سورۃ نور مفتی تقی عثمانی تفسیر آسان قرآن

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
تعارف
اس سورت کا مرکزی موضوع معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی کو روکنے اور عفت و عصمت کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہدایات اور احکام دینا ہے۔ پچھلی سورت کے شروع میں مومنوں کی جو خصوصیات بیان فرمائی گئی تھیں، ان میں سے ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، یعنی با عفت زندگی گزارتے ہیں۔ اب اس سورت میں با عفت زندگی گزارنے کے ضروری تقاضے بیان فرمائے گئے ہیں۔ چنانچہ سورت کے شروع ہی میں زنا کی شرعی سزا بیان فرمائی گئی ہے، اور ساتھ ہی یہ بتایا گیا ہے کہ جس طرح زنا انتہائی گھناؤنا جرم ہے، اسی طرح کسی بے گناہ پر شرعی ثبوت کے بغیر زنا کا الزام لگانا بھی نہ صرف سخت گناہ ہے، بلکہ اس پر بھی سخت قانونی سزا مقرر فرمائی گئی ہے۔ غالب گمان یہ ہے کہ یہ سورت ہجرت کے بعد چھٹے سال نازل ہوئی اس سال آنحضرتﷺ کو عرب کے ایک قبیلے بنو المصطلق کے بارے میں یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ آپ پر حملہ کرنے کے لیے ایک لشکر جمع کر رہا ہے۔ آپ نے اس کے حملے سے پہلے ہی پیش قدمی کر کے اس کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ اسی سفر سے واپسی پر منافقین نے حضرت صدیقہ عائشہؓ کے خلاف بڑی کمیں گی کے ساتھ ایک بے بنیاد تہمت لگائی، اور اسے مدینہ منورہ میں بڑے پیمانے پر شہرت دی جس سے کچھ مخلص مسلمان بھی متاثر ہو گئے۔ اس سورت کی آیات۔ ۱۱ تا ۲۰ حضرت عائشہ کی برأت کا اعلان کرنے کے لیے نازل ہوئیں۔ اور جن لوگوں نے تہمت لگانے کا گھناؤنا جرم کیا تھا ان کو اور معاشرے میں عریانی و فحاشی پھیلانے والوں کو سخت عذاب کی وعیدیں سنائی گئیں۔ نیز عفت و عصمت کی حفاظت کے پہلے قدم کے طور پر خواتین کو پردے کے احکام بھی اسی سورت میں دیے گئے ہیں، اور دوسروں کے گھر جانے کے لیے ضروری آداب و احکام کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔

آیت ۱، ۲

ترجمہ

یہ ایک سورت ہے جو ہم نے نازل کی ہے، اور جس (کے احکام) کو ہم نے فرض کیا ہے، اور اس میں کھلی کھلی آیتیں نازل کی ہیں، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔
زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد دونوں کو سو سو کوڑے لگائے، (۱) اور اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، تو اللہ کے دین کے معاملے میں ان پر ترس کھانے کا کوئی جذبہ تم پر غالب نہ آئے۔ اور یہ بھی چاہیے کہ مومنوں کا ایک مجمع ان کی سزا کو کھلی آنکھوں دیکھے۔

تفسیر

۱۔ یہ وہ سزا ہے جو مرد یا عورت کے زنا کرنے پر قرآن کریم نے مقرر فرمائی ہے، اور جسے اصطلاح میں حد زنا کہا جاتا ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے اپنے ارشاد اور اپنے عمل سے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ اگر زنا کا ارتکاب کسی غیر شادی شدہ مرد یا عورت نے کیا ہو تب تو یہی سزا دی جائے گی، اور اگر اس جرم کا ارتکاب شادی شدہ مرد یا عورت نے کیا ہو، تو اس کی سزا رجم یعنی سنگساری ہے۔ اس مسئلے کی مکمل تحقیق میری کتاب عدالتی فیصلے میں دیکھی جا سکتی ہے۔

آیت ۳

ترجمہ

زانی مرد نکاح کرتا ہے تو زنا کا ریا مشرک عورت ہی سے نکاح کرتا ہے، اور زنا کار عورت سے نکاح کرتا ہے تو وہی مرد جو خود زانی ہو، یا مشرک ہو (۲) اور یہ بات مومنوں کے لیے حرام کر دی گئی ہے (۳)

تفسیر

۲۔ یعنی جو شخص بدکاری کا عادی ہو، اور اس پر نہ شرمندہ ہو، نہ توبہ کرتا ہو، اس کا مزاج ایسی ہی عورت سے ملتا ہے جو بدکار ہو، اس لیے اول تو وہ بدکاری ہی کی کوشش میں رہتا ہے، اور اگر نکاح کرنا پڑ جائے تو وہ نکاح بھی ایسی ہی بدکار عورت سے کرنا چاہتا ہے، چاہے وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو، اسی طرح جو عورت اسی طرح کی عادی بدکار ہو اس کا مزاج بھی بدکار مرد ہی سے ملتا ہے، اس لیے اس سے نکاح وہی کرتا ہے جو خود بدکاری کا عادی رہا ہو، اور اسے اس بات سے کوئی شرم محسوس نہ ہوتی ہو کہ اس کی بیوی بدکاری میں ملوث ہے، اور وہ خود بھی ایسے ہی مرد کو پسند کرتی ہے، چاہے وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو۔
۳۔ یعنی بدکار مرد یا عورت کو نکاح کے لیے پسند کرنا مسلمانوں کے لیے حرام ہے۔ انہیں چاہئے کہ وہ اپنے لیے شریک زندگی تلاش کرتے وقت اس کی نیکی اور پاک دامنی کا ضرور خیال رکھیں۔ یہ اور بات ہے کہ اگر کسی نے کسی بدکار مرد یا عورت سے نکاح کر لیا تو اس نکاح کو باطل نہیں کہا جائے گا، اور اس پر نکاح کے تمام احکام جاری ہوں گے، لیکن اس غلط انتخاب کا گناہ ضرور ہو گا۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ حکم ان عادی بدکاروں کا ہے جنہوں نے اپنے اس گناہ سے توبہ نہ کی ہو۔ لیکن اگر کسی نے توبہ کر لی تو پھر اس کے ساتھ نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس آیت کی تشریح اس کے علاوہ بھی دوسرے طریقوں سے کی گئی ہے لیکن جو تشریح یہاں لکھی گئی ہے وہ آسان اور بے غبار ہے۔ حضرت حکیم الامۃ مولانا اشرف علی تھانوی نے بھی بیان القرآن میں اسی کو ترجیح دی ہے۔

آیت ۴

ترجمہ

اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، تو ان کو اسی کوڑے لگاؤ (۴) اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو، (۵) اور وہ خود فاسق ہیں۔

تفسیر

۴۔ جس طرح زنا ایک انتہائی گھناؤنا جرم ہے، اور اس پر سزا بھی بڑی سخت رکھی گئی ہے، اسی طرح کسی بے گناہ پر زنا کی جھوٹی تہمت لگانے کو بھی نہایت سنگین جرم قرار دیا گیا ہے، اور اس کی سزا اسی کوڑے مقرر کی گئ ہے۔ اس کو اس اصطلاح میں حد قذف کہا جاتا ہے۔
۵۔ یہ بھی جھوٹی تہمت کی سزا کا ایک حصہ ہے کہ ایسی تہمت لگانے والے کی گواہی کسی بھی مقدمے میں قبول کی جائے گی۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۵

ترجمہ

ہاں جو لوگ اس کے بعد توبہ کر لیں، اور (اپنی) اصلاح کر لیں، تو اللہ بہت بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ (۶)

تفسیر

۶۔ توبہ سے جھوٹی تہمت کا گناہ تو معاف ہو جائے گا لیکن جو سزائیں اوپر بیان کی گئی ہیں، وہ پھر بھی دی جائیں گی۔

آیت ۶

ترجمہ

اور جو لوگ اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں (۷) اور خود اپنے سوا ان کے پاس کوئی اور گواہ نہ ہوں تو ایسے کسی شخص کو جو گواہی دینی ہو گی وہ یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ بیان دے کہ وہ (بیوی پر لگائے ہوئے الزام میں) یقیناً سچا ہے۔

