عورت مرد کے مساوی لیکن انتظامی امور میں مرد کے تابع

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
عورت عبداورمکلف مخلوق ہونے کی حیثیت سے تومردکے مساوی اورہم رتبہ ہے لیکن انتظامی معاملات میں مردکے تابع اورماتحت ہے۔

اس سے بڑھ کراورکیابات ہوسکتی ہے کہ قرآن کریم کی بڑی سورتوں میں سے ایک سورۃ کانام ہی عورتوں کے نام پررکھاگیاہے''سورۃ النساء''۔

قرآن کریم کی اسی سورہ نساء میں باری تعالیٰ نے مردوں کی حاکمیت کے بیان کے ساتھ یہ بھی ارشادفرمادیاکہ:
''عورتوں کے حقوق مردوں کے ذمہ ایسے ہی واجب ہیں جیسے مردوں کے عورتوں کے ذمہ''

اس آیت میں دونوں کے حقوق کی مماثلت کاحکم دیکر اس کی تفصیلات کوعرف کے حوالے کرکے جاہلیت جدیدہ وقدیمہ کی تمام ترظالمانہ رسموں کویکسرختم کردیا۔
البتہ یہ ضروری نہیں کہ دونوں کے حقوق صورۃً بھی ایک جیسے ہوں بلکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرعورت پرایک قسم کی ذمہ داری لازم ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تواس کے بالمقابل مردپردوسری قسم کی ذمہ داری واجب ہے
عورت امورخانہ داری اوربچوں کی تربیت وحفاظت کی ذمہ دار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تومردان کی ضرورتوں کوپوراکرنے کے لیے کسب معاش کاذمہ دارہے
عورت کے ذمہ مردکی خدمت واطاعت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو مردکے ذمہ عورت کے اخراجات وانتظام
اسلام نے عورت کواس کی فطری کمزوریوں کی وجہ سے معاشی جھمیلوں سے دوررکھاہے۔
اس کے ساتھ ساتھ عورت کے ساتھ ہرقسم کے حسن سلوک کاحکم دیاگیا۔

حدیث شریف میں ارشادفرمایاگیا:
تم میں سے سب سے بہتروہ ہے جس کاسلوک اپنی بیوی سے بہترہے۔

حقوق والدین کی بات کی گئی توباربارماں کے ساتھ حسن سلوک کے بارے میں زیادہ تاکید کی گئی

فرمایاگیاکہ:
ماں حسن سلوک کی زیادہ حقدارہے
جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔


عورت اگرلڑکی ہونے کی حیثیت سے ہے تواسے بجائے بوجھ سمجھنے کے اس کی پرورش کواجروثواب کاباعث قراردیاگیا

ارشادفرمایا:
جوشخص لڑکیوں کی کفالت کرے گا دوزخ کی آگ اس پرحرام ہوگی

فرمایا:
جوشخص دوبیٹیوں کی بلوغت تک نگہداشت کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ اتناقریب ہوگا جیسے ہاتھ کی دوانگلیاں قریب ہوتی ہیں۔

فرمایا:
عورتوں کی عزت وتکریم شرفاء کااوران کی اہانت وتحقیررذیلوں کاشیوہ ہے۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
میں نہیں مانتا صرف انتظامی امور کے علاوہ باقی سب میں مرد وعورت مساوی ہیں۔کوئی مرد ہے جو ثابت کردے۔علالت کی وجہ سے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔کاش مدیر التحریر اپنے قلم کاجادو دکھائیں
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اسلام سے پہلے عورت کو جس نظریے سے دیکھا جاتا تھا جاہلیت اولیٰ کے ان نظریات ورسومات کوختم کرکے اسلام اورپیغمبراسلام نے عورت کاکس قدراونچامقام عطاکیا کہ حسن سلوک پر اور پرورش کرنے پرجنت کی بشارت اوررفاقت کی کوشخبری دی۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اسلام سے پہلے عورت کو جس نظریے سے دیکھا جاتا تھا جاہلیت اولیٰ کے ان نظریات ورسومات کوختم کرکے اسلام اورپیغمبراسلام نے عورت کاکس قدراونچامقام عطاکیا کہ حسن سلوک پر اور پرورش کرنے پرجنت کی بشارت اوررفاقت کی کوشخبری دی۔
یہ دو جدا گانہ بحث ہیں۔خلط ملط مت کیجئے ۔دلائل سے ثابت کریں
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
یہ دو جدا گانہ بحث ہیں۔خلط ملط مت کیجئے ۔دلائل سے ثابت کریں
شروع ہی میں لکھا ہے کہ عورت عبداورمکلف مخلوق ہونے کی حیثیت سے تومردکے مساوی اورہم رتبہ ہے لیکن انتظامی معاملات میں مردکے تابع اورماتحت ہے۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شروع ہی میں لکھا ہے کہ عورت عبداورمکلف مخلوق ہونے کی حیثیت سے تومردکے مساوی اورہم رتبہ ہے لیکن انتظامی معاملات میں مردکے تابع اورماتحت ہے۔
الرجال قوامون علی النساء کی تفسیر یہی ہے کیا
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
قرآن کریم کی متذکرہ آیت کریمہ جس میں مردوں کے حقوق کے ساتھ عورتوں کے حقوق کاتذکرہ ہے ،

