کیا یہ سب آیات واضح طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم الغیب ہونے کی نفی نہیں کر رہیں ؟

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّـهِ (10-يونس:20)
’’ (اے نبی ! ) کہہ دیجیے کہ غیب تو صرف اللہ کے پاس ہے۔“

عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا (72-الجن: 27-26)
’’ (وہی ) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسند کرے۔“

قُلْ إِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ مَا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَدًا (72-الجن:25)
”کہہ دیجیے : میں نہیں جانتا کہ جس (عذاب ) کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ قریب ہے یا اس کے لیے میرے رب نے کوئی لمبی مدت رکھی ہے۔

قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّـهُ (27-النمل:65)
’’کہہ دیجیے : آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی بھی غیب (کی بات) نہیں جانتا۔“

عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا ٭ إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُولٍ (72-الجن:26)
” (وہی) عالم الغیب ہے، وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے کسی رسول کے جسے وہ پسند کرے۔“

وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ (2-البقرة:255)
”اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کو اپنے احاطے میں نہیں لا سکتے، سوائے اس بات کے جو وہ چاہے۔“
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مطلق طور پر علم غیب اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ یہ عقیدہ قرآن، حدیث، اجماعِ امت اور ائمہ سلف کی تصریحات سے ثابت ہے۔ اس کے باوجود سلف صالحین کی مخالفت میں بعض لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی عالم الغیب کہتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ما كان وما يكون (جو کچھ ہو گیا اور جو کچھ ہونے والا ہے ) کا علم ہے۔ وہ قرآن وحدیث کی واضح نصوص کی تاویلیں کرتے ہیں۔

ایسے لوگوں کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (۶۶۱۔ ۷۲۸ھ ) فرماتے ہیں :
وأما أهل البدع فهم أهل أهواء وشبهات يتبعون أهواء هم فيما يحبونه ويبغضونه ويحكمون بالظن والشبه، فهم يتبعون الظن وما تهوى الأنفس، ولقد جاء هم من ربهم الهدى، فكل فريق منهم قد أصل لنفسه أصل دين وضعه، إما برأيه وقياسه الذى يسميه عقليات، وإما بذوقه وهواه الذى يسميه ذوقيات، وإمّا بما يتأوّله من القرآن ويحرّف فيه الكلم عن مواضعه ويقول : إنه إنما يتبع القرآن كالخوارج، وإمّا بما يدّعيه من الحديث والسنة، ويكون كذبا وضعيفا كما يدعيه الروافض من النص والآيات، و كثير ممن يكون قد وضع دينه برأيه أو ذوقه يحتج من القرآن بما يتأوّله على غير تأوله، ويجعل ذلك حجة لا عمدة، و عمدته فى الباطن على رأيه كالجهمية والمعتزلة فى الصفات والأفعال بخلاف مسائل الوعد والوعيد، فإنهم قد يقصدون متابعة النص، فالبدع نوعان نوع كان قصد أهلها متابعة النص والرسول، لكن غلطوا فى فهم المنصوص وكذبوا بما يخلف ظنهم من الحديث ومعانى الآيات كالخوارج، و كذلك الشيعة المسلمين بخلاف من كان منافقا زنديقا يظهر التشيع وهو فى الباطن
لا يعتقد الاسلام، وكذلكف المرجئة…

