مومن کی فراست

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مؤمن کی فراست کی دو آنکھیں ہیں۔ ایک آنکھ سے تو وہ نور الٰہی سے دیکھتا ہے جس کے طفیل بعض اولیاء اللہ کرامت کی وجہ سے بعض لوگوں کے احوال کو جانتے ہیں دوسری آنکھ دلائل اور تجربہ سے جانتے ہیں۔

فراست تین قسم پر ہے: (۱) فراست ایمانیہ (۲) فراست ریاضیہ (۳)فراست خلقیہ

فراست ایمانیہ کا سبب نور الٰہی ہے جو کہ اولیاء اللہ کو حاصل ہے۔

فراست ریاضیہ جو کہ بھوکا رہنے اور تمام رات جاگنے اور خلوت (علیدگی) اور باطن کی صفائی سے حاصل ہوتی ہے۔

فراست خلقیہ جوکہ خلقت پر نظر کرکے خُلقیت پر استدلال کرتے ہیں۔ یہ فراست اطباء اور حکماء میں پائی جاتی ہے اور اس کا بھی قرب الہٰی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس فراست میں مسلمان، یہودی ونصاریٰ، ہندو وغیرہ سب شریک ہیں۔

مؤمن کے لیئے اور ولی کامل کے لئے صرف فراست ایمانیہ ہے جو کہ وصل جناب باری تعالیٰ تک پہنچانے کا واحد ذریعہ ہے۔

خدائے قدوس کا ذکر

حدیث شریف میں آیا ہے:

’’یقول اللہ تعالیٰ انا عند ظن عبدی بی وانا معہ اذا ذکرنی فان ذکرنی فی نفسہ ذکرتہ فی نفسی وا ن ذکرنی فی ملائٍ ذکرت فی ملائٍ خیر منہ وان تقرب الیّ شبراً تقربت الیہ ذراعاً وان تقرب الیّ ذراعاً تقربت الیہ باعاً وان اتانی یمشی اتیتہ ھرولۃً۔‘‘​

ترجمہ: اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوتا ہوں اور میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے۔ پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور جب وہ مجھے مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں ان کو ایسی مجلس میں یاد کرتا ہوں جو ان کی مجلس سے بہتر ہے اگر وہ میرے نزدیک ایک بالشت ہوتے ہیں تو میں ان کے قریب ایک ذراع ہوتا ہوں اور اگر وہ میرے نزدیک ایک ذراع ہوتے ہیں تو میں ایک باع ہوتا ہوں اور اگر وہ میرے پاس پیادہ پا ہوکر چلے آتے ہیں تو میں ان کے پاس دوڑتا آتا ہوں۔

اسی طرح قرآن پاک کی آیت میں ہے:

فاذکرونی اذکرکم​

ترجمہ: تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کیا کروں گا۔

دوسری حدیث شریف میں ہے:

مررت لیلۃ اُسریٰ بی برجل معلق فی نور العرش قلت من ھذا ملک قیل لا قلت نبیٌ قیل لا قلت من ھو قال ھٰذا رجل کان فی الدنیا لسانہ رطب من ذکر اللہ و قلبہ معلق بالمساجد ولم یسب بوالدیہ قط۔​

ترجمہ: رسول اللہﷺنے فرمایا کہ معراج کی رات کو میں نے ایک آدمی کو دیکھا جو خدا تعالیٰ کے عرش کے نور میں تھا۔ میں نے کہا یہ کون ہے فرشتہ ہے؟ کہا گیا کہ نہیں، میں نے کہا پھر نبی ہے؟ کہاگیا نہیں میں نے کہا پھر کون ہے؟ کہا گیا کہ یہ وہ آدمی ہے جس کی دنیا میں خدا تعالیٰ کے ذکر سے زبان تر تھی اور جس کا دل مساجد سے معلق تھا اور اس نے اپنے والدین کو دکھ نہیں دیا۔

اور حضور اکرم شفیع اعظمﷺنے فرمایا: ان لکل شیئیٍ صقالۃ وان صقالۃ القلوب ذکر اللہ

ترجمہ: ہر چیز کا صیقل (یعنی صاف کرنے والا) ہے اور دل کا صیقل خدا تعالیٰ کا ذکر ہے اولیاء اللہ اسی وجہ سے زیادہ توجہ قلبی ذکر پر دیتے ہیں تاکہ دل کی میل کچیل دور ہوکر صفائی آجائے۔
 
Top