سورۃ المومنون مفتی تقی عثمانی تفسیر آسان قرآن

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
تعارف
اس سورت کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے وہ بنیادی صفات ذکر فرمائی ہیں جو مسلمانوں میں پائی جانی چاہیں، مسند احمد کی ایک حدیث میں حضرت عمرؓ کے حوالے سے آنحضرتﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ اس سورت کی پہلی دس آیتوں میں جو باتیں ذکر کی گئی ہیں، اگر کوئی شخص وہ ساری باتیں اپنے اندر پیدا کر لے تو وہ سیدھا جنت میں جائے گا۔ اسی لیے اس سورت کا نام مومنون ہے۔ یعنی وہ سورت جو یہ بیان کرتی ہے کہ مسلمانوں کو کیسا ہونا چاہیے۔ نیز نسائی میں روایت ہے کہ ایک صاحب نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ آنحضرتﷺ کے اخلاق اور اوصاف کیسے تھے؟ اس کے جواب میں حضرت عائشہؓ نے سورۃ مومنون کی یہ دس آیتیں تلاوت فرما دیں کہ یہ سب آنحضرتﷺ کے اوصاف تھے۔ سورت کا بنیادی مقصد انسان کو اس کی اصلیت کی طرف متوجہ کر کے اس بات پر غور و فکر کی دعوت دینا ہے کہ اس کے دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے، اور بالآخر مرنے کے بعد جو زندگی آنی ہے، اس میں انسان کا نجام کیا ہو گا؟ اس کے علاوہ حضرت نوحؑ سے لے کر حضرت عیسیٰؑ تک بہت سے انبیائے کرام کے واقعات اس سورت میں دہرائے گئے ہیں، تاکہ یہ بات واضح ہو کہ ان سب پیغمبروں کی دعوت تواتر کے ساتھ ایک ہی تھی، اور جن لوگوں نے ان کا انکار کیا، انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا نشانہ بننا پڑا۔ مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ انسانوں کو دوبارہ زندہ کر کے ان کی نیکیوں اور برائیوں کا حساب لیں گے، اور ہر انسان کو اپنے عقیدے اور عمل کے اعتبار سے جزا و سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس عقیدے کو کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت خداوندی کی نشانیوں کی طرف متوجہ کر کے ثابت کیا گیا ہے۔

آیت ۱، ۲

ترجمہ

ان ایمان والوں نے یقیناً فلاح پالی ہے۔
جو اپنی نماز میں دل سے جھکنے والے ہیں۔ (۱)

تفسیر

۱۔ یہ خشوع کا ترجمہ ہے۔ عربی میں خضوع کے معنی ہیں ظاہری اعضاء کو جھکانا، اور خشوع کے معنی ہیں دل کو عاجزی کے ساتھ نماز کی طرف متوجہ رکھنا۔ اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان نماز میں جو کچھ زبان سے پڑھ رہا ہو، اس کی طرف دھیان رکھے، اور اگر غیر اختیاری طور پر کوئی خیال آ جائے تو وہ معاف ہے، لیکن جونہی یاد آئے، دوبارہ نماز کے الفاظ کی طرف متوجہ ہو جانا چاہیے۔

آیت ۳

ترجمہ

اور جو لغو چیزوں سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔ (۲)

تفسیر

۲۔ لغو کا مطلب ہے بیکار مشغلہ جس میں نہ دنیا کا کوئی فائدہ ہو، نہ آخرت کا

آیت ۴

ترجمہ

اور جو زکوٰۃ پر عمل کرنے والے ہیں۔ (۳)

تفسیر

۳۔ زکوٰۃ کے لفظی معنی ہیں کسی چیز کو پاک صاف کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر جو فریضہ عائد کیا ہے کہ وہ اپنے مال میں سے کچھ حصہ غریبوں کے لیے نکالیں، اسے زکوٰۃ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس سے ان کا باقی مال بھی پاک صاف ہو جاتا ہے، اور ان کے دلوں کو بھی پاکی حاصل ہوتی ہے۔ یہاں زکوٰۃ سے مراد وہ مالی فریضہ بھی ہو سکتا ہے۔ اور اس کے دوسرے معنی بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ یعنی اپنے آپ کو برے اعمال اور اخلاق سے پاک صاف کرنا۔ اس کو تزکیہ بھی کہتے ہیں۔ قرآن کریم نے یہاں زکوٰۃ کے ساتھ ادا کرنے کے بجائے زکوٰۃ پر عمل کرنے والے کا جو لفظ استعمال فرمایا ہے، اس کی وجہ سے بہت سے مفسرین نے یہاں دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے۔

آیت ۵

ترجمہ

اور جو اپنی شرمگاہوں کی (اور سب سے) حفاظت کرتے ہیں۔ (۴)

تفسیر

۴۔ یعنی اس بات سے حفاظت کرتے ہیں کہ اپنی جنسی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے کوئی ناجائز طریقہ اختیار کیا جائے۔

آیت ۶

ترجمہ

سوائے اپنی بیویوں اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت میں آ چکی ہوں۔ (۵) کیونکہ ایسے لوگ قابل ملامت نہیں ہیں۔

تفسیر

۵۔ اس سے مراد وہ کنیزیں ہیں جو شرعی احکام کے مطابق کسی کی ملکیت میں آئی ہوں لیکن آج کل ایسی کنیزوں کا کوئی وجود نہیں رہا۔

