سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کو جب امیر شریعت بنایا گیا
حضرت مولانا یوسف بنوریؒ
لاہور کا تاریخی اجلاس جس میں آپ امیرِ شریعت بنائے گئے مئی ۱۹۳۰ء کا جو تاریخی اجلاس ’’انجمن خدام الدین لاہور‘‘ کا ہورہا تھا، جس کا سماں آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے، اس وقت امام شیخ v کا اسم گرامی مولانا ظفر علی خاں نے امارت کے لیے پیش کیا۔ حضرت شیخ نے کھڑے ہوکر تقریر فرمائی اور اپنی کمزوری کی وجہ سے معذرت پیش کی اور سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی امارت کی نہ صرف تجویز کی بلکہ امیر بناکر فرمایا: میں بھی اس مقصد کے لیے ان کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں، آپ حضرات بھی ان سے بیعت کریں اور اپنے د ونوں ہاتھ مبارک سید بخاری کے ہاتھ میں دے دیئے۔ وہ منظر بھی عجیب تھا کہ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری رورہے تھے اور کہتے ہیں کہ خداکے لیے مجھے معاف فرمائیں، میں اس کا اہل نہیں اور حضر ت شیخ اصرار فرمارہے ہیں۔ اس وقت سب سے پہلے مولانا عبد العزیز گوجرانوالہ نے پہلی بیعت فرمائی، پھر مولانا ظفر علی خاں مرحوم نے بیعت کی، راقم الحروف بھی اسی مجمع میں شریک تھا اور غالباً تیسرا نمبر بیعت کرنے والوں میں میرا تھا، اس وقت شاہ جیؒ ’’امیر شریعت‘‘ بنائے گئے اور ان کی شخصیت میں مقبولیت اور جاذبیت کا دور شروع ہوا، جو اس سے پہلے کبھی نہ تھا اور اس کے بعد اخلاص کے ساتھ خدمت کی توفیق ان کو ملی، وہ ان کی زندگی کاتاریخی دور ہے۔
حضرت مولانا یوسف بنوریؒ
لاہور کا تاریخی اجلاس جس میں آپ امیرِ شریعت بنائے گئے مئی ۱۹۳۰ء کا جو تاریخی اجلاس ’’انجمن خدام الدین لاہور‘‘ کا ہورہا تھا، جس کا سماں آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے، اس وقت امام شیخ v کا اسم گرامی مولانا ظفر علی خاں نے امارت کے لیے پیش کیا۔ حضرت شیخ نے کھڑے ہوکر تقریر فرمائی اور اپنی کمزوری کی وجہ سے معذرت پیش کی اور سیّد عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی امارت کی نہ صرف تجویز کی بلکہ امیر بناکر فرمایا: میں بھی اس مقصد کے لیے ان کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں، آپ حضرات بھی ان سے بیعت کریں اور اپنے د ونوں ہاتھ مبارک سید بخاری کے ہاتھ میں دے دیئے۔ وہ منظر بھی عجیب تھا کہ مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری رورہے تھے اور کہتے ہیں کہ خداکے لیے مجھے معاف فرمائیں، میں اس کا اہل نہیں اور حضر ت شیخ اصرار فرمارہے ہیں۔ اس وقت سب سے پہلے مولانا عبد العزیز گوجرانوالہ نے پہلی بیعت فرمائی، پھر مولانا ظفر علی خاں مرحوم نے بیعت کی، راقم الحروف بھی اسی مجمع میں شریک تھا اور غالباً تیسرا نمبر بیعت کرنے والوں میں میرا تھا، اس وقت شاہ جیؒ ’’امیر شریعت‘‘ بنائے گئے اور ان کی شخصیت میں مقبولیت اور جاذبیت کا دور شروع ہوا، جو اس سے پہلے کبھی نہ تھا اور اس کے بعد اخلاص کے ساتھ خدمت کی توفیق ان کو ملی، وہ ان کی زندگی کاتاریخی دور ہے۔