تفسیر

۷۔ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے تو اوپر جو قاعدہ بیان کیا گیا ہے، اس کی رو سے اگر وہ چار گواہ نہ لا سکے تو اس پر بھی اسی کوڑوں کی سزا لاگو ہونی چاہئے تھی، لیکن میاں بیوی کے تعلقات کی خصوصی نوعیت کی وجہ سے ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک الگ خصوصی طریقہ کار مقرر فرمایا ہے جسے اصطلاح میں لعان کہا جاتا ہے۔ یہ طریق کار ان آیات میں بیان ہوا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں کو قاضی ان الفاظ میں پانچ پانچ قسمیں کھانے کو کہے گا جو ان آیتوں میں بیان کیے گئے ہیں۔ اور اس سے پہلے دونوں کو یہ ترغیب دے گا کہ آخرت کا عذاب دنیا کی سزا سے زیادہ سخت ہے، اس لیے جھوٹی قسم کھانے کے بجائے اصل حقیقت کا اعتراف کر لو۔ اگر بیوی قسم کھانے کے بجائے اپنے جرم کا اعتراف کر لے تو اس پر زنا کی حد جاری ہو گی، اور اگر شوہر قسم کھانے کے بجائے یہ اعتراف کر لے کہ اس نے جھوٹا الزام لگایا تھا تو اس پر وہ حد قذف جاری ہو گی جو آیت نمبر ۴ میں بیان ہوئی ہے۔ اگر دونوں نے قسم کھالیں تو کسی پر دنیا میں سزا جاری نہیں ہو گی، البتہ اس کے بعد قاضی دونوں کے درمیان نکاح فسخ کر دے گا اور اگر کوئی بچہ پیدا ہوا اور شوہر اسے اپنا بچہ ماننے سے انکار کرے تو وہ صرف ماں کی طرف منسوب ہو گا۔

آیت ۷ ۔ ۱ـ

ترجمہ

اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر میں (اپنے الزام میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو۔
اور عورت سے (زنا کی) سزا دور کرنے کا راستہ یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ گواہی دے کہ اس کا شوہر (اس الزام میں) جھوٹا ہے۔
اور پانچویں مرتبہ یہ کہے کہ اگر وہ سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو۔
اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ کثرت سے توبہ قبول کرنے والا حکمت والا ہے (تو خود سوچ لو کہ تمہارا کیا بنتا؟) (۸)

تفسیر

۸۔ یعنی لعان کا جو طریق کار مقرر کیا گیا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے، ورنہ اگر میاں بیوی کے درمیان بھی وہی قاعدہ جاری ہوتا کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو بدکاری میں مبتلا دیکھے تو اس وقت تک زبان نہ کھولے جب تک چار گواہ میسر نہ ہوں، ورنہ خود اس کو اسی کوڑے لگائے جائیں گے تو سخت دشواری کا سامنا ہوتا۔

آیت ۱۱

ترجمہ

یقین جانو کہ جو لوگ یہ جھوٹی تہمت گھڑ کر لائے ہیں وہ تمہارے اندر ہی کا ایک ٹولہ ہے (۹) تم اس بات کو اپنے لیے برا نہ سمجھو، بلکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہی بہتر ہے۔ (۱۰) ان لوگوں میں سے ہر ایک کے حصے میں اپنے کیے کا گناہ آیا ہے۔ اور ان میں سے جس شخص نے اس (بہتان) کا بڑا حصہ اپنے سر لیا ہے اس کے لیے تو زبردست عذاب ہے۔ (۱۱)

تفسیر

۹۔ یہاں سے آیت نمبر ۲۶ تک جس واقعے کی طرف اشارہ ہے، اس کا پس منظر یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد اسلام کو جو تیز رفتار فروغ حاصل ہوا، اس پر کفر کی طاقتیں دانت پیس رہی تھیں۔ خود مدینہ منورہ میں ان منافقوں کا ایک گروہ موجود تھا جو زبان سے تو اسلام لے آئے تھے، لیکن ان کے دلوں میں آنحضرتﷺ اور صحابہ کے خلاف کینہ بھرا ہوا تھا، اور وہ مسلمانوں کو بدنام کرنے اور تکلیف پہچانے کا کوئی موقع چھوڑتے نہیں تھے۔ اسی زمانے میں غزوہ بنو المصطلق پیش آیا جس میں جگہ پڑاؤ ڈالا گیا تو حضرت عائشہ کا ایک ہار گم ہو گیا، اور وہ اس کی تلاش میں جنگل کی طرف نکل گئیں۔ آنحضرتﷺ کو اس واقعے کا علم نہیں تھا، اس لیے آپ نے لشکر روانہ ہونے کا حکم دے دیا، اور جب حضرت عائشہؓ واپس آئیں تو قافلہ جا چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ذہانت اور تحمل کا غیر معمولی مقام عطا فرمایا تھا، وہ پریشان ہو کر ادھر ادھر جانے کے بجائے اسی جگہ بیٹھ گئیں جہاں سے روانہ ہوئی تھیں، کیونکہ انہیں یقین تھا کہ آنحضرتﷺ کو جب ان کی غیر موجودگی کا احساس ہو گا تو آپ ان کی تلاش میں اسی جگہ یا تو خود تشریف لائیں گے یا کسی کو بھیجیں گے۔ قافلوں کا ایک دستور یہ تھا کہ ایک شخص کو قافلے کے بالکل پیچھے اس طرح رکھا جاتا تھا کہ قافلے کی روانگی کے بعد وہ یہ دیکھتا ہوا آئے کہ کوئی چیز گری پڑی تو نہیں رہ گئی ہے۔ اس قافلے میں آپ نے حضرت صفوان بن معطلؓ کو اس کام پر مقرر فرمایا تھا۔ وہ جب اس جگہ سے گذرے جہاں حضرت عائشہؓ بیٹھی ہوئی تھیں تو انہیں اس سانحے کا علم ہوا، اور پھر انہوں نے اپنا اونٹ ام ال مومنین کو پیش کیا، جس پر سوار ہو کر وہ مدینہ منورہ پہنچ گئیں۔ اس واقعے کو منافقین کے سردار عبد اللہ بن ابی نے ایک بتنگڑ بنا لیا کہ حضرت عائشہؓ نے تنہا صفوان بن معطل کے ساتھ سفر کیا ہے، اور اس کی وجہ سے آپ پر وہ گھناؤنی تہمت لگائی جسے زبان سے نکالنا بھی ایک غیرت مند مسلمان کے لیے مشکل ہے۔ عبد اللہ بن ابی نے اس تہمت کو اتنی شہرت دی کہ وہ تین سادہ لوح مسلمان بھی اس کے فریب میں آ گئے، اور اس طرح کئی دن تک یہ بے سروپا باتیں لوگوں میں پھیلائی جاتی رہیں۔ بالآخر سورۃ نور کی یہ آیات نازل ہوئیں جنہوں نے حضرت عائشہؓ کی مکمل برأت ظاہر کرنے کے ساتھ ان لوگوں کو سخت وعیدیں سنائیں جو اس سازش کے کرتا دھرتا تھے۔
۱ـ۔ یعنی اگرچہ بظاہر یہ واقعہ بڑا تکلیف دہ تھا، لیکن انجام کے لحاظ سے تمہارے حق میں بہتر ہی بہتر ہے، اول تو اس لیے کہ اس کے ذریعے وہ لوگ بے نقاب ہو گئے جو خانوادہ نبوت کے خلاف سازشیں کرتے تھے، دوسرے حضرت عائشہؓ کا مقام بلند لوگوں پر ظاہر ہوا تیسرے اس واقعے سے مسلمانوں کو جو تکلیف پہنچی، اس پر انہیں بڑا ثواب ہوا۔
۱۱۔ اس سے مراد منافقوں کا سردار عبد اللہ بن ابی ابی ہے جس نے یہ ساری سازش تیار کی تھی۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۱۲ ۔ ۱۵

ترجمہ

جس وقت تم لوگوں نے یہ بات سنی تھی تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ مومن مرد بھی اور مومن عورتیں بھی اپنے بارے میں نیک گمان رکھتے اور کہہ دیتے کہ یہ کھلم کھلا جھوٹ ہے؟
وہ (بہتان لگانے والے) اس بات پر چار گواہ کیوں نہیں لے آئے؟ اب جبکہ وہ گواہ نہیں لائے تو اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔
اور اگر تم پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو جن باتوں میں تم پڑ گئے تھے ان کی وجہ سے تم پر اس وقت سخت عذاب آ پڑتا۔
جب تم اپنی زبانوں سے اس بات کو ایک دوسرے سے نقل کر رہے تھے (۱۲) اور اپنے منہ سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کا تمہیں کوئی علم نہیں تھا، اور تم اس بات کو معمولی سمجھ رہے تھے، حالانکہ اللہ کے نزدیک وہ بڑی سنگین بات تھی۔