آیت ۷

ترجمہ

ہاں جو اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہیں تو ایسے لوگ حد سے گزرے ہوئے ہیں۔ (۶)

تفسیر

۶۔ یعنی بیوی اور شرعی کنیز کے سوا کسی اور طریقے سے اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کی کوشش کرنا حرام ہے۔

آیت ۸، ۹

ترجمہ

اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں۔
اور جو اپنی نمازوں کی پوری نگرانی رکھتے ہیں۔ (۷)

تفسیر

۷۔ نمازوں کی نگرانی میں یہ بات بھی داخل ہے کہ نماز کی پوری پابندی کی جائے، اور یہ بھی کہ ان کو صحیح طریقے سے آداب اور شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۱ـ، ۱۱

ترجمہ

یہ ہیں وہ وارث۔
جنہیں جنت الفردوس کی میراث ملے گی۔ (۸) یہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

تفسیر

۸۔ جنت کو مومنوں کی میراث اس لئے کہا گیا ہے کہ ملکیت کے اسباب میں سے میراث ہی ایک ایسا طریقہ ہے جس میں ایک چیز خود بخود اس طرح انسان کی ملکیت میں آ جاتی ہے کہ اس ملکیت کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ اشارہ اس طرف ہے کہ جنت کے مل جانے کے بعد اس کے چھن جانے کا کوئی اندیشہ نہیں ہو گا۔

آیت ۱۲

ترجمہ

اور ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے پیدا کیا۔ (۹)

تفسیر

۹۔ انسان کا مٹی سے پیدا ہونا یا تو اس اعتبار سے ہے کہ تمام انسانوں کے باپ حضرت آدمؑ مٹی سے پیدا کیے گئے تھے، پھر تمام انسان ان کی پشت سے پیدا ہوئے، اس لیے بالواسطہ تمام انسانوں کی اصل مٹی ہے، یا پھر اس کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انسان کی تخلیق منی کے قطرے سے ہوتی ہے، اور وہ غذا سے پیدا ہوتی ہے جس کے اگنے اور بننے میں مٹی کا دخل واضح ہے۔

آیت ۱۳

ترجمہ

پھر ہم نے اسے ٹپکی ہوئی بوند کی شکل میں ایک محفوظ جگہ پر رکھا۔ (۱۰)

تفسیر

۱ـ۔ محفوظ جگہ سے مراد رحم مادر ہے

آیت ۱۴ ۔ ۱۷

ترجمہ

پھر ہم نے اس بوند کو جمے ہوئے خون کی شکل دے دی، پھر اس جمے ہوئے خون کو ایک لوتھڑا بنا دیا، پھر اس لوتھڑے کو ہڈیوں میں تبدیل کر دیا، پھر ہڈیوں کو گوشت کا لباس پہنایا، پھر اسے ایسی اٹھان دی کہ وہ ایک دوسری ہی مخلوق بن کر کھڑا ہو گیا۔ غرض بڑی شان ہے اللہ کی جو سارے کاریگروں سے بڑھ کر کاریگر ہے۔
پھر اس سب کے بعد تمہیں یقیناً موت آنے والی ہے۔
پھر قیامت کے دن تمہیں یقیناً دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔
اور ہم نے تمہارے اوپر سات تہہ بر تہہ راستے پیدا کیے ہیں اور ہم مخلوق سے غافل نہیں ہیں۔ (۱۱)

تفسیر

۱۱۔ یہاں آسمانوں کو تہہ بر تہہ راستوں سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے انہی آسمانوں سے آتے جاتے ہیں۔ اور یہ جو فرمایا گیا ہے کہ ہم اپنی مخلوق سے غافل نہیں ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں خوب معلوم ہے کہ ہماری مخلوق کی ضروریات کیا ہیں، اور ان کی مصلحت کا کیا تقاضا ہے، اس لیے ہماری تمام تخلیقات میں ان مصالح کی پوری رعایت ہے۔

آیت ۱۸

ترجمہ

اور ہم نے آسمان سے ٹھیک اندازے کے مطابق پانی اتارا، پھر اسے زمین میں ٹھہرا دیا، (۱۲) اور یقین رکھو، ہم اسے غائب کر دینے پر بھی قادر ہیں۔

تفسیر

۱۲۔ یعنی اگر آسمان سے پانی برسا کر تمہیں ذمہ داری دی جاتی کہ تم خود اس کا ذخیرہ کرو، تو یہ تمہارے بس میں نہیں تھا۔ ہم نے یہ پانی پہاڑوں پر برسا کر اسے برف کی شکل میں جما دیا، جو رفتہ رفتہ پگھل کر دریاؤں کی شکل اختیار کرتا ہے، اور اس کی جڑیں زمین بھر میں پھیلی ہوئی ہیں، جن سے کنویں بنتے ہیں، اور اس طرح زمین کی تہ میں وہ پانی محفوظ رہتا ہے۔

آیت ۱۹، ۲ـ

ترجمہ

پھر ہم نے اس سے تمہارے لیے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے جن سے تمہیں بہت سے میوے حاصل ہوتے ہیں، اور انہی میں سے تم کھاتے ہو۔
اور وہ درخت بھی پیدا کیا جو طور سینا سے نکلتا ہے (۱۳) جو اپنے ساتھ تیل لے کر اور کھانے والوں کے لیے سالن لے کر اگتا ہے۔

