طلب العلم فریضة علی کل مسلم

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حدیث پاک میں ہے۔ ”طلب العلم فریضة علی کل مسلم“
علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پرفرض ہے۔

اتنا علم تو سبھی پر فرض ہوا کہ حلال وحرام، پاکی ناپاکی، جائز ناجائز کوجانا جاسکے؛ لیکن اس کے بعد جتنا بھی دینی علم ہے اس کیلئے یہ کہیں پر بھی نہیں کہاگیا کہ عورتیں حاصل نہ کریں جب کہ مرد ان کو ضرور حاصل کریں۔

اس کے بعد مقصودی علم تو ہر کوئی حاصل کرسکتا ہے۔ جسے شوق و لگن ہو، اگر عورتوں کیلئے مزید علم حاصل کرنا منع ہوتا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ”افقہ الناس“اور ”حسن الناس“ نہ ہوتیں۔
عہد رسالت میں عورتوں کی دینی تعلیم کا باقاعدہ انتظام تھا۔

صحابیات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے خصوصی اجتماع میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم تشریف لے جاکر تلقین و وعظ فرمایا کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی طرح صحابیات رضي الله تعالي عنهن بھی محدثہ، فقیہ، عالمہ، فاضلہ مفتیہ اور کاتبہ تھیں۔

ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها فقیہ الامت ہیں۔
ام المومنین ام سلمہ رضي الله تعالى عنها فقیہہ ومفتیہ تھیں۔
حضرت حفصہ رضي الله تعالي عنها لکھنا پڑھنا دونوں جانتی تھیں۔
حضرت خنساء رضي الله تعالى عنها شاعرہ تھیں۔

اسی طرح پہلی اور دوسری صدی ہجری میں پورے عالم اسلام میں احادیث کی روایت و تدوین کا سلسلہ شروع ہوا جن خواتین کے پاس مجموعے تھے ان سے وہ حاصل کئے گئے۔

حدیث کی تحصیل کیلئے محدثین و رواة کی طرح محدثات و راویات نے بھی گھر بار چھوڑ کر دور دراز ملکوں کا سفر کیا۔ اور ان محدثات وطالبات کیلئے محدثین و شیوخ کی درس گاہوں میں مخصوص جگہیں رہا کرتی تھیں، جس میں وہ مردوں سے الگ رہ کر سماع کرتی تھیں اور اسی طرح ان محدثات میں سے بہت سی حافظات، قاریات اور مفسرات تھیں وعظ و تذکیر میں نمایاں تھیں۔ رشدوہدایت، تزکیہ نفس، شعر وادب، خطاطی و کتاب وانشاء، اذکار کی تعلیم و تربیت میں بھی بہت زیادہ نمایاں تھیں اور رہیں۔

ترمذی اور ابوداؤد کی روایت میں لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کی طرف ترغیب دلانے کے بارے میں ارشاد ہے:

من کان لہ ثلاث بنات او ثلاث اخوات او بنتان او اختان فادبہن واحسن الیہن وزوجہن فلہ الجنہ وایما رجل کانت عندہ ولیدة فعلمہا فاحسن تعلیمہا وادبہا فاحسن تادبیہا ثم اعتقہا فلہ اجران (ترمذی)

جس کی تین لڑکیاں یا بہنیں یا دو لڑکیاں یا بہنیں ہوں اور وہ انہیں ادب سکھائے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کی شادی کرے تو اسکو جنت ملے گی۔

دوسری روایت کا ترجمہ ہے کہ جس شخص کے پاس کوئی باندی ہو وہ اسے تعلیم دے اور اچھی طرح پڑھائے اوراس کو ادب سکھائے اور پھر اسے آزاد کرکے اس سے شادی کرے تو اس کے لئے دو اجر ہیں۔

اسی طرح صحیح بخاری ومسلم میں ہے کہ مسلمان عورتیں مقررہ دن جمع ہوکر نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے دین سیکھ لیاکرتی تھیں“۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها بڑی محدثہ تھیں مرد اور عورتیں ان سے سوالات کرتے تھے۔

