ایک غلط فہمی کی تردید

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ پردہ کا حکم تو اسلام میں ہے لیکن چہرہ کا پردہ نہیں ہے، ان نادانوں کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آتاکہ اگر چہرہ کا پردہ نہیں ہے تو مردوں اور عورتوں کو نظریں نیچی رکھنے کا کیوں حکم ہے؟(جو سورئہ نور میں واضح طور پر موجود ہے) چہرہ ہی میں تو کشش ہے اور وہی مجمع المحاسن ہے۔ سورئہ احزاب کی آیت یدنین علیھن من جلابیبھن سے چہرہ ڈھانکنے کا واضح حکم معلوم ہو رہاہے اور بعض لوگوں کو نماز کے مسئلہ سے دھوکا ہوا ہے، عورت کا ستر نماز کے لیے اتنا ہے کہ چہرہ اور گٹوں تک دونوں ہاتھوں اور ٹخنوں تک دونوں قدموں کے علاوہ پورا جسم ایسے کپڑے سے ڈھانکا ہوارہے کہ بال اور کھال اچھی طرح چھپ جائے، نماز میں اگر چہرہ کھلا رہے تو نماز ہوجائے گی۔ فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ شرائط نمازکے بیان میں لکھا ہے پردہ کے بیان میں نہیں لکھا، منہ کھول کو نماز ہوجانے کے جواز سے غیر محرم کے سامنے بے پردہ ہوکر آنے کاثبوت دینا بڑی بددیانتی ہے، فقہاء پر اللہ کی ہزاروں رحمتیں ہوں ان پاک طینت بزرگوں کے دل پہلے ہی کھٹک گئے تھے کہ فاسد الخیال لوگ مسائل نمازکی تصریحات سے نامحرموں کے سامنے بے پردہ ہوکر آنے پر استدلال کریں گے۔ درمختار میں جہاں شرائط نماز کے بیان میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ چہرہ اور کفین( ہتھیلیاں) اور قدمین( پائوں) ڈھانکنا صحت نماز کے لیے ضروری نہیں ہیں وہیں یہ بھی درج ہے

وتمنع المرأۃ الشابۃ من کشف الوجہ بین رجال لا لانہ عورۃ بل لخوف الفتنۃ الخ

اور جوان عورت کو( نامحرم) مردوں کے سامنے چہرہ کھولنے سے روکا جائے گا ( اور یہ روکنا) اس وجہ سے نہیں کہ چہرہ (نماز کے) ستر میں داخل ہے بلکہ اس لیے کہ ( نامحرم) کے سامنے چہرہ کھولنے میں فتنہ کا خوف ہے۔(درمختار،شامی ص ۲۸۴ج۱)

شیخ ابن ہمام ؒ زادالفقیر میںشرائط نمازبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وفی الفتاوی الصحیح ان المعتبر فی فسادالصلوٰۃ انکشاف مافوق الاذنین و فی حرمۃ النظر یسوی بینھا ای مافوق الاذنین وتحتھما

فتاویٰ کی کتابوں میں ہے کہ مذہب صحیح یہ ہے کہ کانوں سے اوپر( یعنی بال اورسر) کے کھل جانے سے نماز فاسد ہوگی اور غیر مردوں کے لیے کانوں کے اوپر حصہ اورکانوں کے نیچے کا حصہ یعنی چہرہ وغیرہ کے دیکھنے کاایک ہی حکم ہے یعنی دونوں حصوں کا دیکھنا حرام ہے۔

