غزل

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
غزل
درد کے موسم سہانے تھے سہانے ہی رہے
کچھ نہیں بدلا دیوانے تھے دیوانے ہی رہے

ہم نئے شہروں میں رہ کر بھی پرانے ہی رہے
دل کی بستی میں ہزاروں انقلاب آئے مگر

ہم نے اپنی سی بہت کی وہ نہیں پگھلا کبھی
اس کے ہو نٹوں پر بہانے تھے بہانے ہی رہے

۱۹۴۷ ء میں ہجرت کر نے والوں کے حوالہ سے

ائے پرندو! ہجرتیں کرنے سے کیا حاصل ہوا
چونچ میں تھے چار دانے چار دانے ہی رہے

زخم کھا کے مسکراؤ شرط ہے صیاد کی
تھک چکا ہوں میں نذرانہ ادا کرتے ہو ئے

مہا جر ین کے نام
ائے مرے آزاد بھائی بن چکا ہوں میں غلام
تیری آزادی کا جرمانہ ادا کرتے ہو ئے
اقبال اشہر
 
Top