دنیا کی تاریخ اٹھاکر دیکھی جائے کہ حاکم وقت اپنی ذات پراور اہل و عیال پر کس قدر بے جا روپیہ خرچ کرتے ہیں اور اپنی رعیت کا بالکل ہی خیال نہیں کرتے اور گویا کہ پوری زندگی عیش کوشی اور لہو ولعب میں بسر ہوتی ہے۔ بس آخری کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح اعلیٰ منصب کو حاصل کیا جائے اور جب اس میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو خوف خدا ان کے دل سے نکل جاتا اور وہ ہر طرح کے اخلاقی جرائم اور گناہ میں ملوث ہوجاتے۔ ایسے افراد کے لیے یہ کہا جائے کہ وہ حضرت علی کا اخلاق و کردار اپنے اندر نافذ کریں اور ان کے طریقہ حکومت پر عمل کریں۔حضرت علی نے اپنے پورے دور خلافت میں ایک حبہ بھی بیت المال کا اپنی ذات پر خرچ نہیں کیا، بلکہ بعض لوگوں نے ان کو ہدایا دئیے اسے بھی خلق خدا کی امانت سمجھ کر بیت المال میں جمع کردیا۔ آپ نے بیت المال کی رقم کی اس طرح حفاظت کی کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ آپ کو ایک صاحب نے ہدیہ دیا اور وہ ہدیہ کیاتھا وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی زبانی ملاحظہ فرمائیں مگر اس کو بھی بیت المال میں پہنچادیا۔
آپ نے ایک خطبہ میں صراحت کی ہے:
”لوگو! اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں نے تمہارے مال سے نہ تھوڑا لیا، نہ بہت سوائے اس شے کے، اور جیب سے ایک چھوٹی سی شیشی نکال کر دکھائی، جس میں عطریا کوئی خوشبو تھی، حضرت علی نے کہا مجھے ایک دہقان نے یہ ہدیہ دیا ہے۔ پھر وہ بیت المال تشریف لے گئے اور کہا یہ لو۔ (وہ شیشی بیت المال میں جمع کردی)
اور یہ شعر پڑھنے لگے:
آپ نے ایک خطبہ میں صراحت کی ہے:
”لوگو! اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں نے تمہارے مال سے نہ تھوڑا لیا، نہ بہت سوائے اس شے کے، اور جیب سے ایک چھوٹی سی شیشی نکال کر دکھائی، جس میں عطریا کوئی خوشبو تھی، حضرت علی نے کہا مجھے ایک دہقان نے یہ ہدیہ دیا ہے۔ پھر وہ بیت المال تشریف لے گئے اور کہا یہ لو۔ (وہ شیشی بیت المال میں جمع کردی)
اور یہ شعر پڑھنے لگے:
افلح من کانت لہ قوصرة
یأکل منہا کل یوم تمرة
یأکل منہا کل یوم تمرة