بہت سے لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں اوراپنے کو دیندار بھی سمجھتے ہیںاور پردہ کوبھی مانتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ پردہ کے سخت احکام مولویوں نے ایجاد کیے ہیں، یہ لوگ ملحدین بددین لوگوں کی باتوںسے متاثر ہیں، جن لوگوں کے دلو ں میں تھوڑا بہت اسلام سے تعلق باقی ہے ان کو راہ حق سے ہٹانے کے لیے شیطان نے یہ نئی چال چلی ہے کہ ہرایسے حکم کو جس کے ماننے سے نفس گریزکرتا ہومولوی کا تراشیدہ بتادیتا ہے اور اس کی بات کوباور کرنے والے اس دھوکہ میں پڑے رہتے ہیں کہ ہم نے نہ تو اسلام کو جھٹلایا،نہ قرآن کے ماننے سے پہلو تہی کی بلکہ مولوی کے غلط مسئلہ کاانکار کیاہے۔ کاش یہ لوگ اپنی مومنانہ ذمہ داری کا احسا س کرتے اور علماء حق سے گھل ملکر ان کے ظاہر وباطن کا جائزہ لیتے اور ان کے بیان کردہ مسائل کے دلائل معلوم کر کے اپنے نفوس کومطمئن کرتے ،علماء حق اپنی طرف سے کسی بھی مسئلے کا کوئی حکم اپنی طرف سے تجویز کر کے امت کے سر نہیں منڈھتے اورنہ وہ ایسا کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ چونکہ علماء کرام کو قرآن و حدیث کی تشریحات اور احکام شرعیہ کی پوری پوری تفصیلات معلوم ہیں،نیز دین کی وسعتیں اور رخصتیں بھی جانتے ہیں اورشرعی پابندیوںاورعزیمتوں سے بھی واقف ہیں ،اس لیے تحریراً اور تقریر اً احکام شرعیہ کی حدود و قیود اور ضوابط و شرائط سے امت کو آگاہ فرماتے رہتے ہیں، اسکولوں اور کالجوں کے پڑھے ہوئے نیم ملا چونکہ شریعت کا پورا علم نہیں رکھتے، اس لیے حقائق شرعیہ اور بالکل متفق علیہ مسائل دینیہ کو مولوی کی ایجاد کہہ کر ٹال دیتے ہیں اور یہ عجیب تماشا ہے کہ جس مسئلہ پر عمل نہ کرنا ہو اس سے بچنے کے لیے ایجاد مولوی کابہانہ پیش کردیتے ہیں، حالانکہ نماز، روزہ وغیرہ کے جن مسائل پر عمل کرتے ہیں وہ بھی تو مولویوں نے ہی بتائے ہیں لیکن چونکہ ان سے گریز کرنے کی نیت نہیں ہے اس لیے ان کو صحیح مانتے ہیں، میدان قیامت میں جب پیشی ہوگی تو کیا ایسی کج روی اور حیلہ سازی جان بچا سکے گی۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سید عالمﷺ نے تین روز خیبر اور مدینہ منورہ کے درمیان قیام فرمایا، تینوں روز حضرت صفیہ رضی اللہ عنہانے آپ ﷺکے ساتھ شب باشی کی( اوروہیں جنگل میںولیمہ ہوا) ولیمہ میں کوئی گوشت روٹی نہیں تھی( بلکہ متفرق قسم کی دوسری چیزیں تھیں) آنحضرتﷺ نے چمڑے کے دستر خوان بچھانے کا حکم فرمایا، جس پر کھجوریں اور پنیر اور گھی لا کر رکھ دیاگیا ، میں لوگوں کوبلالایااور لوگوں نے ولیمہ کی دعوت کھائی( پورے لشکر میں سے جن کو نکاح کا علم نہ ہوا تھا وہ) لوگ اس تردد میں رہے کہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے آنحضرتﷺ نے نکاح فرمالیا ہے یاباندی بنالیا ہے، پھر ان لوگوں نے خود ہی اس کا فیصلہ کرلیا کہ آپﷺ نے ان کو پردہ میں رکھا تو ہم سمجھیں گے کہ آپﷺ کی بیوی ہیں اور اُمہات المومنین میں سے ہیں، ورنہ یہ سمجھیں گے کہ آپﷺ نے ان کولونڈی بنالیا ہے چنانچہ آپ ﷺ نے جب کوچ فرمایا تواپنی سواری پر ان کے لیے پیچھے جگہ بنائی اور ان کوسوار کر کے ان کے اور لوگوں کے درمیان پردہ تان دیااس سے سب سمجھ گئے( صحیح بخاری ص ۷۷۵ ج ۲ باب البناء فی السفر)

۷ھ میں نبی کریمﷺ غزوئہ خیبر کے لیے تشریف لے گئے ،خیبر میں یہودی رہتے تھے ( ان میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کاباپ حیی بن اخطب بھی تھا) اس جنگ میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہاکاشوہر قتل ہوگیا تھا ،جنگ کے ختم پر جب قیدی جمع کئے گئے تو ان میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہابھی تھیں، حضورﷺ نے ان کو آزاد کر کے نکاح فرمالیا۔

حضرات صحابہؓ میں یہ بات بہت مضبوطی کے ساتھ جمی ہوئی تھی کہ حُرہ یعنی آزاد عورت کو پردہ میںرہنا لازم ہے ، اسی لیے انہوں نے خود ہی فیصلہ کرلیا کہ اگر آنحضرتﷺ نے ان کو پردہ میں رکھاتوہم سمجھیں گے کہ آپﷺ کی بیوی ہیں ورنہ یہ سمجھیں گے کہ آپﷺ نے ان کولونڈی بنالیاہے ،پھر جب روانگی کے وقت آنحضرتﷺ نے ان کے اور لوگوں کے درمیان پردہ تان لیا توسب نے سمجھ لیا کہ لونڈی نہیں ہے بلکہ بیوی ہیں، اگر اس زمانہ میں پردہ کا رواج نہ ہوتا تو حضرات صحابہؓ کے دلو ں میں یہ سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔

اوپر کے مسئلہ میں لونڈی سے مراد شرعی لونڈی ہے، جو کافر عورتیں میدان جہاد سے قید ہو کر آتی تھیں اور امیر المومنین ان کو مجاہدین پر تقسیم کردیتا تھا وہ شرعی لونڈیاں بن جاتی تھیں، مسلمانوں نے جب سے شرعی جہاد چھوڑا ہے اس وقت سے غلام اور لونڈی بھی موجود نہیں رہیں، جو عورتیں ملازمت اور مزدوری پر گھروں میں کام کرتی ہے یہ لونڈیاں اورباندیاں نہیں ہیں، ان کو پردہ کا ویسا ہی اہتمام کرنا لازم ہے جو ہر آزاد عورت کے لیے ضروری ہے، اسی طرح جو لڑکے امیر گھرانوں میں ملازم ہوتے ہیں جب بالغ ہوجائیں یابلوغ کے قریب پہنچ جائیں تو ان سے پردہ کرنا لازم ہے۔ کیسی بے شرمی بات کی بات ہے کہ نوکروں کے سامنے بہو بیٹیاں آتی ہیں اور ذرابھی گناہ اور عیب نہیں سمجھتیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حدیث بالا میں جو واقعہ مذکور ہے ہم لوگوں کے لیے ایک اور اعتبار سے بھی قابل عبرت ہے، آنحضرتﷺ نے سفر ہی میں نکاح فرمالیا اور سفر ہی میں شب زفاف ہوگئی اور ولیمہ بھی وہیں ہوگیا، لوگوں نے شادی بیاہ کے لیے بڑے بکھیڑے تجویز کر رکھے ہیں، ان بکھیڑوں کی وجہ سے شادیوں میں دیر ہوجاتی ہے اور بھاری قرضوں سے زیر بار ہوجاتے ہیں۔ دنیا بھر کے عزیز و اقارب جمع ہوں، جوسفر کے اخراجات کر کے آئیں اور عورتوں کی تراشی ہوئی رسموں کی پابندی ہو، مکان لیپ پوت کرمزین کیے جائیں، دولہا دلہن کے لیے بہت جوڑے بنیں، زیورات تیار ہوں اور اسی طرح کی بہت سی قیدیں اورشرطیں پیچھے لگا رکھی ہیں جو خاندانوں کے لیے عذاب بنی ہوئی ہیں، ان رسوم کو بہت سے لوگ مصیبت سمجھتے تو ہیں مگر عورتوں کے پھندے میں اور رواج کے شکنجہ میں اپنے کو ایسا پھنسار کھا ہے کہ سنت کے موافق سادہ طریقہ پر بیاہ شادی کرنے کوعیب جانتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہدایت فرمائے۔

ایک بات اس حدیث سے یہ معلوم ہوئی کہ حضورﷺ نے جو اس موقع پر ولیمہ کیا، اس میں گوشت روٹی نہیں تھی بلکہ کچھ پنیر تھا اور کچھ دوسری چیزیں تھیں، حاضرین کے سامنے وہی رکھ دی گئیں معلوم ہوا کہ ولیمہ بغیر بکرے کاٹے اور قیمتی کھانے پکوائے بھی ہوسکتا ہے اور غریب آدمی بھی ولیمہ کی سنت پر عمل کر سکتا ہے، اس طرح کے ولیمہ سے گونام نہ ہوگا، جس کے آج کے مسلمان حریص ہیں مگر سنت ادا ہوجائے گی۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت قیس بن شماس رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ ایک صحابی عورت جن کو اُمّ خلادکہا جا تا تھا، رسول اللہﷺ کی خدمت میں اپنے بیٹے کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی غرض سے حاضر ہوئیں، ان کابیٹا ( کسی غزوہ میں )شہید ہوگیا تھا، جب وہ آئیں تواپنے چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے تھیں ان کا یہ حال دیکھ کر کسی صحابی نے کہا کہ تم اپنے بیٹے کا حال معلوم کرنے کے لیے آئی ہواور نقاب ڈالے ہوئے ہو؟

