تابوتِ سکینہ

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
تابوتِ سکینہ حضرت آدم علیہ السلام کا صندوق تھا، آپ علیہ السلام کے بعد نسل در نسل چلتے چلتے حضرت یعقوب علیہ السلام تک پہنچا، پھر بنی اسرائیل کے انبیاء میں چلتا رہا، حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے بعد ان کے اور دیگر انبیاء کے تبرکات اس میں موجود تھے، بنی اسرائیل اس صندوق کو لڑائی میں آگے رکھتے اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے فتح دیتے تھے، جب بنی اسرائیل نے نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے قومِ عمالقہ (جالوت اور اس کی قوم) کو ان پر مسلط کیا، انہوں نے بنی اسرائیل اور ان کے شہروں کو تاراج کیا، انہیں علاقہ بدر بھی کیا، ان کی اولادوں کو قتل و گرفتار بھی کیا اور تابوت بھی لے گئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے جالوت اور اس کی قوم کو تابوت کی وجہ سے مختلف آزمائشوں میں گرفتار کیا، انہوں نے تابوت کو بیل گاڑی پر رکھ کر بنی اسرائیل کی بستیوں کی طرف ہنکا دیا، اس پورے عمل میں فرشتے پسِ پردہ مختلف امور انجام دیتے رہے اس وجہ سے سورہ بقرہ میں اللہ پاک نے فرمایا کہ فرشتے اسے اٹھالائیں گے، یا پھر براہِ راست فرشتے اٹھاکر لائے، اور تابوت کا لوٹنا اللہ کے نیک بندے طالوت کی بادشاہت کے من جانب اللہ ہونے کی دلیل ٹھہری۔ چناں چہ بنی اسرائیل طالوت کی قیادت میں عمالقہ سے لڑے اور حضرت داؤد علیہ السلام جو طالوت کے لشکر میں شامل تھے اور ابھی تک نبوت سے سرفراز نہیں ہوئے تھے، انہوں نے بہت بہادری سے کفار کا مقابلہ کیا اور جالوت (کافر بادشاہ) کو قتل کردیا، اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو بادشاہت، حکمت اور نبوت عطا فرمائی اور جو چاہا علم دیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے نبوت اور بادشاہت ملنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ایک عظیم الشان عبادت گاہ (مسجد) تعمیر کرانا شروع کی، اسی تعمیر کو ’’ہیکل سلیمانی‘‘ کہا جاتاہے، جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے والد کی وصیت کے مطابق نہایت اہتمام اور شان سے مکمل کروایا، یہاں تک کہ اس کی تعمیر میں اِتقان و اِستحکام کے لیے جنات سے بھی خدمت لی۔ چوں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس مسجدِ بیت المقدس کی تکمیل کی اور نمایاں وعظیم الشان تعمیرات آپ علیہ السلام نے کروائیں اس لیے اسے ہیکلِ سلیمانی کہا جاتاہے۔ معلوم ہواکہ ہیکلِ سلیمانی سے مراد وہی مسجدِ بیت المقدس ہے جس کی تعمیر کا ذکر قرآنِ مجید نے بھی کیا ہے، اور جو آج تک موجود ہے، جہاں سے رسول اللہ ﷺ کو معراج کے موقع پر آسمانوں کے سفر کے لیے لے جایا گیا۔ اس کے علاوہ مزید کوئی خاص وضع کی تعمیر مراد نہیں ہے۔
 
Top