تفسیر

۱۳۔ اس سے مراد زیتون کا درخت ہے جو طور سینا کے علاقے میں کثرت سے پایا جاتا تھا۔ اس سے جو تیل نکلتا ہے، اس سے روغن کا کام بھی لیا جاتا ہے، اور عرب میں اسے روتی کے ساتھ سالن کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اس درخت کا خاص طور پر اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ اس کے فوائد بہت ہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۲۱ ۔ ۲۶

ترجمہ

اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے مویشیوں میں بڑی نصیحت کا سامان ہے جو (دودھ) ان کے پیٹ میں ہے، اس سے ہم تمہیں سیراب کرتے ہیں، اور ان میں تمہارے لیے بہت سے فوائد ہیں، اور انہی سے تم غذا بھی حاصل کرتے ہو۔
اور انہی پر اور کشتیوں پر تمہیں سوار بھی کیا جاتا ہے۔
اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کے پاس بھیجا تھا، چنانچہ انہوں نے (قوم سے) کہا کہ میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے، بھلا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟
اس پر ان کی قوم کے کافر سرداروں نے (ایک دوسرے سے) کہا۔ اس شخص کی اس کے سوا کوئی حقیقت نہیں کہ یہ تمہی جیسا ایک انسان ہے جو تم پر اپنی برتری جمانا چاہتا ہے، اور اگر اللہ چاہتا تو فرشتے نازل کر دیتا۔ یہ بات تو ہم نے اپنے پچھلے باپ دادوں میں کبھی نہیں سنی۔
(رہا یہ شخص، تو) یہ اور کچھ نہیں ایک ایسا آدمی ہے جسے جنون لاحق ہو گیا ہے، اس لیے کچھ وقت تک اس کا انتظار کر کے دیکھ لو (کہ شاید اپنے حواس میں آ جائے)
نوح نے کہا۔ یا رب! ان لوگوں نے مجھے جس طرح جھوٹا بنایا ہے، اس پر تو ہی میری مدد فرما۔
چنانچہ ہم نے ان کے پاس وحی بھیجی کہ تم ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بناؤ۔ پھر جب ہمارا حکم آ جائے، اور تنور ابل پڑے۔ (۱۴) تو ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اسے بھی اس کشتی میں سوار کر لینا۔ (۱۵) اور اپنے گھر والوں کو بھی، سوائے ان کے جن کے خلاف پہلے ہی حکم صادر ہو چکا ہے۔ (۱۶) اور ان ظالموں کے بارے میں مجھ سے کوئی بات نہ کرنا، یہ بات طے ہے کہ یہ سب غرق کیے جائیں گے۔

تفسیر

۱۴۔ تنور چولھے کو بھی کہتے ہیں اور سطح زمین کو بھی، بعض روایات میں ہے کہ طوفان نوح اس طرح شروع ہوا تھا کہ ایک چولھے سے پانی ابلنے لگا، اوپر سے بارش شروع ہو گئی اور رفتہ رفتہ وہ ایک ہولناک طوفان میں بدل گیا، حضرت نوحؑ کا واقعہ قدرے تفصیل کے ساتھ سورۃ ہود (۱۱۔ ۲۵ تا ۴۸) میں گزر چکا ہے۔
۱۵۔ تاکہ ضرورت کے جانوروں کی نسل باقی رہے
۱۶۔ اس سے مراد حضرت نوحؑ کے خاندان کے وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں لائے تھے، اور نہ ان کا ایمان لانا مقدر تھا، مثلاً ان کا بیٹا کنعان جس کا واقعہ سورۃ ہود میں گذر چکا ہے۔

آیت ۲۸ ۔ ۳۲

ترجمہ

پھر جب تم اور تمہارے ساتھی کشتی میں ٹھیک ٹھیک بیٹھ چکیں تو کہنا۔ شکر ہے اللہ کا جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات عطا فرمائی۔
اور کہنا۔ یارب! مجھے ایسا اترنا نصیب کر جو برکت والا ہو، اور تو بہترین اتارنے والا ہے۔
اس سارے واقعے میں بڑی نشانیاں ہیں، اور یقینی بات ہے کہ ہمیں آزمائش تو کرنی ہی کرنی تھی۔
پھر ان کے بعد ہم نے دوسری نسلیں پیدا کیں۔
اور ان کے درمیان انہی میں کے ایک شخص کو رسول بنا کر بھیجا۔ (۱۷) (جس نے کہا) کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ بھلا کیا تم ڈرتے نہیں ہو؟

تفسیر

۱۷۔ یہاں قرآن کریم نے پیغمبر کا نام نہیں لیا، لیکن زیادہ ظاہر یہ ہے کہ اس سے مراد حضرت صالحؑ ہیں جنہیں قوم ثمود کی طرف بھیجا گیا تھا، کیونکہ آگے آیت نمبر ۴۰ میں فرمایا گیا ہے کہ ان کی قوم کو چنگھاڑ سے ہلاک کیا گیا تھا، اور بعض مفسرین نے یہ احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ شاید حضرت ہودؑ مراد ہوں، جنہیں قوم عاد کی طرف بھیجا گیا تھا اور چنگھاڑ سے مراد ہوا کا عذاب ہے جس کے ساتھ یقیناً خوفناک آواز بھی ہو گی، ان دونوں کی واقعات سورۃ اعراف (۷۔ ۶۵ تا ۷۳) اور سورۃ ہود (۱۱۔ ۵۰ تا ۶۱) میں گزر چکے ہیں۔

