’’حج‘‘ میں کی جانے والی ’’غلطیاں‘‘ (شفیق الرحمن)

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
٭… حجر اسودکے استلام (یعنی حجر اسودکو ہاتھ لگانے اور بوسہ دینے کے وقت) بعض آدمی ایسی بے عنوانیاں کرتے ہیں جس سے خود ان کو اور دوسروں کو بھی بعض اوقات سخت تکلیف پہنچتی ہے، حجراسودکو بوسہ دینا صرف سنت ہے اور مسلمانوںکو تکلیف دینا حرام ہے… اس لئے دوسروںکو دیکھ کر تم روزآزمائی مت کرو، اگر موقع ہو تو بوسہ دے لو ورنہ ہجوم کے وقت دونوں ہاتھ یا صرف داہنا ہاتھ حجراسودکو لگاکرچوم لو، اگر یہ بھی نہ ہوسکے توکوئی لکڑی وغیرہ حجر اسودکو لگاکر چوم لو، اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاکر دونوں ہتھیلیوں کو حجراسودکی طرف اس طرح کروکہ ہتھیلیوں کے پشت اپنے چہرے کی طرف رہے اور یہ نیت کروکہ یہ ہتھیلیاں حجراسود پررکھی ہیں اور تکبیر وتہلیل کہہ کر ہتھیلیوں کو بوسہ دے لو… رسول صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خاص طورسے تاکید فرمائی تھی کہ دیکھو! تم قوی آدمی ہو، حجراسود کے استلام کے وقت لوگوں سے مزاحمت نہ کرنا، اگر جگہ ہو تو استلام کرنا ورنہ صرف استقبال کرکے تکبیر وتہلیل کہہ لینا۔…

٭… حج کے زمانہ میں حجراسود پر بعض لوگ خوشبو لگادیتے ہیں، اس وقت محرم کو استلام نہ کرنا چاہئے، چونکہ اس سے خوشبوکا استعمال ہوگا اور محرم کو خوشبوکا استعمال منع ہے… بعض آدمی احرام کی حالت میں ایسے وقت میں بھی بوسہ دیتے ہیں یا ہاتھ لگاتے ہیں، ایسے وقت بوسہ دینا اور ہاتھ لگانا منع ہے، ایسے وقت ہاتھ کا اشارہ کافی ہوتا ہے…

٭… طواف کرتے وقت بیت اللہ کی طرف منہ کرنا مکروہ تحریمی ہے، اکثر لوگ اس طرف توجہ نہیں کرتے اور طواف میں جہاں چاہتے ہیں بیت اللہ کی طرف منہ کردیتے ہیں، البتہ حجر اسود کے استلام کے وقت بیت اللہ کی طر ف منہ کرنا جائز ہے… مگر اس وقت بھی دونوں پاؤں اپنی جگہ رہنے چاہیں اور استلام کے بعد اسی جگہ سیدھاکھڑا ہوکر طواف کرنا چاہئے، جہاں استلام کرنے سے پہلے پاؤں تھے… اگر استلام کے بعد بیت اللہ کی طرف منہ کرنے کی حالت میں پاؤںاپنی جگہ سے بیت اللہ کے دروازے کی طرف تھوڑے سے بھی ہٹ جائیںگے تو مکروہ تحریمی کا ارتکاب لازم آئے گا اورگناہ ہوگا اور طواف اگرچہ حنفیہ کے نزدیک باطل نہ ہوگا، مگر ترک واجب کی وجہ سے اعادہ واجب ہوگا…

٭… حجر اسودکے چاروں طرف چاندی لگی ہوئی ہے، بہت سے نا واقف استلام کرنے والے اس چاندی پر ہاتھ لگاتے ہیں، اس کے اوپر استلام کے وقت ہاتھ لگانا منع ہے… اس طرح استلام کرنا چاہئے کہ چاندی کو ہاتھ وغیرہ نہ لگے…

