حضرت عمرؓ ۔انصاف اور احتساب

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت عمرؓ کے بارے میں کئی واقعات مورخین نے مستند حوالوں سے نقل کئے ہیں کہ آپؓ جب اپنے آپ کو عوام کے سامنے احتساب کیلئے پیش فرماتے تو لوگ بغیر کسی جھجک کے اپنا مافی الضمیر بیان کرتے۔

ایک دفعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ تقریر کیلئے کھڑے ہوئے اور لوگوں سے دریافت کیا کہ میں جو حکم تمھیں دوں گا کیا تم اس کی اطاعت کروگے؟ تو لوگوں میں سے ایک اعرابی کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا: اے عمرؓ!ہم ہرگز تمہاری اطاعت نہیں کریں گے۔ جب وجہ دریافت کی گئی تو اس نے بتایا کہ مالِ غنیمت میں جو چادریں آئی تھیں ، سب لوگوں کو ایک چادر ملی تھی۔ آپ کے حصے میں بھی ایک ہی چادر آئی تھی لیکن لگتا ہے کہ آپ نے اپنے حق سے زائد وصول کیا ہے، کیونکہ ایک چادر سے آپ جتنے لمبے آدمی کا لباس نہیں بن سکتا تھا جبکہ آپ نے اسی چادر کا لباس پہنا ہوا ہے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے بیٹے کو کہا کہ وہ جواب دیں ۔ انھوں نے کہاکہ ایک چادر سے اباجان کا لباس نہ بن سکا تو میں نے اپنے حصے والی چادر بھی انھیں دے دی تاکہ ان کا لباس بن سکے۔ اعرابی نے یہ سن کہاکہ ہاں ! اب آپؓ جو بھی حکم دیں گے، ہم اس کی اطاعت کریں گے۔

ایک مرتبہ حضرت عمرؓ سے مصر کے گورنر حضرت عمرو بن العاصؓ نے عرض کیا کہ امیر المومنین! آپؓ کے اس طرز عمل کی وجہ سے لوگ بہت جری ہوجائیں گے اور ذمہ دارانِ حکومت کے کاموں میں رکاوٹ ڈالیں گے۔ آپؓ نے فرمایا کہ اے عمرو!میں نے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ اپنے آپ کو لوگوں کے سامنے بڑے کھلے دل کے ساتھ احتساب کیلئے پیش فرمایا کرتے تھے۔ میں اور تم کس باغ کی مولی ہیں ۔

حضرت عمرؓ حج کے موسم میں ایک عوامی عدالت لگایا کرتے تھے۔ پوری اسلامی ریاست سے آئے ہوئے حجاج کیلئے یہ موقع ہوتا تھا کہ ان کو مرکزی یا اپنے صوبے کی حکومت سے کوئی شکایت ہے تو وہ پیش کرسکیں ۔ ایک موقع پر اس عدالت میں جب حضرت عمرؓ نے خود کو پیش کیا تو کسی نے احتساب نہ کیا۔ پھر آپؓ نے اپنے ماتحت جرنیلوں اور گورنروں کے بارے میں پوچھا تو مصر کے ایک نوجوان نے کھڑے ہوکر کہا کہ حاکم مصر عمرو بن العاصؓ کے بیٹے کے خلاف میری شکایت ہے۔ دریافت کیا کہ کیا شکایت ہے تو ا س نے عرض کیا:میں نے بھی گھوڑا دوڑایا تھا اور اس نے بھی۔میرا گھوڑا جیت گیا اور اس کا گھوڑا پیچھے رہ گیا تو گورنر کے بیٹے نے مجھے چابک مارے۔ جب کیس ثابت ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حاکم مصر کے بیٹے کو قصاص کیلئے پیش ہونے کا حکم دیا۔ پھر اس شکایت کنندہ کو حکم دیا کہ جتنے چابک اس نے مارے تھے، اتنے ہی چابک وہ بھی اس کو مار لے اور اتنے ہی زور سے مارے جتنے زور سے گورنر کے بیٹے نے اسے مارے تھے۔ اگر زیادتی کرے گا تو اللہ کے ہاں جواب دہ ہوگا کیونکہ یہ تو ہی جانتا ہے کہ تیرے ساتھ کتنی زیادتی ہوئی تھی، میں تو وہاں موجود نہ تھا۔ جب یہ فیصلہ نافذ ہوگیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجمع عام کے سامنے وہ تاریخی الفاظ کہے جو سنہری حروف میں ہماری تاریخ میں لکھے ہوئے ہیں : ولدتھم امہاتھم احرار لمہ استعبدتموہم یعنی ان کی ماوں نے انھیں آزاد جنا ہے، تم نے ان کو کیوں غلام بنالیا ہے۔

(کتاب الخراج، ص66، بحوالہ الفاروق از شبلی نعمانی، ص:270-271، طبع معارف اعظم گڑھ)
 
Top