تاتاریوں کی خلاف ہندوستان کی مدافعت میں علاء الدین خلجی کے کارنامے

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
تاتاریوں کی خلاف ہندوستان کی مدافعت میں علاء الدین خلجی کے کارنامے . (1)​
علاء الدین خلجی (١٢٩٦-١٣١٦ء) کے زمانے میں تاتاریوں کے سات حملے ہوئے اور ہر حملہ ہندوستانی فوج کی نمبر آزما ئی سے پسپا ہوا ،پہلا حملہ ابارہ سو اٹھانوے میں ماوراءالنہر کے تاتاریوں نے ایک لاکھ لشکریوں کے ساتھ کیا وہ غارتگری کرتے ہوئے دریائے سندھ تک پہنچ گئےہند وستانی فوج نے الغ خان اور ظفر خان کی سرداری میں مندھ کے پاس ان کا مقابلہ کیا تاتاری ہارے اور بارہ ہزار لشکر ی مارے گئے ان کے سردار بھی بیوی بچوں کے ساتھ قیدی بنا کر دہلی لائے گئے، اس فتح سے ہندوستان کی قوت کی شہرت ہوئی اس کی خوشی پر بڑا جشن منایا گیا شہر میں قبےبنائے گئے فتح نامہ پڑھ کر سنایا گیا شادمانی کے باجے بجائے۔(تاریخ فیروز شاہی از ضیاء الدین برنی)
١٢٩٩ء میں تاتاری حملہ آور ہوئے انہوں نے سیوستا ن پر قبضہ کرلیا ،لیکن ظفر خان نے وہاں پہنچ کر ان حملہ آوروں کو پسپا کیا اور ان کے سردار صلدی اس کے بھائی اور دوسرے لشکریوں کو ان کی عورتوں سمیت گرفتار کرکے دلی لایا ،جس سے اس کی بہادری،دلاوذی اور بے باکی کا بڑا رعب بیٹھا اور ان لوگوں کو خیال ہوا کہ ہندوستان میں ایک دوسرا رستم پیدا ہوگیا ہے۔
(برنی:٢٥٤)
تاتاری اس ذلت آمیز پسپائی کے کا بدلہ لینے کے لیے بارہ سو ننانوے کے آخر میں قتلغ خواجہ کے سرداری میں دو لاکھ لشکری کے ساتھ ہندوستان کی طرف بڑھے ،اور انہوں نے دریائے سندھ کو عبور کر کے سیدھا دلی کی طرف رخ کیا یہاں کے باشندوں میں بڑی سر اسمگی پھیلی ،وہ سب سمٹ کر دلی کے حصار اندر چلے آئے ،بازاروں گلیوں، گھروں اور مسجدوں میں لوگ کھچا کھچ بھر گئے، شہر میں گرانی بڑھ گئی حملہ آوروں نے راستے مسدود کردیے تھے اس لئے سوداگروں اور غلہ فروشوں کا آنا جانا بھی بند ہوگیا لیکن اس موقع پر سلطان علاء الدین کی بہادری کا م آئی،وہ اپنے پورے دبدبے کے ساتھ لشکر لے کر شہر سے باہر چلا آیا اور سیری میں خیمہ زن ہوا اس نے اپنی مملکت کے ہر طرف سے فوجی سرداروں اور لشکریوں کو طلب کرنا شروع کیا ،دلی کا کوتوال اس وقت عمادالملک تھا جس کی رائے اور ہوشمندی پرسلطان علاء الدین اکو بڑا بھروسہ تھا وہ سلطان کو اس کی مجلس خلوت میں مشورہ دیا کرتا تھا ،وہ بھی تاتاریوں کی زبردست یورس سے پریشان ہوا وہ سلطان کے پاس آیااور اس کو مخاطب ہو کر کہنے لگا۔
"ہم سے پہلے کہ جن قدیم بادشاہوں اور وزیروں نے جہاں داری اور جہاں بانی کی ہے وہ کسی بڑی لڑائی کے موقع پر جب یہ نہیں سمجھ سکتے تھے ایک لمحے میں کیا ہوجائے گا اور فتح کس کی ہوگی اور وہ بڑی لڑائی سے اجتناب کرتے تھے اور انہوں نے جب ملک اور سلطنت کو بڑی لڑائیوں کی وجہ سے خطرے میں دیکھا تو اس کے لیے کچھ وصیتیں چھوڑیں ہیں، پرانے بادشاہوں کے وصایامیں لکھا ہے کہ لڑائی ترازو کا پلہ ہوتی ہے، چند نفر کے غلبہ سے بھاری اور دوسرا ہلکا پڑ جاتا ہے ،اور کچھ دیر میں کام ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور اس کو پھر سے کامیابی سے سرانجام دینے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اگرچہ لڑائیوں میں لشکر کے سردرول سے سے انہرام اور شکست کا چندہ خطرہ نہیں ہوتا ،اور امید منقطع ہیں ہو سکتی ،لیکن ہمسروں کی لڑائیوں میں جب ملک کی بازی لگا دی جاتی ہے تو اس وقت باد شاہ ہوں کو بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے تاکہ مضبوطی اور ٹھیک طرح سے لڑائی کو روک سکیں اور اگر وہ لڑائی کو مہلک سمجھتے ہیں تو قاصد وغیرہ کو بھیجتے ہیں، خداوندعالم کوہان والے اونٹوں کو مغلوں کے مقابلے کو بھیجیں اور لشکریوں کو پیچھے رکھیں ،مغل مور وملخ کی طرح آتے ہیں، ان سے لڑنے میں ابھی توقف کریں، اور دیکھیں وہ کیا کرتے ہیں ،معاملہ کہاں تک بڑھتا ہے اگر لڑائی کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو،تو لڑائی کی جائے ۔تمام لوگ حصار کے اندر سمٹ آئیں مغلوں کے پاس بہت بڑا لشکر ہے وہ دس سواروں کو بھی اپنے پاس سے جدا نہیں کر سکتے یہ دیکھنا چاہیے کہ رسد کے بغیر کا تک رہ سکتے ہیں اگر کچھ روز میں ان کے مزاج، ارادے اور نیت کا اندازہ ہو جائے تو بہتر ہے، اگر یہ تنگ ہوکر واپس ہو جائیں اور لوٹ مار میں مشغول ہو جائیں تو اس وقت ان کا تعاقب کرنا درست ہوگا"- (برنی٢٥٦)
علاء الملک کی ان باتوں کو سن کر سلطان علاء الدین پر جو اثر ہوا وہ بھی ضیاء الدین برنی ہی کے الفاظ میں سننے کے لائق ہے. جاری
 
Last edited:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
دوسری قسط۔۔​

سلطان علاء الدین نے ہو خوااہ ملک علاؤالدین کے باتیں سنیں اور آفریں کہی، پھر اپنے بڑے بڑے خوانین اور ملوک کو اپنے ساتھ بلایا، اور ان کو مخاطب کرکے مجمع میں کہا کہ تم جانتے ہو علاء الملک وزیر اور وزیر زادہ ہے میرا بہت مخلص اور ہوا خواہ ہے، پس جب ملک تھا اس وقت سے اب تک مجھ کو مشورہ دیتا ہے ،میں نے اس کو موٹاپے کی وجہ سے کوتوالی دے دی ہے ورنہ اس کا حق وزارت کا تھا ،اس نے مغلوں پر حملہ نہ کرنے کے متعلق مجھ کو کچھ مشورے دیے ہیں اور اچھی دلیلیں پیش کی ہیں ،اب میں تم لوگوں کے سامنے اس کو جواب دیتا ہوں اس کو سنو پھر وہ علاء الملک کے مخاطب ہوا اور کہا "اےعلاء الملک تم میرے مخلص اور قدیم چاکر ہو تو اپنی دانائی کی وجہ سے وزارت کے لائق ہو، میں تمھارا ولی نعمت، مربی اور بادشاہ ہو اب میری سچی اور صحیح بات سنو مجھ سے اور تم سے پہلے ایک مثل کہی گئی ہے کہ ماونٹ کا چرانا اور پیٹ جھکا کرکر چلنا ساتھ ساتھ نہیں چل سکتا، دلی کے بادشاہت اس طرح قائم نہیں رہ سکتی جس طرح کے تم نصیحت کرتے ہو، اونٹوں کے کوہان کے پیچھے چھپ کر مغلوں کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا اور جنگ سے پرہیز کرکے بادشاہت قائم نہیں رکھی جاسکتی، کس طرح سے مناسب نہیں کہ مغلوں سے لڑائی نہ مردوں کے شور کرنے سے ختم کی جائے، اگر ہم تمہاری رائے پر عمل کریں تو ہمارے زمانے کے لوگ اور آئندہ آنے والی نسلیں ہماری داڑھیوں پر ہنسے گی، اور ہماری نامردی پر طعنہ دیں گے ہمارے دشمن دو ہزار کوس چل کر آیا تاور دلی کے مینارہ کے پاس جنگ کرنا چاہیں،اور تم کہتے ہو کہ ایسے موقع پر ہم سستی اور نامردی دیکھائیں اور اونٹوں کے آگے کر کے بط اور مرغ کی طرح انڈوں پر بیٹھ جائیں اور ان دشمنوں کوعقل اور تدبیر سے دفع کریں، اگر میں اس طرح کر وں جس طرح کہ تم نے کہا ہے تو پھر میں اپنا چہرہ کس کو دکھا سکوں گا ؟