تفسیر

۱۲۔ اگرچہ اکثر مخلص مسلمان اس تہمت کو جھوٹ ہی سمجھتے تھے، لیکن مجلسوں میں اس کا تذکرہ ہونے لگا تھا۔ اس آیت نے بتایا کہ اس طرح کی بے بنیاد اور بے دلیل باتوں کا تذکرہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

آیت ۱۶ ۔ ۲۲

ترجمہ

اور جس وقت تم نے یہ بات سنی تھی، اسی وقت تم نے یہ کیوں نہیں کہا کہ ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم یہ بات منہ سے نکالیں، یا اللہ! آپ کی ذات ہر عیب سے پاک ہے، یہ تو بڑا زبردست بہتان ہے۔
اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی ایسا نہ کرنا، اگر واقعی تم مومن ہو۔
اور اللہ تمہارے سامنے ہدایت کی باتیں صاف صاف بیان کر رہا ہے۔ اور اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔
یاد رکھو کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال ہے اور اللہ بڑا شفیق بڑا مہربان ہے (تو تم بھی نہ بچتے)۔
اے ایمان والو! تم شیطان کے پیچھے نہ چلو، اور اگر کوئی شخص شیطان کے پیچھے چلے، تو شیطان تو ہمیشہ بے حیائی اور بدی کی تلقین کرے گا۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی کبھی پاک صاف نہ ہوتا، لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے پاک صاف کر دیتا ہے۔ اور اللہ ہر بات سنتا، ہر چیز جانتا ہے۔
اور تم میں سے جو لوگ اہل خبر ہیں اور مالی وسعت رکھتے ہیں، وہ ایسی قسم نہ کھائیں کہ وہ رشتہ داروں، مسکینوں اور اللہ کے راستے میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہیں دیں گے، (۱۳) اور انہیں چاہیے کہ معافی اور درگزر سے کام لیں۔ کیا تمہیں یہ پسند نہیں ہے کہ اللہ تمہاری خطائیں بخش دے؟ اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

تفسیر

۱۳۔ جو دو تین مخلص مسلمان اپنی سادہ لوحی سے منافقوں کے پروپیگنڈے کا شکار ہو گئے تھے، ان میں ایک مسطح بن اثاثہؓ بھی تھے جو مہاجر صحابی تھے، اور حضرت صدیق اکبرؓ کے رشتہ دار بھی تھے۔ حضرت صدیق اکبر ان کی مالی مدد فرمایا کرتے تھے۔ جب ان کو پتہ چلا کہ مسطحؓ نے بھی حضرت عائشہ ضرور ہو گئی تھی، لیکن پھر انہوں نے سچے دل سے توبہ بھی کر لی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں متنبہ فرمایا کہ ان کی مالی مدد نہ کرنے کی قسم کھانا ٹھیک نہیں ہے۔ جب انہوں نے توبہ کر لی ہے تو ان کو معاف کر دینا چاہئے۔ چنانچہ حضرت صدیق اکبرؓ نے اس آیت کے نزول کے بعد ان کی مالی امداد دوبارہ جاری کر دی، اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا، اور فرمایا کہ آئندہ کبھی اس امداد کو بند نہیں کروں گا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۲۳ ۔ ۲۶

ترجمہ

یاد رکھو کہ جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی مسلمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں پھٹکار پڑ چکی ہے، اور ان کو اس دن زبردست عذاب ہو گا۔
جس دن خود ان کی زبانیں ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے خلاف اس کرتوت کی گواہی دیں گے جو وہ کرتے رہے ہیں۔
اس دن اللہ ان کو وہ بدلہ پورا پورا دیدے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور ان کو پتہ چل جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے، اور وہی ساری بات کھول دینے والا ہے۔
گندگی عورتیں گندے مردوں کے لائق ہیں، اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق۔ اور پاکباز عورتیں پاکباز مردوں کے لائق ہیں، اور پاکباز مرد پاکباز عورتوں کے لائق (۱۴)۔ یہ (پاکباز مرد اور عورتیں) ان باتوں سے بالکل مبرا ہیں جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ ان (پاکبازوں) کے حصے میں تو مغفرت ہے اور با عزت رزق۔

تفسیر

۱۴۔ اشارہ فرما دیا گیا کہ اس کائنات میں نبی کریمﷺ سے زیادہ پاکباز شخصیت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، چنانچہ اس اصول کے تحت یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی زوجیت میں کسی ایسی خاتون کو لائے جو (معاذ اللہ) پاکباز نہ ہو، کوئی شخص اسی بات پر غور کر لیتا تو اس پر اس تہمت کی حقیقت واضح ہو جاتی۔

آیت ۲۷

ترجمہ

اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک اجازت نہ لے لو، اور ان میں بسنے والوں کو سلام نہ کر لو۔ (۱۵) یہی طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے، امید ہے کہ تم خیال رکھو گے۔

تفسیر

۱۵۔ یہاں سے معاشرے میں بے حیائی پھیلنے کے بنیادی اسباب پر پہرہ بٹھانے کے لیے کچھ احکام دئیے جا رہے ہیں۔ ان میں سب سے پہلا حکم یہ دیا گیا ہے کہ کسی دوسرے کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اس سے اجازت لینا ضروری ہے۔ اس میں ایک تو حکمت یہ ہے کہ کسی دوسرے کے گھر میں بے جا مداخلت نہ ہو جس سے اسے تکلیف پہنچے۔ دوسرے بلا اجازت کسی کے گھر میں چلے جانے سے بے حیائی کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔ اور اجازت لینے کا طریقہ بھی یہ بتایا گیا ہے کہ باہر سے السلام علیکم کہا جائے، یا اگر یہ خیال ہو کہ گھر والا سلام نہیں سن سکے گا، اور اجازت دستک دے کر یا گھنٹی بجا کر لی جا رہی ہے تو جب گھر والا سامنے آ جائے اس وقت اسے سلام کیا جائے۔

آیت ۲۸

ترجمہ

اور اگر تم ان گھروں میں کسی کو نہ پاؤ تب بھی ان میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک تمہیں اجازت نہ دے دی جائے۔ (۱۶) اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ۔ تو واپس چلے جاؤ۔ یہی تمہارے لیے پاکیزہ ترین طریقہ ہے، اور تم جو عمل بھی کرتے ہو اللہ کو اس کا پورا پورا علم ہے۔

تفسیر

۱۶۔ یعنی اگر کوئی گھر کسی اور کا ہے اور بظاہر خالی معلوم ہو رہا ہے، تب بھی اس میں بلا اجازت داخل ہونا جائز نہیں ہے، اول تو ممکن ہے کہ وہ اندر موجود ہو اور نظر نہ آ رہا ہو، اور اگر موجودہ نہ بھی ہو تو کسی اور کے گھر میں اس کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر داخل ہونا جائز نہیں ہے۔

آیت ۲۹

ترجمہ

تمہارے لیے اس میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم ایسے گھروں میں (اجازت لیے بغیر) داخل ہو جن میں کوئی رہتا نہ ہو، اور ان سے تمہیں فائدہ اٹھانے کا حق ہو۔ (۱۷) اور تم جو کام علانیہ کرتے ہو، اور جو چھپ کر کرتے ہو، اللہ ان سب کو جانتا ہے۔

تفسیر

۱۷۔ اس سے مراد وہ عوامی مقامات ہیں جو کسی ایک شخص یا اشخاص کی ملکیت نہیں ہوتے، بلکہ عوام کو ان سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہوتی ہے، مثلاً عوامی مسافر خانے، ہوٹل کے بیرونی حصے، ہسپتال، ڈاک خانے، پارک، مدرسے، وغیرہ۔ اجازت طلب کرنے کے مفصل احکام کے لیے ان آیات کے تحت معارف القرآن کی طرف رجوع کیا جائے جس میں یہ اہم احکام بڑے شرح و بسط کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۳ـ، ۳۱