آیت ۳۳ ۔ ۴۳

ترجمہ

ان کی قوم کے وہ سردار جنہوں نے کفر اپنا رکھا تھا، اور جنہوں نے آخرت کا سامنا کرنے کو جھٹلایا تھا، اور جن کو ہم نے دنیوی زندگی میں خوب عیش دے رکھا تھا، انہوں نے (ایک دوسرے سے) کہا۔ اس شخص کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ یہ تمہی جیسا ایک انسان ہے۔ جو چیز تم کھاتے ہو، یہ بھی کھاتا ہے، اور جو تم پیتے ہو، یہ بھی پیتا ہے۔
اور اگر کہیں تم نے اپنے ہی جیسے ایک انسان کی فرمانبرداری قبول کر لی تو تم بڑے ہی گھاٹے کا سودا کرو گے۔
بھلا بتاؤ یہ شخص تمہیں ڈراتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے، اور مٹی اور ہڈیوں میں تبدیل ہو جاؤ گے تو تمہیں دوبارہ زمین سے نکالا جائے گا؟
جس بات سے تمہیں ڈرایا جا رہا ہے وہ تو بہت ہی بعید بات ہے، سمجھ سے بالکل ہی دور۔
زندگی تو ہماری اس دنیوی زندگی کے سوا کوئی اور نہیں ہے (یہیں) ہم مرتے اور جیتے ہیں، اور ہمیں دوبارہ زندہ نہیں کیا جا سکتا۔
(رہا یہ شخص، تو) یہ اور کچھ نہیں، ایک ایسا آدمی ہے جس نے اللہ پر جھوٹا بہتان گھڑا ہے، اور ہم اس پر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
پیغمبر نے کہا۔ یا رب! ان لوگوں نے مجھے جس طرح جھوٹا بنایا ہے، اس پر تو ہی میری مدد فرما۔
اللہ نے فرمایا۔ اب تھوڑی ہی دیر کی بات ہے کہ یہ لوگ پچھتاتے رہ جائیں گے۔
چنانچہ اس سچے وعدے کے مطابق ان کو ایک چنگھاڑ نے آ پکڑا اور ہم نے انہیں کوڑا کرکٹ بنا کر رکھ دیا۔ پھٹکار ہے ایسے ظالم لوگوں پر۔
اس کے بعد ہم نے دوسری نسلیں پیدا کیں۔
کوئی امت نہ اپنے معین وقت سے پہلے جا سکتی ہے، نہ اس کے بعد ٹھہر سکتی ہے۔ (۱۸)

تفسیر

۱۸۔ یعنی تقدیر میں اللہ تعالیٰ نے جس قوم کے لیے فنا ہونے کا جو وقت مقرر کر رکھا ہے، وہ اس سے آگے پیچھے نہیں ہو سکتی۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۴۴ ۔ ۴۷

ترجمہ

پھر ہم نے پے در پے اپنے پیغمبر بھیجے، جب بھی کسی قوم کے پاس اس کا پیغمبر آتا تو وہ اسے جھٹلاتے، چنانچہ ہم نے بھی ایک کے بعد ایک (کو ہلاک کرنے) کا سلسلہ باندھ دیا، اور انہیں قصہ کہانیاں بنا ڈالا۔ پھٹکار ہے ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے۔
پھر ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور واضح ثبوت کے ساتھ بھیجا
فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس تو انہوں نے گھمنڈ کا مظاہرہ کیا، اور وہ بڑے تکبر والے لوگ تھے۔
چنانچہ کہنے لگے۔ کیا ہم اپنے جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں، حالانکہ ان کی قوم ہماری غلامی کر رہی ہے؟ (۱۹)

تفسیر

۱۹۔ حضرت موسیٰ اور ہارونؑ کی قوم بنی اسرائیل تھی جسے فرعون نے غلام بنایا ہوا تھا۔

آیت ۴۸ ۔ ۵ـ

ترجمہ

اس طرح انہوں نے ان دونوں کو جھٹلایا، اور آخر کار وہ بھی ان لوگوں سے جا ملے جنہیں ہلاک کیا گیا تھا۔
اور موسیٰ کو ہم نے کتاب عطا فرمائی، تاکہ ان کے لوگ رہنمائی حاصل کریں۔
اور مریم کے بیٹے (عیسی علیہ السلام) کو اور ان کی ماں کو ہم نے ایک نشانی بنایا، اور ان دونوں کو ایک ایسی بلندی پر پناہ دی جو ایک پرسکون جگہ تھی، اور جہاں صاف ستھرا پانی بہتا تھا۔ (۲۰)

تفسیر

۲ـ۔ حضرت عیسیٰؑ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی ایک نشانی کے طور پر بغیر باپ کے بیت اللحم کے مقام پر پیدا ہوئے تھے، بیت اللحم کا بادشاہ ان کی والدہ کا دشمن ہو گیا تھا، اس لئے حضرت مریم (علیہا السلام) کو وہاں سے نکل کر کسی ایسی جگہ اپنے آپ کو اور اپنے صاحبزادے کو چھپانا پڑا جہاں اس بادشاہ کی پہنچ نہ ہو، قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں ایک ایسی بلند جگہ پر پناہ دی جو ان کے لئے پرسکون بھی تھی، اور وہاں چشمے کا پانی بھی بہتا تھا جو ان کی ضروریات پوری کر سکے۔

