غزل
درد کے موسم سہانے تھے سہانے ہی رہے
کچھ نہیں بدلا دیوانے تھے دیوانے ہی رہے
ہم نئے شہروں میں رہ کر بھی پرانے ہی رہے
دل کی بستی میں ہزاروں انقلاب آئے مگر
ہم نے اپنی سی بہت کی وہ نہیں پگھلا کبھی
اس کے ہو نٹوں پر بہانے تھے بہانے ہی رہے
۱۹۴۷ ء میں ہجرت کر نے والوں کے حوالہ سے
ائے پرندو! ہجرتیں کرنے سے کیا حاصل ہوا
چونچ میں تھے چار دانے چار دانے ہی رہے
زخم کھا کے مسکراؤ شرط ہے صیاد کی
تھک چکا ہوں میں نذرانہ ادا کرتے ہو ئے
مہا جر ین کے نام
ائے مرے آزاد بھائی بن چکا ہوں میں غلام
تیری آزادی کا جرمانہ ادا کرتے ہو ئے
اقبال اشہر
درد کے موسم سہانے تھے سہانے ہی رہے
کچھ نہیں بدلا دیوانے تھے دیوانے ہی رہے
ہم نئے شہروں میں رہ کر بھی پرانے ہی رہے
دل کی بستی میں ہزاروں انقلاب آئے مگر
ہم نے اپنی سی بہت کی وہ نہیں پگھلا کبھی
اس کے ہو نٹوں پر بہانے تھے بہانے ہی رہے
۱۹۴۷ ء میں ہجرت کر نے والوں کے حوالہ سے
ائے پرندو! ہجرتیں کرنے سے کیا حاصل ہوا
چونچ میں تھے چار دانے چار دانے ہی رہے
زخم کھا کے مسکراؤ شرط ہے صیاد کی
تھک چکا ہوں میں نذرانہ ادا کرتے ہو ئے
مہا جر ین کے نام
ائے مرے آزاد بھائی بن چکا ہوں میں غلام
تیری آزادی کا جرمانہ ادا کرتے ہو ئے
اقبال اشہر