ترجمہ

مومن مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہی ان کے لیے پاکیزہ ترین طریقہ ہے۔ وہ جو کار روائیاں کرتے ہیں اللہ ان سب سے پوری طرح باخبر ہے۔
اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنی سجاوٹ کو کسی پر ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو خود ہی ظاہر ہو جائے۔ (۱۸) اور اپنی اوڑھنیوں کے آنچل اپنے گریبانوں پر ڈال لیا کریں، اور اپنی سجاوٹ اور کسی پر ظاہر نہ کریں، (۱۹) سوائے اپنے شوہروں کے، یا اپنے باپ، یا اپنے شوہروں کے باپ کے، یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے، یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں، یا اپنی بہنوں کے بیٹوں کے، یا اپنی عورتوں کے، (۲۰) یا ان کے جو اپنے ہاتھوں کی ملکیت میں ہیں (۲۱) یا ان خدمت گزاروں کے جن کے دل میں کوئی (جنسی) تقاضا نہیں ہوتا (۲۲) یا ان بچوں کے جو ابھی عورتوں کے چھپے ہوئے حصوں سے آشنا نہیں ہوئے (۲۳) اور مسلمان عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے پاؤں زمین پر اس طرح نہ ماریں کہ انہوں نے جو زینت چھپا رکھی ہے وہ معلوم ہو جائے۔ (۲۴) اور اے مومنو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو، تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔

تفسیر

۱۸۔ سجاوت سے مراد جسم کے وہ حصے ہیں جن پر زیور پہنا جاتا ہے، یا خوشنما کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ لہذا اس آیت کریمہ نے عورتوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ غیر محرم مردوں کے سامنے اپنا پورا جسم کسی ایسی چادر یا برقع سے چھپائیں جو ان کے سجاوٹ کے مقامات کو چھپا لے۔ البتہ ان مقامات میں سے کوئی حصہ کام کاج کے دوران بے اختیار کھل جائے، یا کسی ضرورت کی وجہ سے کھولنا پڑے تو اسے یہ کہہ کر مستثنی کر دیا گیا ہے کہ سوائے اس کے جو خود ہی ظاہر ہو جائے۔
تفسیر ابن جریر کے مطابق حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے مراد وہ چادر ہے جو عورت نے اوڑھی ہوئی ہو کہ اس کو چھپانا ممکن نہیں ہے۔ اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ ضرورت کے وقت عورت کو اگر اپنا چہرہ اور ہتھیلیوں تک ہاتھ کھولنے پڑیں تو اس آیت نے اس کی بھی اجازت دی ہے۔ لیکن چونکہ چہرہ ہی عورت کے حسن کا اصل مرکز ہوتا ہے۔ اس لیے عام حالات میں اس کو بھی چھپانے کا حکم ہے جیسا کہ سورۃ احزاب۔ ۵۹ میں بیان فرمایا گیا ہے البتہ صرف ضرورت کے مواقع پر اسے کھولنے کی اجازت ہے، اور اس حالت میں بھی مردوں کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، جیسا کہ پچھلی آیت میں گذرا۔
۱۹۔ یہاں سے ان افراد کی فہرست دی جا رہی ہے جن سے عورتوں کو پردہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے
۲ـ۔ بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد مسلمان عورتیں ہیں، لہذا غیر مسلم عورتوں سے بھی پردہ ضروری ہے، لیکن چونکہ متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ غیر مسلم عورتیں ازواج مطہرات کے پاس جایا کرتی تھیں، اس لیے امام رازی اور علامہ آلوسی نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اپنی عورتوں سے مراد اپنے میل جول کی عورتیں ہیں تو چاہے مسلمان ہوں یا کافر۔ ان سے پردہ واجب نہیں ہے (معارف القرآن)
۲۱۔ اس سے مراد باندیاں ہیں، چاہے مسلمان ہوں یا غیر مسلم۔ اور بعض فقہاء نے اپنے غلاموں کو بھی اس میں شامل قرار دیا ہے، یعنی ان سے پردہ نہیں ہے۔
۲۲۔ قرآن کریم میں اصل لفظ ’’تابعین‘‘ استعمال ہوا ہے، اس کے معنی ایسے لوگ ہیں جو کسی دوسرے کے تابع ہوں۔ اکثر مفسرین نے اس کا مطلب یہ بتایا ہے کہ اس زمانے میں کچھ بے عقل قسم کے لوگ ایسے ہوتے تھے جو کسی گھر والے کے اس لیے پیچھے لگ جاتے تھے کہ وہ انہیں کھانا کھلا دے، یا کسی مہمان کے طفیلی بن کر کسی کے گھر میں چلے جاتے تھے اور کھانے کے سوا انہیں کسی سے سروکار نہیں ہوتا تھا، اور نہ ان میں کوئی جنسی خواہش ہوتی تھی۔ البتہ امام شعبی نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد وہ نوکر چاکر ہیں جو اتنے بوڑھے ہو چکے ہوں کہ ان کے دل میں عورتوں کی طرف کوئی میلان باقی نہ رہا ہو۔ (تفسیر ابن جریر)
۲۳۔ یعنی وہ نابالغ بچے جن کو ابھی مرد و عورت کے جنسی تعلقات کا کچھ پتہ ہی نہ ہو۔
۲۴۔ یعنی اگر پاؤں میں پازیب پہنی ہوئی ہے تو اس طرح نہ چلیں کہ پازیب کی آواز سنائی دے، یا زیوروں کے ایک دوسرے سے ٹکرا کر بجنے کی آواز غیر محرم مرد سنیں۔

آیت ۳۲

ترجمہ

تم میں سے جن (مردوں یا عورتوں) کا اس وقت نکاح نہ ہو، ان کا بھی نکاح کراؤ، اور تمہارے غلاموں اور باندیوں میں سے جو نکاح کے قابل ہوں، ان کا بھی۔ اگر وہ تنگ دست ہوں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں بے نیاز کر دے گا۔ (۲۵) اور اللہ بہت وسعت والا ہے، سب کچھ جانتا ہے۔

تفسیر

۲۵۔ اس سورت میں جہاں بے حیائی اور بدکاری کو روکنے کے لیے مختلف احکام دئیے گئے ہیں، وہاں انسان کی فطرت میں جو جنسی خواہش موجود ہے، اس کو حلال طریقے سے پورا کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے، چنانچہ اس آیت میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ جو بالغ مرد و عورت نکاح کے قابل ہوں، تمام متعلقین کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ان کا نکاح ہو جائے، اور یہ اندیشہ نہ کرنا چاہئے کہ اگرچہ اس وقت تو وسعت موجود ہے، لیکن نکاح کے نتیجے میں بیوی بچوں کا خرچ زیادہ ہونے کی وجہ سے کہیں مفلسی نہ ہو جائے، بلکہ جب اس وقت نکاح کی وسعت موجود ہے تو اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر نکاح کر لینا چاہئے۔ پاک دامنی کی نیت سے نکاح کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ آئندہ اخراجات کا بھی مناسب انتظام فرما دے گا۔ البتہ اگلی آیت میں ان لوگوں کا ذکر ہے جن کے پاس اس وقت بھی نکاح کی وسعت نہیں ہے۔ ان کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان میں وسعت پیدا کرے، اس وقت تک وہ پاک دامنی کے ساتھ رہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۳۳

ترجمہ

اور جن لوگوں کو نکاح کے مواقع میسر نہ ہوں، وہ پاک دامنی کے ساتھ رہیں، یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے انہیں بے نیاز کر دے۔ اور تمہاری ملکیت کے غلام باندیوں میں سے جو مکاتبت کا معاہدہ کرنا چاہیں، اگر ان میں بھلائی دیکھو تو ان سے مکاتبت کا معاہدہ کر لیا کرو (۲۶) اور (مسلمانو) اللہ نے تمہیں جو مال دے رکھا ہے اس میں سے ایسے غلام باندیوں کو بھی دیا کرو، اور اپنی باندیوں کو دنیوی زندگی کا سازوسامان حاصل کرنے کے لیے بدکاری پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ پاک دامنی چاہتی ہوں، (۲۷) اور جو کوئی انہیں مجبور کرے گا تو ان کو مجبور کرنے کے بعد اللہ (ان باندیوں کو) بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (۲۸)