آیت ۵۱۔ ۵۶

ترجمہ

اے پیغمبرو! پاکیزہ چیزوں میں سے (جو چاہو) کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، مجھے اس کا پورا پورا علم ہے۔
اور حقیقت یہ ہے کہ یہی تمہارا دین ہے، (سب کے لیے) ایک ہی دین، اور میں تمہارا پروردگار ہوں، اس لیے دل میں (صرف) میرا رعب رکھو۔
پھر ہوا یہ کہ لوگوں نے اپنے دین میں باہم پھوٹ ڈال کر فرقے بنا لیے، ہر گروہ نے اپنے خیال میں جو طریقہ اختیار کر لیا ہے، اسی پر مگن ہے۔
لہذا (اے پیغمبر) ان کو ایک خاص وقت تک اپنی جہالت میں ڈوبا رہنے دو۔
کیا یہ لوگ اس خیال میں ہیں کہ ہم ان کو جو دولت اور اولاد دیے جا رہے ہیں۔
تو ان کو بھلائیاں پہچانے میں جلدی دکھا رہے ہیں؟ (۲۱) نہیں، بلکہ ان کو حقیقت کا شعور نہیں ہے۔

تفسیر

۲۱۔ بہت سے کفار اپنے حق پر ہونے کی یہ دلیل دیتے تھے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے بہت سامال و دولت دے رکھا ہے، ہماری اولاد بھی خوشحال ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہے، اور ہمیں آئندہ بھی خوشحال رکھے گا، اگر ناراض ہوتا تو یہ مال اور اولاد ہمیں میسر نہ ہوتا، یہ آیت ان کا جواب دے رہی ہے اور وہ یہ کہ دنیا میں مال و دولت مل جانا اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی دلیل نہیں ہے ؛ کیونکہ وہ کافروں اور نافرمانوں کو بھی رزق دیتا ہے اس کے بجائے وہ ان لوگوں سے خوش ہے، اور ان کا انجام بہتر کرے گا جن کے حالات آیت نمبر۔ ۵۷ تا ۶۰ میں بیان فرمائے گئے ہیں۔

آیت ۵۷ ۔ ۶ـ

ترجمہ

حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے پروردگار کے رعب سے ڈرے رہتے ہیں۔
اور جو اپنے پروردگار کی آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔
اور جو اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں مانتے۔
اور وہ جو عمل بھی کرتے ہیں، اسے کرتے وقت ان کے دل اس بات سے سہمے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے پروردگار کے پاس واپس جانا ہے۔ (۲۲)

تفسیر

۲۲۔ یعنی نیک عمل کرتے ہوئے بھی ان کے دل میں کوئی بڑائی نہیں آتی، بلکہ وہ سہمے رہتے ہیں کہ اس عمل میں کوئی ایسی کوتاہی نہ رہ گئی ہو جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا سبب بن جائے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۶۱ ۔ ۶۳

ترجمہ

وہ ہیں جو بھلائیاں حاصل کرنے میں جلدی دکھا رہے ہیں، اور وہ ہیں جو ان کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
اور ہم کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کسی کام کی ذمہ داری نہیں دیتے، اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو (سب کا حال) ٹھیک ٹھیک بول دے گی، اور ان پر کوئی ظلم نہیں ہو گا۔
لیکن ان کے دل اس بات سے غفلت میں ڈوبے ہوئے ہیں، اور اس کے علاوہ ان کی اور بھی کارستانیاں ہیں جو وہ کرتے رہتے ہیں۔ (۲۳)

تفسیر

۲۳۔ یعنی کفر اور شرک کے علاوہ ان لوگوں کے اور بھی بہت سے برے کام ہیں جو وہ کرتے رہتے ہیں

آیت ۶۴ ۔ ۶۹

ترجمہ

یہاں تک کہ جب ہم ان کے دولت مند لوگوں کو عذاب میں پکڑ لیں گے تو وہ ایک دم بلبلا اٹھیں گے۔
آج بلبلاؤ نہیں، ہماری طرف سے تمہیں کوئی مدد نہیں ملے گی۔
میری آیتیں تم کو پڑھ کر سنائی جاتی تھیں تو تم الٹے پاؤں مڑ جاتے تھے۔
بڑے غرور سے اس (قرآن) کے بارے میں رات کو مجلسیں جما کر بے ہودہ باتیں کرتے تھے۔
بھلا کیا ان لوگوں نے اس کلام پر غور نہیں کیا، یا ان کے پاس کوئی ایسی چیز آ گئی ہے جو ان کے پچھلے باپ دادوں کے پاس نہیں آئی تھی؟
یا یہ اپنے پیغمبر کو (پہلے سے) جانتے ہی نہیں تھے، اس وجہ سے ان کا انکار کر رہے ہیں؟ (۲۴)

