غزل

رشید حسرت

وفقہ اللہ
رکن
غزل (بنا کے رکھا ہے)

بنا کے رکھا ہے ذہنی مرِیض ہم کو تو
نہیں ہے زِیست بھی ہرگز عزِیز ہم کو تو

وہ اور تھے کہ جِنہیں دوستی کا پاس رہا
گُماں میں ڈال دے چھوٹی سی چِیز ہم کو تو

کہاں کے مِیر ہیں، پُوچھو فقِیر لوگوں سے
نہِیں ہے ڈھب کی میسّر قمِیض ہم کو تو

بڑوں سے دِل سے عقِیدت ہے پیار چھوٹوں سے
خیال کرتے ہو جو بد تمِیز ہم کو تو

کِسی کے درد کے سانچے میں ڈھل کے دیکھا ہے
پڑے وہ زخم (کہ بس الحفِیظ) ہم کو تو

نہ راز، راز کو رکھا، نہ بھید پوشِیدہ
خیال پِھر بھی کریں سب رمِیز ہم کو تو

رکھو جو درد تو، آہیں بھی اور کُچھ آنسو
رشیدؔ چاہئیں کُچھ خواب نِیز ہم کو تو

رشِید حسرتؔ
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
کیا ہی خوب
وہ اور تھے کہ جِنہیں دوستی کا پاس رہا
گُماں میں ڈال دے چھوٹی سی چِیز ہم کو تو
 
Top