اسکندریہ کی فتح

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
فسطاط کی فتح کے بعدحضرت عمروؓ نے چند روز تک یہاں قیام کیا اور یہیں سے حضرت عمرؓ کو خط لکھا کہ

’’ فسطاط فتح ہوچکا، اجازت ہو تو اسکندریہ پر فوجیں بڑھائی جائیں۔‘‘

وہاں سے منظوری آئی توحضرت عمروؓ نے کوچ کا حکم دیا۔ اتفاق سے حضرت عمروؓ کے خیمہ میں ایک کبوتر نے گھونسلہ بنالیا تھا۔خیمہ اکھاڑا جانے لگا توحضرت عمروؓ کی نگاہ پڑی حکم دیا کہ اس کو یہیں رہنے دو کہ ہمارے مہمان کوتکلیف نہ ہونے پائے۔ چونکہ عربی میں خیمہ کو فسطاط کہتے ہیں اورحضرت عمروؓ نے اسکندریہ سے واپس آکر اسی خیمہ کے قریب شہر بسایا اس لیے خود شہر بھی فسطاط کے نام سے مشہور ہوگیا اور آج تک یہی نام لیا جاتاہے، بہرحال ۲۱ھ میںحضرت عمروؓ نے اسکندریہ کا رخ کیا ۔ اسکندریہ اور فسطاط کے درمیان میں رومیوں کی جو آبادیاں تھیں، انہوں نے سدراہ ہونا چاہا، چنانچہ ایک جماعت عظیم سے جس میں ہزاروں قبطی بھی شامل تھے فسطاط کی طرف بڑھے کہ مسلمانوں کووہیں روک لیں، مقام کربون میں دونوں حریفوں کاسامنا ہوا۔ مسلمانوں نے نہایت طیش میں آکرجنگ کی اور بے شمار عیسائی مارے گئے۔پھر کسی نے روک ٹوک کی جرأت نہ کی اور حضرت عمروؓ نے اسکندریہ پہنچ کردم لیا۔ مقوقس جزیہ دے کر صلح کرنا چاہتا تھا لیکن رومیوں کے ڈر سے نہیں کرسکتا تھا، تاہم یہ درخواست کی کہ ایک مدت معین کے لیے صلح ہوجائے۔ حضرت عمروؓ نے انکار کیا۔ مقوقس نے مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لیے شہر کے تمام آدمیوں کو حکم دیا کہ ہتھیار لگا کر شہر پناہ کی فصیل پر مسلمانوں کے آمنے سامنے صف جما کر کھڑے ہوں، عورتیں بھی اس حکم میں داخل تھیں اوراس غرض سے کہ پہچانی نہ جاسکیں انہوں نے شہرکی طرف منہ کرلیاتھا۔

حضرت عمروؓ نے کہلا بھیجا کہ ہم تمہارا مطلب سمجھے لیکن تم کو معلوم نہیں کہ ہم نے اب تک جو ملک فتح کیے کثرت فوج کے بل پر نہیں کیے۔ تمہارا بادشاہ ہرقل جس سروسامان سے ہمارے مقابلے کو آیا تم کو معلوم ہے اور جونتیجہ ہوا وہ بھی مخفی نہیں۔ مقوقس نے کہا:سچ ہے یہی عرب ہیں جنہوں نے ہمارے بادشاہ کو قسطنطنیہ پہنچا کر چھوڑا۔ اس پر رومی سردار نہایت غضبناک ہوئے مقوقس کو بہت برا بھلا کہا اور لڑائی کی تیاریاں شروع کیں۔

مقوقس کی مرضی چونکہ جنگ کی نہ تھی اس لیے حضرت عمروؓ سے اقرار لے لیا تھا کہ چونکہ میں رومیوں سے الگ ہوں، اس وجہ سے میری قوم (یعنی قبطی) کو تمہارے ہاتھ سے ضرر نہ پہنچنے پائے۔ قبطیوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ اس معرکہ میں دونوں سے الگ رہے بلکہ مسلمانوں کو بہت کچھ مدددی۔فسطاط سے اسکندریہ تک فوج کے آگے آگے پلوں کی مرمت کرتے اور سڑکیں بناتے گئے خود اسکندریہ کے محاصرہ میں بھی رسد وغیرہ کا انتظام انہیں کی بدولت ہوسکا۔ رومی کبھی کبھی قلعہ سے باہر نکل کر لڑتے تھے۔ ایک دن نہایت سخت معرکہ ہوا، تیروخدنگ سے گزر کر تلوار کی نوبت آئی۔ ایک رومی نے صف سے نکل کر کہا کہ جس کا دعویٰ ہو تنہامیرے مقابلے کوآئے۔حضرت مسلمہ بن خالدؓ نے گھوڑا بڑھایا۔ رومی نے ان کو زمین پردے ٹپکا اور جھک کر تلوار مارنا چاہتاتھا کہ ایک سوار نے آکر جان بچائی۔حضرت عمروؓ کو اس پر اس قدرغصہ آیا کہ متانت ایک طرف حضرت مسلمہؓ کے رتبہ کا بھی خیال نہ کرکے کہا کہ زنخوں کو میدان جنگ میں آنے کی کیاضرورت ہے۔حضرت مسلمہؓ کو نہایت ناگوار ہوا لیکن مصلحت کے لحاظ سے کچھ نہ کہا۔