تفسیر

۲۴۔ اگر کوئی شخص آنحضرتﷺ اور آپ کی سچائی اور امانت و دیانت سے واقف نہ ہوتا تو اس کے دل میں آپ کی نبوت میں شک ہونا کم از کم شروع میں سمجھ میں آ سکتا تھا، لیکن یہ لوگ چالیس سال سے آپ کی سچائی اور اعلی اخلاق و کردار کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کرتے رہے ہیں، اور انہیں یقین سے معلوم ہے کہ آپ نے کبھی نہ جھوٹ بولا ہے، نہ کسی کو دھوکا دیا ہے، اس کے باوجود وہ آپ کو اس طرح جھٹلا رہے ہیں جیسے وہ آپ کے حالات سے کبھی واقف ہی نہیں تھے۔

آیت ۷ـ

ترجمہ

یا ان کا کہنا ہے کہ ان (پیغمبر) کو جنون لاحق ہو گیا ہے؟ نہیں، بلکہ (اصل وجہ یہ ہے کہ) یہ پیغمبر ان کے پاس حق لے کر آئے ہیں، اور ان میں سے اکثر لوگ حق کو پسند نہیں کرتے۔ (۲۵)

تفسیر

۲۵۔ ان کے جھٹلانے کی نہ یہ وجہ ہے کہ آپ کوئی ایسی نئی بات لے کر آئے ہیں جو پچھلے انبیائے کرام لے کر نہ آئے ہوں، نہ آپ کے اعلیٰ اخلاق ان لوگوں سے پوشیدہ ہیں اور یہ سچ مچ آپ کو (معاذ اللہ) مجنون سمجھتے ہیں۔ اصل وجہ اس کے برعکس یہ ہے کہ حق کی جو بات آپ لے کر آئے ہیں، وہ ان کی خواہشات کے خلاف ہے، اس لیے اسے جھٹلانے کے لیے مختلف بہانے بناتے رہتے ہیں۔

آیت ۷۱ ۔ ۷۵

ترجمہ

اور اگر حق ان کی خواہشات کے تابع ہو جاتا تو آسمان اور زمین اور ان میں بسنے والے سب برباد ہو جاتے۔ نہیں، بلکہ ہم ان کے پاس خود ان کے لیے نصیحت کا سامان لے کر آئے ہیں، اور وہ ہیں کہ خود اپنی نصیحت سے منہ موڑے ہوئے ہیں۔
یا (ان کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ) تم ان سے کوئی معاوضہ مانگ رہے ہو؟ تو (یہ بات بھی غلط ہے، اس لیے کہ) تمہارے پروردگار کا دیا ہوا معاوضہ (تمہارے لیے) کہیں بہتر ہے اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔
اور حقیقت یہ ہے کہ تم تو انہیں سیدھے راستے کی طرف بلا رہے ہو۔
اور جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، وہ راستے سے بالکل ہٹے ہوئے ہیں۔
اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور اس تکلیف کو دور کر دیں جس میں یہ مبتلا ہیں تب بھی یہ بھٹکتے ہوئے اپنی سرکشی پر اڑے رہیں گے۔ (۲۶)

تفسیر

۲۶۔ اللہ تعالیٰ نے مشرکین مکہ کو جھنجھوڑنے کے لیے وہ ایک مرتبہ انہیں قحط اور معاشی بدحالی میں مبتلا کیا۔ یہ آیت کسی ایسے ہی موقع پر نازل ہوئی تھی۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۷۶ ۔ ۷۸

ترجمہ

واقعہ یہ ہے کہ ہم نے ان کو (ایک مرتبہ) عذاب میں پکڑا تھا، تو اس وقت بھی یہ لوگ اپنے پروردگار کے سامنے نہیں جھکے۔ اور یہ تو عاجزی کی روش اختیار کرتے ہی نہیں ہیں۔
یہاں تک کہ جب ہم ان پر سخت عذاب والا دروازہ کھول دیں گے، تو یہ ایک دم اس میں مایوس ہو کر رہ جائیں گے۔
وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہارے لیے کان اور آنکھیں اور دل پیدا کیے۔ (مگر) تم لوگ بہت کم شکر ادا کرتے ہو۔ (۲۷)

تفسیر

۲۷۔ یہاں سے اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے مختلف مظاہر بیان فرما رہے ہیں جنہیں کفار مکہ بھی مانتے تھے۔ مقصد یہ ہے کہ جو ذات اتنے عظیم اور حیرت انگیز کام کرنے پر قادر ہے، وہ انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیوں نہیں کر سکتی؟

آیت ۷۹ ۔ ۸۵

ترجمہ

اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور اسی کی طرف تمہیں اکٹھا کر کے لے جایا جائے گا۔
اور وہی ہے جو زندگی اور موت دیتا ہے اور اسی کے قبضے میں رات اور دن کی تبدیلیاں ہیں۔ کیا پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے؟
اس کے بجائے یہ لوگ بھی ویسی ہی باتیں کرتے ہیں جیسی پچھلے لوگوں نے کی تھیں۔
کہتے ہیں کہ کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیوں میں تبدیل ہو جائیں گے تو کیا واقعی ہمیں دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا؟
یہ وہ یقین دہانی ہے جو ہم سے بھی کی گئی ہے اور اسے پہلے ہمارے باپ دادوں سے بھی کی گئی تھی۔ اس کی کوئی حقیقت اس کے سوا نہیں کہ یہ پچھلے لوگوں کے بنائے ہوئے افسانے ہیں۔
(اے پیغمبر! ذرا ان سے) کہو کہ یہ ساری زمین اور اس میں بسنے والے کس کی ملکیت ہیں؟ بتاؤ اگر جانتے ہو۔
وہ ضرور یہی کہیں گے کہ یہ سب کچھ اللہ کا ہے۔ (۲۸) کہو کہ کیا پھر بھی تم سبق نہیں لیتے؟

