پہلی یہودی ریاست

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
پہلی یہودی ریاست (۱)
ڈون جوزف نسی ایک یہودی سردار تھا ۔شہزادہ سلیم اور سلطان سلیمان کے ساتھ اس کے گہرے تعلقات تھے ۔۱۵۶۱؁ ء میں شاہی خاندان طبریہ TIBERIAS سمیت سات گاؤں کی اس نے علمداری لے لی ۔اس نے سینکڑوں ہسپانوی یہودی یہاں لاکر بسائے ۔ پوری آبادی کے ارد گرد فصیل بنائی گئی ۔ یہودیوں نے شہتوت کے بے شما درخت لگائے ۔ تھوڑے ہی عرصہ میں ریشم کی تجارت سے پورا علاقہ خوشحال ہو گیا۔ بعض مؤرخ اسے پہلی یہودی ریاست کہنے سے ہچکچاتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے ہ سارا دھندا اسی مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کیا گیا تھا۔
۱۶۵۶؁ء میں صفد اور طبریہ دروزیوں کے ہاتھوں فتح ہو ئے تو یہودی غزہ ، حبرون اور بیت المقدس چلے آئے ،اس کے بعد شمالی افریقہ اور یورپ سے ان کا تا نتا بندھ گیا ۔ ۲۰/ اپریل ۱۷۹۹؁ء کو نپولین نے ایسیائی اور افریقی یہودیوں کے نام ایک پیغام جاری کیا ۔اس میں کہا گیا تھا کہ مقامی یہودی اگر اسکی حمایت کریں تو وہ اس کے بدلے میں مقدس سر زمین ان کے حوالے کر دے گا .
1872؁ء تک "سفاری" اکثریت میں رہے ۔ جرمن یہودیوں اشکن زم ((ASHKENAZIM
نے فلسطین کا رخ کیا تو سفاروی یہودیوں کی تعداد ان کے مقابلے میں کم ہوگئی ۱۸۷۷؁ء تک جرمن یہودی آبادی کا ساٹھ فیصد تھے۔ تمام یہودیوں کو متعلقہ حکومتوں کی سر پرستی حاصل تھی ۔ ترک حکومت کمزور ہو ئی تو بیرونی سفارتکاروں نے اس کا پورا پورا فائدہ اٹھایا ۔ خصوصی مراعات کی آڑ میں یہاں کی دولت خوب لوٹی ۔
عیسائی اور یہودی اس میں برابر شریک تھے ۸۲ ۔۱۸۸۱؁ء میں روس ے یہودیوں نے ایک تنظیم ( HIBBATZION) کی بنیاد ڈالی ۔انہوں ے عبرانی کا احیاء کیا اور اس زبان میں کئی کتابیں کھیں۔ تنظیم کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ یہودی فلسطین میں صیہونی اقدار کی بحالی کے لیے کمر بستہ ہو جا ئیں ۔ روسی یہودیوں نے جافا کے جنوب میں دو گاؤں بھی بسائے ۔
سلطان کو خطرے کا احساس ہو چلا تھا ۔ جون ۱۸۸۲ ؁ء میں ایک حکم کےذریعے یہودیوں کی آباد کاری پا پا بندی لگا دی گئی ۔اس اقدام پر روسی سفیر نیلڈو (NEKIDOW) متعین قسطنطنیہ نے سلطاان سے زبر دست احتجاج کیا ۔ روسی اخباروں میں سلطان کے خلاف ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ۔ روسی وزیر خارجہ گیرز (GIRES) نے فلسطینی یہودیوں کو یقین دلاایا کہ اس کی حکومت انھیں تنہا نہ چھوڑے گی ۔ فروری ۱۸۸۴؁ء میں یہودیوں کی دو بڑی تنظیموں کے سر براہوں نےعثمانی وزیر خارجہ سے ملاقات کی ۔