٭… استلام کے بعد عام طور سے لوگ پیچھے کو ہٹتے ہیں، جس سے بسا اوقات خود بھی تکلیف میں مبتلاء ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی تکلیف پہنچاتے ہیں، پیچھے کو نہ ہٹنا چاہئے، بلکہ اسی جگہ سیدھاکھڑا ہوکرطواف مثل سابق شروع کردینا چاہئے جیساکہ ابھی بیان کیاگیا ہے…

٭… بعض آدمی طواف شروع کرنے سے پہلے حجر اسودکے علاوہ اور جگہ بھی بیت اللہ کو بوسہ دیتے ہیں اور التزام (لپٹنا)کرتے ہیں، یہ خلاف سنت ہے… طواف کی ابتداء حجراسود سے مسنون ہے، اس کے علاوہ اورکسی جگہ سے ابتداء کرنا بدعت ہے… ایسے ہی بعض نا واقف حجر اسودکو اول بوسہ دیتے ہیں اس کے بعد طواف کی نیت کرتے ہیں، یہ بھی خلاف سنت ہے، پہلے نیت کرنی چاہئے اس کے بعد بوسہ دینا چاہئے…

٭… ایک بڑی مصیبت اس زمانہ میں یہ ہے کہ عورت اورمرد اکٹھے طواف کرتے ہیں اور بعض عورتیں بناؤ سنگھارکرکے جاتی ہیں اور بعض کے بعض اعضاء کھلے ہوئے ہوتے ہیں اور اژدھام کے وقت اجنبیوں سے لگ جاتے ہیں، شوافع کے نزدیک تو چونکہ عورت کو چھونا ناقص وضو ہے اس لئے مرد سے چھونے کی صورت میں ان کے نزدیک بوجہ وضو ٹوٹ جانے کے ان عورتوں اور مردوں کا طواف صحیح ہی نہیں ہوتا… اورحنفیہ کے نزدیک طواف تو ہوجاتا ہے مگر اس طرح مخلوط ہوکر طواف کرنا سخت گناہ ہے… اس مبارک ومقدس مقام پرتو بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہے… عورتوں کو رات کے وقت، یا ایسے وقت میں طواف کرنا چاہئے جب مردوںکا ہجوم نہ ہو اور مردوں سے علیحدہ ہوکرکنارہ پرچلنا چاہئے… ایسے ہی حجر اسودکو ہاتھ لگانے اور بوسہ دینے کے لئے بھی مردوں کے ہجوم کے وقت عورتوں کوکوشش نہیںکرنی چاہئے… جب ہجوم نہ ہو اس وقت استلام کریں، ہجوم کے وقت بوسہ نہ دیں… حکومت حجازکو اس کا انتظام کرنا چاہئے کہ عورتوں اور مردوں کا اختلاط نہ ہو، اور با اثرلوگوںکو بھی اسکی سعی کرنی چاہئے اورجب تک کوئی انتظام نہ ہو، عورتوں کواورعورتوں کے اولیاکواس کا اہتمام کرنا چاہئے اورایسے وقت میں طواف کرنا چاہئے کہ مردوں کا اژدھام نہ ہو…

٭… بعض عورتیں طواف کرتے وقت مُطَوِّف کا ہاتھ پکڑ لیتی ہیں، یا بعض بلا محرم ان کے ساتھ اِدھر اُدھرزیارات کوچل دیتی ہیں… اس طرح ہاتھ پکڑکرطواف کرنا ناجائز ہے، اجنبی مردکو ہاتھ لگانا حرام ہے، اپنے محارم کے ساتھ طواف کرنا چاہئے، اجنبیوں کے ساتھ اِدھراُدھرجانے سے بھی احتیاط کرنی چاہئے ورنہ بعض دفعہ ناگفتنی واقعات پیش آجاتے ہیں…

