو جائے گی۔

آیت ۹۷

ترجمہ

چنانچہ (اے پیغمبر) ہم نے اس قرآن کو تمہاری زبان میں آسان بنا دیا ہے تاکہ تم اس کے ذریعے متقی لوگوں کو خوش خبری دے دو، اور اسی کے ذریعے ان لوگوں کو ڈراؤ جو ضد کی وجہ سے جھگڑے پر آمادہ ہیں۔
ان سے پہلے ہم کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں۔ کیا تمہیں ٹٹولنے سے بھی ان میں سے کسی کا پتہ ملتا ہے، یا ان میں سے کسی کی بھنک بھی تمہیں سنائی دیتی ہے؟
٭٭٭
 
Top