تفسیر

۲۶۔ جب غلاموں اور باندیوں کا رواج تھا، اس وقت وہ اپنے آقاؤں سے یہ معاملہ کر لیتے تھے کہ وہ ایک طے شدہ رقم کما کر اپنے آقاؤں کو دیں گے جس کے بعد وہ آزاد ہو جائیں گے۔ یہ معاملہ مکاتبت کہلاتا ہے۔ اس آیت نے آقاؤں کو یہ ترغیب دی ہے کہ جب ان کے غلام یا باندیاں ان سے یہ معاملہ کرنا چاہیں تو انہیں قبول کر لینا چاہئے، اور دوسرے مسلمانوں کو یہ ترغیب دی ہے کہ وہ ایسے غلاموں اور بندیوں کی مالی مدد کریں، تاکہ وہ آزادی حاصل کر سکیں۔
۲۷ جاہلیت میں یہ بھی رواج تھا کہ لوگ اپنی کنیزوں سے عصمت فروشی کراتے، اور اس طرح ان کو بدکاری پر مجبور کر کے پیشہ کماتے تھے۔ اس آیت نے اس گھناؤنی رسم کو شدید گناہ قرار دے کر اسے ختم کیا۔
۲۸۔ یعنی جس کنیز کو اس کی مرضی کے خلاف بدکاری پر مجبور کیا گیا، اس کو مجبور ہونے کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں ہو گا، بشرطیکہ اس نے بدکاری سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی ہو، نیز اسے بدکاری کی شرعی سزا بھی نہیں دی جائے گی، البتہ بدکاری کی سزا اس کو ملے گی، جس نے اس سے بدکاری کی، نیز اس آقا کو بھی تعزیری سزا ہو گی جس نے اسے عصمت فروشی پر مجبور کیا۔

آیت ۳۴، ۳۵

ترجمہ

اور ہم نے وہ آیتیں بھی اتار کر تم تک پہنچا دی ہیں جو ہر بات کو واضح کرنے والی ہیں اور ان لوگوں کی مثالیں بھی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں، اور وہ نصیحت بھی جو اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے کارآمد ہے۔
اللہ تمام آسمانوں اور زمین کا نور ہے (۲۹) اس کے نور کی مثال کچھ یوں ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں چراغ رکھا ہو (۳۰) چراغ ایک شیشے میں ہو، شیشہ ایسا ہو جیسے ایک ستارا، موتی کی طرح چمکتا ہوا، وہ چراغ ایسے برکت والے درخت یعنی زیتون سے روشن کیا جائے جو نہ (صرف) مشرقی ہو نہ (صرف) مغربی (۳۱) ایسا لگتا ہو کہ اس کا تیل خود ہی روشنی دیدے گا۔ چاہے اسے آگ بھی نہ لگے، (۳۲) نور بالائے نور، اللہ اپنے نور تک جسے چاہتا ہے، پہنچا دیتا ہے، اور اللہ لوگوں کے فائدے کے لیے تمثیلیں بیان کرتا ہے، اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔

تفسیر

۲۹۔ اس جملے کا سادہ مطلب یہ ہے کہ آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات کو ہدایت کا نور پہچانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ البتہ امام غزالی نے اس آیت کی تشریح میں ایک مستقبل مقالہ لکھا ہے جس میں اس فقرے کا مطلب بڑے لطیف فلسفیانہ انداز میں سمجھایا ہے، ان کی یہ پوری بحث امام رازی نے بھی اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت نقل فرمائی ہے جو اہل علم کے لیے قابل دید ہے۔
۳ـ۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ اگرچہ سورج کی روشنی ایک چراغ کی روشنی سے کہیں زیادہ ہوتی ہے، لیکن یہاں اللہ تعالیٰ کے نور ہدایت کی مثال سورج کے بجائے چراغ سے اس لیے دی گئی ہے کہ یہاں مقصود اس ہدایت کی مثال دینا ہے جو گمراہی کے اندھیروں کے عین درمیان راستہ دکھائے، اور چراغ ہمیشہ اندھیرے کے بیچوں بیچ روشنی پیدا کرتا ہے، اس کے برعکس سورج کی موجودگی میں کوئی اندھیرا باقی نہیں رہتا، اس لیے اندھیرے سے اس کا تقابل ساتھ ساتھ ظاہر نہیں ہوتا (تفسیر کبیر)
۳۱۔ یعنی سورج چاہے مشرق میں ہو یا مغرب میں، اس کی دھوپ اس درخت کو ہر حال میں پہنچتی ہو۔ ایسے درخت کا پھل اچھی طرح پکتا ہے، اور اس کا تیل بھی زیادہ شفاف ہوتا ہے۔
۳۲۔ پکے ہوئے زیتون کا تیل اگر خالص ہو تو خود اس میں اتنی چمک ہوتی ہے کہ وہ دور سے روشن معلوم ہوتا ہے۔

آیت ۳۶، ۳۷

ترجمہ

جن گھروں کے بارے میں اللہ نے یہ حکم دیا ہے کہ ان کو بلند مقام دیا جائے اور ان میں اس کا نام لے کر ذکر کیا جائے، ان میں صبح و شام وہ لوگ تسبیح کرتے ہیں
جنہیں کوئی تجارت یا کوئی خرید و فروخت نہ اللہ کی یاد سے غافل کرتی ہے نہ نماز قائم کرنے سے اور نہ زکوٰۃ دینے سے (۳۳) وہ اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل اور نگاہیں الٹ پلٹ کر رہ جائیں گی۔

تفسیر

۳۳۔ پچھلی آیت میں یہ بیان تھا کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے، نور ہدایت تک پہنچا دیتا ہے۔ اب ان لوگوں کی خصوصیات بیان فرمائی جا رہی ہیں۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے نور ہدایت تک پہنچایا ہے۔ چنانچہ اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ مسجدوں اور عبادت گاہوں میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں۔ یہ مسجدیں اور عبادت گا ہیں ایسے گھر ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ ان کو بلند مرتبہ دے کر ان کی تعظیم کی جائے۔ پھر یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ ان عبادت گاہوں میں عبادت کرنے والے دنیا کو بالکل چھوڑ کر نہیں بیٹھتے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق معاشی کاروبار میں حصہ لے کر تجارت اور خرید و فروخت بھی کرتے ہیں، لیکن یہ تجارتی سرگرمیاں ان کو اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے احکام کی اطاعت سے غافل نہیں کرتیں۔ چنانچہ وہ اپنے وقت پر نماز بھی قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ بھی دیتے ہیں، اور کسی وقت اس حقیقت سے بے پروا نہیں ہوتے کہ ایک ایسا دن آنے والا ہے جس میں سارے اعمال کا حساب دینا ہو گا اور وہ دن اتنا ہولناک ہو گا کہ اس میں لوگوں اور خاص طور پر نافرمانوں کے دل الٹ جائیں گے، اور آنکھیں پلٹ کر رہ جائیں گی۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۳۸

ترجمہ

نتیجہ یہ ہے کہ اللہ ان لوگوں کو ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دے گا، اور اپنے فضل سے مزید کچھ اور بھی دے گا (۳۴) اور اللہ جس کو چاہتا ہے بے حساب دیتا ہے۔

تفسیر

۳۴۔ نیک اعمال کا ثواب کچھ تو وہ ہے جس کا ذکر قرآن و حدیث میں آ گیا ہے۔ اس آیت نے بڑے لطیف انداز میں یہ بتایا ہے کہ نیک لوگوں کا ثواب صرف ان نعمتوں میں منحصر نہیں ہو گا جن کا تذکرہ قرآن و حدیث میں آیا ہے، اور نہ کسی کے دل میں ان کا تصور آیا ہے۔

آیت ۳۹

ترجمہ

اور (دوسری طرف) جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے ان کے اعمال کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹیل صحرا میں ایک سراب ہو جسے پیاسا آدمی پانی سمجھ بیٹھتا ہے، یہاں تک کہ جب اس کے پاس پہنچتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں تھا (۳۵) اور اس کے پاس اللہ کو پاتا ہے، چنانچہ اللہ اس کا پورا پورا حساب چکا دیتا ہے۔ (۳۶) اور اللہ بہت جلدی حساب لے لیتا ہے۔