٭… بعض عورتیں’’ مقام ابراہیم‘‘ یا ’’حطیم‘‘ وغیرہ میں نوافل پڑھنے کے لئے مردوںکے ساتھ مزاحمت کرنے لگتی ہیں اور شوق کا ایسا غلبہ ہوتا ہے کہ ہوش ہی نہیں رہتا… یہ سخت غلطی ہے، مردوں کو بھی عورتوں کا خیال کرنا چاہئے اور ان سے مزاحمت نہیںکرنی چاہئے اور عورتوں کو خود بھی احتیاط کرنی چاہئے، مردوں کے ہجوم کے وقت ایسی جگہ نہیں جانا چاہئے، مستحب کی خاطر حرام کا ارتکاب اور وہ بھی دربارخداوندی میں، بڑے شرم کی بات ہے!…

٭… بعض آدمی رکن یمانی کو بھی طواف کے وقت بوسہ دیتے ہیں، صحیح قول کے مطابق اس کو صرف ہاتھ لگانا چاہئے بوسہ نہ دیا جائے… ایسے ہی بیت اللہ کو، حجر اسود، بیت اللہ کی دہلیزکے علاوہ اورکسی جگہ بوسہ دینا بھی خلاف سنت ہے… بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ بیت اللہ کی دیوارکو ان دونوں جگہ کے علاوہ بوسہ دیتے ہیں اور علاوہ ملتزم کے اور جگہ بھی لپٹتے ہیں…
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
٭… بعض لوگ جہاز میں سارا راستہ قبلہ کا وہی رخ رکھتے ہیں جو ہندوستان وپاکستان میں ہے، حالانکہ جہاز میں قبلہ کا رخ بدلتا رہتا ہے… عدن کے قریب شمال کی جانب اور جدہ کے قریب مشرق کی جانب ہوجاتا ہے… حُجاج کے لئے ضروری ہے کہ سفر میں نماز پڑھنے کے مسائل بھی سفر شروع کرنے سے پہلے معلوم کرلیں… ’’معلم الحجاج‘‘ میں جہاز وغیرہ میں نماز پڑھنے کے ضروری مسائل اور قبلہ رخ نماز پڑھنے کا نقشہ لکھا ہوا ہیں اس کو دیکھ لیا جائے۔

٭… بعض عورتیں بلا شوہر اور محرم کے حج کا سفرکرتی ہیں، بلامحرم حج کو جانا ناجائز اورگناہ ہے… ایسی عورتوں کو راستہ میںبعض اوقات بڑے خطرات پیش آتے ہیں اور اجنبی لوگوں کو سواری پر اترتے چڑھتے وقت ہاتھ لگانے کی نوبت آتی ہے، جو فتنہ سے خالی نہیں… عورت کے ساتھ جب تک محرم نہ ہو وہ ہرگزحج کو نہ جائے اور وصیت کردے کہ اگر میں حج نہ کرسکوں تو میری طرف سے حج کرادیا جائے، مرنے کے بعد وصیت کی شرائط کے مطابق وارثوں کے ذمہ اس کی وصیت کا پوراکرنا واجب ہوگا، ورثا اگر اس کی وصیت پوری نہیںکریں گے تو وہ گناہ گار ہوں گے… وصیت کرنے والی حج نہ کرنے کے مواخذے سے بری ہوجائے گی، اگر وصیت نہ کرے گی تو اس کے ذمہ مواخذہ رہے گا۔

٭… سفر میں اکثر عورتیں پردہ کا اہتمام نہیں کرتیں، بے پردہ عورتوںکو اور خصوصاً دوسرے ممالک کی عورتوںکو دیکھ کربعض پردہ والی بھی بے پردہ ہوجاتی ہیں اور سفر حج میں بے پردگی کے گناہ میں مبتلاء ہوجاتی ہیں، خود عورتوںکو اوران سے زیادہ ان کے اولیاء کو اہتمام کی ضرورت ہے کہ یہ زمانہ نہایت نازک ہے، شرعی ضروری پردہ کا اہتمام کرنا واجب ہے۔