تفسیر

۲۸۔ کفار عرب مانتے تھے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کی ملکیت ہے، اس کے باوجود مختلف خداؤں کے بھی قائل تھے۔

آیت ۸۶ ۔ ۹۱

ترجمہ

کہو کہ سات آسمانوں کا مالک اور عالی شان عرش کا مالک کون ہے؟
وہ ضرور یہی کہیں گے کہ یہ سب کچھ اللہ کا ہے۔ کہو کہ کیا پھر بھی تم اللہ سے نہیں ڈرتے؟
کہو کہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اختیار ہے، اور جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا؟ بتاؤ اگر جانتے ہو۔
وہ ضرور یہی کہیں گے کہ سارا اختیار اللہ کا ہے۔ کہو کہ پھر کہاں سے تم پر کوئی جادو چل جاتا ہے؟
نہیں (یہ افسانے نہیں) بلکہ ہم نے انہیں حق بات پہنچائی ہے، اور یہ لوگ یقیناً جھوٹے ہیں۔
نہ تو اللہ نے کوئی بیٹا بنایا ہے، اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی مخلوق کو لے کر الگ ہو جاتا، اور پھر وہ ایک دوسرے پر چڑھائی کر دیتے۔ (۲۹) پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں۔

تفسیر

۲۹۔ یہ توحید کی تقریباً وہی دلیل ہے جو سورۃ بنی اسرائیل۔ ۴۲ اور سورۃ انبیاء۔ ۲۲ میں گذری ہے۔ تشریح کے لیے ان آیتوں کے حواشی ملاحظہ فرمائیے

آیت ۹۲ ۔ ۹۶

ترجمہ

وہ اللہ جسے تمام چھپی اور کھلی باتوں کا مکمل علم ہے۔ لہذا وہ ان کے شرک سے بہت بلند و بالا ہے۔
(اے پیغمبر) دعا کرو کہ میرے پروردگار! جس عذاب کی دھمکی ان (کافروں) کو دی جا رہی ہے، اگر آپ اسے میری آنکھوں کے سامنے لے آئیں۔
تو اے میرے پروردگار! مجھے ان ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کیجیے گا۔
اور یقین جانو کہ ہم جس چیز کی انہیں دھمکی دے رہے ہیں اسے تمہاری آنکھوں کے سامنے لانے پر پوری طرح قادر ہیں۔
(لیکن جب تک وہ وقت نہ آئے) تم برائی کا دفعیہ ایسے طریقے سے کرتے رہو جو بہترین ہو۔ (۳۰) جو باتیں یہ لوگ بناتے ہیں ہم خوب جانتے ہیں۔

تفسیر

۳ـ۔ یعنی ان کی بے ہودگیوں کا اور ان کی طرف سے جو تکلیفیں پہنچ رہی ہیں ان کا جواب حتی الامکان نرمی، خوش اخلاقی اور احسان سے دئیے جائیے۔

آیت ۹۷ ۔ ۱ــ

ترجمہ

اور دعا کرو کہ میرے پروردگار! میں شیطان کے لگائے ہوئے چرکوں سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔
اور میرے پروردگار! میں ان کے اپنے قریب آنے سے بھی آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی پر موت آ کھڑی ہو گی تو وہ کہے گا کہ میرے پروردگار! مجھے واپس بھیج دیجیے۔
تاکہ جس دنیا کو میں چھوڑ کر آیا ہوں، اس میں جا کر نیک عمل کروں۔ ہرگز نہیں! یہ تو ایک بات ہی بات ہے جو وہ زبان سے کہہ رہا ہے، اور ان (مرنے والوں) کے سامنے عالم برزخ کی آڑ ہے۔ (۳۱) جو اس وقت تک قائم رہے گی جب تک ان کو دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے۔

تفسیر

۳۱۔ مرنے کے بعد سے قیامت تک مردہ جس عالم میں رہتا ہے، اسے عالم برزخ کہا جاتا ہے، اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ مرنے کے بعد تمہارا دنیا میں واپس جانا اب ممکن نہیں، کیونکہ تمہارے سامنے عالم برزخ ہے، جو قیامت تک باقی رہے گا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۱ـ۱

ترجمہ

پھر جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن نہ ان کے درمیان رشتے ناتے باقی رہیں گے، اور نہ کوئی کسی کو پوچھے گا۔ (۳۲)

تفسیر

۳۲۔ دنیا میں رشتہ دار اور دوست ایک دوسرے کے بارے میں یہ پوچھتے رہتے ہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ قیامت کا منظر اتنا ہولناک ہو گا کہ ہر شخص کو اپنی فکر پڑی ہو گی، اور اسے اتنی فرصت نہیں ہو گی کہ وہ رشتہ داروں اور ملاقاتیوں کا حال معلوم کرے۔