حضرت اُمّ خلاد رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ اگر بیٹے کے بارے میں مصیبت زدہ ہوگئی ہوں تو اپنی شرم و حیا کھو کر ہر گز مصیبت زدہ نہ ہوں گی( یعنی حیا کا چلا جانا ایسی مصیبت زدہ کردینے والی چیز ہے جیسے بیٹے کا ختم ہوجانا) حضرت اُمّ خلاد رضی اللہ عنہا کے پوچھنے پر حضورﷺ نے جواب دیا کہ تمہارے بیٹے کے لیے دوشہیدوں کا ثواب ہے انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ!کیوں؟ارشاد فرمایا :اس لیے کہ اسے اہل کتاب نے قتل کیا ہے۔( سنن ابو دائود ص ۳۳۶، کتاب الجہاد باب فضل قتال الروم)

اس واقعہ سے بھی ان مغربیت زدہ مجتہدین کی تردید ہوتی ہے جو چہرہ کو پردہ سے خارج کرتے ہیں اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پردہ ہر حال میں لازم ہے۔ رنج ہو یا خوشی، نامحرم کے سامنے بے پردہ ہو کر آنا منع ہے۔ بہت سے مرد اور عورت ایسا طرز اختیار کرتے ہیں کہ گویا ان کے نزدیک شریعت کا کوئی قانون مصیبت کے وقت لاگو نہیں ہے،جب گھر میں کوئی موت ہوجائے تو اس بات کو جانتے ہوئے کہ نوحہ کرنا سخت منع ہے، عورتیں زور زور سے نوحہ کرتی ہیں جنازہ جب گھر سے باہر نکالا جاتاہے توعورتیں دروازے کے باہر تک اس کے پیچھے چلی آتی ہیں اور پردہ کا کچھ خیال نہیں کرتیں، خوب یاد رکھو، غصہ ہو یا رضامندی، خوشی ہو یا مصیبت ہر حال میں احکام شریعت کی پابندی کرنا لازم ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور اقدسﷺ سے سینگی لگوانے کی اجازت طلب کی، لہٰذا آنحضرت ﷺ نے ابو طیبہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اُمّ سلمہ( رضی اللہ تعالیٰ عنہا) کوسینگی لگا دیں۔

یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابوطیبہ رضی اللہ عنہ سے جو سینگی لگوائی تو میرے خیال میں اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہاکے دودھ شریک بھائی تھے یانابالغ لڑکے تھے( مشکوٰۃ شریف: ص ۲۶۸ از مسلم)

اس حدیث سے معلوم ہواکہ عورت کے علاج کے سلسلہ میں بھی پردہ کا خیال رکھنا ضروری ہے، اگر معالج کے سامنے بے پردہ ہوکر آجانے میں کچھ حرج نہ ہوتا تو حضرت جابررضی اللہ عنہ کو یہ کیوں بتانا پڑتا کہ ابو طیبہ رضی اللہ عنہ حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہاکے دودھ شریک بھائی یا نابالغ لڑکے تھے،ہمارے زمانہ کے لوگوں کاعجیب حال ہے کہ جن خاندانوں اور گھروں میں پردہ کااہتمام ہے علاج کے سلسلہ میں ان کے یہاں بھی پردہ کا خیال چھوڑ دیا جاتا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مندرجہ بالا حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے علاج کے لیے محرم کوتلاش کریں، اگر کوئی محرم معالج نہ ملے تو غیر محرم سے بھی علاج کر اسکتے ہیں۔