تفسیر

۳۵۔ ریگستان میں جو ریت چمکتا نظر آتا ہے، دور سے وہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ اپنی ہو، اسے ’’سراب‘‘ کہتے ہیں۔ جس طرح سفر کرتے ہوئے آدمیوں کو سراب دھوکا دیتا ہے کہ وہ اسے پانی سمجھتے ہیں، لیکن در حقیقت وہ کچھ بھی نہیں ہوتا، اسی طرح کافر لوگ جو عبادت نیکی سمجھ کر کرتے ہیں، وہ سراب کی طرح ایک دھوکا ہے۔
۳۶۔ یہ مثال ان کافروں کی ہے جو آخرت کو مانتے ہیں، لیکن توحید اور رسالت کے منکر ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جن اعمال کے بارے میں یہ کافر لوگ سمجھے بیٹھے تھے کہ وہ ان کو آخرت میں فائدہ پہنچائیں گے، مرنے کے بعد انہیں اندازہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا پورا پورا حساب دنیا میں چکا کر انہیں سزا کا مستحق قرار دیا ہے، اور اس طرح ان سارے کاموں نے فائدے کے بجائے نقصان پہنچایا ہے۔

آیت ۴ـ

ترجمہ

یا پھر ان (اعمال) کی مثال ایسی ہے جیسے کسی گہرے سمندر میں پھیلے ہوئے اندھیرے، کہ سمندر کو ایک موج نے ڈھانپ رکھا ہو، جس کے اوپر ایک اور موج ہو، اور اس کے اوپر بادل، غرض اوپر تلے اندھیرے ہی اندھیرے۔ اگر کوئی اپنا ہاتھ باہر نکالے تو اسے بھی نہ دیکھ پائے۔ (۳۷) اور جس شخص کو اللہ ہی نور عطا نہ کرے، اس کے نصیب میں کوئی نور نہیں۔

تفسیر

۳۷۔ یہ ان کافروں کی مثال ہے جو آخرت کو سرے سے مانتے ہی نہیں، اس لیے ان کے پاس اتنا نور بھی نہیں جتنا پہلے گروہ کے پاس تھا کہ کم از کم وہ یہ امید رکھتے تھے کہ ان کے اعمال انہیں آخرت میں فائدہ پہنچائیں گے، لیکن ان لوگوں کے پاس امید کی یہ کرن بھی نہیں ہے۔ اور بعض مفسرین نے دونوں مثالوں میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ کافروں کے اعمال دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو وہ نیکی سمجھ کر کرتے ہیں، اور ان سے فائدے کی امید رکھتے ہیں، ان کی مثال تو سراب جیسی ہے، اور ایک وہ اعمال ہیں جو وہ نیکی سمجھ کر نہیں کرتے، ان کی مثال ان اندھیروں کی ہے جن میں روشنی کوئی کرن نہیں ہوتی۔ پھر سمندر کی تہہ کا اندھیرا ان کے کافرانہ عقائد کی مثال ہے، اور ایک موج کا اندھیرا ان کے برے اعمال کی مثال ہے، اور دوسری موج کا اندھیرا ان کی ہٹ دھرمی کی مثال ہے، اس طرح ان میں اوپر تلے بہت سے اندھیرے جمع ہو گئے ہیں۔ ایسے سخت اندھیرے میں جس طرح انسان کو اپنا ہاتھ بھی نظر نہیں آتا، اسی طرح کفر اور فسق کے اندھیروں میں ان لوگوں کو خود اپنی حقیقت بھی سمجھ میں نہیں آتی۔

آیت ۴۱

ترجمہ

کیا تم نے دیکھا نہیں کہ آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں، اور وہ پرندے بھی جو پر پھیلائے ہوئے اڑتے ہیں۔ ہر ایک کو اپنی نماز اور اپنی تسبیح کا طریقہ معلوم ہے۔ (۳۸) اور اللہ ان کے سارے کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔

تفسیر

۳۸۔ سورۃ بنی اسرائیل (۱۷۔ ۴۴) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے ؛ لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں ہو، یہاں اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرما دیا ہے کہ ہر چیز کے تسبیح کرنے کا طریقہ مختلف ہے، اور کائنات کی تمام چیزیں اپنے اپنے مخصوص انداز میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہی ہیں، جیسا کہ سورۃ بنی اسرائیل کے حاشیے میں عرض کیا گیا، قرآن کریم کی متعدد آیتوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جن چیزوں کو ہم دنیا میں بے حس سمجھتے ہیں ان سب میں کچھ نہ کچھ حس موجود ہے، اور یہ بات اب رفتہ رفتہ موجودہ سائنس بھی تسلیم کر رہی ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۴۲ ۔ ۴۷

ترجمہ

اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے، اور اللہ ہی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے۔
کیا تم نے دیکھا نہیں کہ اللہ بادلوں کو ہنکاتا ہے، پھر ان کو ایک دوسرے سے جوڑ دیتا ہے، پھر انہیں تہہ بر تہہ گھٹا میں تبدیل کر دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ بارش اس کے درمیان سے برس رہی ہے۔ اور آسمان میں (بادلوں کی شکل میں) جو پہاڑ کے پہاڑ ہوتے ہیں، اللہ ان سے اولے برساتا ہے، پھر جس کے لیے چاہتا ہے ان کو مصیبت بنا دیتا ہے، اور جس سے چاہتا ہے ان کا رخ پھیر دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کی بجلی کی چمک آنکھوں کی بینائی اچک لے جائے گی۔
وہی اللہ رات اور دن کا الٹ پھیر کرتا ہے۔ یقیناً ان سب باتوں میں ان لوگوں کے لیے نصیحت کا سامان ہے جن کے پاس دیکھنے والی آنکھیں ہیں۔
اور اللہ نے زمین پر چلنے والے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ہے۔ پھر ان میں سے کچھ وہ ہیں جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں، کچھ وہ ہیں جو دو پاؤں پر چلتے ہیں، اور کچھ وہ ہیں جو چار (پاؤں) پر چلتے ہیں۔ اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ یقیناً اللہ ہر بات پر قدرت رکھتا ہے۔
بیشک ہم نے وہ آیتیں نازل کی ہیں جو حقیقت کو کھول کھول کر بیان کرنے والی ہیں، اور اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے تک پہنچا دیتا ہے۔
اور یہ (منافق) لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور رسول پر ایمان لے آئے ہیں، اور ہم فرمانبردار ہو گئے ہیں، پھر ان میں سے ایک گروہ اس کے بعد بھی منہ موڑ لیتا ہے۔ یہ لوگ (حقیقت میں) مومن نہیں ہیں۔ (۳۹)

تفسیر

۳۹۔ منافقین چونکہ دل سے ایمان نہیں لائے تھے، اس لئے ان سے آنحضرتﷺ اور صحابہ کرام کے خلاف معاندانہ حرکتیں سرزد ہوتی رہتی تھیں، چنانچہ ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ بشر نامی ایک منافق کا ایک یہودی سے جھگڑا ہو گیا، یہودی جانتا تھا کہ آنحضرتﷺ حق کا فیصلہ کریں گے اس لئے اس نے بشر کو پیشکش کی کہ چلو آنحضرتﷺ سے اپنے جھگڑے کا فیصلہ کرا لیں، بشر کے دل میں چور تھا، اس لئے اس نے آپ سے فیصلہ کرانے کے بجائے ایک یہودی سردار کعب بن اشرف سے فیصلہ کرانے کی تجویز پیش کی، اس کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں۔

آیت ۴۸ ۔ ۵۳

ترجمہ

اور جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کریں تو ان میں سے کچھ لوگ ایک دم رخ پھیر لیتے ہیں۔
اور اگر خود انہیں حق وصول کرنا ہو تو وہ بڑے فرمانبردار بن کر سول کے پاس چلے آتے ہیں۔
کیا ان کے دلوں میں کوئی روگ ہے یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں یا انہیں یہ اندیشہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم ڈھائے گا؟ نہیں بلکہ ظلم ڈھانے والے تو خود یہ لوگ ہیں۔
مومنوں کی بات تو یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کریں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے (حکم) سن لیا، اور مان لیا۔ اور ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔
اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کریں، اللہ سے ڈریں، اور اس کی نافرمانی سے بچیں تو وہی لوگ کامیاب ہیں۔
اور یہ (منافق لوگ) بڑے زوروں سے اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر (اے پیغمبر) تم انہیں حکم دو گے تو یہ نکل کھڑے ہوں گے۔ (ان سے) کہو کہ قسمیں نہ کھاؤ۔ (تمہاری) فرمانبرداری کا سب کو پتہ ہے۔ (۴۰) یقین جانو کہ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