اس آیت کریمہ کے ذیل میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ نے نہایت عمدہ اورجامع تفسیرلکھی ہے ،مناسب معلوم ہوتاہے کہ یہاں اس کاایک اقتباس یہاں شئیر کیا جائے:

''اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں تمام دنیا کی اقوام میں عورت کی حیثیت گھریلو استعمال کی اشیاء سے زیادہ نہ تھی، چوپاؤں کی طرح اس کی خرید وفروخت ہوتی تھی، اس کو اپنی شادی بیاہ میں کسی قسم کا کوئی اختیار نہ تھا، اس لئے اولیاء جس کے حوالے کردیتے وہاں جانا پڑتا تھا، عورت کو اپنے رشتہ داروں کی میراث میں کوئی حصہ نہ ملتا تھا بلکہ وہ خود گھریلو اشیاء کی طرح مالِ وراثت سمجھی جاتی تھی وہ مردوں کی ملکیت تصور کی جاتی تھی، اس کی ملکیت کسی چیز پر نہ تھی اور جو چیزیں عورت کی ملکیت کہلاتی تھیں ان میں اس کو مرد کی اجازت کے بغیر کسی قسم کے تصرف کا کوئی اختیار نہ تھا ،ہاں اس کے شوہر کو ہر قسم کا اختیار تھا کہ اس کے مال کو جہاں چاہے اور جس طرح چاہے خرچ کر ڈالے، اس کو پوچھنے کو بھی کوئی حق نہ تھا یہاں تک کہ یورپ کے وہ ممالک جو آج کل دنیا کے سب سے زیادہ متمدن ملک سمجھے جاتے ہیں ان میں بعض لوگ اس حد کو پہنچے ہوئے تھے کہ عورت کے انسان ہونے کو بھی تسلیم نہ کرتے تھے۔عورت کے لئے دین ومذہب میں بھی کوئی حصہ نہ تھا نہ اس کو عبادت کے قابل سمجھا جاتا تھا نہ جنت کے۔

روما کی بعض مجلسوں میں باہمی مشورہ سے یہ طے کیا گیا تھا کہ وہ ایک ناپاک جانور ہے جس میں روح نہیں، عام طور پر باپ کے لئے لڑکی کا قتل بلکہ زندہ درگور کردینا جائز سمجھا جاتا تھا بلکہ یہ عمل باپ کے لئے عزت کی نشانی اور شرافت کا معیار تصور کیا جاتا تھا ،بعض لوگوں کا یہ خیال تھا کہ عورت کو کوئی بھی قتل کردے نہ تو اس پر قصاص واجب ہے نہ خوں بہا، اور اگر شوہر مرجائے تو بیوی کو بھی اس کی لاش کے ساتھ جلا کر سَتِی کردیاجاتا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے بعد اور آپ کی نبوت سے پہلے ۵۸٦ء میں فرانس نے عورت پر یہ احسان کیا کہ بہت سے اختلافات کے بعد یہ قرارداد پاس کی کہ عورت ہے تو انسان مگر وہ صرف مرد کی خدمت کے لئے پیدا کی گئی ۔

الغرض پوری دنیا اور اس میں بسنے والے تمام اقوام ومذاہب نے عورت کے ساتھ یہ برتاؤ کیا ہوا تھا کہ جس کو سن کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اس بیچاری مخلوق کے لئے نہ کہیں عقل ودانش سے کام لیا جاتا تھا نہ عدل وانصاف سے۔

قربان جائیے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے دین حق کے جس نے دنیا کی آنکھیں کھولیں