علاج کے لیے ستر کھولنے کے احکام:​

لیکن اس میں شریعت کے ایک اہم اصول الضرورۃ تتقدر بقدر الضرورۃ کا خیال رکھنا لازم ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مجبوراً جتنے بدن کا دیکھنا ضروری ہے، معالج بس اسی قدر دیکھ سکتا ہے مثلاً علاج کے لیے نبض دیکھنے اور حال کہنے سے کام چل سکتا ہے تو اس سے زیادہ دیکھنے یاہاتھ لگانے کی اجازت نہ ہوگی، اسی طرح اگر بازو میں یاپنڈلی میں زخم ہے تو جتنی جگہ بدرجہ مجبوری دیکھنے کی ضرورت ہو بس اس قدر معالج دیکھ سکتا ہے۔اگر علاج کی مجبوری کے لیے آنکھ، ناک ،دانت دیکھنا ہے تو اس صورت میںپورا چہرہ کھولنا جائز نہیں۔ جس قدر دیکھنے سے کام چل سکتا ہو بس اسی قدر دکھا سکتے ہیں،بلکہ ایسے معالج کے لیے بھی یہی تفصیل ہے جو عورت کا محرم ہو اور وجہ اس کی یہ ہے کہ محرم کے لیے بھی اپنی محرم عورت کا پورا بدن دیکھنا جائز نہیں ہے کیونکہ عورت کو اپنے محرم کے سامنے پیٹ اور پیٹھ اور ران کھولنا منع ہے، پس اگر پیٹ یا پیٹھ میں زخم ہو تو حکیم ڈاکٹر خواہ محرم ہو یا نامحرم صرف زخم کی جگہ دیکھ سکتا ہے، اس سے زیادہ دکھانا گناہ ہے، جس کی صورت یہ ہے کہ پرانا کپڑا پہن کر زخم کے اوپر کا حصہ کاٹ دیا جائے تاکہ پیٹ یاپیٹھ کے بقیہ حصہ پر اس کی نظر نہ پڑے، اور چونکہ عورت کو ناف سے لے کر گھٹنوں کے ختم تک کسی عورت کے سامنے بھی کھولنا ناجائز ہے اس لیے اگر لیڈی ڈاکٹر کو مثلا ً ران یا سرین کا پھوڑا وغیرہ دکھانا مقصود ہو تو اس صورت میں کپڑا کاٹ کر صرف پھوڑے کی جگہ دکھائی جائے۔ اس کے ساتھ یہ بھی یادرکھنا ضروری ہے کہ ضرورت کے لیے حکیم ڈاکٹر کو جگہ دکھائی جائے تو حاضرین میں جو عزیز و اقارب موجود ہوں ان کو اس جگہ کے دیکھنے کی اجازت نہیں ہے، ہاں اگر حاضرین میں سے کوئی شخص ایسا ہے جسے شرعاً اس جگہ کا دیکھنا جائز ہے تووہ اس پابندی سے خارج ہے مثلاً اگر پنڈلی میں زخم ہے اور وہ ڈاکٹر یا جراح کو دکھانا ہے اور عورت کاباپ یا حقیقی بھائی بھی وہاں موجود ہے اس نے اگر دیکھ لیا تو گناہ نہ ہوگا کیونکہ پنڈلی کا کھولنا محر م کے سامنے درست ہے۔

فائدہ:یہ تفصیل جو ابھی ابھی ذکر کی گئی ہے مرد کے علاج کے سلسلہ میں بھی ہے کیونکہ ناف سے لے کر گھٹنے تک مرد کا مرد سے بھی پردہ ہے، اگر ران یاسرین کا زخم کسی ڈاکٹر کو دکھانا ہے یا کولہے میں کسی مجبوری سے انجکشن لگوانا ہے تو صرف ڈاکٹربقدر ضرورت دیکھ سکتا ہے، دوسرے لوگوں کو دیکھنا حرام ہے۔

مسئلہ:زمانہ حمل وغیرہ میں اگر دائی سے پیٹ ملوانا ہو تو ناف سے نیچے کا بدن کھولنا درست نہیں ہے، چادر وغیرہ ڈال لینی چاہئے، بلا ضرورت کوئی جگہ دائی کو بھی دکھانا جائز نہیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

ولادت کے موقع پر بے احتیاطی:​

بچہ پیدا ہونے کے وقت دائی اورنرس کو صرف بقدر ضرورت پیدائش کی جگہ دیکھنا جائز ہے، اس سے زیادہ دیکھنا منع ہے اور آس پاس جوعورتیں موجودہوں اگرچہ ماں بہنیں ہی ہوں ان کوبھی دیکھنا منع ہے، کیونکہ اس کا دیکھنا بلا ضرورت ہے، لہٰذا ان کو نظرڈالنے کی اجازت نہیں، یہ جو دستور ہے کہ عورت کو ننگا کر کے ڈال دیتے ہیں اور سب عورتیں دیکھتی رہتی ہیں یہ حرام ہے۔

مسئلہ:اگر غیر مسلم دائی یانرس بچہ پیداکرانے کے لیے بلائی جائے تو اس کے سامنے سرکھولنا حرام ہوگا، کیونکہ کافر عورت کے سامنے مسلمان عورت صرف منہ اور پہنچوں تک دونوں ہاتھ اور ٹخنوں سے نیچے دونوں پیر کھول سکتی ہے، ان کے علاوہ ایک بال کا کھولنا بھی درست نہیں، غیر مسلم عورتیں بھنگن ، دھوبن، نرس، لیڈی ڈاکٹر وغیرہ جوبھی ہوں ان سب کے متعلق یہی حکم ہے۔
 
Top