تفسیر

۴ـ۔ جب جہاد کا موقع نہ ہوتا تو یہ منافق لوگ منہ بھر بھر کر قسمیں کھاتے تھے کہ اگر حضور اقدسﷺ نے حکم دیا تو یہ جہاد کے لیے گھروں سے نکل کر کھڑے ہوں گے، لیکن جب وقت آتا تو کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے جہاد سے جان چھڑا لیتے تھے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ تمہاری فرماں برداری کی حقیقت تو سب کو معلوم ہے۔ بارہا تجربہ ہو چکا ہے کہ وقت پڑنے پر تمہاری ساری قسمیں دھری رہ جاتی ہیں۔

آیت ۵۴، ۵۵

ترجمہ

(ان سے) کہو کہ اللہ کا حکم مانو اور رسول کے فرمانبردار بنو، پھر بھی اگر تم نے منہ پھیرے رکھا تو رسول پر تو اتنا ہی بوجھ ہے جس کی ذمہ داری ان پر ڈالی گئی ہے، اور جو بوجھ تم پر ڈالا گیا ہے، اس کے ذمہ داری تم خود ہو۔ اگر تم ان کی فرمانبرداری کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے، اور رسول کا فرض اس سے زیادہ نہیں ہے کہ وہ صاف صاف بات پہنچا دیں۔
تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا، جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا، اور ان کے لیے اس دین کو ضرور اقتدار بخشے گا جسے ان کے لیے پسند کیا ہے، اور ان کو جو خوف لاحق رہا ہے، اس کے بدلے انہیں ضرور امن عطا کرے گا۔ (بس) وہ میری عبادت کریں، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور جو لوگ اس کے بعد بھی ناشکری کریں گے تو ایسے لوگ نافرمان ہوں گے۔ (۴۱)

تفسیر

۴۱۔ مکہ مکرمہ میں صحابہ کرام نے کفار کے ظلم و ستم کا سامنا کیا تھا، اور جب وہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ گئے تو اس کے بعد بھی کافروں کی طرف ہر وقت حملوں کا خوف لاحق رہتا تھا۔ اس موقع پر ایک صاحب نے آنحضرتﷺ سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا وقت بھی آئے گا کہ ہم ہتھیار کھول کر چین سکون کے ساتھ رہ سکیں۔ اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے۔ یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی، اور اس میں پیشین گوئی فرمائی گئی کہ آنحضرتﷺ اور صحابہ کرام کو زمین پر اقتدار حاصل ہونے والا ہے، چنانچہ اس وعدے کے مطابق آنحضرتﷺ ہی کے زمانے میں پورا جزیرہ عرب اسلام کے جھنڈے تلے آ چکا تھا اور خلافت راشدہ کے دور میں اسلام حکومت کا دائرہ تقریباً آدھی دنیا تک وسیع ہو گیا تھا۔

آیت ۵۶ ۔ ۵۸

ترجمہ

اور نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ ادا کرو، اور رسول کی فرمانبرداری کرو، تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا برتاؤ کیا جائے۔
یہ ہرگز نہ سمجھنا کہ جن لوگوں نے کفر کا راستہ اپنا لیا ہے، وہ زمین میں (کہیں بھاگ کر ہمیں) بے بس کر دیں گے۔ ان کا ٹھکانا دوزخ ہے، اور یقیناً وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔
اے ایمان والو! جو غلام لونڈیاں تمہاری ملکیت میں ہیں، اور تم میں سے جو بچے ابھی بلوغ تک نہیں پہنچے ان کو چاہیے کہ وہ تین اوقات میں (تمہارے پاس آنے کے لیے) تم سے اجازت لیا کریں۔ نماز فجر سے پہلے، اور جب تم دوپہر کے وقت اپنے کپڑے اتار کر رکھا کرتے ہو، اور نماز عشاء کے بعد (۴۲) یہ تین وقت تمہارے پردے کے اوقات ہیں۔ ان اوقات کے علاوہ نہ تم پر کوئی تنگی ہے، نہ ان پر۔ ان کا بھی تمہارے پاس آنا جانا لگا رہتا ہے، تمہارا بھی ایک دوسرے کے پاس۔ اللہ اسی طرح آیتوں کو تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان کرتا ہے، اور اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔

تفسیر

۴۲۔ آیات ۲۷ تا ۲۹ میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ کسی دوسرے کے گھر میں اجازت مانگے بغیر داخل نہیں ہونا چاہئیے، عام طور سے مسلمان اس حکم پر عمل کرنے لگے تھے لیکن کسی گھر کے غلام باندیوں اور نابالغ لڑکے لڑکیوں کو چونکہ بکثرت گھروں میں آنا جانا رہتا تھا، اس لئے وہ اس حکم کی پابندی نہیں کرتے تھے، چنانچہ بعض واقعات ایسے پیش آئے کہ یہ لوگ کسی کے گھر میں ایسے وقت بلا اجازت داخل ہو گئے جو اس کے آرام اور تنہائی کا وقت تھا، جس سے نہ صرف یہ کہ اس کو تکلیف ہوئی بلکہ بے پردگی بھی ہوئی اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور ان میں یہ واضح کر دیا گیا کہ کم از کم تین اوقات میں ان لوگوں کو بھی بلا اجازت گھروں میں داخل نہیں ہونا چاہئیے، یہ تین اوقات وہ ہیں جن میں عام طور سے انسان تنہائی پسند کرتا ہے اور بے تکلفی سے صرف ضروری کپڑوں میں رہنا چاہتا ہے، اور ایسے میں کسی کے اچانک آ جانے سے بے پردگی کا بھی احتمال رہتا ہے، البتہ دوسرے اوقات میں چونکہ یہ خطرہ نہیں ہے اس لئے ضرورت کی وجہ سے ان کو بلا اجازت بھی چلے جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۵۹، ۶ـ

ترجمہ

اور جب تمہارے بچے بلوغ کو پہنچ جائیں، تو وہ بھی اسی طرح اجازت لیا کریں جیسے ان سے پہلے بالغ ہونے والے اجازت لیتے رہے ہیں۔ اللہ اسی طرح اپنی آیتیں کھول کھول کر تمہارے سامنے بیان کرتا ہے، اور اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔
اور جن بڑی بوڑھی عورتوں کو نکاح کی کوئی توقع نہ رہی ہو، ان کے لیے اس میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ اپنے (زائد) کپڑے، (مثلاً چادریں، نامحرموں کے سامنے) اتار کر رکھ دیں، بشرطیکہ زینت کی نمائش نہ کریں (۴۳) اور اگر وہ احتیاط ہی رکھیں تو ان کے لیے اور زیادہ بہتر ہے۔ اور اللہ سب کچھ سنتا، ہر بات جانتا ہے۔

تفسیر

۴۳۔ یہ ان بوڑھی عورتوں کا حکم ہے جن کی طرف نہ کسی کو رغبت ہوتی ہے، نہ وہ نکاح کے قابل ہوتی ہیں، ان کو یہ سہولت دی گئی ہے کہ عام عورتیں غیر محرم مردوں کے سامنے جانے کے لئے جو چادر یا برقع وغیرہ استعمال کرتی ہیں، یہ بوڑھی عورتیں ان کے بغیر بھی نامحرم مردوں کے سامنے جا سکتی ہیں، بشرطیکہ بن سنور کر اور سنگھار کر کے نہ جائیں، اس سہولت کے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا گیا ہے کہ ان کے لئے بھی احتیاط اس میں ہے کہ وہ بھی دوسری عورتوں کی طرح پردہ کریں۔