پابندیوں کے باوجود یہودیوں کی آمد جاری رہی ۔وہ شام اور مصر کے راسے فلسطین آتے رہے ۔ غلط کار بیورو کریسی نے اس موقع پر دولت سے خوب ہاتھ رنگے ۔ ان کے کارندے یورپی بحری جہازوں پر جعلیپا سپورٹ یہودیوں کے ہاتھ بیچنے کا دھندا اعلانیہ کرتے تھے ۔(مشرقی یورپ میں مسلمانوں کا عروج وزوال ) جاری ہے۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
(2)
دانہ ودام:
مشہور صیہونی لیڈر "ہرزل" نے ۱۸۹۵ ءمیں سلطان عبد الحمید کو با الواسطہ طور پر پیش کش کی کہ یو نین بنک آف ویانہ کے توسط سے جمعیت صیہونی دو کروڑ عثمانی پونڈ اس شرط پر دینے کو تیار ہے کہ فلسطین اس کے حوالے کر دیا جائے ۔اس جسارت پر سلطان نے جواب دیا ۔" یہودی اپنی دولت اپنے پاس رکھیں ۔وہ ہماری لاشوں پر چل کر ہی فلسطین لے سکتے ہیں " اس دو ٹوک جواب پر یہودی بو کھلا اٹھے۔
ہرزل کے ذہن پر ایک دھن سوار تھی ۔وہ ۱۷/ مئی ۱۹۰۱ء کو سلطان سے ملا ۔ دو گھنٹے تک ملاقات رہی ۔ہر زل نے اپی پیش کش دہرائی ۔سلطان نے جواب دیا کہ اسے یہودی سرمائے کے بجائے یہودی ہنر مندوں کی ضرورت ہے ۔یہ ایک مایوس کن جواب تھا، ہرزل اتنا ہیٹا تھا کہ اس کے بعد چار بار سلطان سے ملا۔ ہر بار نیا دام تزویر پھیلایا ۔آخری دفعہ سلطان سے ملاقا کی اور بیت المقدس میں ایک یونیورسٹی کھولنے کی اجازت چاہی ۔سلطان نے صاف انکار کردیا ۔
عبد الحمید سے مایوس ہو نے کے بعد ہرزل نے بن الاقوامی طور پر جد وجہد کا آغاز کیا ۔وہ ۱۹۰۲ء میں بر طانوی اور ۱۹۰۳ء میں روسی حکام سے ملا ۔آسٹریا اور جرمنی کے ارباب بست وکشاد سے بھی اس کی ملاقات رہی ۔سینٹ پیٹرز برگ میں ہر زل کا خوش دلی سے استقبال نہ ہوا، وجہ یہ تھی کہ یہودیوں کے مقامی سو شلٹوں اور انتشار پسندوں سے خفیہ مراسم تھے۔ شکوہ شکایت کے با وجود روس انھیں تنہا چھوڑ نے پر راضی نہ تھا ،ہر زل ۸/ اگست ۱۹۰۳ء کو روسی وزیرداخلہ یشلاف پلیو (Vyacheslaf Plbhve) سے ملا ۔ اس نے وزیر موصوف کو مشورہ دیا کہ سوشلسٹوں سے جان چھڑانے کے لیے یہودیوں کو فلسطین جاکر آباد ہونے کی کھلی اجازت دی جائے ۔یہ چال کام کر گئی ۔۶/ستمبر ۱۹۰۳ء کوپلیو نے ہر زل کو لکھا کہ سرکار طور پر سلطان کو مطلع کر دیا گیا ہے کہ روسی حکومت یہودیوں کے فلسطینی منصوبے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کا رشتہ اس وقت مضبوط ہو سکتا ہے جب سلطان یہودیوں کی درخواست پر ہمدردانہ غور کرے۔
روس اور جرمنی کے یہودیوں میں اتحاد ہوا تو ؑعثمانی مملکت کے خلاف سازشیں او گہری ہو گئیں ۔یہودیوں نے بنک کے روپ میں ایک صیہونی تنظیم (ANGLOLEVANTINE BANKING CO,) قائم کی۔ ۱۹۰۴ سے جنگ عظیم اول کے آغاز تک کوئی چالیس ہزار نئے یہودی فلسطین آکر آباد ہو چکے تھے ۔مشرقی یورپ سےبھی ان کی خاصی تعد یہاں آئی تھی
۔(مشرقی یورپ میں مسلمانوں کا عروج وزوال ) جاری ہے۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