قاضی عیسیٰ بن مسکین صوفی وقت اپنی بچیوں اور پوتیوں کو پڑھایا کرتے تھے اور قاضی عیاض رحمة الله عليه عصر کے بعد بچیوں اور بھتیجیوں کو پڑھایا کرتے تھے۔
چنانچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ جن احکام کی روز مرہ ضرورت پڑتی ہے ان کو حاصل کرنا فرض ہے۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
"نانچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ جن احکام کی روز مرہ ضرورت پڑتی ہے ان کو حاصل کرنا فرض ہے"
بالکل صحیح ۔ممکن ہے حضرت تھانوی علیہ الرحمۃ اس سے زیادہ لڑکیوں کو پڑھانا بہتر نہ سمجھتے ہیں ۔جیسا دیکھنے میں آرہا ہے کہ عالمہ جب سسرال پہنچتی ہیں تو شوہر کی حیثیت دیکھے بغیر صرف اور صرف اپنے حقوق مثلا مجھے الگ گھر دو ۔میں تمہارے ماں باپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔تمھارے بوڑھے والدین کی خدمت میرے ذمہ نہیں ہے ۔ صرف میرے حقوق پورے کرو باقی جائیں بھاڑ میں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ جاہل شوہر قرآن وحدیث سنکر بیچارہ ۔کون بیچارہ ۔ان پڑھ شوہر بیچارہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت تھانوی ؒ تو حکیم الامت تھے ۔ نبض شناس ۔ طبیب حاذق ۔ ابر رحمت ان کی مرقد پر گُہر باری کرے ۔۔۔۔ حشرتک شان کریم ناز برداری کرے
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
"نانچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ جن احکام کی روز مرہ ضرورت پڑتی ہے ان کو حاصل کرنا فرض ہے"
بالکل صحیح ۔ممکن ہے حضرت تھانوی علیہ الرحمۃ اس سے زیادہ لڑکیوں کو پڑھانا بہتر نہ سمجھتے ہیں ۔جیسا دیکھنے میں آرہا ہے کہ عالمہ جب سسرال پہنچتی ہیں تو شوہر کی حیثیت دیکھے بغیر صرف اور صرف اپنے حقوق مثلا مجھے الگ گھر دو ۔میں تمہارے ماں باپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔تمھارے بوڑھے والدین کی خدمت میرے ذمہ نہیں ہے ۔ صرف میرے حقوق پورے کرو باقی جائیں بھاڑ میں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ جاہل شوہر قرآن وحدیث سنکر بیچارہ ۔کون بیچارہ ۔ان پڑھ شوہر بیچارہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت تھانوی ؒ تو حکیم الامت تھے ۔ نبض شناس ۔ طبیب حاذق ۔ ابر رحمت ان کی مرقد پر گُہر باری کرے ۔۔۔۔ حشرتک شان کریم ناز برداری کرے
لیکن جہاں تک میرا خیال ہے اور مشاہدہ ہے کہ ایک عالمہ کو جو دین کو سمجھتی ہیں زیادہ بہتر گھر داری کرتے پایا ۔ ہاں ایک مقام پر جب وہ پردہ کرنے لگتی ہے تو خاندان کے بے پردہ لوگوں کو ان پر طعنے کستے ضرور دیکھا ہے۔

مثال:
میرے ایک کزن جو عالم نہیں ہیں لیکن میڈیکل کے شعبے سے وابسطہ ہیں انہوں نے ایک عالمہ سے شادی کی۔
گھر میں رواج تھا کہ سب لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے اور ایک ساتھ کھاتے پیتے تھے۔
وہ بے چاری کہنے لگی میں ہاتھ کسی سے نہیں ملاؤنگی یعنی غیر محرم سے اور ان کے سامنے کھانے بھی نہیں بیٹھوں گی۔
شوہر نے بات مان لی لیکن باقی گھر والوں نے طعنے کس کس کے اتنا تنگ کیا کہ میرے سامنے فضول باتیں کرنے لگیں علم کے بارے میں۔
بھئی ایک لڑکی شرعی پردہ کرنا چاہتی ہے تو وہ مغرور ہے وہ مردوں یعنی دیوروں کے بیچ نہیں بیٹھتی تو وہ الگ ہونا چاہتی ہے اور بھائیوں کے بیچ دراڑ بنانا چاہتی ہے
اس کا شوہر تو ساری لڑکیوں سے ہاتھ ملاتا تھا اب اپنی بیوی کو سب سے بچا رہا ہے وہ آسمان سے حور اتری ہے
اس قسم کے معاملات ہوتے ہیں
 
Top