آیت ۶۱

ترجمہ

نہ کسی نابینا کے لیے اس میں کوئی گناہ ہے، نہ کسی پاؤں سے معذور شخص کے لیے کوئی گناہ ہے، نہ کسی بیمار شخص کے لیے کوئی گناہ ہے، اور نہ خود تمہارے لیے کہ تم اپنے گھروں سے کچھ کھالو (۴۴)، یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماؤں کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، (۴۵) یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے، یا اپنی پھوپیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے، یا ان گھروں سے جن کی چابیاں تمہارے اختیار میں ہوں۔ (۴۶) یا اپنے دوستوں کے گھروں سے، اس میں بھی تمہارے لیے کوئی گناہ نہیں ہے کہ سب مل کر کھاؤ، یا الگ الگ۔ چنانچہ جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کیا کرو، کہ یہ ملاقات کی وہ بابرکت پاکیزہ دعا ہے جو اللہ کی طرف سے آئی ہے۔ اللہ اسی طرح آیتوں کو تمہارے سامنے کھول کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم سمجھ جاؤ۔

تفسیر

۴۴۔ ان آیات کا پس منظر یہ ہے کہ بعض افراد جو نابینا یا پاؤں سے معذور یا بیمار ہوتے تھے وہ دوسروں کے ساتھ مل کر کھانا کھانے سے اس لئے شرماتے تھے کہ شاید دوسروں کو ان کے ساتھ کھاتے ہوئے کراہیت محسوس ہو، اور بعض معذور افراد یہ بھی سوچتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی معذوری کی وجہ سے دوسروں سے زیادہ جگہ گھیر لیں یا نابینا ہونے کی بنا پر دوسروں سے زیادہ کھالیں، دوسری طرف صحت مند لوگ بھی بعض اوقات یہ خیال کرتے تھے کہ کہیں یہ اپنی معذوری کی وجہ سے دوسروں کا ساتھ نہ دے سکیں کم کھائیں اور مشترک کھانے میں سے اپنا مناسب حصہ نہ لے سکیں، یہ احساس ان حضرات کے دل میں اسلام کے ان احکام نے پیدا کیا جن کی رو سے کسی دوسرے کو اپنی طرف سے ادنی سی تکلیف پہچانا گناہ قرار دیا گیا ہے، نیز مشترک چیزوں کے استعمال میں احتیاط کی تاکید کی گئی ہے، ان آیات نے یہ واضح فرمایا کہ بے تکلف مقامات پر اتنی باریک بینی کی ضرورت نہیں ہے۔
۴۵۔ عرب کے لوگوں میں یہ عام رواج تھا کہ ان کے گھروں میں آنے والے یہ رشتہ دار جن کا اس آیت میں ذکر ہے اگر ان کی اجازت کے بغیر بھی ان کے گھر سے کچھ کھا لیتے تو وہ نہ صرف یہ کہ برا نہیں مناتے تھے ؛ بلکہ خوش ہوتے تھے، جب یہ احکام آئے کہ کسی کی چیز اس کی خوش دلی کے بغیر استعمال کرنا جائز نہیں تو بعض صحابہ یہاں تک پرہیز کرنے لگے کہ اگر کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کے گھر جاتے اور اس کی بیوی بچے ان کی کچھ خاطر تواضع کرتے تو ان کو کھانے میں تردد ہوتا تھا کہ گھر کا اصل مالک تو موجود نہیں ہے اس لئے ہمیں اس کی اجازت کے بغیر کھانا نہیں چاہئیے، اس آیت نے واضح فرما دیا کہ جہاں یہ بات یقینی ہو کہ اصل مالک ہمارے کھانے سے خوش ہو گا، وہاں کھانے میں کچھ حرج نہیں ہے، البتہ جہاں یہ بات مشکوک ہو وہاں یہ حکم نہیں ہے چاہے کتنے قریبی رشتہ دار کا گھر ہو۔
۴۶۔ بعض حضرات جب جہاد کے لئے جاتے تو اپنے گھر کی چابیاں ایسے معذور افراد کے حوالے کر جاتے جو جہاد میں جانے کے لائق نہیں تھے، اور ان کو یہ بھی کہہ جاتے تھے کہ ہمارے گھر کی کوئی چیز اگر آپ کھانا چاہیں تو کھا لیا کریں، اس کے باوجود یہ معذور حضرات احتیاط کی وجہ سے کھانے سے پرہیز کرتے تھے، اس آیت نے ان کو بھی یہ ہدایت فرما دی کے اتنی احتیاط کی ضرورت نہیں ہے، جب مالک کی طرف سے چابیاں تک آپ کے حوالے کر دی گئیں ہیں اور اجازت بھی دے دی گئی ہے تو اب کھانے میں کچھ حرج نہیں ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آیت ۶۲

ترجمہ

مومن تو وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں اور جب رسول کے ساتھ کسی اجتماعی کام میں شریک ہوتے ہیں تو ان سے اجازت لیے بغیر کہیں نہیں جاتے۔ (۴۷) (اے پیغمبر) جو لوگ تم سے اجازت لیتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ اپنے کسی کام کے لیے تم سے اجازت مانگیں تو ان میں سے جن کو چاہو، اجازت دے دیا کرو، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کیا کرو۔ یقیناً اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

تفسیر

۴۷۔ یہ آیت غزوۂ احزاب کے موقع پر نازل ہوئی، اس وقت عرب کے کئی قبیلوں نے مل کر مدینہ منورہ پر چڑھائی کی تھی اور آنحضرتﷺ نے شہر کے دفاع کے لئے مدینہ منورہ کے گرد ایک خندق کھودنے کے لئے تمام مسلمانوں کو جمع کیا تھا، سارے مسلمان خندق کھودنے میں مصروف تھے، اور اگر کسی کو اپنے کسی کام سے جانا ہوتا تو آپ سے اجازت لے کر جاتا تھا، لیکن منافق لوگ اول تو اس کام کے لئے آنے میں سستی کرتے تھے، اور اگر آ جاتے تو کبھی کسی بہانے سے اٹھ کر چلے جاتے، اور کبھی بلا اجازت ہی چپکے سے روانہ ہو جاتے، اس آیت میں ان کی مذمت اور ان مخلص مسلمانوں کی تعریف کی گئی ہے جو بلا اجازت نہیں جاتے تھے۔

آیت ۶۳

ترجمہ

(اے لوگو) اپنے درمیان رسول کو بلانے کو ایسا (معمولی) نہ سمجھو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کو بلایا کرتے ہو (۴۸) اللہ تم میں سے ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ایک دوسرے کی آڑ لے کر چپکے سے کھسک جاتے ہیں۔ لہذا جو لوگ اس کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ کہیں ان پر کوئی آفت نہ آ پڑے، یا انہیں کوئی دردناک عذاب نہ آ پکڑے۔

تفسیر

۴۸۔ برابر کے آدمی جب ایک دوسرے کو بلاتے ہیں تو اس کی زیادہ اہمیت نہیں سمجھی جاتی، اگر کوئی اس کے جواب میں نہ جائے تو اتنا برا نہیں سمجھا جاتا، اور اگر چلا بھی جائے تو بغیر اجازت کے واپس آ جانے کو بھی گوارا کر لیا جاتا ہے، آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب رسول کریمﷺ تمہیں کسی کام کے لئے بلائیں تو اسے آپس کا بلانا نہ سمجھو، چاہے گئے چاہے نہ گئے، بلکہ اہتمام کر کے جانا ہی ضروری ہے، دوسرے یہ بات بھی معمولی نہ سمجھو کہ جب چاہو بلا اجازت اٹھ کر چلے آؤ، بلکہ جب کہیں جانا ہو تو آپ سے اجازت لے کر جاؤ۔ اسی آیت کی ایک تفسیر یہ بھی ممکن ہے کہ جب تم حضور اقدسﷺ کو مخاطب کرو تو اس طرح نہ کرو جیسے ایک دوسرے کو نام لے کر مخاطب کرتے ہو، لہذا یا محمد کہہ کر نہ بلاؤ، بلکہ آپ کو تعظیم کے ساتھ یا رسول اللہ کہہ کر مخاطب کرو۔

آیت ۶۴

ترجمہ

یاد رکھو کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے۔ تم جس حالت پر بھی ہو، اللہ اسے خوب جانتا ہے، اور جس دن سب کو اس کے پاس لوٹایا جائے گا، اس دن وہ ان کو بتا دے گا کہ انہوں نے کیا عمل کیا تھا، اور اللہ کو ہر بات کا پورا پورا علم ہے۔
٭٭٭
 
Top