٭… سفر حج میں لوگ آپس میں بہت لڑتے ہیں، بالخصوص جہاز پر سوار ہوتے وقت جگہ لینے پر ہی بہت لڑائیاں ہوجاتی ہیں… بعض آدمی تو اس قدر حدود سے تجاوزکر جاتے ہیں کہ گالی گلوچ اور مار پیٹ تک نوبت پہنچ جاتی ہے… اس مبارک سفرمیں جنگ وجدال اورگالی گلوچ بہت بڑاگناہ ہے… حق تعالیٰ کاارشاد ہے:’’ اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَارَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَاجِدَالَ فِی الْحَجِّ‘‘… (البقرۃ)

حج کے چند مہینے معلوم ہیں، پس جو شخص ان میں حج (شروع) اورلازم کرلے تو حج میں نہ جماع(کرے) نہ گناہ اور نہ جھگڑا(کرے)۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم کاارشاد ہے: عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قاَلَ:قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ! مَنْ حَجَّ فَلَمْ یَرْفَثْ وَلَمْ یَفْسُقْ رَجَعَ کَیَوْمِِِ وَلَدَتْہُ اُمُّہٗ‘‘… (بخاری ومسلم)​

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے محض اللہ کی خوشنودی کے لئے حج کیا اورجماع اور اس کا تذکرہ نہیں کیا اور نہ گناہ کیا، تو وہ پاک ہوکرایسا لوٹتا ہے، جیساکہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز(پاک تھا)۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو لوگ لڑائی جھگڑا کرتے ہیں، ان کے گناہ معاف نہیں ہوتے اور ان کا حج بھی مقبول نہیں ہوتا… اس لئے حجاج کو اپنے رفقا اور دوسرے لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آناچاہئے… جہاز پر اور دیگر مواقع میں ہوشیاری سے کام کرنا چاہئے کہ نہ خود تکلیف اٹھاؤ نہ دوسروں کو تکلیف دو… خوش اخلاقی اور نرمی سے جو کام ہوتا ہے وہ غصہ اور زور سے نہیں ہوتا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

احرام کی غلطیاں​

٭… بعض لوگ احرام کی حالت میں سلی ہوئی چادر یا رضائی کے استعمال کو سلا ہوا ہونے کی وجہ سے ناجائز سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ احرام کی حالت میں مرد کو سلا ہوا کپڑا پہننا ناجائز ہے… یہ توٹھیک ہے کہ احرام میں مردوں کو سلا ہوا کپڑا پہننا منع ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ سلی ہوئی چادر یارضائی وغیرہ بھی منع ہے… احرام کی حالت میں ایسا سلا ہوا کپڑا پہننا منع ہے جو بدن کی ہیئت پرکاٹ کر سیاگیا ہو، جیسے کرتہ، پاجامہ، اچکن، واسکٹ اور بنیان وغیرہ… یہ مطلب نہیں کہ جس کپڑے میں بھی سیون ہو، وہ ناجائز ہے، ہاں! افضل یہی ہے کہ احرام کے کپڑوں میں سلائی بالکل نہ ہو۔

٭… احرام کی نیت کرنے سے پہلے جو نفل پڑھے جاتے ہیں، ان کو بعض آدمی سرکھول کر پڑھتے ہیں… بلا عذر سرکھول کر نماز پڑھنا مکروہ ہے… اس لئے احرام کی نیت کرنے سے پیشتر سر ڈھانک کر نماز پڑھنی چاہئے… ہاں ! احرام کی حالت میںسر ڈھانک کر نماز پڑھنا منع ہے۔

