مال کی آفتیں اور نقصانات

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اب رہیں مال کی آفتیں اور تباہیاں، تو یہ بھی دو قسم کی ہیں ، یعنی دینی بھی اور دنیاوی بھی۔ ان میں سے دینی تین ہیں :

(۱) پہلی یہ کہ مال عموماً گناہ کی طرف لے جاتا ہے کیوں کہ مال دل میں طاقت اور تحفظ کا احساس پیدا کرتا ہے اور یہ احساس گناہ کی طرف تحریک کرتا ہے۔ اگر انسان پریشان حال ہو تو گناہ کا خیال بھی نہیں آتا۔

اور بچاؤ کی ایک صورت یہ ہے کہ مال نہ ہو،کیوں کہ صاحبِ قدرت کے دل میں کوئی خواہش پیدا ہو گی تو اسے پورا کرکے ہلاک ہو گا اوراگر صبر کرے گا تو اسے صبر کی سختی کی تکلیف برداشت کرنا پڑے گی۔ گو یا دولت کا فتنہ تنگ دستی کے فتنے سے بڑا ہے۔

(۲) دوسری یہ کہ مال مباح چیزوں سے تعیش کی تحریک کرتا ہے ، یہاں تک کہ اس کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے۔ پھر وہ اس سے صبر نہیں کرسکتا۔ اس کے علاوہ یہ اہتمام بھی نہیں رکھ سکتاکہ جومال حاصل ہوتا ہے وہ ہر قسم کے شبہات سے پاک ہو۔ پھر وہ مداہنت اور نفاق کی آفتوں میں ترقی کرتا ہے، کیوں کہ جس کے پاس مال زیادہ ہو گا اس کا لوگوں سے میل جول بھی زیادہ ہو گا او رجب اْن سے ملے گا تو نفاق اور عداوت اور حسد وغیبت سے محفوظ نہ رہے گا اور یہ سب مال کی مضرتیں ہیں۔

(۳) تیسری یہ ہے کہ جس سے کوئی بھی نہیں بچ سکتا اور وہ یہ کہ مال اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کرے گا اور یہ بہت مہلک بیماری ہے ،کیوں کہ عبادت کی بنیاد اللہ تعالیٰ کا ذکر او راس کے جلال وعظمت میں غوروفکر ہے اور یہ فارغ دل کا تقاضا کرتا ہے۔ زمین دار آدمی دن رات کا شت کاروں کے جھگڑوں اور ان کے محاسبے میں متفکر رہے گا۔ پانی اور حدود کے جھگڑے نمٹائے گا۔ حکومت کے کارندوں سے خراج او رمزدوروں سے زمین کی آبادی میں کوتاہی کے متعلق پوچھ گچھ کرے گا۔ اسی طرح تاجر آدمی دن رات اپنے شرکاء کی خیانت، کام میں کوتاہی اور مال ضائع کرنے کے متعلق غور کرے گا، غرض اس طرح مال کی تمام قسموں والے، یہاں تک کہ جس کے پاس روپیہ جمع اور محفوظ ہے، وہ بھی اس کی حفاظت اور ضائع ہونے کے خوف پر غور کرے گا۔ لیکن جس کے پاس روز کے روز کھانا آئے گا۔ وہ ان سب چیزوں سے محفوظ رہے گا اور یہ سب مصیبتیں ان کے علاوہ ہیں جو دولت مندوں کو دنیا میں پیش آتی ہیں ، خوف، غم، پریشانی اور مشقت وغیرہ۔
 
Top