لڑائی کا زور اسی طرح قائم تھا۔ آخر مسلمانوں نے اس طرح دل توڑ کر حملہ کیا کہ رومیوں کو دباتے ہوئے قلعہ کے اندرگھس گئے۔ دیرتک قلعہ کے صحن میں معرکہ رہا۔ آخر میں رومیوں نے سنبھل کر ایک ساتھ حملہ کیا اور مسلمانوں کو قلعہ سے باہر نکال کردروازے بندکردیئے۔ اتفاق یہ کہ حضرت عمرو بن العاصؓ اور مسلمہؓ اور دوشخص اور اندر رہ گئے۔ رومیوں نے ان لوگوں کو زندہ گرفتار کرنا چاہا لیکن جب ان لوگوں نے مردانہ وار جان دینی چاہی تو انہوں نے کہا کہ دونوں طرف سے ایک ایک آدمی مقابلے کو نکلے، اگر ہمارا آدمی مارا گیا تو ہم تم کو چھوڑ دیں گے کہ قلعہ سے نکل جائو اور تمہارا آدمی مارا جائے تو تم سب ہتھیار ڈال دو۔

حضرت عمروبن العاصؓ نے نہایت خوشی سے منظور کیا اور خود مقابلے کے لیے نکلنا چاہا۔حضرت مسلمہ نے روکا کہ تم فوج کے سردار ہو ، تم پر آنچ آئی تو انتظام میں خلل ہوگا۔ یہ کہہ کر گھوڑا بڑھایا۔ رومی بھی ہتھیار سنبھال چکا تھا۔ دیر تک وار ہوتے رہے بالآخر مسلمہؓ نے ایک ہاتھ مارا کہ رومی وہیں ڈھیر ہو کر رہ گیا ۔رومیوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ ان میں کوئی سردار ہے انہوں نے اقرار کے موافق قلعہ کا دروازہ کھول دیا اور سب صحیح سلامت باہر نکل آئے۔حضرت عمروؓ نے حضرت مسلمہؓ سے اپنی گستاخی کی معافی مانگی اور انہوں نے نہایت صاف دلی سے معاف کردیا۔

محاصرہ جس قدرطول کھینچتا جاتا تھا حضرت عمرؓ کو زیادہ پریشانی ہوتی تھی، چنانچہ حضرت عمروؓ کو خط لکھا کہ’’شاید تم لوگ وہاں رہ کر عیسائیوں کی طرح عیش پرست بن گئے، ورنہ فتح میں اس قدر دیر نہ ہوتی۔ جس دن میرا خط پہنچے تمام فوج کو جمع کر کے جہاد پر خطبہ دو اور پھر اس طرح حملہ کرو کہ جن کو میں نے افسر کر کے بھیجا تھا فوج کے آگے ہوں اور تمام فوج ایک دفعہ دشمن پر ٹوٹ پڑے۔‘‘حضرت عمروؓ نے تمام فوج کو یکجا کر کے خطبہ پڑھا اور ایک پر اثر تقریر کی کہ بجھے ہوئے جوش تازہ ہوگئے۔حضرت عبادہ بن صامتؓ کو جو برسوں رسول اللہﷺ کی صحبت میں رہے تھے بلا کر کہا کہ اپنا نیزہ مجھ کودیجئے۔خود سر سے عمامہ اُتارا اور نیزہ پر لگا کر ان کو حوالہ کیا کہ یہ سپہ سالار کا علم ہے اور آج آپ سپہ سالار ہیں۔

حضرت زبیر بن العوامؓ اور مسلمہ بن مخلدؓ کوفوج کا ہراول کیا۔ غرض اس سروسامان سے قلعہ پر دھاوا ہوا کہ پہلے ہی حملہ میں شہرفتح ہوگیا۔ حضرت عمروؓ نے اسی وقت معاویہ بن خدیج کو بلا کر کہا کہ جس قدر تیز جا سکوجائو اور امیر المومنین کو مژدہ فتح سنائو۔ معاویہ اونٹنی پر سوار ہوئے اور دومنزلہ سہ منزلہ کرتے ہوئے مدینہ پہنچے۔ چونکہ ٹھیک دوپہر کا وقت تھا اس خیال سے کہ یہ آرام کا وقت ہے بارگاہ خلافت میں جانے سے پہلے سیدھے مسجد نبوی کا رخ کیا۔ اتفاق سے حضرت عمرؓ کی لونڈی ادھر آنکلی اور ان کو مسافر کی ہیئت دیکھ کر پوچھا کہ کون ہواور کہاں سے آئے ہو؟ انہوں نے کہا:اسکندریہ سے۔