انسان کو انسان کی قدر کرنا سکھلایا،
عدل وانصاف کا قانون جاری کیا ،
عورتوں کے حقوق مردوں پر ایسے ہی لازم کئے جیسے عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں ،
اس کو آزاد وخودمختار بنایا،
وہ اپنی جان ومال کی ایسی ہی مالک قراردی گئی جیسے مرد،
کوئی شخص خواہ باپ دادا ہی ہو بالغ عورت کو کسی شخص کے ساتھ نکاح پر مجبور نہیں کرسکتا
اور اگر بلا اس کی اجازت کے نکاح کردیا جائے تو وہ اس کی اجازت پر موقوف رہتا ہے،
اگر نامنظور کردے تو باطل ہو جاتا ہے ،
اس کے اموال میں کسی مرد کو بغیر اس کی رضا واجازت کے کسی تصرف کا کوئی حق نہیں
شوہر کے مرنے یا طلاق دینے کے بعد وہ مختار ہے ،
کوئی اس پر جبر نہیں کرسکتا،
اپنے رشتہ داروں کی میراث میں اس کو بھی ایسا ہی حصہ ملتا ہے جیسا لڑکوں کو،
اس پر خرچ کرنے اور اس کے راضی رکھنے کو شریعت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام نے ایک عبادت قرار دیا،
شوہر اس کے حقوق واجبہ ادا نہ کرے تو وہ اسلامی عدالت کے ذریعہ اس کو اداء حقوق پر ورنہ طلاق پر مجبور کرسکتی ہے۔
''۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
آگے کی بحث مولوی مولانا علامہ وفہامہ جناب داؤد الرحمن علی قاسمی کے حوالے۔میں تو چلا پردیش
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
الرجال قوامون علی النساء کی تفسیر یہی ہے کیا
جہاں کہیں بھی مرد اور عورت کے حقوق کی بات آئے گی وہاں دونوں مساوی ہیں ۔
قرآن میں اللہ رب کریم فرماتا ہے مرد عورتوں کے نگراں ہیں، کیونکہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے، اور کیونکہ مردوں نے اپنے مال خرد کیے ہیں۔ چنانچہ نیک عورتیں فرمانبردار ہوتی ہیں، مرد کی غیر موجودگی میں اللہ کی دی ہوئی حفاظت سے (اس کے حقوق کی) حفاظت کرتی ہیں۔
اپنی پوسٹ میں پہلے ہی واضح کر دیا تھا انتظامی معاملات میں مردکے تابع اورماتحت ہے۔
اور عورتوں کو مردوں کی اطاعت کرنی پڑے گی اس کے بال بچوں کی نگہداشت اس کے مال کی حفاظت وغیرہ اس کا کام ہے۔
لیکن آپ بتائیں کہ ہمیشہ ہم سب کہتے آتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو حقوق دیے۔ تو پھر وہ حقوق کیا تھے؟
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
میں اس بات پر اب بھی قائم ہوں کہ "عورت عبداورمکلف مخلوق ہونے کی حیثیت سے تومردکے مساوی اورہم رتبہ ہے لیکن انتظامی معاملات میں مردکے تابع اورماتحت ہے۔"
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ضروری نہیں ہے کہ جہاں پر عورت کی حقوق کی بات ہو وہاں مرد کی برتری ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔ مرد کی طرح عورت کے بھی حقوق ہیں ۔ اگر جنت مرد کےلیے ہے تو عورت کے لیے بھی ہے۔ اگر قرآن اور کلمہ مرد کے لیے ہے تو عورت کے لیے بھی ہے۔ اگر مرد کسی زمین کا مالک بن سکتا ہے تو عورت بھی بن سکتی ہے۔ اگر مرد اپنی اولاد کا باپ کہلاتا ہے تو عورت بھی ماں ہے۔ اور عورت زیادہ حق بچے پر رکھتی ہے۔ اگر بیٹے کا والدین پر حقوق ہیں تو بیٹی کے بھی ہیں۔ ہاں بعض معاملات میں مرد کو برتری حاصل ہے مگر اس برتری کے حقوق کے ساتھ تولنے کا کوئی مطلب نہیں بنتا۔ جسمانی طور پر عورت کمزور ہے مرد طاقت ور ہے تو نگران مرد کو ٹہرایا گیاہے۔ اور زندگی کی گاڑی نا چل پاتی اگر یہ فضیلت مرد کو نا دی جاتی۔ کیوں کہ عورت پھر سر چڑھ جاتی اور اپنی مرضی کرتی تو یہ ضروری تھا کہ نکیل ڈالی جائے ۔ لیکن حقوق سے اس برتری کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
 
Top