مال رحمت

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

مال بذات خود بْرا نہیں ہے ، بلکہ مدح کے لائق ہے، کیوں کہ وہ دین ودنیا کے مصالح کی طرف پہنچنے کا ذریعہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اس کا نام خیر رکھا ہے۔


سورۃ نساء کی ابتداء میں فرمایا:

{وَلَاتُؤْتُواالسُّفَھَآئَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیٰمًا}

’’اور بیوقوفوں کو اپنا وہ مال نہ دوجن کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے قائم رہنے کا سبب بنایا ہے۔‘‘

حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ جوآدمی حلال طریقے سے مال جمع نہیں کرتا اس کو کوئی فائدہ نہیں چاہے اس سے اپنی عزت کو بچائے ، صلہ رحمی کرے چاہے اس سے حق داروں کا حق ادا کرے۔‘‘(اجروثواب کچھ نہیںملے گا)

حضرت ابو اسحاق سبیعی رحمہ اللہ کا قول ہے:

’’ اسلاف مال کی فراخی کو دین کا معاون سمجھتے تھے۔‘‘

حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے فرمایا:

’’ ہمارے زمانے میں مال مومن کا ہتھیار ہے۔‘‘

حاصل یہ ہے کہ مال سانپ کی طرح ہے، اس میں زہر بھی ہے او رتریاق بھی۔ اس کا تریاق اس کے فائدے ہیں او راس کی تباہ کاریاں اس کا زہر ، تو جس نے اس کے فائدے اور ہلاکت کو جان لیا، ممکن ہے وہ اس کی برائی سے بچا رہے او راس سے بھلائی حاصل کرے۔
 
Top