اسلام کی آمد سے قبل عرب میں لکھنے اور پڑھنے کا کوئی خاص رواج نہ تھا۔ جب آپ ﷺ مبعوث ہوئے تو قبیلہ قریش میں صرف سترہ آدمی ایسے تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور حضرت عمر فاروقؓ نے بھی اسی زمانہ میں لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ چنانچہ امیرالمومنین سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے فرامین،آپؓ کے خطوط، آپؓ کے خطبات اور توقیعات، اب تک سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ جن سے آپؓ کی قوت تحریر، برجستگی کلام اور زور تحرو تقریر کا ایک اندازہ ہوتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ( بصرہ کے گورنر) کے نام آپؓ کے ایک خط کے چند کلمات کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
’’اما بعد (اے ابوموسیٰؓ !) عمل کی مضبوطی یہ ہے کہ آج کا کام، کل پر نہ اٹھاکر رکھیں، اگر ایسا کرو گے تو تمہارے پاس بہت سارے کام اکٹھے جمع ہوجائیں گے اور تم پریشان ہو جاؤ گے، پہلے کس کام کو کریں اور کس کام کو چھوڑ دیں اس طرح کچھ کام نہیں ہوسکے گا‘‘۔۔۔فصاحت و بلاغت کا یہ عالم تھا کہ آپؓ کے بہت سے مقولے عربی ضرب المثل بن گئے، جو آج بھی عربی ادب کی جان ہیں۔ اسی طرح آپؓ کو علم الانساب میں بھی ید طولیٰ اور کمال حاصل تھا۔
’’اما بعد (اے ابوموسیٰؓ !) عمل کی مضبوطی یہ ہے کہ آج کا کام، کل پر نہ اٹھاکر رکھیں، اگر ایسا کرو گے تو تمہارے پاس بہت سارے کام اکٹھے جمع ہوجائیں گے اور تم پریشان ہو جاؤ گے، پہلے کس کام کو کریں اور کس کام کو چھوڑ دیں اس طرح کچھ کام نہیں ہوسکے گا‘‘۔۔۔فصاحت و بلاغت کا یہ عالم تھا کہ آپؓ کے بہت سے مقولے عربی ضرب المثل بن گئے، جو آج بھی عربی ادب کی جان ہیں۔ اسی طرح آپؓ کو علم الانساب میں بھی ید طولیٰ اور کمال حاصل تھا۔