’’اہل بدعت نفس پرست اور شبہات کی پیروی کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ پسند اور ناپسند میں اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور ظن اور شبہات کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ ظن اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آ چکی ہے۔ اہل بدعت کے ہر گروہ نے اپنے لیے اس دین کو دلیل بنایا ہوا ہے جسے اس نے خود گھڑا ہے۔ بعض نے اپنی رائے اور قیاس کو دین بنایا ہے اور اسے عقلیات کا نام دیتا ہے، بعض نے اپنے ذوق اور خواہش کو دین بنایا ہے اور اسے ذوقیات کا نام دیتا ہے، بعض نے قرآن کریم کی تفسیر میں تحریف معنوی سے کام لیا ہے اور بعض نے حدیث اور سنت کی پیروی کا دعویٰ کیا ہے لیکن ان کے دلائل وہ روایات ہیں جو جھوٹی اور ناقابل اعتبار ہیں جیسا کہ رافضی لوگ نص اور آیات کی پیروی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اکثر اہل بدعت نے اپنی رائے اور ذوق کے مطابق اپنا دین بنایا ہوا ہے اور وہ قرآنِ کریم کی غلط تفسیر کر کے اپنے دلائل تراشتے ہیں۔ یہ لوگ قرآنِ کریم کو اپنی دلیل بناتے ہیں، لیکن اس پر اعتماد نہیں کرتے، ان کا اعتماد درحقیقت اپنی رائے پر ہوتا ہے جیسا کہ جہمیہ اور معتزلہ لوگوں کا صفات و افعالِ باری تعالیٰ کے بارے میں حال ہے۔ وعد وعید کے مسائل میں ان کی صورت حال اس کے برعکس ہوتی ہے، کیونکہ بسا اوقات یہ لوگ نصوص کی پیروی کا ارادہ کرتے ہیں۔ چنانچہ بدعت کی دو قسمیں ہیں : ایک قسم وہ ہے کہ اس کے مرتکب لوگوں کی نیت قرآن و سنت کی پیروی ہوتی ہے لیکن وہ نصوص کو سمجھنے میں غلطی کھا جاتے ہیں اور اپنی عقل کے خلاف آنے والی احادیث اور تفسیر کو جھٹلا دیتے ہیں جیسا ک شیعہ لوگوں کا حال ہے۔ جو لوگ منافق اور زندیق ہیں اور ظاہر میں شیعہ کہلاتے ہیں جبکہ باطن میں وہ اسلام کو مانتے ہی نہیں، ان کا معاملہ اس کے برعکس ہے (یعنی ایسے بدعتی قرآن و سنت کی پیروی کا ارادہ ہی نہیں رکھتے )۔۔۔“

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (۷۰۱۔ ۷۷۴ھ ) فرماتے ہیں :
ولهذا قال تعالى : ﴿فأما الذين فى قلوبهم زيغ﴾ ، أى ضلال وخروج عن الحق إلى الباطل ﴿فيتبعون ما تشابه منه﴾ ، أى إنما يأخذون منه بالمتشابه الذى يمكنهم أن يحرفوه إلى مقاصدهم الفاسدة، وينزلوه عليها، لاحتمال لفظه لما يصرفونه، فأما المحكم فلا نصيب لهم فيه، لأنه دامغ لهم وحجة عليهم، ولهذا قال : ﴿ابتغاء الفتنة﴾ ، أى الإضلال لأتباعهم، إيهاما لهم أنهم يحتجون على بدعتهم بالقرآن، وهذا حجة عليهم لا لهم، كما لو احتج النصارى بأن القرآن قد نطق بأن عيسى هو روح الله وكلمته القاها إلى مريم، و تركوا الاحتجاج بقوله تعالي : ﴿إن هو إلا عبد أنعمنا عليه﴾ (الزخرف : 59) وبقوله : ﴿إن مثل عيسى عند الله كمثل آدم خلقه من تراب ثم قال له كن فيكون﴾ (آل عمران: 59)، وغير ذلك من الآيات المحكمة المصرّحة بأنه خلق من مخلوقات الله وعبد ورسول من رسل الله . . .
’’اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ گمراہ اور حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف جانے والے لوگ قرآنِ کریم کے ان متشابہ مقامات سے دلیل لیتے ہیں جن میں اپنے فاسد مقاصد کے لیے تحریف کرنا ان کے لیے ممکن ہوتا ہے اور اس کے لفظوں میں ان کے مقاصدکا احتمال ہوتا ہے۔ محکم آیات میں ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ محکم آیات ان کا سخت ردّ کرتی ہیں اور ان کے خلاف دلیل بنتی ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ لوگ اپنے پیروکاروں کو گمراہ کرنے کے لیے اور ان کو یہ دھوکا دینے کے لیے کہ وہ اپنی بدعت پر قرآنی دلائل رکھتے ہیں، متشابہ آیات سے دلیل لیتے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے نصاریٰ یہ دلیل دینے لگیں کہ قرآنِ کریم نے عیسیٰ علیہ السلام کو روح اللہ اور کلمہ اللہ کہا ہے لیکن وہ اس آیت کو چھوڑ دیں جس میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام تو محض اللہ کے ایک بندے ہیں جس پر ہم نے انعام کیا ہے۔ نیز فرمانِ باری تعالیٰ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی مثال اللہ کے ہاں آدم علیہ السلام جیسی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مٹی سے پیدا کیا، پھر ان سے کہا: ہو جا، تو وہ ہو گئے۔۔۔ اس طرح اور بھی بہت سی محکم اور صریح آیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی مخلوق، اس کے بندے اور اس کے رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔۔۔“ (تفسیر ابن کثیر:7/2)
 
Top