اسلام نے علم وحکمت کی بات کو کسی کے لیے خاص نہیں کیا ہے ،اس کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوے ہیں۔جس طرح مردوں کے لیے علم کاحاصل کرنا ضروری ہے، عورتوں کوبھی اس سے محروم نہیں کیاہے : طَلَب الْعِلْم فَرِیْضَة ٌعَلٰی کُلِّ مَسْلِمٍ۔
( سنن ابن ماجہ ،کتاب السنة،باب ماجاء فی فضل العلماء والحث علی طلب العلم)
خوداللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کوطبقہٴ نسواں کی تعلیم کی بڑی فکررہتی تھی۔ وقت نکال کرآپ انہیں دین واسلام کی باتیں سکھاتے تھے ۔ایک حدیث سے عورتوں کی علمی دل چسپی اور حضور کی تربیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
”عَن اَبِی سَعیدٍ الخُدرِیِّ قَالَ: قَالَ النِّسَاءُ لِلنَّبیِّ صلى الله عليه وسلم غَلَبَنَا عَلَیْکَ الرِّجَالُ فَاجْعَلْ لَنَا یَوماً مِن نَفْسِکَ، فَوَعَدَھُنَّ یَوْماً لَقِیَھُنَّّ فِیْہِ فَوَعَظَہُنَّ وَاَمَرَھُنَّ، فَکَانَ فِیْما قَالَ لَھُنَّ مَامِنْکُنَّ امْرَأةٌ تُقَدِّمُ ثَلاثَةً مِنْ وَلَدِھَا اِلّا کَانَ لَھَا حِجَاباً مِنَ النَّارِ فَقَالَتِ امْرَأةٌ، وَاثْنَیْنِ؟ فَقَال: وَاثْنَیْنِ.“
(الصحیح البخاری،کتاب العلم، باب یجعل للنساء یوما علی جدة فی العلم،کتاب الاعتصام، باب تعلیم النبی، کتاب الجنائز،باب فضل من مات لہ ولد فاحتسب )
(حضرت ابو سعید خدری رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ عورتوں نے حضور صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں عرض کیا(آپ سے مستفید ہونے میں ) مردہم سے بڑھ گئے ہیں، اس لیے آپ اپنی طرف سے ہمارے لیے (بھی) کوئی دن مقرر فرمادیں ۔ آپ نے ان سے ایک دن کا وعدہ کرلیا۔اس دن آپ عورتوں سے ملے اور انہیں نصیحت فرمائی اور کچھ احکام دیے ۔ جو کچھ آپ نے ان سے فرمایا تھا اس میں یہ بھی تھا کہ جو کوئی عورت تم میں سے (اپنے )تین لڑکے آگے بھیج دے گی(یعنی ان کا انتقال ہوجائے) تو وہ اس کے لیے دوزخ کی آڑ بن جائیں گے۔اس پر ایک عورت نے کہا اگر دو (لڑکے بھیج دے) آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہاں اور دو(کا بھی یہی حکم ہے۔)
جس کسی کو اللہ نے لڑکیوں سے نوازا ہے اور وہ اس کی بہترین تربیت کرکے مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس محنت کے بدلے میں اسے جنت میں داخل کرے گا۔
اللہ کے رسول نے فرمایا:
”مَنْ عَالَ ثَلاثَ بَنَاتٍ، فَاَدَّبَھُنَّ وَزَوَّجَھُنَّ، وَاَحْسَنَ اِلَیْھِنَّ، فَلَہُ الْجَنَّةَ.“
( سنن ابوداوٴد،کتاب الادب، باب فضل من عال یتامی)
(جس کسی نے اپنی تین لڑکیوں کو اچھی تعلیم وتربیت کی اور پھر اچھے طریقے سے اس کو بیاہ دیا تو اس کے عوض اللہ اسے جنت عطا کرے گا۔)
ایک اور حدیث میں اس بشارت کا مستحق اس شخص کو قرار دیا ہے جن کے پاس دو لڑکیاں ہیں۔
(سنن ابن ماجہ،ابواب الادب،باب برالوالدین والاحسان الی البنات۔)
اس طرح کی اور بہت ساری حدیثیں ہیں جن میں عورتوں کی تعلیم کو ضروری قراردیا ہے اور اس کے لیے تعلیم کا انتظام کرنے کاحکم اللہ کے رسول نے دیا ہے۔
جہاں جہاں علم حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے وہاں مذکرکاصیغہ استعمال ہواہے ، جب مذکرصیغہ بولاجاتاہے تواس میں دونوں شامل ہوتے ہیں۔عربی میں اس کو ’تغلیب‘ کہاجاتاہے۔ یعنی غالب چوں کہ مرد ہیں اس لیے ان کوخطاب کیاجاتا ہے ۔ مگرطبقہ نسواں بھی اس میں شامل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کوئی قرآنی آیت نازل ہوتی یا کو ئی نیا حکم آتا تو آپ پہلے اسے مردوں کی جماعت میں تلاوت فرماتے اور پھر اسے عورتوں کی محفل میں جاکر سناتے۔ بقول ڈاکٹر حمید اللہ:
”اسلامی تاریخ میں یہ ایک اہم واقعہ ہے کہ رسو ل اللہ کو عورتوں کی تعلیم سے اتنی ہی دل چسپی تھی جتنی مردوں کی تعلیم سے ۔“
( خطبات بھاول پور،ص:۲۸)
( سنن ابن ماجہ ،کتاب السنة،باب ماجاء فی فضل العلماء والحث علی طلب العلم)
خوداللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کوطبقہٴ نسواں کی تعلیم کی بڑی فکررہتی تھی۔ وقت نکال کرآپ انہیں دین واسلام کی باتیں سکھاتے تھے ۔ایک حدیث سے عورتوں کی علمی دل چسپی اور حضور کی تربیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
”عَن اَبِی سَعیدٍ الخُدرِیِّ قَالَ: قَالَ النِّسَاءُ لِلنَّبیِّ صلى الله عليه وسلم غَلَبَنَا عَلَیْکَ الرِّجَالُ فَاجْعَلْ لَنَا یَوماً مِن نَفْسِکَ، فَوَعَدَھُنَّ یَوْماً لَقِیَھُنَّّ فِیْہِ فَوَعَظَہُنَّ وَاَمَرَھُنَّ، فَکَانَ فِیْما قَالَ لَھُنَّ مَامِنْکُنَّ امْرَأةٌ تُقَدِّمُ ثَلاثَةً مِنْ وَلَدِھَا اِلّا کَانَ لَھَا حِجَاباً مِنَ النَّارِ فَقَالَتِ امْرَأةٌ، وَاثْنَیْنِ؟ فَقَال: وَاثْنَیْنِ.“
(الصحیح البخاری،کتاب العلم، باب یجعل للنساء یوما علی جدة فی العلم،کتاب الاعتصام، باب تعلیم النبی، کتاب الجنائز،باب فضل من مات لہ ولد فاحتسب )
(حضرت ابو سعید خدری رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ عورتوں نے حضور صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں عرض کیا(آپ سے مستفید ہونے میں ) مردہم سے بڑھ گئے ہیں، اس لیے آپ اپنی طرف سے ہمارے لیے (بھی) کوئی دن مقرر فرمادیں ۔ آپ نے ان سے ایک دن کا وعدہ کرلیا۔اس دن آپ عورتوں سے ملے اور انہیں نصیحت فرمائی اور کچھ احکام دیے ۔ جو کچھ آپ نے ان سے فرمایا تھا اس میں یہ بھی تھا کہ جو کوئی عورت تم میں سے (اپنے )تین لڑکے آگے بھیج دے گی(یعنی ان کا انتقال ہوجائے) تو وہ اس کے لیے دوزخ کی آڑ بن جائیں گے۔اس پر ایک عورت نے کہا اگر دو (لڑکے بھیج دے) آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہاں اور دو(کا بھی یہی حکم ہے۔)
جس کسی کو اللہ نے لڑکیوں سے نوازا ہے اور وہ اس کی بہترین تربیت کرکے مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس محنت کے بدلے میں اسے جنت میں داخل کرے گا۔
اللہ کے رسول نے فرمایا:
”مَنْ عَالَ ثَلاثَ بَنَاتٍ، فَاَدَّبَھُنَّ وَزَوَّجَھُنَّ، وَاَحْسَنَ اِلَیْھِنَّ، فَلَہُ الْجَنَّةَ.“
( سنن ابوداوٴد،کتاب الادب، باب فضل من عال یتامی)
(جس کسی نے اپنی تین لڑکیوں کو اچھی تعلیم وتربیت کی اور پھر اچھے طریقے سے اس کو بیاہ دیا تو اس کے عوض اللہ اسے جنت عطا کرے گا۔)
ایک اور حدیث میں اس بشارت کا مستحق اس شخص کو قرار دیا ہے جن کے پاس دو لڑکیاں ہیں۔
(سنن ابن ماجہ،ابواب الادب،باب برالوالدین والاحسان الی البنات۔)
اس طرح کی اور بہت ساری حدیثیں ہیں جن میں عورتوں کی تعلیم کو ضروری قراردیا ہے اور اس کے لیے تعلیم کا انتظام کرنے کاحکم اللہ کے رسول نے دیا ہے۔
جہاں جہاں علم حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے وہاں مذکرکاصیغہ استعمال ہواہے ، جب مذکرصیغہ بولاجاتاہے تواس میں دونوں شامل ہوتے ہیں۔عربی میں اس کو ’تغلیب‘ کہاجاتاہے۔ یعنی غالب چوں کہ مرد ہیں اس لیے ان کوخطاب کیاجاتا ہے ۔ مگرطبقہ نسواں بھی اس میں شامل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کوئی قرآنی آیت نازل ہوتی یا کو ئی نیا حکم آتا تو آپ پہلے اسے مردوں کی جماعت میں تلاوت فرماتے اور پھر اسے عورتوں کی محفل میں جاکر سناتے۔ بقول ڈاکٹر حمید اللہ:
”اسلامی تاریخ میں یہ ایک اہم واقعہ ہے کہ رسو ل اللہ کو عورتوں کی تعلیم سے اتنی ہی دل چسپی تھی جتنی مردوں کی تعلیم سے ۔“
( خطبات بھاول پور،ص:۲۸)