اس نے اسی وقت جا کر خبر کی اور ساتھ ہی واپس آئی کہ چلو تم کو امیر المومنین بلاتے ہیں، حضرت عمرؓ اتنا بھی انتظار نہیں کر سکتے تھے۔خود چلنے کے لیے تیار ہوئے اور چادر سنبھال رہے تھے کہ معاویہ پہنچ گئے۔ فتح کا حال سن کر زمین پر گرے اور سجدہ شکرادا کیا۔ اُٹھ کر مسجد میں آئے اور منادی کرادی ’’الصلوٰۃ جامعۃ‘‘سنتے ہی تمام مدینہ امڈآیا، معاویہ نے سب کے سامنے فتح کے حالات بیان کیے۔

وہاں سے اُٹھ کر حضرت عمرؓ کے ساتھ ان کے گھر پر گئے۔ حضرت عمرؓ نے لونڈی سے پوچھا:کچھ کھانے کو ہے؟ وہ روٹی اور روغن زیتون لائی، مہمان کے آگے رکھا اور کہا کہ آنے کے ساتھ ہی میرے پاس کیوں نہیں چلے آئے؟ انہوں نے کہا: میں نے خیال کیا کہ یہ آرام کا وقت ہے شاید آپ سوتے ہوں۔ فرمایا :

’’افسوس ! تمہارا میری نسبت یہ خیال ہے، میں دن کو سوئوں گا تو خلافت کابارکون سنبھالے گا۔‘‘

حضرت عمروؓ اسکندریہ کی فتح کے بعد فسطاط کو واپس گئے اور وہاں شہر بسانا چاہا۔ الگ الگ قطعے متعین کیے اور داغ بیل ڈال کر عرب کی سادہ وضع کی عمارتیں تیار کرائیں۔

اسکندریہ اور فسطاط کے بعد اگرچہ برابر کا کوئی حریف نہیں رہا تھا تاہم چونکہ مصر کے تمام اضلاع میں رومی پھیلے ہوئے تھے، ہر طرف تھوڑی تھوڑی فوجیں روانہ کیں کہ آئندہ کسی خطرے کا احتمال نہ رہ جائے چنانچہ خارجہ بن حذافہ العدوی، فیوم، اشمونین، اخمیم، بشرودات، سعید اور اس کے تمام مضافات میں چکر لگاآئے اور ہرجگہ لوگوں نے خوشی سے جزیہ دینا قبول کیا۔ اسی طرح عمیربن وہب نے تینس، دمیاط ،تونہ، دمیرہ، شطا، وقہلہ،بنا،بوہیر کو مسخر کیا۔ عقبہ بن عامر الجہنی نے مصر کے تمام نشیبی حصے فتح کیے۔

چونکہ ان لڑائیوں میں نہایت کثرت سے قبطی اور رومی گرفتار ہوئے تھے،حضرت عمروؓ نے دربار خلافت کو لکھا کہ ان کی نسبت کیا کیا جائے۔ حضرت عمرؓ نے جواب لکھا کہ سب کو کہہ دو کہ ان کو اختیار ہے کہ مسلمان ہوجائیں یا اپنے مذہب پر قائم رہیں۔اسلام قبول کریں گے تو ان کو وہ تمام حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں، ورنہ جزیہ دینا ہوگا جوتمام ذمیوں سے لیاجاتا ہے۔حضرت عمروؓ نے تمام قیدی جو تعداد میں ہزاروں سے زیادہ تھے، ایک جگہ جمع کیے عیسائی سرداروں کوطلب کیا اور مسلمان وعیسائی الگ الگ ترتیب سے آمنے سامنے بیٹھے، بیچ میں قیدیوں کا گروہ تھا۔ فرمان خلافت پڑھا گیا تو بہت سے قیدیوں نے جو مسلمانوں میں رہ کر اسلام کے ذوق سے آشنا ہوگئے تھے اسلام قبول کیا اور بہت سے اپنے مذہب پر قائم رہے ۔ جب کوئی شخص اسلام کا اظہار کرتا تھا تو مسلمان اللہ اکبر کا نعرہ بلند کرتے تھے اور خوشی سے بچھے جاتے تھے اور جب کوئی شخص عیسائیت کا اقرار کرتا تھا تو تمام عیسائیوں میں مبارک باد کا غل پڑتا تھا اور مسلمان اس قدر غم زدہ ہوتے تھے کہ بہتوں کے آنسو نکل پڑتے تھے۔ دیر تک یہ سلسلہ جاری رہا اور دونوں فریق اپنے اپنے حصہ رسدی کے موافق کامیاب آئے۔
 
Top