خواتین اسلام سے رسول اکرمﷺ کی باتیں

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
یہ تو سب جانتے ہیں کہ عورتوں کوزیور سے بہت زیادہ محبت ہوتی ہے،ایک بزرگ کہتے تھے کہ اگر عورت کے جسم میں ہرجگہ سونے کی کیل گاڑ دی جائے تو سونے کی محبت کی وجہ سے ذرابھی تکلیف محسوس نہ ہو گی۔ اللہ کی شریعت میں اعتدال ہے،نفس کی خواہشوں کی بھی رعایت رکھی گئی ہے مگر حدود مقرر فرما دی ہیں اور ایسے قانون لاگو فرمادئیے ہیں جو انسان کو غرور، تکبر، شیخی، دوسروں کی حقارت، خود پسندی اور خلق خدا کی دل آزاری اور حق تلفی سے باز رکھتے ہیں، اگر کسی عورت کو حلال مال سے میسر ہوتو سونے اور چاندی دونوں کازیورپہن سکتی ہے، جائز ہونے کی ایک شرط زیور بنانے سے پہلے ہے، یعنی یہ کہ حلال مال سے ہو اور دوشرطیں زیورپہننے کے بعد ہیں، ایک یہ کہ زکوٰۃ اور دیگر واجبات کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو، دوم یہ کہ دکھانے کے لیے زیور نہ پہنا جائے اور اس سے شیخی بگھارنا مقصود نہ ہو ،چاندی کازیورکوئی خاص زیور نہیں سمجھاجاتا ہے اور اس میں ریاکاری اور شیخی موقع زیادہ نہیں ہوتا، اس لیے چاندی کے زیور سے کام چلانے کے لیے ارشاد فرمایا،گودکھاوے اور اظہار شان اور دوسروں کو حقیر جاننے سے بچنا چاندی کازیور پہن کر بھی ضروری ہے، چاندی کے زیور سے کلام چلانے کی ترغیب دیتے ہوئے آنحضرت فخر عالمﷺنے ارشاد فرمایا : اے عورتو!کیا تمہاری آراستگی کا کام چاندی کے زیور سے نہیں چل سکتا اسی سے کام چلائو،سونا پہننے والی عورتیں بہت کم دکھاوے سے بچتی ہیں، اسی کو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جوعورت ظاہر کرنے کے لیے سونے کا زیور پہنے گی اس کی وجہ سے اسے عذاب دیا جائے گا، زیوردکھانے کا مرض عورتوں میں بہت ہوتا ہے اور کسی کو پتہ نہ چلے تو مجلس میں بیٹھے ہوئے ترکیبوں اور تدبیروں سے بتاتی ہیں کہ ہم زیور پہنے ہوئے ہیں مثلاًبیٹھے بیٹھے گرمی کابہانہ کر کے ایک کان اور گلا کھول دیں گی، زبان سے کہیں گی اوئی کتنی گرمی ہے اور دل میں زیور ظاہر کرنے کی نیت ہے، اللہ تعالیٰ نفس کی مکاریوں سے بچائے۔

مذکورہ بالاخرابیاں نہ ہوں تو عورتوں کوزیور پہننے کی گنجائش ہے، مگر نہ پہننا پھر بھی افضل ہے، دنیامیں نہ پہنیں گی تو آخرت میں بہت ملے گا۔

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

ان کنتم تحبون الجنۃ وحریر ھا فلا تلبسوھا فی الدنیا

اگر تم جنت کے زیور اورریشم کوچاہتے ہو تو ان کو دنیا میں مت پہنو۔(مشکوٰۃ شریف: ص ۳۷۹)

جنت میں جوزیور اور لباس اور دیگر نعمتیں ملیں گی، ان کی تفصیل جاننے کے لیے ہماری کتاب ’’جنت کی نعمتیں‘‘ پڑھئے۔

حضور اقدسﷺ کے خادم حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ آنحضرتﷺ کا یہ معمول تھا کہ جب سفر میں تشریف لے جاتے تو اپنے گھر والوں میں سب سے آخری ملاقات حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاسے فرماتے تھے، اس کے بعد روانہ ہوتے تھے اور جب واپس تشریف لاتے تھے سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے تھے۔ ایک بار آپ ﷺایک جہاد سے واپس ہوئے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہونے کاارادہ فرمایامگر داخل نہ ہوئے، بات یہ تھی کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہانے (دیوار پر یا طاق) پر ایک پردہ لٹکایا تھا اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کوچاندی کے دو کنگن پہنادئیے تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے( یہ ماجرا دیکھ کرکہ آپ ﷺ تشریف لاتے لاتے واپس روانہ ہوگئے) فوراً محسوس فرمایا کہ آپ ﷺ کی واپسی کی وجہ یہی دو چیزیں ہیں جومزاج گرامی کو ناگوار ہوئیں، چنانچہ انہوں نے خود ہی وہ پردہ پھاڑ دیا اور دونوں صاحبزادوں کے کنگن کاٹ کر علیحدہ فرمادئیے، دونوں صاحبزادے روتے ہوئے رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپﷺ نے وہ کنگن ان کے ہاتھوں سے لے لیے اور ( مجھ سے ) فرمایا کہ اے ثوبان!لویہ لے جائو اور فلاں( غریب) گھرانے کے لوگوں کو دے دو( وہ فروخت کر کے اپنا کام چلالیں گے) یہ لوگ میرے گھر والے ہیں، میں یہ پسند نہیں کرتا کہ یہ لوگ اپنے حصہ کی عمد ہ چیزیں دنیاوی زندگی میں استعمال کرلیں( پھر فرمایا کہ) اے ثوبان!فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے ( جانوروں کے) پٹھوں سے بنا ہوا ایک ہار اور ہاتھی دانت کے دو کنگن خرید لائو۔( مشکوٰۃ شریف: ص ۳۸۳ ازاحمد وابو دائود)

اس حدیث میں حضور اقدسﷺ کے زہد اور دنیاوی نعمتوں اور لذتوں کے استعمال سے بے رغبتی کی ایک جھلک معلوم ہوتی ہے، آپﷺ نہ صرف خود اپنے لیے بلکہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی دنیاوی لذتوں اورنعمتوں میں پڑنا ناپسند فرماتے تھے، ناپسند تو سب ہی کے لیے تھا مگر اس سلسلہ میں زیادہ توجہ خو د عمل پیرا ہونے کی طرف تھی۔ حلال چیزیں استعمال کرناچونکہ گناہ نہیں ہے اس لیے سختی سے روکنا مناسب نہ تھا،البتہ اپنے حق میں سختی فرماتے تھے اورگھر والوں کو تنبیہ فرماتے رہتے تھے۔ زیوراگرچہ عورت کے لیے حلال ہے مگر اسی کو پسند فرمایا کہ استعمال نہ کیا جائے، کیونکہ دنیا میں نعمتوں کے استعمال سے خطرہ ہے کہ آخرت کی نعمتیں کم ملیں۔ ظاہر ہے کہ دنیا کہ نعمتیں آخرت کی نعمتوں کے سامنے بالکل ہیچ ہیں، اللہ کا پیارا نبیﷺ کیونکر پسند فرماتاکہ آخرت کی نعمتوں میں کمی آئے اسی لیے چاندی کے کنگن ایک غریب گھرانے کے لیے بھیج دئیے۔فصلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ واصحابہ والہ بقدر کمالہ و جمالہ
 
Top