آیت ۱ـ۲ ۔ ۱۱ـ

ترجمہ

اس وقت جن کے پلڑے بھاری نکلے تو وہی ہوں گے جو فلاح پائیں گے۔
اور جن کے پلڑے ہلکے پڑ گئے، تو یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے لیے گھاٹے کا سودا کیا تھا، وہ دوزخ میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔
آگ ان کے چہروں کو جھلس ڈالے گی، اور اس میں ان کی صورتیں بگڑ جائیں گی۔
(ان سے کہا جائے گا کہ) کیا میری آیتیں تمہیں پڑھ کر سنائی نہیں جاتی تھیں؟ اور تم ان کو جھٹلایا کرتے تھے۔
وہ کہیں گے کہ ہمارے پروردگار! ہم پر ہماری بدبختی چھا گئی تھی، اور ہم گمراہ لوگ تھے۔
ہمارے پروردگار! ہمیں یہاں سے باہر نکال دیجیے، پھر اگر ہم دوبارہ وہی کام کریں تو بیشک ہم ظالم ہوں گے۔
اللہ فرمائے گا۔ اسی (دوزخ) میں ذلیل ہو کر پڑے رہو، اور مجھ سے بات بھی نہ کرو۔
میرے بندوں میں سے ایک جماعت یہ دعا کرتی تھی کہ اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لے آئے ہیں، پس ہمیں بخش دیجیے، اور ہم پر رحم فرمایے، اور آپ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم فرمانے والے ہیں۔
تو تم نے ان لوگوں کا مذاق بنایا تھا۔ یہاں تک کہ ان ہی (کے ساتھ چھیڑ چھاڑ) نے تمہیں میری یاد تک سے غافل کر دیا، اور تم ان کی ہنسی اڑاتے رہے۔ (۳۳)

تفسیر

۳۳۔ یعنی تمہارا جرم صرف یہی نہیں ہے کہ تم نے اللہ تعالیٰ کے حقوق پامال کیے۔ بلکہ نیک بندوں پر ظلم کر کے حقوق العباد بھی پامال کیے۔ اس دن کی ہولناک سزا سے تمہیں پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا تھا، مگر تم اس کا مذاق اڑاتے رہے، اس لیے اب تم کسی رعایت کے مستحق نہیں ہو۔

آیت ۱۱۱ ۔ ۱۱۳

ترجمہ

انہوں نے جس طرح صبر سے کام لیا تھا، آج میں نے انہیں اس کا یہ بدلہ دیا ہے کہ انہوں نے اپنی مراد پالی ہے۔
(پھر) اللہ (ان دوزخیوں سے) فرمائے گا۔ تم زمین میں گنتی کے کتنے سال رہے؟
وہ کہیں گے کہ ہم ایک دن یا ایک دن سے بھی کم رہے ہوں گے۔ (۳۴) (ہمیں پوری طرح یاد نہیں) اس لیے جنہوں نے (وقت کی) گنتی کی ہو، ان سے پوچھ لیجیے۔

تفسیر

۳۴۔ آخرت کا عذاب اتنا سخت یوگا کہ اس کے مقابلے میں دنیا کی ساری زندگی اور اس میں جو عیش و عشرت کیے تھے وہ ان دوزخیوں کو ایک دن یا اس سے بھی کم معلوم ہوں گے۔

آیت ۱۱۴

ترجمہ

اللہ فرمائے گا۔ تم تھوڑی مدت سے زیادہ نہیں رہے۔ کیا خوب ہوتا اگر یہ بات تم نے (اس وقت) سمجھ لی ہوتی (۳۵)

تفسیر

۳۵۔ یعنی اب تو تم نے خود دیکھا لیا کہ دنیا کا عیش ایک دن کا نہ سہی، مگر آخرت کے مقابلے میں بہت تھوڑا سا تھا۔ یہی بات تم سے دنیا میں کہی جاتی تھی تو تم اسے ماننے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ کاش یہ حقیقت تم نے اس وقت سمجھ لی ہوتی تو آج تمہارا یہ حشر نہ ہوتا۔

آیت ۱۱۵

ترجمہ

بھلا کیا تم یہ سمجھتے بیٹھے تھے کہ ہم نے تمہیں یونہی بے مقصد پیدا کر دیا، (۳۶)، اور تمہیں واپس ہمارے پاس نہیں لایا جائے گا؟

تفسیر

۳۶۔ جو لوگ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں، ان کے موقف کا لازمی مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بے مقصد پیدا کر دی ہے۔ یہاں جس کے جو جی میں آئے کرتا رہے۔ اس کا کوئی بدلہ کسی اور زندگی میں ملنے والا نہیں ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی حکمت پر ایمان رکھتا ہو، اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی غلط بات منسوب کرے، لہذا آخرت پر ایمان اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا منطقی تقاضا ہے۔

آیت ۱۱۶ ۔ ۱۱۸

ترجمہ

غرض بہت اونچی شان ہے اللہ کی جو صحیح معنی میں بادشاہ ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ عزت والے عرش کا مالک ہے۔
اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی اور خدا کو پکارے، جس پر اس کے پاس کسی قسم کی کوئی دلیل نہیں، تو اس کا حساب اس کے پروردگار کے پاس ہے۔ یقین جانو کہ کافر لوگ فلاح نہیں پا سکتے۔
اور تم (اے پیغمبر) یہ کہو کہ میرے پروردگار! ہماری خطائیں بخش دے، اور رحم فرما دے، تو سارے رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
٭٭٭
 
Top