مقوقس جو مصر کا فرمانروا اور قیصر کاباج گزار تھا،حضرت عمروبن العاص ؓسے پہلے قلعہ میں پہنچ چکا تھا اور لڑائی کا بندوبست کررہا تھا۔ قلعہ کی مضبوطی اور فوج کی قلت دیکھ کر حضرت عمروؓ نے حضرت عمرؓ کوخط لکھااور اعانت طلب کی انہوں نے دس ہزار فوج اور چار افسر بھیجے اور خط میں لکھا کہ ان افسروں میں ایک ایک ہزار ہزار سوار کے برابر ہے، یہ افسرحضرت زبیربن العوامؓ،حضرت عبادہ بن الصامتؓ ، حضرت مقداد بن عمرؓ،حضرت مسلمہ بن مخلدؓ تھے۔حضرت زبیرؓکا جو رتبہ تھا اس کے لحاظ سے حضرت عمروؓ نے ان کو افسر بنایا اور محاصرہ وغیرہ کے انتظامات ان کے ہاتھ میں دے دیئے ۔ انہوں نے گھوڑے پر سوار ہو کر خندق کے چاروں طرف چکر لگایا اور جہاں جہاں مناسب تھا مناسب تعداد کے ساتھ سوار اورپیادے متعین کیے اس کے ساتھ ساتھ منجنیقوں سے پتھر برسانے شروع کیے، اس پر پورے سات مہینے گزر گئے اور فتح وشکست کا کچھ فیصلہ نہ ہوا۔حضرت زبیرؓ نے ایک دن تنگ آکرکہا: آج میں مسلمانوںپر فدا ہوتا ہوں، یہ کہہ کر ننگی تلوار ہاتھ میں لی اور سیڑھی لگا کر قلعہ کی فصیل پر چڑھ گئے چنداور صحابہؓ نے ان کا ساتھ دیا۔ فصیل پر پہنچ کر سب نے ایک ساتھ تکبیر کے نعرے بلند کیے، ساتھ ہی تمام فوج نے نعرہ مارا کہ قلعہ کی زمین دہل اُٹھی۔ عیسائی یہ سمجھ کرکہ مسلمان قلعہ کے اندرگھس آئے بدحواس ہو کر بھاگے، ادھرحضرت زبیرؓ نے فصیل سے اتر کر قلعہ کا درواز کھول دیا اور تمام فوج اندر گھس آئی ۔مقوقس نے یہ دیکھ کر صلح کی درخواست کی اور اسی وقت سب کو امان دے دی گئی۔
ایک دن عیسائیوں نے حضرت عمرو بن العاصؓ اور افسران فوج کی دھوم دھام سے دعوت کی۔حضرت عمروبن العاصؓنے قبول کرلی اور سلیقہ شعار لوگوں کو ساتھ لے گئے۔
دوسرے دن حضرت عمروؓ نے ان لوگوں کی دعوت کی ۔ رومی بڑے تزک واحتشام سے آئے اور مخملی کرسیوں پر بیٹھے کھانے میں خود مسلمان بھی شریک تھے اور جیسا کہ حضرت عمروؓ نے پہلے سے حکم دے دیا تھا۔ سادہ عربی لباس میں تھے اور عربی انداز اور عادات کے موافق کھانے پر بیٹھے،کھانا بھی سادہ یعنی معمولی گوشت اور روٹی تھی۔ عربوں نے کھانا شروع کیا تو گوشت کی بوٹیاں شور بے میں ڈبو کر اس زور سے دانتوں سے نوچتے تھے کہ شور بہ کے چھینٹے اُڑ کر رومیوں کے کپڑوں پر پڑتے تھے۔ کھانے کے بعد رومیوں نے کہا:وہ لوگ کہاں ہیں جو کل ہماری دعوت میں شریک تھے یعنی وہ ایسے گنوار اور بے سلیقہ نہ تھے۔حضرت عمروؓ نے کہا:وہ اہل الرائے تھے اور یہ سپاہی ہیں۔
مقوقس نے اگرچہ تمام مصر کے لیے معاہدہ صلح لکھوایا تھا لیکن ہرقل کو جب خبر ہوئی تو اس نے نہایت ناراضگی ظاہر کی اور لکھ بھیجا کہ قبطی اگر عربوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے تو رومیوں کی تعداد کیا کم تھی۔ اسی وقت ایک عظیم الشان فوج روانہ کی کہ اسکندر یہ پہنچ کر مسلمانوں کے مقابلے کے لیے تیار ہو۔
ایک دن عیسائیوں نے حضرت عمرو بن العاصؓ اور افسران فوج کی دھوم دھام سے دعوت کی۔حضرت عمروبن العاصؓنے قبول کرلی اور سلیقہ شعار لوگوں کو ساتھ لے گئے۔
دوسرے دن حضرت عمروؓ نے ان لوگوں کی دعوت کی ۔ رومی بڑے تزک واحتشام سے آئے اور مخملی کرسیوں پر بیٹھے کھانے میں خود مسلمان بھی شریک تھے اور جیسا کہ حضرت عمروؓ نے پہلے سے حکم دے دیا تھا۔ سادہ عربی لباس میں تھے اور عربی انداز اور عادات کے موافق کھانے پر بیٹھے،کھانا بھی سادہ یعنی معمولی گوشت اور روٹی تھی۔ عربوں نے کھانا شروع کیا تو گوشت کی بوٹیاں شور بے میں ڈبو کر اس زور سے دانتوں سے نوچتے تھے کہ شور بہ کے چھینٹے اُڑ کر رومیوں کے کپڑوں پر پڑتے تھے۔ کھانے کے بعد رومیوں نے کہا:وہ لوگ کہاں ہیں جو کل ہماری دعوت میں شریک تھے یعنی وہ ایسے گنوار اور بے سلیقہ نہ تھے۔حضرت عمروؓ نے کہا:وہ اہل الرائے تھے اور یہ سپاہی ہیں۔
مقوقس نے اگرچہ تمام مصر کے لیے معاہدہ صلح لکھوایا تھا لیکن ہرقل کو جب خبر ہوئی تو اس نے نہایت ناراضگی ظاہر کی اور لکھ بھیجا کہ قبطی اگر عربوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے تو رومیوں کی تعداد کیا کم تھی۔ اسی وقت ایک عظیم الشان فوج روانہ کی کہ اسکندر یہ پہنچ کر مسلمانوں کے مقابلے کے لیے تیار ہو۔