(3)
یہودی،فری میسن اور نوجوان ترک:
عثمانی سلطنت میں ہر طرف بے چینی کے آثار تھے ۔فوج بد دل ہو چکی تھی ۔ لوگ حکومتی گماشتوں سے تنگ تھے ۔۱۸۷۷ء سے پارلیمنٹ ( مجلس ملی) معطل تھی۔ سلطان عبد الحمید کی شخصی وجاہت کا اثر رخصت ہو چکا تھا۔
۱۹۰۶ ء میں ترکی کے چند فوجی افسروں نے دمشق میں ایک خفیہ انجمن "وطن" کی بنیاد ڈالی ۔ دوسروں کے علاوہ اس میں کیپٹن مصطفی کما ل بھی شامل تھا جس نے ایک برس پہلے جنرل اسٹاف اکیڈمی سے گرییجوشن کی تھی ۔ جلد ہی انجمن کی شاخین جافا یروشلم اور سالونیکا میں قائم ہو گئیں ۔راز داری نہایت سخت تھی ۔انجمن کے اراکین سے ریوالور پر حلف وفاداری لیا جاتا تھا ۔ فوج میں انجمن اتحاد وترقی " وجود میں آئی تو نظریاتی ہم آہنگی کی بنا پر "وطن" تحریک اس میں ضم ہو گئی ۔
یہودی اس تحریک کو خاص دلچسپی کی نظر سے دیکھنے لگے تھے۔ انہیں امید کی کرن دکھائی دی۔ انہوں نے اپنا پرانا حربہ آزمایا ۔ نیدر لینڈ کے کوئین ویلہلینا بنک ایک صیہونی جیکوبس کین نے ۱۹۰۷ء میں جر من حکام کی معرفت سلطان کو 12000,000 پونڈ یک مشت کے علاوہ 50,000 سالانہ اس شرط پر دینے کی پیش کش کہ یہودیوں کو فلسطین میں خصوصی مراعات دی جائیں ۔ جرمن سلطان کےمزاج سے با خبر تھے ۔انہیں یہ پیش کش دہرانے کی جرأت نہ ہوئی۔
سالونیکا ۱۷۳۰۰۰ کی آبادی میں 80,000 تھے وہ کافی با اثر تھے ۔
ان میں عمانوئیل قرہ صو نہ صرف عثمانی پارلیمنٹ کا ممبر تھا بلکہ نوجوان ترکوں کی تحریک کا ایک سر گرم رکن بھی تھا ۔اس کا کہنا تھا کہ انجمن اتحاد وترقی صیہونیوں کی تحریک سے معاندانہ رویہ نہیں رکھتی ۔جس چھوٹے سے گروپ نے انجمن اتحاد وترقی کی بنیاد رکھی ،ان میں یہودی بھی شامل تھے ۔اس سلسلے میں نسیم ملیاش آفندی (NISSIM MATZLIACH) ابراہیم تیمور اور نسیم روسو(NISSIM RUSSO) کا نام لیا جاسکتا ہے ۔ یہودی اس نقطۂ نظر سے کام کرہے تھے کہ پہلے نوجوان ترکوں کی تنظیم پر چھا جائیں ،پارلیمنٹ پر اپنا رسوخ جائیں اور آخر میں اقتدار پر قبضہ کر لیں۔
انجمن ااتحاد وترقی نے فری میسن کے دفتر آزادانہ استعمال کیے ۔ان کی ٹیکنیک بالکل فری میسن جیسی تھی ۔حلف برداری کے وقت آنکھوں پر پٹی باندھی جاتی ۔پُر اسراریت اتنی گمبھیر تھی کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کے بارے میں کوئی معلومات نہ رکھتا۔
سطان کے مخالف پیرس سے کئی اخبار نکال رہے تھے ۔اس ک باوجود وہ سمجھتے تھے کہ مغربی یورپ سےمحض پر پیگنڈے کے ذریعے سلطان کا ہٹنا ممکن نہیں ۔ انھیں یقین تھا کہ داخلی بغاوت ہی ایک ایسا حربہ ہے جس کے ذریعے وہ اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں
۔(مشرقی یورپ میں مسلمانوں کا عروج وزوال ) جاری ہے۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
