بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ پردہ کا حکم تو اسلام میں ہے لیکن چہرہ کا پردہ نہیں ہے، ان نادانوں کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آتاکہ اگر چہرہ کا پردہ نہیں ہے تو مردوں اور عورتوں کو نظریں نیچی رکھنے کا کیوں حکم ہے؟(جو سورئہ نور میں واضح طور پر موجود ہے) چہرہ ہی میں تو کشش ہے اور وہی مجمع المحاسن ہے۔ سورئہ احزاب کی آیت یدنین علیھن من جلابیبھن سے چہرہ ڈھانکنے کا واضح حکم معلوم ہو رہاہے اور بعض لوگوں کو نماز کے مسئلہ سے دھوکا ہوا ہے، عورت کا ستر نماز کے لیے اتنا ہے کہ چہرہ اور گٹوں تک دونوں ہاتھوں اور ٹخنوں تک دونوں قدموں کے علاوہ پورا جسم ایسے کپڑے سے ڈھانکا ہوارہے کہ بال اور کھال اچھی طرح چھپ جائے، نماز میں اگر چہرہ کھلا رہے تو نماز ہوجائے گی۔ فقہ کی کتابوں میں یہ مسئلہ شرائط نمازکے بیان میں لکھا ہے پردہ کے بیان میں نہیں لکھا، منہ کھول کو نماز ہوجانے کے جواز سے غیر محرم کے سامنے بے پردہ ہوکر آنے کاثبوت دینا بڑی بددیانتی ہے، فقہاء پر اللہ کی ہزاروں رحمتیں ہوں ان پاک طینت بزرگوں کے دل پہلے ہی کھٹک گئے تھے کہ فاسد الخیال لوگ مسائل نمازکی تصریحات سے نامحرموں کے سامنے بے پردہ ہوکر آنے پر استدلال کریں گے۔ درمختار میں جہاں شرائط نماز کے بیان میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ چہرہ اور کفین( ہتھیلیاں) اور قدمین( پائوں) ڈھانکنا صحت نماز کے لیے ضروری نہیں ہیں وہیں یہ بھی درج ہے
وتمنع المرأۃ الشابۃ من کشف الوجہ بین رجال لا لانہ عورۃ بل لخوف الفتنۃ الخ
اور جوان عورت کو( نامحرم) مردوں کے سامنے چہرہ کھولنے سے روکا جائے گا ( اور یہ روکنا) اس وجہ سے نہیں کہ چہرہ (نماز کے) ستر میں داخل ہے بلکہ اس لیے کہ ( نامحرم) کے سامنے چہرہ کھولنے میں فتنہ کا خوف ہے۔(درمختار،شامی ص ۲۸۴ج۱)
شیخ ابن ہمام ؒ زادالفقیر میںشرائط نمازبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
بہت سے لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں اوراپنے کو دیندار بھی سمجھتے ہیںاور پردہ کوبھی مانتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ پردہ کے سخت احکام مولویوں نے ایجاد کیے ہیں، یہ لوگ ملحدین بددین لوگوں کی باتوںسے متاثر ہیں، جن لوگوں کے دلو ں میں تھوڑا بہت اسلام سے تعلق باقی ہے ان کو راہ حق سے ہٹانے کے لیے شیطان نے یہ نئی چال چلی ہے کہ ہرایسے حکم کو جس کے ماننے سے نفس گریزکرتا ہومولوی کا تراشیدہ بتادیتا ہے اور اس کی بات کوباور کرنے والے اس دھوکہ میں پڑے رہتے ہیں کہ ہم نے نہ تو اسلام کو جھٹلایا،نہ قرآن کے ماننے سے پہلو تہی کی بلکہ مولوی کے غلط مسئلہ کاانکار کیاہے۔ کاش یہ لوگ اپنی مومنانہ ذمہ داری کا احسا س کرتے اور علماء حق سے گھل ملکر ان کے ظاہر وباطن کا جائزہ لیتے اور ان کے بیان کردہ مسائل کے دلائل معلوم کر کے اپنے نفوس کومطمئن کرتے ،علماء حق اپنی طرف سے کسی بھی مسئلے کا کوئی حکم اپنی طرف سے تجویز کر کے امت کے سر نہیں منڈھتے اورنہ وہ ایسا کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ چونکہ علماء کرام کو قرآن و حدیث کی تشریحات اور احکام شرعیہ کی پوری پوری تفصیلات معلوم ہیں،نیز دین کی وسعتیں اور رخصتیں بھی جانتے ہیں اورشرعی پابندیوںاورعزیمتوں سے بھی واقف ہیں ،اس لیے تحریراً اور تقریر اً احکام شرعیہ کی حدود و قیود اور ضوابط و شرائط سے امت کو آگاہ فرماتے رہتے ہیں، اسکولوں اور کالجوں کے پڑھے ہوئے نیم ملا چونکہ شریعت کا پورا علم نہیں رکھتے، اس لیے حقائق شرعیہ اور بالکل متفق علیہ مسائل دینیہ کو مولوی کی ایجاد کہہ کر ٹال دیتے ہیں اور یہ عجیب تماشا ہے کہ جس مسئلہ پر عمل نہ کرنا ہو اس سے بچنے کے لیے ایجاد مولوی کابہانہ پیش کردیتے ہیں، حالانکہ نماز، روزہ وغیرہ کے جن مسائل پر عمل کرتے ہیں وہ بھی تو مولویوں نے ہی بتائے ہیں لیکن چونکہ ان سے گریز کرنے کی نیت نہیں ہے اس لیے ان کو صحیح مانتے ہیں، میدان قیامت میں جب پیشی ہوگی تو کیا ایسی کج روی اور حیلہ سازی جان بچا سکے گی۔
وتمنع المرأۃ الشابۃ من کشف الوجہ بین رجال لا لانہ عورۃ بل لخوف الفتنۃ الخ
اور جوان عورت کو( نامحرم) مردوں کے سامنے چہرہ کھولنے سے روکا جائے گا ( اور یہ روکنا) اس وجہ سے نہیں کہ چہرہ (نماز کے) ستر میں داخل ہے بلکہ اس لیے کہ ( نامحرم) کے سامنے چہرہ کھولنے میں فتنہ کا خوف ہے۔(درمختار،شامی ص ۲۸۴ج۱)
شیخ ابن ہمام ؒ زادالفقیر میںشرائط نمازبیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وفی الفتاوی الصحیح ان المعتبر فی فسادالصلوٰۃ انکشاف مافوق الاذنین و فی حرمۃ النظر یسوی بینھا ای مافوق الاذنین وتحتھما
فتاویٰ کی کتابوں میں ہے کہ مذہب صحیح یہ ہے کہ کانوں سے اوپر( یعنی بال اورسر) کے کھل جانے سے نماز فاسد ہوگی اور غیر مردوں کے لیے کانوں کے اوپر حصہ اورکانوں کے نیچے کا حصہ یعنی چہرہ وغیرہ کے دیکھنے کاایک ہی حکم ہے یعنی دونوں حصوں کا دیکھنا حرام ہے۔بہت سے لوگ نماز بھی پڑھتے ہیں اوراپنے کو دیندار بھی سمجھتے ہیںاور پردہ کوبھی مانتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ پردہ کے سخت احکام مولویوں نے ایجاد کیے ہیں، یہ لوگ ملحدین بددین لوگوں کی باتوںسے متاثر ہیں، جن لوگوں کے دلو ں میں تھوڑا بہت اسلام سے تعلق باقی ہے ان کو راہ حق سے ہٹانے کے لیے شیطان نے یہ نئی چال چلی ہے کہ ہرایسے حکم کو جس کے ماننے سے نفس گریزکرتا ہومولوی کا تراشیدہ بتادیتا ہے اور اس کی بات کوباور کرنے والے اس دھوکہ میں پڑے رہتے ہیں کہ ہم نے نہ تو اسلام کو جھٹلایا،نہ قرآن کے ماننے سے پہلو تہی کی بلکہ مولوی کے غلط مسئلہ کاانکار کیاہے۔ کاش یہ لوگ اپنی مومنانہ ذمہ داری کا احسا س کرتے اور علماء حق سے گھل ملکر ان کے ظاہر وباطن کا جائزہ لیتے اور ان کے بیان کردہ مسائل کے دلائل معلوم کر کے اپنے نفوس کومطمئن کرتے ،علماء حق اپنی طرف سے کسی بھی مسئلے کا کوئی حکم اپنی طرف سے تجویز کر کے امت کے سر نہیں منڈھتے اورنہ وہ ایسا کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ چونکہ علماء کرام کو قرآن و حدیث کی تشریحات اور احکام شرعیہ کی پوری پوری تفصیلات معلوم ہیں،نیز دین کی وسعتیں اور رخصتیں بھی جانتے ہیں اورشرعی پابندیوںاورعزیمتوں سے بھی واقف ہیں ،اس لیے تحریراً اور تقریر اً احکام شرعیہ کی حدود و قیود اور ضوابط و شرائط سے امت کو آگاہ فرماتے رہتے ہیں، اسکولوں اور کالجوں کے پڑھے ہوئے نیم ملا چونکہ شریعت کا پورا علم نہیں رکھتے، اس لیے حقائق شرعیہ اور بالکل متفق علیہ مسائل دینیہ کو مولوی کی ایجاد کہہ کر ٹال دیتے ہیں اور یہ عجیب تماشا ہے کہ جس مسئلہ پر عمل نہ کرنا ہو اس سے بچنے کے لیے ایجاد مولوی کابہانہ پیش کردیتے ہیں، حالانکہ نماز، روزہ وغیرہ کے جن مسائل پر عمل کرتے ہیں وہ بھی تو مولویوں نے ہی بتائے ہیں لیکن چونکہ ان سے گریز کرنے کی نیت نہیں ہے اس لیے ان کو صحیح مانتے ہیں، میدان قیامت میں جب پیشی ہوگی تو کیا ایسی کج روی اور حیلہ سازی جان بچا سکے گی۔