٭… بعض آدمی احرام کے زمانہ میں بھی نماز میں اضطباع (داہنی بغل کے نیچے کو چادر نکال کر بائیں کندھے پر ڈالنا)کرتے ہیں، نماز میں اضطباع مکروہ ہے… اضطباع صرف طواف میںمسنون ہے… وہ بھی ہر طواف میں نہیں بلکہ جس طواف کے بعد سعی ہو… البتہ طواف زیارت کے بعد اگر سعی کرنی ہو اور احرام کے کپڑے اتار دیئے ہوں تو اضطباع نہ ہوگا۔

٭… احرام کی حالت میںچونکہ عورت کے لئے چہرہ کو کپڑا لگانا اور اسی طرح منہ چھپانا منع ہے کہ جس سے کپڑا منہ کو لگ جائے، اس لئے عام طور سے کراچی اور بمبئی میں نا ریل کی جالی دار پنکھیاں بنائی جاتی ہیں اور عورتیں اس کو پیشانی پر لگا لیتی ہیں تاکہ کپڑا چہرے کو نہ لگے… مگر ان پنکھیوں کو اکثر عورتیں ایسی طرح باندھتی ہیں کہ وہ پنکھیاں چہرے سے یا پیشانی سے چپک جاتی ہیں اور اس کے کنارہ پر باندھنے کے واسطے کپڑے کی پٹی بھی لگی ہوتی ہے، اس طرح باند ھنا منع ہے… بلکہ اس طرح باندھنی چاہئے کہ سر کے اوپر رکھ کر چہرے کے اوپرکھڑی ہوجائے اور چہرے کو نہ لگے اور برقع کے پردے کو روک لے… مگر عام طور سے پنکھیاںاس قدر چھوٹی ہوتی ہیں کہ کپڑے کو اچھی طرح روک نہیں سکتیں بلکہ کپڑا منہ کو لگتا ہے… اس لئے بہتر یہ ہے کہ موٹا سا پٹھا لے کر چھجہ نماکر لیا جائے اور اس میں ڈوری یا تسمہ لگا لیا جائے، وہ اس پنکھی سے مضبوط اور اچھا رہتا ہے اورکپڑے کو چہرے پر نہیں لگنے دیتا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

طواف کی غلطیاں​

٭… اکثر مطوفین (طواف کرانے والے) اور عام طور سے حجاج، طواف کی نیت حجر اسود اور رکن یمانی کے درمیان کھڑے ہوکر کرتے ہیں، اس طرح نیت کرنا منع ہے… بلکہ طواف کی نیت اس طرح کھڑے ہوکرکرنی چاہئے کہ نیت کرنے والے کا داہنا کندھا حجر اسودکے بائیں کنارے کے مقابل ہو… اگر اس طرح کھڑے ہوکر نیت نہ کی، بلکہ اس جگہ سے آگے بڑھ کرکی، تو ایک چکرکا اعادہ آخرطواف میں بعض کے نزدیک مستحب اور بعض کے نزدیک واجب ہوگا۔

٭… مطوفین طواف کی نیت کرتے وقت حجراسود کے مقابل ہونے اور تکبیرکہنے سے پہلے ہی ہاتھ کانوں تک اٹھاتے ہیں اور اکثر حجاج ان کی دیکھا دیکھی ایسا ہی کرتے ہیں، حجراسودکے سامنے آنے اور تکبیرکہنے سے پہلے ہاتھ اٹھانے بدعت ہیں… حجر اسودکا (طریق مذکور پر) استقبال کرنے کے بعد تکبیرکے ساتھ ہاتھ اٹھانے چاہئیں… بعض ناواقف حجراسودکی تقبیل کے وقت اس طرح دورد پڑھتے ہیں… ’’ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ نَبِیْ قَبْلَکَ‘‘ یہ الفاظ موہم کفر ہیں، ان کو ہرگز نہ پڑھا جائے، دورد شریف کے جو الفاظ مشہور اور صحیح ہیں وہ پڑھے جائیں۔
 
Top