(4)
سلطان عبدالحمید ثانی کی معزولی:
قوم پرست ترک فوجی انجمن اتحادوترقی کے زیر ہدایت ۲۳/ جولائی ۱۹۰۸ء کو سالونیکا کے فوجی کمانڈر انور بے نےانجمن کے ایماء پر انقلاب برپا کر دیا ۔اس ک سا تھ ہی آرمی کور کے دستوں نے پیش قدمی کر کے قسطنطنیہ کا محاصرہ کر لیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ شاہی محل کے محافظ وفاداریاں بدل کر انقلابیوں کے ساتھ مل گئے ۔ سلطان اب بالکل تنہا تھا ۔انقلابیوں سے جان چڑانے کے لیے اس نے فوری طور پر چند دستوری اصطلاحات کا اعلان کر دیا ۔ایک فرمان کی مدد سے پارلیمنٹ بحال کر دی گئی ۔نومبر میں عام انتخاب ہو ئے ۔نوجوان ترکوں نےر ائے دہندگام کو ڈرایا دھمکایا ۔نتیجہ کے اعلانم یں دھاندلی برتی ۔ ایسے نمائندے کامیاب ہو ئے جو انقلابیوں کے حامی تھے ۔۱۰/دسمبر ۱۹۰۸ء کو پہلا اجلاس ہوا۔
پارلیمانی اصلاحات سے مخصوص طبقے پر زد پڑی تو اس نے شورش کھڑی کردی ۔بے چینی کا اثرفوج پر بھی ہوا ۔نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۳/اپریل ۱۹۰۹ء کو قسطنطنیہ میں تعینیات البانوی دستوں نے بغاوت کردی ۔باغیوں نے پارلیمنٹ کے ایوان اورتار گھر پر قبضہ کر لیا ۔انجمن اتحاد وترقی نے اس فوج سے مدد کے لیے اپیل کی جو اس وقت مقدونیہ میں موجود تھی ۔۲۳/ اپریل کو محمود شوکت پاشا پچیس ہزار فوجی لے کر قسطنطنیہ پہنچا۔ پانچ گھنٹے کی مخٹصر لڑائی کے بعد باغیوں نے ہتھیار ڈالدئیے ۔بغاوت ک چالیس سرغنوں کو پکڑ کر سر عام پھانسی دے دی گئی ۔انجمن ااتھاد وترقی کا تسلط پھر بحال ہوگیا۔
۲۶/اپریل کو پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا ۔سب سے پہلے اس مسئلے پر بحث ہو ئی کہ سلطان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے ۔پارلیمنٹ میں انجمن کے نمائندوں کی اکثریت تھی ۔انہیں شبہ تھا کہ اس ساری گڑ بڑ کے پیچھے سلطان کا ہاتھ ہے ۔
شیخ الاسلام سے استفتاء کیا گیا تو اس نے معزولی کا فتوی صادر کر دیا۔ ۔معزولی کا پر وانہ پہنچانے کے لیے خلیفہ کے پاس جو وفد پہنچا اس میں یہودی قرہ صو آفندی بھی تھا ۔یہ وہ شخص تھا جسے ۱۹۰۰ء مین سلطان ااپنے قصر سے دھکے دے کر نکلوا چکا تھا۔اس طرح یہودیوں نے سلطاان سے نہایت ذلت آمیز طریقے سے انتقام لے کر چھوڑا ۔
عبد الحمید کو چند بیگمات کے ہمراہ سالونیکا بھیج دیا گیا ۔جہاں اس نے زندگی کے باقی دن نظر بندیمیں گزارے ۔وہ ۱۹۱۸ء میں فوت ہوا۔
ع: اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
نوٹ سلطان کو شفیق رمزی کے دلاّ میں نظر بند کیا گیا ۔رمزی ایک یہودی بنکار اور فری میسزی تھا۔ وہ اانجمن اتحاد وترقی کا بھی سر گرم رکن تھا۔
(مشرقی یورپ میں مسلمانوں کا عروج وزوال )
 
Top