اسلام نے معذوروں کو تحفظ دیا

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
معذوری کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے کہ جتنا خود انسان اور معذوری کی کئی ایک اقسام ہیں جن میں سے (مالی، جسمانی، علمی) بعض عارضی طور پر ہوتی ہیں جیسے(بے ہوشی وغیرہ) اور بعض ہمیشہ کے لیے انسان کو لاحق ہوتی ہیں جیسے (اندھا پن، پاگل پن وغیرہ) اسی طرح بعض پیدائشی ہوتی ہیں جیسے (لنگڑا پن، بہرہ پن وغیرہ) بعض حادثاتی طور پر انسان کو لاحق ہو جاتی ہیں جیسے(ایکسیڈینٹ یا مشین وغیرہ میں آ کرہاتھ یا بازو وغیرہ کا کٹ جانا) اسی طرح بعض اجتماعی طور پر لاحق ہو جاتی ہیں جیسے(قحط سالی، زلزلہ، سیلاب وغیرہ) اور بعض انفرادی ہوتی ہیں جیسے(فالج، لقوہ، مرگی) جب سے انسان پیدا ہوا ہے اسی دن سے پیدائشی عارضے انسان کی زندگی میں لاحق ہوتے رہے۔ اسی وجہ سے ہر دور میں معذورین کے ساتھ مختلف ادوار میں بہیمانہ سلوک کیا جاتا رہا۔ اسلام سے قبل معذورین کی حثیت جانوروں سے کم نہ سمجھی جاتی تھی اور اسلام آنے کے بعد بھی جاہلیت اور اسلامی تعلیمات سے عدم واقفیت کی بنیاد بر معذورین کو معاشرے پر بوجھ تصور کیا جانے اور ان کو حصول رزق کا موثر ترین ذریعہ سمجھا جانے لگا۔جس کے سبب گداگری کا طوق ان بیچاروں کے گلے میں ڈال دیا گیا اور در در کے دھکے ان بیچاروں کو کھانا پڑتے۔

دور جاہلیت میں ارسطو اور افلاطون وغیرہ نے معذورین کے قتل کو اس لیے واجب قرار دیا کے یہ ملکی خزانے پر بوجھ ہیں۔ ہندو (ورینو قبیلہ) معذور سے الگ ہوجاتا تھا بلکہ چھوڑ کر چلا جاتا تھا یا قتل کر دیتا تھا۔ افریقی قبیلہ (کاجان)کہتا تھا کہ بیمار سے شریر روحیں چمٹ جاتی ہیں اس لیے اس سے الگ رہنا چاہیے۔ اسٹریلوی (دیدی قبیلہ) کہتا تھا کہ مسخ چہرے والے کو قتل کر دینا چاہیے۔ اسلام نے آ کر ان کو تحفظ دیا اور ان کو ان کے حقوق دیے۔

اسلام نے مالی معذور سے حج اور زکوٰۃ وغیرہ کو ساقط کر دیا۔ جسمانی معذور سے نماز، روزہ، جہاد وغیرہ کو ساقط کر دیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی حدیث سے معلوم ہوا کہ تین قسم کے لوگوں سے نماز ساقط ہے ان میں سے مجنون بھی ہے۔ اس کے علاوہ ان کو جائیداد میں سے حصہ دیا اور نکاح وطلاق، حصول علم، کاروبار، غرض ہر ممکن حد تک معذور کی حوصلہ افضائی فرمائی اور اس کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دی۔

ایک بارنبی کریمﷺمدینہ منورہ کی گلی میں کچھ صحابہؓ کے ساتھ کسی کام سے تشریف لے جارہے تھے۔ اچانک ایک خاتون نے آپﷺکا راستہ روک لیا۔ وہ عورت پاگل تھی۔ وہ آپﷺسے گویا ہوئی: ’’رسولِ خداﷺ! مجھے تنہائی میں آپ سے کچھ کہنا ہے۔‘‘

آپﷺ نے فرمایا: ’’اے عورت! تم جس مرضی راہ پر مجھے لے چلو، میں تمھاری بات ضرور سنوں گا۔‘‘

چنانچہ وہ عورت نبی کریمﷺکو کچھ دور لے گئی اور باتیں کرتی رہی۔ صحابہ کرامؓ وہیں ایستادہ رہے۔ تھوڑی دیر بعد حضور اکرمﷺواپس تشریف لائے اور صحابہؓ کے ساتھ اپنی منزل کی سمت روانہ ہو گئے۔ یہ واقعہ صحیح مسلم میں حضرت انسؓ بن مالک سے روایت کردہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔
 
Top