جھوٹی قسم کے ذریعہ مال حاصل کرنے کی سزا

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ایک حدیث میں ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کسی نے جھوٹی قسم کے ذریعہ کوئی مال حاصل کرلیا، وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ کوڑھی ہوگا۔( ابو دائود شریف)

حضرت عبدالرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدسﷺ نے فرمایا: بلاشبہ تاجر لوگ فاجر ہیں( یعنی بڑے گنہگار ہیں) صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا :یا رسول اللہ!کیا اللہ نے خرید و فروخت کو حلال نہیں قرار دیا؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں حلال تو ہے ،لیکن تاجر لوگ قسم کھاتے ہیں گنہگار ہوتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں ( رواہ احمد باسنادجید و الحاکم و اللفظ لہ وقال صحیح الاسناد)

حضرت حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اقدسﷺ کو دو جمروں کے درمیان یہ فرماتے ہوئے میں نے سنا کہ جس کسی نے اپنے بھائی کا مال جھوٹی قسم کے ذریعہ حاصل کرلیا وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے۔ اس کے بعد دو یا تین مرتبہ فرمایا: جو حاضر ہیں غائبوں کو پہنچادیں(رواہ احمد و الحاکم کمافی الترغیب)

ایک روایت میں ہے کہ جھوٹی قسم آبادیوں کو کھنڈربنا کر چھوڑ دیتی ہے( الترغیب) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراقدسﷺ نے ارشاد فرمایا: قسم سو دا تو بکوادیتی ہے( اور ) کمائی کی برکت کو ختم کردیتی ہے
( بخاری و مسلم و ابودائود کمافی الترغیب)

جس طرح اپنا مال بیچنے کے لیے یا کسی کا کوئی حق مارنے کے لیے جھوٹی قسم کھانا حرام ہے اسی طرح کسی دوسرے کو کسی کا مال ناحق دلانے کے لیے یا مقدمہ میں جتانے کے لیے جھوٹی گواہی دینا حرام ہے، بڑے بڑے گناہوں کی فہرست میں بخاری ومسلم کی بعض روایت میں شہادۃ الزور کا لفظ آیا ہے جھوٹی گواہی دینا بھی سخت گناہ ہے، بہت سے لوگ کسی کی دوستی میں یا رشتہ داری کے تعلقات کی وجہ سے جھوٹی گواہی دے دیتے ہیں جھوٹی گواہی خود بہت بڑا گناہ ہے پھر اس کے ساتھ حاکم قسم بھی کہلواتا ہے جو جھوٹی ہوتی ہے اس لیے گناہ دوگنا ہوتا ہے اور حرام پر حرام ہوتا چلا جاتا ہے، تعجب ہے کہ لوگ دنیا کے تعلقات اور رشتہ داری کو دیکھتے ہیں اور آخرت کے عذاب کی طرف دھیان نہیں دیتے،بہت سے لوگوں نے تو جھوٹی گواہی کو پیشہ ہی بنا رکھا ہے پولیس سے اور وکیلوں سے جوڑ رکھتے ہیں اور روزانہ کورٹ کچہری میں پہنچ جاتے ہیں، پولیس اور وکیل الفاظ رٹا دیتے ہیں اور اسی وقت نقد گواہی دے کر نقددام لے آتے ہیں، ان کا یہ پیشہ حرام ہے اور آمدنی بھی حرام ہے، حرام کے ذریعہ حرام کماتے ہیں اس میں بڑے بڑے نماز ی تک مبتلا ہیں۔

حضور اقدسﷺ ایک مرتبہ فجر کی نماز پڑھ کر کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا: جھوٹی گواہی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر قرار دی گئی ہے، اس کو تین بار فرمایا، پھر آیت تلاوت فرمائی:

ترجمہ:سوبچتے رہو بتوں کی گندگی سے اور بچتے رہو جھوٹی بات سے‘‘( مشکوٰۃ: ص ۳۲۸)

قرآن مجید میں شرک سے بچنے کا اور جھوٹی بات سے بچنے کا حکم ایک ساتھ ایک جگہ بیان فرمایا ہے اس سے جھوٹی گواہی کی مذمت اور قباحت ظاہر ہے۔

فائدہ:غیر اللہ کی قسم کھانا شرک ہے اگر چہ سچی کھائی، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدسﷺ نے فرمایا: جس نے اللہ کے علاوہ کسی کی قسم کھائی اس نے شرک کیا۔( ترمذی)

بہت سی عورتیں غیر اللہ کی قسم کھا جاتی ہیں اور یہ بھی کہتی رہتی ہیں کہ تیر یسر کی قسم،دودھ کی قسم ،پوت کی قسم، دھن دولت کی قسم،باپ کی قسم ،یہ سب شرک ہے اول تو جہاں تک ممکن ہو قسم کھائے ہی نہیں، اگر کسی موقع پر سچی قسم کھانی پڑ جائے تو صرف اللہ کی قسم کھائے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ سُلَيْمَانَ وَمَنْصُورٍ عَنْ أَبِي وَائِلٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ حَلَفَ عَلَی يَمِينٍ کَاذِبَةٍ يَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ رَجُلٍ مُسْلِمٍ أَوْ قَالَ أَخِيهِ لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَصْدِيقَهُ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ قَالَ سُلَيْمَانُ فِي حَدِيثِهِ فَمَرَّ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ فَقَالَ مَا يُحَدِّثُکُمْ عَبْدُ اللَّهِ قَالُوا لَهُ فَقَالَ الْأَشْعَثُ نَزَلَتْ فِيَّ وَفِي صَاحِبٍ لِي فِي بِئْرٍ کَانَتْ بَيْنَنَا

محمد بن بشار، ابن ابی عدی، شعبہ، سلیمان ومنصور، ابووائل، عبداللہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی جھوٹی قسم کھائے تاکہ اس کے ذریعہ کسی مسلمان کا مال (یا فرمایا کہ بھائی کا مال) ہضم کرے تو اللہ اس سے اس حال میں ملے گا کہ اس پر اللہ کا غضب ہوگا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی، اِنَّ الَّذِيْنَ يَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ 3۔ آل عمران : 77)، یعنی جو لوگ اللہ کے عہد کے ساتھ خریدتے ہیں، سلیمان نے اپنی حدیث میں بیان کیا کہ اشعث بن قیس گزرے تو پوچھا کہ تم سے عبداللہ کیا بیان کرتے ہیں لوگوں نے ان کو بتایا تو اشعث نے کہا کہ یہ آیت تو میرے اور میرے ایک ساتھی کے متعلق نازل ہوئی، ہمارے درمیان ایک کنویں کے بارے میں تنازع تھا۔
 
Top