جزاکِ اللہ ۔
محترم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے ایک جگہہ (ابھی کتاب کا نام یاد نہیں )فرمایا ہے کہ عوام انباء الغیب اور علم الغیب میں فرق نہیں کرسکتے ، اور اپنے والد مفتی محمد شفیع ؒ کا واقعہ یہ سنایا کہ ایک عام آدمی نے ان سے سوال کیا کہ حضرت ہمارے نبیﷺ کو کتنا علم غیب حاصل تھا ؟ تو وہ سمجھ گئے کہ وہ انباء الغیب مراد لے رہا ہے ،
مسکرا کر بولے کہ ’’ بھئی بہت تھا ، بہت‘‘
یہ کتنا اچھا اور حکمت والا جواب ہے ۔
اسی طرح ایک بات اور بھی ہے کہ جہاں سے یہ اختلاف چلا تھا، توآپ وہاںپہ بھی حُسن ظن رکھیں تو دیکھیں کہ مولانا احمد رضا صاحبؒ کی جو پہلی کتاب اس موضوع پر تھی ، اس کا نام بھی انباء الغیب ہی ہے ۔
واللہ اعلم
جناب من: توجہ فرمائیں :
اہل بدعت کے علماء کے محمد رسول اللہ ﷺ کے متعلق " علم الغیب "پر دعیٰ جات پڑھیں
(1)
مولوی صالح صاحب لکھتے ہیں:
’’لوح محفوظ آ پ کے روبرو لکھی گئی اور آ پکو شکم مادر میں ہی علم غیب تھا‘‘
(علم غیب رسول ص34)
(2)
مولوی نعیم الدین مرادآبادی لکھتے ہیں:
’’آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ شب معراج میرے حلق میں ایک قطرہ ٹپکایا گیا۔اس کے فیضان سے مجھے ما کان و ما یکون کا علم حاصل ہو گیا‘‘
(الکلمۃ العلیا ص 43)
(3)
مولوی عمر اچھروی صاحب لکھتے ہیں:
’’غیب کی ضمیر کا مرجع الغیب ہے اور الغیب میں ا ل جنس کا ہے۔اگر اللہ رب العزت الغیب کی نسبت اپنی طرف کر کے اپنے تمام غیب کے عالم ہونے کا ثبوت دیتا ہے اور ثابت ہے تو اس کی طرف ضمیر راجعہ کا منسوب نبی ﷺ فلا یظہر علی غیبہ سے کیسے بے خبر ہو سکتے ہیں۔کیوں کہ ضمیر کا مرجع کل غیب ہے۔جب عطا کنندہ نبی کو اپنا کل غیب عطا کر کے سراہے تو اس کے انکار کرنے والے کو کیسے مومن سمجھا جا سکتا ہے‘‘
(مقیاس ِحنفیت ص 323)
(4)
فتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں:
’’خدا کا علم غیب حضور ﷺکے قبضہ میں دے دیا گیا‘‘
(شان حبیب الرحمٰن ص 206)
(5)
ہی مفتی اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:
’’اس آیت اور ان تفاسیر سے یہ معلوم ہوا کہ خدائے قدوس کا خاص علم غیب حتی کہ قیامت کا علم بھی حضور ﷺ کو عطا کیا گیاان سےکیا شیٔ ہے جو علم مصطفے ﷺ سیے باقی رہ گئی‘‘
(جاء الحق ص 60)
(6)
مولوی عمر اچھروی صاحب لکھتے ہیں:
’’لہذا نبی ﷺ کے لئے تمام عالمین کاعلم غیب عطائی الدوام ماننا یعنی از ابتدائے آفرینش حضور ﷺ کو تا قیامت اور قیامت کے بعد تک بھی اور جنت و دوزح وغیرھم کا تمام علم غیب بلکہ اس سے بھی ذیادہ جس کو اللہ تعالی جانتے ہیں اور مخلوق کی عقلوں سے بالاتر ہے آ پ کی شان نبوت کو حاصل ہے‘‘
(مقیاس الحنفیت ص299)
(7)
احمد رضا صاحب لکھتے ہیں:
’’حضور ﷺ کو روز اول سے روز آخر تک کے تمام گزشتہ و آئندہ کے واقعات کا علم ہے‘‘
(الدولۃ المکیہ ص 61)
(8)
مولوی عبد الرشید صا حب لکھتے ہیں :
’’اللہ تعالی نے اپنے نبی محترم ﷺ کو روز اول سے روز آ خر تک تمام علوم غیبیہ سکھائے‘‘
( رشد الایمان ص 101)
(9)
مولوی عمر اچھروی لکھتے ہیں :
’’آپکی ذات سے علم غیب کی نفی کرتے ہیں وہ در حقیقت آپ کے محمد ہونے کے قائل نہیں ‘‘
(مقیاس حنفیت ص 312)
(10)
’’اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کے علم غیب کے منکر کو کافر فرمایا ہے‘‘
(فہارس فتاوی رضویہ ص874)
اب ان کے نہ عام آدمی سے حسنِ ظن رکھا جا سکتا ہے نہ کسی ان کے عالم سے
اتنے بڑے بڑے دعوے کئے اہل بدعت علماء نے لیکن اپنی کسی کتاب میں اس پر کوئی صریح دلیل پیش نہ کر سکے ، کبھی اطلاع علی الغیب کی آیات سے استدلال اور کبھی لفظ الغیب سے استدلال
محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے قرآنِ مجید فرقان حمید میں سے ایک آیت صرف ایک آیت کوئی عالم پیش نہیں کر سکتا کہ جس میں " علم اور غیب " کا لفظ محمد رسول اللہ ﷺ کے لئے استعمال ہوا ہے
کسی ایک حدیث صحیح میں محمد رسول اللہ ﷺ نے اپنے لئے " علم اور غیب " کا لفظ استعمال کیا ہو پیش نہیں کی جاسکتی
عالم الغیب ہونا یہ خاصہ رب العالمین ہے اس میں کسی کو شریک کرنا کفر ہے