یہ اس تاریخ کا نوحہ ہے جو کبھی عظیم تر تھی

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
یہ اس تاریخ کا نوحہ ہے جو کبھی عظیم تر تھی

اس میں شک نہیں کہ امت مسلمہ نشیب وفراز کے مختلف ادور سے گزرتی رہی ے دوسری قوموں کی طرح اسےبھی اچھے اور برے دنوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ،اگر کبھی اسے تلخیٔ ایام کےگھونٹ پینے پڑے ہیں تو کہیں ظفر مندی کے شیریں چشمے پر تسین کے لمحات بھی میسر آئے ۔

عروج وزول کی یہ داستان پُر شکوہ بھی ہے اور عبرت آموز بھی ۔اس میں صحر ودریا کی مسافتیں پانٹنے والے مجاہد بھی ہیں اور خورد بین وخود نگر ملوک بھی ۔ آوازۂ ستیز بلند کرنے والے شاہین نگاہ غازی اس میں شامل ہیں اور کنج فہم عافیت میں بیٹھنے والے گریز پا بھی ۔

حقیقت یہ ہےکہ جب مسلم معاشرے کے افراد نے قرآنی تعلیمات سے منہ موڑا تو ان پر ادبار کی گھٹا چھا گئی ۔ نکبت کے ان اندھیروں میں نفاق ، بے عملی اور جہالت کے عفریت پلتے بڑھتے رہے ۔تن آسان امراء سے روح وضیر کی دولت چھن گئی اور معاشرے کے عام افراد یقین کے جو ہر سے محروم ہو گئے ۔

مسلمانوں کا دور زوال تین مختلف ادوار پر مشتمل ہے ۔ان ادوار میں وحشیوں اور غیر ملکی درندوں کے زیر نگیں ہو ئے ۔اس کے نتیجہ میں ان کی مذہبی قدریں بے دردی سے پا مال ہوئیں اور ان کے تمدن کا عظیم سرمایہ لوٹ کھسوٹ سے بچ نہ سکا ۔ پہلا دور تاتاریوں کی یورش سے شروع ہوتا ہے جس میں مسلمانوں کا تہذیبی اثاثہ تقریبا خاکستر ہو کر رہ گیا۔ دوسرا دور یورپی قوموں کی حریصانہ تگ ودود کا دور ہے ۔اس میں مسلمانوں کی آزادی چھنی ، فکر وتدبر رخصت ہو ئی اور ان سے بسالت کا جوہر نا پید ہوا۔

تیسرا دور زوال واستبداد میں چنگیز وہلاکو خاں کی خوں آشامی بھی ہے اور نو آبادیاتی دور کے آقاؤں کی ستم رانی بھی ۔ آج بھی وہاں ایک اشارے پر مظلوموں کو خاک وخوں میں لوٹا دیا جاتا ہے ۔شہر اور گاؤں تاارج کئے جاتے ہیں ۔ ہر طرف آگ اور ھواں اٹھتا نظر آتا ہے ۔

یہ تصویر روس اور اس کے قہر ماں نطام کمیونزم کی ۔افغانستان سے لے کر پولینڈ تک اس کے شکنجے میں گرفتار ہیں ۔ خود روس میں اشتراکیت خون کے دریا بہا دینے کے بعد قائم ہو ئی ۔ مشرقی یورپ کےکمیونسٹ بھی درندگی اور ہلاکت کے ذریعے اشتراکیت لانے میں کا میاب ہو ئے اور اب سفاکی کا یہ ڈرامہ افغانستان میں دہرایا جارہا ہے ۔

روس ہو ،افغانستان ہوم یا مشرقی یورپ، کمیونزم نے پہلی ضرب اسلام پر لگائی۔ کمیونسٹ لیڈروں نے مسلمانوں کو سبز باغ دکھائے اور انھیں دل آویز نعرے دیے ۔ انہوں نے اجتماعی حقوق کا پرچار کیا اور معاشی مساوات پر لمبے چوڑے لیکچر دیے۔

مسلمان ان کے جھانسے میں آئے تو ان پر اشتراکیت کی غلامی کا آہنی پھندا کس دیا گیا۔روس اور افغانستان کے حالات سے عوام کافی حد تک با خبر ہیں ، لیکن مشرقی یورپی ممالک کے بارے میں ان کی واقفیت قدرے کم ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں لاکھوں کی تعداد میں مسلمان آباد ہیں ۔ ان کا تہذیبی ورثہ شاندار ماضی پر مشتمل ہے ، جس پر کوئی قوم فخر کر سکتی ہے ۔ سقوط غرناطہ کے بعد قسطنطنیہ واحد مر کز تھا جہاں سے اسلامی علوم وفنون کے دھارے پھوٹے ۔ یورپ کے علماء کے پاس صدیوںپرانی چند یو نانی کتابیں رہ گئی تھیں جنھیں وہ اپنا سرمایہ سمجھتے تھے ،ان کی سوچ دائروں سے آگے نہ بڑھ سکی ۔ ترکوں نے انہیں شعور کی دولت بخشی اور ایک نئے تمدن سے آگاہ کیا۔

یہ اس تاریخ کا نوحہ ہے جو کبھی عظیم تر تھی اور اب اپنی سر زمین میں اجنبی ہے ۔ نیقیہ اور بروصہ کے قافلہ سالار ڈاکوؤں کے ہاتھ لٹ گئے اور اب کوہسان بلقان میں مقید ہیں اور سسک رہے ہیں ۔ان کی آہیں ڈینوب کی لہروں کے ساتھ سر پٹخ رہی ہیں ۔ان کی چیخ وپکار بر فانی صحراؤں میں دم توڑ رہی ہیں ۔

کیا یہی اس قوم کا سفر تھا کہ انھیں موت دبوچ لے ؟ ہر گز نہیں ۔ وہ اس لیے تو یہاں نہیں آئے تھے کہ شیش مان اور لازار کی اولاد انہیں باجگزار بنالے ۔
دنیا نے آنکھیں پھیر لیں اور اس کا ضمیر بے جان ہو گیا ۔ مظلوم اپنی آہوں ے پردے میں چھپ گئے ۔اب ان شراروں کو کون دیکھے جو اٹھتے ہی بجھ جاتے ہیں ۔

مشرقی یورپ پر اشتراکیت کی اندھیری شب چھا ئی ہے ۔اشتراکی درندے آزاد ہیں ۔ مذہبی اقدار اور انسانی ھقوق پر حملے جاری ہیں ۔ان حالات ک باوجود غیور مسلمان بقا کی جنگ میں مصروف ہہے ۔اسے اپنے اسلاف سے محبت ہے ۔وہ ماضی کے سرمائے کو یوں رائیگاں جاتے نہیں دیکھ سکتا ۔ منقول مشرقی یوپ میں مسلمانوں کا عروج وزوال ۔ فیض احمد شہابی ،مطبوعہ۹ ۱۹۸،دہلی)




 
Top