غزل

رشید حسرت

وفقہ اللہ
رکن
غزل

چلو اب غور کر لیتے ہیں شائد کُچھ سُنائی دے
محبّت ہر قدم کم ظرف لوگوں کی دُہائی دے

لِکھی ہے میں نے عرضی اِس عِلاقے کے وڈیرے کو
مِرا لُوٹا ہؤا سامان واپس مُجھ کو بھائی دے

کہا بھائی سے میں نے تیری منگنی تو کرا ڈالی
مگر شادی کی یہ ہے شرط کہ جا کر کما عِیدےؔ

بڑھی مہنگائی تو یارو، ہوئی ہے سرگِرانی بھی
اِلہی پھیر دے بچپن وہ ٹکّہؔ، آناؔ ، پائیؔ دے

کوئی دُھند سی ہے جس میں کھو گئے ہیں آشنا چہرے
جتن کتنے ہی کر ڈالے کوئی چہرہ دِکھائی دے

چلیں جو ساتھ وہ دو گام چل کر چھوڑ جاتے ہیں
ملے اب یُوں کوئی مُجھ سے جو لُطفِ آشنائی دے

کِسی کے حق پہ نا لپکُوں درندہ، بھیڑیا بن کر
مُجھے حق آشنا کر دے، الہی پارسائی دے

یقیں آتا نہیں اُس شخص کو جب میری باتوں کا
کہاں تک کوئی اپنی بے گُناہی کی صفائی دے

خُدایا جِس کو چاہا ہے اُسی نے وحشتیں بخشِیں
ابھی حسرتؔ کو اپنے یارؔ کے در کی گدائی دے

رشِید حسرتؔ
 
Top