کس منہ سےاپنے حرم کے اندر سے جاؤں گا، ملک کے لوگ مجھ سے کیا حساب کتاب کریں گے، پھر میری ہمت اور شجاعت کیا رہ جائے گی ،جس میں آپ نے سرکشوں اور باغیوں کو اپنا فرمانبردار بنا سکوں گا، جو کچھ ہوں میں کل سیری سے بڑھ کر کیلی کے میدان میں چلا جاؤں گا، اور اس جگہ قتلغ خواجہ اور اس کےلشکر سے جنگ کروں گا اور میرے اور اس کے درمیان لڑائی اور خون ریزی ہو گی دیکھیں خدا کس کو ظفر اور نصرت عطا کرتا ہے، اے علاءالملک شہر کی کوتوالی تم کو دی ، اپنے حرم، خزانہ اور تمام شہر کو تمہارے حوالے کیا، ہم میں سے جو مظفر ومنصور ہوں اس کو دروازے اور خزانے کی کنجی دے دینا اور اس کے فرماں بردار ہو جانا ،تم اتنی عقل و فراست کے باوجود یہ نہیں جانتےکہ عقل اور تدبیر اس وقت کام کرتی ہے جب دشمن سامنے نہیں پہنچتا، اورجب دشمناتنے لشکر کے ساتھ روبرو آ گیا ہے اس کے روبرو ہونے اور ہتھیلی پر جان رکھنے، تلوار، تبر، گرز اوردھار سے زخم کھانے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا،گھر کی کہانی بازار میں کام نہیں آتی، گھر میں چار گز کا جو صاف ستھراکپڑا کام آتا ہے، لڑائی اور خونریزی کے میدان میں جہاں خون کی ندیاں بہتی ہیں بیکار ہوتا ہے۔ تم نے مغلوں کو دفع کرنے کے لئے جو کچھ کہا اس کے متعلق میں نے سوچا، جب ہم اس لڑائی سے فارغ ہوجائیں گے اور جنگ کا حق ادا نہ کر سکے تو پھر تمہارے خیالات کو سنیں گے تم لکھنے والے مرد ہوں اور لکھنے والے مردکےفرزند ہو ،تمہارے دل میں جو آئی تم نے میرے سامنے کہہ ڈالی سلطان نے کہا کہا تم حلال کے کھانے والے ہو، تمہاری رائے میرے لئے مبارک ہوتی ہے، لیکن اس وقت ایسی حالت پیش آگئی ہے کہ عقل کو تو گوشہ میں رکھنا چاہیے، اسوقت توخون دینے خون بہانے،تلوار کو برہنہ کرنے اور دشمن سے لڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔( علاء الملک نے دست بوسی کی سلطان رخصت کر کے کرکے واپس شہر میں آیا تمام دروازے بند کر دیے صرف بدایونی دروازہ کھلا رکھا، شہر کے تمام چھوٹے بڑے لوگ حیرت میں تھے لیکن ان کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھے تھے")
یہ کہہ کر سلطان علاء الدین کیلی آکر اپنی فوج کو آراستہ کیا ،اور تمام سرداروں کو ان کی جگہوں پر متعین کر کے خود فوج کے قلب میں شیر کی طرح کھڑا ہو گیا ،ہندو راجہ بھی اس جنگ میں شریک ہو ئے ، ہندوستانی لشکرسے کوہ بھی لرز اٹھا ،اور تمام بہادروں نے دشمنوں کی راہ لی ، جس طرح شکارمیں شیر کا راستہ روک لیا جاتا ہے، ہاتھی بھی صف آرا ہو ئے ،عصامی نے جنگ کی مرقع آرائی بڑے ولولہ انگیز طریقہ پر کی ہے
۔(سلاطین دہلی کے عہد میں از صباح الدین عبد الرحمن)
 
Top