جو اللہ اور رسول ﷺ کے ساتھ کفر کرے اس کی نماز جنازہ اد نہ کرو

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
سیدنا ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی بن سلول مر گیا تو اس کے بیٹے عبداللہ آپ کے پاس آئے اور درخواست کی کہ اپنا کرتہ عنایت فرمائیے تاکہ میں اپنے باپ کو اس میں کفن دوں۔ آپ نے کرتہ دے دیا۔ پھر اس نے درخواست کی کہ آپ اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ چنانچہ رسول اللہ اس پر نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو سیدنا عمر رضی اللہ نے آپ کا دامن تھام لیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ اس پر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے لوگوں پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ آپ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ نے مجھے (منع نہیں کیا بلکہ) اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے تو ان لوگوں کے لئے دعا کرے یا نہ کرے اگر تو ستر بار بھی ان کے لیے دعا کرے تب بھی اللہ انہیں بخشے گا نہیں۔ میں ایسا کروں گا کہ ستر بار سے زیادہ دفعہ اس کے لیے دعا کروں گا۔'' سیدنا عمر کہنے لگے کہ وہ تو منافق تھا اور اس کی کئی کرتوتیں یاد دلائیں مگر آپ نے (اس کے باوجود) اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ منافقوں میں جب کوئی مر جائے تو نہ اس کی نماز جنازہ پڑھو اور نہ ہی (دعائے خیر کے لیے) اس کی قبر پر کھڑے ہونا (٩ : ٨٤)
(بخاری ومسلم)

الله تعالیٰ فرماتا ہے :

وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِهٖ ۭ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَمَاتُوْا وَهُمْ فٰسِقُوْنَ
اور ان میں سے کوئی مرجائے تو اس کی نماز جنازہ کبھی بھی ادا نہ کرو اور اس کی قبر پر بھی کھڑے نہ ہو یقیناً انہوں نے کفر کیا ہے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اور وہ مرے ہیں اسی حال میں کہ وہ نافرمان تھے
(التوبہ -84)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

سوال​

"ایک عورت کی بیٹی کچھ ٹھیک نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ پریشان ہے، اس کا شوہر اس کو تسلی دینے کے لیے کہتا ہے کہ حوصلہ رکھو، کیا تمہیں اللہ پر بھروسہ نہیں؟ تو اس پر وہ عورت کہتی ہے کہ "نہیں مجھے اللہ پر بھروسہ نہیں ہے، اس نے ہمارے ساتھ کیا کیا ہے"! تو کیا اس طرح کہنے سے ایمان پراور نکاح پر اثر پڑا؟

جواب
عورت کے مذکورہ الفاظ کفر پر مشتمل ہیں، دائرۂ ایمان سے خارج ہوگئی اور نکاح بھی ٹوٹ گیاہے، لہٰذا تجدیدِ ایمان کے بعد تجدیدِ نکاح بھی ضروری ہے۔ اور آئندہ اس طرح کے الفاظ سے اجتناب بھی ضروری ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107200397
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
 
Top